ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ ربیع الثانی ١٤٤٦ھ / اکتوبر ٢٠٢٤ء شمارہ : ١٠
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭
بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +923334249302
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+
دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٧
سیرت ِ مبارکہ .........نئے میدانِ عمل کا تیسرا کام
قریش و اہلِ یَثْرِبْ کا معاہدہ ! حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١١
مقالاتِ حامدیہ ....... تحویل قبلہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٢٩
تربیت ِ اولاد قسط : ١٩ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٥
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٧ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣٩
پچاس سالہ تحفظ ِختم نبوت گولڈن جوبلی سے خطاب قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب ٤٦
جمعیة علماء اسلام پنجاب کے صوبائی انتخابات کے موقع پر مجلسِ عمومی سے پہلا خطاب حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ٥٤
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب قسط : ٣ حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی ٥٦
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا انعام اللہ صاحب ٦٢
اخبار الجامعہ ٦٤
حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
قوموں کا ایک دوسرے پر حملہ آور ہونا اور ایک دوسرے کو برباد کرڈالنا ،کسی کا فاتح تو کسی کا مفتوح قرار پانا ، صدیوں سے چلا آتا ایک سلسلہ ہے جس سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ! مگر افسوس صد افسوس ان اقوام پر جو اپنے آپ پر خود حملہ آور ہو گئیں ایسی خود کُش قوموں کو نہ تاریخ کے اوراق میں جگہ ملی نہ کفن نصیب ہوا نہ قبر ! ! مگر پھر بھی یہ اپنے کو شہید تصور کرتے کرتے بے نام و نشان ہوگئیں ! !
برصغیر کی ان خود فریب اقوام سے ایک پاکستانی قوم ہے جو بے موت مرنے کے لیے آخری سانسوں پر ہے !
اپنے پچھلے متعدد اداریوں میں چند برسوں سے اس کے''سوئِ خاتمہ ''کی کوششوں پر ہم بہت کچھ لکھ چکے ہیں مگر بے سود ! !
اپنے اندر کے دکھ سے میل کھاتی'' سماجی مواصلات''(سوشل میڈیا ) پر ایک تحریر نظر سے گزری جو دل کو لگی اور زخموں پر نمک پاشی بھی کر گئی ! ! المیہ ملاحظہ فرمائیں
''مقامی بینک کے معلومات نمبر پر فون کیا تو پہلے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا اور اس کے بعد
عندیہ دیا گیا کہ آپ کی کال ریکارڈ کی جائے گی ! پھر کہا گیا !
'' اردو کے لیے ایک دبائیے''
ہم نے تأمل نہ کیا ، فوراً ایک صاحبزادے گویا ہوئے
This is kamran , how can I help you ?
ہم نے کہا : میاں صاحبزادے ! ہم نے تو'' اردو کے لیے ایک دبائیے ''
پر عمل کیا ہے اس کے باوجود یہ انگریزی ؟ ؟
فرمانے لگے : جی بولیے ! !
ہم نے کہا : بولتے تو جانور بھی ہیں انسان تو کہتا ہے ! !
جواباً ارشاد ہوا : جی کہیے ! !
ہم نے کہا : ہم کہہ دیتے ہیں مگر آپ کو اخلاقاً کہنا چاہیے تھا ''فرمائیے '' !
اب وہ پریشان ہوگئے کہنے لگے سوری ! فرمائیے کیا کمپلین ہے ؟
ہم نے کہا : ایک تو یہ کہ ''سوری '' نہیں ''معذرت'' سننا چاہیں گے !
اس لیے کہ اردو کے لیے ایک دبایا ہے !
دوسری بات یہ کہ ''کمپلین'' نہیں ''شکایت'' !
اس لیے کہ اردو کے لیے ایک دبایا ہے !
اب تو سچ مچ پریشان ہوگئے اور کہا : ''سر'' میں سمجھ گیا آپ شکایت بتائیں !
ہم نے کہا : ''سر'' نہیں ''جناب'' ! اس لیے کہ'' ایک نمبر'' کا یہی تقاضا ہے !
شکایت سننے کے بعد کہا : جی ہم نے آپ کی شکایت ''نوٹ'' کرلی ہے
اسے'' کنسرن ڈپارٹمنٹ '' کو ''فارورڈ'' کر دیتے ہیں
ہم نے کہا : کیا ؟ ؟ تو واقعتا بوکھلا گئے ! !
ہم نے کہا : شکایت ''نوٹ'' نہیں بلکہ ''درج'' کرنی ہے اور'' متعلقہ شعبہ تک
پہنچانی ہے '' ! اس لیے کہ ہم نے اردو کے لیے ایک دبایا ہے
کہنے لگے : جناب میں ''سیٹ ''سے اٹھ کر کھڑے کھڑے بات کر رہا ہوں
آپ نے اردو کے لیے ایک نہیں ہمارا گلا دبایا ہے ! !
ہم نے کہا : ابھی کہاں دبایا ہے ، آپ ''سیٹ ''سے کیوں اٹھے آپ کو
'' نشست'' سے اٹھنا چاہیے تھا ! !
پتہ نہیں ہے آپ کو ہم نے اردو کے لیے ایک دبایا ہے
کہنے لگے : اب میں رو دوں گا ! ! ؟
ہم نے کہا : ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی گفتگو اور ستھرا لہجہ بتارہا ہے کہ آپ کا تعلق اردو گفتار گھرانے سے ہے ! مگر کیا اُفتاد پڑی ہے آپ پر کہ منہ ٹیڑھا کرکے اپنا مذاق بنوا رہے ہیں ! ! ؟ ؟
کہنے لگے : میرے باپ کی توبہ ! ! !
اب خود کُشی کے المیہ کا مزید تسلسل ملاحظہ فرمائیں ! !
'' خالد مقبول کے ماتحت ایچ ای سی '' نے قومی زبان اردو کو گریجویشن کے نصاب سے نکال دیا '' ١
( یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا کَانُوْا بِہ یَسْتَہْزِئُ وْنَ
اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ القُرُوْنِ اَنَّہُمْ اِِلَیْہِمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ ) ٢
'' کیا افسوس ہے بندوں پر کوئی رسول نہیں آیا ان کے پاس جس سے ٹھٹھا نہیں کرتے، کیا نہیں دیکھتے کتنی غارت کرچکے ہیں ہم ان سے پہلے جماعتیں کہ وہ ان کے پاس پھر کر نہیں آئیں گی '' ٣ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ
١ بحوالہ'' ایکسپریس نیوز '' پیپر ٢٣ ستمبر ٢٠٢٤ ء صفدر رضوی ٢ سُورة یٰسین ٣٠ ، ٣١
٣ یہ آیت اگرچہ کفار کے لیے ہے ،ہم اس کو بعینہ مسلمانوں پر منطبق نہیں کر رہے بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ اس جیسے
مضمون سے عبرت حاصل ہوجائے۔ محمود میاں غفرلہ
درسِ حدیث
٭٭٭
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
٭٭٭
خواہشات کے ہاتھوں انسان مغلوب تو ہے مگر مجبور نہیں ہے
(درسِ حدیث نمبر٧٠/٤١ ٢٥ شعبان المعظم ١٤٠٢ھ/١٨ جون ١٩٨٢ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں آتا ہے کہ شیطان نے یہ کہا تھا
وَعِزَّتِکَ یَارَبِّ لَا اَبْرَحُ اُغْوِیْ عِبَادَکَ مَا دَامَتْ اَرْوَاحُھُمْ فِیْ اَجْسَادِھِمْ
میں تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کے جسموں میں جان رہے گی !
انسان کمزور ہے ہی ! اور مغلوب بھی ہے مجبور بھی ہے ! مجبوریاں تو یہی ہیں کہ نہیں کھائے گا تو کیسے زندہ رہے گا ، نہیں پیئے گا تو کیسے زندہ رہے گا ؟ تو بہت سی چیزوں میں مجبور ہے انسان ! !
اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں مغلوب ہے ! اور ذرا ذرا سی چیز میں ادھر سے اُدھر ، اُدھر سے ادھر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے ! وہ مغلوب ہے اس چیز میں کہ ان ہی(کھانے پینے کی اشیائ) کی ترقی چاہتا ہے ! کھانے کا معیار ، رہنے کا معیار ، پینے کا معیار اور کیا کیا چیزیں ہیں دل میں ! ؟ لذتیں بدلنی، ذائقے بدلنے، یہ جو انسان کی خواہشات ہیں یہ الگ اس کو تنگ کرتی رہتی ہیں ! یہ بہکانے کے راستے ہیں شیطان کے ! غلط راستے پر ڈال دیتا ہے ان چیزوں سے اور یہی چیزیں ہیں جن کی ہوس غالب ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر انسان کسی حد پہ رکتا نہیں ہے اور اسی میں اس کی زندگی گزرجاتی ہے ! !
آخرت کی پیشی ،سوالات و جوابات :
اللہ تعالیٰ کے یہاں جب آدمی پیش ہوتا ہے تو اس سے جو سوالات کیے جاتے ہیں ان میں ایک سوال یہ بھی آتا ہے کہ جو تونے کمایا تھا اس میں کیا کیا ؟ ؟
تو وہ کہے گا جَمَعْتُہ وَثَمَّرْتُہ وَتَرَکْتُہ اَکْثَرَ مَاکَانَ میں نے جمع کیا مال کو(پھر) اس کو بڑھاتا رہا (پھر ) اسے بہت زیادہ بناکر چھوڑکر آیا ہوں ! !
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہاں کیا پہنچایا ، اس میں سے جو تونے بڑھایا تھا وہاں وہیں چھوڑ کر چلا آیا وارثوں کے لیے یہاں کیا پہنچایا اس میں سے ؟ ؟ یعنی تونے آخرت کے لیے اس میں کیا تیاری کی، آخرت کے لیے کیا خرچ کیا ؟ وہ جو بڑھوتری ہے تجارت میں چاہے سو فیصد ہوجائے چاہے ہزار فیصد نفع ہوجائے، مال بڑھ کر چاہے لاکھ فیصد بن جائے لیکن سب کا سب یہیں تھا یہیں رہ گیا اور دوسرے لوگوں نے لے لیا ! ! اللہ کے یہاں پوچھا جائے گا کہ یہاں تونے کیا بھیجا ؟ وہاں کون سی تیاری کی آخرت کی اس مال کے ذریعے ؟ کوئی تیاری کی ہوتی تو وہ پہنچی ہوتی یہاں پر ! !
وہ کہے گا اللہ تعالیٰ مجھے لوٹادے ، دوبارہ مجھ کو وہ زندگی دے دے تو میں جتنا مال ہے سب لے آئوں گا فَاَرْجِعْنِیْ آتِکَ بِہ کُلِّہ ١ لیکن یہ نہیں ہوسکتا جو اللہ کے یہاں فیصلے ہیں اور جو قطعی ہیں ان میں رَدّو بدل ہے ہی نہیں ! ! !
تو یہاں آتا ہے کہ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے یہ کہا(اللہ سے) کہ
( فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ) ٢
'' تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کرتا رہوں گاسوائے ان بندوں کے جنہیں تونے اپنے لیے خالص بنالیا ہے '' !
تونے ہی اپنی مہربانی سے خاص کرلیا ہو اپنے لیے ان کی بات الگ ہے ،ورنہ میں گمراہ کرتا رہوں گا !
یہ قرآنِ پاک میں بھی ہے اور یہاں حدیث میں بھی ہے !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٥١٩٥ ٢ سُورة ص : ٨٢ ، ٨٣
اللہ کی مدد :
اللہ تعالیٰ نے انسان کی مدد فرمائی شیطان کے بالمقابل کیونکہ اگر اس طرح سے انسان کو شیطان کے ہاتھ میں چھوڑ دیا جاتا تو پھر گناہ نہ ہوتا ! پھر گناہ کا نام گناہ نہ رکھا گیا ہوتا ! لیکن اس کے بالمقابل کچھ قوتیں اللہ نے دی ہیں جن کا انسان کے دل کے اندر تک تصرف ہوتا ہے ! جب آدمی کرنا چاہتا ہے کوئی برا کام تو کوئی چیز روکتی بھی ہے اس کو اور کہتی بھی ہے کہ یہ بری بات ہے یہ برا کام ہے !
حدیث شریف میں آتا ہے اندر ہی اندر انسان کے بھلائی سکھانے والی ایک قوت رکھی ہے وہ' 'فرشتہ'' ہے ! وہ اس طرح کی بات دل میں پھینکتا ہے ڈالتا ہے ! !
اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ اور بھی طاقتیں بنائی ہیں جو انسان کو بتلاتی رہتی ہیں قرآنِ پاک میں ارشاد ہے ( وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ ) ١ ہم نے اس کو دونوں طرح کی چیزیں بتلادی ہیں !
نفع نقصان دونوں سمجھادیے ! تو جب شیطان نے کہا تھا کہ جب تک یہ انسان زندہ ہے تب تک میں بہکاتا رہوں گا ! یعنی بوڑھا بھی ہوجائے لب ِدم بھی آگیا تب بھی اطمینان نہیں کرنا چاہیے (انسان کو ) ! یہ بھی اس میں سبق ہمیں مل رہا ہے کیونکہ وہ لگا ہوا ہے اس میں ! !
توبہ کرنے پر بخشش کا اعلان :
تواللہ تعالیٰ نے فرمایا فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ وَعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ اپنی عزت کی قسم اپنے جلال کی قسم وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ اور جو میرا بلند درجہ ہے اور بلند مقام ہے اس کی قسم لَا اَزَالُ اَغْفِرُلَھُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِیْ ٢ میں بھی لوگوں کو اپنے بندوں کو بخشتا ہی رہوں گا جب تک وہ مجھ سے توبہ کرتے رہیں گے اور استغفار کرتے رہیں گے ! یعنی تو اگر اس طرح سے گناہ کی طرف رغبت دلائے گا اور اس کی وجہ سے اس سے بار بار گناہ ہوگا تو میں بھی عنایت کردوں گا اتنی کہ جب بھی وہ توبہ کرلیں گے میں بخش دوں گا !
١ سُورة البلد : ١٠ ٢ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٤٤
توبہ کا دروازہ بند ہونے کا آخری وقت :
دوسری حدیث شریف میں آتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ ١ جب تک انسان
کے غَرغَرَے کی کیفیت نہ ہو اس وقت تک توبہ قبول ہوتی ہی رہے گی ! لہٰذا غَرغَرَے سے پہلے پہلے توبہ کی جاسکتی ہے اس کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے بلکہ اس وقت کی توبہ توبہ ہی نہیں رہتی ! !
اللہ پاک ہم سب کو سچی توبہ کی توفیق نصیب فرمائے اور برے انجام سے اپنی پناہ میں رکھے، آمین۔
اختتامی دعا......................
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ مارچ ١٩٩٤ ء )
قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔
(ادارہ)
١ سُننِ ترمذی کتاب الدعوات رقم الحدیث ٣٥٣٧
سیرتِ مبارکہ
نئے میدانِ عمل کا تیسرا کام
٭٭٭
قریش و اہلِ یَثْرِبْ کا معاہدہ ! یہود سے مصالحت !
سید الملت و مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ ''محمد رسول اللہ'' صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اوراق
٭٭٭
(١)
یَثْرِبْ و مضافاتِ یَثْرِبْ (مدینہ) اس عرب کا ایک علاقہ تھا جہاں نہ کوئی حکومت وسلطنت تھی نہ فوج اور پولیس ! پورا عرب آزاد وخود سرقبائل کا ایک وسیع جنگل تھا ! وہاں صرف معاہدات کا ایک نظام تھا وہی قبائل کو جوڑتاتھا اور وہی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا تھا ! دو قبیلوں میں اگر جنگ ہوگئی تو وہ ان قبیلوں تک ہی نہیں رہتی تھی بلکہ ان کے حَلِیفْ اور مُعَاہِد قبیلے میدان میں اترآتے تھے اس طرح دو قبیلوں کی لڑائی دو نظاموں (دو قبائلی گروپوں ) کی لڑائی بن جاتی تھی ! !
یَثْرِبْ کے دو قبیلے اَوسْ وخَزْرَجْ کے افراد مسلمان ہوئے تھے ان کے بھی معاہدات تھے ! یَثْرِبْ کے قریب (بَنُوْقُرَیْظَة ، بَنُوْنَضِیْر وغیرہ) یہود کے جو قبائل آباد تھے ان معاہدات میں شریک تھے ! بَنُوْقَرَیْظَة قبیلہ اَوسْ کے حلیف تھے ! !
ان معاہدات میں جس طرح دفاع کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ حملہ آور کا مقابلہ آپس کی متحدہ طاقت سے کریں گے اسی طرح یہ بھی ہوتاتھا کہ اگر حلیف قبیلہ کا کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو اس کی تلافی کی کیا صورت ہوگی ؟ پنچائتی قسم کے کچھ قاعدے اصولِ متعارفہ کے طور پر رائج تھے جو عام طور پر تسلیم کیے جاتے تھے ان کے بموجب قتل کی بعض صورتوں میں '' قِصَاصْ'' ہوتا تھا یعنی جان کے بدلے جان ! بعض صورتوں میں جان کے بدلے میں جان نہیں بلکہ دِیَتْ لازم ہوتی تھی دِیَتْ کے سو اونٹ مقرر تھے ! دِیَتْ اور بعض صورتوں میں ''خون بہا'' ١ صرف قاتل یا قاتل کے اہل خانہ سے وصول نہیں کیا جاتا تھا بلکہ قاتل کی سوسائٹی سے وصول کیاجاتا تھاجس کو'' عَاقِلَةْ ''کہتے تھے ، اس کی حدود ہوتی تھیں اس (سوسائٹی )میں قاتل کے قبیلے کے آدمی بھی ہوتے تھے حلیف قبیلوں کوبھی اس میں شریک ہوناپڑتا تھا ! اور معاہدات میں یہ طے ہوتا تھا کہ اگر دِیَتْ لازم ہو تو کس قبیلہ کو کتنی دِیَتْ میں کتنا حصہ لینا ہوگا ان شرائط کو جو قصاص، خون بہا اور دیت کے متعلق ہوا کرتی تھیں ان کو ''مَعَاقِلْ' ' کہا جاتا تھا ! !
(٢)
قریشی حضرات جو ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے ایک نیا عنصر تھے ! اگرچہ حضرتِ انصار نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا اور اس طرح مکی اور مدنی مسلمانوں کا ایک گروپ بن سکتا تھاجو ایک نئی سیاسی اور مذہبی پارٹی کی حیثیت میں رو نما ہوتا ! ! مگر رحمت ِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے یہ صورت اختیار نہیں فرمائی ! ؟
یہ گروپ ایک وزن رکھتاتھا اور اگر صرف سیاسی انقلاب مقصود ہوتاتو یہ گروپ کار آمد ہوسکتا تھا لیکن جس کا نصب العین'' دعوت اِلی اللّٰہ ''تھا وہ اس جتھہ بندی کو پسند نہیں کر سکتا تھا ! !
حضراتِ انصار یعنی قبیلہ اَوسْ اور قبیلہ خَزْرَجْ کے جو افراد مسلمان ہوئے تھے ان کے پورے قبیلے اور کنبے (بَطْن) مسلمان نہیں ہوئے تھے ! اور بہت سے وہ تھے کہ ان کے گھر کے بھی سب آدمی مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ سابق مذہب پر قائم تھے ! اس طرح کی جتھہ بندی آپس میں تصادم اور مقابلہ کی شکل پیدا کردیتی جس کا نتیجہ فَسَادْ فِی الاَرْضِ اور قَطَعِ اَرْحَامْ ہوتا جو اسلام میں بدترین جرم ہے !
جتھہ بندی اور علیحدگی کے برخلاف رحمت ِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے اتفاق واتحاد اور میل ملاپ کا راستہ اختیار کیا ! آپ نے اس علاقہ کے تمام باشندوں میں خیرسگالی اور تعاون وامداد باہمی کی روح پیدا کرنی چاہی ! ''مُوَاخَاتْ '' جس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے اس کی پہلی کڑی تھی جس سے آپ نے مہاجرین اور انصار میں نہ صرف تعاون اور خیر سگالی کا رشتہ قائم کیا بلکہ انصار اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنادیا ! !
١ صُلْحَ عَنْ قِصَاصْ
یَثْرِبْ میں ایک فرقہ مشرکین کا تھا جو قریش مکہ کا ہم مذہب تھا اور قریش مکہ اس کو آسانی سے اپنا آلۂ کار بناسکتے تھے ! !
دوسرا فرقہ یَثْرِبْ کے قرب وجوار میں یہود کا تھا ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضراتِ مہاجرین کا رابطہ ان سے بھی قائم کردینا چاہا ! !
(٣)
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد آپ نے جو کام سب سے پہلے کیے ان میں تیسرا کام یہ تھا کہ آپ نے مہاجرین اور ان تمام فرقوں میں بقاء باہم، تعاون اور خیرخواہی اور خیر اندیشی کا رشتہ قائم کرنے کے لیے ایک تحریر مرتب فرمائی اس کو عہد نامہ بھی کہہ سکتے ہیں اور ایک وفاق کا دستور اساسی بھی !
قریش مکہ کی تمام کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے جس کامیابی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم
اور حضراتِ مہاجرین مکہ سے نکل کر مدینہ تشریف لائے تھے اور یہاں ایک مرکز کی بنیاد ڈال دی تھی اس نے جس طرح قریش کو چراغ پا کردیا تھا حتی کہ انہوں نے فوراً ہی اس مرکز کو ختم کرنے کی سازش شروع کردی تھی ١ اس کا بھی تقاضا تھا کہ حضراتِ مہاجرین اور باشندگانِ یثرب ومضافاتِ یثرب کے درمیان تعاون، تحفظ اور بقاء باہم کا عہدوپیمان ہو ! اس عہدنامہ سے یہ تقاضا بھی پورا ہورہا تھا ! !
(٤)
اس عہد نامہ کا ایک فریق حضراتِ قریش میں جو ایمان واسلام سے مشرف ہوئے اور ہجرت کرکے مدینہ میں قیام پذیر ہوئے جن کو عہد نامہ میں اَلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قُرَیْشٍ سے تعبیر کیا گیا ہے، دوسرا فریق اہلِ یثرب ہیں (کسی مذہبی فرقہ کی بنا پرنہیں بلکہ باشندۂ یثرب کی حیثیت سے ) ان میں حضراتِ انصار کے علاوہ وہ بھی شامل ہیں جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اپنے کفر وشرک پر قائم تھے !
١ چنانچہ اپنے ہم مشرب یعنی مشرکین مدینہ کو خط لکھا کہ مسلمانوں کو نکال دو یا ان سے جنگ کرو ورنہ ہم مدینہ پہنچیں گے اور تمہارے جوانوں کو قتل کریں گے ،عورتوں کی آبرو خراب کریں گے ! (سُنن ابوداود باب خبر النضیر) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو عہد ِ زریں جلد اوّل (قریش کی طرف سے یثرب میں مخالف محاذ)
ان میں عبد اللّٰہ بن اُ بَیْٔ بن سَلُولْ جیسے رؤسا بھی تھے جو کھلم کھلا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور اسلام کی مخالفت کیا کرتے تھے ! ! ١
یہودِ بَنُوْنَضِیْر، بَنُوْقُرَیْظَة ، بَنُوْقَیْنُقَاعْ وغیرہ اہلِ یثرب نہیں ہیں ! یہ قبائلِ یثرب سے باہر مضافات ِ یثرب میں آباد تھے ! اہلِ یثرب ( اَوسْ اور خَزْرَجْ) سے ان کے معاہدات تھے ان معاہدات کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے نظر انداز نہیں فرمایا بلکہ ان کو مستحکم اور مضبوط کیا ہے ! چنانچہ انہیں معاہدات کے واسطہ سے ان کو اس عہد نامہ میں شامل فرمایا ہے ! !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کوئی فریق نہیں ہیں آپ ایک'' سرپرست ''ہیں اور اس معاہدہ کے ''بانی'' کی حیثیت سے آپ کو مرکزی شخصیت تسلیم کیا گیا ہے اور یہ طے کیا گیا ہے کہ باہمی نزاعات میں آپ کی ذاتِ پاک مرجع ہوگی اور آپ کا فیصلہ آخری ہوگا ! ٢
آپ کی یہ مرکزی حیثیت کسی مادّی طاقت کی بنیاد پر نہیں ہے ! انصار ومہاجرین کی مٹھی بھر جماعت جو آپ کے ساتھ تھی یہ طاقت نہیں رکھتی تھی کہ مشرکین یثرب اور قبائل یہود کو اس پر مجبور کردے کہ وہ آپ کو مرکز اور مرجع تسلیم کریں ! یہ آپ کی پرتقدس شخصیت کا اعجاز تھا کہ مخالفین کے قلوب بھی اس اعتراف پر مجبور ہوگئے کہ آپ سے صرف سچائی، انصاف اور ہمدردی وخیرخواہی کی توقع کی جاسکتی ہے آپ جیسا شخص کاذب وظالم نہیں ہوسکتا آپ کی اسی مقبولیت نے جو چند روز میں حاصل ہوگئی تھی آپ کو مرجع اور مرکز بنایا ! اور آپ کی اسی مقبولیت نے ان کا بھی وزن بڑھادیا جو آپ کے جا ں نثار تھے ! پھر اس معاہدہ کے ایک ایک لفظ پر نظر ڈالیے کوئی بات بھی ایسی نہیں جس کا انکار کیا جاسکے، سچائی تقویٰ اور نیک کردار کی تاکید بار بار کی گئی ہے جس سے انکار کوئی بھی نہیں کر سکتاتھا ! سرپر ستانہ حیثیت کے علاوہ (جو نزاع کے وقت مرجع بنے گی) اور کوئی اختیار آپ نے اپنے لیے منظور نہیں کرایا ! !
١ ملاحظہ ہو بخاری شریف ص ٦٥٦ و ص ٩١٦ و ص ٩٢٤ وغیرہ حدیث اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جس میں تذکرہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک مجمع کو خطاب فرمانا چاہا تو عبداللّٰہ بن اُبی بن سَلُول نے توہین آمیز انداز سے مخالفت کی
٢ جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آیا وہ تو سب کا تھا وہ کسی ایک کا کیسے ہوسکتا تھا ؟ ؟
پہلی عالمی دستاویز
٭٭٭
دنیا کی تاریخ نے اس عہدنامہ کو یہ اہمیت دی ہے کہ اس کو '' اَقْدَمُ دَسْتُوْرٍ مُسَجَّل فِی الْعَالَمِ ''
(دنیا میں بنیادی حقوق کی سب سے پہلی باقاعدہ دستاویز) بھی کہا گیا ! لہٰذا ہم اس کو بجنسہ نقل کرتے ہیں اردو داں حضرات کی آسانی کے لیے ہر ایک فقرہ کے سامنے اس کا ترجمہ کردیا گیا ہے ، فقروں کے شروع میں نمبر عہدنامہ میں نہیں ہیں یہ مترجم کا اضافہ ہے تاکہ منشاء اور مفہوم پوری طرح واضح ہوجائے ! اس عہد نامہ کی حیثیت ابن ہشام نے ان الفاظ میں بیان کی ہے :
قَالَ اِبْنُ اِسْحَاقَ وَ کَتَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم کِتَابًا بَیْنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالاَنْصَارِ وَادَع فِیْہِ یَھُوْدَ وَعَاھَدَھُمْ وَاَقَرَّھُمْ عَلٰی دِیْنِھِمْ وَ اَمْوَالِھِمْ وَ شَرَطَ لَھُمْ وَاشْتَرَطَ عَلَیْہِمْ ۔
فن مغازی کے امام علامہ ابن اسحاق نے بیان فرمایا :
''رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک کتاب (تحریر) لکھی، مہاجرین اور انصار کے درمیان اس تحریر میں یہود سے بھی مصالحت کی صورت اختیار کی، ان سے معاہدہ کیا اور ان کو اپنے دین پر قائم رکھا ، اور جو جائیدادیں ان کی تھیں ان پر قائم رکھا ، کچھ شرطیں ان پر لگائیں اور کچھ شرطیں ان کے لیے تسلیم کیں '' ! !
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
(١) ھٰذَا کِتَاب مِّنْ مُّحَمَّدِنِ النَّبِیِّ وَ رَسُوْلِ اللّٰہِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قُرَیْشٍ وَ اَھْلِ یَثْرِبَ وَمَنْ تَبِعَھُمْ فَلَحِقَ بِھِمْ وَجَاھَدَ مَعَھُمْ
''یہ تحریر ہے اللہ کے نبی محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم )کی طرف سے جو اللہ کے رسول ہیں قریش کے مومنین ومسلمین اور اہلِ یثرب کے درمیان اور جو ان کے تابع ہیں اور ان سے الحاق کیے ہوئے ہیں اور کوشش وجدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں '' ١
١ نحوی قاعدہ کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جو اہلِ یثرب کے تابع اور ان کے ساتھ ہیں ! (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
(٢) اَنَّھُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً دُوْنَ النَّاسِ ۔
'' یہ کہ یہ سب (اپنے ماسوا) تمام انسانوں کے مقابلہ میں ایک امت ہوں گے'' ١
(٣) اَلْمُھَاجِرُوْنَ مِنْ قُرَیْشٍ عَلٰی رَبِعَتِھِمْ یَتَعَاقَلُوْنَ بَیْنَھُمْ وَھُمْ یَفْدُوْنَ عَانِیَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَالْقِسْطِ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ ٢
''قریش کے وہ افراد جو ہجرت کرکے آئے ہیں وہ اپنے حال پر بدستور رہیں گے (ان کی آزادی اور ان کے حقوق بدستور ہیں گے) قصاص وخون بہا اور دیت کے متعلق جو ان کا دستور ہے اور جو ان کے معاہدات ہیں وہ بدستور رہیں گے، ان کا کوئی شخص قید ہوگا تو اس کا فدیہ وہ خود ادا کریں گے (کوئی حلیف اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا) یہ تمام باتیں اس طرح ہوں گی کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی عام دستور کے مطابق بھلائی اور انصاف کا معاملہ کیا جائے گا''
( بقیہ حاشیہ ص ١٥ )
٭٭٭
اسی عہدنامہ کے دوسرے حصہ میں یہود کا تذکرہ ہے اس میں یَہُوْدُ بَنِی النَّجَار، یَہُوْدُ بَنِیْ الْحَارِث وغیرہ کے الفاظ ہیں جن سے اسی کی تائید ہوتی ہے یعنی بَنِی اَلنَّجَار کے ساتھ جو یہود ہیں انہیں یَہُوْدُ بَنِی اَلنَّجَار کہا گیا ہے باقی دوسری صورت کہ یہ معنی لیے جائیں کہ جویہود مسلمانوں کے تابع ہیں وہ نحوی لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے اور عہد نامہ کے سیاق اور پرداخت (موقع و محل)کے بھی مخالف ہے ! علاوہ ازیں جو یہود مسلمانوں کے ساتھ ہوں ان کو ایک علیحدہ فقرہ (١١) میں بیان کیا گیا ہے۔
اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جہاد میں ان کے ساتھ رہے ہیں (مگر اب تک کوئی جہاد نہیں ہوا تھا اور جو لڑائیاں زمانہ ٔ جاہلیت میں ہوئی تھیں وہ جہاد نہیں تھیں خصوصاً آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی تحریر مبارک میں تو ان کے لیے جہاد کا لفظ آنا بہت ہی مستبعد اور خلافِ عقل ہے واللّٰہ اعلم )
١ گروہ، قوم، جماعت یعنی اگر مذہبی آزادی حاصل رہے تو مسلمان دوسری قوم یا گروہ کے ساتھ مل کر اُمَّة وَاحِدَة ہوسکتے ہیں !
٢ رَبِعَتِھِمْ : کَعِبَةٍ اَی حَالَة حَسَنَة اَوْ اَمْرُھُم الَّذِیْ کَانُوْا عَلَیْہِ ۔ ( قاموس )
(٤) وَبَنُوْ عَوْفٍ عَلٰی رَبِعَتِھِمْ یَتَعَاقَلُوْنَ مَعَاقِلَھُمُ الاُوْلٰی وَکُلُّ طَائِفَةٍ تَفْدِیْ عَانِیَھَا بِالْمَعْرُوْفِ وَ الْقِسْطِ بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔
'' بَنُوْعَوْف کی آزادی اور ان کے حقوق بدستور رہیں گے قصاص ، خون بہا اور دیت کے متعلق جو ان کا دستور ہے اور جو ان کے معاہدات ہیں وہ بدستور رہیں گے ان کا کوئی شخص قید ہوگا تو اس کا فدیہ وہ خود ادا کریں گے ، یہ تمام باتیں اس طرح ہوں گی کہ مسلمانوں کے ساتھ عام دستور کے مطابق بھلائی اور انصاف کا معاملہ کیا جائے گا''
پھر اسی طرح قبائل بَنُو الْحَارِثْ ، بَنُوْ سَاعِدَة ، بَنُوْجُشَم ، بَنُوالنَّجَّار، بَنُوْعَمْرِوبْنِ عَوْف ، بَنُوْ نَبِیْتِ، بَنُوالاَوْسْ کے نام لیے گئے ہیں اور ہر ایک قبیلہ کے نام کے ساتھ یہ صراحت کردی گئی ہے جو مہاجرین اور بَنُوْعَوْف کے لیے کی گئی ہے کہ ان کی آزادی اور ان کے حقوق بدستور رہیں گے ، قصاص، خون بہا اور دیت کے متعلق جو ان کا دستور ہے اور جو ان کے معاہدات ہیں وہ بدستور رہیں گے، ان کا کوئی شخص قید ہوجائے گا تو اس کا فدیہ وہ خود ادا کریں گے ، یہ تمام باتیں اس طرح ہوں گی کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی عام دستور کے مطابق بھلائی اور انصاف کا معاملہ کیا جائے گا ! !
(٥) اَنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ لَا یَتْرُکُوْنَ مُفَرَّجًا ١ اَنْ یَّعْطُوْہُ بِالْمَعْرُوْفِ فِیْ فِدَائٍ اَوْ عَقْلٍ
''یہ کہ مسلمان کسی ایسے شخص کو جو قرض میں دبا ہوا کثیر العیال ہو اس بات سے نہیں چھوڑیں گے (محروم نہیں کریں گے) کہ اس کو اچھی طرح عطیہ دیں فدیہ یا دیت کے سلسلہ میں '' ٢
(٦) وَاَنْ لَّا یُحَالِفَ مُؤْمِن مَوْلٰی مُؤْمِنٍ دُوْنَہ
١ اَلْمُفَرَّجُ : اَلْمُثَقَّلُ مِنَ الدَّیْنِ الْکَثِیْرِ وَ الْعَیَالِ ( سیرت ابن ہشام ج ١ ص ٣٠٢ )
٢ یعنی اگر کوئی مقروض اور کثیر العیال مسلمان ہو اور اس پر کسی سلسلہ میں فدیہ یا دیت لازم ہو جائے تو مسلمانوں کو حق ہوگا کہ وہ اچھی طرح اس کی امداد کریں اور اس کے ساتھ وہی معاملہ کریں جو عام مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں مسلمانوں کو اس امداد کا حق ہوگا اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا موقع نہیں ہوگا ( واللّٰہ اعلم )
''اور یہ کہ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ کسی مسلمان کو نظر انداز کر کے اس کے حلیف سے معاہدہ کر لے (جو مسلمان پہلے سے حلیف ہے اس کو بھی اس معاہدہ اور عہدوپیمان میں شریک رکھنا ہوگا)
(٧) وَاَنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ الْمُتَّقِیْنَ اَیْدِیَھُمْ عَلٰی کُلِّ مَنْ بَغٰی مِنْھُمْ اَوِ ابْتَغٰی دَسِیْعَةَ ظُلْمٍ ١ اَوْ اِثْمًا اَوْ عُدْوَانًا اَوْ فَسَادًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَنَّ اَیْدِیَھُمْ عَلَیْہِ جَمِیْعًا وَلَوْکَانَ وَلَدَ اَحَدِھِمْ ۔
''اوریہ کہ اہل تقویٰ مومنین سب کی طاقت متحد رہے گی اس شخص کے مقابلہ میں جو ان سے بغاوت کرے (ان پر ظلم وزیادتی کرے) یا ظالمانہ طریقہ پر ان سے وصول کرنا چاہے، یا مسلمانوں کے آپس میں گناہ، ظلم یا فساد پھیلانا چاہے ایسے شخص کے مقابلہ میں ان کی طاقت متحد رہے گی خواہ (وہ ظالم) کسی کا اپنا لڑکا ہی ہو''
(٨) وَلَا یَقْتُلُ مُوْمِن مُوْمِنًا فِیْ کَافِرٍ وَلاَ یَنْصُرُ کَافِرًا عَلٰی مُوْمِنٍ ۔
'' یہ کہ کوئی مومن کسی مومن کو کسی کافر کی حمایت میں قتل نہیں کرے گا ٢ اور نہ کسی کافر کی کسی مومن کے مقابلہ میں مدد کی جائے گی''
١ اَیْ اِبْتَغٰی مِنْھُمْ اَنْ یَّدْفَعُوْا اِلَیْہِ عَلٰی وَجْہِ ظُلْمِہِمْ اَیْ کَوْنُھُمْ مَظْلُومِیْنَ ( مجمع البحار )
٢ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مکہ کے مشہور رئیس دشمن اسلام اُمیہ بن خلف سے کاروباری سلسلہ میں معاہدہ کیے ہوئے تھے غزوۂ بدر میں حضراتِ انصار نے اُمیہ بن خلف کا تعاقب کیا حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اس کو بچانا چاہا اس میں خود ان کے بھی تلوارلگ گئی اور زخمی ہو گئے مگر مجاہدین انصار نے امیہ کو قتل کر ہی دیا (بخاری ص ٣٠٨)
اب اگر اُمیہ کے حامی ان انصار سے قتل ِاُمیہ کا بدلہ لینا چاہتے( جیسا کہ قاعدہ تھا بلکہ ضروری سمجھا جاتا تھا) اور اس سلسلہ میں معاہدہ کی بنا پر یا کسی اور تعلق کی بنا پر حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مدد چاہتے تو معاہدہ کی اس دفعہ کے بموجب حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے لیے جائز نہ تھا کہ وہ حامیان اُمیہ بن خلف کی امداد کرتے !
اس دفعہ کے معنی یہ بھی لیے گئے ہیں کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو کسی کافر کے مقابلہ میں قتل کرنے کا مجاز نہ ہوگا
(باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
(٩) وَاَنَّ ذِمَّةَ اللّٰہِ وَاحِدَة یُجِیْرُ عَلَیْھِمْ اَدْنَاھُمْ
''یہ کہ اللہ کی ذمہ داری (پناہ) ایک ہے (یعنی اللہ کے نام پر جو ذمہ داری لی جائے گی اس کا احترام تمام مسلمانوں پر لازم ہوگا) ،پناہ دے سکتا ہے مسلمانوں کی ذمہ داری پر سب سے معمولی درجہ کا مسلمان بھی'' ١
(١٠) وَاَنَّ الْمُوْمِنِیْنَ بَعْضُھُمْ مَوَالِیَ بَعْضٍ دُوْنَ النَّاسِ
'' اور یہ کہ ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا ولی ہوگا (معاہدہ صلح وجنگ میں شریک ہوگا) یہ ولایت غیر مسلم کو حاصل نہیں ہوگی''
(١١) وَاَنَّہُ مَنْ تَبِعَنَا مِنْ یَھُوْدٍ فَاِنَّ لَہُ النَّصْرَ وَ الاُسْوَةُ غَیْرَ مَظْلُوْمِیْنَ
وَلاَ مُتَنَاصِرٍ عَلَیْھِمْ ۔
''اور یہ کہ جو یہودی ہمارے ساتھ ہوں گے ان کی مدد کی جائے گی ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے گی وہ مظلوم نہیں ہوں گے ، نہ ان کے ساتھ انتقامی کارروائی کی جائے گی'' ٢
( بقیہ حاشیہ ص ١٨ )
٭٭٭
مگر اس مفہوم کے لیے لفظ '' بِکَافِرٍ'' ہونا چاہیے تھا یہاں '' فِیْ کَافِرٍ'' ہے '' فِیْ کَافِرٍ'' کی صورت میں معنی وہی ہوسکتے ہیں جو ترجمہ میں لکھے گئے
علاوہ ازیں میدان جنگ یا دارالحرب میں تو بے شک یہی ہے مگر دارالاسلام میں یہ حکم نہیں ہے وہاں اگر مسلمان کسی ذمی کو قتل کر دے تو امام اعظم رحمة اللہ علیہ کا مسئلہ یہی ہے کہ مسلمان کو ذمی کافر کے قصاص میں قتل کیا جائے گا !
واللّٰہ اعلم بالصواب
١ یعنی اگر معمولی درجہ کا مسلمان جو ذمہ دار حیثیت نہیں رکھتا نہ افسر ہے نہ عہدیدار عام مسلمانوں میں سے ایک ہے وہ بھی کسی غیر مسلم کو پناہ دے دے یا اس سے کوئی معاہدہ کر لے تو تمام مسلمانوں پر اس کی پابندی ضروری ہوگی
٢ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کے برخلاف ان کے مخالفین کی مدد نہیں کی جائے گی !
(١٢) وَاَنَّ سِلْمَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاحِدَة لَا یُسَالَمُ مُؤْمِن دُوْنَ مُؤْمِنٍ فِیْ قِتَالٍ
فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلَّا عَلٰی سَوَائٍ وَعَدْلٍ بَیْنَھُمْ ۔
''اور یہ کہ مسلمانوں کی صلح ایک ہے کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے بغیر
قِتَالْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (راہ خدا میں جنگ) کے سلسلہ میں صلح نہیں کرسکتا مگر اس صورت میں کہ مساوات ہو اور آپس میں پوری طرح انصاف ہو ''
(جب کسی معمولی مسلمان کے عہد وپیمان کو بھی یہ اہمیت ہے کہ وہ سب مسلمانوں کا عہد وپیمان مانا جاتا ہے تو مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ صلح یا عہد وپیمان ایسی صورت سے کرے جس میں حقوق کی مساوات اور سراسر عدل وانصاف ہو، اگر اس میں کوتاہی کی ہے تو صرف اپنے حق میں نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے حق میں کوتا ہی ہے ) ١ ( واللّٰہ اعلم )
(١٣) وَاَنَّ کُلَّ غَازِیَةٍ غَزَتْ مَعَنَا یُعَقَّبُ بَعْضُھَا بَعْضًا ۔ ٢
''اور یہ کہ مجاہدین (غازیوں ) کی جو جماعت ہمارے ساتھ (ہمارے نظام کے ماتحت) غزوہ کرے گی اس کا غزوہ نمبروار ہوگا !
ایک ہی جماعت (فوج) مسلسل نہیں جائے گی بلکہ اگر ایک مرتبہ جاچکی ہے تو اب دوسری جماعت جائے گی اس کے بعد اپنے نمبر پر یہ جا سکے گی'' ! !
(١٤) وَاَنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَبِیئُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا بَمَا نَالَ دِمَائَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
''اور یہ کہ مسلمان ایک دوسرے کے برابر ہوگا اس امتحان کی بناپر جو پیش آیا ہوگا ان کے خونوں کو اللہ کی راہ میں !
١ اس کے باوجود ا فسر اعلیٰ کو مسترد کرنے کا حق نہیں ہے وہ مسترد اُسی وقت کر سکتا ہے جب ایسا عہدوپیمان ہو جس میں سراسر معصیت ہے، کسی حرام کو جائز یا حلال کو حرام قرار دیا گیا ہو تفصیلات کتب فقہ میں ہیں
٢ اَیْ یَکُوْنُ الْغَزْوَةُ بَیْنَھُمْ نَوْبًا فَاِذَا خَرَجَتْ طَائِفَة ثُمَّ عَادَتْ لَمْ تُکَلَّفْ اَنْ تُعِیْدَ ثَانِیَةً حَتّٰی تُعَقِّبَھَا اُخْرٰی غَیْرُھَا
( مجمع البحار تحت کلمة عقب )
یعنی جانی قربانی معیار ہے فرقِ مراتب اسی معیار پر ہوگا جن کی قربانیاں مساوی ہیں ان کا درجہ بھی مساوی ہوگا ! اس کا مفادیہ ہے کہ قبائل میں جو فرق مراتب پہلے تھا اب وہ قابل تسلیم نہیں ہوگا جب تک قربانیاں بھی اس درجہ کی نہ ہوں '' ! ! ١
(١٥) وَاَنَّ الْمُوْمِنِیْنَ الْمُتَّقِیْنَ عَلٰی اَحْسَنِ ھُدًی وَ اَقْوَمِہ ۔
'' اور یہ مومن متقی بہت بہتر طور و طریق اور نہایت مضبوط اصول پر قائم رہیں گے '' (اہل ایمان اور اہل تقویٰ کا فرض ہوگا کہ ان کے اطوار بہتر اور ان کے اصول واخلاق مضبوط ہوں )
(١٦) وَاَنَّہُ لَا یُجِیْرُ مُشْرِک مَالاً لِقُرَیْشٍ وَلَا نَفْسًا وَلَا یَحُوْلُ دُوْنَہُ عَلٰی مُؤْمِنٍ ۔
''اور یہ کہ کوئی مشرک قریش کے کسی مال کی ذمہ داری نہیں لے گا ،نہ کسی قریش کی جان کی ضمانت کرے گا (پناہ دے گا)، نہ کسی قریشی کی حمایت میں کسی مسلمان کے آڑے آئے گا'' ! !
(١٧) وَاَنَّہُ مَنِ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلًا عَنْ بَیِّنَةٍ فَاِنَّہُ قَوَد بِہِ اِلاَّ اَنْ یَّرْضٰی وَلِیُّ الْمَقْتُوْلِ بِالْعَقْلِ وَاَنَّ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَیْہِ کَافَّةً وَلَا یَحِلُّ لَھُمْ اِلاَّ قِیَام عَلَیْہِ
'' جو شخص کسی بے قصور مسلمان کو قتل کردے گا جس کا بَیِّنَة (باقاعدہ شہادت) موجود ہو تو وہ اس کے قصاص میں ماخوذ ہوگا (جان کے بدلہ جان دینا ہوگی)
١ چنانچہ پہلے قبائل بَنِیْ تَمِیْم ، بَنِیْ اَسَدْ ، بَنِیْ عَامِرْ افضل مانے جاتے تھے اور ان کے مقابلہ میں قبائل جُھَیْنَة ، مُزَیْنَة ، اَسْلَمْ اور غِفَارْ کا درجہ کم تھا مگر چونکہ یہ قبائل پہلے ہی اسلام سے مشرف ہوئے
اور حضراتِ انصار ومہاجرین کے ساتھ خدمات انجام دیں تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کی فضیلت بیان فرمائی ارشاد ہوا قُرَیْش وَ الاَنْصَارُ وَجُھَیْنَةُ وَ مُزَیْنَةُ و اَسْلَمُ وغِفَار وَ اَشْجَعُ میرے مددگار ہیں اور اللہ اور رسول ان کے مددگار ہیں اللہ اور رسول کے علاوہ ان قبائل کا اور کوئی مددگار نہیں ہے ! !
(صحیح البخاری باب ذکر اسلم وغفار ومزینہ وجہینہ واشجع ص ٤٩٨)
البتہ اگر مقتول کے وارث خون بہا پر راضی ہوجائیں تو خون بہا دینا ہوگا اور تمام مسلمانوں کو جماعتی حیثیت میں اس اصول کو نافذ کرنا ہوگا جب تک اس پر عمل نہ ہوجائے کسی اور کام میں مشغول ہوجانا مسلمانوں کے لیے درست نہ ہوگا''
(١٨) وَاَنَّہُ لَا یَحِلُّ لِمُؤْمِنٍ اَقَرَّ بِمَا فِیْ ھٰذِہِ الصَّحِیْفَةِ وَ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ اَنْ یَّنْصُرَ مُحْدِثًا ١ اَوْ یُؤْوِیْہِ ٢ وَاَنَّہُ مَنْ نَصَرَہُ اَوْ اٰوَاہُ فَاِنَّ عَلَیْہِ لَعْنَةَ اللّٰہِ وَ غَضَبَہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یُؤْخَذُ مِنْہُ صَرْف وَلَا عَدْل ۔
'' اور یہ کہ جائز نہیں ہوگا کسی صاحب ایمان کے لیے جو اس دستاویز کے مضمون کا اقرار کرے اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے یہ کہ کسی فتنہ پرداز کی مدد کرے یا کسی فتنہ اٹھانے والے کو پناہ دے (اپنے یہاں ٹھہرائے) اور جو اس کی مدد کرے گا اور اس کو پناہ دے گا (ٹھہرنے کا موقع دے گا) اس پر اللہ کی لعنت، خدا کا غضب، قیامت کے روز اس کی توبہ قبول ہو نہ فدیہ (کفارہ ) ٣
(١٩) وَاِنَّکُمْ مَھْمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْیئٍ فَاِنَّ مَرَدَّہ اِلَی اللّٰہِ وَاِلٰی مُحَمَّدٍ ۔
''اور یہ کہ جب بھی اس عہدنامہ کی کسی بات میں اختلاف کرو تو مَرْجَعْ اللہ ہوگا اور محمد صلی اللہ عليہ وسلم '' ( اس کافیصلہ ذات ِ اقدس محمد صلی اللہ عليہ وسلم کے حوالہ ہوگا جو اس عہدنامہ کے بانی اور معاہدہ کرنے والوں کے سرپرست ہیں اور آپ سے ہی فیصلہ کی اپیل ہوگی)
١ مُحْدَِثًا دال پر زیر جنابت کرنے والا (مجمع البحار) یہ کوئی فتنہ اٹھانے والا، سازش کرنے والا بھی ہوسکتا ہے اور بدعتی یعنی کسی بدعت کا ایجاد کرنے والا بھی ہوسکتا ہے !
اور اگر دال پر زبر ہو تو مراد فتنہ یا بدعت ہوگی اور یہ مطلب ہوگا کہ کسی صاحب ایمان کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ کسی فتنہ کو پسند کرے اور اس کو بڑھنے اور پھیلنے کا موقع دے ! !
٢ و اِیْوَائُ ہُ : اَلرِّضٰی عَنْہُ وَ صَبْرُہُ عَلَیْہِ وَ اِقْرَارُ فَاعِلِہ ( مجمع البحار )
٣ یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ نہ اس کی نفل عبادت قبول ہو نہ فرض ( مجمع البحار )
(٢٠) وَاِنَّ الْیَہُوْدَ یُنْفِقُوْنَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ مَا دَامُوْا مُحَارِبِیْنَ ۔
'' جب تک کسی جنگ کا سلسلہ رہے تو مصارف جنگ مسلمانوں کے ساتھ یہود کو بھی برداشت کرنے ہوں گے''
(٢١) وَاَنَّ یَھُوْدَ بَنِیْ عَوْفٍ اُمَّة مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، لِلْیَھُوْدِ دِیْنُھُمْ وَ لِلْمُسْلِمِیْنَ دِیْنُھُمْ مَوَالِیْھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ اِلَّا مَنْ ظَلَمَ اَوْ اَثِمَ فَاِنَّہُ لَا یُوْتَغُ اِلَّا نَفْسَہ وَ اَھْلَ بَیْتِہ
''اور یہ کہ بنی عوف کے یہودی اور مسلمان ایک امت ہوں گے یہود کے لیے ان کا دین ہوگا اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین (اپنے اپنے مذہبوں میں آزاد رہتے ہوئے تیسرے کے مقابلہ میں ایک متحدہ طاقت ہوں گے) اور جو ان کے موالی ہیں (آزاد کردہ غلام یا ان کے حلیف) اور وہ خود ، ان سب کے لیے یہی ہے (کہ وہ اپنے دین پر) مگر وہ شخص جو ظلم کرے یا کوئی جرم کرے
کیونکہ ایسا شخص خود اپنے آپ کو اور اپنے اہل بیت (متعلقین) ہی کو برباد کرے گا''
(اس بربادی کی ذمہ داری خود اس پر ہوگی)
(٢٢) وَاَنَّ لِیَھُوْدِ بَنِی النَّجَّارِ مِثْلُ مَا لِیَھُوْدِ بَنِیْ عَوْفٍ
''یَہُوْدِ بَنِیْ نَجَّارْ کے لیے بھی وہی شرطیں اور وہی حقوق ہیں جو یَہُوْدِ بَنِی عَوْفْ کے بیان کیے گئے''
(٢٣) اس کے بعد یَہُوْدِ بَنِی الْحَارِثْ ، یَہُوْدِ بَنِیْ سَاعِدَةْ ، یَہُوْدِ بَنِیْ جُشَمْ ، یَہُوْدِ بَنِی الاَوْسْ ، یَہُوْدِ بَنِیْ ثَعْلَبَة کا نام لیا گیا ہے اور ہر ایک کے متعلق یہ الفاظ دہرائے گئے ہیں مِثْلُ مَا لِیَھُوْدِ بَنِیْ عَوْفٍ ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو یَہُوْدِ بَنِی عَوْفْ کے حقوق ہیں
آخر میں یہ ہے اِلَّا مَنْ ظَلَمَ اَوْ اَثِمَ فَاِنَّہُ لَا یُوْتَغُ اِلَّا نَفْسُہُ وَ اَھْلُ بَیْتِہ
''مگر وہ شخص جوظلم کرے یا کوئی جرم کرے کیونکہ ایسا شخص خود اپنے آپ کو اور اپنے اہل بیت (متعلقین) کوبرباد کردے گا، اس بربادی کی ذمہ داری خود اس پر ہوگی''
(٢٤) پھر یہ چند تشریحی اور توضیحی دفعات ہیں :
(الف) وَاَنَّ جُفْنَةَ بَطْن مِنْ ثَعْلَبَةَ کَاَنْفُسِہِمْ
یہ کہ جُفْنَة ثَعْلَبَة کا بطن (ضمنی قبیلہ) ہے
(ب ) وَاَنَّ لِبَنِیْ الشَّطِیْبَةِ مِثْلُ مَالِیَھُوْدِ بَنِیْ عَوْفٍ وَاَنَّ الْبِرَّ دُوْنَ الْاِثْمِ ۔
'' یہ کہ بَنِیْ شَطِیْبَة کے وہی حقوق ہیں جو یَہُوْدِ بَنِی عَوْف کے (تسلیم کیے گئے) اور یہ کہ ہر نیکی اور بھلائی نصب العین اور اصول کار ہوگا، گناہ اور جرم نہیں ''
(ج) وَاَنَّ مَوَالِیَ ثَعْلَبَةَ کَاَنْفُسِھِمْ ۔
'' قبیلہ ثعلبة کے موالی (حلیف یا آزاد کردہ غلام) کی حیثیت خود بنی ثعلبة جیسی ہوگی''
(د) وَاَنَّ بِطَانَةَ یَھُوْد کَاَنْفُسِھِمْ ١
''یہود کے اہل وعیال ان کے خواص اور ماتحت خاندانوں اور افراد کی حیثیت خود یہود جیسی ہوگی '' (ان کے وہی حقوق ہوں گے جو یہود کے ہیں )
(ہ) وَاَنَّہُ لَا یَخْرُجُ مِنْھُمْ اَحَد اِلَّا بِاِذْنِ مُحَمَّدٍ ۔
'' اور یہ کہ جو جس کے ماتحت یا جس کے ساتھ ہے وہ اس سے علیحدہ نہیں ہوگا مگر محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کی اجازت سے ''
(٢٥) وَاَنَّہُ لَا یَنْحَجِزُ عَلٰی ثَارِ جُرْحٍ ۔
''اور یہ کہ نہیں بندش لگائے گا کوئی زخم کے قصاص (زخم کے بدلے میں زخم) پر'' ٢
(٢٦) وَاَنَّہُ مَنْ فَتَکَ فَبِنَفْسِہ وَاَھْلِ بَیْتِہ اِلَّامَنْ ظَلَمَ وَاَنَّ اللّٰہَ عَلٰی اَبْرِ ھٰذَا
١ بِطَانَةُ الرَّجُلِ : اَھْلُہ وَخَاصَّتُہ وَ صَاحِبُہ ( قاموس )
٢ جبکہ توریت کا حکم تھا کہ زخم کے بدلہ میں اسی جیسا زخم ، اس اصول کو ختم نہیں کیا جائے گا !
''جو کسی کو بے خبری میں دھوکہ سے ماردے اس کی ذمہ داری خود اس پر ہے اور اس کے اہل بیت پر مگر وہ شخص جس نے ظلم کیا ہو ! اور ہم اللہ کو حاضر ناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ خوبی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ان شرائط پر عمل کریں گے''
(٢٧) وَاَنَّ عَلَی الْیَھُوْدِ نَفْقَتَھُمْ وَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ نَفْقَتَھُمْ ۔
''اور یہ کہ یہود اپنے مصارف کے ذمہ دار ہوں گے اور مسلمان اپنے مصارف کے (جو اس عہد نامے کی شرطوں کو پورا کرتے ہیں ،کرنے پڑیں گے)
(٢٨) وَاَنَّ بَیْنَھُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ حَارَبَ اَھْلَ ھٰذِہِ الصَّحِیْفَةِ ۔
''اور یہ کہ جو فریق اس معاہدہ میں شریک ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ان کے مقابلہ میں جو ان معاہدہ کرنے والوں سے جنگ کریں گے''
(٢٩) وَاَنَّ بَیْنُھُمُ النُّصْحُ وَ النَّصِیْحَةُ وَ الْبِرُّ دُوْنَ الْاِثْمِ ۔ وَاَنَّہُ لَا یَأْثِمُ اِمْرَئ بِحَلِیْفِہ وَاَنَّ النَّصْرَ لِلْمَظْلُوْمٍ ۔
''اور یہ کہ اس معاہدہ کے تمام فریق آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی ہدایت کریں گے ،نیک کردار رہیں گے ،جرم اور گناہ نہیں کریں گے اور یہ کہ کوئی شخص اپنے حلیف کے ساتھ مجرمانہ فعل نہیں کرے گا اور یہ کہ مظلوم مستحق مدد ہوگا''
(٣٠) وَاَنَّ الْیَہُوْدَ یُنْفِقُوْنَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ مَا دَامُوْا مُحَارِبِیْنَ ۔
'' اوریہ کہ جب تک کوئی جنگ ہوگی تو مسلمانوں کے ساتھ یہود بھی خرچہ ٔجنگ برداشت کریں گے''
(٣١) وَاَنَّ یَثْرِبَ حَرَام جَوْفُھَا لِاَھْلِ ھٰذِہِ الصَّحِیْفَةِ ۔
''اور یہ کہ وہ پورا علاقہ جو حدود ِ یثرب میں ہے ان سب کے لیے واجب الاحترام (محفوط علاقہ) ہوگا جو اس عہدنامہ میں شریک ہیں ''
(٣٢) وَاَنَّ الْجَارَ کَالنَّفْسِ غَیْرُ مُضَارٍ وَلَا آثِمٍ ۔
'' اور یہ کہ پڑوسی کو خود اپنی جان کی برابر سمجھا جائے گا نہ اس کو نقصان پہنچایا جائے گا نہ اس کے ساتھ کوئی مجرمانہ فعل کیا جائے گا''
(٣٣) وَاَنَّہُ لَا تُجَارُ حُرْمَة اِلَّا بِاِذْنِ اَھْلِھَا ۔
''اور یہ کہ نہیں حفاظت اور پناہ میں لیا جائے گا کسی خاتون کو مگر اس کے اہل (ذمہ دار) کی اجازت سے'' ١
(٣٤) وَاَنَّہُ مَا کَانَ بَیْنَ اَھْلِ ھٰذِہِ الصَّحِیْفَةِ مِنْ حَدَثٍ اَوِ اشْتِجَارٍ یُخَافُ فَسَادُہ فَاِنَّ مَرَدَّہ اِلَی اللّٰہِ وَاِلٰی مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰہ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) وَاَنَّ اللّٰہَ عَلٰی اَتْقٰی مَافِیْ ھٰذِہِ الصَّحِیْفَةِ وَاَ بَرَّہ ۔
''اور یہ کہ اس عہد نامہ کے فریقوں کے درمیان جو کوئی نئی بات پیش آئے یا کوئی نزاع ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس میں اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے گا اور یہ کہ ہم سب اللہ کو حاضر وناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ جو کچھ اس عہد نامہ میں ہے اس کی پوری پابندی کریں گے اور اس کو نیکی اور بھلائی کے ساتھ پورا کریں گے''
(٣٥) وَاَنَّہُ لَا تُجَارُ قُرَیْش وَلَا مَنْ نَصَرَھَا ۔
''اور یہ کہ نہ قریش کو پناہ دی جائے گی نہ اس کو جو قریش کی مدد کرے''
(٣٦) وَاَنَّ بَیْنَھُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ دَھَمَ یَثْرِبَ ۔ ٢
'' اور یہ کہ اس عہد نامہ کے تمام شریک ایک دوسرے کی مدد کریں گے اس کے مقابلہ میں جو یثرب پر چڑھ آئے (حملہ کرے) ''
١ مکہ کے مشرکین قریش اس معاہدہ میں داخل نہ تھے ! لہٰذا جب صلح حدیبیہ کے بعد ان کی عورتیں مسلمان ہوکر مدینہ منورہ پہنچیں تو ان کو پناہ میں لے لیا گیا ! ٢ دَھَمَکَ غَشِیَکَ ( القاموس )
(٣٧) وَاَنَّہُ اِذَا دُعُوْا اِلٰی صُلْحٍ یُصَالِحُوْنَہُ وَ یَلْبِسُوْنَہُ فَاِنَّھُمْ یُصَالِحُوْنَہُ وَیَلْبِسُوْنَہُ وَاِنَّھُمْ اِذَا دُعُوْا اِلٰی مِثْلِ ذٰلِکَ فَاِنَّہُ لَھُمْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِلَّا مَنْ حَارَبَ فِی الدِّیْنِ
''اور یہ کہ اس عہدنامہ کے جملہ فریق جب (مسلمانوں کی طرف سے) ان کو کسی کے ساتھ صلح کرنے کی دعوت دی جائے گی وہ صلح کریں گے اور صلح پر عمل کریں گے ! اور یہ کہ جب مسلمانوں کو اسی جیسی صلح کی دعوت دی جائے تو وہ بھی صلح کریں گے ، مسلمانوں پر یہ ان کا حق ہوگا مگر یہ کہ کسی سے دین کے بارے میں جنگ (مذہبی جنگ ) ہورہی ہو''
(٣٨) عَلٰی کُلِّ اُ نَاسٍ حِصَّتُھُمْ مِنْ جَانِبِھِمُ الَّذِیْ قِبَلَھُمْ ۔
'' اور یہ کہ ہر فریق پر اس حصہ کی ذمہ داری ہے جو اس کی جانب میں ہے''
(٣٩) وَاَنَّ یَھُوْدَ الاَوْسِ مَوَالِیْھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ عَلٰی مِثْلِ مَا لِاَھْلِ ھٰذِہِ الصَّحِیْفَةِ مَعَ الْبِرِّ الْمَحْضِ مِنْ اَھْلِ ھٰذِہِ الصَّحِیْفَةِ ، وَاَنَّ الْبِرَّ دُوْنَ الْاِثْمِ ، لَا یَکْسِبُ کَاسِب اِلَّا عَلٰی نَفْسِہ وَاَنَّ اللّٰہَ عَلٰی اَصْدَقِ مَا فِی ھٰذِہِ الصَّحِیْفَةِ وَاَبَرَّہُ
'' اور یہ کہ قبیلہ اوس کے یہود ان کے موالی (حلیف یا آزاد کردہ غلام) ان کو وہی حقوق ہوں گے جو اس عہدنامہ کے تمام فریقوں کو ہوں گے پوری نیک کرداری اور مخلصانہ بھلائی کے ساتھ ، نیک کرداری ہی ہمارا اصل اصول ہوگامجرمانہ فعل (سے کوئی تعلق نہیں ہوگا) ، ہر ایک عمل کرنے والا اپنے عمل کا ذمہ دار ہوگا (اس کے فعل کو کسی دوسرے پر نہیں ڈالا جاسکے گا) اور ہم اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ جو کچھ اس دستاویز میں لکھا گیا ہے اس پر پوری سچائی سے اور نیک کرداری کے ساتھ عمل کریں گے ''
(٤٠) وَاَنَّہُ لَا یَحُوْلُ ھٰذَا الْکِتَابُ دُوْنَ ظَالِمٍ وَاٰثِمٍ وَاَ نَّہُ مَنْ خَرَجَ اٰمِن وَمَنْ قَعَدَ اٰمِن بِالْمَدِیْنَةِ اِلَّا مَنْ ظَلَمَ اَوْ اَثِمَ ۔ وَاَنَّ اللّٰہَ جَار لِمَنْ بَرَّ وَاتَّقٰی وَ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) ۔
''اور یہ کہ یہ تحریر کسی ظالم اور مجرم کے لیے آڑ نہیں بنے گی ،جو مدینہ سے باہر ہو وہ بھی امن میں اور جو اندر رہے وہ بھی امن میں رہے گا مگریہ کہ وہ ظلم کرے یا مجرمانہ حرکت کرے اللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے اور محمد رسو ل اللہ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) اس کے محافظ ہیں جو نیک کردار رہ کر پوری پابندی کے ساتھ اس پر عمل کرے''
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللہ'' صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٩٥ تا ٥١٠ ناشر کتابستان دہلی )
( شیخ ِکامل کے فرائض )
ملفوظات حکیم الامت مجدد ِ ملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی
٭٭٭
''ارشاد فرمایا کہ شیخ وہ ہے جس میں انبیاء کا سا دین ہو، اطباء کی سی تدبیر ہو، بادشاہوں کی سی سیاست ہو''
اور ''انبیاء کا سا دین'' جو فرمایا ! کمال میں تشبیہ مقصود نہیں بلکہ وہ تشبیہ اس دین میں دنیوی غرض نہ ملنا ہے یعنی مریدین سے دنیوی اغراض نہ رکھتا ہو ورنہ ایسا شخص روک ٹوک، معاقبہ، محاسبہ، مواخذہ، مطالبہ، داروگیر نہیں کرسکتا !
اور'' اطباء کی سی تدبیر'' کے یہ معنی ہیں کہ جیسے طبیب جسمانی امراض کی تشخیص اور ہر مریض کے لیے جدا تدبیر کرتا ہے اسی طرح شیخ کو حالات کی تشخیص اور ہرحالت کے لیے جدا تدبیر کرنی چاہیے !
اور ''بادشاہوں کی سی سیاست ''کے یہ معنی ہیں کہ وہ مریدین کی غلطیوں پر ڈانٹ ڈپٹ ،روک ٹوک ، محاسبہ ، معاقبہ ،مواخذہ ،داروگیر کرے یہ سب شیخ کے فرائض میں سے ہے، اگر شیخ ایسا نہیں کرتا تو وہ شیخ نہیں خائن ہے !
(آدابِ شیخ ومرید ص ١٢٩ سلسلہ ملفوظ نمبر ٥٢٧٨)
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے وہ مضامین جو پندرہ بیس برس قبل ماہنامہ انوار مدینہ میں شائع ہوچکے ہیں قارئین کرام کے مطالبہ اور خواہش پر ان کو پھر سے ہر ماہ سلسلہ وار ''خانقاہ حامدیہ '' کے زیر اہتمام اس مؤقر جریدہ میں بطور قندِ مکرر شائع کیا جارہا ہے !
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے (ادارہ)
٭٭٭
تحویلِ قبلہ
( نظر ثانی و عنوانات : شیخ الحدیث حضرت مولانا سےّد محمود میاں صاحب )
٭٭٭
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
( سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ مِنَ النَّاسِ مَاوَلّٰھُمْ عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا
قُلْ لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ
اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْف رَّحِیْم ) ( سُورة البقرة : ١٤٢ ، ١٤٣ )
''بے سمجھ لوگ (اب) یہ کہنے لگیں گے کہ کس چیز نے ان (مسلمانوں ) کو ان کے اس قبلہ سے کہ جس پر وہ اب تک تھے ہٹادیا ! ؟
آپ کہہ دیجئے کہ مشرق و مغرب سب اللہ ہی کی مِلک ہیں ، وہ جسے چاہے سیدھی راہ چلادیتا ہے ! !
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت ِعادل بنایا ہے تاکہ تم گواہ رہو لوگوں پر اور رسول گواہ رہیں تم پر ! اور جس قبلہ پر آپ ا ب تک تھے اسے تو ہم نے اسی لیے رکھا تھا کہ ہم پہچان لیں رسول کا اتباع کرنے والوں کو اُلٹے پائوں واپس جانے والوں سے ! یہ حکم گراں ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جنہیں اللہ نے راہ دکھادی ہے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہوجانے دے تمہارے ایمان کو، یقینا اللہ تعالیٰ لوگوں پربڑا شفیق ہے بڑا مہربان ہے''
ان آیاتِ مبارکہ میں تحویلِ قبلہ کا ذکر فرمایا گیا ہے ''قبلہ ''جس کی طرف رخ کرکے عبادتِ نماز ادا کی جاتی ہے ایک ایماندار کے لیے جان سے بھی زیادہ محبوب ہوتا ہے، بغیر گرانی طبع کے اس کی تبدیلی آسان نہ تھی لیکن احکامِ نبویہ کے دلدادہ مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ جب انہیں قبلہ بدل دینے کا حکم دیا گیا تو بخوشی انہوں نے اسے قبول کرلیا ! حتی کہ ایک جگہ تو ایسا ہوا کہ جب انہیں اطلاع پہنچی تو وہ نماز میں تھے اور عین نماز کی حالت میں انہوں نے اپنا رخ قبلہ کی طرف پھیرلیا ! !
بیت المقدس مدینہ منورہ کے شمال میں ہے اور کعبة اللہ جنوب میں ہے، ان حضرات نے نماز ہی میں شمال سے جنو ب کی طرف رخ کرلیا، جدھر پہلے رخ تھا ادھر پشت ہوگئی ! یہ مسجد اب تک موجود ہے اور اس میں نشانات قائم رکھے گئے ہیں اور یہ مَسْجد ذِی الْقِبْلَتَیْن یا مَسْجِد قِبْلَتَیْن کہلاتی ہے ! !
دوسری آزمائش
٭٭٭
اپنے زمانہ میں دنیا کے ایک عظیم محدث اور علامہ حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ
'' حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس طرح مکہ مکرمہ میں اپنے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) کی قربانی دی، اسی طرح بیت المقدس کے قریب ان کے دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کے بارے میں بھی کوئی خاص آزمائش لی گئی ! اور مکہ مکرمہ کو اولاد ِاسماعیل کا قبلہ قرار دیا گیا اور بیت المقدس کو اولاد ِاسحق کا ! اور یہ حکم دیا گیا کہ اگر اولادِ اسماعیل میں سے کوئی شخص ایسی جگہ جائے کہ جہاں اولادِ اسحق ان سے زیادہ تعداد میں رہتی ہو تو وہاں وہ بھی بیت المقدس کی طرف ہی رخ کرکے نماز پڑھیں اور اگر اولادِ اسحق میں سے کوئی ایسی جگہ جائے جہاں اولادِاسماعیلکی کثرت ہو تو وہ بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے '' ! !
( عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِمَا السَّلاَم )
مکہ مکرمہ میں نماز اور اللہ کی پسند
٭٭٭
نبی کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے تو اسی طرح نماز پڑھتے رہے کہ آپ کا رخ کعبة اللہ کی طرف بھی ہو اور بیت المقدس کی طرف بھی ہو ! پھر جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو مذکورہ بالا حکم کے تحت آپ نے نماز میں اسی طرف رخ کیا جس طرف آلِ یعقوب بن اسحق یعنی یہود رخ کرتے تھے ! لیکن اللہ تعالیٰ کی پسند یہ تھی کہ آلِ اسماعیل کا قبلہ اب ساری دنیا کا قبلہ بنادیا جائے !
کیونکہ یہ حضرت ابراہیم، حضرت نوح اور حضرت آدم علیہم السلام کا قبلہ تھا یہی وہ عظیم مقام تھا کہ جس کا طواف سب انبیاء کرام نے کیا ! صاحب ِتوراة حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کیا ! !
زمین کا وسط
٭٭٭
زمین کی پیدائش ہوئی تو یہ حصہ سب سے پہلے پیدا ہوا ! غرض یہ وسطِ ارض تھا اور خدا کا سب سے پہلا گھر ! تفسیر ماجدی میں ص ٥٠ پر ہے کہ
''اسمتھ اپنی تصنیف '' لیکچرز آن محمد اینڈ محمد ازم'' میں ص ١٦٦ پرلکھتے ہیں :
بنائے کعبہ کا سلسلہ حسب ِروایات اسماعیل اور ابراہیم علیہما السلام تک پہنچتا ہے بلکہ شیث و آدم علیہما السلام تک اور اسی کا نام'' بَیْتُ الْاِیْل '' ١ خود اس پر دلالت کرتا ہے کہ اسے ابتدائی شکل میں کسی ایسے ہی بزرگ قبیلہ نے تعمیر کیا ہے !
سرولیم میور ''لائف آف محمد'' کے مقدمہ میں ص ١٠٢ و ص ١٠٣پر لکھتا ہے :
مکہ کے مذہب کی تاریخ بہت ہی قدیم ماننی پڑتی ہے ! روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کعبہ ایک نامعلوم زمانہ سے ملک عرب کا مرکز چلا آتا ہے جس مقام کا تقدس اتنے وسیع رقبہ میں مُسلَّم ہو اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کی بنیاد قدیم ترین زمانہ سے چلی آتی ہے'' ! ! !
١ یعنی بیت اللّٰہ ، اللہ کا گھر
اب وقت آگیا تھا کہ بنائے آدم و ابراہیم علیہما السلام کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا جائے، چنانچہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم کے قلب ِاطہر نے مرادِ باری تعالیٰ کو قبول کرنا شروع کردیا اور جس طرح اگلی آیات میں ذکر ہے، آپ اس شوق میں بے چینی کے ساتھ آسمان کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا کرتے تھے حتی کہ یہ حکم نازل ہوا !
ان ہی آیات میں یہ ذکر بھی ہے کہ صحابۂ کرام کو خیال ہوا کہ ہماری ان نمازوں کا کیا ہوگا جو پہلے بیت المقدس کی طرف پڑھی گئیں تو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
( وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْف رَّحِیْم ) ١
''اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہوجانے دے تمہارے ایمان کو یقینا اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا شفیق ہے بڑا مہربان ہے'' ! !
یہاں '' نماز'' کو ''ایمان'' کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے کیونکہ نماز ایمان کے اہم ترین ارکان میں سے ہے ! امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے کتاب الایمان میں روایات سے یہی تفسیر نقل فرمائی ہے۔
قبلہ کیا ہے ؟
٭٭٭
حق تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ( قُلْ لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ) ٢
''آپ کہہ دیجئے کہ مشرق و مغرب سب اللہ ہی کی مِلک ہیں ''
قبلہ کی حقیقت بھی بتلادی کہ ہمارا حکم مانتے ہوئے کسی طرف رخ کرلینا، یہ ہی قبلہ ہے، ہم چاہے جس طرف بھی رخ کرنے کا حکم دے دیں ! کیونکہ کعبة اللہ کی عمارت کی طرف رخ کرنا مقصود نہیں ہے اگر خدانخواستہ تجدید ِتعمیر کے لیے کسی وقت کعبة اللہ کو منہدم کردیا جائے اور زمین ہموار کردی جائے تب بھی اسی(جہت کی) طرف رخ کیا جائے گا ! اگرچہ عمارت کی بنیادیں بھی برآمد کرلی گئی ہوں اور وہاں سامنے کعبہ شریف کا ایک پتھر بھی نہ ہو ! !
١ سُورة البقرة : ١٤٣ ٢ سُورة البقرة : ١٤٢
کیونکہ دراصل رخ کرنا تو اس تجلی ٔباری تعالیٰ کی طرف ہے جو اس نے اس مقام پر رہتی دنیا تک کے لیے دائم فرمادی ہے، نہ کہ عمارت یا عمارت کے پتھروں کی طرف ! !
اسی طرح اگر کسی کو غیر آباد جگہ اور اندھیرے میں رخ نہ معلوم ہو تو جس طرف اس کا دل گواہی دے نماز پڑھ لینے سے ادا ہوجاتی ہے ! ! !
ان آیات سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ حقیقت ِایمان یہ ہے کہ احکامِ خداوندی کی دل و جان سے اطاعت کی جائے اور اپنی عقل و علم و دانش کو ان احکام کی تائید میں صرف کیا جائے اور انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھا جائے ! ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق ِخیر بخشے، آمین !
حامد میاں غفرلہ
١٦شعبان ١٣٩٣ھ/ ١٥ ستمبر ١٩٧٣ء بروز ہفتہ
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی امور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے
مقالاتِ حامدیة
قرآنیات
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر
حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ
خلیفہ و مجاز شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
بانی جامعہ مدنیہ جدید و جامعہ مدنیہ قدیم و خانقاہِ حامدیہ
و سابق امیرِ مرکزیہ جمعیة علماء اسلام
٭٭٭
تخریج ، نظرثانی و عنوانات
حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم
رئیس و شیخ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید و سجادہ نشین خانقاہِ حامدیہ
٭
( قیمت : 500 )
'' خانقاہِ حامدیہ '' متصل جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد ١٩کلومیٹر شارع رائیونڈ لاہور پاکستان
رابطہ نمبر : 923334249302+ 923234250027+
آن لائن رقم بھیجنے کے لیے : JazzCash Number 923044587751+
تربیت ِ اولاد
قسط : ١٩
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
چندمتفرق ضروری ہدایات :
٭ بچوں کو محنت کی عادت ضرور ڈالیں بلکہ بقدرِ ضرورت لڑکوں کو ڈنڈ (ہلکی ورزش) اور لڑکیوں کو چکی
اور چرخہ پھیرنے کی عادت ڈالیں !
٭ ختنہ چھوٹی عمر میں ہو جائے بہتر ہے تکلیف کم ہوتی ہے اور زخم جلدی بھر جاتا ہے !
٭ ماں باپ خود خیال رکھیں اور جو مرد یا عورت بچہ پر نگران مقرر ہو وہ بھی خیال رکھے کہ بچہ ہر وقت
صاف ستھرا رہے جب ہاتھ منہ میلا ہو جائے فوراً دھلا دے !
٭ بچوں کو منجن مسواک کی عادت ڈالو !
٭ پڑھنے والے بچوں کو کوئی چیز دماغ کی طاقت کی ہمیشہ کھلاتی رہو !
٭ چھوٹے بچوں کو کنویں پر مت چڑھنے دو بلکہ اگر گھر میں کنواں ہو تو اس پر تختہ ڈلوا کر ہر وقت تالا
لگائے رکھو اور ان کو لوٹا دے کر پانی لانے کے واسطے کبھی مت بھیجو،شاید وہاں جا کر خود ہی کنویں سے ڈول کھینچنے لگیں !
٭ بچوں کو ہنسی میں مت اچھالو اور کسی کھڑکی وغیرہ سے مت لٹکائو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھ سے
چھوٹ جائے ! اسی طرح ان کے پیچھے ہنسی میں مت دوڑو شاید گر پڑیں اور چوٹ لگ جائے !
چند ضروری اور اہم ہدایات :
٭ اچھے کھانے پینے کی عادت مت ڈالو ! ہمیشہ ایک سا وقت نہیں رہتا پھر کسی وقت بہت مصیبت
جھیلنی پڑتی ہے !
٭ اگر تمہارا بچہ کسی کا قصور غلطی سے کرے تو تم کبھی اپنے بچہ کی طرفداری مت کرو، خاص طور پر بچے
کے سامنے ،ایسا کرنا بچہ کی عادت خراب کرنا ہے۔
٭ اپنے گھر والوں کی یا اپنی اولاد کی کسی کے سامنے تعریف مت کرو، کسی بچہ یا شاگرد کو سزا دینا ہو
تو موٹی لکڑی یا لات گھونسہ سے مت مارو ! اللہ بچائے اگر کہیں نازک جگہ چوٹ لگ جائے تو لینے کے دینے پڑ جائیں ! چہرہ اور سر پر بھی مت مارو !
٭ لڑکیوں کو تاکید رکھو کہ لڑکوں میں نہ کھیلا کریں کیونکہ اس میں دونوں کی عادتیں بگڑتی ہیں اور جو
غیر لڑکے گھر میں آئیں چاہے چھوٹے ہی ہوں مگر اس وقت لڑکیاں ان سے ہٹ جایا کریں !
٭ بچوں کو ماں باپ بلکہ دادا کا نام بھی یاد کرا دو اور کبھی کبھی پوچھتی رہا کرو تا کہ اس کو یاد رہے !
اس سے یہ فائدہ ہے کہ خدا نخواستہ بچہ کھو جائے اور کوئی اس سے پوچھے کہ تو کس کا ہے تیرے ماں باپ کون ہیں ؟ تو اگر بچہ کو نام یاد ہوں گے تو بتلا دے گا پھر کوئی نہ کوئی تمہارے پاس اس کو پہنچا دے گا ! اور اگر یاد نہ ہوں گے تو پوچھنے پر اتنا ہی کہے گا کہ میں اماں کا ہوں ابا کا ہوں ! یہ خبر نہیں کہ کون اماں کون ابا ؟ ؟
حقوق کا بیان
٭٭٭
اولاد کے حقوق :
والدین کے ذمہ اولاد کے بہت سے حقوق ہیں ، اولاد کا ایک حق والدین کے ذمہ یہ بھی ہے کہ ان کے اخلاق کی اصلاح کریں ان کو (دینی )تعلیم دیں ! بعض لوگ اولاد کو (دینی)تعلیم نہیں دیتے بلکہ ناز ونعمت میں پالتے ہیں ! صاحبو جب بچپن میں اولاد کے اخلاق کی اصلاح نہ ہو گی اور (دینی) تعلیم نہ دی جائے گی تو بڑے ہو کر اس کا بہت برا انجام ہو گا ! ! (التبلیغ الحدود القیود)
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : '' اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچائو ''
اس کی تفسیر میں حضرت علی نے فر مایاکہ اپنے گھر والوں کو بھلائی یعنی دین کی باتیں سکھلائو (حاکم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے بیوی بچوں کو دین کی باتیں سکھلانا فرض ہے ورنہ انجام دوزخ ہوگا ! اور ان کا دنیوی حق یہ ہے کہ جن چیزوں سے دنیا کا نفع اور آرام ملتا ہے وہ بھی سکھلا دے !
حضرت ابن ِعمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرما یا اپنے بیٹوں کو تیرنا اور تیرچلانا سکھلائو اور عورتوں کو کاتنا سکھلائو !
ان تین باتوں کا ذکر مثال کے طور پر ہے لیکن مراد سب ضرورت کی چیزیں ہیں ۔ (حیات المسلمین )
اولاد کے ضروری حقوق کا خلاصہ :
جس طرح ماں باپ کے حقوق اولاد پر ہیں اسی طرح ماں باپ پر بھی اولاد کے حقوق ہیں ، وہ یہ ہیں :
٭ نیک بخت (شریف) عورت سے نکاح کرنا تاکہ اولاد اچھی پیدا ہو !
٭ بچپن میں محبت کے ساتھ ان کی پر ورش کرنا ! اولاد کو پیار کرنے کی بھی بڑی فضیلت آئی ہے خصوصاًلڑکیوں سے دل تنگ نہ ہونا چاہیے، ان کی پرورش کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے !
٭اگر اَ نَّا (دوسری عورت )کا دودھ پلانا پڑے تو بااخلاق اور دیندار (عورت )تلاش کرنا کیونکہ دودھ کا اثر بچہ کے اخلاق پر پڑتا ہے !
٭ اولاد کوعلم ِدین وادب سکھلانا !
٭ جب نکاح کے قابل ہوں تو ان کا نکاح کر دینا ! !
٭ اگر لڑکی کا شوہر مر جائے تو نکاحِ ثانی ہونے تک اس کو اپنے گھر میں رکھنا اور اس کے ضروری اخراجات کو برداشت کرنا ! ! (حقوق الاسلام، آدابِ زندگی )
حضرت عمر کے دربار کا ایک واقعہ :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دربارمیں ایک باپ نے اپنے بیٹے پر دعویٰ کیا کہ یہ میرے حقوق ادا نہیں کر تا ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لڑکے سے دریا فت کیا اس نے کہا اے امیرالمو منین ! کیا باپ ہی کا سارا حق اولاد پر ہے یا اولاد کا بھی باپ پر کچھ حق ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اولاد کا بھی باپ کے ذمہ حق ہے ، کہا میں ان حقوق کو سنناچاہتاہوں ۔ فر مایا اولاد کا حق باپ پر یہ ہے کہ
٭ اولاد حاصل کرنے کے لیے شریف عورت تجویزکرے !
٭ اور جب اولا د پیداہو تو ان کا نام اچھا رکھے تاکہ اس کی برکت ہو !
٭ اور جب ان کے ہو ش درست ہوجائیں ان کو تہذیب سکھا ئے اور دین کی تعلیم دے !
لڑکے نے کہاکہ میرے باپ نے ان حقوق میں سے ایک حق بھی ادا نہیں کیا اور جب میں پیدا ہوا تو میرا نام جعل رکھاجس کا معنٰی پا خانہ کا کیڑا ! اور مجھے دین کا ایک حرف بھی نہیں سکھا یا مجھے دینی تعلیم سے با لکل کو را رکھا ۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوباپ پر بہت غصہ آیا اور اس کو بہت دھمکایااور یہ کہہ کرمقدمہ خارج کر دیاکہ جائو پہلے تم اپنے ظلم کی مکافات کرواس کے بعد لڑکے کے ظلم کی فریادکرنا ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مقدمہ خارج کر دیا اور باپ سے فرمایا کہ تونے اس سے زیادہ حق تلفی کی ہے جائو اپنی اولاد کے ساتھ ایسا برتائو نہ کیا کرو۔
(الفیض الحسن ص١٠٢ ، حقوق البیت ص٤٧) (جاری ہے)
٭٭٭
رحمن کے خاص بندے
قسط : ٢٨
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
مسلمان کی جان محفوظ ہے :
بخاری شریف میں روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں قبیلہ جُہَیْنَة کی ایک شاخ کی طرف پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے جہاد کے لیے روانہ فرمایا تو ہم نے اس قوم پر صبح کے وقت اچانک حملہ کر کے شکست دے دی، اسی دوران میں نے اور ایک انصاری صحابی نے ایک کافر شخص کو گھیر لیا تو وہ شخص بول اٹھا کہ ''لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ'' تو یہ سن کر انصاری ساتھی نے تو ہاتھ کھینچ لیے مگر میں نے اپنے نیزے سے اس پر حملہ کیا یہاں تک کہ اسے مار ڈالا جب ہم مدینہ منورہ واپس آئے تو نبی اکرم علیہ الصلٰوة والسلام کو اس واقعہ کی خبر ملی تو آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ
'' اسامہ ! تم نے اس کو کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کر ڈالا'' ؟
میں نے عرض کیا کہ حضرت ! وہ تو جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا تھا مگر پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام بار بار یہی ارشاد فرما تے رہے کہ
''تم نے اس کو کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کرڈالا ؟ ''
یہاں تک کہ میں تمنا کرنے لگا کہ اس سے پہلے میں اسلام ہی نہ لاتا (بلکہ آج ہی اسلام لاتا تاکہ اسلام کی وجہ سے پہلے کی کوتاہیاں معاف ہوجاتیں ) ١
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو شخص ظاہراً اسلام کا اقرار کرے تو بھی اس کی جان محفوظ ہوجاتی ہے اور محض اس گمان میں کہ وہ اندرونی طوپر مسلمان نہ ہو اس پر ہتھیار اٹھانا جائز نہیں رہتا !
١ صحیح البخاری رقم الحدیث ٦٨٧٢ ، فتح الباری ج ١٢ ص ٢٤١
ایک مؤمن کی عظمت اللہ کے نزدیک ''کعبۂ مقدسہ '' سے بڑھ کر ہے :
ایک صاحب ِ ایمان کی عزت وحرمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم بیت اللہ شریف کا طواف فرمارہے تھے تو آپ نے کعبۂ مشرفہ کو مخاطب بناکر یہ کلمات ارشاد فرمائے :
مَا اَطْیَبَکِ وَاَطْیَبَ رِیْحَکِ وَمَا اَعْظَمَکِ وَ اَعْظَمَ حُرْمَتَکِ ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ اَعْظَمُ عِنْدَاللّٰہِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِہ وَدَمِہ وَاَنْ نَظُنَّ بِہ اِلَّا خَیْرًا ١
''تو کتنا عمدہ ہے اور تیری مہک کتنی شاندار ہے اور تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی بلند ہے (مگر) قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، یقینا مومن کی جان اور مال کی عزت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تیری عزت سے زیادہ ہے اور (ہمیں یہ حکم ہے کہ) ہم مومن کے بارے میں بس اچھا ہی گمان رکھا کریں ''
دیکھئے ایک طرف یہ حدیث ہے ، دوسری ہمارے معاشرہ کا حال ہے ذرا ذرا سی بات پر قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور آئے دن اخبارات اس طرح کی اندوہ ناک خبروں سے بھرے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے کی خیرخواہی کی توفیق عطا فرمائیں اور ہر سطح پر امن وامان کی دولت سے نوازیں ، آمین
ایک مومن کے قاتل کا عبرت ناک انجام :
شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے فدک کے علاقہ میں گھوڑ سواروں کی ایک جماعت بھیجی، انہوں نے مخالفین پر حملہ کیا، تو ان کفار میں ایک شخص ''مرداس فدکی ''تھے وہ رات اپنے ساتھیوں سے الگ ہوگئے اور انہوں نے یہ کہا کہ میں تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ عليہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے ملنے جارہا ہوں تو اس پر ایک مسلمان شخص کی نظریں پڑگئی اور وہ اس پر حملہ آور ہوا، ''مرداس'' نے کہا کہ ''میں تو ایمان لاچکا ہوں '' مگر اس مسلمان نے پھربھی اسے قتل کردیا، جب یہ بات پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ
''کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا'' ؟
١ سُنن ابن ماجة ص ٢٨٢ رقم الحدیث ٣٩٣٢ ، الزواجر ص ١٥١
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعد میں ''مرداس'' کے قاتل کا انتقال ہوا تو لوگوں نے اس کو دفن کردیا، لیکن صبح کو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کی لاش قبر کے باہر نکلی پڑی ہے، پھر دوبارہ دفن کردیا، اگلے دن پھر لاش باہر پڑی ملی، کئی مرتبہ ایسے ہی ہوا تو جاکر پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام سے پوری صورت ِ حال بیان کی، تو آپ نے فرمایا کہ ''اسے دوپہاڑوں کے درمیان کسی وادی میں ڈال آؤ '' اور پھر ارشاد ہوا کہ
''زمین تو اس سے بھی بدتر آدمی کو قبول کرلیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو تمہیں عبرت دلانا مقصود ہے'' ١
مطلب یہ ہے کہ مؤمن کو قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس قاتل کو زمین بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی، اور کبھی کبھی عام لوگوں کے سامنے بھی اس کا اظہار کرا دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو !
لڑائی کے وقت آپس میں ہتھیار نہ اٹھائیں :
آپسی تنازعہ میں ہتھیاروں کا جانبین سے استعمال شریعت میں جائز نہیں ، نبی آخرالزماں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے
مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السِّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا ۔ ٢
''اور جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے''
اور اس طرح لڑنے والوں میں سے کوئی مارا بھی جائے تو وہ بھی سزا سے بچ نہیں پائے گا ! !
حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود پیغمبر علیہ السلام کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ''جو دو مسلمان آپس میں تلوار کے ذریعہ مد ِ مقابل ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے''
اس پر میں نے عرض کیا کہ ''اے اللہ کے رسول ! قاتل کا تو جہنمی ہونا سمجھ میں آتا ہے لیکن مقتول کا کیا قصور ہے '' ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا :
اِنَّہ کَانَ حَرِیْصًا عَلٰی قَتْلِ صَاحِبِہ ٣ ''وہ بھی اپنے مد مقابل کو قتل کرنا چاہ رہا تھا''
١ فتح الباری ج ١٢ ص ٢٤٠ طبع بیروت ٢ صحیح مسلم ج ١ ص ٦٩ رقم الحدیث ٩٨
٣ صحیح البخاری ج ١ ص ٩ رقم الحدیث ٣١
عام طور پر خونریز لڑائیوں میں ہر فریق دوسرے کو جان سے مارنے کاارادہ کرتا ہے، ایسے سب لوگوں کے لیے یہ حدیث موجب ِعبرت ہے، لہٰذا اپنے سب نزاعات آپسی مذاکرات سے حل کرنے چاہئیں اور اپنی طرف سے فتنہ و فساد کی ابتداء نہیں کرنی چاہیے ! !
غیر مسلم ذمی کا قتل بھی حرام ہے :
جس طرح مسلمانوں کا آپس میں قتل حرام ہے اسی طرح اسلامی یا جمہوری ملکوں میں رہنے والے بے قصور غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی شریعت میں ہر گز جائز نہیں نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
مَنْ قَتَلَ مُعَاھِدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَاِنَّ رِیْحَھَا لَتُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ اَرْبَعِیْنَ عَامًا۔ ١
''جو شخص کسی ذمی کافر کو (بلا وجہ) قتل کردے تو وہ جنت کی خوشبو پانے سے محروم رہے گا، اگرچہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آنے لگتی ہے''
اور بعض روایات میں ہے کہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے اور بعض میں ہے کہ سو سال کی مسافت سے اور بعض میں ہے کہ پانچ سوسال کی مسافت سے آنے لگتی ہے ! اور یہ خوشبو محسوس کرنے میں مسافت کا فرق لوگوں کے حالات اور مراتب کے اعتبار سے ہے یعنی اعلیٰ مرتبہ والے لوگ زیادہ دور سے جنت کی مہک محسوس کریں گے الخ ! ٢
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ذمیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا :
اَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاھِدًا اَوْ اَنْقَصَہ اَوْ کَلَّفَہ فَوْقَ طَاقَتِہ اَوْ اَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسٍ مِنْہُ فَاَنَا حَجِیْجُہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ( سنن ابی داؤد ج ٢ ص٤٣٣ )
''خبردار ! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا یا طاقت سے زیادہ کا اسے مکلف بنایا یا اس کا مال اس کی خوشدلی کے بغیر لیا تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے حجت کرنے والا ہوں گا''
١ صحیح البخاری ج ١ ص ٤٤٨ رقم الحدیث ٣١٦٦
٢ سنن النسائی ج٢ ص٢٤١ رقم الحدیث ٤٧٥٨ ، سنن الترمذی ج ١ ص ٢٥٩ ، الزواجرص ١٥٣
لہٰذا جو مسلمان اسلامی یا جمہوری ملکوں میں رہتے ہیں انہیں غیر مسلموں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنا چاہیے اور جذبات میں آکر کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہیے جس سے دین پر حرف آئے اور اسلامی تعلیمات کی پامالی ہو ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینی ہدایات پر پوری طرح عمل کی توفیق عطا فرمائیں ، آمین
تنگدستی کے اندیشہ سے بچوں کا قتل :
دنیا میں ہر زمانہ میں یہ باطل تصور پایا جاتا رہا ہے کہ آبادی کی کثرت اور آدمیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دنیا میں رزق کی تنگی اور فقرو فاقہ کی بڑی وجہ ہے اسی لیے بعض لوگ پیدا ہوتے ہی اولاد کو محض اس خطرے سے قتل کردیتے تھے کہ انہیں کون کھلائے پلائے گا ؟ تو اسلام نے اس جاہلانہ اور ظالمانہ نظریہ کی کھل کر تردید کی اور سراپا انسانیت نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے اس عمل کو بڑا جرم قرار دیا اور معصوم جانوں کی حفاظت کی تاکید فرمائی، چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا
( وَلَا تَقْتُلُوْآ اَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْأً کَبِیْرًا ) ( سُورة بنی اسرائیل : ٣١ )
''اور مت قتل کرو اپنے بچوں کو بُھک مری کے ڈر سے ہم ہی ان کو اور تمہیں روزی دیتے ہیں ، یقینا ان بچوں کا قتل بڑی غلطی ہے''
اسی طرح جب مومن خواتین سے بیعت کرنے کاحکم آیا تو اس میں خاص طور پر ان سے اس کا بھی عہد لیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو (کسی بھی وجہ سے) قتل نہ کریں ارشاد ِ خداوندی ہے :
( یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لاَّ یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلاَ یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْلَھُنَّ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر رَّحِیْم ) ( سُورة الممتحنة : ١٢ )
''اے نبی ! جب آپ کے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت لینے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گی اور چوری نہ کریں گی اور بدکاری نہ کریں گی اور اپنے بچوں کو قتل نہ کریں گی اور نہ کسی پر ایسا بہتان باندھیں گی جسے خود اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے گڑھیں گی اور نہ ہی کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو آپ ان کو بیعت فرمالیجئے اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کیجیے یقینا اللہ تعالیٰ بہت مغفرت فرمانے والے اور مہربان ہیں ''
اس سے اسلام کی رحمت ِعامہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ! !
جھوٹی غیر ت کے نام پر بچوں کا قتل :
اسی طرح زمانہ ٔ جاہلیت کی سفا کانہ رسومات میں یہ بات بھی تھی کہ محض اس غیرت میں کہ اگر ہمارے یہاں بچی کی پیدائش ہو اور وہ بڑی عمر کو پہنچے تو اس کی شادی کرنی پڑے گی اور کس کو اپنا داماد بنانا پڑے گا تو صرف اسی جھوٹی قابلِ لعنت غیرت کے ڈر سے اپنی بچیوں کو پیدائش کے بعد زندہ درگور کردیا کرتے تھے اور عام طور پر کفار ومشرکین بچیوں کی پیدائش کو بہت ہی معیوب سمجھا کرتے تھے اس کی منظر کشی قرآنِ کریم میں اس طرح کی گئی ہے :
( وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہ مُسْوَدًّا وَّھُوَ کَظِیْم ۔ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئِ مَا بُشِّرَ بِہ اَیُمْسِکُہ عَلٰی ھُوْنٍٍ اَمْ یَدُسُّہ فِی التُّرَابِ اَلَا سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ ) ١
''اور جب خوشخبری ملے ان میں کسی کو بیٹی کی ، توسارے دن اس کا منہ سیاہ رہے اور دل میں گھٹتا رہے لوگوں سے اس خوشخبری کی برائی کے مارے چھپتا پھرے (اب) اس کو رہنے دے ذلت قبول کرکے یا اس کو داب دے مٹی میں '' ! !
بلا شبہ بچیوں کا یہ قتل ایک عظیم انسانی المیہ اور بدترین ظالمانہ عمل تھا جسے شیطان لعین نے لوگوں کے سامنے مزین کر کے پیش کیا تھا تاکہ انسانیت کو تار تار کیا جاسکے قرآنِ کریم میں فرمایا گیا :
( وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِھِمْ شُرَکَآؤُھُمْ لِیُرْدُوْھُمْ وَلِیَلْبِسُوْا عَلَیْھِمْ دِیْنَھُمْ ) ٢
١ سُورة النحل : ٥٨ ، ٥٩ ٢ سُورة الانعام : ١٣٧
'' اور اسی طرح بہت سے مشرکین کی نگاہ میں ان کے شریکوں (شیاطین) نے ان کے بچوں کے قتل کو مزین کردیا تاکہ ان کو برباد کریں اور ان پر ان کے دین کو غط ربود(گڈ مڈ) کردیں ''
لیکن اسلام نے اس بیہودہ اور وحشیانہ رسم پر سختی سے نکیر کی اور اسے جڑ سے مٹادیا کہ دورِ اسلام میں کوئی شخص اس گھناؤنی حرکت کا روادار نہ رہا ! !
جاہلیت ِجدیدہ میں بچیوں کا قتل ِ عام :
لیکن آج ذرا پنے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو اس نئے دورِ جاہلیت میں بھی جابجا رحمِ مادر میں بچیوں کے قتل ِعام کا یہ ''نفع بخش کار وبار'' نام نہاد امن پسندوں کی ناک تلے پوری قوت سے پروان چڑھتا نظر آئے گا ! قانونی بندشوں کے باوجود الٹراساونڈ کے ذریعہ جنین کے جنس کی شناخت کر کے کتنے ہی والدین بے رحمی کے ساتھ مادہ جنین کا اسقاط کر کے اپنی شقاوت ِقلبی اور قساوت کا کھلا ثبوت دیتے ہیں ! بے شک آج یہ ''معصوم جان'' دنیا کی عدالت میں انصاف پاسکنے پر قادر نہیں ، لیکن احکم الحاکمین کے دربار میں جب مقدمہ پیش ہوگا اور قاتل ڈاکٹروں کے ساتھ بے رحم والدین بھی مجرموں کی صف میں کھڑے ہوں گے تب اس بہیمانہ جرم کی سنگینی کا احساس ہوگا !
اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے اس انسانیت اور وحشیانہ حرکت پر انتہائی مؤثر آواز بلند کی چنانچہ قرآنِ پاک میں میدانِ محشر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا :
( وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ) ( سُورة التکویر : ٨ )
''اور جب گاڑی ہوئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں قتل ہوئی ؟ ''
یعنی قیامت کے دن جب یہ زندگی درگور کی ہوئی بچی بارگاہ ِ ارحم الراحمین میں فریاد کرے گی اور اپنے بے قصور ہونے کو بیان کرے گی تو اُس وقت کا منظر یقینا دل دہلانے والا ہوگا۔
(جاری ہے)
٭٭٭
پچاس سالہ تحفظ ِختم نبوت گولڈن جوبلی سے خطاب
( قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم )
٭٭٭
٢ ربیع الاوّل ١٤٤٦ھ/٧ ستمبر ٢٠٢٤ء کو قائدِجمعیة علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم نے مینارِ پاکستان لاہور کے میدان میں پچاس سالہ تحفظِ ختم نبوت گولڈن جوبلی کے موقع پر خطاب فرمایا جسے نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے ۔
(ادارہ)
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَ نَسْتَعِیْنُہ وَ نَسْتَغْفِرُہ وَنُوْمِنُ بِہِ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ہَادِیَ لَہ وَنَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَ نَشْہَدُ اَنَّ سَیِّدِنَا مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ اَرْسَلَہ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَدَاعِیًا ِالَی اللّٰہِ بِاِذْنِہ وسِرَاجًا مُّنِْیرًا
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِہ وَصَحْبِِہ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا اَمَّا بَعْدُ ! فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
( وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْئ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَوْ تَرٰی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰئِکَةُ بَاسِطُوْا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ کُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہ تَسْتَکْبِرُوْنَ ) صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْم ۔
جناب صدر محترم، امیر مجلس حافظ ناصر خان خاکوانی صاحب ، حضراتِ علماء کرام ، مشائخ عظام ، زعمائے قوم ، بزرگانِ ملت ، برادرانِ امت ، ختمِ نبوت کی شمع کے پروانوں ، میرے نوجوانوں !
آپ نے ہم جیسے کمزور لوگوں کی دعوت پر، اپنے خادموں کی دعوت پر جس طرح لبیک کہا ہے میں اپنی زندگی بھر آپ کے شکریہ کے لیے وقف کر دوں تب بھی میں فرزندانِ ختم نبوت اور اہلِ پاکستان کا شکریہ ادا نہیں کر سکوں گا ! !
میرے محترم دوستو ! آج آپ کے اس اجتماع کو کئی نسبتیں حاصل ہیں ، اس وقت ربیع الاوّل کا مہینہ ہے وہ مبارک مہینہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا نور پوری کائنات پر چمکا اور جس نے کائنات کے ذرے ذرے کو روشنی بخشی، آج اسی مہینے میں ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی ختم نبوت کا حق ادا کرنے کے لیے اس میدان میں جمع ہیں ، اس میدان کا دامن تنگ ہو چکا ہے اور لاہور کی وسعتیں آج آپ کو سلام پیش کر رہی ہیں ، یہ وہی مینارِ پاکستان ہے یہ وہی میدان ہے جب ١٩٤٠ء میں یہاں پاکستان بنانے کی قرارداد پاس ہوئی تھی اور آج اسی میدان میں پاکستان کو بچانے کی قرارداد پاس ہو رہی ہے !
میرے محترم دوستو ! ٧ستمبر کا دن، ہفتے کا دن،١٩٧٤ء کا دن اور آج پچاس سال کے بعد ٢٠٢٤ء کا دن دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی ختم نبوت پر شب خون مارنے والوں کو اپنی عاقبت کا اندازہ کر لینا چاہیے کہ پاکستان کے عوام اپنے رسول کی ختم نبوت کا دفاع کس انداز کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ کے آج کے اس اجتماع نے قادیانیت ہو یا لاہوریت اس کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، اب ان کو دوبارہ سیدھا کھڑا ہونے کے لیے کوئی وقت نہیں رہا، کبڑے جسم کے ساتھ نہ امریکہ ان کو سیدھا قد و قامت دے سکتا ہے نہ یورپ اس کی کمر سیدھی کر سکتا ہے نہ اسرائیل ان کو پناہ دے سکتا ہے ہم نے تعاقب کیا ہے تعاقب کرنا جانتے ہیں !
١٩٧٤ء کے بعد آج پچاس سال گزرنے کے باوجود بھی قوم کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور ان شااللہ اگلی صدی تک میں اس کی ضمانت دیتا ہوں اللہ کے فضل و کرم پر اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے کہ آئندہ صدی بھی آپ کی ہے قادیانیت کی کمر اسی طرح ٹوٹی رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی ختم نبوت پر شب خون مارنے کی جرات نہیں کر سکے گی !
میرے محترم دوستو ! بہت سے لوگوں نے کہا اسرائیل کو تسلیم کر لیا جانا چاہیے یہاں پر پاکستان میں بھی بڑے ریٹائرڈ قسم کے بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کے چیلوں نے ٹیلی ویژن سکرین پر آکر یہ دعوت چلائی، قوم کا ذہن اس طرف موڑنے کی کوشش کی، سب سے پہلے جمعیت علما ء اسلام نے کراچی میں ملین مارچ کر کے ان کی زبان ایسی خاموش کر دی ہے کہ پاکستان میں آج تک پھر ان کی زبان نہیں چل سکی ہے !
اور اس کے بعد فلسطین میں حماس کے مجاہدوں نے جس طرح قربانیاں دے کر اسرائیلی ریاست کو للکارا ہے، فلسطین کی آزادی کے لیے آگے بڑھے ہیں ، پچاس ہزار شہدا ء چھ سات مہینوں میں دے چکے ہیں لیکن جہاں پوری اسلامی دنیا اور یورپ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے گانے بجتے رہے رباب بجتے رہے انہوں نے وہ رباب توڑ دیے ہیں وہ تمام وسائل آج دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں کہ کوئی اسلامی ملک آج کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ! میں صرف پاکستان کے حکمرانوں کو نہیں ، میں صرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو نہیں کہنا چاہتا، میں دنیائے اسلام کے حکمرانوں کو کہنا چاہتا ہوں دنیائے اسلام کے حکمرانوں کو آپ کی طرف سے پیغام دینا چاہتا ہوں ، آپ کی اجازت ہے ؟ اہلِ پاکستان کی طرف سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں ، عالمی قوتوں کو عالمی برادری کو آپ کی طرف سے پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اتنے زیادہ انسانوں کا خون بہانے کے بعد بھی کیا امریکہ جس کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے عراقیوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے افغانوں کا خون ٹپک رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے لیبیا کے عوام کا خون ٹپک رہا ہے، کیا اس کے بعد بھی امریکہ کو انسانی حقوق کی بات کرنے کا حق حاصل ہے ؟
دنیا آج اعلان کر رہی ہے، اہلِ پاکستان اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ امریکہ انسانی حقوق کا قاتل تو ہو سکتا ہے انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا۔ میں اپنے حکمرانوں کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں ، اپنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں یہ ہے پاکستان کی سوچ اگر تم نے پاکستان کا سوچنا ہے تمہیں پاکستان کی سوچ کا اندازہ ہے یہ پورے ملک کی نمائندگی کر رہا ہے تمام عوام کی نمائندگی کر رہا ہے اور آپ کو مینارِ پاکستان پر ان انسانوں کے سمندر کی رائے اور ان کی قرارداد کے سامنے جھکنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے !
میرے محترم دوستو ! ختم نبوت کا مسئلہ ہے، سپریم کورٹ کا مسئلہ ہمارے مقررین نے مختلف انداز سے اس کا تذکرہ کیا یقینا وہ ہماری ایک کامیابی ہے ! اور میں چیف جسٹس کے حوالے سے یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے اپنی غلطی کا ادراک کیا اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادگی ظاہر کی تو پھر قوم منتظر ہے کہ تفصیلی فیصلہ جلد آئے ! ہم امید رکھتے ہیں کہ ان شااللہ تفصیلی فیصلہ بھی علماء کرام کے اعتماد کو لے کر ہی دیا جائے گا اور مختصر فیصلے کے عین مطابق ہوگا، علماء کرام کی رائے کو نظر انداز کر کے جس طرح پہلے آپ نے غلطی کی میں آپ کو پیغام دینا چاہتا ہوں خیر خواہی کی بنیاد پر کہ تفصیلی فیصلہ دیتے ہوئے علماء کرام کی رائے کو نظر انداز کر کے اس غلطی کو نہ دہرائیں !
میرے محترم دوستو ! یہ ملک ہمارا ہے آپ کا یہ اجتماع آج ملک کی وحدت کی علامت ہے پاکستان کی وحدت کی علامت ہے، ہم کسی بھی تحریک کو اس بات کا حق ضرور دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کی بات کرے وہ اپنے مطالبات کی بات کرے لیکن اگر وہ پاکستان سے علیحدگی کی بات کرتے ہیں تو یہ اجتماع پیغام دے رہا ہے یہ بہت بڑی عوامی اسمبلی قرارداد پاس کرتی ہے کہ ہم حقوق کے لیے آپ کے ساتھ ہیں لیکن ملک کی سلامتی پر کوئی سودا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ یہ ملک ہمارا ہے، اس ملک میں اسلام کی قدروں کو بلند ہونا ہوگا۔١٩٧٣ء میں آئین بنا اور ١٩٧٣ ء میں اسلامی نظریاتی کونسل بنا، اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہے، اسلامی نظریاتی کونسل میں ماہرین آئین و قانون موجود ہیں ، ریٹائرڈ جج موجود ہیں ، آج تک ان کی سفارشات جو مکمل بھی ہو چکی ہیں اور جن پر کونسل کے اندر بھی اتفاق رائے ہے کونسل کے باہر بھی تمام مکاتب فکر کا اتفاق رائے ہے لیکن آج تک اس پر قانون سازی نہیں ہو رہی ! کیا اس لیے پاکستان بنا تھا ؟
اور یاد رکھیں میں آپ کو ایک بات کہہ دینا چاہتا ہوں میرے بھائیو ٢٠١٨ء کا الیکشن ہوا اور اب ٢٠٢٤ء کا الیکشن ہوا دونوں کے نتائج دھاندلی کے پیداوار تھے ہم نے نہ ٢٠١٨ء کا الیکشن تسلیم کیا نہ ٢٠٢٤ء کے نتائج کو تسلیم کرتے ہیں اور پیغام دینا چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو بھی حکمرانوں کو بھی کہ تمہاری ان اسمبلیوں کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے اب اگر اہمیت ہے تو اس عوامی اسمبلی کی اہمیت ہے اب فیصلے یہاں پر ہوں گے، قوانین یہاں سے پاس ہوں گے، قراردادیں یہاں سے پاس ہوں گی، ملک کے مستقبل کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے اگر تم نے امریکہ کی غلامی میں پاکستان کے مفاد کو نظر انداز کیا ، اگر تم نے امریکہ اور مغرب کے مفاد میں ملک کی نظریاتی حیثیت کو پامال کرنے کی کوشش کی تو یہ بحرِ بیکراں اور یہ سیلاب اور یہ طوفان تمہیں تنکے کی طرح بہا کر لے جائے گا ! !
اس عظیم الشان اجتماع کو صرف عوام کا اجتماع مت سمجھئے ، اسے لوگوں کا اجتماع مت سمجھئے یہ انقلاب کا آغاز ہے یہ انقلاب کا نعرہ ہے اور ہم یہاں سے اٹھیں گے تو انقلاب کے جذبے سے اٹھیں گے اور پھر بتائیں گے کہ اب تمہاری حکمرانی ہے یا ہماری حکمرانی ہے ! !
میرے محترم دوستو ! آج دنیا میں ہمارے فلسطینی بھائیوں کا خون بہہ رہا ہے کسی اسلامی ملک کے حکمران میں کیوں یہ جرات نہیں ہے کہ وہ اس امت کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ اس امت کی ترجمانی کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر سکے، کیوں ان کی زبانیں گنگ ہو چکی ہیں ؟ ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ تم گنگ سہی قوم زندہ ہے ان کی آواز زندہ ہے امت زندہ ہے اور یہ اجتماع پوری امت کی آواز ہے، ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ! !
اور میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج جس میدان میں آپ بیٹھے ہیں اور جس میدان میں ١٩٤٠ء کی قرارداد پاس ہوئی تھی ١٩٤٠ء میں جب یہودی فلسطینی سرزمین پر بستیاں قائم کر رہے تھے تو بانی ٔپاکستان محمد علی جناح کی قیادت میں اس قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ہم ان بستیوں کے قیام کے خلاف ہیں اور ہم یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے ! جب پاکستان کے قیام کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی تو مسئلہ فلسطین پر اپنے موقف کی بنیاد بھی ڈالی گئی اور جب پاکستان بنا تو دو واقعے سامنے آئے اس سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے اور اسرائیل کہاں کھڑا ہے ؟ ١٩٤٠ء میں جب اسرائیل معرض وجود میں آیا تو قائد اعظم نے کہا کہ'' یہ برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے، اسرائیل برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے'' اور برطانیہ کا لفظ اس لیے کہ ١٩١٧ء کے معاہدے دارخور کی طرف اشارہ تھا کیونکہ برطانوی وزیر خارجہ نے اس کی بنیاد پر اسرائیل کی بنیاد ڈالی تھی، لیکن جب اسرائیل بنا تو اس کے پہلے صدر نے اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول دنیا کو متعارف کرائے تو خارجہ پالیسی کے اساسی اصولوں میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ دنیا کی نقشے پر ایک نوزائیدہ مسلم ملک کا خاتمہ اسرائیل کی پالیسی کا حصہ ہوگا، پاکستان کے بارے میں اسرائیل نے کیا سوچا تھا اور اسرائیل کے بارے میں پاکستان نے کیا سوچا تھا ؟ ذرا اس تناظر میں اپنی تاریخ کو دیکھیے !
یہ غلامانہ ذہن رکھنے والے اپنی تاریخ بھی بھول جاتے ہیں ، یہ اپنے مفادات کے لیے نظریات بھی بھول جاتے ہیں ، یہ اپنے مفادات کے لیے اپنا کلمہ بھی بھول جاتے ہیں ، یہ اپنے مفادات کے لیے اپنا دین بھی بھول جاتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے عقیدۂ ختم نبوت پر شب خون مارنے والوں کو بھی اپنا بھائی کہہ دیتے ہیں ،یہ نہیں چلے گا اب ! اس کے بعد واضح طور پر ہم نے دنیا میں ایک لکیر کھینچ دی ہے وہ نظریاتی لکیر ہوگی وہ عقیدے کی لکیر ہوگی
آج میرے دینی مدارس پر کیوں دبائو ڈالا جا رہا ہے، عالمی آقائوں کے دبا ئوپر تم ہمارے دینی مدارس پر دبائو ڈال رہے ہو، قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم کے لیے جو نصاب ہم نے متعین کررکھا ہے وہ تمہارے آج نشانے پر ہے ! لیکن یاد رکھو ابھی ہم نے تمہیں نشانے پہ نہیں رکھا ! ہمارے تحمل کا اندازہ لگائیے تم نے مدارس کو نشانے پہ رکھا ہوا ہے ابھی ہم نے فیصلہ نہیں کیا اور جس دن ہم نے فیصلہ کیا خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اللہ کو گواہ بنا کر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ملک چھوڑنے پر تمہیں مجبور نہ کیا تو میں فضل الرحمن نہیں ! تم میرے مدرسے کی ایک اینٹ گرائو گے،تو سنو !
'' تم میرے مدرسے کی ایک اینٹ گرا ئوگے میں تمہارے اقتدار کی پوری عمارت کو زمین بوس کر دوں گا ''
تم سے ملک نہیں سنبھالا جا رہا، بلوچستان تمہارے ہاتھ سے نکل رہا ہے، خیبر پختونخواہ تمہارے ہاتھ سے نکل رہا ہے، وہاں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، مسلح قوتیں اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہیں اپنا رٹ مضبوط کر رہی ہے اور تم لگے ہو اس کے اوپر کہ مدرسے پر پابندی کیسے لگائی جائے ؟ ؟ تم لگے ہو اس بات پر کہ قادیانیوں کو مسلمان کیسے ڈکلیئر کیا جائے ؟ ؟ تم لگے ہو اس بات پر کہ اسرائیل کو تسلیم کیسے کرایا جائے ؟ ؟ تمہارا باپ بھی یہ مقصد پورا نہیں کر سکے گا اور تمہارا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا !
میرے محترم دوستو ! میں نے تو اسمبلی میں بھی کہا تھا کہ یہ جو تم لوگوں سے ٹیکس وصول کرتے ہو یہ قوم عادی ہو چکی ہے اس نے انگریز کو بھی ٹیکس نہیں دیا تھا ، انگریزی نظام کے تسلسل کو بھی یہ لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ہیں ! اور ہم ٹیکس تب دیں گے جب تم ہمیں امن مہیا کرو گے، ہمیں معیشت مہیا کرو گے، ملک کی معیشت تباہ کردی تم لوگوں نے، ملک کا امن و امان تم نے تباہ کر دیا ہے، جب تم مجھے امن نہیں دے سکتے، جب تم مجھے معاش نہیں دے سکتے ،کس بنیاد پر تم مجھ سے ٹیکس لینے کے حقدار بن سکتے ہو ! بات اصول کی ہے بغیر اصول کے ہم بات نہیں کر رہے !
تم میرے عقائد کو مت چھیڑو، تم میرے اسلام کو مت چھیڑو، عقیدہ ختم نبوت پر امت ِمسلمہ کا اتفاق ہے اور سود کے خاتمے پر پوری قوم متفق ہے، وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ کیا، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک آف پاکستان نے اس کے خلاف اپیلیں واپس لیں لیکن کچھ بینکوں نے اپیل دائر کی اور اس پر سٹے(stay) لیا نظر ثانی کے لیے درخواست دی، میں نے چند روز پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے اور میں نے ان کو بتایا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے مختصر فیصلے کے بعد جلد از جلد اپنا تفصیلی فیصلہ دیجیے اور دوسرا یہ کہ جن لوگوں نے سود کی حرمت کے حوالے سے عدالت میں فیصلے دیے ہیں اور اس کے خلاف اپیلیں دائر ہوئی ہیں ان اپیلوں کو فوراً نمٹایا جائے، عدالت نے تمام اداروں کو یہ ہدایات کی ہیں کہ پانچ سال کے اندر اندر اپنے مالیاتی نظام کو سود کی آلائش سے پاک کر دیں پھر کسی بینک کے سٹے کے اوپر کیسے آپ نے اتنا بڑا فیصلہ روکا ہوا ہے ان شااللہ اس کے لیے بھی تحریک چلائیں گے، اس کے لیے بھی ہم میدان میں رہیں گے، سود کا نظام اللہ سے اور اس کے رسول سے براہِ راست جنگ کا نام ہے، کیا کوئی مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کروں ؟ ! کیا کوئی سوچ سکتا ہے اس کا ؟ اور اس ملک میں ستترسال سے ہم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں ، کہاں سے رحمت آئے گی ؟ ! دشمن پر بھی کوئی رحم کرسکتا ہے ؟ !
ان حکمرانوں کی وجہ سے آج ہم مِنْ حَیْثُ الْقَوْم اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں جنگ پہ اترے ہوئے ہیں ، ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں اور اس گناہ کی تلافی کے لیے میں پوری قوم کو متحد ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور ان شااللہ ہماری اگلی تحریک اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہوگی، آپ کا اتفاق رائے ہے ؟ تو ان شااللہ العزیز عقیدہ ختمِ نبوت پر مجلس تحفظِ ختم نبوت جس طرح پہرہ دے رہی ہے ہم اس کے شکر گزار بھی ہیں ! شاید ہم غافل ہوں لیکن یہ فقیر اس قلعے کے دیواروں پر کھڑے ہو کر چوکیداری کر رہے ہیں ، ان شاء اللہ ہم اس تحریک کو آگے بڑھائیں گے اور یہ سلسلہ جلسوں کا چلتا رہے گا،١٤اکتوبر کو'' مفتی محمود کانفرنس'' ان شااللہ سندھ کے شہر میرپور خاص میں ہوگی اور ان شااللہ اسلامیانِ پاکستان اس میں بھی شرکت کریں گے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، اللہ تعالیٰ ہمارے قصوروں کو معاف فرما دے اللہ اپنے عفو و کرم کا معاملہ فرمائے
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن
مسلمان عوام کی نفسیات
٭٭٭
افسوس کہ تم حقیقی اور سچی بات کہنے والوں کو پسند نہیں کرتے ، تم نمائش کے پجاری ، شور وہنگامے کے بندے اور وقتی جذبات کی مخلوق ہو ، تم میں نہ امتیاز ہے نہ نظر ، نہ تم جانتے ہو ، نہ پہچانتے ہو ، تم جس قدر تیز دوڑ کر آتے ہو اتنی ہی تیزی کے ساتھ فرار بھی ہوجاتے ہو ، تمہاری اطاعت جس قدر سہل ، انحراف اتنا آسان ہے ، نہ تمہارے پاس دماغ ہے نہ دل، وسوسے ہیں جن کو تم افکار سمجھتے ہو ،خطرات کو عزائم کہتے ہو ،خدا را بتلا میں تمہارے ساتھ کیا کروں ؟
( مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک خطاب سے اقتباس )
٭٭٭
جمعیة علماء اسلام پنجاب کے صوبائی انتخابات کے موقع پر
شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم
کا مجلس ِ عمومی سے پہلا خطاب
٭٭٭
١٤ ربیع الاوّل ١٤٤٦ھ/ ١٩ ستمبر ٢٠٢٤ء کو جمعیة علماء اسلام پنجاب کی مجلس ِعمومی کا اجلاس جامعہ مدنیہ جدید میں منعقد ہوا اجلاس کی صدارت امیر پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب نے فرمائی ، حلف برداری کے بعد حضرت صاحب نے حاضرین سے مختصر خطاب فرمایا قارئین ملاحظہ فرمائیں ۔ (ادارہ)
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
ہمارے اسلاف و اکابر کے عمل سے ایک بات سامنے آتی ہے جس کی طرف توجہ ہونی چاہیے کہ
'' اَمِیرْ'' کس کو کہتے ہیں '' اَمِیرْ '' کیا ہوتا ہے ؟
امیر کا مطلب '' اَمِیرْ ' ' نہیں ہے '' اَمِیرْ '' کامطلب '' مَامُورْ ''ہے ہر شخص جماعت کا بڑا ہے یا چھوٹا وہ جماعت کی طرف سے '' مَامُورْ '' ہوتا ہے
اَلْمَامُوْرُ بِاُمُوْرِ الْجَمَاعَةِ بِاَمْرِ الْجَمَاعَةِ
کہ جماعت کے کاموں پر مامور کیا گیا ہو جماعت کے حکم سے
تو اصل حاکم اور امیر جماعت ہے افراد مامورہیں ، چاہے کوئی بھی ہو ہمارے پچھلے اکابر کا بھی یہی طریقہ تھا ! لہٰذا امیر کے لفظ سے خوش ہونا اور امیر کے لفظ کی مبارک دینا اور ہار پہنناپہنانا اوراس چیز کو رواج اور دستور بنا لینا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ اِمَارَتْ خطرے کی چیز ہے ! !
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا حضرت عبدالرحمن بن سمرة رضی اللہ عنہ سے یَا عَبْدَالرَّحْمٰنِ لَا تَسْأَلِ الاِمَارَةَ اِمَارَتْ کا سوال مت کرنا فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ مَسأَ لَةٍ وُکِلْتَ اِلَیْھَا اگر تیری طلب اور مطالبہ پر تجھے دی گئی تو اس کے سپردکردیا جائے گا ! ! یہ تیرے گلے پڑجائے گی ،اللہ کی مدد و نصرت تجھ سے ہٹ جائے گی، اللہ کے مقرر کردہ فرشتوں کی طرف سے جو الہام ہوتا ہے یا جو مخلص بندے اللہ کی طرف سے مل جاتے ہیں وہ سب اللہ کی طرف سے ہٹا دیئے جاتے ہیں ! !
وَاِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَ لَةٍ اُعِنْتَ عَلَیْھَا ١ اور اگر یہ بغیرسوال اور مطالبے کے تجھے دی گئی توپھر اللہ کی طرف سے مددکی جائے گی ! !
تو یہ ایک امتحان ہے یہ کوئی خوش ہونے کی چیز نہیں ہے ! جب آدمی کمرہ امتحان میں جاتا ہے تو دنیا میں کہیں بھی کمرہ امتحان میں جانے والے کو ہار نہیں پہنائے جاتے ، خوشی نہیں منائی جاتی ! بلکہ کمرہ امتحان سے جب کامیاب نکلتا ہے تو اس وقت خوشی منائی جاتی ہے ہار پہنائے جاتے ہیں ! !
ہمارا توکمرہ امتحان پانچ سال نہیں ہے بلکہ جو عالم ہے دین کو سمجھتا ہے اس کا کمرہ امتحان پوری دنیا ہے (تا حیات)اور آخری سانس اس دنیا سے نکلنے کے وقت کاجو ہوگا اس آخری سانس کے وقت نتیجہ اس کے ہاتھ میں آتا ہے کہ تو اِدھر والوں میں ہے یا پھر اُدھر والوں میں ہے ؟ ؟ توخوشی کس چیز کی ؟
اس لیے میری درخواست ہے کہ اس موقع پر ہار پہنانا، یہ کم از کم میں اپنے لیے بالکل پسند نہیں کرتا ! !
اگر ہے بھی کسی کا ارادہ توآپ اسے دعا میں بدل دیں ! ہم آپ کی دعاؤں کے محتاج ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کام کی ذمہ داری سے ہمیں اور آپ کو سرخرو کرے ! کیونکہ ہم میں سے ہر ایک مَامُوْر ہے جماعت کی خدمت پر اَمِیرْ کوئی نہیں ہے اصل اَمِیرْ جماعت ہے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے آپس میں اتحاد و اتفاق نصیب فرمائے ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی شفاعت اور ان کا ساتھ نصیب فرمائے
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
١ مشکوة المصابیح کتاب الامارة و القضاء رقم الحدیث ٣٦٨٠
قسط : ٣
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب
( حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رحمة اللہ علیہ )
٭٭٭
قربانی کے ذریعے ایصالِ ثواب :
عباداتِ مالیہ کے ذریعہ ایصالِ ثواب کا ایک واضح ثبوت وہ متعددا حادیث بھی ہیں جن سے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا اپنی آل اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہوتا ہے ان میں سے چند یہ ہیں
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک بار عید الاضحی کے موقع پر ایک اچھے موٹے تازے سینگوں والے مینڈھے کی قربانی کی اور اس کو ذبح کرتے وقت آپ نے کہا
بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ ١
'' اے اللہ اس کو قبول فرما میری طرف سے اور میری آل اور میری امت کی طرف سے ''
اس بارے میں ایک دوسری حدیث حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ان کا بیان ہے کہ ایک عید قربان کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے دو مینڈوں کی قربانی کی اور آیت
( اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ٢
تلاوت فرمانے کے بعد آپ نے اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُّحَمَّدٍ وَّ اُمَّتِہ بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ
کہتے ہوئے ذبح کیا ٣
سنن ابی داود کے علاوہ مسند احمد ،سنن ابن ماجہ اور دارمی میں بھی یہ روایت اسی طرح ہے مشکوة اور سنن ابن ماجہ اور مصنف عبدالرزاق میں حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے
١ صحیح مسلم کتاب الاضاحی ج ٢ ص ١٥٦ رقم الحدیث ١٩٦٧ ٢ سُورة الانعام : ٧٩
٣ ابو داود باب ما یستحب من الضحایا رقم الحدیث ٢٧٩٥
اِنَِّ النَّبِیَّ صلی اللہ عليہ وسلم کَانَ اِذَا اَرَادَا اَنْ یُّضَحِّیَ اِشْتَرٰی کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ اَقْرَنَیْنِ اَمْلَحَیْنِ مَوْجُوْئَیْنِ فَذَبَحَ اَحَدَہُمَا عَنْ مُّحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ الْآخَرَ عَنْ اُمَّتِہ مَنْ شَھِدَ لِلّٰہِ بِالتَّوْحِیْدِ وَلَہُ بِالْبَلَاغِ ۔ ١
'' رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو جب قربانی کرنی ہوتی تو آپ بڑے موٹے تازے سینگوں والے سیاہی مائل سفید رنگ کے دو خصی مینڈھے منگواتے، ایک کی اپنے اور اپنے اہلِ بیت کی جانب سے قربانی کرتے اور دوسرے کی اپنے اُن امتیوں کی طرف سے جو اللہ کی وحدانیت اور آپ کی تبلیغ ِرسالت کی شہادت دیں ''
اس مضمون کی روایات حضرت جابر ،حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ کے علاوہ اور بھی چند صحابہ مثلاً حضرت ابو رافع ، حضرت حذیفہ بن سید غفاری ،حضرت ابو طلحہ انصاری اور حضرت انس بن مالک سے مسند احمد ،مسندابو یعلی ،مصنف ابن ابی شیبہ اور مستدرکِ حاکم وغیرہ میں مروی ہیں ٢
یہ سب روایات اگرچہ بجائے خود بہ اصطلاح محدثین ''اخبار آحاد''ہی ہیں لیکن ان سب کے مجموعے سے اس شخص کو جو علمِ حدیث سے کچھ بھی مناسبت رکھتا ہو اس بات کا اضطراری یقین حاصل ہو جانا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے امت کی جانب سے قربانی فرمائی ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے اس قربانی کا ثواب امت کو بخشا ہے۔
اس کے متعلق بعض منکرین کا یہ دعویٰ کرنا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی خصوصیت تھی محض بے دلیل دعویٰ ہے کسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی خصوصیت قرار دینے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے اور یہاں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ سنن ابی داود اور جامع ترمذی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ وہ آپ کی طرف سے قربانی کیا کریں چنانچہ حضرت علی کا معمول تھا کہ وہ عید قربان پر ایک مینڈھے کی قربانی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف سے کیا کرتے تھے !
١ فتح الباری پارہ ٢٣ ص ٣٢٦ طبع ہند
٢ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتح المُلہم شرح صحیح مسلم ج ٣ ص ٣٨
اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی دوسروں کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں ورنہ اگر قربانی کے ذریعے دوسروں کو ثواب پہنچانا حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی خصوصیت ہوتی تو آپ حضرت علی کو اس کی وصیت نہ فرماتے !
بعض منکرین اس روایت کے بارے میں کہا کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ قربانی حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف سے اس لیے صحیح تھی کہ وہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی وصیت سے تھی تو وہ گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نہیں بلکہ آپ ہی کا فعل تھا ١ لیکن یہ صریح مغالطہ ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اس کام کے لیے کوئی رقم تو جمع کی ہی نہیں تھی پس آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا فعل صرف وصیت ہے اور قربانی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل ہے اور بحث اس قربانی ہی کے اجر و ثواب میں ہے پس یہ قربانی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف سے اپنے مال سے کرتے تھے جب ہی صحیح ہو سکتی ہے جبکہ اصولاً اس کو تسلیم کر لیا جائے کہ ایک کے صدقہ اور ایک کی قربانی کا ثواب اور نفع دوسرے کو پہنچ سکتا ہے ! !
ورنہ اگر یہ اصول نہ مانا جائے جیسا کہ ہمارے مخالفین کا خیال ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی ہی غلط ہوگی بلکہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی وصیت بھی غلط ہو گی ۔ بہرحال یہاں یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ وصیت نے یہاں ایصالِ ثواب کو صحیح نہیں کیا ہے بلکہ یہ وصیت ہی'' ایصالِ ثواب'' کی بنیاد پر صحیح ہوسکتی ہے ! ( تَأَمَّلُوْا فَاِنَّ الْفَرْقَ دَقِیْق )
بہرحال مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی قربانی کی یہ وصیت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دائمی عمل اس امر کا ثبوت ہے کہ ہم دوسروں کی طرف سے
١ یہاں ایک دلچسپ قابلِ ذکر لطیفہ یہ ہے کہ بعض منکرین کے سامنے جب یہ حدیث پیش کی گئی تو انہوں نے یہی کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چونکہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی وصیت تھی اس لیے وہ گویا حضور صلی اللہ عليہ وسلم ہی کا عمل ہوا اور اس لیے اس کا ثواب آنحضرت کو ملنا صحیح ہے لیکن یہ کہنے کے باوجود اس کے قائل نہیں ہوئے کہ اس طرح اگر آج کوئی مرنے والا اپنے کسی عزیز کو ایصالِ ثواب کی وصیت کرجائے اور وہ صدقہ وغیرہ سے ایصالِ ثواب کرے تو یہ ثواب اس مُردے کو پہنچے گا !
مالی عبادات کر سکتے ہیں یعنی اپنے صدقات و قربانی وغیرہ دوسروں کو بخش سکتے ہیں بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے لیے بھی کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف سے بہت سے اعمالِ خیر کیے مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف سے متعدد عمرے کیے ! ١
نیز آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے سوا دوسروں کی جانب سے بھی اس قسم کے اعمالِ خیر کرنے کا ثبوت صحابہ کرام سے ملتا ہے علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ عمدة القاری شرح بخاری میں ناقل ہیں :
قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ وَقَدْ ثَبَتَ عَنْ عَائِشَةَ اَنَّھَا اعْتَقَتْ عَبْدًا عَنْ اَخِیْھَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ وَکَانَ مَاتَ وَلَمْ یُوْصِ۔ ( عمدة القاری ج ١٤ ص ٥٥ )
'' امام حدیث ابن المُنذِر کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ چیز پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کی وفات کے بعد ان کی طرف سے بغیر ان کی کسی وصیت کے ایک غلام آزاد کیا''
نیز اسی عمدہ (شرح بخاری) میں علامہ عینی ایک دوسری جگہ مُحدث ابن ماکُولا کی تخریج سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ
اَنَّہ قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم فَقُلْتُ اِنَّا نَدْعُو١ لِمَوْتٰنَا وَ نَتَصَدَّقُ عَنْھُمْ وَ نَحُجُّ فَھَلْ یَصِلُ ذٰلِکَ اِلَیْہِمْ فَقَالَ اِنَّہ یَصِلُ اِلَیْھِمْ وَ یَفْرَحُوْنَ بِہ کَمَا یَفْرَحُ اَحَدُکُمْ بِالْھَدْیَةِ ۔ ( عمدة القاری ج ٨ ص ٢٢٢ )
''میں (انس رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم اپنے مُردوں کے لیے جو دعائیں کرتے ہیں اور جو صدقہ خیرات یا حج ان کی جانب سے کرتے ہیں تو کیا یہ ان کو پہنچ جاتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا ہاں پہنچتا ہے اور جس طرح تم لوگوں کو کوئی ہدیہ پاکر خوشی ہوتی ہے اسی طرح تمہارے ان تحفوں سے تمہارے ان مُردوں کو خوشی حاصل ہوتی ہے''
١ فتح المُلہم ج ٣ ص ٣٩
ان تمام احادیث سے جو یہاں تک درج کی گئیں کتنے واضح طور پر ثابت ہے کہ مالی عبادات ،صدقات و خیرات اور قربانی وغیرہ اگر مُردوں کی طرف سے ہی کی جائیں تو یہ شرعاً درست ہے ان سے مُردوں کو نفع اور ثواب ہونا برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے صحابہ کو یہ بتلایا اور آپ کی تعلیم کے مطابق صحابہ نے اس پر عمل کیا عہد نبوی میں بھی اور اس کے بعد بھی ! !
٭
صدقات و خیرات وغیرہ مالی عبادات کا ثبوت مُردوں کو بخشنے اور اس سے ان کو نفع پہنچنے کا یہ ثبوت چونکہ نہایت واضح اور غیر مشکوک ہے اسی لیے جن ائمہ سلف کو بدنی عبادات، نماز ،روزہ، تلاوتِ قرآن مجید وغیرہ سے ایصالِ ثواب میں کلام بھی ہے وہ بھی مالی عبادات میں قائل ہیں ۔ بہرحال کم ازکم مالی عبادات کی حد تک یہ مسئلہ ہمیشہ سے جمہور امت میں متفق علیہ رہا ہے۔ امام مسلم نے اپنی ''صحیح ''کے مقدمہ میں امت کے جلیل القدر امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ابو اسحاق طالقانی نے جب ان سے مشہور حدیث اِنَّ مِنَ الْبِرِّ اَنْ تُصَلِّیَ لِاَبَوَیْکَ مَعَ صَلٰوتِکَ وَ تَصُوْمَ لَہُمَا مَعَ صَوْمِکَ کے متعلق سوال کیا تو اس کی اسناد میں انقطاع ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو تو انہوں نے مجروح قرار دیا ١ مگر ساتھ ہی فرمایا وَلٰکِنْ لَّیْسَ فِی الصَّدَقَةِ اِخْتِلَاف یعنی صدقہ کے ذریعے ایصالِ ثواب کرنا متفق علیہ ہے جس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے اہلِ علم جانتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مبارک کی طرف سے اجماع کی یہ شہادت کتنا وزن رکھتی ہے ! امام نووی حضرت عبداللہ بن مبارک کے اس قول کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
١ اس حدیث کو ابو اسحاق نے شہاب بن خراش سے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کیا ہے آگے حجاج بن دینار اس کو براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے روایت کرتے ہیں حالانکہ وہ اتباعِ تابعین میں سے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے درمیان کم از کم دو واسطے ضرور ہوں گے بس یہی وہ علت ہے جس کا نام محدثین کی اصطلاح میں انقطاع ہے اور عبداللہ بن مبارک نے اسی وجہ سے اس حدیث کو ناقابلِ احتجاج قرار دیا ہے ۔
مَعْنَاہُ اَنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ لَا یُحْتَجُّ بِہ وَلٰکِنْ مَنْ اَرَادَا بِرَّ وَالِدَیْہ فَلْیَتَصَدَّقْ عَنْھُمَا فَاِنَّ الصَّدَقَةَ تَصِلُ اِلَی الْمَیِّتِ وَ یَنْتَفِعُ بِھَا بِلَا خِلَافٍ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ ١
''اس کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث کے متعلق ابو اسحاق نے سوال کیا وہ تو قابلِ احتجاج نہیں ہے لیکن جو کوئی اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ وہ ان کی طرف سے صدقہ خیرات کرے کیونکہ صدقہ کا ثواب اور نفع موتیٰ کو پہنچنے میں اہلِ اسلام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے'' (جاری ہے)
انتقال پر ملال
٭٭٭
٢٩ جولائی کو جامعہ مدنیہ جدید کے جریدہ ماہنامہ انوارِ مدینہ کے سرکولیشن منیجر مولانا محمد صدیق صاحب بلتستانی کے ماموں حاجی محمد بشیر صاحب طویل علالت کے بعد سکردو بلتستان میں وفات پاگئے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحوم کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
١ نووی شرح مقدمہ مسلم ص ١٢
امیرجمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا انعام اللہ صاحب ، ناظم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٧ ستمبر بروز ہفتہ پچاس سالہ گولڈن جوبلی تحفظ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے ملک بھر سے قافلے مختصر قیام کے لیے جامعہ مدنیہ جدید ٹھہرے ان تمام قافلے والوں کے قیام و طعام کا انتظام امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب کی خصوصی ہدایت پر کیا گیا تھا ! !
امیر پنجاب کی رہائشگاہ پر ان کے شاگردوں اور محبین کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ، حضرت نے سب کو خوش آمدید کہا اور حال احوال کے بعد کثیر تعداد میں لوگوں نے دوپہر کھانا تناول فرما یا ! !
٧ ستمبر بروز ہفتہ بعد نمازِ مغرب امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب پچاس سالہ تحفظِ ختم نبوت گولڈن جوبلی میں شرکت کی غرض سے مینارِ پاکستان لاہور تشریف لے گئے ! !
٨ ستمبر بروز اتوار قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کی سربراہی میں مرکزی مجلس عاملہ وصوبائی امراء ونظماء واراکین قومی اسمبلی وسینٹ کا اہم اجلاس جامعہ مدنیہ جدید میں منعقد ہوا ! اجلاس کی کار روائی شام چار بجے امیر پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب کی رہائشگاہ پر شروع ہوئی اجلاس کے ایجنڈے میں مینارِ پاکستان جلسے کی کار گزاری جلسے کی کامیابی پر اظہارِ تشکر ملکی حالات پر ایک نظر اور ساتھ ہی جماعت کے اندرونی انتخابات کی تاریخوں کے حوالے سے مشاورت ہوئی بعد ازاں اجلاس کے اختتام پر قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم اور اراکین مرکزی مجلس ِ عاملہ خانقاہِ حامدیہ میں رات کا کھانا تناول فرماکر واپس تشریف لے گئے، والحمد للہ
١٥ ستمبر بروز اتوار جمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کی عمومی مجلس کا دستوری انتخابی اجلاس ضلعی امیر حضرت مولانا محب النبی صاحب کی سربراہی میں جامعہ مدنیہ جدید میں منعقد ہوا ، اجلاس کی نگرانی صوبائی ناظمِ انتخاب جناب نور خان ہانس صاحب ایڈوکیٹ اور صوبائی معاونین محمد یوسف صاحب حنفی اور مولانا حذیفہ صاحب نے اتفاق رائے سے مولانا محب النبی صاحب کو امیر ضلع لاہور اور حافظ عبدالرحمن صاحب کو ناظمِ عمومی لاہور منتخب کیا ! !
جمعیة علماء اسلام کی صوبائی مجلس عمومی کا اجلاس مؤرخہ ١٤ ربیع الاوّل ١٤٤٦ھ/ ١٩ ستمبر ٢٠٢٤ء بروز جمعرات جامعہ مدنیہ جدید میں منعقد ہوا ، اجلاس کی صدارت امیر پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب نے فرمائی اور صوبائی مجلس عمومی کے انتخابی اجلاس کے انتظامات صوبائی ناظم انتخاب جناب محترم محمد نور خان صاحب ہانس ایڈوکیٹ نے کیے اور اجلاس کی نگرانی مرکزی ناظمِ انتخاب مولانا عطاء الحق درویش صاحب جبکہ ان کی مرکزی معاونین مولانا ناصر محمود صاحب مانسہرہ اور حاجی جلیل جان صاحب پشاور نے کی ، صوبائی مجلس ِ عمومی نے آئندہ پانچ سال کے لیے شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب کو بھاری اکثریت سے امیر پنجاب اور مولانا حافظ نصیر احمد صاحب احرار کو ناظمِ عمومی صوبہ پنجاب منتخب کیا ،اجلاس کے اختتام پر جمعیة علماء اسلام پاکستان کے مرکزی ناظمِ انتخابات مولانا عطاء الحق درویش صاحب نے نومنتخب امیر اور جنرل سیکرٹری سے حلف لیا، خواجہ خلیل احمد صاحب خانقاہ سراجیہ کندیہ شریف کے سجادہ نشین کے اختتامی کلمات اور دعاء پر اجلاس اختتام پزیر ہوا ! !
انتخابات میں صوبہ بھر کے تمام اراکین عمومی اور علماء کرام و مشائخ عظام سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے بھرپور شرکت کی ! اجلاس کے اختتام پر صوبائی مجلس عمومی کے اراکین کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا بعد ازں تمام اراکین اپنے اپنے اضلاع کی طرف روانہ ہوگئے والحمد للّٰہ
٢٧ ستمبر کو جمعیة علماء اسلام ضلع ملتان کے سیکرٹری جنرل جناب محمد نور خان صاحب ہانس ایڈووکیٹ جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب سے ملاقات کی اور امیر پنجاب منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی، صوبہ پنجاب کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا ، بعد ازاں رات کا کھانا خانقاہ حامدیہ میں تناول فرماکر واپس تشریف لے گئے۔
٢٧ ستمبر کو بعد نمازِ عشاء جمعیة علماء اسلام پنجاب کے جنرل سیکرٹری مولانا نصیر احمد صاحب احرار، جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اورامیر پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب سے ملاقات کی اور جمعیة علماء اسلام پنجاب کی تشکیلِ نو کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔
٢٨ ستمبر کو بعد نمازِ ظہر جمعیة علماء اسلام کے شعبہ مالیات کے سابق ناظم مولانا عبدالخالق صاحب جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور امیرِ پنجاب سے ان کے رہائشگاہ پر ملاقات کی۔
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد شارع رائیونڈ لاہور )
٭٭٭
١٦ ستمبر بروز پیر بعد نمازِ عشاء جامعة الرشید کراچی سے اساتذہ کرام اور طلباء جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے، بعد ازاں وفد کے اصرار پر شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے ''اسلام میں جہاد اور سیاست'' کے موضوع کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان فرمایا اور اساتذہ کرام کو ان کی فرمائش پراجازت ِ حدیث عنایت فرمائی ! تمام مہمانوں کا جامعہ ہذا کی طرف سے قیام و طعام کا اہتمام کیا گیا تھا والحمد للّٰہ اگلے روز بعدنمازِ فجر حضرت مہتمم صاحب سے اجازت لے کر تمام حضرات رخصت ہو گئے !
٢٤ ستمبر کو بعد نمازِ مغرب فاضل ِجامعہ مولانا اشرف علی صاحب ایرانی کے ماموں زاد بھائی محمد اسحاق صاحب ایرانی جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب سے ملاقات کی اور خانقاہِ حامدیہ میں رات کا کھانا تناول فرماکر واپس تشریف لے گئے۔
مؤرخِ ملت مجاہد فی سبیل اللہ حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ
کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
٭٭٭
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat2.php
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079142) MCB کریم پارک برانچ لاہور
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.