jamiamadniajadeed

حدیث '' قرآن کی شرح ہے''

درس حدیث 251/9 ۔۔۔۔۔ ''حدیث '' قرآن کی شرح ہے ! لوگوں کی آسانی کے لیے'' فقہ'' مرتب کی گئی ! ! جب نبی سے محبت ہوگی تو سنت پر عمل آسان ہوجائے گا اگر جہاد پر مال اَولاد کی محبت کو ترجیح دی تو ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا میدانِ جنگ ...... ہنسنا مسکرانا
(1987-06-14)

( ستمبر 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث کا سلسلہ وار بیان ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک با قاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''حدیث '' قرآن کی شرح ہے ! لوگوں کی آسانی کے لیے'' فقہ'' مرتب کی گئی ! !
جب نبی سے محبت ہوگی تو سنت پر عمل آسان ہوجائے گا
اگر جہاد پر مال اَولاد کی محبت کو ترجیح دی تو ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا
میدانِ جنگ ...... ہنسنا مسکرانا
( درس حدیث 251/9 ١٧ شوال المکرم١٤٠٧ھ/١٤ جون ١٩٨٧ء )
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی علامت بتلائی ارشاد فرمایا لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہ وَ وَلَدِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ١ تم میں سے کوئی بھی پورا مومن نہیں ہوگا حتی کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے ماں باپ سے بھی اور اُس کی اَولاد سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں اور سب کے سب جتنے بھی لوگ ہیں اُن سب سے زیادہ میں اُس کے نزدیک محبوب ہوں ۔
اگر یہ حالت ہو گئی ہے تو ایمان کامل ہوگیا اگر یہ حالت نہیں ہے تو ایمان کامل نہیں ہے۔
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٧
قرآنِ پاک میں اِرشاد فرمایا گیا( قُلْ اِنْ کَانَ آبَآئُکُمْ وَاَبْنَآئُکُمْ وَاِخْوٰنُکُمْ وَاَزْوٰجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَموَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَة تَخْشَوْنَ کَسَادَ ھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ ) ١ آپ اِنہیں یہ بتا دیجیے اگر تمہارے ماں باپ اَبْنَائْ بیٹے اِخْوَانْ بھائی اَزْوَاجْ بیویاں عَشِیْرَة گھرانہ خاندان قبیلہ ،مال جو جمع کیا ہے اُس کا خیال رہتا ہے ہر وقت، تجارت جس کا اَندیشہ ہوتا ہے کہ ہم اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں لگ گئے تو تجارت میں نقصان ہوجائے گا ، گھر ہے آرام دہ ہے گھر کا آرام چھوڑنا گرمیوں میں بھی مشکل ہے سردیوں میں بھی مشکل ہے لیکن اگر یہ چیزیں تمہیں زیادہ محبوب ہیں اللہ اور رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد سے (تو اِس عیش پرستی اور تن آسانیوں میں پڑے رہنے کی وجہ سے اللہ کی طرف سے آنے والی سزا اور ذلت والی زندگی کا اِنتظار کرو)۔
'' جہاد فی سبیل اللہ'' جو ہے وہ بڑا ہی مشکل کام ہے صرف خدا کے لیے لڑے، نام و نمود بالکل نہ ہو، اپنی(ذاتی خواہشات کی) بندش پہلے بہت سخت کہ بہادری دکھانا مقصد نہیں ہے، خاندان کا نام، قبیلے کا نام ،علاقے کا نام یہ مقصود نہیں ہے ! اپنی ذات کی نفی کی جائے ! اپنے جو علائق ہیں جو اِنسان سے چمٹے ہوئے ہیں لالچ ہے کسی قسم کا کہ جہاد کریں گے تو مالِ غنیمت ملے گا وہ بھی نہ ہو تمام چیزوں کی نفی ہو پھر جہاد ہو ! تو جہاد ہے ! !
جہاد کا تصور :
خدا کی راہ میں جہاد کا تصور قرآنِ پاک اور حدیث اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں یہی رہا ہے جو میں عرض کر رہا ہوں وہ نکلتے تھے لڑتے تھے واپس آیا کوئی تو ٹھیک ! نہیں آیا تو ٹھیک ! نہیں آیا تو جنت میں گیا ! دُنیا میں نہیں آخرت میں ملے گا ! اُن کے پیش ِنظر آخرت بہت زیادہ تھی خاتمہ اچھا ہو گیا خدا کی راہ میں جہاد کے لیے گیا تھا اور شہید ہو گیا تو کوئی بات نہیں کیونکہ ہمارا اپنا بھی
١ سُورة التوبة : ٢٤
تو کوئی پتہ نہیں کہ کتنے عرصے رہنا ہے اور حسن ِخاتمہ اُسے نصیب ہو گیا شہید ہونا نصیب ہو گیا خدا کی راہ میں اِس سے بڑی سعادت کیا ہے یہ اُن کا ذہن بن گیا تھا ! ! !
صدمہ بھی، برداشت بھی :
یہ مطلب نہیں ہے کہ اُنہیں صدمہ ہی نہیں ہوتا تھا کسی کے مرنے کا یا کسی کے شہید ہونے کا یہ بات بھی نہیں ہے صدمہ بھی ہوتا تھا مگر برداشت بھی ہوتی تھی۔ آپ اپنے دلوں کو دیکھ لیں جتنے لوگ اِسلام سے، تعلیم سے تھوڑے بہت واقف ہوگئے ہیں اُن کا حال یہی ہے کہ اُن کے عزیز کا اگر اِنتقال ہو اور اچھی حالت میں ہو تو اُنہیں ایک طرح کی تسلی رہتی ہے کہ موت تواِس کی اچھی ہوئی ہے ! اور دُوسری طرح کا غم بھی ہوتا ہے اور وہ شدید ہوتا ہے وہ یہ کہ اب مِل ہی نہیں سکتے زندگی بھرکوئی طریقہ نہیں کہ ملاقات ہو جائے اُس سے ! یہ غم بھی اپنی جگہ درست ہے اور وہ سہارا بھی اپنی جگہ درست ہے وہ سہارا یہ ہے کہ موت اچھی ہوئی ہے اُس کی ! تو اِن حضرات کو یہ سہارا بہت زیادہ تھا اور اپنی موت کو وہ بالکل برا نہیں سمجھتے تھے، اپنی موت کے لیے جہاد میں جو بھی جاتے تھے تیار رہتے تھے ! ! !
میدانِ جنگ میں ہنسنا مسکرانا :
مشکوة شریف ہی ہے یہ، اِس کے آخر میں آتا ہے کہ ایسے لوگ کہ جو میدانِ جنگ میں ہو ں اور ہنس بھی رہے ہوں یہ دیکھنے میں ہی نہیں آیا سوائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کہ میدانِ جنگ میں ہوتے تھے جہاں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کس سیکنڈ اِنتقال کر جائے آدمی، کس سیکنڈ کو ئی تیر آکر لگ جائے اور وہ ختم ہوجائے ! وہاں باتیں کرتے تھے اور ہنسی کی بات ہوتی تھی یامسکراہٹ کی تو مسکراتے بھی تھے ہنستے بھی تھے ،اِس کا مطلب یہ ہے کہ میدانِ جنگ اُن کے لیے اگرچہ موت کا بازار ہوتا ہے مگر وہ اِسے موت کا بازار ہی نہیں سمجھتے تھے وہ اِسے جنت الخلد کا راستہ سمجھتے تھے ! ! !

حضرت خالد کی اِیرانی جرنیل کو دھمکی :
اور آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ حضرت خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ نے ایک ایرانی بڑے سردار نواب کو جو جنرل تھا اُس کو جواب لکھوایا تھا کہ
''یا تو تم یہ کرو اور نہیں تو میں ایسے لوگوں کو لاؤں گا کہ جن کو موت اِتنی محبوب ہے کہ جتنی تمہیں شراب محبوب نہیں ہے '' ! ! !
جتنی شراب کی تمہیں محبت ہے اُس سے زیادہ اُنہیں موت سے محبت ہے یعنی بے معنٰی موت مراد نہیں ہے بلکہ مطلب یہ کہ جہاد والی موت(اُن کو بہت محبوب ہے)۔
جانی نقصان بہت ہی کم ،تُرکوں کے خیالات :
تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے راستے کھولے جانی نقصان بہت کم ہوا، کہیں کہیں بہت زیادہ ہوتا رہا ہے یہ ٹھیک ہے لیکن جتنی فتوحات ہوئی ہیں اُس کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ سب کم ہے بہت ہی کم بلکہ ترکی کا علاقہ جو اَب ہے ترکی شمار ہوتا ہے اور یہ لبنان وغیرہ کا شمال کا علاقہ مشرقی علاقہ یہ جب فتح ہو رہا تھا تو ترکی لوگوں کا خیال یہ تھا کہ مسلمان تو مرتے ہی نہیں ہیں ! کیونکہ کوئی شہید ہی نہیں ہوا علاقہ فتح ہوجاتا شہید کوئی نہیں ہوتا ! حتی کہ اُنہوں نے ایک مسلمان آدمی کو اچانک کہیں دیکھا اور اُس پر ٹوٹ پڑے حملہ کیا اُن کو شہید کردیا ! ! پھر دیکھتے رہے کہ سچ مچ ان کا اِنتقال ہو گیا ہے سچ مچ یہ مرگئے ہیں جب اُن کی وفات دیکھ لی پھر اُنہیں انداز ہو ا ہے کہ مسلمان مرتے ہیں اِن کو جنگ میں مارا جا سکتا ہے ! ! ! پھر وہ کہیں ڈٹ کر لڑے ہیں ورنہ وہ ڈٹ کر نہیں لڑتے تھے ویسے ہی ہتھیار ڈال دیتے تھے یا بھاگ جاتے تھے ! اور اگر لڑے بھی تھے کہیں تو نقصان ہی ہوا تھا اُنہیں ! تو خدا کی تائید ہے یہ ! اور جب کوئی آدمی جہاد پر جائے تو یہ نہیں ہے کہ مر ہی جائے ضرور بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جہاد پر جائے اَوّل سے آخر تک میدانِ معر کہ میں رہے اور نہیں لکھی ہے اُس کی موت تو کچھ بھی نہیں ہوگا، ایسی مثالیں موجود ہیں حضرت خالد رضی اللہ عنہ بھی فرما تے تھے کہ مجھے تو پسند تھی شہادت کی موت اور اُن کی ساری عمر کا حصہ جذبہ اور شوق بس یہی جہاد ہو گیا تھا۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو یرموک کے معرکے میں چوٹ لگی تھی تو وہ زخم بھراہی نہیں تھا وہ خلا رہا کمر میں ، اُن کی چھوٹی عمر کے بیٹے ہیں یعنی اُن کی آخری عمر میں جو پیدا ہوئے ،صحابی نہیں ہیں اُن کا نام عُروة ہے بہت بڑے عالم گزرے ہیں مدینہ منورہ کے ،وہ بتلاتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تووہ نظر آتے تھے تو میں اُن میں اُنگلیاں ڈال ڈال کر کھیلتا رہتا وہ زخم وہ تھے جو یرموک میں اُن کو آئے تھے۔ تو اِس طرح سے جہاد جو ہے بڑا مشکل کام ہے قرآنِ پاک میں آگیا ہے یہ۔
''حدیث ''قرآن کی شرح ہے :
تو حدیث شریف کایہی قاعدہ ہے کہ جتنی بھی حدیثیں ہم تک پہنچی ہیں خدا کا شکر ہے اِن سب حدیثوں کی مطابقت ہے قرآنِ پاک سے ! قرآنِ پاک میں جو آیا ہے اَحادیث میں اُس کی شرحیں جیسے ہوجاتی ہیں یہ نہیں ہے کہ قرآنِ پاک میں کچھ آیا حدیث میں اُس کے خلاف آگیا ہو، ایسے نہیں ہے ! !
یہاں سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے اِرشاد فرمایا کہ اگر کوئی یہ جانچنا چاہے کہ میرا ایمان کتنا ہے تو فرمایا کہ میں اُس کے نزدیک محبوب ہوجاؤں اُس کے باپ سے بھی اور اُس کی اَولاد سے بھی ،باپ سے محبت تو بچے کو رہتی ہی رہتی ہے جب تک خود اُس کے بچے نہ ہوں تو ماں باپ ہی ہیں اُس کی نظر میں ، سب سے زیادہ یہ محبوب ہوتے ہیں ، جب شادی ہوگئی تو کسی کی اولاد ہوتی ہے کسی کی نہیں ہوتی لیکن ماں باپ تو ہیں (مطلب یہ ہے کہ ہر اِنسان کے والدین ہوتے ہیں لیکن بچے ہر ایک کے ہونے ضروری نہیں ) تو اِس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں پہلے ماں باپ کا ذکر ہے پھر بعد میں اولاد کا ذکر ہے ! اگرچہ اولاد کی محبت اتنی ہوجاتی ہے کہ جس میں ماں باپ کی(محبت) پیچھے چلی جاتی ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ماں باپ کی کم ہوگئی مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کی اولاد کی محبت اس قسم کی ہے کہ جس کی وجہ سے اِن کی طرف زیادہ ذہن رہتا ہے آدمی کا اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماں باپ سے زیادہ اولاد کی(محبت) ہوجاتی ہے۔
اہم نکتہ :
اچھا کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے کہ اولاد سے بھی زیادہ کسی اور سے ہوجاتی ہے جیسے اللہ والوں سے ہوجائے ،ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی ماہر فن سے ہوجائے بس اُس کے کہنے کے مطابق چلتا ہے اور سب کچھ چھوڑ بیٹھا ہے گھر بار بھی چھوڑ کر نکل گیا تو کسی فرد سے بھی ہو سکتی ہے مرد سے ہو سکتی ہے عورت سے ہوسکتی ہے تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے لیے تیسرا جملہ ارشاد فرمایا کہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ یوں سمجھ لو کہ ہر آدمی سے جتنے بھی ہیں جس قسم کے بھی ہیں سب سے زیادہ میں محبوب ہوں ۔
جب آپ سے محبت ہوگی تو سنت پر عمل آسان ہو جائے گا :
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنے دل میں جو آدمی پائے گا تو آپ یہ بتائیے کہ اُس کے نزدیک سنت پر عمل کرنا کتنا ضروری ہوجائے گا اور سنت سے ہٹنا کتنا اُسے برا لگے گا جب اُس کا حال خود یہ ہو گیا تو اُس میں علامتیں پائی جائیں گی کہ واقعی اسے محبت ہو گئی ہے تو پھر اُس کے نزدیک سنت محبوب تر ہوجائے گی ! وہ یہی پوچھتا پھرے گا کہ سنت کیا ہے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اِرشاد فرمایا ہے اُس کی رُو سے سنت کیا بنتی ہے میں اُس پر چلتا ہوں اُس پر عمل کرتا ہوں ! ! !
اعمال میں درجہ بندی :
توجو علمائے کرام گزرے ہیں جنہوں نے دین کو دیانت داری کے ساتھ محفوظ رکھا اور ہم تک پہنچایا ہے اُنہوں نے تمام چیزوں کی تقسیم کردی ہے کہ فلاں چیز سنت فلاں چیز مستحب ! !
یعنی جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر لی ہے وہ'' سنت ''ہے۔
اور جو آپ کے سامنے کی گئی ہے آپ نے اُسے منع نہیں فرمایا وہ ''جائز'' ہے۔
آپ کے سامنے کی گئی ہے پسند فرمایا ''مستحب ''ہے سنت بھی کہا جا سکتا ہے۔
آپ نے خود عمل کیا ہے چھوڑا نہیں ہے کبھی بھی اُس کو کہیں گے ''واجب'' ہے یہ ہمارے لیے
واجب کہلائے گی۔
اور جسے آپ نے فرمایا دیا کہ یہ کرنا ضرور ہے یہ فرض ہے تمہارے اُوپر بس وہ'' فرض'' ہے ۔
''فقہ'' دین کا ترتیب وار خلاصہ :
علمائے کرام نے بڑی محنت کی بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں اُصول بنائے جانچا پرکھا اور پھر تمام چیزیں مرتب ہو گئیں اور یہ سب چیزیں فقہ میں ملتی ہیں ۔ اُنہوں نے یہ کیا کہ اِتنی لمبی بحثوں میں پڑنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے تو اُنہوں نے اُس میں سے نکال کر فقہ میں خلاصہ لکھ دیا کہ سنت یہ ہے کہ ایسے کرو اور سنت یہ ہے کہ ایسے کرو۔ اب اُس کی تلاش کرے اگرکہ بھئی حدیث کہاں ہے تو حدیثیں مل جائیں گی وہ حدیثیں تلاش کرنے کے لیے الگ پڑھاتے ہیں کتابیں حدیث کی اُن میں وہ حدیثیں ملتی ہیں باقی آسان اگر لِسٹ دریافت کرنی چاہے کوئی تو وہ فقہ کی کتابوں میں موجود ہے ۔
تو علامت کیا ہے ؟ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ'' حب ِرسول ''علامت ہے یعنی اِتباعِ رسول کرے ،یہ اُنہوں نے ترجمة الباب یعنی سرخی بنائی ہے ایک باب کی اور آیت یہ لائے ہیں (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ)اگر تمہیں خدا سے محبت ہے تو میری پیروی کروتو اس سے بڑا نجات کا اور خدا کے مقرب ہونے کا راستہ کوئی بھی نہیں ہے کہ آپ تمام عادات میں تمام چیزوں میں سنت کی پیروی کی کوشش کریں ،شمائلِ ترمذی کا مطالعہ کریں اُس کو دیکھیں اُس کا ترجمہ بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات ِ طیبہ بھی اُس میں ہیں اُس کا مطالعہ بکثرت کریں اُن نقوش پر چلنا اتباعِ شریعت کرنا یہ خداوند ِقدوس کا قرب بڑھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِخلاص دے ایمان دے معرفت دے عمل کی توفیق دے قبول فرمائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔اختتامی دُعا ...............

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.