jamiamadniajadeed

زیادہ کام'' زبان'' انجام دیتی ہے

درس حدیث 252/8 ۔۔۔۔۔ زیادہ کام'' زبان'' انجام دیتی ہے پھر'' ہاتھ''۔جھوٹا اِلزام لگانے والے کوسزا دی جا سکتی ہے گالی گلوچ کا معاشرہ بے غیرتی کی علامت ہے غیرت مند عرب اور افغانوں نے اپنے اُوپر انگریز کو حکمرانی نہیں کرنے دی
(1987-06-21)


( اگست 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث کا سلسلہ وار بیان ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک با قاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
زیادہ کام'' زبان'' انجام دیتی ہے پھر'' ہاتھ''۔جھوٹا اِلزام لگانے والے کوسزا دی جا سکتی ہے
گالی گلوچ کا معاشرہ بے غیرتی کی علامت ہے
غیرت مند عرب اور افغانوں نے اپنے اُوپر انگریز کو حکمرانی نہیں کرنے دی
( درس حدیث 252/8 ٢٤ شوال المکرم ١٤٠٧ھ/٢١جون ١٩٨٧ء )
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی شان بتلائی ہے کہ اُس کا حال یہ ہونا چاہیے کہ دُوسرے مسلمان اُس کی ''زبان'' اور اُس کے'' ہاتھ'' سے محفوظ رہیں ، نہ زبان سے تکلیف پہنچائے نہ ہاتھ سے
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہ وَیَدِہ ١
حدیث شریف میں ''زبان ''کا لفظ پہلے ہے'' ہاتھ'' کا لفظ بعد میں ہے کیونکہ اِنسان دُوسرے کو ہاتھ سے تکلیف پہنچادے اِس پر کسی کو قدرت ہوتی ہے کسی کو نہیں ہوتی، کوئی زیادہ مضبوط آدمی ہے تو کمزور آدمی اُس پر ہاتھ کیسے اُٹھا سکتا ہے کیسے اُسے ہاتھ سے تکلیف پہنچا سکتا ہے البتہ زبان سے پہنچا سکتا ہے توزبان سے ضعیف آدمی بھی تکلیف پہنچا سکتا ہے اس واسطے زبان کو مقدم ذکر فرمایا ۔
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٦
دُوسری بات یہ ہے کہ زبان سے تکلیف پہنچانے نہ پہنچانے کی طرف توجہ نہیں ہوتی اِنسان کی، کہتا ہے کہ میں نے یہ بات ہی تو کہی ہے ! یعنی کیا تو کچھ نہیں حالانکہ یہ بات نہیں ہے بات پر بھی گرفت ہے کسی پر اِتہام لگا دے اسلام نے بتایا یہ گرفت کے قابل ہے اِفتراء پردازی بہتان تراشی یہ قابلِ تعزیر ہے اس پر سزا دی جا سکتی ہے اگر قانون اِسلامی ہو۔
یہاں سارے اسلام کے دُشمن ہیں !
اور اللہ تعالیٰ لائے اُسے قدرت ہے کہ وہ یہاں اِسلامی قانون لائے اگرچہ سارے کے سارے چوٹی سے اَیڑی تک سر سے پاؤں تک اُوپر سے نیچے تک مسلمان ہی کہلاتے ہیں مگر اسلامی قانون کے دُشمن ہیں اِن کے دل میں اسلامی قانون سے نفرت اُس کی حقارت اُس کا ڈر بیٹھا ہواہے باقی اللہ کو قدرت ہے کہ وہ لائیں وہ لا سکتے ہیں ۔
اگر اسلامی قانون آجائے تو پھر گالی گلوچ منع ہے یہ جو گلیوں میں ایسے گالی دے لیتے ہیں جو چاہے جسے چاہے کھڑا ہو کر کہہ لے کچھ بھی ،یہ نہیں ہوگا بلکہ باغیرت معاشرہ ہوگا ہر فرد غیرت مند ہوگا ہر آدمی کی عزت بھی محفوظ ہوگی یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی کھڑا ہوا اور دُوسرے کو اُس نے بے عزت کردیا بے وجہ، ایسی صورت اسلامی حکومت میں نہیں ہوا کرتی بلکہ ساری کی ساری رعایا غیرت مند ہوتی تھی۔
یہاں کے لوگ باغیرت نہیں ،اپنا حکمران انگریز کو تسلیم کرلیا :
انگریز نے یہاں حکومت کی ہے یہاں حکمران انگریز رہے ہیں وائسرائے رہتا تھا گورنر رہتا تھا آئی جی رہتا تھا سپرنٹینڈنٹ پولیس رہتا تھا یہ سب کے سب انگریز تھے ڈی سی انگریز ،یہاں کے لوگ باغیرت نہیں تھے برداشت کرلیا مِلے جُلے بھی تھے خالی مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ اکثریت تھی ہندوؤں کی۔
ہندو مسلم میں فرق :
ہندو تھے محکوم اُنہوں نے گوارہ کر لیا مسلمان تو لڑے بھی ہیں جہاد بھی کیا ہے ١٨٥٧ء میں بہت شہید ہوئے ہیں ہندوؤں نے بھی ساتھ دیا ہے ٹھیک ہے مگر مسلمان ہی زیادہ لڑتے رہے ہیں اور ہندوؤں کو ساتھ ملا کر انگریز کو یہاں سے نکالا اوریہ خطے آزاد ہو گئے ۔
عربوں اور اَفغانوں نے ایسا نہ کیا :
لیکن عرب ممالک جتنے بھی ہیں ایک سرے سے یہ دُبئی ہو اَبو ظہبی ہو کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹی حکومت ہوبڑے سے بڑی حکومت ہو، مصر ہو، سعودی عرب ،لیبیا ،اَلجزائر، مراکش، ساری جگہوں پر انگریز گئے ہیں کہیں برطانیہ والے گئے ہیں کہیں فرانس والے گئے ہیں لیکن حکمران انہیں مسلمان رکھنا پڑا کیونکہ دُوسری حکومت یہ قبول نہیں کر سکتے تھے کسی بھی طرح، یہ غیرت مندی تھی اُن کی۔
جس طرح افغانستان میں اب آپ دیکھ رہے ہیں غریب لوگ ہیں پہلے مشہور تھا رُوس کے حملے سے پہلے تک کہ وہاں بدحالی خستگی بہت ہے اور سپاہیوں کے بھی بوٹ پھٹے ہوئے ہوتے ہیں جو یہاں پہرہ دیتے ہیں طور خم وغیرہ میں ، یہ مشہور تھا لیکن غیرت مند ہے معاشرہ اُن کا ،یہ گوارہ نہیں کر سکتے کہ دُوسرا حکومت کر لے یہاں آکر بلکہ ہم میں سے ہی کوئی (حکمران) ہوگا، دُوسرے کا کٹ پتلی ہو وہ بھی نہیں گوارہ کرتے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگریز نے بہت حد تک بگاڑا ہے اور بگاڑنے کے منصوبے بنائے ہیں عرب ممالک کو بھی لیکن اُن کی یہ ایک غیرت مندی جو تھی وہ قائم ہے ۔
یہاں انگریز کی تربیت نے مزاجوں میں تکبر پیدا کر دیا عربوں میں نہیں :
اُن میں دو چیزیں نہیں آنے پائیں ایک تو ''تکبر ''نہیں ہے وہاں بالکل ،جو یہاں انگریز نے پیدا کر دیا ١ چھوٹے بڑے کا بہت بڑا فرق ہے ،چھوٹا جائے گا تو بیٹھ ہی نہیں سکتا بڑے افسر کے سامنے
١ انگریز ہندوستان پر اپنے غاضبانہ قبضہ کے بعد ہم ہندوستانیوں کو اپنا ''غلام'' سمجھتے ہوئے ''متکبرانہ '' لب و لہجہ سے بات کرتاتھا اور اپنے بعد یہاں کے سرکاری افسروں اور ملازموں کی تربیت بھی اِسی اَنداز میں کر کے گیا اسی لیے عمومًا انگریزی بولنے اور سیکھنے والوں میں تکبر آجاتا ہے اور بڑا ہو یا چھوٹا متکبرانہ اَنداز میں بات کرتا ہے جبکہ یہ لوگ اپنے ملکوں میں آپس میں انگریزی بولتے وقت ایسا لب و لہجہ اختیار نہیں کرتے۔ محمود میاں غفرلہ
کھڑا رہے گا جب وہ کہے گا بیٹھ جاؤ بیٹھ جائے گا ! اور اسلام نے ان چیزوں کو مٹایا تھا ،عرب میں نہیں ہے یہ سلسلہ ،چھوٹا بڑے کے پاس چلا جاتا ہے بڑا چھوٹے کے پاس چلا جاتا ہے ! اور عراق سے آئے تھے ایک صاحب ١ وہ تو بتاتے تھے کہ یہ بھی نہیں ہوتا کہ جو فائل ہے اُس کے لیے الگ چپڑاسی PEON ہو پہنچانے کے لیے یہاں سے وہاں بلکہ جب افسر کے پاس دستخطوں کی ضرورت ہوگی تو نیچے والا چلا جائے گا وہاں اور جب وہ دستخط کر لے گا تو خود ہی پہنچا جائے گا یہاں ،یہ ضروری نہیں ہے کہ یہی جائے وصول کرنے دستخط ہوگئے ہوں گے اب میں جا رہاہوں یا کھڑا رہے یا کچھ ہو بلکہ جب وہ دستخط کرلے تو قاعدہ یہ ہے کہ وہ خود پہنچائے حالانکہ ہے وہ اُس کا افسر ! ! تو ایک وہاں تکبر نہیں ہے سرے سے عرب کے لوگوں میں ،خال خال کوئی ہوجائے آدمی تو وہ اپنی ذات کی بات ہے اُس کی،عمومًا یہ بات نہیں ہے اور دُوسرے'' شرک'' نہیں ہے دونوں چیزوں سے وہ خالی ہیں ۔
تو ز بان پر کنٹرول کرنا نہ کرنا آپ کی سمجھ میں نہیں آسکتا کہ کیا فائدہ ہے کیونکہ آ پ جو پلے بڑھے ہیں یا دیکھا ہے ہم نے معاشرہ وہ دیکھا یہی ہے کہ گالیاں دے دیتے ہیں ،ماں باپ اولاد کو دیتے رہتے ہیں ، اُستاد شاگردوں کو دیتے رہتے ہیں ، کارخانوں میں دیتے ہیں ، ٹریننگ میں دیتے ہیں ، تو یہ لوگ ایسے پیدا ہوئے کہ جن میں غیرت کی کمی ہے کوئی کچھ کہہ دے تو اِنہیں پروا ہی نہیں ہوتی جو آدمی ان چیزوں کاعادی ہو اُسے گالی پڑ جائے تو وہ کہے گا کیا بات ہوئی گالی ہی تو دی تھی لیکن اگر گالی کا عادی نہ ہو تو اُس کو رات کو نیند نہیں آئے گی کہ میرے ساتھ یہ حادثہ گزرا ہے کہ ایسی بات کیوں ہوئی، زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زبان کوئی چیز نہیں ہے خاص مگرآقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِس پر تو بڑا مدار ہے اور ضعیف آدمی قوی آدمی کو تکلیف پہنچا سکتا ہے زبان سے گو ہاتھ سے نہ پہنچا سکے اور زیادہ کام جو ہوتے ہیں ہاتھ سے نہیں ہوتے زبان سے ہوتے ہیں ۔
١ غالبًا یہ مرحوم معزالدین احمد صاحب تھے جو عراق میں پاکستان کے کئی برس سفیر رہے، حضرت سے قلبی عقیدت رکھتے تھے، جب بھی پاکستان آتے تو حضرت کی خدمت میں حاضری دیتے اور عراق تشریف لانے کی پُرزور دعوت بھی دیتے ۔ محمود میاں غفرلہ
''زبان'' نہ گھستی ہے نہ تھکتی ہے'' دماغ'' تھک جاتا ہے :
اور اِمام رازی رحمة اللہ علیہ نے ایک عجیب بہت اچھا نکتہ لکھا ہے وہ یہ فرماتے ہیں کہ اِنسان کام ہاتھ پاؤں سے کرے گا تھک جائے گا دماغ سے کرے گا تھک جائے گا اور چھ گھنٹے آٹھ گھنٹے پندرہ گھنٹے بولتا جائے گا زبان ایسی چیز ہے یہ نہیں تھکتی، دماغ تھکا ہوا محسوس ہوگا ،کبھی یہ نہیں کہے گا کہ میری زبان بھی تھک گئی ہے میری زبان گھس گئی ہے وہ کہتے ہیں ایسی چیز بنائی ہے خدا نے اس کے اعصاب ایسے بنائے ہیں کہ یہ نہیں تھکتی ۔تو بظاہر یہ ہے کہ (زبان کا کہا) کچھ بھی نہیں ہے لیکن شریعت کی نظر میں بہت کچھ ہے او حقیقتًا بہت کچھ ہے کسی کو ایسی گالی دے دیتا ہے جس میں اُس کے'' نسب'' پر حرف آتا ہے تو اُسے تو پکڑلیا جائے گا اُس سے پوچھا جائے گا اُس کو سزا دی جائے گی ، معلوم ہوا کہ زبان سے کہی ہوئی بات پر گرفت قانونی بھی ہے اور خدا کے یہاں تو ہے ہی ہے، کسی کی آپ غیبت کرتے ہیں چغلی کھاتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں اِن چیزوں پر خدا کی یہاں گرفت ہے۔
حضرت ابوبکر اور '' زبان'' کوسزا :
ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ایک آدمی نے دیکھا کہ وہ اپنی زبان کو چبا رہے تھے دانتوں سے اُنہوں نے پوچھا کیا بات ہے اُنہوں نے فرمایا کہ بات یہ ہے ھٰذَا الَّذِیْ اَوْرَدَنِی الْمَوَارِدَ (الْمَھَالِکَ ) ١ یہی زبان ہی تو ہے جس نے مجھے ایسی ایسی جگہوں پر پہنچایا ہے کہ انسان وہاں ہلاک ہوجائے مثال کے طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زور سے بولنا منع ہے بلند آواز سے بولنا منع ہے اور قرآنِ پاک میں آیت اُتری ( لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے زیادہ تم آواز نہ اُٹھاؤ ، یہ بے ادبی ہے ( وَلَا تَجْھَرُوْا لَہ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ ) آپس میں جیسے زور زور سے بولتے ہو اِس طرح بھی گفتگو نہ کرو کبھی ۔ نقصان ؟ نقصان یہ ہے (اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ) ٢ کہ تمہارے عمل حبط ہوجائیں بیکار جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ۔
١ شعب الایمان رقم الحدیث ٤٥٩٦ ٢ سورۂ حجرات : ٢
تو ''اِحباطِ اعمال'' جو ہے(یعنی اعمال کا برباد ہوجانا)اس کے درجے ہیں ۔ایک درجہ حبط کا جو سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بات ایسی ہوجائے جس کے نتیجہ میں ایمان سلب ہوجائے معاذاللہ ایمان ہی سے نکل جائے انسان۔
بلند آواز والے صحابہ ڈر گئے ،حضرت عباس کی آوازدس میل دُور چلی جاتی تھی :
تو صحابہ کرام تو ڈر گئے اور حضرت ثابت اِبن قیس اِبن شماس رضی اللہ عنہ ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے قد اُن کا دراز نہیں تھا پستہ قد تھے مگر زبان نہایت فصیح آواز بہت بڑی، مجمع تک پھیل جائے اور قوت ِ گفتگو ،دلائل سے بات کرنے کا نہایت عمدہ سلیقہ تو وہ تھے خطیب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ضرورت پڑتی تھی کوئی باہر سے لوگ آئے ہیں تو شاعری فصاحت بلاغت کی طرف عربوں کی بڑی توجہ تھی تو وہ تیاری کرکے آتے تھے تو یہاں (مدینہ منورہ میں )کوئی مجمع ہو اُس میں تقریر کوئی کرے گا باہر سے آنے والا وفد تو اُس کی جوابی تقریر کے لیے یہ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ تھے، آواز ہی اُن کی ڈبل تھی جب وہ بولتے تھے تو اس طرح بعض اور صحابہ کرام کی آواز بڑی عجیب تھی جیسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بھی ہے روایت کہ وہ اپنے غلاموں کو آواز دیتے تھے تو نو میل دس میل پرے آواز چلی جاتی تھی ! وہاں سے وہ اِدھر آجاتے تھے تو بعض بعض حضرات کو اللہ نے یہ چیز عطا کی ہے۔ اور یہ بڑھتی بھی ہے قرآنِ پاک کی آیت ہے (یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَایَشَآئُ ) ایک قراء ٰ ت میں '' خَلْقِ '' کو '' حَلْقِ'' بھی پڑھا گیا ہے (یَزِیْدُ فِی الْحَلْقِ مَایَشَآئُ ) تو آواز کواگر بڑھایا جائے تووہ بڑھتی بھی ہے اُس زمانے میں لائوڈ سپیکر تھے ہی نہیں تو بڑھاتے ہوں گے کوشش کرتے ہوں گے تو بڑھ جاتی ہوگی آواز ۔
تو جب یہ آیت اُتری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے زیادہ آواز نہ اُٹھاؤ تو وہ(حضرت ثابت) کہنے لگے کہ میری تو آواز ہی ایسی ہے بہت ڈرے اور اتنے ڈرے کہ روتے رہے اور گھر ہی میں بیٹھ گئے کہ میرے تو اعمال سارے ہی ختم ہوگئے ہوں گے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ مجھے وہ نظر نہیں آئے کہاں ہیں ؟ تو صحابہ کرام نے معلوم کیا معلوم ہوا کہ وہ تو گھر میں ہیں اور اُس دن سے جس دن سے یہ آیت اُتری ہے گھر میں ہیں اورروتے رہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ میری آواز تو ڈبل تھی تو ڈبل آواز ہو تو وہ تو زیادہ ہی ہو گی تو میرا انجام کیا ہوگا ؟
آپ کی طرف سے تسلی اور بشارت :
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو پیغام بھیجا بہت اچھا پیغام کہ اِنَّکَ لَسْتَ مِنْ اَہْلِ النَّارِ اور یہ فرمایا کہ ولٰکِنَّک مِنْ اَہْلِ الْجَنَّةَ ١ تم تو جنتی ہو ،اُن میں تم نہیں داخل ،تو پھر وہ آتے رہے،تو آواز کا تعلق بھی زبان ہی سے ہے حلق ہی سے ہے تو یہ نہ تھکتی ہے اور جو بھی کام ہوتے ہیں اکثراِس سے ہوتے ہیں تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی جہیر الصوت تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جہیر الصوت تھے اُنہوں نے پابندی کی کہ اِس کے بعد وہ بڑی ہلکی آواز سے بولتے تھے بعض دفعہ پوچھنا پڑتا تھا کہ دوبارہ دُہرائیں کیا بات کہی ،اتنی اِحتیاط اُنہوں نے کی ! !
تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اِسی طرح کی چیزوں کو دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ھٰذَا الَّذِیْ اَوْرَدَنِی الْمَھَالِکْ زبان ہی تو وہ ہے کہ جس نے مجھے بہت سی ہلاکتوں کی جگہ پہنچایا ہے ہاں یہ الگ بات ہے خدا نے بچا لیا تو (حدیث میں )زبان کا مقدم کرنا اس لیے ہے کہ اس سے بہت زیادہ کام ہوتے ہیں توجہ اُدھر جاتی ہی نہیں اور ''اصلاح ''کا بھی تعلق ہے اور'' فساد'' کا بھی تعلق ہے۔
زیادہ کام زبان سے انجام پاتے ہیں :
اچھا اب یہ ہے، مثال کے طور پر ایک حاکمِ اعلیٰ ہے اب وہ جا جا کے گلی گلی کسی کے چپت تو نہیں مارتا گھر گھر تو نہیں پھرتا بھاگا ہوا، دوڑتا ہوا، پیچھا کرتا ہوا بلکہ زبان سے ایک جملہ کہہ دیتا ہے حکم نافذ کردیتا ہے خیر کے بجائے شر کا خدا کے بجائے اپنے نفس کا ! یہ کام کیسے کیا ؟ زبان سے کیا
١ بخاری شریف کتاب التفسیر رقم الحدیث ٤٨٤٦
زبان سے حکم دیتا ہے، اِملا لکھاتا ہے، بولتا ہے اور وہ شارٹ ہینڈ والا لکھ کر ٹائپ کر کے لا دیتا ہے زبان ہی سے کیا تھا اپنے ہاتھ سے ہر وقت تھوڑا ہی لکھتا رہتا ہے ہاتھ سے تو دستخط ہی کرنے پڑتے ہیں باقی تو سارے کام جو چل رہے ہیں دُنیا میں وہ اِسی زبان سے ہی چل رہے ہیں وہ بول رہا ہے یہ لکھ رہا ہے اور بھی طریقے ہوگئے اس طرح کہ سب ٹیپ کر دیتے ہیں کہ یہ کرنا اور یہ کرنا ہے اور دُوسرا ملازم آتا ہے وہ ٹیپ سنتا ہے نقل کرلیتا ہے ۔
تو زبان کا مقدم فرمانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعجاز ہے اور حدیث کی خوبی ہے فصاحت و بلاغت کی بہت بڑی خوبی ہے ! ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ مسلمان کی شان یہ نہیں ہے کہ اُس کی زبان یا اُس کے ہاتھ سے کسی دُوسرے کو تکلیف پہنچے بلکہ وہ ہے صحیح معنٰی میں مسلمان کہ جس کے بارے میں لوگوں کا یہی گمان ہو کہ نہ اُس کے ہاتھ سے تکلیف پہنچے گی ہمیں نہ اُس کی زبان سے تکلیف پہنچے گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین ۔اِختتامی دُعا................




Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.