jamiamadniajadeed

زبانی اقرار کے ساتھ دل سے یقین بھی ایمان کے لیے ضروری

درس حدیث 249/7 ۔۔۔۔۔ زبانی اقرار کے ساتھ دل سے یقین بھی ایمان کے لیے ضروری ہے بیوی، بیٹا محتاجی کے رشتے ہیں اللہ ہر محتاجی سے بے نیاز ہےاللہ تعالیٰ نے اپنی صفات سے مخلوق کو حصہ دیا ہے،اچھا اخلاق ایمانیات سے ہے
(1987-05-31)

( جولائی 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث کا سلسلہ وار بیان ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک با قاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
زبانی اقرار کے ساتھ دل سے یقین بھی ایمان کے لیے ضروری ہے
بیوی، بیٹا محتاجی کے رشتے ہیں اللہ ہر محتاجی سے بے نیاز ہے
اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات سے مخلوق کو حصہ دیا ہے،اچھا اخلاق ایمانیات سے ہے
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس حدیث 249/7 ٣شوال المکرم ١٤٠٧ھ/٣١مئی ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ اِیمان کے تو ستر شعبے ہیں ستر شاخیں ہیں ! ستر کا عدد اُردو میں بھی بولا جاتا ہے مراد بہت ہوتے ہیں ،تو اِیمان کے اتنے شعبے ہیں اِ س کا مطلب یہ ہے کہ ایمان والے آدمی کو یہ کام کرنے چاہئیں ۔
اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اِیمان والا آدمی جب اُس کے اندر ایمان آتا ہے تو خود بخود بہت سی چیزیں پیدا ہوجاتی ہیں لیکن اس جگہ اس حدیث شریف میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ اِیمان والے آدمی کو یہ کام کرنے چاہئیں اور کہیں حدیثوں میں وہ آئے گا کہ جس میں یہ بتلایا گیا ہوگا کہ اِیمان والا آدمی جب اِیمان سے متصف ہوتا ہے اور اِیمان اُس کے دل میں راسخ ہوتا ہے تو یہ بات پیدا ہوجاتی ہے تو کہیں یہ بتایا گیا ہے اور کہیں یہ بتایا گیا ہے۔
یہ حدیث جو یہاں ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اَلْاِیْمَانُ بِضْع وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَةً اِیمان ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اُس کی فَاَفْضَلُھَا قَوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ تو افضل ترین تو یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ کہے آدمی یعنی خدا کو ایک مانے، مخاطب جو تھے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور صحابہ کرام کے وہ لوگ تھے جو مسلمان نہیں تھے کوئی عیسائی تھا کوئی یہودی تھا اور بیشتر مشرک تھے۔
جو یہودی ہیں اُنہوں نے بھی شرک کیا ہے ایک طرح کا وہ کہتے ہیں کہ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ۔
اور عیسائی کہتے ہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں اُن کی والدہ خدا کی بیوی ہیں معاذ اللہ ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا (سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ )جو یہ لوگ باتیں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اِن سے بلند وبالا ہے اللہ تعالیٰ کو حاجت نہیں ہے کہ بیٹا ہو اُس کا ، حاجت نہیں ہے کہ بیوی ہو اُس کی، وہ بے نیاز ہے اِس لیے اللہ کی ذات پاک ہے اس سے کہ وہ کسی کی بھی محتاج ہو، بیٹے کی ضرورت پڑتی ہے نام چلے اپنا اور خود فنا ہوجاتا ہے آدمی اور بیوی کی ضرورت پڑتی ہے کہ اولاد ہو تو اللہ تعالیٰ تمام ضروریات سے بے نیاز ہیں اُس کی ذاتِ پاک وہ ہے جواَزلی ہے اور اَبدی ہے ہم اُسے خدا مانتے ہیں ۔
حدیث شریف میں یہاں فرمایا گیا قَوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ تو مطلب یہ ہے کہ یہ جملہ زبان سے ادا کرے اور زبان سے ادا کرنے میں بھی اس میں ثواب ہے بار بار پڑھتے رہنے میں بھی ثواب ہے ایک مطلب تو یہ ہوا۔
شریک نہ بنانے کا مطلب :
دوسرا مطلب یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ کہے یعنی بتوں سے اور خدا کا کسی بھی طرح کا شریک ماننے سے توبہ کرے اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات دونوں میں کوئی شریک نہیں ہے اُس کا ، وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ اُس کا کوئی شریک نہیں ہے اُس کی ذات میں بھی کوئی شریک نہیں ہے اور اُس کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں ہے'' شریک نہ ہونے'' کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہے باقی اُس نے انسان کو اپنی صفات میں سے عنایت فرمائی ہیں صفات ! حدیث شریف میں آتا ہے خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہ ١ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صفات دے کر پیدا فرمایا تو اپنی صفات میں سے کچھ حصہ عنایت فرمایا یہ اِسی طرح ہے جیسے آپ مدد چاہیں کہ بھائی فلاں آدمی میری مدد کرے، میں چاہتا ہوں کہ اِمداد کرے ۔ تو اب یہ نہیں ہے کہ اُس نے اُس آدمی کو حاجت رَوا مان لیا اور یہ بھی شرک کہلایا جائے ایسا نہیں ہے بلکہ ایک دُوسرے کے ساتھ مدد کرتے ہیں اور اُدھر آیت پڑھتے ہیں ( اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) تیری ہی عبادت کرتے ہیں تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اِس آدمی سے جب مانگ رہے ہیں آپ ، تو بھی یہ یقین سے جانتے ہیں کہ یہ نہیں کر سکتا بلکہ اگر اُس کے دل میں بات آئی تو وہ بھی اللہ ہی ڈالے گا اور یہ مدد کے لیے تیار بھی ہوجائے کرنے بھی لگے تو بھی نہیں کر سکے گا جب تک خدا کی اِمداد شامل نہ ہو تو اصل نظر مسلمان اللہ پر رکھتا ہے تو زبانی زبانی کوئی حرج نہیں ہے دُنیا کا دستور ہے اِسی طرح کا، اِس کو منع نہیں فرمایا گیا ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا معمولی حصہ مخلوق میں تقسیم فرمایا :
تو اللہ تعالیٰ کی ذات ِپاک اور صفات اُسی طرح کی جیسے خدا کی ہیں ویسے( غیر اللہ کے لیے) ماننا یہ شرک ہے باقی یہ کہ اُن صفات میں سے اللہ نے حصہ دیا ہو، تو دیا تو ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت بڑی ہے اور اُس نے جو مخلوقات کو دی ہے تو وہ تھوڑا سا حصہ دیا ہے بہت تھوڑا سا حصہ جیسے سوواں حصہ دیا ہو اور اِس ایک حصے کو بانٹا گیا ہے انسانوں پر بھی جانوروں پر بھی تو اِرشاد فرمایا کہ جانور یہ گھوڑا اپنے بچہ پر زور سے کُھر نہیں رکھتا یہ گھوڑی ہے اُس کے بچہ پیدا ہو تو بچہ اُس سے کھیلتا ہے وہ کھیلتی رہتی ہے لیکن جو پاؤں رکھے گی تو ہلکے سے ! تمام خلق میں یہی ہے، چڑیا ہے بے چین ہوتی ہے بے تاب ہوتی ہے لا کے وہاں سے اُس کو چوگا دیتی ہے اُس کے منہ میں دیتی ہے کیونکہ بچہ چُگنے کے قابل نہیں جب وہ بڑا ہوجاتا ہے اُڑنے لگتا ہے پھر اِطمینان ہوجاتا ہے، بلی ہے
١ بخاری شریف کتاب الاستئذان رقم الحدیث ٦٢٢٧
اُس کے بچوں کی آنکھیں ہی نہیں کُھلتیں ہاں وہ دُودھ پینا ضرور جانتا ہے وجود میں آگئے ہیں تو جتنی ضرورت ہے اُتنا شعور اُن کو دے دیا گیا ہے ضرورت اس چیز کی ہے کہ بھوک لگے تو کھا لو پی لو تو بس وہ ماں کا دُودھ پینا جانتے ہیں اور آنکھیں بند اور ماں اُنہیں چاٹتی رہتی ہے اور کسی کو پاس نہیں آنے دیتی کہ میرے بچوں کو نقصان نہ پہنچادے کوئی ! بلا بلی سب سے لڑتی ہے بڑی حفاظت کی جگہ جا کر بچے دیتی ہے چڑیاں بھی بڑی حفاظت کی جگہ جہاں بلی نہ پہنچ سکتی ہو کوئی اور جانور اُوپر سے حملہ آور ہونے والا نہ آسکے (وہاں انڈے بچے دیتیں ہیں )۔
ایک صحابی نے چڑیا کے بچے پکڑے تو ماں اُن کی پیچھے پیچھے آگئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بچے لے کر آگئے وہ بھی پیچھے پیچھے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا ،اُن کو فرمایا کہ اِنہیں وہیں چھوڑ کر آؤ وہیں رکھ کر آؤ ! تو اللہ تعالیٰ نے رحمت تقسیم کی ہے ماں بے چین ہو گئی اُن کے ساتھ ساتھ پیچھے پیچھے ،ورنہ چڑیا آدمی کے پیچھے پیچھے کہاں جاتی ہے وہ تو بچوں کے پیچھے پیچھے آئی تھی وہ اپنی جھولی میں یا کپڑے میں ڈال کر لے آئے تھے، اُسے نظر آرہا تھا کہ یہ ہیں میرے بچے ۔
اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمت للعالمین ہونا بھی معلوم ہوتا ہے یہ نہیں کہ آپ اِنسانوں ہی پر رحمت فرماتے ہیں بلکہ جانوروں پر بھی کیونکہ اِرشاد فرمایا کہ وہیں لے جاؤ وہیں رکھ کر آؤ اِسے، یہ اِس کی ماں ہے بے تاب ہے یہ بھی نہیں فرمایا کہ سب کو ذبح کر لو حالانکہ حلال ہیں ناجائز تو نہیں مگر نہیں فرمایا، یہی فرمایا جو اُس وقت کے مناسب ترین چیز تھی اور جس میں رحمت اور شفقت شامل تھی کہ اِنہیں وہیں پہنچا آؤ تو حق تعالیٰ نے رحمت تقسیم فرمائی ہے سب مخلوقات میں اور جانوروں میں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال کے طور پر گھوڑے کا ذکر فرمایا ہے اور گھوڑے کا پاؤں بہت سخت ہوتا ہے بلی کا تو (پنجہ) گدّے جیسا ہوتا ہے مگر وہ(گھوڑی) اپنے بچے پر پاؤں جو رکھتی ہے وہ بڑی نرمی سے رکھتی ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں سے حصہ تو بانٹا ہے سب جگہ مگر یہ مطلب تو نہیں کہ جتنا خدا رحیم ہے اِتنا کوئی اور ہو گیا یہ نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جو صفت ہے وہ صفت سب سے بلند ہے اُس میں کوئی شریک نہیں ، ماں باپ ہیں اولاد کو کھلاتے ہیں پلاتے ہیں منہ میں لقمے دیتے ہیں اور قرآنِ پاک میں آیا ہے کہ دُعا کرے کہ اللہ توماں اور باپ پر رحمت فرما جیسے اِنہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے (رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ) توایسے کہ ذرا سی پھانس بھی چبھ جائے تو ماں باپ بے چین ہوجاتے ہیں اور بڑا خیال رکھتے ہیں سردی کا گرمی کا راتوں کو اُٹھ کر دیکھتے ہیں کہ ٹھنڈ تو نہیں لگ رہی وغیرہ وغیرہ تو دُعا جو بتائی گئی ہے اولاد کو ماں باپ کے لیے وہ یہ دعا بتائی کہ جیسے اِنہوں نے میرے ساتھ شفقت کی ویسے تو اِن کے ساتھ شفقت فرمارحم فرما اِن پر۔
تو یہاں '' رب'' کا لفظ بولا گیا تربیت کا لفظ بولا جاتا ہے لیکن'' رب'' نہیں بن گیا یہ ،رب تو وہی رہا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ جو اُس کی صفت ہے اُس میں کوئی شریک نہیں ہے ہاں جو اُس نے بانٹ دی ہے جتنا حصہ دے دیا ہے اُس کا اِنکار بھی نہیں بتا یا گیا۔
تو مشرکین کو اِیمان بتلایا گیا ہے اور مشرک تقریبًا سب ہی ہو گئے کوئی کم کوئی زیادہ، یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو مانا خدا کا بیٹا تو عیسائیوں نے اُن سے آگے بڑھ کر حضرت مریم علیہا السلام کو بھی بیوی مان لیا لیکن یہ دونوں کے دونوں یہ کہتے تھے کہ یہ دونوں مِل کر ایک ہی ہیں ، ہیں ایک ہی اور اِسی طرح سے تینوں کو ملا کر عیسائی کہتے ہیں یہ ایک ہی ہیں ،اب اُن سے مناظرے بھی بہتیرے ہوتے رہتے ہیں کہ بھائی تین نہ کہو یا ایک نہ کہو یہ کیا بات کہ ایک بھی ہے اور تین بھی ہیں وغیرہ وغیرہ بہت قسم کے مناظرے بڑے لمبے لمبے بڑے معقول۔
پتھر اور گائے کے گوبر کی پوجا :
تو مشرکین ِمکہ اور دُوسرے سارے مشرکین ہندو وغیرہ جتنے بھی ہیں یہ سب بہت زیادہ چیزوں کو شریک مانتے ہیں جہاں قدرت کا مظاہرہ ہو رہا ہو بس اُسی کو یہ پوجنا شروع کر دیتے ہیں عبادت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ مظہرِ قدرت ہے جیسے دریا ہے مظہرِ قدرت ہے یااور کوئی عجیب چیز یا کوئی عجیب الفوائد درخت ہے وہ مظہرِ قدرت ہے کہ اللہ نے بنایا ہے اُس کو ایسے اور یہ صفات بخشی ہیں نہ یہ کہ وہ خود خدا ہے تو اُس کو پوجنا ڈنڈوت کرنا اُس کے آگے جھکنا اُس کو سجدہ کرنا وغیرہ یہ اِن لوگوں میں بھی ہے اور اُن لوگوں میں بھی تھا اب ہندوؤں میں جیسے گائے کا گوبر ہوتا ہے اُس پر وہ ڈال دیتے ہیں سیندور وغیرہ پھر ڈنڈوت شروع کر دیتے ہیں کچھ آگے جھک جاتے ہیں اُس کے ! اُن کے ہاں بھی اِسی طرح کا تھا سلسلہ کہ کوئی خوبصورت سا پتھر ملا وہ جیب میں ڈال لیتے تھے بس اُسی کی پوجا کرتے تھے ! ! وہ کہتے ہیں کہیں اور ہمیں مل جاتا تھا اُس سے بھی خوبصورت اور عمدہ پتھر تو پھر اسے پھینک دیتے تھے دوسرا لے لیتے تھے ! ! !
اسی طرح سے عبادت کا حال تھا کہ جب عبادت کو دل چاہتا تھا اُن کا نہ پاکی جانتے تھے نہ ناپاکی جانتے تھے نہ وضو جانتے تھے نہ نہانا نہ کپڑوں کی پاکی نہ بدن کی کچھ بھی نہیں جانتے تھے دل چاہا عبادت کر نے کو تو کوئی جگہ نہیں ملی کوئی چیز نہ ملی تو بکریاں ہوتی تھیں ہر ایک کے پاس وہ تو گویا اُن کا راشن ہے ہر وقت کا کھجور یا بکری تو پھر وہ ایسے کر لیتے تھے کہ ڈھیری بنالی ریت کی اُس پر بکری کا دودھ دوہ لیا تھوڑا سا اور پھر اُس کے گرد طواف کر لیا گویا دل چاہا عبادت کرنے کو تو ایسے عبادت کی۔
خدا کی عبادت ..... فطری تقاضا :
اچھا کچھ ہے بات ایسی کہ فطرت میں اللہ نے رکھا ہے کہ انسان چاہتا ہے خدا کو مانو اب چونکہ جہالت شامل ہوجاتی ہے تو خدا کو صحیح ماننا نہیں رہا اور شیطان آجاتا ہے تو خدا کو صحیح ماننے کے طریقے میں بگاڑ پیدا کر دیتا ہے انبیاء کرام علیہم الصلٰوة والسلام آتے رہے اور اب اِس اُمت میں دین ہی محفوظ کردیا گیا کہ جو چاہے پڑھ لے جو چاہے پڑھ کر عالم ہو جائے جو چاہے پڑھ کر تبلیغ شرو ع کردے دعوت دے مناظرے کرے اب اللہ نے اِس اُمت کے لیے انبیاء کرام ختم کر دیے کیونکہ یہ دین سارے کا سارا اللہ کومحفوظ رکھنا تھااور محفوظ رکھا اور اب تک چلا آرہا ہے۔
دل میں یقین بھی ضروری ہے :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِیمان کے بہت سے شعبے ہیں شاخیں ہیں سب سے افضل قَوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہْ یعنی زبان سے لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہْ کہے ،زبان سے کہنا اس طرح پر نہیں کہ کسی کو بہکانے کے لیے ہو، نہیں بلکہ دل اور زبان مِلا کے ہو اگر دل اور زبان مِلی ہوئی نہیں ہے تو قرآنِ پاک میں ایسے لوگوں کو منافق کہا گیا ہے یہ ''کفرِ نفاق'' ہے کہ زبان سے تو کہہ دیا اور دل میں ابھی تک وہ بت پرستی ہے تو وہ تو نفاق کہلا ئے گی۔
دل میں یقین زبانی انکار :
اسی طرح اگر کسی کے دل میں اِیمانی چیزوں کا یقین ہے لیکن اِنکار پھر بھی کرتا ہے وہ کیا ہے تو وہ بھی کافر ہی ہے قرآنِ پاک میں آیا ہے (وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَا اَنْفُسُھُمْ ) اِنکار کرتے ہیں اور دلوں میں اِن کے یقین ہے اور ( اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَھُمْ ) جنہیں ہم نے کتاب (توراة و اِنجیل)دی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آج اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹے کا بیٹا ہونا کوئی جانتا ہو اِس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے ہیں ،بیٹے کا بیٹا ہو نا تو جانتا ہے آدمی پیدائش سے لے کر اور بڑے ہونے تک ! اُس وقت تک وہ چیزیں محفوظ تھیں اُن (اہلِ کتاب) کے یہاں کتابوں میں تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کے حالات اِس طرح ہوں گے اُن( کتب ِ سماویہ) میں مذکور کہ پیدائش سے نبوت کے دعوے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر منطبق ہوجائیں اور کسی کا حال منطبق نہ ہو تو اگر کوئی دل میں یقین رکھتا ہے زبان سے نہیں مانتا تو بھی قرآنِ پاک میں ہے کہ یہ مسلمان نہیں ہے جیسے کہ وہ جو زبان سے کہہ رہا ہے اور دل میں کفر ہے وہ غیر مسلم ہے منافق ہے ! ! یہاں جو فرمایا گیا اَفْضَلُھَا قَوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہْ وہ قول بمعنٰی زبان سے کہنا فقط نہیں ہے بلکہ زبان سے کہنا وہ کہنا اُس طرح کہنا کہ دل میں بھی وہی ہو ،دل اور زبان ایک ہوں تو سب سے بڑی اور اَوّل چیز یہ ہے ، اَوّل کیوں ہے ؟ اس واسطے کہ ساری بنیاد ہی اس پر ہے جب وہ خدا کو ایک مان لے گا تو اِیمان ثابت ہوا جب اِیمان ثابت ہوگا تب حکم ہوگا کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو ، زکوة دو، حج کرو یا اور نیکیاں کرو اس لیے اَفْضَلُھَا تو وہ ہوا۔
حسن ِ خُلق اور مخلوق کا بھلا چاہنا اِیمانیات سے ہے :
اور کم سے کم( درجہ اِیمان کا) کیا ہے ؟ کم سے کم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ نمازیں پڑھے یا یہ کرے نہیں بلکہ عام مخلوق کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے وہ بتایا ہے ہمارے خیال میں بھی نہیں آتا کہ کسی سے اچھے اخلاق سے بات کرنا ثواب کی بات ہے حالانکہ بہت بڑے ثواب کی بات ہے دَرَجَةَ قَائِمِ اللَّیْلِ وَصَائِمِ النَّھَارِ ١ اخلاق سے بات کرنا ایسی بڑی چیز ہے کہ جیسے رات بھر عبادت کی ہو اور دن بھر روزہ رکھا ہو ایسے ہے ! تو ہم اسے سمجھتے ہی نہیں کہ یہ ثواب ہے حالانکہ ہم ثواب کی نیت سے حسن ِ اخلاق اگر اختیار کریں تو کایہ پلٹ جائے ہماری ! خود بخود ہر وقت ہمیں ثواب ملحوظ ہوگا اور غصہ بھی آتا ہوگا وہ بھی دبائیں گے کیونکہ ثواب ملحوظ ہے ،یہاں فرمایا گیا اَدْنَاھَا اِمَاطَةُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ ٢ کم سے کم درجہ یہ ہے کہ راستے سے تکلیف کی چیز ہٹا دے ،کانٹا ہے آدمی کے اُلجھ جائے گا یا چبھ جائے گا، شیشہ پڑا ہوا ہے ننگے پاؤں جو گزرے گا وہ زخمی ہوجائے گا اِینٹ پڑی ہے کمزور نظر والا گزرے گا ٹھوکر لگے گی اِن چیزوں کو ہٹا دینا راستے سے(یہ اِیمان کا ادنیٰ درجہ ہے) ۔
ہر اچھے کام کا تعلق اسلام سے ہے :
آپ سنتے ہیں یہ مہذب ہو گئے وہ ہو گئے چھلکا ہٹا دیتے ہیں خود ہی سڑکیں صاف رکھتے ہیں چین کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ عمل وہاں ہو رہا ہے ! جبکہ تعلیم یہاں ہے اور ساتھ بے عملی بھی یہاں ہے ! ہے وہ یہی چیز جہاں بھی کہیں آپ کوئی تعریف کی چیز دیکھیں گے بشرطیکہ وہ اَز قسم بے حیائی ا ور عریانی نہ ہو کیونکہ یہ تو کافروں میں پائی گئی ہے، جس چیز کو سب اچھا کہتے ہوں وہ کہیں اگر نظر آئے گی تو وہ اِسلام کی ہے
راستہ چلتے ہوئے کھانا منع ہے :
تو یہاں فرمایا گیا راستے میں کوئی چیز ہو تکلیف دہ وہ ہٹا دی جائے چھلکے ڈال دیتے ہیں کھاتے گئے ڈالتے گئے راستہ چلتے چلتے کھاتے ہیں حالانکہ راستہ چلتے ہوئے کھانا بھی منع ہے بلکہ ایسے
١ شرح السنة للبغوی رقم الحدیث ٣٥٠٠ ٢ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥
آدمی سے تو محدثین حدیث بھی نہیں لیتے تھے کیونکہ راستہ میں کھانا سب کے سامنے کھانا ایک طرح کی بے شرمی ہے اور بے شرمی جس میں ہو وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے تو ممکن ہے یہ حدیث میں کوئی لفظ بڑھا دے یا گھٹا دے اس واسطے اُس کی حدیث نہیں لیتے تھے ۔
پھر اب یہ کہ آپ نے کہیں چھلکا دیکھا ہے پڑا ہوا تو چھلکا تو کانٹے سے بھی زیادہ خطرناک چیز ہے لوگ پھسل جاتے ہیں اور ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے کولہے کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے تو اُس کو ہٹا دینا محض اس لیے کہ اللہ خوش ہوگا(بظاہر) جوڑ سمجھ میں نہیں آتا یہ تو آدمی کا کام کررہے ہیں آپ ،لوگوں کا کام کر رہے ہیں مگر اللہ نے بتایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ نہیں یہ خدمت ِ خلق جو کر رہے ہو اِس سے خدا خوش ہوتا ہے یہ جو تم کام کرتے ہو دن رات اُن کاموں میں خدا کی(رضا کی) نیت رکھو بس، تو اب تم راستہ چلتے ہوئے اگر کوئی اِینٹ ہٹا دیتے ہو چھلکا ہٹا دیتے ہو کانٹا ہٹا دیتے ہو کوئی گڑھا ہے وہ بھر دیتے ہو تو یہ نہیں ہے کہ تم برے بن گئے بھنگی بن گئے اوریہ سوچو کہ ہماری شان سے ہٹی ہوئی بات ہے یہ غلط بات ہے بلکہ یہ کرو، کس لیے ؟ تاکہ دُوسروں کو فائدہ پہنچے اس سے کیا ہوگا ؟ اس سے خدا راضی ہوگا فائدہ انسان کو پہنچ رہا ہے پتہ نہیں وہ ہندو ہی ہو مسلمان نہ ہو کافر ہو عیسائی ہو کوئی اور بلا ہو لیکن فائدہ انسان کو پہنچ رہا ہے اس لیے یہ ہے کہ تمہیں ثواب ہے خدا راضی ہوگا۔
تو سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے فرمایا کہ افضل ترین جو چیز ہے اِیمان کا شعبہ وہ تو قَوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہْ ہے کیونکہ اُسی پر مدار ہے ساری چیزوں کا، نجات کا بھی بخشش کا بھی اور کم سے کم جو اُس کا درجہ ہے وہ یہ ہے کہ راستہ سے کوئی چیز ہٹا دو جو تکلیف دہ ہوتی ہو لوگوں کے لیے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِسلامی احکام پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اِختتامی دُعا ...............


Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.