حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
نبی علیہ السلام اوردیگر انبیاء علیہم السلام کے معجزات میں فرق !
قرآن اور رمضان ! قرآن اورقلبی سکون ! تلاوت اورفرشتوں کا نزول !
( درسِ حدیث نمبر١٦٥ ٣ مضان المبارک١٤٠٥ھ/٢٤ مئی ١٩٨٥ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلمنے قرآنِ پاک کی فضیلت بیان فرمائی کہ اورانبیاء کرام کو مختلف معجزات دیے گئے اورمجھے جو معجزہ دیا گیا وہ''قرآنِ پاک'' ہے تو مجھے ایسے معلوم ہوتا ہے ایسا انداز ہوتا ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے ! اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے انبیاء کرام کی یہ صورت ہوئی کہ انہیں جو معجزات دیے گئے وہ ایسے تھے جو اُن کی حیات تک رہے !
مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دست ِمبارک روشن ہو جانا ! اسی طرح عصاء میں یہ تبدیلی آجانا کہ سانپ بن جائے ! یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ جب تک حضرت موسیٰ علیہ الصلٰوة والسلام اس دنیا میں تشریف فرمارہے یہ چیزیں بھی رہیں ،پھر آپ کے اس دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد وہ باتیں ختم ہوگئیں تو اُن کے معجزات کا تعلق اُن کی حیاتِ دُنیوی کے ساتھ رہا، جب تک وہ یہاں رہے تویہ بات ہوئی اور جب وہ اس دنیا سے رُخصت ہوئے تو معجزات ساتھ ساتھ ختم ہو گئے ! !
قرآن .....سب بڑ ا معجزہ :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جو معجزہ دیا گیا وہ ''قرآنِ پاک'' ہے اورمجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہ میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے قیامت کے دن ! کیونکہ میرا معجزہ میرے بعد بھی قائم رہے گالہٰذا آج بھی قائم ہے اوراس کا قائم رہنا خود معجزہ ہے ! بہت تعجب کی بات ہے کہ اس میں کسی بھی جگہ کوئی تغیر نہیں آیا ! لفظ تو بڑی بات ہے کسی حرف کا تغیر بھی نہیں آیا ! سب کے سب بالکل محفوظ اُسی طرح اورپوری دنیا میں ! !
قرآن اور رمضان :
قرآن پاک کا جوڑ رمضان شریف سے خاص طورپر ہے بہت زیادہ ! نزول بھی اس کا رمضان شریف میں شروع ہوا ہے ! رمضان ہی میں قرآنِ پاک کا آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دور فرماتے تھے ! حتی کہ جس سال آپ دُنیا سے رُخصت ہوئے اُس سال آپ نے دو مرتبہ دور کیا ہے جبرئیل امین علیہ السلام سے ! اور اس سے آپ نے اندازہ لگایا ہے کہ شاید میں اب دُنیا سے رُخصت ہونے لگا ہوں ! ! !
قرآنِ پاک سے قلبی سکون :
قرآنِ پاک کی تلاوت سے سکون ہوتا ہے ایک طرح کا ! اوراللہ تعالیٰ کے کچھ ملائکہ ہیں اس قسم کے اور کیفیات ہیں اس قسم کی جو اِنسان کے قلب پروارد ہوتی ہیں اورانسان انہیں محسوس کرتا ہے ! جیسے آدمی بیمار ہو تو بیماری محسوس کرتا ہے، صحت مند ہو تو صحت محسوس کرتا ہے ، غمگین ہوتو غم محسوس کرتا ہے خوش ہو توسرور محسوس کرتا ہے ! تو یہ وجدانیات ہیں اوردُنیا میں کوئی عقلمند اِن کا انکار نہیں کرتا نہ حکیم نہ ڈاکٹر نہ کوئی اور ! تو قرآنِ پاک کی تلاوت میں ایک تاثیر خاص اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے وہ ہے سکون ! وہ کبھی کبھی متشکل بھی ہوسکتا ہے، جتنے عمل ہیں ہمارے نماز روزہ وغیرہ اِن سب کو اللہ کے یہاں ایک خاص شکل دے دی جاتی ہے ! ! !
قرآن کی تلاوت اور فرشتوں کا اُترنا :
اسی طرح سے انسان جب قرآنِ پاک کی تلاوت کرے تو ملائکہ( سکینہ والے) اُتریں اُن کے وجود کا احساس نظروں سے ہوجائے یہ بھی ہو سکتا ہے ! چنانچہ یہاں پر آرہاہے یہ کہ حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ باکرامت صحابی ہیں ، ان کی کرامتیں آتی ہیں حدیثوں میں ،وہ پڑھ رہے تھے سورہ بقرہ اور گھوڑا اُن کا بندھا ہوا تھا پاس ہی،لیکن اچانک گھوڑا جو تھا وہ چکر کاٹنے لگا جیسے پریشان ہو رہا ہو ! انہوں نے سوچا کہ یہ کیا بات ہوئی ہے اسے ؟ اور پڑھتے پڑھتے رُک گئے تووہ گھوڑا جو تھا وہ بھی سکون سے ہوگیا ! جب پڑھنا شروع کیا تو وہ پھر اسی طرح گھوڑا بے چین ہونے لگا ............. تووہ پھر خاموش ہو گئے اِذْ جَالَتِ الْفَرَسُ فَسَکَتَ فَسَکَنَتْ فَقَرَأَ فَجَالَتْ فَسَکَتَ فَسَکَنَتْ ثُمَّ قَرَأَ فَجَالَتِ الْفَرَسُ فَانْصَرَفَ۔
یہ واقعہ بتلاتے ہیں ایسے کہ پھر پڑھا پھر اسی طرح ہوا تو پھر یہ اُٹھے یا پڑھنے سے ہٹ گئے، پڑھنا بند کردیا آپ نے ! اور قریب میں ان کے گھوڑے کے پاس اِن کا بیٹا پڑا ہوا تھا ، یحیٰ اُس کا نام تھا وہ سوہی رہا ہوگا بظاہر، انہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ گھوڑا بگڑے اور اس کے کسی طرح سے چوٹ لگ جائے یا لات مار دے کچھ اورہو جائے ، جب اس بچے کو اُٹھا کروہ ہٹانے لگے تو آسمان کی طرف نظرپڑی ان کی ! تو دیکھا ایسے جیسے کوئی چیز سائے کیے ہوئے ہوتی ہو مِثْلُ الظُّلَّةِ اور اس میں ایسے روشنی جیسے چراغ اَمْثَالَ الْمَصَابِیْحِ توایسے ہو جیسے ایک بدلی ہو چھوٹی سی اُس میں چراغ چمک رہے ہوں روشن ! یہ انہوں نے دیکھا اور صبح کو پھر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے عرض کیا ،کوئی اور تو یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ کیا چیز تھی سوائے اس کے اللہ تعالیٰ کے رسول اور اولیاء کرام وہ ایسی چیزوں اوراُن کی حقیقت پوری طرح سمجھ سکیں تو سمجھ سکیں ! ! آپ نے یہ سنا تو فرمایا اِقْرَأْ اِبْنَ حُضَیْرِ اِقْرَأْ اِبْنَ حُضَیْرِ پڑھو پڑھو اِبن ِحضیر پڑھتے رہو پڑھتے رہو ! تو عرض کرنے لگے کہ میں نے کہا اَشْفَقْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَنْ تَطَائَ یَحْیٰ مجھے تو یہ اندیشہ ہوا کہ یہ بچہ یحییٰ جو تھا یہ اُس کے قریب ہی تھا اس کو وہ پائوں سے نہ روندھ دے، پائوں لگ جائے کھر لگ جائے تو میں تو پیچھے ہٹا اورایسے میں نے دیکھا اور میں باہر ہی رہا حتی کہ یہ ہوا کہ وہ غائب ہو گئی چیز ! ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَتَدْرِیْ مَاذَاکَ پتہ ہے کہ وہ کیا تھا ؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا تِلْکَ الْمَلَائِکَةُ دَنَتْ لِصَوْتِکَ یہ فرشتے تھے تمہاری آواز کی وجہ سے قریب آئے تھے ! وَلَوْ قَرَأْ تَ لَاَصْبَحْتَ یَنْظُرُ النَّاسُ اِلَیْھَا لَا تَتَوَارٰی مِنْھُمْ ١ اوراگر تم پڑھتے ہی رہتے تو پھر یہ ہو جاتا کہ وہ بالکل پاس آجاتے ! تم اُنہیں دیکھ سکتے تھے اورتم ہی نہیں بلکہ لوگ بھی دیکھ سکتے تھے لَا تَتَوَارٰی مِنْھُمْ تم سے وہ پوشیدہ نہ رہتے بلکہ سب کو نظرآتے ! !
یہ اللہ تعالیٰ کی نظررحمت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات اورسکینہ کا نزول ان صحابی نے اپنے آپ محسوس کیااوراس کو دیکھا ! اگر محسوس نہ بھی ہو کسی کو تو اتنا تو محسوس ضرور ہی ہو گا کہ طبیعت میں سکون کچھ نہ کچھ آئے گا ! یہ نظر آنا تو بہت ہی بڑی بات ہے،ایک بہت مشکل کام ہے ،عام نہیں ہے اورخدا کی ایک خاص قسم کی عنایت ہے کہ کسی کو نظر آجائے ! ! مگر جس چیز کے عام ہونے کی ضرورت ہے وہ وہی ہے کہ قلب سکون محسوس کرے لہٰذا یہ عام ہے ! اب جو مسلمان تلاوت کرے گا اُس پر اُس کے اثرات مرتب ضرور ہوں گے ! !
قرآنِ پاک کی تلاوت کا جوڑ رمضان کے مبارک ایام سے بہت زیادہ ہے ،تو اس میں جتنا وقت زیادہ صرف کیا جا سکے ذکر، تلاوت، استغفار ، دُعائیں ،اوردُعائیں تو بہت زیادہ مانگی جائیں بہت زیادہ ضرورت ہے دعا کی سب کے لیے ! حکام کے لیے بھی مانگی جائیں ،ملک کے لیے مانگی جائیں جہاں اپنے لیے مانگیں اپنے حالات کے لیے مانگیں وہاں ان کے لیے کہ خدا اِنہیں ٹھیک کرے اور ٹھیک رکھے ،ہدایت دے بہتر راستوں پر چلائے ، غلط راستوں سے بچائے ورنہ آپ سن رہے ہیں دیکھ رہے ہیں کیا خراب ہوتا چلا جا رہا ہے حال ! ! خدا کی طرف بار بار رُجوع میں بہت کمی ہے، وہ بہت زیادہ ہونا چاہیے ،ہر انسان انفرادی طورپر تو کم ازکم کرے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اوراپنی رضااورخیرو رحمتوں سے دُنیا اورآخرت میں نوازے، آمین
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ ستمبر٢٠٠٥ء )
١ مشکوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١١٦
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.