jamiamadniajadeed

استغفار کا تعلق دل سے ہے، ہر کوئی اللہ کا محتاج ہے

درس حدیث 162/58 --- استغفار کا تعلق دل سے ہے، ہر کوئی اللہ کا محتاج ہے! انبیاء کرام علیہم السلام بھی استغفار کرتے تھے (03-05-1985)

حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
استغفار کا تعلق دل سے ہے ! ہر کوئی اللہ کا محتاج ہے !
انبیائِ کرام علیہم الصلٰوة و السلام بھی استغفار کرتے تھے !
( درسِ حدیث نمبر٥٨/١٦٢ ١٢ شعبان المعظم١٤٠٥ھ/٣ مئی ١٩٨٥ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ہمیں نیکیوں کے راستے بتلائے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے طریقے بتلائے ! گناہوں کی معافی کن الفاظ سے ہو اور کون سے کلمات کہے جائیں گناہ کی معافی کے لیے وہ کلمات بھی تلقین فرمائے ! یہ جو شعبان کی ١٤، ١٥ کی درمیانی شب ہے اوراسی طرح اوراوقات ہیں وہ اوقات بتلائے کہ یہ وقت ہے ! ایسے ہی مقامات بتلائے کہ فلاں فلاں مقامات ایسے ہیں جہاں دُعا قبول ہوتی ہے ! !
سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے استغفار کی فضیلت میں ارشاد فرمایا کہ وَاللّٰہِ انِّیْ لَاَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً ١ خدا کی قسم میں اللہ تعالیٰ سے استغفار اورتوبہ دن میں ستر سے بھی زیادہ مرتبہ کرتا ہوں ! خود اپنا عمل ارشاد فرمایا ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٢٣
استغفار کا مطلب :
اس میں مجھے ایک بات کا خیال آتا ہے کہ استغفار کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بندہ یہ چاہے کہ وہ ڈھانپ لے ! تو اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ کا مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے میں چاہتا ہوں کہ وہ ڈھانپ لے ، اب گناہگار آدمی ہے تو اُس کی طلب یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف فرمادے ! گناہوں کا پردہ بھی رکھے دُنیا میں بھی اورآخرت میں بھی ! اورمغفرت کے معنی بھی یہی ہیں کہ ڈھانپ لینا یا بخشش فرمادینا ! کہا جاتا ہے ''خدا اُن کی مغفرت فرمائے '' مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ اُن کومعاف کرے اور اُن کو رحمت میں ڈھانپے ! !
نبی علیہ السلام کی اِستغفار کا مطلب :
توآقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم تو معصوم تھے، آپ سے تو کوئی گناہ نہیں ہوا ! گناہوں سے اللہ نے بچائے رکھا تھا ! توآپ کے استغفار فرمانے کا مطلب کیا ہے ؟ آپ کے استغفار فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ تلقین کرنی ہوئی، اُمت کو سکھانا ہوا کہ تم خدا کی طرف رجوع کرتے رہو، خدا سے اُس کی رحمت طلب کرتے رہو، معافی طلب کرتے رہو، یہ چاہتے رہو کہ وہ تمہیں اپنی رحمت میں ڈھانپے رکھے اوردُنیا میں بھی اس سے فائدہ ہے اور آخرت میں تو ہے ہی ! !
رحمت کے اَثرات :
تو جب اللہ تعالیٰ رحمت کی نظر کسی پر فرمالیتے ہیں تو پھر اُس کو آگے کو نیکی ہی کی توفیق ہوتی ہے ! برائی سے وہ بچا رہتا ہے ! یہ اللہ کی طرف سے ایسا انتظام ہوجاتا ہے اُس کے لیے کہ نیکی کی قوت بڑھا دی جاتی ہے ، برائی کی قوت مغلوب کردی جاتی ہے ! تو سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام جو استغفار فرماتے تھے تو اُس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ آپ گویا یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں ڈھانپے رکھے ! اوریہ طلب سارے انبیاء کرام علیہم الصلٰوة والسلام کرتے تھے ! اللہ سے مستغنی ہونے کا کسی نے بھی اظہار نہیں کیا ! !
ایک نبی کا قصہ :
حضرت ایوب علیہ الصلوٰة والسلام جب بیماری سے شفایاب ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی تمام چیزیں ٹھیک کردیں ! اُن کی زمین کی پیداوار بھی ٹھیک ہو گئی ! آمدنی بھی ٹھیک ہو گئی ! صحت بھی ٹھیک ہو گئی ! اورجب وہ ایک دفعہ غسل فرمارہے تھے تو ٹڈیاں آکر گریں سونے کی ! وہ اکٹھی کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَلَمْ اَکُنْ اَغْنَیْتُکَ عَمَّا تَرٰی یہ جو کچھ دیکھ رہے ہو ، یہ ٹڈیاں گررہی ہیں سونے کی ! میں نے تمہیں اتنا دے رکھا ہے کہ اِن ٹڈیوں کا کوئی تمہیں خیال ہی نہیں ہونا چاہیے ! انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ لَا غِنٰی بِیْ عَنْ بَرَکَتِکَ ١ تیری برکت سے میں کبھی بھی مستغنی نہیں ہوسکتا یعنی تیری طرف سے جو رحمت اوربرکت نازل ہو اُس کا تو میں ہمیشہ ہی محتاج رہوں گا ! ! سرورِ کائنات علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی گرفت سے، سوال سے ، حساب سے ، عذاب سے کوئی بھی نہیں بچے گا سوائے اُس کے کہ جسے خدا اپنی رحمت میں ڈھانپ لے ! تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم سے صحابہ کرام نے عرض کیا وَلَا اَنْتَ جناب بھی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہ ٢ تواصل میں خدا کا بندہ ہونے میں خدا کی مخلوق ہونے میں سب برابر ہوجاتے ہیں ! !
اورخدا خالق ہونے کے اعتبار سے ،غنی ہونے کے اعتبارسے، قادر ہونے کے اعتبارسے اور تمام اپنی صفات کے اعتبار سے سب کے لیے ڈر اورعظمت والی ذات ہے ! اوراب ہی نہیں بلکہ قیامت میں بھی ڈریں گے جب دیکھ لیں گے کہ ہمیں نجات ہوچکی پھر بھی ڈریں گے ! !
شفاعتِ کبریٰ :
اور وہ حدیث آتی ہے شفاعت ِکبرٰی کی، حضرت آدم علیہ السلام کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا اِس وقت ظہور ہو رہا ہے میں نہیں بات کرسکتا ، نوح کے پاس جائو ! نوح علیہ السلام آگے
بھیج دیں گے ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ خلیل اللہ ہیں ! حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی یہی جواب
١ مشکٰوة المصابیح کتاب احوال القیامة و بدء الخلق رقم الحدیث ٥٧٠٧
٢ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب سعة رحمة اللّٰہ رقم الحدیث ٢٣٧١
دیں گے ! اور ہر آدمی'' نفسی نفسی'' کہے گا ! ہر نبی یہ کہے گا کہ مجھے اپنی ذات کی فکر ہے ! تو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک تو غَنِیّ عَنِ الْعَالَمِیْن ہے ، سب سے بے نیاز، لہٰذا سب ڈرتے ہیں ! تو سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام بھی فرماتے ہیں کہ اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہ اب یہ حال دُنیا ہی میں نہیں بلکہ قیامت کا بھی بتایا گیا کہ اُس میدان میں بھی یہ ہوگا حال ! تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے تو سب ہی ڈرتے ہیں ! تو مغفرت کی طلب جو ہے وہ بھی اسی لیے ہے کہ تو اپنی رحمت میں ڈھانپے رکھ ! غضب کا سامنا ہی نہ ہو، نظر بھی نہ پڑے ! تو آپ نے ایک اپنا عمل بتلایا کہ میں ستر سے بھی زیادہ دفعہ استغفار کرتا ہوں !
استغفار کی ایک اوروجہ :
اورایک وجہ اس کی اوربھی آتی ہے حدیث شریف میں ، وہ یہ کہ لوگوں سے اختلاط یعنی ملنا جلنا جو اِس کا اثر صاف دل پر پڑتا ہے تو سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا کہ اَنَّہُ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ وَاِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِی الْیَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ ١ میرے دل پر'' غَیْن'' جیسے آتا ہے دُھن جیسی آجاتی ہے تو میں پھر سو دفعہ استغفار کرتا ہوں اوراستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کا اعتراف کرے کہ میں نے گناہ کیے ہیں ! اگر کوئی کہے کہ میں نے کیے ہی نہیں گناہ تو غلط کہتا ہے !
کوئی گناہوں سے بچا ہوا نہیں :
کوئی گناہوں سے بچا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ علامت ہے اِس بات کی کہ اُس کی آنکھیں کمزور ہیں اُسے نظر ہی نہیں آ رہا بالکل ،حالانکہ گناہ تو لازماً ہوتا ہے ! لہٰذا وہ نظر ڈالے اورغور کرے ! ! ؟
استغفار کا طریقہ :
تو پھر انسان کو چاہیے کہ پہلے تو گناہ کوگناہ کا کام سمجھے ! پھر اُس سے معافی چاہے آئندہ نہ کرنے کا ارادہ کرکے ! تویہ استغفار ہوا ! اوراستغفار کے کلمات کا ادا کرتے رہنا بے خیالی میں کہ
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٢٤
آدمی کو خیال بھی نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں بس تسبیح پڑھے جارہا ہے اَسْتَغْفِرُاللّٰہْ ، اَسْتَغْفِرُاللّٰہْ اتنا جملہ فرض کریں پڑھے جا رہا ہے تو پھر یہ ہے کہ اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہوگا ! فائدہ یہ ہوگا جیسے کہ زبان اس کی ذکر ہی میں لگی ہوئی ہے ، اللہ کا نام لینے میں لگی ہوئی ہے ! لیکن جو حقیقی فائدہ ہے وہ نہیں ہوگا ! !
استغفار کا تعلق دل سے ہے :
اوراس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ انسان زبان سے کہے بلکہ اصل میں تو استغفار ہے ہی دل کاکام ! زبان کا نہیں ہے ! زبان سے تو اُس کی تائید کی جاتی ہے اُس کا اظہار کیا جاتا ہے ! حقیقتاً جو توبہ ہے یا استغفار ہے اُس کاتعلق قلب سے ہے ! اور اپنے گناہ انسان کو پیش ِنظر رکھنے چاہیں ! اورخدا سے استغفار کرتے رہنا چاہیے ! اوراستغفار سنت عمل ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے کرکے دکھلایا ہے ! اور استغفار اگر بے خیالی میں بھی ہو تو وہ فائدہ تو نہیں ہوگا جو گناہوں سے توبہ کا ہوتا ہے، اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ زبان خدا کے ذکر میں لگی ہوئی ہے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا اوررحمتوں سے نوازے اورہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ،آمین، اختتامی دُعا
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون ٢٠٠٥ )
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.