jamiamadniajadeed

رمضان کی اہمیت

درس حدیث 166/57 --- رمضان کی اہمیت، قرآن اور رمضان، عورتوں کے لیے ذکر (31-05-1985)

حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
رمضان المبارک کی اہمیت ! قرآن اور رمضان !
عورتوں کے لیے ذکر
(درسِ حدیث نمبر٥٧/١٦٦ ١٠ رمضان المبارک ١٤٠٥ھ/٣١ مئی ١٩٨٥ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
یہ توآپ حضرات کو معلوم ہے کہ یہ رمضان المبارک کے دن ہیں ،قرآنِ پاک کی تلاوت اوراِن اوقات میں کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کی خاص مناسبت ہے ! قرآن پاک کی تلاوت ہے، استغفار ہے ،دُعا ہے، ذکر کی کثرت ہے جس طرح بھی ہو جن کلمات سے بھی ہو، اس کے اِن دنوں میں خاص اثرات مرتب ہوتے ہیں ! !
رمضان میں اچھے اوربُرے عمل کا اثر :
حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ایک جگہ کہ جیسا رمضان گزارے گا آدمی ویسے ہی اُس کے اثرات ہوں گے ! خدا کی یاد میں اگر گزارا ہے توسارے سال اس کے اثرات رہیں گے ! غفلت میں گزارا ہے تو سارے سال اس کے اثرات رہیں گے ! تو اتنا زیادہ رمضان کے اعمال کو دخل ہے ! تو قرآنِ پاک کی تلاوت وہ تو ہو ہی جاتی ہے ،تراویح میں سننا بھی ہو جاتا ہے، حفاظ جو ہیں اُنہیں یاد کرنے کی وجہ سے زیادہ پڑھنا پڑتاہے ! !
رمضان میں کیا کیا کرنا چاہیے ؟
باقی اورچیزیں کون سی ایسی ہیں کہ جواِن دنوں میں کی جائیں ؟ تو دُعا، استغفار، تسبیح ، تہلیل (یعنی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھنا) ،یہ چیزیں ایسی ہیں جو کثرت کے ساتھ کرنی چاہئیں ! اس میں اجروثواب بھی ہے اورخدا کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے ! درود شریف کی کثرت کی بھی بڑی فضیلت ہے اورکچھ مقدار مقرر کرکے پڑھتا رہے ! کسی چیز کی کچھ مقدار کسی چیز کی کچھ مقدار ،اس طرح سے کرلینا چاہیے ! حدیث شریف میں آتا ہے اَلتَّسْبِیْحُ نِصْفُ الْمِیْزَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ےَمْلَئُہ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ لَیْسَ لَہَا حِجَاب دُوْنَ اللّٰہِ حَتّٰی تَخْلُصَ اِلَیْہِ ١
اس حدیث شریف میں سُبْحَانَ اللّٰہْ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ کی فضیلت بتائی گئی ہے کہ تسبیح جو ہے وہ نصف میزان ہے جیسے ترازو کسی بھی چیز کے تولنے کے لیے رکھی جائے تو ایک طرف باٹ رکھ دیا جائے دوسری طرف سُبْحَانَ اللّٰہْ رکھ دیا جائے تو یہ نصف میزان بن جائے گا نصف ترازو بن جائے گی بس وزن بتانا مقصود ہے کہ وزنی چیز ہے ! اورآدھی بھر چکی تھی آدھی خالی تھی تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ جب بندہ کہتا ہے تو یہ گویا ترازو بھر جاتا ہے ! وہ ترازو کا نصف وزن ہوا اوریہ بقیہ نصف کو پورا کردیتا ہے ! لہٰذا فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ےَمْلَئُہ ۔
اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے لَیْسَ لَہَا حِجَاب دُوْنَ اللّٰہِ حَتّٰی تَخْلُصَ اِلَیْہِ اس کے اورخدا کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے یہ سیدھا اللہ کے پاس پہنچتا ہے یعنی مقبول ہوتا ہے ! ہر چیز اللہ کے پاس ہے اللہ ہر جگہ ہے ! مراد یہ ہے کہ مقامات جیسے بنادیے ہیں (عالمِ بالا میں )جیسے (دنیا میں )مسجد بناد ی ہے کہ جماعت کرو ! جیسے کعبة اللہ بنایا ہے کہ اِدھر رُخ کرو ، ساری دُنیا میں جہاں بھی ہو اِدھر رُخ کرو ! اسی طرح اللہ تعالیٰ نے(عالمِ بالا میں ) مقامات بنادیے ہیں تو اُس مقام تک یہ سیدھا پہنچ جاتا ہے ! اس کے درمیان کوئی حجاب نہیں کوئی رُکاوٹ نہیں ! اور حجاب
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب ثواب التسبیح و التحمید رقم الحدیث ٢٣١٣
ہونے نہ ہونے کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ میں اوربندے میں فاصلہ ہے چیزوں میں فاصلہ ہے پردے سچ مچ کے ہیں ! ایک قسم کے پردے تو ہیں بلاشبہ جب ہی تو آنکھیں نہیں محسوس کرتیں ! ورنہ تو رویت ِ باری تعالیٰ ہوتی ! لیکن یہ کہ فاصلہ ہو ! فاصلہ نہیں ہے اللہ ہر جگہ موجود ہے ! تو اِس میں بتایا گیا ہے کہ اس کی قبولیت میں کوئی دیر ہی نہیں لگتی ! لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ میں اعتراف ہے کہ خدا کے سوا باقی کوئی قابلِ عبادت اورلائق ِپر ستش نہیں !
حدیث شریف میں آتا ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا جو بندہ بھی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ کہتا ہے یعنی توحید کا اقرار کرتا ہے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے ان الفاظ سے، مُخْلِصًا قَطُّ دل سے
اِلَّا فُتِحَتْ لَہ اَبْوَابُ السَّمَآئِ حَتّٰی یُفْضِیَ اِلَی الْعَرْشِ تو اُس بندے کے لیے قبولیت کے واسطے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں یہ عرشِ الٰہی تک سیدھا پہنچ جاتا ہے ! یہ فضیلت اس جملہ کو حاصل ہے اس لیے اس جملے کو بولنے والے کو بھی فضیلت حاصل ہو گئی ! مگر وہ شخص جو یہ جملہ کہنے والا ہے اس فضیلت کا مستحق ہوگا ؟ اُس کے بارے میں فرمایا کہ مَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ ٢ جب تک وہ کبیرہ گناہوں سے بچا رہے گا ! کبائر کا ارتکاب ایسی چیز ہے کہ اُس کے بعد قبولیت پر اثر پڑتا ہے اور فرق پڑتا ہے ! اورکبائر سے بچا رہے اگر تو اتنا بڑا درجہ ہے ! ! !
عورتوں کو کیا کرنا چاہیے ؟
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم سے ایک صحابیہ نقل کرتی ہیں یُسَیرة اُن کا نام ہے مہاجر تھیں گھربار ترک کرکے اسلام کے لیے ترکِ وطن کرکے تشریف لے آئی تھیں ! فرماتی ہیں قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم عَلَیْکُنَّ بِالتَّسْبِیْحِ وَالتَّہْلِیْلِ وَالتَّقْدِیْسِ یَعْنِیْ سُبْحَانَ اللّٰہِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ ۔اس طرح کے کلمات جو خدا کی پاکیزگی بیان کرتے ہوں وہ کہتی رہا کرو ! اورفرمایا وَاعْقِدْنَ بِالاَنَامِلِ اوریہ جو ہیں پورے ان سے گناکرو ! گنتے تو ہیں ٣٣ دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہْ ، ٣٣ دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ اور ٣٤ دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب ثواب التسبیح و التحمید رقم الحدیث٢٣١٤
ان ہی اُنگلیوں کے پوروں سے، اوربھی طریقے ہیں اس کے جن میں اُنگلیوں پر ہزار تک بلکہ ہزاروں تک گنا جاسکتا ہے ! ! !
اُنگلیوں کی گواہی :
تو ارشاد فرمایا اُنگلیوں سے گنتی رہو ! فَاِنَّ ھُنَّ مَسْئُوْلَات مُسْتَنْطَقَات یہ جواُنگلیاں ہیں ان سے بھی پوچھا جائے گا خدا کے یہاں ! اوران سے بھی بلوایا جائے گاانہیں بولنے کی قوت دی جائے گی ! یہ جواب دیں گے یہ گواہی دیں گے ! اورفرمایا وَلَا تَغْفُلْنَ وَتُنْسَیْنَ الرَّحْمَةَ ١
اور غفلت نہ کرو کہیں ایسا نہ ہوکہ پھر رحمت ِ الٰہی سے تم محروم کردی جائو بھلادی جائو ! رحمت تمہارے حصے میں نہ آنے پائے ایسے نہ کرو ، غفلت منع ہے ! ذکر کسی نہ کسی طرح کرتا رہے آدمی یہ مطلوب ہے ! ہر آدمی اُس مقام پر پہنچ جائے جو بڑے بڑے حضرات کا مقام ہے وہ تو کارِدارد ہے ! لیکن اتنا جتنا کہ حدیث میں بتایا ہے اُتنا ہر آدمی کرتار ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہو تا ہے تو فائدہ ایک نسبت کا حاصل ہو جاتا ہے ! ! !
نسبت کا مطلب ؟
نسبت کے معنٰی کیا ہیں ؟ نسبت کے معنٰی ہیں ایمان کی قوت، اللہ کی ذات کے ساتھ دل کا ایک ربط خاص مضبوط قسم کا، وہ نسبت کہلاتا ہے ! یہ اَذکارِ مسنونہ ، تلاوت ، تسبیح ،تہلیل وغیرہ اگر کرتے رہیں ایک عرصہ تک تو یہ نسبت حاصل ہوجاتی ہے ! قرآنِ پاک پڑھنے پڑھانے والے کو بھی ! تفسیر پڑھنے پڑھانے والوں کو بھی ! حدیث اورعلومِ دینی جو پڑھتے پڑھاتے ہیں اُن کو بھی اسی طرح سے حاصل ہوجاتی ہے ایک نسبت ِخاص ! تعلق مع اللہ قوی قسم کا جس کے بعد پھر شک وتردد نہیں آتا ! اور اللہ اُس کو کفر سے اورکفر یات سے محفوظ رکھتا ہے ! تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے یہ طریقے بتائے
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب ثواب التسبیح و التحمید رقم الحدیث ٢٣١٦
وہ کلمات بتائے جو خدا کو بہت پسند ہیں اورکتنے پسند ہیں وہ مثال دے دے کر بتایا کہ ایسے پسندہیں ایسے پسند ہیں اورایسے پسند ہیں ! کہیں ترازو کا بتا دیا ، کہیں یہ بتادیا کہ اِس کلمے اورخدا کے درمیان قبولیت میں کوئی فاصلہ نہیں ، کوئی چیز حائل نہیں ہے ! آسمان وزمین کے فاصلے وہ بھی حائل نہیں بلکہ جیسے کوئی فاصلہ ہی نہیں ! تو اس طرح سے آقائے نامدار علیہ الصلٰوة والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے، اپنی رضا اورفضل ورحمتوں سے ہمیں دُنیا اورآخرت میں نوازے، آمین۔ اختتامی دعا.........................(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ اکتوبر ٢٠٠٥ )

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.