درس حدیث 223/51 ۔۔۔۔۔ ''توحید'' و ''رسالت''کے متعلق تمام اَنبیاء کا مؤقف ایک ہے ! عاشوراء کے مبارک دن میں حضرت امام حسین کی شہادت ! یوم عاشوراء ............................ فرعون کی غرقابی کا دن ! دُنیا کو ترقی کر کے جہاں تک جانا ہے وہ سب احکام حضرت محمد ۖ کے ذریعے بتلا دیے گئے ! ! (1986-09-12)
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''توحید'' و ''رسالت''کے متعلق تمام اَنبیاء کا مؤقف ایک ہے !
عاشوراء کے مبارک دن میں حضرت امام حسین کی شہادت !
یوم عاشوراء ............................ فرعون کی غرقابی کا دن !
دُنیا کو ترقی کر کے جہاں تک جانا ہے وہ سب احکام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بتلا دیے گئے ! !
( درسِ حدیث نمبر٢٢٣ ٦ محرم الحرام ١٤٠٧ھ/١٢ ستمبر ١٩٨٦ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائے ہیں اوقات اور مقامات جس میں ایسے مقامات کہ جہاں دُعا قبول ہوتی ہے وہ بھی بتلائے ! اور جو اُن مقامات تک نہیں پہنچ سکتا یا ہمیشہ نہیں رہ سکتا تو اُس کے لیے کیا چیز ہوگی ؟ اُس کے لیے رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے اوقات بتادیے کہ ان اوقات میں یہ عبادت کی جائے تو اتنا ثواب ہے ! ان اوقات میں دُعا کی جائے تو قبول ہوگی ! تو اُن میں رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے جو پسند فرمایا ہے وہ محرم کے روزوں کو بھی پسند فرمایا ہے !
اور ایسے ہوا تھا اس کا واقعہ کہ جب رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں دیکھا کہ یہودیوں نے محرم کا روزہ رکھا ہے دسویں تاریخ کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کوبُلاکر دریافت کیا کہ یہ کون سا روز ہے جس دن تم روزہ رکھتے ہو ؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ یَوْم عَظِیْم یہ ہمارے لیے ایک عظیم الشان دن ہے ! اور اُس کی وجہ یہ ہے اَنْجَی اللّٰہُ فِیْہِ مُوْسٰی وَقَوْمَہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو اور اُن کی قوم کو نجات دلائی تھی ! اور غَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَہ فرعون اور اُس کی قوم کو ڈبودیا غرق کردیا تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے شکر کے طور پر یہ روزہ رکھا تھا ! اُس دن روزے سے ہوں یا اُس سے اگلے سال سے روزہ رکھا ہو اُس دن کا، بظاہر یہ ہے کہ اُس سے اگلے سال سے اُس دن کا روزہ اُنہوں نے رکھا اور یہ تاریخ چاند کی تاریخ سے اُنہوں نے لی کہ سال جو بنتا ہے اس کا دن یہ آتا ہے ! تو یہ سال کون سا ہے ؟ عربی مہینوں سے جو سال بنتا ہے وہ ہے مراد، تو اِس واسطے ہم بھی اسے قائم رکھے ہوئے ہیں کہ ہمارے نبی حضرتِ موسٰی علیہ السلام نے رکھا تھا تو ہم بھی یہ رکھتے چلے آرہے ہیں !
توجنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فَنَحْنُ اَحَقُّ وَ اَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنکُمْ ١ ہم زیادہ قریب ہیں زیادہ حقدار ہیں یعنی حق اُسی کا زیادہ ہوتا ہے جو قریب زیادہ ہو ! ہم زیادہ قریب ہیں بہ نسبت تمہارے حضرت موسٰی علیہ السلام سے ! اس واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ روزہ رکھا ! یہودی صرف دعویدار ہیں جبکہ مسلمان عمل پیرا :
وہ تو حضرت موسٰی علیہ السلام کو ماننے کے دعویدار تھے فقط ! اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں تھے لیکن مسلمان تو اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے ! اُن کی تعلیم یہی تھی کہ جب نبی آخرالزمان علیہ الصلٰوة والسلام آئیں تو وہ جو احکام لائیں گے وہ ماننا ! ! !
''توحید'' کے متعلق تمام اَنبیاء کا مؤقف ایک ہے :
باقی تو سب کی ایک ہی رہی ہے'' توحید'' کہ اللہ ایک ہے اور جو نبی ہیں اُن سب پر جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں بالاجمال ایمان ہے ہمارا کہ سب سچے تھے ! تو یہ تعلیم شروع دن سے چلی آرہی ہے ! تو اَنبیائے کرام سب کے سب اس بارے میں یک زبان ہیں یک دل ہیں کہ اللہ ایک ہے !
اور خدا کے ساتھ اُس کی صفات میں کوئی شامل و شریک نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اُس کے یکتا ہونے پر سب کا ایمان چلا آرہا ہے ! !
١ مشکوة شریف کتاب الصوم رقم الحدیث ٢٠٦٧
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا گیا کہ یہ جو گزرے ہیں ابراہیم اور زکریا ، یحییٰ، عیسٰی، الیاس ، یونس اور لوط وغیرہ وغیرہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدٰھُمُ اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ )یہی ہیں وہ لوگ کہ جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے تو اِن کی ہدایت کی پیروی کیجیے ! تو ہدایت جو دی تھی وہ کیا تھی ؟ وہ یہی تھی ! ایسے ہی ( اِتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرَاہِیْمَ ) ابراہیم علیہ السلام کے مذہب کی پیروی کرو ،ملت کی پیروی کرو ! اُن کی ملت میں کیا چیز تھی جس کی پیروی اب مقصود ہے، احکام تو تھے نہیں بہت تھوڑے احکام تھے (صُحُفِ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی ) حضرت موسٰی علیہ السلام کے صحیفے ، توراة دی گئی احکام اُس میں سخت تھے مگر پورے نہیں تھے ،کچھ تھے، جو تھے وہ سخت تھے ! ابراہیم علیہ الصلٰوة والسلام کے چند صحیفے تھے اُن میں احکام بہت تھوڑے تھے ! تو اُن کی تو پیروی کو نہیں فرمایا گیا !
تمام احکام ؟
احکام تو بہت زیادہ اب دیے گئے جن میں وہ سب شامل ہیں جو اُن کے تھے اور جو لوگوں نے غلطیاں اُس میں بڑھادی تھیں ایجادات بڑھادی تھیں بدعات بڑھادی تھیں وہ اسلام نے بتلادیں اور ہٹا دیں وہ سب !
تو جس مذہب کی پیروی کا حکم مقصود ہے وہ تو'' توحید'' ہے اور''رسالت'' پر ایمان ہے
یہ ہے ملت ابراہیم ! !
انبیاء کی تفصیل ؟
ایک جگہ ارشاد ہے( اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِہ ) ہم نے ایسے وحی کی ہے آپ پر جیسے نوح علیہ السلام پر کی اور اُن کے بعد جو نبی اور آئے ، وہ نبی کتنے ہیں کون سی قومیں ہیں اُن کو بتایا نہیں گیا ( مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ) کچھ تو ایسے ہیں جنہیں ہم نے بیان کیا ہے کچھ ایسے ہیں جو ہم نے نہیں بتلائے قرآنِ پاک میں یہ آتا ہے (وَعَادًا وَّثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِھِمْ ) عاد اَور ثمود اَور جو اُن کے بعد تھے ( لَا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا اللّٰہُ ) اُن کو خدا کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں ! تاریخ میں اُن کے نام ہی نہیں ہیں ! پتہ ہی نہیں ہے قوموں کی قومیں ایسی ہیں ، تو اُن میں جو اَنبیائے کرام گزرے اُنہیں کوئی نہیں جانتا ! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
( اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیِّیْنَ مِنْ م بَعْدِہ ) اورجو اَنبیائِ کرام اُن کے بعد گزرے اُن پر وحی ہم نے کی جیسے اُن پر کی ویسے تم پر بھی وحی کی ! تو سب کی وحی ایک توحید کے بارے میں اقرارِ رسالت تصدیق رسالت کے بارے میں ! !
دُنیا کو ترقی کر کے جہاں تک جانا ہے وہ سب احکام بتلادیے گئے ہیں :
احکام تو پہلے تھوڑے ہوا کرتے تھے بعد میں بڑھتے چلے گئے حتی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں علمی چیزیں بہت زیادہ آگئیں اتنی کہ جہاں تک دُنیا کو ترقی ہوکر پہنچنا تھا اُتنی آگئیں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم حضرت موسٰی علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ہم زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اُن کی پیروی کریں یا اُن کو جس چیز سے خوشی ہوئی تھی اُس پر ہم خوش ہوں ! ہمیں زیادہ حق ہے تو پھر آپ نے روزہ رکھا ! !
پہلے پہل اَیامِ بِیضْ اور عَاشُوراء کے روزے فرض تھے :
اسلام میں شروع شروع میں تو روزے فرض کیے گئے تھے '' اَیامِ بیض' 'کے ہر مہینے میں تین دن تیرہ چودہ پندرہ یہ فرض تھے ! جب رمضان آگیا تو پھر یہ فرض منسوخ ہوگیا اب جو چاہے وہ رکھے روزے ہر مہینے، چاہے نہ رکھے، اس طرح سے تیس روزے بن جاتے ہیں کیونکہ ہر نیکی کا دس گنا بدلہ ہوتا ہے جب ہر مہینے میں تین روزے ہوگئے تو گویا مہینہ بھر روزہ ہوگیااُس کا ! اللہ نے جو وعدہ فرمایا ہے اجر کا وہ اس حساب سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس طرح دُوں گا ! ایسا بھی وقت گزرا ہے مدینہ منورہ آنے کے بعد کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دس محرم کا روزہ بھی فرض فرمایا تھا کہ یہ بھی رکھو یہ بھی واجب رہا ہے ! لیکن جب رمضان آگیا تو پھر یہ منسوخ ہوگیا اب یہ سب روزے نفلی رہ گئے ! تو مَنْ شَائَ صَامَہ ١ جس کا دل چاہے وہ رکھ لے روزے ! بہرحال ایک ایسا روزہ کہ جو فرض رہا ہو !
١ مصنف ابن ابی شیبة کتاب الصیام رقم الحدیث ٩٣٥٦
اب اگرچہ فرض نہیں رہا لیکن اُسے مزید فضیلت تو حاصل ہے اور روزوں کے اُوپر برتری حاصل ہے اُس کو اَجر کے حساب سے !
یہودیوں سے مشابہت نہیں ہونی چاہیے :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جس سال دُنیا سے رُخصت ہوگئے اُس میں فرمایا تھا کہ آئندہ سے اگر ہم روزے رکھیں گے تو اِس کے ساتھ ایک اور ملالیں گے تاکہ یہودیوں کی عبادت سے ہماری عبادت میں فرق ہوجائے ! وہ رکھتے تھے ایک ہی دن کا تو مسلمانوں کو فرمایا کہ وہ رکھیں دو دن کا نو، دس یا دس، گیارہ(محرم کا) ! !
حضرت حسین کی شہادت اس مبارک دن میں ہوئی :
یہ دن مبارک شمار ہوتا آیا ہے حتی کہ اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ! تو اس کے بعد سے پھر اِس دن کی دُوسرے تذکرے کی وجہ سے فضیلت ذہنوں سے ختم ہوگئی ! ورنہ حقیقتاً جو آتا ہے حدیثوں میں وہ محض اس کے تمام فضائل ہی فضائل ہیں ! !
اس دن سُرمہ لگانا اور اہلِ خانہ کے لیے اچھا کھانا پکانا :
کچھ دوائوں کے طور پر بھی مفید سمجھا گیا ہے سرمہ لگانا، کہتے ہیں کہ سرمہ لگائے اس دن میں تو آنکھیں دُکھنے نہیں آتیں ! سال بھر محفوظ رہے گا آنکھوں کی بیماری سے !
اسی طرح سے جو اس دن کھانا وغیرہ بہتر پکائے اپنے گھر والوں ہی کے لیے تو اللہ تعالیٰ رزق میں برکت عطاء فرماتے ہیں ! سال بھر اُس کی برکات چلتی رہیں گی ! یہ بہت آسان آسان عمل ہیں اور ثواب بہت زیادہ ہے ! ان میں فوائد بہت زیادہ ہیں ! جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات بتادیے ، طریقے بتادیے ،فوائد بتادیے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اَعمالِ صالحہ کی توفیق عطاء فرمائے اور اپنی بارگاہ میں قبولیت سے نوازے، آمین،اختتامی دُعا .................................................... (مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون٢٠١٠ )
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.