jamiamadniajadeed

انبیاء علیہم السلام رُوحانی سیاسی اور فوجی قائد رہے

درس حدیث 247/6 ۔۔۔۔۔ انبیاء علیہم السلام رُوحانی سیاسی اور فوجی قائد رہے غلام اور باندیاں بنانا قدیم اور عالمی طریقہ تھا،اسلام نے اِس میں نکھار پیدا کیامشرکین کا بگاڑ سب سے بڑا تھا (1987-05-17)

( جون 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
انبیاء علیہم السلام رُوحانی سیاسی اور فوجی قائد رہے
غلام اور باندیاں بنانا قدیم اور عالمی طریقہ تھا،اسلام نے اِس میں نکھار پیدا کیا
مشرکین کا بگاڑ سب سے بڑا تھا
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس حدیث 247/6 ١٩رمضا ن المبارک ١٤٠٧ھ/١٧مئی ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں یہ ذکر تھا کہ ایک صاحب آئے اور اُنہوں نے جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کیے ایک سوال یہ تھا کہ ''اسلام ''کیا ہے ؟ ایک یہ تھا ''ایمان'' کیا ہے ؟ ایک یہ کہ '' احسان'' کیا ہے ؟
اور پھر دریافت کیا اُنہوں نے کہ قیامت کے بارے میں مجھے بتلائیے ؟ تو قیامت کے بارے میں یہ کہ آ ئے گی ضرور اور کیا کیا اُس میں ہوگا یہ توبتایا گیا ہے لیکن کب ؟ یہ نہیں بتایا گیا ! اور آنے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں بتلائی ہے (لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی ) تاکہ ہر آدمی کو جو وہ کرتا رہا ہے اُس کا بدلہ دیا جا سکے۔ ایک دفعہ تو قیامت میں یہ کیفیت ہوگی کہ سب چیزیں ختم ہوجائیں گی فنا ہوجائیں گی ! دُوسری دفعہ یہ کیفیت ہو گی کہ سب چیزیں دوبارہ زندہ ہو جائیں گی ! !
قرآنِ پاک میں بہت جگہ یہ ہے اور مثال دی ہے بار بار کہ دیکھو یہ جو تم کھیتی بوتے ہو یہ اس طرح سے اُگتی ہے پھرزمین مرجاتی ہے پھر اُگتی ہے اللہ تعالیٰ اِسی طرح مُردوں کو زندہ فرمائیں گے (کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی ) اور کفار کے سوالات کیا ہم مٹی بن جائیں گے ! مر جائیں گے ! ! ہڈیاں ہوجائیں گے ! ! !
( أَاِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا أَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ ) اور ( أَاِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً ) ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں بالکل تو دوبارہ زندگی کیسے ؟ اُس زمانے کے شعراء نے بھی یہ باتیں کی ہیں مکہ مکرمہ میں
یُحَدِّثُنَا الرَّسُوْلُ بِاَنْ سَنُحْیٰی

وَکَیْفَ حَیَاةُ اَصْدَائٍ وَ ھَامِ ١
( جنہیں رسول ماننے والے رسول مانتے ہیں )یہ ہمیں بتارہے ہیں کہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا ہمیں ! لیکن یہ زندگی کیسے ہوگی کھوپڑی اور اُس سے پیدا ہونے والے جانور کی فناء کے بعد ! ! !
اُن کے خیال میں مرنے کے بعد کھوپڑی سے ایک جانور پیداہوجاتاتھا جب وہ بھی ختم ہوجائے گا اور کھوپڑی بھی فناء ہوجائے گی توکیسے زندگی دوبارہ پھر آئے گی ؟ یہ بڑا اِشکال تھا اُن کا ! ! !
مشرکین کا بگاڑ سب سے بڑھا ہوا تھا :
آخرت پر ایمان نہ رکھنے میں کفارِ مکہ آگے تھے یہودیوں سے اور عیسائیوں سے کیونکہ اُن کو تو اتنا عقیدہ نبیوں کے ذریعے پہنچا تھا اور وہ مانتے تھے کہ قیامت آئے گی اُٹھایا جائے گا جزاء ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ دین میں اُنہوں نے تحریف بھی کر لی تھی ( وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً ) چند دن آگ میں رہیں گے ! تو چند دن آگ میں رہنا اُنہوں نے تسلیم کیا ! ! کیونکہ جس کا ایمان ہو اور فسق و فجور کرتا رہا ہو تو پھر اُس کا یہی ہوا کرتا ہے کہ وہ جہنم میں معاذ اللہ جائے گا مگر نکل آئے گا( بالآخر)تو اس طرح کا عقیدہ تو تھا قیامت پر عیسائیوں کا بھی اور اِن سے پہلے توراة والے یہودیوں کابھی لیکن مشرکین، مشرکین اس کے قائل نہیں تھے اُن کے نزدیک بس یہی دُنیاوی زندگی ہے مرتے ہیں اورزندہ ہوتے ہیں بس (ھٰذِہِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیٰی )
١ بخاری شریف کتاب المغازی رقم الحدیث ٣٩٢١

تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں بتایا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ قیامت ضرور آئے گی اُٹھو گے، ضرور اُٹھوگے سوال ضرور ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اُس میں جو جو چیز یں پیش آنے والی ہیں وہ بھی بتائی گئیں یہ ہوں گی یہ ہوں گی یہ ہوں گی۔
قیامت کا وقت ِ معین کسی کو معلوم نہیں :
تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے اُن کو جواب دیا مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ پوچھنے والا جتنا جانتا ہے اُتنا ہی وہ بھی جانتا ہے جس سے وہ پوچھ رہا ہے یعنی اس کے بارے میں حق تعالیٰ کی ذات ِ اقدس کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا کہ کب ؟ کب کا جواب کوئی نہیں ! !
قیامت کی علامات بتلائی گئی ہیں :
باقی تو آپ بھی جانتے ہیں ہمیں حدیثوں میں جو پہنچی ہے وہ سنتے آئے ہیں کہ قیامت کے دن ایسے ایسے یہ یہ کیفیات ہوں گی وہ بہت ساری ہیں ، بہت تفصیل آتی ہے اور آئے گی تو اُس سے پہلے جو کچھ ہو گا اُن کا نام ہے'' علامات'' اُنہیں ''اَمارات'' بھی کہتے ہیں تو سوال کرنے والے جو تھے اُنہوں نے پھر اپنا سوال تبدیل کیا اور اُنہوں نے یہ کہا فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اَمَارَاتِہَا اس کی جو علامات ہیں وہ بتلائیے کچھ مجھے ( کہ وہ) کیا ہوں گی قَالَ (فرمایا) اَنْ تَلِدَ الْاَمَةُ رَبَّتَھَا باندی اپنے آقا کو جنے ۔
غلام اور باندیاں بنانا قدیم اور عالمی طریقہ تھا :
ایسے سمجھئے کہ پوری دنیا کا اُس زمانے میں یہ دستور تھا کہ غلام رکھے جاتے تھے غلاموں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی یہ کسی ایک ملک کا نہیں تھا، نہ کسی ایک مذہب والوں کا تھا، نہ لا مذہب والوں کا تھا اور نہ مہذب اور غیر مہذب ملکوں کا فرق تھا بلکہ ہر جگہ یہ تھا بڑے بڑے ممالک سُپر پاور وہ بھی یہی کرتے کہ جو قیدی ہو تے اُنہیں غلام بناتے عورتیں باندی بناتے ! فرعون کا کیا آرہا ہے قرآنِ پاک میں (یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآئَکُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآئَکُمْ ) عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے رکھ لیتے تھے ،بچوں اور لڑکوں کو ماردیتے تھے (وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلائ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْم)اس میں تمہاری بہت بڑی آزمائش تھی، اللہ کی طرف سے بڑی آزمائش میں تم پڑے تھے پھر (اَغْرَقْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ) اُنہیں بھی جزا ء ملی اور اس طرح کہ تم دیکھ رہے تھے وہ ڈوب رہے تھے تم نے دیکھا اُنہیں ڈوبتے ہوئے اپنی آنکھوں سے اور قرآنِ پاک میں ہے ( وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ أَئِمَّةً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْنَ وَنُمَکِّنَ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ ) اِس کے علاوہ ہم یہ چاہتے تھے کہ جو اِس سر زمین میں ضعیف (و حقیر) شمار ہو رہے ہیں اُن کو ہم آگے بڑھائیں اُن کو زمین میں جماؤ دیدیں اُن کی حکومت جم جائے اور اُن پر ہم چاہتے تھے احسان کریں اُنہیں امام بنانا چاہتے تھے اِس سرزمین کا وارث اُنہیں بنانا چاہتے تھے سرزمین یعنی بیت المقدس کا یہ سب جانتے ہیں ! ریگن ١ نے بھی کہہ دیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں لڑائیاں ہوں گی ان کی نشانیاں آتی ہیں کتابوں میں ۔
انبیاء رُوحانی اور سیاسی قائد تھے :
تو وراثت (قیادت)دونوں قسم کی'' رُوحانی'' بھی کہ اَنبیائے کرام بکثرت پیدا ہوئے تین ہزار سے بھی زیادہ ساڑھے تین ہزار، ان ہی بنی اِسرائیل میں گزرے ہیں ۔
اور وراثت(قیادت)'' مُلک'' کی بھی حضرت سلیمان علیہ السلام پوری دُنیا کے مالک وہ بھی ان ہی (بنی اِسرائیل) میں اور داؤد علیہ السلام بھی بادشاہ گزرے ہیں ۔ ٢
تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ فرعون(مصر میں موسٰی علیہ السلام کے دور والا) بڑی طاقت رکھتا تھا اور آپ دیکھ لیں آج تک ذکر اُس کا ہوتا ہے باقی جو حکومتیں تھیں وہ چھوٹی چھوٹی نوابی ریاستیں جیسی تھیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام رُوحانی و سیاسی قائد :
حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے دور میں عراق بڑی طاقت تھا یہاں بابِل میں حضرت اِبراہیم علیہ السلام گزرے ہیں نمرود یہاں تھا بہرحال وہ ختم ہوگئی طاقت، اَنبیائے کرام کی نافرمانی کی اور ایک مدت گزاری اُس نے پھر خدا کا عذاب آیا اور سب تباہ ہوگئے اور تباہ ایسے ہو جائیں کہ کوئی چیز ایسی
١ امریکہ کا سابق اداکار صدر ٢ مکمل سیاسی اقتصادی عسکری قیادت اِن کے اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے ہاتھ میں رہی۔ محمود میاں غفرلہ
سماوی آجائے یا تباہ ایسے ہوجائیں کہ زوال کے اسباب بنتے چلے جائیں ، حکومت تھی اور نہ رہے یہ بھی تباہی ہے، حکومت ہو کسی کو حاصل اور پھر نہ رہے اُس کی حکومت، وہ غلام بن جائے محکوم بن جائے پہلے طاقتور حکومت ہو پھر کمزور حکومت بن جائے بہرحال وہ نہیں رہا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام رُوحانی وسیاسی قائد :
حضرت موسٰی علیہ السلام کے دور میں یہ ہے فرعون والا قصہ مصر کا قصہ تو اُن کا کیا تھا کہ کہیں باہر دُشمن کو مار کے نہیں بلکہ اپنی رعایا میں سے ہی غلاموں کی طرح جس کو چاہا مار دیتے تھے یا رکھ لیتے تھے لڑکوں کو مار رہے تھے عورتوں کو بچا رہے تھے یہ(غلامی کا رواج) پوری دُنیا میں تھا ! آپ پڑھتے ہیں حضرت صہیب ِ رُومی، صہیب اَز رُوم اشعار میں بھی ہے اس طرح بلال حبشہ سے ،تو یہ(حضرت صہیب) تھے عربی اور رہتے تھے سرحد پر تو وہاں رُومیوں نے حملہ کیا اور انہیں اُٹھا کے لے گئے اِغوا کر لیا پھر بیچ دیا لے جا کر ! یہ رُومیوں کی ایک سپر پاور کا حال ہے ! ! اور یہ حضرت سلمانِ فارسی رضی اللہ عنہ اِدھر (ایران) سے چلے ہیں یہ بھی اِسی طرح سے بچارے بِکتے بِکاتے گئے ہیں مدینہ منورہ ۔
اسلام کی برتری :
اسلام نے ''حلال و حرام'' کی تمیز'' نسب'' کی تمیز یہ سکھائی اور اس کو واجب قرار دیا تو اب اگر کوئی آدمی اپنی باندی کو بیوی کی طرح رکھ لے گھر میں اور اُس سے اولاد ہوجائے تو اُس کو بیچنا منع ہے پھر اُسے بیچا نہیں جا سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ وہ بِکتے بِکتے کہیں کی کہیں چلی جائے پھر کہیں سے لوٹ کر آجائے اور پھر یہ جو بچہ ہے یا لڑکی ہے یہ(لاعلمی میں ان کو خرید کر) اپنی ماں کے مالک بن جائیں تو ایسی شکلیں ہوسکتی ہیں اس لیے منع فرما دیا، یہاں ہو پیدا اور پھر بیچ دیا جائے اور پھر وہ بنگلہ دیش چلی جائے جو مشرقی پاکستان تھا پھر بِکتے بِکتے یہیں آجائے اب صحت بعض لوگوں کی ایسی ہوتی ہے کہ اچھی خاصی عمر کے بھی کم لگتے ہیں عمر میں ، تو اب اس کو خریدنے والا ہو سکتا ہے کہ اُس کی بیٹی ہو ،ہو سکتا ہے اُس کا بیٹا ہو، دونوں طرح کے کلمات ہیں تو یہ کیا ہوا یہ بالکل برعکس( کہ ماں ہوتے ہوئے اُن کی باندی اور ماتحت ہوگئی ) اور یہ ظلم اور حرام کام ہوا۔ تو ایک چیز تو یہ کہ اِس مسئلہ میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا تو مسلمان رُک گئے اب تک رُکے ہوئے ہیں اور نہیں بیچتے، آئندہ بھی رُکے رہیں گے لیکن علاماتِ قیامت میں یہ ہوگا کہ اُس وقت اِس کی پرواہ لوگ نہیں کریں گے اور نافرمانی پر پورے پورے اُتر آئیں گے نسبًا حلال و حرام کی بھی تمیز نہیں رکھیں گے ۔
قیامت کی دوسری نشانی :
دُوسرے یہ وَاَنْ تَرَی الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَائَ الشَّائِ یہ بکریوں کو چرانے والے ننگے پاؤں رہنے والے پورا تن نہ ڈھکنے والے ایسے لوگوں کا حال یہ دیکھو گے یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ لمبی لمبی بلڈنگیں بنارہے ہیں ،یہ کیا ہے یہ بھی انقلاب ہے ایک طرح کا جو لوگ اس کے اہل نہ ہوں سنبھال نہ سکیں ، اپنے آپ میں سما نہ سکیں ، اُن کے پاس دولت آجائے تو پھر وہ دولت کے نشہ میں بے طرح خرچ کریں گے یا بے طرح بُخل کریں گے جہاں دینا ہے نہیں دیں گے، نہیں دینادیں گے، بدنظمی ہوگی ! ! ! خلاصہ یہی ہے کہ'' نسبی ''اعتبار سے بھی ہوگئی بدنظمی ''اقتصادی'' اعتبار سے بھی ہوگئی ! ! !
تو یہ علامات آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں ثُمَّ انْطَلَقَ پھر وہ صاحب جو یہ سوالات کر رہے تھے چلے گئے فَلَبِثْتُ مَلِیًّا تھوڑے عرصے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ایک دن اَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ معلوم ہے یہ جوسوالات کر رہا تھا یہ کون تھا ؟ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَمُ میں نے کہا میں تو نہیں جان سکتا اللہ زیادہ جان سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جان سکتے ہیں فرمایا کہ فِاِنَّہ جِبْرَائِیْلُکہ جبرائیل تھے اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ ١ اس لیے آئے تھے کہ تمہیں تمہارے دین کی باتیں سمجھائیں بتلائیں ! !
تو سوالات بھی ترتیب وار کیے اورجوابات سنوادیے لوگوں کو۔ تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ یہ تھے جبرائیل جو دین کی چیزیں اور اہم ترین باتیں ہیں سمجھانے اورسکھانے کے لیے آئے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِسلام پر قائم رکھے،آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے اِختتامی دُعا..........
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٢

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.