jamiamadniajadeed

دلوں کا زنگ اور اُس کا علاج

درس حدیث 21/54 --- دلوں کا زنگ اور اُس کا علاج ! جوں جوں مال بڑھے گا محبت بھی بڑھے گی ! دُنیا کی غیر محسوس محبت (11-12-1981)


حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
دلوں کا زنگ اور اُس کا علاج ! دُنیا کی غیر محسوس محبت !
جوں جوں مال بڑھے گا محبت بھی بڑھے گی !
( درسِ حدیث نمبر ٥٤/٢١ ١٣ صفر المظفر ١٤٠٢ھ/١١ دسمبر ١٩٨١ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَآئُ کہ دلوں پر زنگ آجاتا ہے جیسے لوہے پر زنگ آجاتا ہے اگر اُسے پانی لگ جائے ! تو عرض کیا گیا جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے وَمَا جِلَآؤُھَا یہ ٹھیک کیسے ہوگا ؟ لوہے کو زنگ لگ جائے تو اُسے صاف کرنے کا طریقہ اور ہے اور دل اگر زنگ آلود ہوجائے تو وہ کیسے صاف ہوگا وہ کیسے ٹھیک ہوگا ؟
جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کَثْرَةُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ ١ یہ دو چیزیں ہیں
ایک یہ کہ موت کا ذکر، موت کی یاد زیادہ کی جائے ! اور دُوسرے ہے قرآنِ پاک کی تلاوت !
اس سے یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ دل کے اندر جو خرابیاں آتی ہیں وہ دُھل جاتی ہیں ، دل میں چیزوں کی محبت اور دُنیا کی محبت جڑ پکڑ جاتی ہے وہ جڑ کیسے کٹے اُس کی، تو وہ اسی طرح کٹ سکتی ہے کہ انسان موت کو یاد رکھے کہ یہ سب چیزیں چھوٹ جانے والی ہیں اور کوئی بھی چیز ساتھ جانے والی نہیں ! ورنہ اگر ایسا
وہ نہیں کرے گا تو پھر یہ ہے کہ جتنا بڑا ہوتا جائے گا اُتنی اُسے دُنیا کی محبت اور بڑھتی جائے گی ! اور یہ بھی
١ مشکوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٦٨
نہیں ہے کہ کسی چیز سے اُس کی محبت کم ہوجائے ! اگر ایک کوٹھی تھی دو بنالے گا ،دو تھیں چار بنالے گا اور پہلے ایک کوٹھی سے محبت تھی تو اب چار سے ہوگئی ! ! ایک باغ تھا دو بنالیے، چار بنالیے، چھ بنالیے اب چھ باغوں سے محبت ہوگئی اُسے ! ! گویا یہ دُنیا کی محبت جو ہے یہ دل کو گھیرے چلی جاتی ہے اور اُس میں مضبوطی بڑی ہے کہ انسان اُس سے چھٹکارا نہیں حاصل کرسکتا ! اور اگر وہ کہتا ہے کہ نہیں جی، مجھے نہیں ہوگی یا مجھے نہیں ہے تو یہ کہنا عام آدمی کا تو غلط ہے ! عام آدمی کی حالت تو ایسی نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اللہ نے کسی کے دل میں ایمان بنادیا اُس کی حالت ایسی ہو تو ہو ورنہ نہیں ! جب بڑا ہوجاتا ہے آدمی، بوڑھا ہوجاتا ہے بچے بھی کمانے لگتے ہیں (معاشی طور پر) ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے تو اُسے چاہیے تھا کہ اللہ اللہ کرے، وقت الگ ہوکے بیٹھ کر گزارے، خدا کی یاد میں گزارے ، ایسا نہیں ہوتا ! ! بلکہ بیٹوں کی، پوتوں کی، پڑپوتوں کی، بیٹیوں کی، نواسوں کی، نواسیوں کی اور کس کس کی اُس کو محبت بڑھتی چلی جاتی ہے ! ! اور عورتیں جو ہوتی ہیں وہ تو بڑے جھگڑے کرتی ہیں ان باتوں پر ! ! گھر کے اندر کوئی عورت ہوگی اُس کی وہ بہو ہوگی، بچے سے اُس کے محبت ہوگی کیونکہ وہ پوتے ہیں اور بہو سے نفرت ہوگی ! ؟ روز لڑائی جھگڑے لڑائی جھگڑے سارا وقت اسی میں گزرجاتا ہے ! ! اور وہ اگر الگ بیٹھنا چاہے اور چاہے کہ اللہ اللہ کرلوں تو وہ نہیں کرسکتی ! کیونکہ وہ گھر میں رہتی ہے اُس کا دائرہ اور بھی محدود ہے ! اس واسطے اُس کے سامنے تمام چیزیں ہوتی ہیں اور تمام چیزوں پر نوک جھونک وہ کرتی ہیں ! اور مرد ہوتا ہے تو وہ ذرا اِس سے کم ہے ! وہ اِدھر اُدھر بھی کچھ ہوجاتا ہے ! بٹ جاتا ہے اُس کا حصہ ! !
دُنیا کی غیر محسوس محبت :
تو اس طرح سے دُنیا جو ہے اُس کے بارے میں خیال کرنا کہ دُنیا آئے اور اُس کی محبت نکل جائے ؟ یہ غلط بات ہے ! نہیں دُنیا جب آئے گی تو ساتھ ساتھ اپنی محبت اور چاہت بھی لائے گی ! جیسے کسی (دُوسرے)کی کوئی چیز ہو تو اُسے آدمی دیکھتا ہے تو اُس کی اتنی احتیاط نہیں کرتا ! لیکن اپنے آپ جو خرید کر لے آتا ہے گھر میں پھر چیز اپنی ہوتی ہے ! اور شیشے کی ہوتی ہے نازک ہوتی ہے تو کہتا ہے کہ کوئی ہاتھ بھی نہ لگائے ! حالانکہ وہ دُکان پر جب رکھی ہوتی تھی تو وہ ٹوٹ بھی جاتی تو بھی اتنا خیال نہ ہوتا ! اپنی ہونے کے بعد جو اُس کا تعلق بڑھا ہے قلبی ! بس اسی غیر محسوس طرح انسان محسوس بھی نہیں کرتا کہ میں کدھر جارہا ہوں ! ! ؟ ؟
دُنیا کی محبت بڑھنے سے خدا کی یاد کم ہوجاتی ہے :
ہوتا یہ ہے جو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور دلوں پر زنگ آتا چلا جاتا ہے، لگتا ہے زنگ اس قسم کا مراد ہے جو دُنیا ہی کی چیزوں کی محبت سے ہوتا ہے ! جب دُنیا کی محبت بڑھے گی خدا کی یاد کم ہوگی ! خدا کی یاد کم ہونا یہی دل کا زنگ ہے ! !
(اس بارے میں ) عرض کیا گیا تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا اس کا علاج یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرو ! پہلے تو ایسے ہی ہوگا خیال آیا نکل گیا، آیا نکل گیا خیال ! لیکن بعد میں پھر ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ سب چیزیں فنا ہوجانے والی ہیں ! ان سے دل کا تعلق کم کرنا چاہیے اور پھر ٹھیک ہوجاتا ہے جب اپنی اصلاح کا ارادہ کرلے آدمی اور اللہ سے مدد چاہے کہ اللہ تعالیٰ تو میری اصلاح فرمادے تو مجھے ٹھیک کردے تو انسان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ رفتہ رفتہ تعلق کم ہوتا چلا جاتا ہے (دُنیا سے) ! پھر کسی چیز سے بھی تعلق اُتنا نہیں رہتا جتنا خدا کی ذات سے ہوجاتا ہے ! !
باقی سب چیزیں دُوسرے درجے میں چلی جاتی ہیں تو اس طرح کا (اگر معاملہ ہو تو) چاہے وہ سب چیزیں قائم رہیں اُس کی، کتنا بھی بڑا مالدار ہو، کتنا بھی بڑا وہ زمیندار ہو، کارخانے دار ہو لیکن اگر اُس نے اپنی اصلاح کرنی چاہی ہے اور اصلاح کی دُعا مانگتا ہے خدا سے تو پھر اُس کا یہی ہوجائے گا کہ اُس کو اِن چیزوں کی محبت نہیں رہے گی ! !
دل میں غیر اللہ کی محبت نہ رہنا خدا کا احسان ہے :
اور محبت نہ رہے کسی چیز کی تو یہ بڑا اِحسان ہے خدا کا ! ورنہ بڑی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے انسان ! جب کسی چیز کی محبت ہو تو بس اُس میں تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ! اور نکل جائے اور خدا ہی کی رہ جائے محبت پھر بالکل ٹھیک ہے پھر کوئی بات نہیں رہتی ! ! !
دنیا اور آخرت کو جمع کردیا :
ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ نہیں ہے کہ آدمی بال بچوں کو چھوڑدے اور ایک طرف بیٹھ جائے ! اور سمجھے کہ میری محبت نہیں رہی تو میں بہتر ہوں ! یہ بھی نہیں بتایا شریعت نے ! ہر ایک کی درجہ بندی کی ہے اور اُس میں انسان کو مکلف کیا ہے کہ تیرے ذمے ہے یہ کام کرنا ! اب دل چاہے یا نہ چاہے کرے گا وہ کام ! تو دونوں چیزوں کو شریعت نے جمع کیا ! دُنیا کو بھی اور آخرت کو بھی ! اور اُس کے طریقے بتلائے اور یہ بتایا کہ اس طرح کرو، اس طرح کروگے تو اُس میں کامیابی حاصل ہوجائے گی ! !
جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک تو یہ بات فرمائی کَثْرَةُ ذِکْرِ الْمَوْتِ کہ انسان ویسے ہی موت کا ذکر کرتا رہے اور رفتہ رفتہ آہستہ آہستہ دل میں بیٹھ بھی جائے گی یہ بات کہ آخر ایک دن خدا کے یہاں جانا ہے ! !
تلاوت ِ قرآن جس طرح بھی ہو مفید ہے :
اور دُوسری بات یہ ہے کہ تلاوتِ قرآنِ کریم کرے ! تلاوت ِ قرآنِ کریم لفظوں میں ہو تو بھی فائدہ ہے، آدمی کسی رنج میں مبتلا ہو تو پھر تلاوت سے اُس کے دل کو بڑی تشفی ہوتی ہے ،یہ قدرتی بات اللہ نے رکھی ہے اس میں ، سکینہ و سکون ہے قرآن پاک کی تلاوت میں ! ! !
اور پھر یہ بات ہے کہ اگر اس کی ہمت ہو اور وہ ترجمہ بھی سمجھ لے اُس کی تفسیر سمجھے کچھ وقت اس پر لگائے آدھا پونا گھنٹہ لگادیا کرے، روزانہ چند آیتوں کو دیکھ لیا کرے ! تلاوت الگ کرے تلاوت تو دس منٹ میں ہوجاتی ہے ! پندرہ بیس منٹ کسی آیت کی تفسیر دیکھ لی کبھی کچھ دیکھ لیا کبھی کچھ دیکھ لیا اگر ایسے کرنے لگے تو قلب و ذہن پر اس کے اور بھی اچھا رُوحانی اثر پڑے گا ! !
سرورِ کائنات علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں بیماریاں بھی بتائی ہیں اور علاج بھی بتائے ہیں اور یہ بیماریاں وہ ہیں جو انسان کی اپنی ذاتی ہوتی ہیں ! اخلاقی ہوتی ہیں ! اور اِن کا علاج آدمی کبھی تو خود کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا ! تو علاج اور طریقے اُس کے بتائے ہیں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔اختتامی دُعا.................................
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ دسمبر ١٩٩٤ )

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.