jamiamadniajadeed

'' رمضان ''غم خواری اور صبر کا مہینہ ! سخاو ت کا بلند

درس حدیث 124/50 ۔۔۔۔۔ '' رمضان ''غم خواری اور صبر کا مہینہ ! سخاو ت کا بلند درجہ''ایثار'' اسلامی معاشرت میں متوسط طبقہ کی کثرت سب سے طویل عرصہ اسلام سپر پاور رہا ! اسلام، کمیونزم اور دیگر مذاہب (01-06-1984)


حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
'' رمضان ''غم خواری اور صبر کا مہینہ ! سخاو ت کا بلند درجہ''ایثار''
اسلامی معاشرت میں متوسط طبقہ کی کثرت
سب سے طویل عرصہ اسلام سپر پاور رہا ! اسلام، کمیونزم اور دیگر مذاہب
( درسِ حدیث نمبر١٢٤ یکم رمضان المبارک ١٤٠٤ھ/یکم جون ١٩٨٤ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں آتاہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو ایک خطبہ فرمایا ارشاد اس میں فرمایا یٰاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ اَظَلَّکُمْ شَہْرعَظِیْم اے لوگو تم پر ایک بہت بڑا مہینہ سایہ اَ فگن ہے ! وہ مہینہ مبارک ہے ایسامہینہ ہے کہ اس میں ایک رات ہے ( خَیْرمَّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ) اللہ کے نزدیک وہ اتنی افضل ہے کہ ایک ہزار مہینوں سے زیادہ بڑا اُس کا ثواب ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فر ض کیے ہیں جَعَلَ اللّٰہُ صَیَامَہُ فَرِیْضَةً وَقِیَامَ لَیْلِہ تَطَوُّعًا اس کی رات میں قیام کرنا اس میں عبادت کرنا یہ اللہ تعالیٰ نے مستحب بنایا ہے بہتر بنایا ہے ! !
اس خطبے میں ارشاد فرمایاکہ جو آدمی کوئی کام کرے جس سے خدا وند ِکریم کا قرب چاہتا ہو تو پھر وہ ایسے ہو گا جیسے کہ اُس کو رمضان کے علاوہ (کسی ماہ میں )کوئی فرض ادا کرنے پر ثواب ملتا ہے ! جیسے نفل پر ثواب دیا جاتا ہے اور جس نے فرض ادا کیے روزے بھی فرض ہیں نمازیں بھی فرض ہیں اور بہت سے فرائض ہیں اخلاقی فرائض ہیں معاملات کے فرائض ہیں اُس کو فرمایا کاَنَ کَمَنْ اَدَّی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَةً فِیْمَا سِوَاہُ وہ ایسے ہے جیسے کہ اُ س نے ستر فرض ادا کیے یعنی ایک فرض نماز کا ثواب ستر گنا ہے کوئی بھی عمل کیا جائے اُس کا ثواب بہت زیادہ بڑھ کرہوگا !
صبر کا مہینہ :
تو اِرشاد فرمایا وَھُوَشَھْرُالصَّبْرِ یہ صبر کی مشق کا مہینہ ہے اس میں اپنے آپ کو روکنا پڑتا ہے صبر کا مطلب ہے ثابت قدمی دکھانا ،رُکنا ،واقعی اپنے آپ کو روکنا ہوتاہے ! آدمی سب کے سامنے اور بالکل تنہائی میں ایک سارہتا ہے ! رُکا رہتا ہے روزے کے توڑنے کا کوئی کام نہیں کرتا ! ! صبر کا مہینہ ہے ! سردیاں ہوں تو بھوک ! گرمیاں ہوں تو پیا س ! دونوں میں سے کوئی نہ کوئی چیز غالب رہتی ہے لیکن انسان صبر کرتاہے ارشاد فرمایا وَالصَّبْرُ ثَوَابُہُ الْجَنَّةُ اورجو آدمی ثابت قدم رہے صبر کرے تو اُ س کاثواب پھر جنت ہوگی ! !
غمخواری کا مہینہ :
اور یہ مہینہ اس چیز کی مشق کا بھی ہے کہ ایک دُوسرے کی غمخواری کی جائے ! شَھْرُ الْمُوَاسَاةِ
روزی میں اضافہ :
اور فرمایا شَھْر یُّزَادُ فِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ یہ ایسامہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں برکت ہوتی ہے مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے !
روزہ اِفطار کرانے پر اَجر :
اس میں کسی آدمی کو اِفطار کرادینا باعث ِثواب ہے مَنْ فَطَّرَفِیْہِ صَائِمًا کَانَ لَہُ مَغْفِرَةً لِّذُنُوْبِہِ وَعِتْقَ رَقَبَتِہ مِنَ النَّارِ اگرکوئی آدمی کسی کا روزہ کھلوا دیتاہے تو اُ س کے گناہوں کی بخشش او ر جہنم سے گردن کے چھٹکارے کی اُمید ہو سکتی ہے ! ! یعنی اُ س ایک عمل سے اتنا ثواب بڑھ سکتا ہے کہ یہ حال ہو کہ اللہ کے ہاں اُ س کی بخشش ہی کر دی جائے ! !
سب کو اَجر ملتاہے :
وَکَانَ لَہُ مِثْلُ اَجْرِہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّنْقِصَ مِنْ اَجْرِہ شَئْی جو آدمی کسی آدمی کے آگے (اُس کی طرف سے) کام کر رہا ہے اور دُوسرے کو کھلا رہا ہے پلا رہا ہے، پیسے ایک کے ہیں کام دُوسرے کر رہے ہیں تو اِس کو بھی ثواب ملے گا ! او ر اس میں یہ نہیں ہوگا کہ ثواب بٹ جائے گا، نہیں بلکہ ہر ایک کو برابر برابر ثواب ملے گا اُتنا ہی اللہ کی طرف سے اِس کو بھی عطا ہو گا ! خداکے ہاں دینے میں کوئی چیز خرچ نہیں کرنی پڑتی سب اُس کی مِلک ہے سب اُس کامُلک جیسے اِس کونے سے اُس کونے میں رکھ دی ! خداوند ِکریم کے عطیات جو ہیں بے مثال ہیں بے حساب ہیں ! تواِس میں بھی یہی ہے کہ اَجر میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اَجر بڑھتا جائے گا اِس کوبھی اور دُوسرے کو بھی اُتنا ہی مل جائے گا جتنا پہلے کومِلا ہے ! تیسرے کو بھی اُتنا مِل جائے گا جتنا دُوسرے کومِلا ہے ! !
تھوڑے پر بھی پورا اَجر :
ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس اتنا کہاں ہوتا ہے لَیْسَ کُلُّنَا نَجِدُ مَا نُفَطِّرُ بِہِ الصَّائِمَ ہم سے سب لوگ اتنا کہاں رکھتے ہیں کہ جو کسی کو روزہ کھلوائیں تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ یہ ثواب جو ہے جس کو کم چیز میسرہے اُس سے کُھلوا رہا ہے اُس کو بھی ملے گا ! یہ شرط نہیں ہے کہ پیٹ ہی بھرے تو ثواب ملے ،کم ہے اگر کسی کے پاس اور وہ دے رہا ہے کھجور دے رہا ہے ، دُودھ کی لسی دے رہا ہے، پانی پلارہا ہے کسی کو روزہ کھلوانے کے لیے تو اُس کو بھی ثواب ملے گا ! اور پانی وہاں کے علاقے میں توبڑی چیز ہے ! اور ویسے انسان کی حیات کے لیے سب سے بڑی چیز ہے ! پانی اگر کم ہو جائے یا نہ مِل سکے کسی جگہ تو زندہ نہیں رہ سکتا انسان ! تو پانی پربھی اَجرہے کھجور پر بھی اَجر ہے کوئی کسی کو دُودھ پلا دے تو اُس پر اَجرہے اوراُتنا ہی اَجرہے ! کیونکہ ہر آدمی کو یہ (سب) میسر نہیں ہے، کسی کو کھجور یں میسر ہیں ،کسی کو دُودھ میسر ہے، بکری ہے اُس کے پاس اور اُسے کچھ میسر نہیں ہے اس کے علاوہ تو وہ کیا کرے گاثواب اُس کاکم رہے گا ؟ نہیں ثواب اُس کا کم نہیں رہے گا بلکہ جس کے پاس بالکل نہیں ہے اور وہ کچھ دے رہا ہے تووہ بہت دے رہا ہے ! ! !
ایک آدمی کا قصہ واقعات میں ہے اسی طرح کاکہ وہ ایک سخی کے پاس پہنچ گیا مشہور تھا وہ سخاوت میں ! مگر مالدار اِتنا نہیں تھا ! جبکہ دُوسرا مالدار تھا، کوئی بات ہو ئی تو اُس نے پیسے دے دیے مثلاًدس ہزار روپے دے دیے ! اور اُس سخی سے کہا گیا تو اُس نے چار ہزارروپے، ساڑھے تین ہزار روپے دے دیے ! تو مالدار نے سخی سے کہا میں تم سے آج جیت گیا ہوں میں نے اتنے دیے تم نے اس سے کم دیے، اُس (سخی) نے پوچھا کہ تمہارا کل مال کتنا ہے ؟ اُس نے کہااتنا ہے ! اُس نے کہا کہ یہ اُس کل کا کتنا حصہ ہے ؟ اُس نے کہا بہت تھوڑا سا حصہ ہے ! تو سخی نے کہا کہ آپ نے تو کل مال میں سے بہت تھوڑا سا حصہ دیا ہے ! اُس نے کہا یہ بات ٹھیک ہے ! اس نے کہا میں نے اپنا کُل دے دیا تو اُس نے کہا واقعی تم بڑے ہو جوکُل مال دے ڈالا ! ! !
''ایثار ''سخاوت کا بلند درجہ ہے :
صحابہ کرام کے دور میں جنابِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جن کو میسر تھا و ہ بھی ایسے رہتے تھے جیسے میسرنہ ہو ! ؟ کیونکہ وہ اُن لوگوں کو ترجیح دیتے تھے جنہیں میسر نہیں ہے ! اس ترجیح دینے میں جنہیں میسر ہوتا تھا وہ بھی ایسے ہی ہو جاتے تھے جیسے میسر ہے ہی نہیں ! ؟ ایک ضرورت مند آیا تو جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے گھر میں پوچھوایا کہ کچھ ہے کھانے کے لیے ! ؟ تو ہر جگہ سے جواب مِلا کہ کچھ نہیں ہے ! گھر میں کوئی چیز نہیں ہے کھانے کی ! وجہ کیا تھی ؟ وجہ یہ تھی کہ عام ذوق یہی تھا عام رواج یہ تھا سب صحابہ کرام کا کہ جو کچھ موجود ہوتاتھا وہ برابرضرورت مندوں کو دیتے رہتے تھے ! یہ تو صحابہ کرام کا اِیثار ہوا او ر اِیثار تو بہت بڑی چیز ہے ! ایثار تویہ ہے کہ خود ضرورت ہے اپنے لیے ضرورت ہے مگر دُوسرے کو ترجیح دے رہا ہے یہ اِیثار ہوا ! اور ایک ہے سخاوت کہ جس کو میسر ہے وہ برابر خرچ کیے چلا جائے ، دُوسروں کی ضرورت کاخیال رکھے ،کوئی مانگ رہا ہے تو دے دے یہ سخاو ت ہے ! یہ وصف سخاوت جو ہے یہ بھی اسلام میں خاص ہے !
اسلام اور کمیونزم :
تو اِیثار اور سخاوت یہ دونوں مذہبی تعلیم بھی ہوئی اور (اسلامی) معاشرتی انداز بھی ہوا ! ! تو اِس بناء پر جہاں اسلام اور مسلمان ریاستیں رہی ہیں وہاں کمیونزم نہیں آسکا پس بخارا کی تاشقند کی اور آذربائیجان تک کی ایک پٹی ہے جو زد میں آئی ہے ضرور ورنہ آیا ہی نہیں ! !
کمیونزم اور دیگر مذاہب :
رُوس میں آیا ہے تو وہاں یا عیسائیت تھی یا یہودیت تھی یا بت مذہب تھا یا مشرک تھے ! چین میں آیا ہے تو وہاں بھی دُوسرے مذاہب والے تھے ! بلکہ چین میں مساجد آباد ہیں ! وہاں نماز جماعت سے ہوتی ہے مسجد یں بھری ہوئی ہیں ! وہاں انقلا ب نے یہ اَثر نہیں کیا ! اس کے بعد ذر ا حد پار کریں دریائے(آموں ) ١ کی تو افغانستان تک نہیں آسکا ! اوراُدھر آذربائیجان وغیرہ کی طرف جنوب میں دیکھیں تو اِیران لگتاہے اِیران میں بھی نہیں آسکے ! کسی علاقے میں جہاں اسلام تھا کمیونزم نہیں آیا کیونکہ کمیونزم جو فوائد پہنچاتا ہے وہ اسلام میں ایک غریب کو(پہلے ہی) حاصل رہتے ہیں
اسلام اور متوسط طبقہ :
اسلام میں درمیانی طبقہ بہت ہوتا ہے بالکل غریب طبقہ بہت کم ہوتاہے ! اور جب تک بالکل غریب طبقہ کی کثرت نہ ہو تو یہ کمیونسٹ انقلاب نہیں آسکتا اورغریب طبقہ کی کثرت یہاں نہیں ہوتی یوں سمجھئے کہ پہلے زمانے میں دو حکومتیں تھیں کسری اور رُوم کی بہت بڑی بڑی جیسے آج امریکہ اور رُوس ہے، اسلام آیا پھیلتا چلا گیا یہ سب ختم ہو گئیں ! ! !
اسلام تیرہ سو سال سپر پاور رہا :
اور اسلام ایسے چھایا کہ تیرہ سو سال تک اسلام ایک سپر پاو ر رہا،اُس کے مقابلے میں کوئی دُوسری سپر پاور نہیں تھی حتی کہ ١٩١٤ ء کادور آتا ہے اُس دور میں آکر برطانیہ اور دُوسروں نے مِل کر ترکی حکومت کو ختم کیا ہے ورنہ یہ سارے علاقے ترکی تک بہت بڑی حکومت تھی( مگر) کمزور ہوتی چلی جارہی تھی پہلے سے اور ١٩١٤ء میں ختم ہو گئی لیکن تھی سب سے بڑی پاور ! ! اور کمزور جو کیا وہ ایک دونے نہیں پورے یورپ کی آٹھ دس حکومتوں نے مِل کر یہ سازش کی تھی ! تو پھر ایسے ہوا ہے کہ
١ دریائے جیحُون
برطانیہ کی حکومت میں گویا سورج غروب نہیں ہوتا تھا پھر برطانیہ ایک سپر پاور ہوگیا،سب سے بڑی طاقت بن گیا ! !
سب سے طویل عرصہ اسلام سپر پاور رہا :
لیکن انداز ہ کیجیے ١٩١٤ ء میں یعنی سوا تیرہ سوسال تک فقط مسلمان جوہیں وہ سپر پاور تھے ! ان کے مقابلے میں کوئی دُوسری طاقت نہیں تھی کہ یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے ایسا نہیں تھا ! اگر اِن کے ہاں عدل نہ ہو تا عدلیہ کام کی نہ ہوتی تو ظلم ہوتا، اقتصادیات ناکارہ ہوں نظام صحیح نہ ہو تو غربت افلاس اور طرح طرح کی خرابیاں آئیں گی تو اِنقلاب آجائے گا حکومت ختم ہو جائے گی ! معلوم ہوا کہ اسلام کے دونوں نظا م بڑے عمدہ ہیں اقتصادی بھی ! اور عدلیہ کا نظام بھی ! !
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ جسے کچھ بھی میسر ہے کچھ بھی کھلارہا ہے گویا ایک غریب آدمی کو بھی عادت ڈلوائی ہے کہ خرچ کرو ! اگر کوئی کہتا ہے کہ جناب میرے پاس کل ایک روپیہ ہے تو اُسے بھی کہا جائے گا کہ تو دس کا سکہ دے پانچ کا سکہ دے یہ خیال نہ کر کہ میں تھوڑا دے رہا ہوں یہ اُمید رکھ کہ اللہ کے ہاں قبول ہو جائے گا بس نیت صحیح رکھ !
آگے فرمایا وَمَنْ اَشْبَعَ صَا ئِمًا سَقَاہُ اللّٰہُ مِنْ حَوْضِیْ شَرْبَةً لَّا یَظْمَأُ حَتّٰی یَدْخُلَ الْجَنَّةَ ١ جو آدمی کسی کو پیٹ بھر کر کھلاد ے تو خاص بات یہ ہو گی کہ میرے حوض سے اُسے ملے گا پینے کے لیے ! اور اُس کو کبھی پیا س نہیں لگے گی حتی کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے دُنیا میں رہنا سہنا بھی بتایا او ر آخرت کا اجر بھی بتایا بلکہ توجہ آخرت ہی کی طرف رکھنی بتائی ! دُنیا کو کام کی جگہ بتایا کہ کام کرو تیاری کرو آخرت کی تیاری ! نظر اُس کی طرف رکھو یہ جیسے بھی ہوگزرہی جاتی ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا اور فضل سے نوازے، آمین۔اختتامی دُعا.........................
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جولائی ٢٠٠٢ )
١ مشکوة شریف کتاب الصوم رقم الحدیث ١٩٦٥

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.