jamiamadniajadeed

اعمال شکل اختیار کر کے محفوظ رہتے ہیں

درس حدیث 77/49 ۔۔۔۔۔ اعمال شکل اختیار کر کے محفوظ رہتے ہیں ! روزہ اور قرآن سفارش کریں گے ! انسان بھی ہر لمحہ فناء کے عمل سے گزرتا ہے ! (1983-06-24)


درس حدیث
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اعمال شکل اختیار کر کے محفوظ رہتے ہیں ! روزہ اور قرآن سفارش کریں گے !
انسان بھی ہر لمحہ فناء کے عمل سے گزرتا ہے !
درسِ حدیث نمبر٧٧ (١٢ مضان المبارک١٤٠٣ھ/٢٤ جون١٩٨٣ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اَلصِّیَامُ وَالْقُرْاٰنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ روزہ اور قرآنِ کریم دونوں ہی بندہ کی شفاعت کریں گے یا کرتے ہیں ! جو صحابہ کرام دُنیا سے رُخصت ہوچکے تھے اُن کے بارے میں کی بھی ہوگی اور جو جاتے ہیں اُن کے لیے وہ شفاعت کرتے ہیں !
یَقُوْلُ الصِّیَامُ اَیْ رَبِّ اِنِّیْ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّھَارِ روزہ یہ کہتا ہے کہ اے اللہ میں نے اس بندہ کو کھانے سے روک دیا تھا اور اُس کی پسندیدہ چیزیں شہوتیں جن کی طرف اس کی رغبت ہوتی تھی میں نے دن میں ان چیزوں سے اس کو روک دیا ! فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ میں اس کی سفارش کرتا ہوں تو میری شفاعت اس کے بارے میں قبول فرما ! !
یہ جتنی بھی عبادتیں ہیں ان کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ یہ سب کی سب شکل اختیار کرلیتی ہیں ! خداوند ِ کریم کی قدرت ہے یہ کہ جیسے آپ کسی کا فوٹو لیتے ہیں پھر ان فوٹوئوں کی اتنی بڑی تعداد ہوجاتی ہے کہ اُن سے فلم بنالیتے ہیں اور وہ حرکت کرتی ہوئی چیز معلوم ہوتی ہے !
اور دُوسرے طریقے پر آواز پیدا کرتے ہیں اور محفوظ کرتے ہیں اور وہ بولتی ہوئی چیز محسوس ہوتی ہے ! یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کے یہاں خود بخود ہوتی ہیں ! ! کوئی عمل جو انسان کرتا ہے رائیگاں نہیں جاتا، بیکار نہیں جاتا، غائب نہیں ہوجاتا، فنا نہیں ہوجاتا ! بلکہ وہ قائم رہتا ہے، موجود رہتا ہے محفوظ طرح موجود رہتا ہے ! جب انسان کا انتقال ہوجاتا ہے اور وہ دُوسرے عالَم میں جاتا ہے تو وہ چیزیں ملتی ہیں ، نظر آتی ہیں ، اُن سے اُس کا واسطہ پڑتا ہے اور یہ اعمال ایک شکل اختیار کرلیتے ہیں ! ! !
اچھی شکل اور خوفناک شکل :
وہ شکل جو یہ اعمال اختیار کرتے ہیں کبھی تو مثال کے طور پر حدیث شریف میں یہ ذکر کی جاتی ہے کہ جب انسان کو دفن کردیا جاتا ہے تو اُس کے پاس ایک چیز آتی ہے ! اُس کو وہ دیکھ کر یا خوش ہوتا ہے یا ڈرتا ہے ! ایسی ایک چیز اُس کے قریب آجاتی ہے !
تو اگر وہ خوش ہوتا ہے اُس سے تو یہ کہتا ہے کہ مجھے تیرے پاس آنے سے تیری شکل دیکھنے سے تیرے قرب سے ایک راحت میسر آگئی ہے، سکون ہورہا ہے ! تو کون ہے ؟
تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا عمل ہوں ! ؟ مجھے اللہ نے یہ شکل دے دی ہے ! اور میں تیرے ساتھ ہی رہوں گا الگ کبھی ہوں گا ہی نہیں ! گویا یہ فکر کہ میں چلاجائوں گا تو تنہا رہ جائے گا یہ نہیں ہے بلکہ میں تیرے ساتھ رہوں گا ! !
حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ بعض لوگوں کے (خدا پناہ میں رکھے) ایسی ہیبت ناک شکل سامنے آتی ہے کہ جسے انسان دیکھ کر ڈرجاتا ہے ! وحشت کھاتا ہے ! وہ اُس سے پوچھتا ہے کہ تو کون ہے ؟ میں تجھے دیکھتا ہوں تو ڈرتا ہوں وحشت ہوتی ہے ! !
تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا عمل ہوں جو تو کرتا رہا ! اور چاہے تو گھبرا اور چاہے جوکر میں تیرے سے الگ نہیں ہوں گا ! تیرے سامنے ہی رہوں گا ! ! اب وہ ڈر کی شکلیں کیا ہوسکتی ہیں ! کیا نہیں ہوسکتیں ؟ اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے بہت ساری شکلیں ہیں ! بجائے انسان کے جانوروں کی شکلیں ہوسکتی ہیں ! !
چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے اور قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے حدیث میں تو آتا ہے کہ جو آدمی زکوٰة نہیں دیتا مال کی، اُس کا مال ایک اژدھے کی شکل میں ہوگا ! جسے اُس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا ! اور وہ اُس کو ڈستا رہے گا ! جس سے اُسے تکلیف ہوتی رہے گی جیسے ڈسنے کی تکلیف ہوتی ہے ! وہ تکلیف جاری رہے گی ! گویا جو عمل انسان کررہا ہے اُس کی کوئی شکل بنتی جاتی ہے ! اور وہ عمل محفوظ رہتا ہے ! اور وہ مستقل شکل اختیار کرتا ہے ! اور عالمِ آخرت میں کس شکل میں سامنے آتا ہے ؟ ایک شکل میں سامنے آتا ہے یا کئی شکلوں میں سامنے آتا ہے ؟ یہ مختلف چیزیں ضرور ہیں ! مگر یہ کہ محفوظ رہنا عمل کا یہ ثابت ہے ! ! !
کلمہ ٔ طیبہ کی شکل :
حدیث میں آتا ہے کہ جو بندہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ایک دفعہ کہتا ہے تو اُس سے ایک شکل پیدا ہوتی ہے اُڑنے والی چیز کی ! جو عرشِ الٰہی کے گرد چکر کاٹتی ہے ! اور یہ کہتی ہے کہ میرے ادا کرنے والے کو بخش دے ! جس نے مجھے ادا کیا ہے، پڑھا ہے بخش دے ! معلوم ہوا وہ بھی محفوظ ہے وہ فنا نہیں ہوتا ! تو فنا کا معاملہ تو ایسا ہے کہ ہر چیز فنا بھی ہورہی ہے اور ہر چیز باقی بھی ہے ! دونوں ہی طرح ٹھیک ہے !
انسان بھی ہر لمحہ فناء کے عمل سے گزرتا ہے :
انسان بھی فنا ہورہا ہے ! جس دن سے آیا ہے روز فنا ہی ہورہا ہے ! فناہی کی طرف بڑھ رہا ہے جتنے دن گزرگئے وہ فنا کی طرف اتنے دن اور بڑھ چکا ہے ! کھانا کھاتا ہے وہ فنا ہوجاتا ہے ! پانی پیتا ہے وہ فنا ہوجاتا ہے ! دوبارہ ضرورت پڑتی ہے پانی پینے کی ! ہر چیز فنا ہورہی ہے اور دُوسری طرف دیکھا جائے تو وہ چیز باقی بھی ہے ! ؟ ہر چیز کو بقا بھی حاصل ہے ! ! ؟
جنت اور جہنم میں باقی ہی رہے گا ،وہاں فناء نہیں ہے :
قیامت کے دن جنت میں جہنم میں دوام کی شکل میں معلوم ہوتا ہے کہ باقی ہی باقی ہے ! فنا ہوتی ہی نہیں کوئی چیز ! تصویر کھینچ لیتے ہیں وہ باقی ہوتی ہے وہ رہتی ہے برس ہا برس ! فلم محفوظ رہ جاتی ہے ! اور ٹیپ کرلیتے ہیں تو مدتوں آواز محفوظ رہ جاتی ہے ! معلوم ہوتا ہے کہ فنا ہے ہی نہیں کسی چیز کو ! ایک طرف دیکھیں تو ہر چیز کو فنا معلوم ہوتی ہے ! نئی گاڑی تیار ہوکر آئی ہے تیار ہوگئی تو اب اس کے بعد زوال شروع ہوگیا اُس کا ! حالانکہ اُس کے سب پُرزے لوہے کے ہیں ! مگر کسی بھی طرح کی بنی ہوئی کوئی بھی چیز ہو، زوال پھر آنا شروع ہو ہی جاتا ہے ! فنا کی طرف وہ بڑھنی شروع ہو ہی جاتی ہے ! ایک لحاظ سے دیکھیں تو ہر چیز فنا ہورہی ہے اور دُوسرے لحاظ سے دیکھیں تو ہر چیز کو بقا بھی ہے دوام بھی ہے جیسے وہ فنا ہی نہیں ہورہی ! !
تو ایک بندہ زبان سے جب لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو وہ بھی فنا نہیں ہوتا وہ بھی قائم ہے ! اور حدیث شریف میں بھی آیا ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ یَمْلَأُ الْمِیْزَانَ وَیَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ ایسے کلمات آتے ہیں کلماتِ حمد و ثنا جو خدا کی تعریف اور پاکیزگی کے کلمات ہیں سُبْحَانَ اللّٰہِ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وغیرہ ان کلمات کے بارے میں یَمْلَأُ الْمِیْزَانَ کا لفظ بھی ہے اور یَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ بھی ہے آسمان و زمین کے درمیان بھرلیتا ہے ! ! !
آواز کی پہنچ اور آپ کا اِرشاد :
یہ آواز جو ہماری زبان سے نکلتی ہے کہاں کہاں پہنچتی ہے اور کہاں تک اُس کا مُنتہٰی ہوتا ہے اس کے اثرات کہاں تک جاتے ہیں ؟ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک چیز کے اثرات ہر جگہ پہنچ کر رہتے ہیں ! بڑی بڑی دُور پہنچتے ہیں جیسے کہ ایک ڈَلا ماریں ساکن پانی میں اور اُس سے لہریں پیدا ہوتی ہے اور وہ لہریں دُور تک جاتی ہیں ! اسی طرح سے جو آدمی زبان سے کلمات ادا کررہا ہے وہ بھی فضا میں دُور تک چلے جاتے ہیں ! کہاں تک گئے کہاں تک نہیں گئے یہ اللہ تعالیٰ جان سکتے ہیں ! مگر بتایا گیا ایسے کہ جیسے زمین و آسمان کو بھردیتے ہیں یعنی ان کا گُزر ہرجگہ ہوتا ہے ! اور کتنی دیر میں ہوتا ہے، کتنا وقت لگتا ہے یا نہیں لگتا وقت یا بالکل فوری ہوجاتا ہے، کون سی چیز مراد ہے حدیث میں ؟ اس کی تشریح و تعیین ہم نہیں کرسکتے ! بس حدیث میں جو آیا ہے وہ صحیح ہے اور اُس کی تشبیہ دی جاسکتی ہے اور اُسے عقلاً غور کیا جائے تو صحیح ہی قرار دیا جائے گا کیونکہ سمجھ میں آتی ہے وہ بات ! !
تو یہاں حدیث شریف میں یہ آتا ہے کہ روزہ سفارش کرے گا خداوند ِ کریم سے کہ اللہ تعالیٰ میں نے اس کو کھانا پینا اور شہوتیں جس میں پینا بھی داخل ہے، وہ سب چیزیں میں نے روک دی تھیں فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ خداوند ِ کریم اس کے بارے میں میں تیرے سے شفاعت کرتا ہوں !
قرآن کی سفارش : وَ یَقُوْلُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ فَیُشَفَّعَانِ ١ اورقرآن کہے گا یہ رات کو مجھے پڑھا کرتا تھا بالاجمال(یہاں حدیث میں اتنی ہی ) بات ہے ! اور کون سی سورت پڑھتا تھا اور کس سے زیادہ محبت تھی ؟ کون سی آیت سے محبت تھی ؟ کون سے مضمون سے محبت تھی ؟ وہ الگ چیز ہے ! یہ تو بالکل سادہ پڑھنا ہے جو (مرادہے ) تو قرآن کہے گا یہ مجھے پڑھا کرتا تھا ! اور رات کو نیند کی قربانی دیتا تھا ! تو گویا میں نے اسے سونے سے روکا ! خداوند ِ کریم میں بھی اس کے بارے میں شفاعت کرتا ہوں کہ تو اسے بخش دے ! !
فَیُشَفَّعَانِ حدیث میں آتا ہے کہ ان دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی اور اس کی بخشش ہوجائے گی ! حقیقت یہ ہے کہ خداوند ِ کریم کی ہی مرضی ہے اور ماننا ہے ! اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے لیے یہ فرمایا کہ
میں مان لوں گا ! یہ طے فرمایا تو پھر یہ شکل بن گئی روزہ(اور قرآن) کی اور شفاعت قبول فرمالی جائے گی !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا اور رحمتوں سے دُنیا اور آخرت میں نوازے،آمین۔اختتامی دُعا.............
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون ١٩٩٨ ئ)
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الصوم رقم الحدیث ١٩٦٣

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.