jamiamadniajadeed

شب ِ قدر'' دُعاؤں اور '' شب ِ براء ت''

درس حدیث 210/48 ۔۔۔۔۔ ''شب ِ قدر'' دُعاؤں اور '' شب ِ براء ت'' استغفار کے اعتبار سے اہم ہے !شب قدر کی ساعت میں کیا دُعا مانگنی چاہیے ؟ اس ساعت میں جو مانگے گا ویسا ہی ہو جائے گا !(1986-05-16)

حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''شب ِ قدر'' دُعائوں اور '' شب ِ براء ت'' استغفار کے اعتبار سے اہم ہے !
شب قدر کی ساعت میں کیا دُعا مانگنی چاہیے ؟
اس ساعت میں جو مانگے گا ویسا ہی ہو جائے گا !
( درسِ حدیث نمبر ٢١٠ ٦ رمضان المبارک١٤٠٦ھ/١٦ مئی ١٩٨٦ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
یہ رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور یہی مہینہ ہے جس میں جنابِ رسول اللہ ۖ کے زمانہ میںشب ِ قدر ہوئی تھی وہ ستائیسویں شب تھی جو رسول اللہ ۖ کے زمانہ میں ہوئی ! اب آپ کے بعد صوفیائے کرام کا قول تو یہی ہے کہ سال بھر میں کوئی سی بھی رات ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو مخفی ہی رکھا ہے اُس کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ اسے مخفی رکھا جائے اور اس میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اُس وقت جو دُعا کرلی جائے وہ قبول ہوجاتی ہے ! یہ رات جو ہے یہ دُعا کی قبولیت کے لحاظ سے بہت فضیلت رکھتی ہے بڑی تاثیرات ہیں اس میں !
اور ایک ہے وہ جو چودہ اور پندرہ شعبان کی درمیانی رات ہے اُس کا استغفار کے لحاظ سے بڑا درجہ ہے اُس میں جو استغفار کرے گا اُس کے لیے استغفار کی قبولیت کی بشارت آئی ہے، کوئی خدا سے معافی چاہے اپنے گناہوں کی بخشش چاہے تو اُس کے لیے اُس میں بہت بڑی بشارت ہے کہ قبول ہوتی ہے، اُس میں یہ بھی تعلیم دی گئی کہ قبرستان بھی جائیں وہاں اہلِ قبرستان کے لیے بھی مغفرت کی دُعا کریں تو وہ رات تو کہلاتی ہے بَرَائَ تْ کی رات ! ''بَرَائَ تْ'' یعنی گناہوں سے معافی اور بَری کردینا تووہ شَبِّ بَرَائَ تْ ہوئی ! اُردو میں بھی براء ت بولتے ہیں لکھتے ہیں اس کو !
جو مانگے گا بعینہ وہی قبول ہو گا :
اور دُوسری یہ ہے رات یہ جو ہے یہ قبولیت کے لحاظ سے ہے کہ جو دُعا کی جائے قبول ہوجائے گی اچھی کریں اچھی ! بُری کریں بُری ! صرف دُنیا کے متعلق کریں تو وہ ! آخرت کے متعلق کریں تو وہ ! جو کلمات زبان سے نکل جاتے ہیں بعینہ وہی پورے ہوجاتے ہیں بعض دفعہ ! اور ایسی چیز ایسی ساعت ایسا وقت اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے مخفی رکھا جائے لہٰذا اِسے مخفی رکھا گیا !
قبولیت کی ساعت کسی کسی کو اور رات کی فضیلت ہر کسی کومِل سکتی ہے :
اور جس رات میں یہ ساعت آتی ہے اُس رات کی فضیلت بتادی وہ ہر عبادت کرنے والے کو حاصل ہوسکتی ہے !
ایک تو ہے اُس رات میں وہ گھڑی وہ وقت بعینہ نصیب ہوجائے کہ جس میں دُعا کی جاتی ہے اور وہ قبول ہوتی ہے رَد نہیں ہوتی بلفظہ پوری ہوجاتی ہے جو زبان سے نکلے ہوں الفاظ وہی پورے ہوجاتے ہیں !
اور ایک ہے وہ ساری رات شام سے لے کر صبح تک اُس کی فضیلت ،وہ فضیلت حاصل سب کو ہوسکتی ہے جو بھی آدمی سال بھر جاگ لے رات کو عبادت کرلے تہجد پڑھ لے یا جو عشاء اور فجر پڑھ لے جماعت کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ جیسے وہ جاگتا ہی رہا ہے اور نماز ہی پڑھتا رہا ہے ! رات بھر کی عبادت لکھ دی جاتی ہے ! یہ اللہ کی طرف سے فضل اور احسان ہے کہ وہ لکھ دیں وہ عنایت فرمادیںجو نہ کیا ہو بندہ نے وہ بھی حساب میں لگادیا جائے اُس کے ! تو یہ عطاہے اُس کی اور عطا کو کوئی روک ہی نہیں سکتا ! آپ کسی کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو کوئی سمجھائے گا ہی آپ کو کہ نہ دیں روک تو نہیں سکتا ! اگر آپ کی وہ چیز ہے اور آپ کو اختیار ہے توکسی نہ کسی طرح دے ہی دیں گے آپ تو اسی طرح اللہ تعالیٰ کسی کو دینا چاہتے ہیں تو کون روک سکتا ہے ؟
تو اُس نے کچھ چیزیں ایسی رکھی ہیں جو عام کردیں تو جو آدمی بھی کم اَز کم یہ کہ جماعت سے پڑھ لے نمازِ عشاء اور فجر تو اُس کو اللہ تعالیٰ کے یہاں رات کی عبادت کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے کیونکہ جو سنت طریقہ ہے وہ تو یہی ہے کہ جو عشاء کی نماز پڑھ کر سو جائے گااور صبح کی اُٹھ کر پڑھ لے گا تو اُس نے درمیان میں گناہوں والی زندگی گزاری بھی نہیں سویا ہی رہا ہے تو اُس کو وہ لکھ دیا جائے گا !
اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ عبادت کربھی لیتا ہے سَچ مُچ تو یہ بھی شکل ایک ہے مگر لوگوں میںیہ اُس سے کم ہے ! تو جو بھی کرلے گا عبادت تواُس کو وہ ثواب تو مل جائے گا ! قرآن میں آیا ہے (لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ) ایک ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے اس میں عبادت جو کرلے گا وہ ایک ہزار مہینوں سے زیادہ کرلی عبادت ! تو ایک ہزار مہینوں کے تو بہت سے سال بن جاتے ہیں ستّر اَسّی سال بن جاتے ہیں ! تو گویا اتنا بڑا درجہ یہ عبادت کے لحاظ سے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لحاظ سے ہوا ! ! !
سب سے بڑا خوش قسمت :
اور ایک وہ چیز ہے جو خاص ہوتی ہے کہ اُس کو وہ ساعت بھی اللہ تعالیٰ بتلادیں دکھلادیں اور اُس کو توفیق ہوجائے کہ وہ اُس میں دُعا کرلے ،خدا سے اُس کی رضا چاہ لے اُس کا فضل چاہ لے ! یہی صحابۂ کرامکی توصیف آئی ہے ( تَرٰی ھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانًا ) اللہ سے اُس کا فضل اور اُس کی رضا چاہتے ہیں تو اس سے بڑا اِنعام کوئی ہے ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشنودی سے نواز دیں اُس بندہ کو ! اور یہی جگہ جگہ ذکر ہورہا ہے( لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) اور ( رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ )،( وَرِضْوَان مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ) کہیں کوئی جملہ کہیں کوئی جملہ کہیں کوئی کلمہ کہیں کوئی کلمہ تو صحابۂ کرام کی اصلی حالت اور قلبی کیفیت جو تھی وہ یہ ہوگئی اُن کے دل کی کہ وہ چاہتے ہی یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو اور اپنا فضل ہمارے ساتھ شامل رکھے متوجہ رکھے ہمیں اپنے فضل سے نوازتا رہے ( یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا ) یہ اُن حضرات کی سَچ مُچ حالت ہوگئی تھی دل کی کیفیت ہی یہ ہوگئی ! تو اگر کسی کو توفیق ہوجاتی ہے اور وہ اُس وقت یہ دُعا بھی کرلیتا ہے تو وہ سب سے بڑا خوش قسمت ہے !
کس کی دُعا زیادہ اچھی تھی ؟
ایک صاحب تھے ترکی کے شیخ الاسلام کے بارے میں وہاں ہوا کرتے تھے مختلف دور میں مختلف علماء گزرے ہیں ''شیخ الاسلام'' کہلاتے تھے ! ایک شیخ الاسلام وہ بھی ہیں جن کی لائبریری وہاں سے مدینہ طیبہ میں منتقل ہوگئی وہ کہلاتی ہے'' مکتبۂ شیخ الاسلام'' اور اب تک تو جگہ اُس کو بڑی عجیب ملی ہوئی تھی سڑک کے اس طرف روضۂ اَطہر ہے مسجد ِ نبوی میں اور سڑک کے اُس طرف وہ ہے گنبد بنا ہوا ہے نظر آتا ہے وہ جو گنبد اُدھر نظر آتا ہے وہ مکتبۂ شیخ الاسلام کا ہی ہے،وہ ترکی کے تھے اللہ جانتا ہے اُن کا ہے یا کسی اور کا ہے بہرحال بڑے عالم کا واقعہ ہے وہ فرماتے تھے کہ کہیں جارہے تھے ایک آدمی اُن کے ساتھ تھا اور ایک وہ خودتھے تو ان دونوں کو کسی شب یہ احساس ہوا کہ جیسے اس وقت یہ شب ِ قدر کی وہ ساعت ہے تو دُعا کرلی جائے ۔ایک نے تو دُعا یہ کی کہ اِیمان پر خاتمہ نصیب ہو، انہوں نے یہ دُعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ مجھے علم دے اور شہرت دے میرے علم کو اِتنی کہ میں سب سے بڑا عالِم کہلائوں یا ہوجائوں جو بھی کلمات تھے،اِنہوں نے علم کی دُعا کی ! اور علم کی شہرت کی دُعا کی اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ علم بھی بڑی چیز ہے علم ِ دین خاص طور پر ، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عنایت ہے بڑی خصوصی۔
تو شہرت کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے تو چیز تو کوئی غلط اُنہوں نے ایسی نہیں مانگی ! وہ کہتے ہیں کہ اُس کا انتقال تو میرے سامنے ہوا اور ایمان پر ہوا ٹھیک طرح سے جیسے اُس نے دُعا کی تھی ویسے ہی ہوا ! اور اپنے بارے میں کہتے تھے کہ میں اتنا مشہور ہوچکا ہوں کہ میں ہی پہچانا جاتا ہوں اس نام سے یا اس عُرف سے پوری مملکت میں لیکن کہتے ہیں کہ دُعا مجھ سے بہتر اُس آدمی کی تھی جو میرے ساتھ تھا کہ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے ! اپنے بارے میں کہتے تھے کہ مجھے کیا پتا اپنے بارے میں کیونکہ جو دُعا کی تھی اُس کا تعلق اس سے تھا کہ علم زیادہ ہو چرچا زیادہ ہو شہرت زیادہ ہو وہ حاصل ہوگئی اُس کا تعلق آخرت سے بھی ہے یا نہیں اس کا کوئی پتا نہیں ! تو مجھ سے اچھی دُعا اُس کی تھی جسے کوئی جانتا بھی نہیں لیکن خاتمہ ایمان پر ہوا !
تو ایسی بھی اس میں ساعت آتی ہے یہ بیشتر رمضان میں ہی ہوتا ہے ایسے اور اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی ہر رات ایک وقت ایسا گزرتا ضرور ہے۔
تو اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی مبارک ساعتیں بھی نصیب فرمائے اور اُس میں اُن دُعائوں کی توفیق عطاء فرمائے کہ جن سے اُس کی رضا اور اُس کی خوشنودی اور اُس کا قرب حاصل ہوتا ہو !
ہم سب کو اور ہمارے گزرنے والے احباب اور رشتہ داروں اور اساتذہ اور مشائخ سب کو اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور رحمتیں نصیب فرمائے، آمین۔ اختتامی دُعا..........(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ مئی ٢٠٠٩ء )

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.