jamiamadniajadeed

جسم کے جوڑوں کا صدقہ

درس حدیث 19/44 ۔۔۔۔۔ جسم کے جوڑوں کا صدقہ ! اسلامی احکامات اور عقلِ سلیم اچھائی کا حکم اور برائی سے روکنا حکومت کی اصل ذمہ داری (1981-11-27)

حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
جسم کے جوڑوں کا صدقہ ! اسلامی احکامات اور عقلِ سلیم
اچھائی کا حکم اور برائی سے روکنا حکومت کی اصل ذمہ داری
( درسِ حدیث نمبر١٩ ٢٩محرم١٤٠٢ھ/٢٧نومبر ١٩٨١ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جناب رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب انسان کا دن شروع ہوتا ہے صبح شروع ہوتی ہے تو اُس کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے ١
دوسری حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابۂ کرام نے دریافت کیا کہ اس کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے، کس طرح یہ ادا کیا جاسکتا ہے ؟ جوڑ تو انسان کے بہت ہیں، ایک ایک اُنگلی میں بھی جوڑ ہیں ! تو جناب رسول اللہ ۖ نے بتلایا ''تَسْبِیْح''سبحان اللہ کہنا یہ بھی صدقہ ہے ! ا ور ''تَحْمِیْد'' اَلحمد للہ کہنا یہ بھی صدقہ ہے ! ''تَہْلِیْل'' لااِلہ اِلا اللہ کہنا یہ بھی صدقہ ہے ! '' تَکْبِیْر'' یعنی اللہ اکبر کہنا یہ بھی صدقہ ہے ! پھر اِن کا زبان سے ادا کرنا یہ گویا صدقہ دینا ہے ! یعنی خداوند ِکریم کا شکر ادا کرنا جتنے جوڑ ہیں اُتنی بار، یہ کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اسی طرح ہوسکتا ہے آسان طریقہ اس کا یہی بتلادیا گیا ہے کہ تسبیح ہے یعنی سبحان اللہ ہے ،الحمد للہ ہے، اللہ اکبر ہے، لااِلہ اِلا اللہ ہے یہ کہہ دیا جائے یہ بھی صدقہ ہوجاتا ہے !
١ مشکوة المصابیح کتاب الزکوة باب فضل الصدقة رقم الحدیث ١٨٩٦
ایک چیز اور فرمائی ہے کہ اَمْر بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَةً وَنَھْی عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَة ١ امر بالمعروف کسی کو اچھی بات بتلانی یہ صدقہ ہے، نہی عن المنکر کسی بری بات سے روک دینا کسی کو یہ صدقہ ہے ! گویا یہ بھی خداوند ِکریم کے احسانات کو تسلیم کرتے ہوئے شکر ادا کرنے کی ایک کوشش میں داخل ہے کہ خداوند ِکریم تونے مجھے وجود بخشا ہے، تونے مجھے علم عطا فرمایا ہے، تونے مجھے اچھے برے کی تمیز دی ہے اس بناء پر انسان یہ کرتا ہے کسی سے کہتا ہے کہ یہ کام کرو ! کسی سے کہتا ہے کہ یہ کام نہ کرو اِس علم کی وجہ سے ! اور وہ علم و ہ ہے کہ جو اللہ نے دیا ہے کیونکہ اچھے برے کا فرق عام طور پر چلتا ہے پوری دُنیا میں ! کوئی کہتا ہے کہ یہ چیز اچھی ہے کوئی کہتا ہے یہ چیز بری ہے ! کچھ چیزیں ایسی ہیں پوری دُنیا مانتی ہے کہ یہ بری ہے لیکن وہ کہتے ہیں عوام کے لیے بری نہیں ہے خاص لوگوں کے لیے بری ہیں ! جیسے کہ انگلینڈ کے بادشاہ وغیرہ میں یہ بات نہ ہونی چاہیے، یہ نہ ہونی چاہیے اگر وہ ایسے کرے گا تو شاہی خاندان کی جو مراعات ہیں اُن سے محروم کردیا جائے گا وغیرہ وغیرہ ! وہ ایسی باتیں ہیں جو اِسلام نے بھی بری کہی ہیں ! وہ اگر اُن کو اختیار کریں گے تو اُن کے یہاں بھی وہ بری سمجھی گئیں اُن کو منع کردیا کہ نہ اختیار کرو ،نہ کرو ایسے ! ! !
عقلِ سلیم اور اسلامی تعلیم :
تو عموماً اسلام کی جتنی بھی بتلائی گئی ہیں باتیں اسی طرح کی ہیں کہ اُنہیں عقلِ سلیم فوراً مان لے، سمجھدار لوگ فوراً مان لیں، سوائے اس کے کہ کوئی کسی جذبے کے تحت نہ مانے تو نہ مانے ! شوق ہے، ''اتباعِ ہواء '' اسے کہاجاتا ہے، خواہشات کی پیروی جسے کہا جائے اُس کی وجہ سے نہ مانے تو نہ مانے ! شراب پینے کو شریعت ِمطہرہ نے منع کیا ہے یہ فرمایا ہے کہ ( اِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا ) جو اِن کا نفع ہے اُس سے زیادہ اُن کی برائی ہے ! گناہ بھی لازم آجاتا ہے ! اس سے نشے میں آدمی بہت برے کام کرجاتا ہے تو اِس کا جو نقصان ہے وہ نفع سے بہت زیادہ ہے اس واسطے یہ منع ہے ! جوئے اور شراب (میں) نفع بھی ہوتا ہے نفع کا انکار نہیں ! مگر غلبے کا اعتبار ہوگا، غلبہ کس چیز کا ہے ! غلبہ برائی کا ہے
١ مشکوة المصابیح کتاب الزکوة باب فضل الصدقة رقم الحدیث ١٨٩٨
اس لیے اللہ تعالیٰ نے منع فرمادیا ہے ( فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ)کیا تم رُکتے ہو یا نہیں رُکتے ؟ توپہلے سمجھایا گیا کہ ان کی برائیاں غالب ہیں اور اُن کے فوائد محدود ہیں پھر اُس کے بعد سختی سے روک دیا گیا تو صحابہ کرام رُک گئے ! !
برائیاں ہر مذہب میں منع ہیں :
شراب ہے، چوری ہے، زِناہے ،ڈکیتی ہے، قتل ہے، بد امنی ہے، ایک دُوسرے کی ایذا رسانی ہے سب چیزیں ہر جگہ منع ہیں ! دُنیا میں ہر ایک تسلیم کرتا ہے خود بخود مانتا ہے اور یہ اُن ملکوں میں بھی بری باتیں سمجھی جاتی ہیں جہاں خدا کو نہیں مانا جاتا ! کسی مذہب کو نہیں مانا جاتا ! وہاں بھی ان چیزوں کو روکا گیا ! تومعلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے جو اِنسان کی فطرت بنائی ہے اُس میں یہ چیز ڈالی ہے کہ ان چیزوں کو برا کہے ! تو اسلام نے جن چیزوں کو کہا ہے کہ یہ اچھی ہیں اور یہ بری ہیں اُن کو پھیلانا یہ کیا ہے ؟ یہ نیکی ہے اور یہ ایسے ہے جیسے صدقہ یعنی اس کا اثر دُوسرے تک پہنچتا ہے یہ بھی مفید ہے ! سُبحان اللّٰہ ، الحمد للّٰہ ، اللّٰہ اکبر ، لاَ اِلہ اِلا اللّٰہ یعنی خدا کو یاد کرنا یہ بھی مفید ہے اِس کا اثر بھی دوسروں تک پہنچتا ہے ! کوئی خوشبو لگائے دوسروں تک پہنچے گی اُس کی خوشبو ! اسی طرح کوئی نیک آدمی ہو اُس کے پاس بھی کوئی کھڑا ہوجاتا ہے نماز میں تو بھی اثر پہنچتا ہے ! اور خدا کے یہاں تو (یہ ضابطہ) ہے ہی کہ کسی قوم میں اگر کوئی بھی دُعا کرنے والا ہے خدا کو یاد کرنے والا ہے تو خدا کا عذاب نہیں آئے گا ! تو اُنہیں بھی صدقہ بتایا اور یہ بھی صدقہ بتایا کہ نیکی بتائے برائی سے روکے ! ! !
حکومت با اِختیار ہوتی ہے اُس کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوگی :
یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر آدمی پر (فرض ہیں) اور حکومت پر اِس سے زیادہ ہے ،حکومت کو تو اور بھی زیادہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ گرفتار کرسکتی ہے ! وہ اس پر سزا جاری کرسکتی ہے ! دوسرا آدمی سزا نہیں دے سکتا کسی کو ! اگر ایک دوسرے کو سزا دینے لگیں تو انتقام کا جذبہ بھڑکتا ہے اور بد امنی پیدا ہوتی ہے ! نفع نہیں ہوتانقصان ہوجاتا ہے ! یہ حق شریعت نے بھی ہر ایک کو نہیں دیا کہ جہاں تم دیکھو وہاں تم ہی سزا دے لو ! بلکہ سزا کا طریقہ بتلایا گیا وہ یہ ہے کہ حاکم سے شکایت کی جائے ! تو حکومت کو اس سے زیادہ اختیار حاصل ہے ! اب اختیار جسے زیادہ حاصل ہے تو اب ذمہ داری بھی اُسی کی زیادہ ہوگی ! اُسے چاہیے کہ وہ یہ کرے یہ کرے یہ کرے ! اُس کا انتظام کرے ! اور اگر نہیں کرتے تو سب کے سب گنہگار ہیں ! نیچے والے اگر نہیں کہتے تو وہ بھی گنہگار ہیں ! لہٰذا نیچے والوں کو کہتے رہنا ضروری ہے جب تک اُوپر والے متنبہ نہ ہوں اور عمل پر نہ آئیں ! تو آقائے نامدار ۖ نے ان تمام چیزوں کو بھلائی قرار دیا، بھلائی بھی ان الفاظ سے کہ جیسے صدقہ ہو ! اور صدقہ وہی چیز ہوتی ہے جس کا نفع دوسروں کو پہنچتا ہے ! !
''صدقہ'' کا ایک اور مطلب :
اور کبھی صدقہ اس معنی میں بھی ہوتا ہے کہ اپنے اُوپر سے برائیاں یا بلائیں دُور ہوجائیں ! تو اِن چیزوں سے بلائیں دُور ہوتی ہیں ! اور صبح کو٣٣ دفعہ سُبحان اللّٰہ پھر الحمد للّٰہ پھر اللّٰہ اکبر پڑھتے ہیں اور اِسی طرح عصر کے بعد پڑھتے ہیں، وہ شاید اسی لیے بتلایا گیا کہ شکر ادا ہوجاتا ہے ایک حد تک ! !
اور ارشاد فرمایا کہ اگر چاشت کی نماز پڑھ لے آدمی تو یہ تسبیحات جو ہیں ان کی بدل ہوسکتی ہیں ! چاشت کا وقت یہ سمجھ لیجیے زوال سے پہلے پہلے ہوتا ہے ! جیسے ظہر کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے تو گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد نمازِ ظہر پڑھی جاتی ہے، اسی طریقے پر چاشت کا وقت بھی ہے کہ زوال سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پڑھ لی جائے نماز ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا سے نوازے اور مرضیات پر چلائے،آمین۔اختتامی دُعا.....................
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ اکتوبر ١٩٩٤ئ)

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.