jamiamadniajadeed

صحابہ پوری اُمت کے اُستاذ

درس حدیث 284/42 ۔۔۔۔۔ صحابہ پوری اُمت کے اُستاذ ! اُستاذ کی بے ادبی کا وبال ! !نظریہ اِرتقاء غلط مفروضہ ! اجمالی ایمان نجات کے لیے کافی ہے ! نزع کے وقت ''تلقین ''کا طریقہ ! (1988-02-14)

حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
صحابہ پوری اُمت کے اُستاذ ! اُستاذ کی بے ادبی کا وبال ! !
نظریہ اِرتقاء غلط مفروضہ ! اجمالی ایمان نجات کے لیے کافی ہے !
نزع کے وقت ''تلقین ''کا طریقہ !
( حضرت اقدس کی زندگی کا آخری درس )
(درسِ حدیث نمبر٢٨٤ ٢٥ جمادی الثانی ١٤٠٨ھ/١٤فروری ١٩٨٨ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار ۖ نے ایسی چیزیں کہ جو نظروں سے غائب ہیں اور واقع میں ہوتی ہیں آئندہ پیش آنے والی ہیں ایسی تمام چیزیں رسول اللہ ۖ نے بتلائی ہیں تاکہ انسان اُن کی تیاری کرے ! تو اُن میں سے سب سے پہلے پیش آنے والا مرحلہ جو ہے وہ تو قبر کا ہے ! اور قبر میں کیا ہوتا ہے وہ کچھ کسی کو پتہ نہیں وہاں تک انسان کی حِس نہیں جا تی، مخلوقات میں جو دُنیا میں ہیں اُن میں دو مخلوقیں مکلف ہیں اُن کی اطاعت بھی شمار ہوتی ہے اُن کی معصیت بھی شمار ہوتی ہے نیکی بدی دونوں شمار ہوتی ہیں دونوں پر آخرت میں جزا مرتب ہوتی ہے، وہ ہیں'' ثقلین'' یعنی انسان اور جن ! باقی ان کے علاوہ(مخلوقات) مکلف نہیں ہیں نہ اُنہیں عقل دی گئی ہے، جانور ہیں حیات ہے اُن میں، نباتات اور انسان کے درمیان ایک مخلوق ہے اُس کو اُتنی ہی عقل دی گئی ہے جس سے اُس کا گزارہ ہو، یہ الگ بات ہے کہ کسی کو کسی قسم کی کسی کو کسی قسم کی سمجھ دی گئی ہے مگر وہ عقل نہیں کہلاسکتی ! عقل تو قاعدہ کلیہ بنا لیتی ہے ضابطہ بنا لیتی ہے آگے دلائل اور بہت آگے تک سوچتی ہے وغیرہ وغیرہ ! ! جانوروں میں ایسے نہیں ہے اگر چہ اُن کے عجائبات ملتے ہیں وہ گھونسلہ بنالیتا ہے اتنا نفیس بُنا ہوا ہوتا ہے کہ آدمی اُسے دیکھتا رہے اور حیرت کرتا رہے ! کچھ جانور ایسے ہیں کہ جن کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ پانی ہے زمین کے نیچے یا نہیں ! عجیب و غریب حواس ہیں ! مگر کسی میں کوئی خاصیت کسی میں کوئی خاصیت اور وہ ساری کی ساری نوع میں ہے اور یہ بھی نہیں کہ کوئی سکھائے اُسے وہ خود بخود ہے، یہ بطخ کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُسے کوئی نہیں سکھاتا کہ ایسے تیرنا ہے خود تیر تا ہے ! جانور ہیں انہیں کوئی نہیں سکھاتا تیرنا لیکن اگر پانی میں چلے جائیں توخود بخود تیریں گے ! تو اس طرح کی چیزیں حق تعالیٰ نے اُن میں رکھی ہیں بس جتنی کہ اُن کی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے !
''نظریہ اِرتقائ'' ایک غلط مفروضہ :
باقی اِرتقاء کا عمل یہ بالکل نہیں ہے ،وہ پہلے بھی منہ مار کر کھاتے تھے تو آج بھی منہ مار کر کھاتے ہیں اور سبزہ کھاتے تھے اگر د س ہزار سال پہلے تو اَب دس ہزار سال بعد بھی سبزہ ہی کھاتے ہیں، اُسی طرح کا کھاتے ہیں جس طرح کا اُنہیں مرغوب ہے ،چارہ ڈالا جاتا ہے دانہ ڈالا جاتا ہے، انسان کو اللہ نے بتا رکھا ہے کہ اس جانور کو یہ غذا دینی ہے اسے یہ دینی ہے حتی کہ اوقات تک معلوم ہیں، اور اِسے اس طرح سدھانا ہے اوراُسے اس طرح سدھانا ہے اور وہ سدھ جاتے ہیں( تُعَلِّمُوْھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ) ١
تم جانوروں کو سکھاؤ،اللہ نے تمہیں سکھایا ہے علم دیا ہے !
دیگر مخلوقات میں جنت دوزخ نہیں بلکہ صرف انصاف ہوگا :
لیکن یہ مکلف نہیں ہیں خدا کے ہاں کہ جہنم میں جائیں یا جنت میں جائیں یا ان سے سوال وجواب ہو ایسے نہیں ہے البتہ انصاف ضرور ہے حَتّٰی یُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَائِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَائِ ٢ قیامت کا جو اللہ تعالیٰ نے ایک فائدہ بتایا ہے حکمت بتائی ہے وہ یہ ہے (لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی) ٣ سعی کے معنی ہیں دوڑنا، سعی کے معنی ہیں تیز چلنا کوشش کرنا ،لیکن عمل کرنا بھی ہے، عمل کرنے کے معنی میں بھی ہے تو جو عمل اُس نے کیے ہیںاُن کا بدلہ اُسے دیا جائے گا ! تو قیامت آجائے گی اور جو کسی نے
١ سُورة المائدہ : ٤ ٢ مشکوة المصابیح کتاب الاداب رقم الحدیث ٥١٢٨ ٣ سُورۂ طہٰ : ١٥
نیکیوں کی بنیادیں ڈال رکھی ہیں اُن کا بھی منتہا ہوجائے گا ! اور اگر کوئی بدی کی بنیادڈال گیا ہے اُس کا بھی منتہا ہوجائے گا ! کیونکہ مرنے کے بعد انسان کے اپنے عمل تو ختم ہوجاتے ہیں نیکیوں کا ثواب جاری رہتا ہے ! جو کچھ یہ حدیثیں ہم سناتے ہیں یا آپ پڑھتے ہیں ہم پڑھتے ہیں مطالعہ کرتے ہیں جن صحابہ کرام سے پہنچی ہیں جن سندوں سے پہنچی ہیں اُن سب کو وہ ثواب پہنچ رہا ہے ! اور خود بخود چاہے نیت بھی نہ کرو لیکن اگر نیت کر لو تو اچھی بات ہے ورنہ اُنہیں پہنچ رہا ہے ! کسی نے مسجد بنا دی ہے وہ جب تک نماز کے کام آتی رہے گی اُس کے مرنے کے بعد بھی اُس کا ثواب جاری رہے گا لیکن خود (نماز وغیرہ کا)عمل کر سکے وہ ختم ہوگیا ! اب کوئی دُوسرا اُس کے لیے کردے صدقہ کردے نیکی کا کوئی اس طرح کا شعبہ قائم کردے جاری کردے اُس کا ثواب اُسے پہنچتا رہے وہ الگ بات ہے، استغفار اُس کے لیے کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے معاف فرما، یہ بھی پہنچتا ہے اور بہت بڑی رحمت بن کر پہنچتا ہے وہ قبر میں ہوتا کیا ہے ہمیں کوئی پتہ نہیں اِس کے بارے میں !
مگر آقائے نامدار ۖ کو پتہ تھا بذریعہ وحی ! حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی بیٹھی کچھ بات کی اُس کے بعد وہ جانے لگی تو اُٹھتے ہوئے اُس نے ایک دُعا دی اَعَاذَکِ اللّٰہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ١ اللہ تعالیٰ تمہیں عذابِ قبر سے بچائے رکھے ! انہوںنے کہا اپنے دل میں کہ رسول اللہ ۖ سے پوچھوں گی چنانچہ دریافت کیا تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ہاں ہوتا ہے، سوال جواب یہ ہوتا ہے قبر میں ! تو اُس کے بارے میں یہ آتا ہے کہ مسلمان سے کیا سوال ہوگا ، کافر یا منافق اِن سے بھی سوال ہوتا ہے ! بعض علماء کہتے ہیں کہ کافر سے سوال ہوگا ہی نہیں کیونکہ اُس کا کافر ہونا طے ہے ! اور کچھ علماء کہتے ہیں کہ سوال ہوگا ! منافق سے تو ہوگا ہی ہوگا ! ! لیکن کافر سے بھی ہوگا ؟ کچھ علماء کہتے ہیں کہ نماز روزہ کے بارے میں سوال نہیں ہوگا کیونکہ نماز روزہ تو فرض ہے ایمان کے بعد ! ایمان ہی نہیں پایا گیا تو پہلے ہی سوال کا جواب نہیں ہے اُس کے پاس تو اگلی باتیں کیسے ! ؟
اور کچھ فرماتے ہیں کہ نہیں، وہ بھی ہوگا سوال ،مگر بہت کم ہے تعداد ایسے علماء کی تو کچھ چیزوں میں
١ مشکوة المصابیح کتاب الایمان رقم الحدیث ١٢٨
یہ جو اقوال ہیں علماء کے یہ اُصول کی روشنی میں ہیں کہ اس قاعدے کی رُو سے یہ سمجھ میں آتا ہے اس ارشاد کی رُو سے یہ سمجھ میں آتا ہے( مثلاً ) اُخِذَ بِالْاَوَّلِ وَالْاٰخِرِ اگر کسی کو پکڑا جائے گا تو اَوّل اورآخرسب لیا جائے گا تو اس طرح کے جو جملے ہیں اُن سے لیا ہے (علماء نے) !
''تلقین''کا طریقہ ؟
یہاں ارشاد ہو رہا ہے کہ مسلمان سے جب سوال ہو گا تو وہ جواب دے گا اور گواہی دے گا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی اور قرآنِ پاک میں ایک آیت ہے (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ) ١ اللہ تعالیٰ صحیح بات پر اُن لوگوں کو قائم رکھتے ہیں جنہوں نے ایمان قبول کیا دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی !
اور آخرت میں سب سے پہلے جو منزل ہے وہ قبر کی آتی ہے تو آقائے نامدار ۖ نے بتلایا کہ اس منزل میں بھی وہ ثابت قدم رہے گا، تو اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب عنایات ہیں ۔
ایک صاحب اَبو زُرعۂ رازی ہیں بڑے اچھے بہت بڑے پائے کے محدث ہیں امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے قریب قریب دور میں گزرے ہیں کتابوں میں اسماء الرجال میں اُن کا بہت ذکر آتا ہے تو اَبو زُرعۂ رازی کی وفات کا جب وقت آیا تو اُن کے جو شاگرد تھے اُنہوں نے کہا کہ انداز ہوتا ہے کہ ان کا انتقال ہوجائے گا تو انہیں تلقین کی جائے یعنی مرنے والے کو اس بات پر لایا جائے کہ وہ کلمہ پڑھے اب اُس کا طریقہ کیا ہو ؟ اس درمیان میں ایک بات اور عرض کروں کہ عبداللہ اِبن مبارک رحمة اللہ علیہ ان سے پہلے گزرے ہیں امام اعظم رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں ہیں، اُن کا جب وفات کا وقت آیا تو لوگوں نے اسی طرح کی بات کی اُنہوں نے کلمہ پڑھ لیا پھر اُن پر غفلت کی سی کیفیت پھر ہوگئی اور پھر لوگوں نے یہی چاہا کہ یہ پڑھ لیں تو پھر ذرا طبیعت درست ہوئی کچھ بولنے کے قابل ہوئے تو اُنہوںنے فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں کلمہ پڑھ لوں تو بس اُس پر پھر میں قائم ہوں فَاَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مَالَمْ اَتَکَلَّمْ بِکَلَامٍ آخَرْ یعنی یہ نہیں ضروری کہ بار بار پڑھوایا جائے جب تک وہ کوئی اور بات نہ کرے،
١ سُورۂ ابراہیم : ٢٧
اگر کوئی اور با ت بھی کر لی ہے تو پھر اُسے کلمہ پڑھوانے کی کوشش کی جائے باقی اگر کوئی اور بات نہیں کی ہے خاموش لیٹا ہے تو وہ اُسی حال پر ہے ! !
صحابہ پوری اُمت کے اُستاذ ہیں ، اساتذہ کی تعظیم نہ کرنے کا وبال :
تو یہ اَبو زُرعۂ رازی کے جو شاگرد تھے انہوں نے چاہا کہ اَبوزُر عۂ رازی کلمہ پڑھیں لیکن ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ اساتذہ کی تعظیم کی جاتی ہے ! یہ تو انگریزی دور کی باتیں ہیں کہ جب تعظیم نہ ہو اساتذہ کی، اُن میں بھی سمجھدار لوگ جو ہیں وہ کرتے ہوں گے ضرور تعظیم، اُستادوں کے حق جانتے ہوں گے(مگر) عام روِش جو ہے وہ اِسی طرح کی ہے اور وہ(انگریز) تھے بھی جنگلی وحشی، تہذیب پہنچی بھی بہت بعد میں ہے چند سوسال پہلے ! ورنہ تو پسماندہ علاقہ تھا ! یہ دو سو سال میں ترقی ہوئی ہے تقریبًا ڈھائی سو سال ہو جائیں گے ! تو انہیں تمیز ہی نہیں ! اور مذہب پر وہ ہیں نہیں ! رہنمائی بھی نہیں مذہب کی ! تو اُن کے ہاں یہ نہیں ہے کہ اساتذہ کی تعظیم کی جائے !
باقی اسلام میں تو ہے اور اتنی زیادہ ہے کہ صحابہ کرام کی جو تعظیم نہیں کرتے مثلاً شیعہ فرقہ اُنہیں قرآن یاد نہیں ہوتا اور یہ بات صحیح ہے ! حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھی ہے شیعوں کے متعلق اُس میں یہ لکھا ہے کہ فلاں جگہ ہم نے سنا حافظ ہے لیکن جب اُس سے پوچھا گیا تو نہیں تھا حافظ ! پھر اور لوگوں سے اعتماد سے سنا کہ ہے ایک حافظ اِن میں سنا بھی دیتا ہے ! تو اُس پر حضرت نے لکھا ہے کہ اگر اُس سے سنتے تو وہ بھی نہ سنا سکتا ! تو وجہ اُس کی یہ ہے کہ(قرآن) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں لکھا گیا ہے ! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں نقل کرایا گیا اور اس کے نسخے تیار ہوئے پھر جگہ جگہ بھیجے گئے ! ! !
اہلِ تشیع کا قرآن اور صحابہ کے بارے میں عقیدہ ،مولانا لکھنوی کا چیلنج :
ان( اہلِ تَشَیُّع) میں یہ چونکہ عقیدہ ہے اُن(صحابہ) کے بارے میں کہ وہ مسلمان ہی نہیں تھے ! قرآن میں تحریف کی ہے ! جاہل شیعوں کا تو میں نہیں جانتا باقی جو لوگ کٹر شیعہ ہیں اور جن میں شیعیت کا پورا رنگ آیا ہوا ہے وہ اس بات پر قائل ہیں کہ یہ قرآنِ پاک وہ قرآن نہیں !
اور مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی نے ''تنبیہ الحائرین ''لکھی ہے اُنہوں نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ
'' اگر شیعہ یہ اعلان کردیں کہ ہمارا اِیمان اس قرآنِ پاک پر ہے تو میں شیعہ ہوجاؤں گا ''
یہ اعلان اُنہوں نے کیا ! اَمروہہ ان(روافض) کا ایک گڑھ ہے یوپی میں ! جیسے لکھنؤ بہت مشہور ہے اَمروہہ بھی ہے، وہاں انہوں(یعنی اہلِ تَشَیُّع) نے جلسہ رکھا ! وہ (یعنی مولانا لکھنوی ) وہاں پہنچ گئے ! وہاں جگہ جگہ اشتہار لگوا دیے کہ وہ اس بات کا جواب دیں کہ کیا جو موجودہ قرآنِ پاک ہے اس پر اُن کا ایمان ہے یا نہیں ؟ اور اعلان کریں طے کریں بتائیں مجھے ! وہاں وہ سارے(یعنی اہلِ تَشَیُّع) جمع ہوئے کانفرنس ہو رہی ہے ! اُسی مضمون کا اشتہار کہ اگر آپ لوگ یہ اعلان کردیتے ہیں تو میں شیعہ ہواجاتا ہوں !
تو اُن(شیعوں) کا یہ ہوا کہ نہیں کر سکے وہ اعلان ! اور کانفرنس جو تین دن کی تھی یا چار دن کی تھی وہ تین دن سے پہلے ہی دو دن میں نمٹا کے ختم کردی ! تو ''حائری '' ١ وغیرہ جو آئے ہوئے تھے اُن کے ہاں بڑے بڑے لوگ اُن کے نام پر منسوب کر کے اُنہوں نے'' تنبیہ الحائرین ''لکھی ہے ! وہ چھپتی بھی چلی آرہی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہب میں استفادے اور فیض کے لیے'' ادب'' ضروری ہے، اگر اساتذہ کا احترام نہیں ہوگا تو آگے فیض نہیں چلے گا وہ رُک جائے گا۔
تو اَبو زُر عہ ٔرازی رحمة اللہ علیہ کے جو شاگرد تھے اُنہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اُن کے سامنے کلمہ پڑھنا شروع کریں تاکہ وہ بھی پڑھیں ! ارادہ کیا کہ ایسے کرنا چاہیے یہ آخرت کی بات ہے حسنِ خاتمہ کی ایمان کی ، اور پھر یہی ہوا کہ اُستاد کا رُعب غالب رہا وہ نہیں پڑھ سکے ! ورنہ اِرد گرد بیٹھے تھے کلمہ پڑھتے رہتے ایسے کہ اُن کے کان میں آواز چلی جائے ،جو لب ِ دم ہے اُس کے کان میں آواز چلی جائے وہ خود ہی پڑھ لے گا، ''پڑھو''کہنا تو منع ہے ! کیونکہ اگر خدا نخواستہ اُس کی زبان سے
١ اہلِ تشیع کے بڑے مناظر علامہ سید علی حائری رضوی(١٨٧٦ ء ۔ ١٩٤١ ئ)
''نہ'' نکل جائے تو چاہے اُس نے'' نہ'' کسی بھی مطلب سے کہا ہو(مگر) لوگ یہ سمجھیں گے کہ کلمہ کا انکار کیا ہے ! اور اُس پر کیا کیفیت گزر رہی ہے اُس کا پتہ نہیں ! تو اس واسطے وہ منع کیا گیا ہے ! طریقہ بس یہی بتایا گیا ہے کہ آپ پڑھتے رہیں وہ بھی پڑھنے لگے گا ! اگر سَکت ہے زبان سے پڑھ لے گا ! سَکت نہیں ہے تو دل میں پڑھ لے گا !
تو ان لوگوں نے ایک اور طریقہ ایجاد کیا وہ یہ کہ ایک حدیث پڑھنی شروع کی جس حدیث میں یہ آتا ہے کہ مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّةَ ١ جس کی زبان سے آخری کلمات ''لا اِلہ اِلا اللہ'' کے نکلیں وہ جنت میں جائے گا تو انہوں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ حَدَّثَنِیْ فُلَان عَنْ فُلَانٍ یعنی جیسے سند ہوتی ہے حدیث کی کہ فلاں نے مجھے، اُنہیں فلاں نے، اُنہیں فلاں نے یہ سنایا اور ایک جگہ جا کر رُک گئے تواِن اَبو زُرعۂ رازی نے اس سے آگے خود ساری حدیث مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّةَ یہاں تک پڑھی اور پڑھتے ہی وفات ہوگئی !
تو اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ) دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یعنی خدا کی جانب سے مدد ہوگی نَزَلَ فِیْ عَذَابِ الْقَبْرِ اس آیت کا شانِ نزول جوہے وہ یہی ہے اور مَنْ رَبُّکَ تیرا رب کون ہے ؟ یہ سوال ہوگا جواب میں وہ یہی کہے گا کہ '' اللہ'' ہے ٢
اجمالی ایمان نجات کے لیے کافی ہے :
ایک لڑکی تھی ایک بچے کا بھی قصہ ہے اسی طرح کا،رسول اللہ ۖ کے سامنے اُس بچی کا قصہ پیش آیاآپ نے اُس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اُس نے آسمان کی طرف اِشارہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ مومن ہے ! کیونکہ عام سمجھ جو ہے وہ اتنی ہی ہے اس سے آگے سارے کے سارے معرفت والے ہوں یہ بہت مشکل بات ہے ! سادھی سی بات ہے کہ اللہ ایک ہے ،کہاں ہے ؟ بلندی کی طرف اشارہ کیا ! ! اور بلندی اور نیچاکچھ بھی تو نہیں ہے ! یہ لوگ(خلا باز) چلے جاتے ہیں
١ مشکوة المصابیح کتاب الجنائز رقم الحدیث ١٦٢١
٢ مشکوة المصابیح کتاب الایمان رقم الحدیث ١٢٥
فضاء میں تو کدھر زمین اُونچی ہے اور کدھر دُوسری چیز نیچی ہے کچھ بھی نہیں ! لیکن بلندی کے لیے جب اشارہ کیا جاتا ہے تو اُوپر ہی کی طرف کیا جاتا ہے ! تو رسول اللہ ۖ نے اجمالی ایمان بھی نجات کے لیے کافی قرار دیا ہے اور اِیمانِ اجمالی ہی عام لوگ سمجھ سکتے ہیں ! تو میت کواگرچہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ختم ہوگیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے آقائے نامدار ۖ نے بتلایا ہے لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ ١ وہاں جو لوگ اُس وقت ہوتے ہیں اُن کے جوتوں کی آواز بھی اُس کو محسوس ہوتی ہے ! اب یہ محسوس ہونا جوتوں کی آواز ! ایک تو اس طرح سے ہے کہ جیسے چھت پر کوئی چل رہا ہو تو آواز محسوس ہوگی ! یہ محسوس ہونا تو نہیں بتلایا گیا بلکہ وہ محسوس ہونا تو باطنی طور پر ہے جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی آدمی جا کر سلام کرتا ہے تو مُردہ اُسے جواب دیتا ہے اور اِس میں کسی کا اِختلاف بھی نہیں ہے ! !
ابن ِتیمیہ جوہیں بڑے متشدد ہیں ! اور یہ جو اَب حنبلی حضرات ہیں یہ سعودی عرب کے یہ ہیں حنبلی اور تیمی اور وہابی یعنی آخری جو اِن کے یہاں مجتہد گزرے ہیں حنبلی مذہب میں وہ اِبن تیمیہ کے بعد محمد اِبن عبدالوہاب کو مانتے ہیں ! تو یہ ہیں'' حنبلی تیمی وہابی'' یعنی محمد ابن ِعبدالوہاب کے اقوال کو آخری درجہ دیتے ہیں بڑا درجہ دیتے ہیں ! تو اِبن ِتیمیہ وہ لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے اتنا کہا ہے کہ وہ سنتا ہے ! اور یہ اپنی طرف سے تفسیر کی ہے اُنہوں نے کہ رَدَّ عَلَیْہِ رُوْحَہ اُس کی رُوح لوٹا دیتے ہیں اُس کو شعور دیتے ہیں ! اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جسے دُنیا میں پہچانتا تھا اُس کو پہچانتا بھی ہے ! !
''نیچری ''عقائد و حقائق کے منکر ہیں :
آج کل جو نیچری لوگ یامعتزلی جنہیں کہاجاتا ہے اصل میں معتزلی ہیں ! یہ (کہتے ہیں)کہ جو چیز ہماری عقل میں آرہی ہے وہ مانیں گے جو نہیں آرہی وہ نہیں مانیں گے ! وہ جنت کا وجود بھی نہیں مانتے اب ہے، جہنم کا نہیں مانتے، پل صراط نہیں مانتے، میزان نہیں مانتے قیامت کے دن کی اور اسی طرح سے عذابِ قبر بھی نہیں مانتے ! !
١ مشکوة المصابیح کتاب الایمان رقم الحدیث ١٢٦
تو جو اِسے(یعنی قبر کی جزا سزا کو ) مانتا ہے وہ(بعد والی) سب (چیزیں) مانتا ہے اور جو عذاب ِ قبر یا سوالِ قبر یا قبر میں کیفیات کا قائل نہیں وہ (بعد والے اُمور کا بھی قائل) نہیں !
تو یہاں یہ آیا ہے کہ اُس کو (فرشتے)اُٹھاتے ہیں بٹھاتے ہیں اور اُس سے سوال کرتے ہیں اُس پر یہ خاص طور پر اعتراض اُٹھتا ہے کہ ہم تو دیکھتے ہیں مُردے کو اگلے دن کھول کر ،چاہے ایسے انجکشن لگا دیے جائیں ایسے کہ بالکل حالت نہ بدلنے پائے پانچ پانچ چھ چھ مہینے ! تو اُسے کھول کر دیکھ لیں تو ویسے کا ویسے ہی ہوگا ! اور وہ کہا کرتے تھے شروع میں یعنی اب نہیں بلکہ اب سے تقریبًا تیرہ سو سال پہلے یہ فتنہ شروع ہوا، وہ(کفار) کہتے تھے کہ ہم اگر مُردے کے اُوپر کوئی پیالہ بھر کر رکھ دیں تو اگلے دن جا کر مشاہدہ کریں اور دیکھیں تو وہ اُسی طرح رکھا ہوگا اُس کے اُوپر . .....................................
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے،آمین۔اختتامی دُعا............................................

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.