( مئی 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اللہ کی ذات کا نور سب روشنیوں اور نوروں سے بالا ہے !
اِس جہان میں اللہ کا دیدار واقع نہیں
نبیوں کا ایک دُوسرے سے تقابل نہیں کرنا چاہیے
''شریعت'' و'' طریقت'' کا فرق ، ''نسبت'' کیا ہے ؟
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس حدیث 246/5 ١٢رمضا ن المبارک ١٤٠٧ھ/١٠مئی ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور اُنہوں نے سوالات کیے اسلام کیا ہے ؟ پھر پوچھا اِیمان کیا ہے ؟ پھر پوچھا احسان کیا ہے ؟ احسان کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ ١ احسان اِس چیز کا نام ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کریں کہ جیسے کہ آپ خدا کو دیکھ رہے ہیں خدا سامنے ہے لیکن یہ خیال جمانا مشکل کام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں جو بھی تصور کریں اللہ تعالیٰ اُس سے بھی بہتر ہے اُس سے بھی وراء ہے پرے ہے بالا ہے تو کسی شکل کا تصور نہیں کیا جا سکتا ،جو انسان نے دیکھی ہیں چیزیں جتنی اُس کی معلومات ہیں
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٢
جہاں تک اُس کی نظر پہنچی ہے جہاں تک اُس کا خیال پہنچتا ہے اُس میں جو بڑے سے بڑی چیز ہوگی وہ بھی چیز ہے وہ بھی محدود ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْیٔ ) نہیں اُس جیسا کوئی بھی۔
دُوسرا درجہ یہ ہوتا ہے کہ روشنیاں خیال کرلیں جیسے روشنیاں ہوتی ہیں چاند کی روشنی سورج کی روشنی بجلی کی روشنی تو یہ سب مادّی ہیں حقیقتًا اللہ تعالیٰ کا نور اِن روشنیوں سے بالا ہے تو حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک کے بارے میں کیسے خیال کیا جائے کہ ہم اُسے دیکھ رہے ہیں اِس کو تو سیکھنا ہی پڑتا ہے بغیر اِس کے خود سے یہ مشکل ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اِس کا آسان حل یہ ہے کہ آدمی یہ یقین رکھے کہ میں اُسے دیکھ رہا ہوں ! اور کس طرح ! شکل یا رنگ یا روشنی ؟ اُس کی نفی کرتارہے کہ اِن سے بالا ہے جو بھی خیال کرے، بس اتنا ہے کہ میں اُسے دیکھ رہا ہوں
دوسرا طریقہ :
یا یہ مشکل پڑتا ہے تو دُوسرا یہ کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے یہ ذرا آسان ہے بہ نسبت پہلے تصور کے (اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی )کیا انسان نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اُس کو دیکھ رہے ہیں ہر ایک کوہر چیز کو (وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ ) اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بھی غائب نہیں ہے پوشیدہ نہیں ہے ایک ذرّہ کے برابر بھی زمین یا آسمان میں وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذَالِکَ وَلَآ اَکْبَرَ اس سے چھوٹی کوئی چیز ہو یا بڑی یہ بات اِنسان کو آسانی سے سمجھانے کے لیے فرمائی، آپ آج کے دور میں اس سے بھی زیادہ باریکیوں میں چلے جائیں جب دُوربینیں (اور خوردبینیں )ایجاد ہوگئیں اور وہ چیزیں نظر آنے لگیں جو نظر سے مخفی رہتی ہیں وہ جراثیم نظر آنے لگے جو نظر سے مخفی رہتے ہیں بے حساب ہر موسم میں الگ الگ تو آج کے دور میں جتنی مخلوقات تک آپ کی رسائی ہوتی ہے یہ سب خدا کی پیدا کردہ ہیں خدا ہی اِنہیں پیدا کرتا ہے اِن کو زندگی بخشتا ہے پھر اِن کو اُٹھاتا ہے (وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلاَّ ھُوَ) اللہ کے سوا باقی کوئی جان ہی نہیں سکتا حساب بھی نہیں کرسکتا جاننا تو بہت بڑی بات ہے گنتی بھی نہیں کر سکتا ! تو حق تعالیٰ نے جو بھی چیزیں پیدا فرمائی ہیں اُن سب کو دیکھ رہا ہے اُن سب کا علم ہے اُن سب کا اِنتظام فرماتا ہے رزق کا حیات کا صحت کا اور جس جس چیز کی ضرورت پڑتی ہے ۔
حضراتِ صوفیہ کی رائے :
علمائِ صوفیہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کے بارے میں غور کرنا یہ ہر ایک کا کام نہیں ہے منع کرتے ہیں ہاں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کو پہچاننے کے لیے صفات کا جاننا یہ کافی ہے کہ اللہ کی یہ صفت ہے کہ اُس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ کسی جیسا نہیں ، اللہ کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے عاجزی سے پاک ہے کہ کوئی کام نہ کرسکے ایسا ہے ہی نہیں ! اُس میں تمام کمال کی صفات جو آپ سوچ سکتے ہیں وہ سب پائی جاتی ہیں اعلیٰ سے اعلیٰ صفت جو ہو وہ پائی جاتی ہے وہ جیسے اُس کی شان کے لائق ہے کَمَا یَلِیْقُ بِشَانِہ اگر اتنا بھی جان نہ سکتا تو انسان کو اِیمان کا مکلف ہی نہ قرار دیا جاتا ۔ تو ننانوے صفات جو اللہ تعالیٰ کے ناموں میں بتائی گئیں ہیں جو ننانوے نام حق تعالیٰ کے ہم پڑھتے ہیں جانتے ہیں چھپے ہوئے بھی ملتے ہیں اُن میں بتائیں تو حقیقت یہ ہے کہ انسان عاجز ہے اپنے خالق کو پوری طرح جاننے سے، پوری طرح نہیں جان سکتا ۔
انسان جیسے شعور کا تحمل کسی میں نہیں :
اس کے بارے میں کہتے ہیں (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ) قرآنِ پاک کی آیت ہے یہ کہ اَمانت ہم نے پیش کی آسمانوں کو زمین کو پہاڑوں کو سب نے اِنکار کردیا نہیں لیں گے، ہم نہیں لے سکتے وہ شعور جو انسان کو دیا گیا وہ عقل جو انسان کو دی گئی جس قسم کی زندگی حیات انسان کو دی گئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا آسمانوں سے کہ میں تمہیں دے دُوں ؟ اُنہوں نے کہا نہیں اس قسم کی حیات کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے ! یہ جو انسان کو لوازمات دے دیے گئے ''شر'' بھی دیا' 'خیر'' بھی دی' 'عقل'' بھی دی مکلف بنایا اِس طرح کی حیات اُن کو بخشنے کے لیے فرمایا کہ یہ شعور تمہیں بھی دے دُوں تو اِنہوں نے اِنکار کردیا (حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ) انسان ہی وہ چیزہے بس، جس میں وہ چیز آگئی وہ حیات آگئی وہ شعور آگیا بہت بڑی چیز ہے ایمان کی دولت، معرفت ،خدا کی خلافت (خَلِیْفَةُ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ )تو اس کو قبول کرنا برداشت کرنا اس کے لیے کوئی تیار نہیں تھا، ایک انسان ایسی مخلوق تیار ہو گئی کہ اُس نے یہ قبول کر لیا (حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ )
عالمی گھڑیاں خدائی نظام کے تابع ہیں :
اب اس کو نبھانا بڑا مشکل کام ہو گیا کیونکہ بڑے حجابات انسان اور اُس کے پیدا کرنے والے کے درمیان میں ہیں ، چیزیں تو نظر آتی ہیں ساری جیسے جن سے اُس کی پہچان ہو معرفت ہو ایک نظام ہے عجیب قسم کا اتنا پختہ اور اتنا صحیح کہ اُس سے گھڑیاں درست کی جاتی ہیں وہ اتنا صحیح نظام ہے وہ نظام غلط نہیں ہوتا حساب غلط ہوجاتا ہے آدمی سوچتا ہے پھر پتہ چلتا ہے حساب میں غلطی ہے وہ نظام ایسا عجیب ہے یہ سورج جہاں سے آج کی تاریخ میں نکلاہے اگلے سال بھی اس تاریخ کو اِسی جگہ سے نکلے گا اور اسی جگہ غروب ہوگا، اسی طرح چاند ستارے ہیں کوئی فرق آ ہی نہیں سکتا اور کسی چیز میں آپ کو نظر نہیں آئے گا کہ عجلت ہو رہی ہو جلدی ہو رہی ہوجیسے کہ جلدی کی ضرورت ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ چلا رہے ہیں نظام یہ اُس کے وجود کی دلیلیں ہیں اور وہ اطمینان سے جاری ہے بغیر جلد بازی کے کیونکہ جلدی پڑتی ہے تو کسی غرض سے پڑتی ہے کوئی وجہ ہوتی ہے ،وہاں کوئی جلدی نہیں ہر چیز اپنے وقت پر بالکل ایسے جسے آپ فطرت کہتے ہیں اُس حال پر چل رہی ہے تو حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک کے درمیان اور انسان کی معرفت کے درمیان بہت پردے آگئے یہ بالکل مادّی ہو گئے دائیں بائیں اُوپر نیچے ہر طرف جو چیز دیکھتا ہے کسی نہ کسی مادّہ سے بنی ہو ئی ہے تو مادّی ہو گئیں اور غیر مادّی رُوحانی چیزوں کا اِدراک پس ِپردہ چلا گیا تو اپنے خالق کا اِدراک اور بھی پیچھے ہو گیا ۔ اگر غور کریں تو ہر چیز سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا وجود ہے اور غور نہ کرے تو کچھ بھی نہیں تویہ ''اَمانت'' اللہ نے انسان کو عنایت فرمادی انسان نے لے لی اُس کو خیال بھی نہیں گزرا کہ میں کتنی بڑی چیز لے رہا ہوں اور اسے نبھانا کتنا مشکل کام ہوگا تو حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک کو پوری طرح جاننا یہ تو انسان کے بس سے باہر ہے اِنسانی طاقت ہی نہیں ۔
آخرت میں اللہ کا دیدار نصیب ہوگا :
اُس کی زیارت ہوجانی رؤیت وہ جنت میں ہو گی اُس کا وعدہ ہے (وُجُوْہ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَة اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَة ) ترو تازہ ہوں گے چہرے اور پرور دگار کو دیکھتے ہوں گے رؤیت باری تعالیٰ جگہ جگہ حدیث شریف میں بھی آئی ہے تفصیل سے آیا ہے اس کا ذکر، قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے لیکن دُنیا میں ؟ دُنیا میں تو نہیں ہے بہت مشکل ہے ممکن ہے اللہ کو قدرت ہے ہر چیز کی لیکن وقوع میں نہیں آئی یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت ہو اِن آنکھوں سے۔
حضرت موسٰی علیہ السلام نے دیدار طلب کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ( اُنْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہ فَسَوْفَ تَرَانِیْ ) پہاڑ کو دیکھیں اگر یہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو پھر تو آپ دیکھ لیں گے لیکن ایسے نہیں ہو سکا پہاڑ نہیں ٹھہر سکا ( فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا ) پہاڑ تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا حضرت موسٰی علیہ الصلٰوة والسلام بے ہوش ہو گئے تجلی سچ مچ تھی حقیقی تھی اور اُس کا اَثر بھی ظاہر ہو گیا۔ جہاں تک احادیث میں آتا ہے متعدد جگہ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے یہ بھی فرمایا کہ اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ میں آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب کا سردار ہوں وَلَا فَخْرَ فخرنہیں اورمیں سیّد المرسلین ہوں ، اس جیسے اور بھی کلمات اِرشاد فرمائے جگہ جگہ۔
نبیوں کو ایک دُوسرے پر فضیلت نہ دینے کی حکمت :
مگریہ بھی منع فرمایا کہ تقابل نہ کرو نبیوں کا آپس میں جیسے حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں سخت کلمات قرآنِ پاک میں آگئے ( اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ) جب وہ بھاگ گئے بھری ہوئی کشتی کی طرف تو بھگوڑے غلام سے مشابہت دی جیسے آقا سے بھاگ جاتا ہے، اُس کو ''اِباق'' کہتے ہیں ''اِباق'' کا لفظ اُس کے لیے خاص ہے ،وہ بھاگ کر اُس میں گئے وہاں قرعہ اندازی کی گئی قرعہ اندازی میں اُن ہی کا نام آیا (فَسَاھَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ ) اوراُن کے یہاں کوئی دستور تھا کہ غلام اگر بھاگ کر آجا تا تھا تو پھریہ ہوتا تھا کہ ساروں کے ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا تھا تو اس لیے وہ غلام کو اُتار دیتے تھے کہ تم اُتر جاؤ تاکہ ہم تو سلامت رہیں وہ کوئی ایسی جگہ تھی سمندر تھا کہ جہاں سوائے اِس کے چارہ کار ہی نہیں ہوسکا کہ (خشکی میں ) پھینکا جائے اُس آدمی کو۔تو قرآنِ پاک میں یہ لفظ آگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اللہ کا کلام ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اَنبیائے کرام کو اُس کے لیے وہ بھی بندے ہیں وہ جن الفاظ سے چاہے یاد فرمالیں تمہیں حق نہیں ہے کہ تم ایسی بات اپنے آپ کہنی شروع کردو یہ گستاخی ہوجائے گی اور گستاخی ہوگی تو کفر ہوجائے گا ایمان ہی ختم ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اُس کو قرآن میں پڑھنا نماز میں پڑھنا اُس کا ترجمہ کرنا وہ بتلادینا کہ اللہ کا یہ اِرشاد اور کلمات ہیں اس میں حرج کوئی نہیں اِن کے علاوہ ہم تقابل کرنے لگیں وہ منع فرمادیا کہ لَا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ اَنْ یَّقُوْلَ اَنَا خَیْر مِّنْ یُّوْنُسَ بْنِ مَتّٰی ١ کسی آدمی کو یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ یہ بات کہے کہ میں بہتر ہوں یونس علیہ السلام سے ،اپنے بارے میں خود اِرشاد فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ ایسے نہ کہا کرو۔
قرآنِ پاک میں ہے (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ )ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ایسے ہی اَنبیائے کرام ہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ میں سیّد ولد آدم ہوں اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَلَا فَخْرَ وَبِیَدِیْ لِوَائُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ ٢ بہت کلمات ایسے آتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا وَلَا فَخْرَ یعنی اِظہار کے طور پر کہہ رہا ہوں فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا مگر اُمت کو منع فرمادیا کہ تم اس کام میں نہ پڑنا کہ تم تفاضل بین الانبیاء
١ بخاری شریف کتاب التوحید رقم الحدیث ٧٥٣٩
٢ مشکوة شریف باب فضائل سیّد المرسلین رقم الحدیث ٥٧٦١
کرنے لگو فلاں نبی افضل فلاں غیر افضل جب کہو گے کہ غیر افضل تو توہین سی ہوتی ہے ایک طرح کی اگر یہ کہتے ہو کہ فلاں سے فلاں افضل ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں سمجھ میں آتا اور اگر کہتے ہو کہ فلاں مَفضُول ہیں نیچے ہیں تو یہ بات کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم توہین تو نہیں کررہے تو منع فرمادیا
ایسے ہی حضرت موسٰی علیہ السلام کے بارے میں ایک جھگڑا ہوا، ایک یہودی نے ایک بات کہہ دی وَالَّذِی اصْطَفٰی مُوْسٰی عَلَی الْبَشَرِ حضرت موسٰی علیہ السلام کو تمام لوگوں پر تمام بشر پر جس نے فضیلت دی اُس ذات کی قسم کھاتا ہوں ، یہ سنا اُس مسلمان نے ایک یہودی سے تو اُسے کہا کہ تو یہ بات جو کہہ رہا ہے کہ تمام انسانوں پر فضیلت دی حضرت موسٰی علیہ السلام کو تو کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی فضیلت دی ہے حضرت موسٰی علیہ السلام کو ؟ تو اُس نے کہا کہ ہاں اِنہیں غصہ آیا اِنہوں نے اُس کے ایک چپت ماردیا کہ یہ تو بدتمیزی کر رہا ہے تجھے اَنبیاء کرام کے تفاضل کی خبر نہیں ۔تو وہ آگیا شکایت کرنے جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا اِنَّ لِیْ ذِمَّةً وَّعَھْدًا میں تو آپ سے معاہدہ کے بعد رہ رہا ہوں آپ کے پاس اور میرا ایک ذمہ ہے میں ذمی ہوں حفاظت آپ کریں گے جان کی مال کی یہ آپ کے ذمہ ہے تو اِس نے مجھے ایسے مارا ہے چپت ۔رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے اُنہیں بُلا کر پوچھا اُنہوں نے کہا کہ جی ،یہ، یہ کہہ رہا تھا وَالَّذِی اصْطَفٰی مُوْسٰی عَلَی الْبَشَرِ قسم اُس ذات کی جس نے تمام انسانوں پر حضرت موسٰی علیہ السلام کو چُنا افضلیت کے لیے تو میں نے پوچھا اِس سے، اِس نے جواب دیا کہ ہاں جناب سے بھی افضل ہیں تو مجھے غصہ آیا اَخَذَتْنِیْ غَضْبَة تو میں نے اِس کے ایک مار دیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا کہ اِس بحث میں نہ پڑا کرو کیونکہ ایک تو خصوصیات ہیں کسی کو کوئی کسی کو کوئی خصوصیت دے دی چنانچہ فرمایا کہ سب سے پہلے تو میں اُٹھوں گا قیامت کے دن جب میں اُٹھوں گا تو دیکھوں گا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام عرشِ اِلٰہی کو پکڑے ہوئے ہیں اِذَا مُوْسٰی بَاطِش..... بِالْعَرْشِ ١ تو میں نہیں کہہ سکتا اب بھی اِس وقت نہیں کہہ سکتا، نہیں بتا سکتا میں ، کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش
١ مشکوة شریف باب بدأ الخلق و ذکر الانبیاء رقم الحدیث ٥٧٠٨
میں آگئے یا اُن کو جو'' طور'' پر اُنہوں نے ایک سن لی تھی آواز تجلی کی جس سے وہ بے ہوش ہوگئے تھے اُس کی وجہ سے قیامت کے صور سے وہ بے ہوش نہیں ہوں گے اور یا یہ ہے کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے فَأَفَاقَ قَبْلِیْ تو گویا یہ ایک قسم کی اُن کی خصوصیت ہوئی۔
قرآنِ پاک میں آتا ہے ( وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَائَ اللّٰہُ ) جب صور پھونکے گا تو سب بیہوش ہوجائیں گے سوائے اُن کے جنہیں اللہ چاہے کہ نہ ہوں بیہوش تو وہ نہیں ہوں گے، آخر صور پھونکنے والا فرشتہ بھی تو ہوگا وہ بے ہوش نہیں ہوگا جسے خدا نہ چاہے نہیں ہوگا ورنہ سب ہوں گے۔
تو اُس میں اِرشاد فرماتے ہیں کہ بے ہوشی مجھ پر بھی آئے گی اور میں جب ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ وہ عرش کو پکڑے ہوئے ہیں تھامے ہوئے ہیں تو یہ نہیں میں کہہ سکتا فَلَااَدْرِیْ .۔... اَفَاقَ قَبْلِیْ ..... ١ مجھ سے پہلے وہ ہوش میں آگئے یا یہ بدلہ ہے اُس تجلی کا جو طور پر ہوئی تھی۔
تو وہ تجلی جو تھی میں یہ کہہ رہا تھا کہ واقعی تھی، یہ نہیں ہے کہ یوں ہی کوئی تجربہ جیسے کھلونے کا کرلیتا ہے جھوٹ موٹ کا ایسے نہیں ہے بلکہ وہ سچ مچ تجلی تھی اور اُس کا اَثر یہ ہوا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام تو بے ہوش ہوگئے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور اِس کی وجہ کیا تھی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا کہ دیکھو جسمانی طور پر تم سے زیادہ قوی چیز جو ہے وہ پہاڑ ہے تو اگر یہ تجلی ٔذاتی کو قبول کرلے تو تمہارا جسم بھی ہو سکتا ہے کہ قبول کر لے اسے ،تو اس لیے پہلے اس پر دیکھئے ( فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ دَکًّا ) تو جب وہ ہوش میں آئے تو اُنہوں نے کہا ( سُبْحَانَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) تیری ذات پاک ہے رُجوع کرتا ہوں تیری طرف اور میں سب سے پہلے اِیمان لانے والوں میں ہوں تو(سُبْحَانَکَ ) کا لفظ کہا ہے تیری ذات پاک ہے پاک ہے برتر ہے بلند تر ہے بالا تر ہے تو اللہ کا اِس طرح سے شعور اس طرح سے نظر آنا جیسے ہم ایک دُوسرے کو دیکھ رہے ہیں یہ اِس عالم میں نہیں ہے
١ بخاری شریف کتاب الخصومات رقم الحدیث ٢٤١١
اُس عالم میں البتہ رُؤیت ثابت ہے بِلاشبہ ، گویا رُوح میں تو اتنی قوت اللہ نے دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کا اِدراک کر سکے لیکن جسم میں نہیں ہے جب جسم سے خالی ہوجائے گی یہ اور وہاں (آخرت میں ) جائے گی تو پھر اِدراک کر سکے گی یا جسم کے جو اَجزاء منتخب ہوجائیں گے اور رُوح کے ساتھ دائمی جنہیں قرار دے دیا جائے گا وہ اَجزاء ایسے ہوں گے کہ اُنہیں (قوت اور) حکم رُوح والا حاصل ہوگا وہ دیکھ سکیں گے ،رؤیت ِباری تعالیٰ وہاں ہو سکے گی یہاں دُنیا میں جسم کا معاملہ ایسا نہیں ہے یہاں تو جسم کے اَجزاء بے شمار پیدا ہوتے ہیں اور فناء ہوتے ہیں آخر ہر آدمی ایک پاؤ ڈیڑھ پاؤ ڈھائی پاؤ تین پاؤ کھاتا ہے پیتا ہے یہ کہاں جاتا ہے یہ بن بھی رہے ہیں فناء بھی ہو رہے ہیں اَجزاء تو پتہ نہیں کتنے اجزاء انسان اپنی زندگی میں روز فناء کرتا ہے اگر وہ فناء نہ ہوں بلکہ جمع ہوتے رہیں اور روزانہ کا اِس کا سیر بھر کا اِضافہ ہوتا رہے تو انسان پہاڑ کے برابر بن کر مینار کی طرح کھڑا ہوجائے گا لیکن یہ نہیں ہے بلکہ فناء بھی ہورہے ہیں ساتھ ساتھ۔
یہاں ''احسان ''کے معنٰی یہی ہیں کہ بس ایک یقین کہ اُس کی ذاتِ پاک موجود ہے گویا میں اُسے دیکھ رہا ہوں اور وہ نور ہے مگر ایسانہیں ہے جیسے یہ روشنیاں ہیں اِن سے بالا ہے اور یا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔
''شریعت'' و'' طریقت'' کا فرق :
یہ شریعت طریقت وغیرہ کے بارے میں میں نے شاید پہلے بھی بتلایا تھا کہ
جو شرعی اَحکام ہیں اِن کا نام'' شریعت'' ہے اور اِن کی عادت بنالے آدمی تو اِس کا نام ''طریقت ''ہے ۔ تو اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شریعت اور طریقت جدا جدا چیزیں ہیں تو جدا اِسی حد تک ہیں کہ ایک ہے احکام کا جاننا اور ایک ہے احکام کا عادت بنالینا ،اس حساب سے دونوں میں بڑا فرق ہے۔
احکام کا جاننا تو'' علم'' ہے وہ تو پڑھ کر بھی آسکتا ہے اور اُس کی عادت بنانا یہ'' عمل'' ہے تو اس کا نام طریقت ہے کہ اگر احکامِ شرعیہ عادت بن جائیں جیسے صحابہ کرام اوریا جو بھی عمل کرنا شروع کردے مسلمان تو یہ طریقت ہے ۔
طریقت کا کچھ اور مطلب لینا گمراہی ہے :
اور یہ کہنا کہ ظاہری شریعت یہ ہے اور باطنی طریقت میں احکام اور ہیں الگ ہیں یہ گمراہی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں سب غلط ہے اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیے ہیں وہ یہی ہیں
البتہ تَخَلُّقْ بِھَا یعنی اِن کی عادت بن جائے یہ تو'' طریقت'' ہے۔
اور جو سکھاتے ہیں صوفیائے کرام جو طریقہ بتلاتے ہیں ذکر کااُس کا نام'' اَشغال'' ہے۔
اور جو یہ'' احسان'' ہے اِس کا نام'' وصول'' ہے بعد میں علماء نے صوفیاء نے یہ نام رکھے ہیں ۔
''نسبت'' کیا ہے ؟
اور ایک چیز ہے نسبت، نسبت ایک ربط ِ خاص ہے اللہ کی ذات سے تعلق قلب کا اللہ پاک کی ذات سے بہت قوی قسم کا ہوجائے جس میں کوئی شک تردّد نہ آتا ہو بس شک کی بات سننے کی گنجائش ہی نہ ہو جیسے علماء نے مثال دی ہے '' ایمانِ عجائز'' کی بوڑھیوں کا اِیمان کہ وہ دُوسری بات سنتی نہیں ہیں اُس کو کچھ بھی سمجھا لو وہ نہیں سمجھ میں آئے گا اُس کے، جو اُس کا ایمان بن چکا ہے اُس میں کوئی تردّد کی گنجائش نہیں دلیل کی بھی ضرورت نہیں اور دلیلیں دو تو بھی بیکار کوئی چیز اُس کو ہلا نہیں سکتی۔
بہت ریاضت کے بعد'' نسبت'' کا حصول ہوتا ہے :
تو یہ نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ِ مبارکہ کی برکت سے صحابۂ کرام کو فورًا حاصل ہوجاتی تھی اور ہمیں ایک مدت لگتی ہے عبادتیں کرنے میں قرآنِ پاک کی تلاوت ہو نوافل ہوں یا اور عبادتیں ہوں بڑی مدت لگتی ہے پھر جا کر دل کا تعلق اللہ کی ذات سے پکی قسم کا ہوتا ہے کہ پھر آدمی کو جو بات خلافِ شرع ہو وہ ناگوار گزرنے لگے سچ مچ ایسی کیفیت ہوجائے کہ خلاف ِ شرع چلتے ہوئے اپنے آپ کو بوجھ ہو اور استغفار کرے ذرا سی خلافِ شرع ہوجانے پر خود اپنی غلطی محسوس کرے وغیرہ وغیرہ یہ کیفیت ایک عرصہ بعد پیدا ہوتی ہے۔
ہاں رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والسلام کے زمانے میں آپ کی بس ذرا سی صحبت سے قریب جانے سے چند منٹ پاس رہ لینے سے یہ بات حاصل ہوجاتی تھی تو یہ بہت بڑی نعمت تھی ! ! ! یہاں اس حدیث شریف میں اسلام ، ایمان، احسان کے بارے میں بتلایا گیا ہے۔ احسان کے معنٰی ہوگئے وصول اور معرفت اور یہ دُنیا میں انسان کو جس طرح سے سکھائی جاتی ہے وہ تصوف کے طریقے ہیں ورنہ خود جو ہے وہ صفاتِ باری تعالیٰ پر غور کر کے اور ساتھ ساتھ تنزیہ اللہ کی ذات کی کرتا رہے، تقدیس کرتا رہے کہ جو میرے خیال میں آیا ہے یہ میرا خیال ہے اللہ اِس سے بھی بالا ہے یہی کرتا رہے یہی احسان میں داخل ہے اِس سے ہی معرفت حاصل ہوتی ہے اور انسان جما رہے استقامت ہو تو پھر وہ اس سے بلند مقامات پر چلا جاتا ہے یا نسبت کم اَز کم حاصل ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی معرفت اپنی رضا سے نوازے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے ، آمین۔ اختتامی دُعا..........
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.