jamiamadniajadeed

اگر باز نہ آئے تو ہر نبی علیہ السلام کے گستاخ کی سزا موت ہے

درس حدیث 150 --- اگر باز نہ آئے تو ہر نبی علیہ السلام کے گستاخ کی سزا موت ہے (25.10.2020)

درسِ حدیث ٢٥اکتوبر ٢٠٢٠ئ تمام انبیاء علیہم السلام کی گستاخی کی سزا موت ہے ( شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم ) ض ض ض اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ ! حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جناب آقا ئے نامدار ۖ سے روایت فرماتے ہیں مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ تم میں سے کوئی اگر بُری بات دیکھے گناہ کی چیز دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے قوتِ بازو سے اُسے تبدیل کرے یعنی'' منکر'' کو بدل دے یاتو اُس '' منکر '' کو ختم کر دے یا اُس '' منکر ''کے بدلے میں جو اچھی چیز ہے وہ آگے لے آئے ، دونوں ہی چیزوں میں تغیر ہوتی ہے تو فَلْیُغَیِّرْہ بِیَدِہِ والی چیز جو ہے یہ سب سے پہلا درجہ ہے جو تقریباً ختم ہو چکا ہے کیونکہ اِس کام کے اصل ذمہ دار جن کو یہ کرنا ہے وہ اسلامی حکومتیں ہیں ۔ مسلمانوں کے حکمرانوں کی ذمہ داری اس چیز کی ہے ، عوام اُن کی رعیت ہے اور رعیت نے اُن کو اِس کام کے لیے منتخب کیا مقرر کیا ، رعیت نے یا رعیت کے سمجھداروں نے ذمہ داروں نے کیونکہ خود براہ ِراست رعیت جسے منتخب کرے اُس کا تو نتیجہ تباہی آتا ہے ١ مشکوة شریف کتاب الاداب باب امر بالمعروف رقم الحدیث ٥١٣٧ یہ ان کی جمہوریت جسے کہتے ہیں ، مغرب والوں کی جمہوریت جو غلاظت اور گندگی کا ٹوکرا ہے یہ تو یہ ہے ۔'' صالح جمہوریت'' جسے مقرر کرے ، صالح جمہوریت یہ ہوتی ہے کہ عوام الناس میں جو صالحین ہیں باصلاحیت اور صاحب ِبصیرت ہیں وہ کریں، عام آدمی کو کیا پتا کہ ملک کیسے چلتا ہے اور کس نے اچھا چلانا ہے ؟ یہ عام آدمی کیا جانے ان چیزوں کو ؟ اگر یہ عام آدمی کو یہ باتیں پتا ہوں تو عام آدمی کو ہی وزیر اعظم بناؤ اور صدر بھی بناؤ ! لیکن اُس بچارے کو خبر ہی کچھ نہیںہوتی اور اتنے اہم کام کے لیے اُس سے رائے لیتے ہیں، کبھی آپ اپنے کپڑے سلوانے کے لیے یا کپڑوں میں خرابی آجائے اُسے ٹھیک کرانے کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب یہ ٹھیک کر دیں ، ڈاکٹر کہے گا مجھے تو اس کی الف ب بھی نہیں پتا لیکن اگر آپ نے اسی سے کروائی اور کروانی ہے تو وہ اس کا ستیاناس کر دے گا ۔ اسی طرح بیمار آدمی درزی کے پاس چلا جائے کہ میں بیمار ہوں نزلہ زکام ، کھانسی ہے یہ کر دو وہ کہے کہ میں تو کر نہیں سکتا یہ تو میری لائن نہیں ہے ، ظاہر ہے لائن ہی نہیں ہے ۔ جب ایک درزی مریض کی دوا نہیں دے سکتا اور ایک ڈاکٹر کپڑا درست نہیں کر سکتا تو پھر یہ حکومت کا نظام اتنا بڑا یہ پھر عام آدمی سے اَن پڑھ اور جاہل سے اور مزدور سے اور کسان سے ، ان سب سے پوچھتے ہیں ! تو یہ جاہلانہ نظام ہے ، یہ ان کی جمہوریت ہے یہ اپنے ملکوں میں رکھیں اُن کو مبارک ۔ لیکن بد نصیبی ہم مسلمانوں کی ہے کہ ہمارے اندر ان کے غلام ایسے ، ان کے غلام جنہوں نے ان کی جمہوریت کو سر پر رکھا ہوا ہے چوم چاٹ کر ۔ تو نبی علیہ السلام نے فرمایا اپنے ہاتھ سے تبدیل کرو ، قوتِ بازو سے ۔ اب وہ قوتِ بازو تو رہی نہیں حکمرانوں کی وہ توبہت عیاشیوں میں ہیں ، سارے عالَم میں، یہ نہیں کہ یہاں پاکستان کے حکمران ، عربوں کا بھی ، سب کا یہی حال ہے ، افریقہ کی مسلم حکومتیں ہوں ، یہاں کی ہوں ، وہاں کی ہوں ، سب ایسی بذدل ، نالائق ، نکمّے ، کسی کام کے نہیں، کافروں کا تسلط ہو گیا وہی سب کچھ کے مالک ، سیاہ سفید کے مالک اور ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں ۔ ابھی آپ کو پتہ ہے کچھ دن پہلے فرانس میں ایک تازہ واقعہ ہوا جہاں ان کا پیرس میں ایک ٹیچر ہے اُستاذ تھا ، ٹیچر، اُستاذ نہیں ٹیچر ہی کہنا چاہیے وہ حضرت محمد رسول اللہ ۖ کے خاکے گستاخانہ بناتا تھا اور سکول میں طلباء کو دکھاتا تھا ،تو وہ خاکے دکھاتا تھا توہین کرتا تھا ، اُن پڑھنے والوں میں ساری دنیا کے مختلف ملکوں کے طلباء ہوتے ہیں کافر بھی ہوتے ہیں مسلمان بھی ہوتے ہیں ۔ اس بدتہذیب قوم کا یہ حال ہے جبکہ اصول ہے کہ کسی بھی قوم کے بڑے آدمی کی تکریم کرو اکرام کرو تاکہ وہ تمہارے بڑوں کا اکرام کرے ۔ قرآنِ پاک میں بھی یہی سکھایا گیا ہے کہ کافروں کے جو معبود ہیں اِن کو گالی مت دو ( فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ)یہ اللہ کو بُرا بھلا کہیں گے ، گالیاں دیں گے بغیر علم کے، تو مہذب قوموں کو تو یہ تعلیم قرآن دے رہا ہے اور مہذب قوموں نے اسے اپنایا ہے (وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ) ١ ١ سُورة الانعام : ١٠٨ کتنا زبردست اصول قرآن نے بتلایا ۔اخلاقی بھی اسے کہیں گے ، روحانی بھی کہیں گے ، سیاسی بھی کہیں گے ، جہادی بھی کہیں گے ۔ جو اسلامی فوج ہوگی اُسے بھی یہی اصول سکھایا جائے گا تو یہ جہادی بھی بن گیا جو مسلمانوں کے سیاستدان ہوں گے انہیں بھی یہ اصول سکھایا جائے گا یہ سیاسی بھی بن گیا ۔ ہر اعتبار سے یہ اصول کار آمد ہے ۔ اور بڑوں کو بھی اور عوام کو بھی یہ سکھایا جائے گا مدرسوں سے سکولوں سے یہ اخلاقیات سکھائی جائیں گی ، کالج یونیورسٹی سے یہ نہیں سکھایا جائے گا اخلاق ، وہاں گالی سکھائی جاتی ہے، وہاں ناچ گانا ، ڈانس ، میوزک ، باجا بجانا ، بین بجانا ، بانسری بجانا ، کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ، پیشاب کر کے استنجاء نہ کرنا ، یہ چیزیں وہاں سکھائی جاتی ہیں ۔ گندگی ، ناپاکی ، پاکی نہیں جانتے وہ ۔ اعلیٰ تعلیم مدرسوں میں دی جاتی ہے دنیا کی اعلیٰ تعلیم، وہ اعلیٰ تعلیم نہیں ہے وہ ادنیٰ تعلیم ہے ، وہ غلاظت ہے جو کالج یونیورسٹیوں میں پڑھائی جائے چاہے وہ ہمارے ہوں چاہے اُن کے ہوں ۔ ان میں جو سائنسی علوم ہیں ، طبی اصول ہیں ، ڈاکٹری علوم ہیں وہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں اُن میں کوئی بات نہیں لیکن ساتھ ساتھ جو تعلیم اُن کے لیے ضروری ہے جو ڈاکٹر کو انسان بنائے ، سائنسدان کو بھی انسان بنائے نِرا سائنسدان بن کر وحشی درندہ مت بنے، ڈاکٹر بن کر وحشی مت بنے ۔ مخلوق کی خدمت کا جذبہ پید اہو ، وہ تب ہو گا جب یہ کالج یونیورسٹیاں ساری علماء کی سرپرستی میں چلیں گی تو پھر اخلاق والے ڈاکٹربھی پیدا ہوں گے ، اخلاق والے سائنسدان پیدا ہوں گے اخلاق والے انجینئر پیدا ہوں گے نہ کہ ایک دوسرے کے خون کے دشمن ، پیاسے۔ تو وہ ٹیچر گستاخیاں کرتا تھا ، یہ اُن کے ٹیچر کا حال ہے اخلاقی گراوٹ کا حال ہے ان کے ٹیچر کی تو اس کے شاگردوں کا کیا ہوگا ؟ اور اُس ٹیچر کے استادوں کا کیا ہوگا کیونکہ انہوں نے ہی تو اسے سکھایا ہے وہ جو ٹیچر تھا کسی مدرسے کا پڑھا ہو اتھوڑی تھا ؟ مدرسے کا نہیں پڑھا ہوا تھا ۔ وہ چیچن نوجوان طالبعلم جب تنگ آگیا اُس کی خباثتوں سے، جب کسی کے باپ کو گالی دے ، ماں کو تو کیا اسے جواب میں برداشت ہوگا ؟ تھپڑ مارے گا یا نہیں مارے گا ؟ تو جب اُس کے رسول کو گالی دے گا تو کیا وہ برداشت کرے گا ؟ لیکن یہ چونکہ بے غیرت قومیں ہیں ۔ عیسائی اور یہودی کیونکہ زنا یہ کرتے ہیں ، بے پرد یہ پھرتے ہیں ، ننگے یہ پھرتے ہیں ، ماں بیٹے کے سامنے ننگی پھرتی ہے وہ معاشرہ اُن کا ایسا ہے، بیٹا ماں کے سامنے ننگا پھرتا ہے ، باپ اپنے بیوی بچوں کے سامنے ننگا آتا جاتا ہے، بیت الخلاء میں بیٹھ جائے گا ، کرسی والا بیت الخلائ، دروازہ بند کرے دل میں آئے گا ورنہ وہ بھی نہیں کرے گا ، منہ میں سگریٹ پھنسا لے گا اور ہاتھ میں اخبار پکڑ لے گا ،باہر سے بیٹی بھی گزر رہی ہے بیٹا بھی گزر رہا ہے ، بیوی بھی گزر رہی ہے ۔ اور وہ وہاں سے کوئی کام ہے تو آوازیں بھی دے رہا ہے اور مطالعہ بھی کر رہا ہے اخبار کا ۔ یہ اُن کے معاشرے میں عام چیز ہے اسے عیب ہی نہیں سمجھتے ۔ جو معاشرہ اسے عیب ہی نہیں سمجھتا ، وہ مہذب ہے یا غیر مہذب ہے ؟ وہ یہ اخلاقیات کیسے جانے کہ بڑے کا کیا ادب ہے اور چھوٹے کا کیا ادب ہے ؟ ان کا باپ ان کے سامنے ہگ رہا ہے بیٹھا ہوا تو وہ ہی باپ کو سمجھتے ہیں اور وہی باپ والی نقلیں اُتارے گی اولاد ۔ شراب پیتے ہیں ، خنزیر کھاتے ہیں پھر ننگے ناچتے ہیں ، کلبوں میں اور سڑکوں پر ننگے آتے ہیں سمندر کے کنارے ننگے ، باپ اپنی فرینڈ کے ساتھ اور بیٹا اپنی فرینڈ کے ساتھ ننگا پھر رہا ہے ساحل پر ۔ تو جس معاشرے کا اخلاق ہی یہ ہو ، بداخلاقی ہی اُن کا اخلاق ہو ، اُس سے اچھائی کی اُمید رکھنا ؟ تو اُس مجاہد نے جو چیچن مجاہد تھا اُس نے بالکل ٹھیک کیا چھُرا لے کر اُس کا سر تن سے جدا کر دیا اس کو قتل کیا اس نے ،سڑک پر اس کا سر پڑا ہوا ہے، نبی کے گستاخ کا یہی اسلام نے اصول رکھا ہے لیکن اس کے ردِعمل میں پولیس آئی ،پولیس کو بلایا گیا ہر جگہ بلایا جاتا ہے قتل ہوگیا، پولیس زیادہ سے زیادہ اگر جلدی بھی آئی ہوگی جیسا کہ اِن ممالک میں ہے ہمارے ہاں تو تھانیدار سو رہا ہوتا ہے ، نشے میں پڑا ہوتا ہے تھانے میں، اُس کا محرر بھی نشہ ہی میںہوتا ہے ، وہ بھی نشے میں ہوتے ہیں شرابی لیکن ڈیوٹی کے وقت کچھ پابندی ان کی ہوتی ہے ،تین منٹ میں آگئی ہوگی اس سے پہلے تو نہیں آتی ، پہلے سے تو پولیس موجود نہیں تھی وہاں ، سکول میں کہاں، مدرسوں میں ، کالجوں میں ، یونیورسٹی میں پہلے سے پولیس ہوتی ہے کوئی بھی نہیں ہوتا ،کہیں لڑائی ، جھگڑا ، بدامنی ہو، پھر تو ہوتے ہیں پہلے سے ورنہ نہیں ہوتے ۔ اس پولیس نے آکر اُس چیچن مجاہد کو گولیاں مار کر شہید کر دیا، یہ سب سے پہلا غیر قانونی کام کیا پولیس نے کہ اُسے قتل کرنے کا پولیس کو حق نہیں تھا ۔ اس نے قصور کیا یا نہیں کیا ؟ یہ فیصلہ عدالت کرتی ہے ، پولیس کا کام ملزم کو پکڑ لینا ہوتا ہے ۔ وہ تو ایک آدمی کو جسے مارنا تھا مار چکا ۔ اب وہ کوئی آگے چھُرا لے کر تھوڑی مار رہا تھا ، باقی لوگوں کو ! اگر وہ چھرا لے کر اوروں کو مارتا اِدھر بھی بھاگ رہا اُدھر بھی بھاگ رہا اور پولیس نے اندازہ کیا کہ اگر ہم نے ذرا دیر کی تو یہ اسے بھی قتل کر دے گا اور اُسے بھی ، تو چلو مار دی گولی اس لیے، بات سمجھ میں آتی ہے جب ایسا نہیں ہے تو پولیس کو لازم ہوتا ہے کہ ملزم کو زندہ گرفتار کرے کیونکہ پولیس سزا دینے کی مجاز نہیں ہے سزا دینے کی مجاز عدالت ہوتی ہے ،پولیس کا کام ہوتا ہے اُسے قابو کرنا اور قابو کرکے عدالت میں پیش کرنا پھر عدالت فیصلہ کرتی ہے ۔ وہ جو عدالت کرتی ، وہ عدالتیں بھی اُن کی کیا ہیں ؟ بے عدالت ! وہ سب کو پتا ہے کہ کیا فیصلہ کرنا تھا ۔ لیکن چلو جو جیسا کیسا قانون ہے اس پر کیوں عمل پولیس نے نہیں کیا ؟ تو کارروائی تو پولیس کے خلاف ہونی چاہیے اس نے تو مار دیا وہ تو مر گیا وہ زندہ تو ہو نہیں سکتا تھا لیکن یہ زندہ پکڑا جا سکتا تھا جو زندہ پکڑا جاسکتا تھا اسے تم نے کیوں قتل کیا ؟ یہ سوال اُٹھنا چاہیے تھا جو ابھی تک کسی نے نہیں اٹھایا میرے علم کے مطابق ، ممکن ہے کسی نے اُٹھایا ہو ! پوری دنیا میں لیڈر ہیں موجود، حکومتیں ہیں،وہ فرانس کو گریبان سے پکڑیں فرانس کے سفیر کو بلائیں اپنے وزارتِ خارجہ میں طلب کریں اور اُس سے کہیں اس کا جواب مسلمان کو جس نے قصور اگر کیا بھی ہے تو اسے قتل کیوں کیا ہے انہوں نے ؟ عدالت کہتی قتل کرنا اور پولیس کرتی وہ نافذ کرنے والے ادارے کرتے ہیں لیکن فیصلے کا اختیا ر تو پولیس کو نہیں ہے ۔ ہاں اگر اُس کے ہاتھ میں پسٹل ہوتا مشین گن ہوتی اور یہ آتے اور کہتے کہ جی ہوسکتا ہے کہ وہ فائر کر دیتا ، ہوسکتا ہے ہمیں مار دیتا اس لیے ہم نے اُسے مارا ، پھر بھی ایک بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کے ہاتھ میں نہ مشین گن ہے ، نہ پسٹل ، نہ ریوالور ، صرف خنجر ہے ، خنجر تو جب آدمی قریب آئے تو مارسکتا ہے، دُور سے تو نہیں مار سکتا ۔ تو اگر گولی مارنی ضروری تھی تو اُس کی ٹانگوں پر مارتے زخمی کردیتے اسے ۔ یہ پولیس کو سکھایا جاتا ہے سب کو کہ ٹانگ پر مارو، ربڑ کی گولی مارو ۔ ربڑ کی گولی مارو اُس کی چوٹ اتنی ہوتی ہے کہ وہ آدمی قابو آجاتا ہے پولیس کے ، اُسے قتل کیا ہے دانستہ ۔ وہ جو اِس نے قتل کیا اس کو وہ بالکل صحیح کیا اور جو پولیس نے اسے قتل کیا یہ بالکل ظلم کیا ۔ ہر گستاخ کا یہی علاج ہے حضرت محمد رسول اللہ ۖ کے دورسے لے کر آج تک ۔ ہم تو اور آگے کہتے ہیں کہ اگر وہ خبیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کو وہ خود نبی مانتے ہیں اُن کی گستاخی کرتا تو غیرت مند مسلمان اُس کا بھی سر تن سے جدا کر دیتا تو اسلام یہی حکم دیتا ہے کہ اس کو قتل کردو ۔ نبی کے گستاخ کی سزا موت ہے ہم تعصب نہیں کر رہے کہ ہم صرف حضرت محمد رسول اللہ ۖ کے بارے میں یہ کہتے ہیں ، ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی اکرام ایسے ہی کرتے ہیں جیسے حضرت محمد رسول اللہ ۖ کا کرتے ہیں ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی علیہ السلام کا گستاخ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا گستاخ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں اور نبیوں کو بھی مانتے ہیں، اگر کوئی یہودی اپنے نبی کی گستاخی کرے گا تو غیرت مند بیٹھا ہوا مسلمان اُس کو یا تو روکے گا ایک دفعہ کو تنبیہ کرے گا، نہیں باز آئے گا تو اُس کا سر تن سے جدا کر دے گا اور اُسے وہی ثواب ملے گا جو رسول اللہ ۖ کے گستاخ کو قتل کرنے کا ملتا ہے وہی ثواب اسے ملے گا ۔ تو اسے شہید کیا وہ شہید ہے، اب میں نے جب جمعہ پچھلی دفعہ ہوا ، جمعہ کے بعد ایک صاحب آئے بہت اچھے نیک نمازی ہیں پڑھتے ہیں نماز یہاں ، بڑے آدمی ہیں افسر ہیں ، بہت پریشان کہنے لگے کیا ہو گا یہ ،فرانس میں ایسے ہو گیا ۔ اور اب وہ فرانس میں مسلمانوں کو اس اس طرح تنگ کر رہے ہیں اور باقاعدہ فرانس کے صدر نے اور حکومت نے اُس خبیث گستاخ بدتمیز بداخلاق بد تہذیب کو سب سے بڑا اعزاز موت کے بعد سب سے بڑا اعزاز اُس کو سرکاری اعزاز دیا ہے فرانس کا ۔ گالی دینے والے کو جو قوم عزت اور اعزاز دے اُس کی اخلاقی پستی کا سب کو اندازہ کر لینا چاہیے ، شرم کرنی چاہیے ہمارے مسلمانوں کو جو وہاں جاکر اُن کی چاکریاں اور خوشامد کرتے ہیں اُن کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں ، ہماری عورتیں اُن کی طرح فیشن کرکے نقلیں اُتار کر ننگی بازاروں میں پھررہی ہیں اور خدا سے نہیں ڈرتیں ، یہ کتنی گری ہوئی قوم اور کتنی بد اخلاق قوم ہے ، گلیر قوم ہے جس کے پیچھے ہم چل کر فخر محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ ہیں ۔ اسی وجہ سے نوبت یہاں تک آئی کہ کافروں کو نبی السلام کے گستاخانہ خاکے بنانے کی جرات ہو گئی کیونکہ ہمار امسلمان مجرم اور قصور وار ہے جو فرانس میں جاکر فرانسیسیوں کی نقل کرتا ہے، کہنے کو مسلمان ہے لیکن نماز نہیں پڑھتا شراب خانوں میں جاتا ہے جرمنی کا مسلمان بھی یہی کرتا ہے اور ہالینڈ کا ، یورپ کا ، امریکہ کا ، برطانیہ کا ، آسٹریلیا کا ، اکثر یہ چیز کرتے ہیں سوائے چند کے ، کم ہیں ایسے اچھے بھی ہیں جن پر ، اس مجاہد جیسے باغیرت بھی ہیں موجود اور انشاء اللہ اگر انہوں نے یہ گستاخیاں خباثتیں جاری رکھیں تو یورپ کے اندر آگ لگ جائے گی اور انشاء اللہ علَمِ جہاد بلند ہو جائے گا ! وہ میرے پاس آئے بیچارے ، کہنے لگے کیا ہو گا ؟ یہ کر رہے ہیں ! میں نے کہا اس سے بھی بُرا ہو گا مسلمان بے غیرت ہوگیا ہے میں نے کہا یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، جب تک تلوار نہیں اُٹھائیں گے عالَم ِ اسلام میں مسلمان اور جہاد کا علَم بلند نہیں ہو گا، یہ بے غیرت ، بے حیاء قوم اسی طرح خباثتیں کرتی رہیں گی ۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو لاتوںسے ٹھیک ہوں گے باتوں سے ٹھیک نہیںہوں گے ۔ میں نے انہیں کہا یہ علاج ہے اس کا واحد علاج ہے ، شرافت کی زبان نہیں جانتے ، کمینہ آدمی ، کمی کمینہ آدمی جو ہوتا ہے وہ شرافت سے مزید سر چڑھ جاتا ہے ، وہ ا ور سرچڑھ جاتاہے۔یہ فرانس ہو، برطانیہ ہو ، امریکہ ہو جتنے ممالک ہیں یہ کمینے اور غلیظ قومیں ہیں اِن کے حکمران اور جرنیل کمینے لوگ ہیں اِن کو باعزت سمجھنے والے بھی انتہائی بداخلاق اور کمینگی کی لکیر سے بھی نیچے گرے ہوئے لوگ ہیں ،چاہے وہ عالَم اسلام کی قیادت ہو اور چاہے عالَم اسلام کے جرنیل ہوں اور چاہے سیاسی قیادت ہو ، سب کے سب بے غیرتی اور کمینگی کی آخری لکیر سے بھی نیچے آئے ہوئے ہیں۔ جب یہ گستاخی اُس نے کی تو اس کے وزیرِ اعظم نے بھی بیان دیا اُس کی حوصلہ افزائی کی ۔ اور اب انہوں نے اتنی بلڈنگ ، بہت بڑی بلڈنگ پر ، بہت بڑی بلڈنگ پر وہ خاکہ جو اُس خبیث نے بنایا تھا رسول ا للہ ۖ کی گستاخی کا ، وہ فرانس کی بہت بڑی بلڈنگ پرپوری پر لگا کر وہ مسلمانوں کو ا ذیت پہنچارہے ہیں ۔ کیا ہوا ؟ پاکستان نے کیا کیا ردِ عمل میں ؟ سعودی عرب نے کیا کیا ؟ کچھ نہیں سب سو رہے ہیں ۔ ہونا یہ چاہیے تھا سفیر کو بلاتے گریبان سے پکڑتے ، بے غیرت لوگوں کو اِسی طرح کرنا پڑتا ہے ،شرافت کی زبان نہیں جانتے یا تو اس کو واپس لو ، اس اعزاز کو واپس لو اور اس کا شہید کا جو تم نے ظلماً قتل کیا اس کا حساب دو ۔ عالمی عدالت میں کیس لے کر جائیں کہ اُس کو کس بنا پر انہوں نے قتل کیا اس کو کیا اختیار تھا کہ اسے قتل کریں وہ شہید ہوگیا ، وہ شہید ہے انشاء اللہ ، بڑے درجے کا شہید ہے اس طرح ظلما ً اس کو ظلما ً مارا ہے انہوں نے ،وہ مظلوم ہے اُس نے اقدام بالکل صحیح کیا ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی ہم اسی طرح کریں گے ،موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی ایسے ہی کریں گے ، سلیمان علیہ السلام کے لیے بھی ایسے ہی کریں گے ، داؤد علیہ السلام کے لیے بھی ایسے کریں گے جس نبی کا نام بھی مسلمان لیتاہے'' علیہ السلام'' کے بغیر نہیں لیتا ہے، مسلمان اتنا بااخلاق اور اتنا تہذیب یافتہ ہے ، مہذب ہے اتنا ، اِن بدتہذیب کو کیا پتا کہ تہذیب کیا ہوتی ہے ؟ تو ہونا یہ چاہیے کہ سفارتی تعلقات قطع کریں اعلانِ جہاد کریں ، نہیں کریں گے تو خودبخود انشاء اللہ ماحول جہاد کا بنے گا اور خدانخواستہ پھر نوبت ایسی آجائے گی کہ اپنے جومسلمان بے غیرت حکمران جو ہیں وہ اس آگ کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے کیونکہ یہ یورپ کے اندر لگے گی آگ انشاء اللہ یہ امریکہ کے اندر لگے گی اُن کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں وہی بے غیرت مسلمان جو کلبوں میں ناچ رہے ہیں اللہ ان ہی میں ایمانی غیرت پیدا کر دے گا اور وہ تلوار لے کر میدان میں آجائیں گے انشاء اللہ، اللہ انہیں سے پھر کام لے گا ، یہ کام بدحواسی میں کر رہے ہیں ان کاموں میں انشاء اللہ خیر نکلے گی ان کاموں میں انشاء اللہ خیر نکلے گی مسلمانوں کے لیے ، عالَم اسلام کے لیے ۔ یہ حماقتوں پر حماقت کررہے ہیں ٹرمپ کر رہا ہے ، یورپ کر رہا ہے، یہ کر رہا ہے اللہ نے ان کی عقلوں پر پردے ڈالے ہیں یہ دنیا کے سیانے بنے ہوئے ہیں ، سیانے نہیں بنے ہوئے ہم مسلمان گر گئے ہیں ہمارے گرنے نے ہماری آنکھوں کے اندھا ہونے نے ان کانوں کو سردار بنا دیا ہے ، ہم اندھے نہیں تھے ، نہ ہیں لیکن ہم اندھے بن گئے ہیں لیکن وہ کانے تھے اور کانے ہیں اور کانے رہیں گے لیکن ہم جو اندھے بن گئے ہیں اپنی ہی کرتوت اور اعمال سے اُس نے ان کانوں کو سردار بنا دیا ۔ تو اللہ کرے کہ مسلمانوں میں ایمانی غیرت پیداہو ، مسلمان حکمرانوں میں ، جرنیلوں میں ہو ، اور جرنیلوں میں بھی ہیں اچھے ، پاکستان میں بھی ہیں ، مصر میں بھی ہوں گے ، سعودی عرب میں بھی ہوں گے دبے ہوئے ہیں ابھی حالات کی وجہ سے ، موقع ہاتھ آئے گا تو انشاء اللہ وہی لوگ قیادت کریں گے اور عَلمِ جہاد بلند ہوگا انشاء اللہ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اگر رسول اللہ ۖ کی گستاخیاں ہوں گی تو پھر حالات قابو سے باہر نکل جائیں گے اور اس کے ذمہ دار یہی حکمران اور یہی حکومتیں ہوں گی ۔ انہیں چاہیے کہ صحیح راست اقدام کریں اس سے پہلے کہ حالات قابو سے باہر نکل جائیں ۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کو آئینہ دکھائیں اور انہیں نوشتہ ٔدیوار بتا دیں وہ ہمارا فرض ہے ہم چونکہ پاکستانی ہیں ، ہم سب سے پہلے مسلمان پاکستانی ہیں ،ہم اپنے ملک اور دین کے بھی وفادارہیںاس ملک کے بھی وفادارہیں اس ملک کے خیر خواہ ہیں لہٰذا اپنے ملک کے حکمرانوں کو ہم سمجھتے ہیں کہ خیر کا راستہ دکھا دیں انہیں کہ یہ راستہ اختیار کرو ،یہ راستہ خطرناک ہے اس سے اسلام کا بھی نقصان ، اس سے قوم کا بھی ، اس سے مسلمانوں کا بھی اور سب کا نقصان ہے اور یہ تباہی کا راستہ ہے۔ ترکی کے طیب اُردگان نے اچھا بیان دیا ہے باقی تو سب چپ بیٹھے ہیں اُس نے کہا یہ جو وزیر اعظم ہے اِس کو اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے پاگل ہے ۔اس کے دماغ کا علاج ایسے نہیں ہے اس کے دماغ کا علاج کرنا چاہیے وہ کرائے گا نہیں کیونکہ اگر وہ سچ مچ پاگل ہوتا تو اُس کے ماں باپ ورثاء کراتے وہ پاگل بنا ہوا ہے اس کا علاج ہوتا ہے بٹھائو اور سر پر سو جوتے مارو پھر دیکھو کیسے دماغ ٹھیک ہوجائے گا، ان پاگلوں کا علاج سروں پر جوتے مارنا ہے اور کچھ نہیں ہے، پاگل خانہ ان کا علاج نہیں ہے ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو مجاہدین کے حوالے کردو جو اسلام کے غیرت مند مسلمان ہیں اُن کے حوالے کرو دیکھو دس منٹ میں سب کا دماغ ٹھیک ہوسکتا ہے یہ کیا چیز ہے ! لیکن حوالے تو کرو تم نے تو اپنے ہی مسلمانوں کے ہاتھ پائوں جکڑ رکھے ہیں اور صرف ان کی نوکری چاکری میں لگے ہوئے ہو تو پھر یہ تباہی آئے گی ہمیں بھی اور آپ سب کو بچنے کی توفیق دے اوراللہ ہم میں ایمانی غیرت پیدا فرمائے اہلِ حق کی پوری دنیا میں جہاں جہاں اہلِ حق ہیں اللہ ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی غیبی تائید اور نصرت فرمائے اور اہلِ باطل کو تباہ وبرباد فرمائے اور اللہ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرما کر آخرت میں رسول اللہ ۖ کی شفاعت اور اُن کا ساتھ نصیب فرمائے وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ ض ض ض

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.