jamiamadniajadeed

تقدیر''کا مسئلہ آسان کر دیا''

درس حدیث 283/41 ۔۔۔۔۔ ''تقدیر ''کا مسئلہ آسان کر دیا بس ایمان رکھو چاہے حل نہ ہوجنت انعام میں مل جائے گی ! تقدیر پر حضرت امام حسن کا خط مبارک''ارادہ'' اور '' رضا'' میں فرق ہوتا ہے ! اس کائنات کا نظام ''تدریجی'' ہے(1988-02-07)

حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''تقدیر ''کا مسئلہ آسان کر دیا بس ایمان رکھو چاہے حل نہ ہو
جنت انعام میں مل جائے گی ! تقدیر پر حضرت امام حسن کا خط مبارک
''ارادہ'' اور '' رضا'' میں فرق ہوتا ہے ! اس کائنات کا نظام ''تدریجی'' ہے
(درس نمبر40 07 - 02 - 1988 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار ۖ نے جن چیزوں پر اِیمان بتایا ہے اُن میں تقدیرِ الٰہی بھی ہے ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ جو وجود میں آرہا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو ایمان کے کلمات ہیں اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْاٰٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہ وَشَرِّہ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
یعنی تقدیر جو بھی ہے بہتر ہو یا بہتر نہ ہو سب اللہ کی طرف سے ہے سب اللہ کے علم میں ہے یہ نہیں ہے کہ بغیر اُس کے ارادے کے کوئی چیز وجود میں آرہی ہو ایسا نہیں ہے جو چیز بھی وجود میں آتی ہے اُس کا ارادہ ہے !
لیکن ہر جگہ اِرادہ رضا نہیں ہوتا ( وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ ) اپنے بندوں کے لیے وہ کفر پر راضی نہیں ہے ! اُس کو اپنی خوشنودی سے نہیں نوازتے ! !
تو حق تعالیٰ نے یہ عالَم جو پیدا فرمایا ہے یہ کیا ایسے ہے کہ بے سوچے سمجھے ہوگیا ؟ ایسے نہیں ہے تمام چیزیں مرتب ہیں اور تمام چیزیں حساب سے ہیں اور ایسا پختہ حساب اور نظام ہے کہ اُس میں ذرّہ برابر فرق نہیں آتا لمحہ بھر کا بھی فرق نہیںآتا ( مَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ....... رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً ) ١ جو کچھ ہم نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین میں وہ سب حق پیدا کیا
جو کچھ تو نے پیدا فرمایا ہے یہ، کوئی چیز اِس میں باطل نہیں ! سب حق ہے یعنی صحیح ہے اور سچ ہے تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ حق پیدا کیا یعنی صحیح پیدا کیا اور یہاں کی تمام چیزوں کو ایک خاص نظام عطا فرما دیا یہ عطا فرمانا اُس کے اِختیا ر سے ہے ! !
تدریجی عمل ،بِلا سبب کچھ نہیں :
نظام ایک یہ بنادیا کہ تمام چیزیں آہستہ آہستہ ہوں گی(ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ )اللہ تعالیٰ کے یہاں تو جو بھی کام ہے وہ ارادہ کرتے ہی ہوجاتا ہے ! لیکن زمین و آسمان کو اُس نے چھ دن میں پیدا فرمایا ہے ! بہت عرصہ لگا کر پیدا فرمایا وہ چاہتا تو سیکنڈ سے بھی کم لگ سکتا تھا لیکن یہ تدریج ہے درجہ بندی ہے یعنی اس پورے عالَم کو ایسا کر دیا گیا ہے کہ اس میں درجہ بدرجہ ہی کام ہوگا ! اب جتنی بھی چیزیں ہیں درجہ بدرجہ ہی ہوتی ہیں اوراُن میں اگر غور نہ کریں تو پھر یہ تمیز کرنی بھی مشکل ہوجاتی ہے کہ فلاں کام کسی سبب سے ہوا ہے یا خود بخود خدا کی قدرت سے ہو گیا ہے ! ؟ تو اِس واسطے مادّہ پرست کچھ طبقہ تھوڑا طبقہ رہا ہے ضرور(جو) کہتے ہیں کہ سب کچھ خود بخود ہی ہوجاتا ہے، (یہ طبقہ)رسول اللہ ۖ کے زمانے میں بھی تھا ! ! قرآنِ پاک میں بھی اُن کا ذکر آیا ہے ! !
اب بھی رُوس میں اِن نظریات کے کمیونسٹ ہیں لیکن کمیونسٹ خود رُوس کے اندر بھی کم ہیں ! !
کیونکہ اُنہیں اسباب میں اور غیر اسباب میں تمیز نہیں ہے ! جو چیز(بظاہر) سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ایسے ہے ایسے ہے ایسے ہے(تو) ایسے ہوگی اگر ہم یہ کر لیتے تویہ نہ ہوتا ! اور یہ نہیں کیا تو یوں ہوگیا ! اس طرح کی چیزیں اُن کے ذہنوں میں آتی ہیں ،لیکن حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر جوہے وہ(اصل میں کارفرما) ہے اور اس میں نظام جو ہے وہ ترتیب سے آہستہ آہستہ ہی چلے گا یہ نہیں ہے کہ بچہ آج پیدا ہو اکل جوان ہوجائے بوڑھا ہوجائے ایسے نہیں ہوتا، وہ پیدا ہوگا وہ ترتیب سے
١ سُورہ الِ عمران : ١٩١
چلے گا پھر آگے بڑھے گا پھر وہ بیٹھنا شروع کرے گا پھر چلنا شروع کرے گا پھر کھڑا ہونا شروع کرے گا بہت آہستہ آہستہ ،ایک نظام ہر نوع کے لیے بنادیا ! مرغی کا بچہ تھوڑی دیر بعد وہ چلنا شروع ہوجاتا ہے اور دانا چُگنا شروع کردیتا ہے ! اور(دوسرے) جانور ہیں اُن کا اور حساب ہے ! ہر ایک کا جو حساب بنادیا ہے وہی چلا آرہا ہے ! تو حق تعالیٰ نے تمام نظام ایک بنایا ہے اس پر غور کرو یہ حق ہے یہ صحیح ہے یہ سچ ہے اور بیکار نہیں ہے نتائج ہیں اس کے، بے فائدہ نہیں ہے، یہ زندگی دی گئی اس میں کام کریں گے نیکیاں کریں گے تو کام آئیں گی یہ ! !
''تقدیر'' پر اِشکال :
لیکن اس میں یہ اشکال پڑتا تھا کہ تمام چیزیں جوخدا کی طرف سے ہیں تو پھر بندوں کی گرفت اور بندوں کو ثواب دونوں ہی باتیں ایسی ہیں ! تو اس طرح کے اشکال ہوتے رہتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ انسان تو بالکل مجبور ہے ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے ! اور ایک طبقہ اس کے بر خلاف ہے بالکل برعکس ہو گیا ! لیکن سب باطل اور غلط ہیں۔
حضرت حسن ِبصری رحمة اللہ علیہ یہ بصرہ میں آئے ہیں صفین (کی لڑائی) سے ایک سال پہلے یعنی جمل (کی لڑائی)جو ہوئی ہے تو اُس وقت یہ بصرہ میں آچکے تھے اُس کے بعد صفین کی لڑائی ہوئی ہے اُس سے پہلے یہ مدینہ طیبہ میں رہے ہیں، ان کی والدہ ماجدہ جو تھیں وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مولات تھیں (یعنی) آزاد کردہ تھیں ! توکچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بصرہ آگئی تھیں یہ بات صحیح نہیں ہے وہیں رہی ہیں وہ، حضرت حسن ِبصری رحمة اللہ علیہ (بھی اُن کے ساتھ) وہیں رہے ہیں پھر ان کی والدہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا جو زوجۂ مطہرہ تھیں اُن کی خدمت کرتی رہی ہیں ! اور کبھی کبھی ایسے ہوتا تھا جب وہ روتے تھے تووہ بہلانے کے لیے اپنا دُودھ دے دیتی تھیں ! تو حسن ِبصری رحمة اللہ علیہ کی پرورش مدینہ طیبہ میں ہوئی ہے اور بعد میں جب یہ بڑے ہوئے ہیں تب بصرہ آئے ہیں پھر بصرہ ہی رہنا ہوا ہے وطن ہی گویا بصرہ بنالیا ! حسن ِ بصری اور اِبن سیرین رحمة اللہ علیہم یہ ایک دور میں ہی گزرے ہیں جن کی تعبیر کی کتاب ہے اور تعبیرات بڑی عجیب و غریب ہیں ! !
تقدیر سے متعلق حضرت امام حسن بن علی کا خط :
تو حضرت حسن ِ بصری نے حضرت حسن(بن علی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا اُس میں تقدیرہی کے بارے میں اسی طرح کا سوال تھا تو اُنہوں نے اُس کا جواب بھی تحریر فرمایا وہ مُلّا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے وہ تحریر فرماتے ہیں اس میں
''مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ بِقَضَآئِ اللّٰہِ وَقَدْرِہ خَیْرِہ وَشَرِّہ فَقَدْ کَفَرَ اسلام کی رُو سے جو آدمی اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر پر تقدیرپراِیمان نہیں رکھتا خیر اور شر دونوں کو ملا کر ایمان نہیں رکھتا تووہ تو کافر ہے !
وَمَنْ حَمَلَ ذَنْبَہ عَلٰی رَبِّہ فَقَدْ فَجَرَ اور جو آدمی اپنی نافرمانی اور اپنا گناہ اللہ تعالیٰ پر ڈالے تواُس نے یہ فسق و فجور کا کام کیا بہت برا کام کیا !
وَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَا یُطَاعُ اسْتِکْرَاھًا اللہ تعالیٰ کی اطاعت آپ سے جبر کر کے نہیں کرائی جا رہی !
بلکہ آپ کو اختیار کچھ دیا گیا ہے جب تک اس عالَم میں ہیں جب تک وہ عالَم نظر نہیں آرہا تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت جبرًا نہیں کرائی جارہی !
وَلَا یُعْصٰی بِغَلَبَةٍ اور یہ بھی نہیں کہ اُس کی نافرمانی جو ہے وہ کوئی زور آور کر رہا ہے ! اللہ سے زیادہ زور آور، یہ بھی نہیں ہے
لِاَنَّہ تَعَالٰی مَالِک لِمَا مَلَّکَھُمْ اللہ تعالیٰ نے جواُن کو دیا ہے جو طاقت دی ہے جو اِستطا عت دی ہے جو ہاتھوں پاؤں میں جان دی ہے اِن تمام چیزوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے !
تو کوئی نہ نافرمانی کر سکتا ہے اُس کی ؟ کہ اُس سے زور آور ہوجائے، زور کیسے ہوسکتا ہے دیا ہوا اُسی کا ہے سب کچھ !
وَقَادِر عَلٰی مَا اَقْدَرَہُمْ جس چیز پر انسانوں کو قدرت عطا فرمائی ہے اُس پر وہ خود بھی قادر ہے ! لیکن یہ تو امتحان کے طور پر گویا دیا ہے اختیار !
فَاِنْ عَمِلُوْا بِالطَّاعَةِ لَمْ یَحُلْ بَیْنَھُمْ وَبَیْنَ مَا عَمِلُوْا اگر بندے نیک کام کریں تو اللہ تعالیٰ حائل نہیں ہوتا کہ بیچ میں روک دے اُنہیں !
وَاِنْ عَمِلُوْا بِالْمَعْصِیَةِ فَلَوْ شَائَ لَحَالَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا عَمِلُوْا اور اگر اُس کی نافرمانی کرتے ہیں تو اگر خدا چاہے تو حائل ہوسکتا ہے درمیان میں رُکاوٹ پیدا فرما دے،یہ ہوسکتا ہے !
فَاِنْ لَّمْ یَفْعَلْ فَلَیْسَ ھُوَ الَّذِیْ جَبَرَھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ اگر اللہ تعالیٰ معصیت کرنے والے کی معصیت کے عمل کے درمیان حائل نہیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُس کو معصیت کرنے پر مجبور بھی نہیں کیا !
وَلَوْ جَبَرَ اللّٰہُ الْخَلْقَ عَلَی الطَّاعَةِ لَاَسْقَطَ عَنْہُمُ الثَّوَابَ اگر حق تعالیٰ نے بندوں کو اِطاعت پر مجبور کیا ہوتا تو ثواب ختم کردیا ہوتا !
وَلَوْ جَبَرَہُمْ عَلَی الْمَعْصِیَةِ لَاَسْقَطَ عَنْھُمُ الْعِقَابَ لَاَسْقَطَ عَنْھُمُ الْعَذَابَ اگر اُنہیں مجبور کرتے اللہ تعالیٰ معصیت پر تو عذاب ساقط کردیتے !
وَلَوْ اَہْمَلَھُمْ کَانَ ذٰلِکَ عَجْزًا فِی الْقُدْرَةِ اور اگر یہ مان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تو ایسے ہی چھوڑ دیا ہے بندوں کو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ناتمام ہے وہ عاجز آگیا ہے ! معاذ اللہ یہ بات نہیں ہوسکتی !
وَلٰکِنْ لَہ فِیْہِمُ الْمَشِیْئَةُ الَّتِیْ غَیَّبَھَا عَنْہُمْ اصل بات یہ ہے کہ بندوں میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کام کرتی ہے ارادہ کام کرتا ہے یہ مشیت نظر نہیں آتی یہ غائب ہے اس پر فقط ایمان بتایا گیا ہے نظر نہیں آتی یہ !
فَاِنْ عَمِلُوْا بِالطَّاعَةِ فَلَہُ الْمِنَّةُ عَلَیْھِمْ اگر بندے نیکی کرتے ہیں تو یہ بندوں پر خدا کا احسان ہے !
وَاِنْ عَمِلُوْا بِالْمَعْصِیَةِ فَلَہُ الْحُجَّةُ عَلَیْھِمْ اگر یہ گناہ کا کام کریں تو گناہ کا کام کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت قائم ہوجائے گی !
چونکہ اَنبیائِ کرام پہنچا چکے اور ہر ایک تک اسلام پہنچ چکا وَالسَّلَامُ '' ١
بس یہ اُنہوں نے تحریر فرمایا ہے تو اس کی تعریف بھی بہت کی ہے مُلا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے کہ یہ اُن کا گرامی نامہ ایسا عجیب ہے کہ اس میں مشکوةِ نبوت ،نبوت کے چراغ کے انوار نظر آتے ہیں ! !
کیونکہ وہ رسول اللہ ۖ کی اولاد میں بنتے ہیں تو حق تعالیٰ نے اُن کے لیے اتنی سمجھ آسان فرمائی کہ وہ دُوسرے کو بھی اِن الفاظ میں سمجھا سکے ورنہ سمجھانا بھی بہت مشکل ہے ! اس مسئلہ کو چھیڑنا بھی بہت مشکل ہے ! اور اس مسئلہ میں خوض جوہے غورو فکر کرنا وہ تو بالکل ہی روک دیا ہے کہ ایسا نہ کرو کیونکہ اسے حل کر نہیں سکتے جب حل نہیں کر سکو گے تو اُلجھن پیدا ہوگی اُلجھن پیدا ہوگی فائدہ کوئی بھی نہیں حاصل ہوگا تشویش ہوگی ! اور معاذ اللہ اگر شک پیدا ہوگیا تو اور نقصان ہوگا !
لہٰذا بس اللہ کی ذات پر اِیمان اور تقدیر پر اِیمان اور جو خدا کے رسول اللہ ۖ نے پہنچادیا ہے اُس پر ایمان اتنا ہی کافی ہے ! اور خود تم جانتے ہو نیکی کیا ہے برائی کیا ہے (بس) تم نیکی کرو اور برائی سے بچو، خود بھی بچو دُوسروں کو بھی بچاؤ، نیکی خود بھی کرو دُوسروں کو بھی تلقین کرو نیکی کی تو یہی کام کرتے رہو !
غیب پر اِیمان ،امتحان میں کامیابی :
باقی یہ کہ تقدیر پر تواِیمان بتایا گیاہے نظر وہ کسی کو بھی نہیں آتی ! یعنی اللہ کا علم کامل، اللہ کی قدرت کامل، اللہ کا قبضہ کامل ، یہ معنٰی ہے اور جو کچھ اُس نے لکھ دیا ہے وہ ہمیں نظر نہیں آرہا !
اگر وہ نظر آجاتا تو پھر عذاب یا ثواب اس میں ضرور کمی ہوگئی ہوتی کہ کوئی حجت تو بندہ خدا کے سامنے پیش کرسکتا ہے اور جیسے اِنہوں نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجبور نہیں کیا کسی بھی چیز پر بلکہ ایک دارُالامتحان
١ مرقاة المفاتیح ج ١ ص ١٢٣ رقم الحدیث ٢
میں چھوڑ دیا ہے اُسے جیسے کوئی چابی بھر کر کھلونا چھوڑ دے کہ وہ خود ہی اِدھر اُدھر چلتا رہے گا کچھ عرصہ کے لیے ( وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرّ وَّمَتَاع اِلٰی حِیْنٍ ) ١ ایک عرصہ تک جب تک خدا نے مقدر فرمایا ہے اُس وقت تک تم زمین میں رہو گے بھی، مستقر ہے یہ تمہارا اور ایک نفع حاصل کرنے کی بھی چیزو متاع ہے ، اس سے ہی فائدہ بھی اُٹھاؤ، اِسی کی پیدوار کھاؤ پیو، اِسی کی پیداوار خرچ کرو، اِسی کی پیداوار سے پہنو ! !
تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن پرحق تعالیٰ نے ہمیں (صرف) ایمان بتلایا ہے، ہمیں وہ نظر نہیں آتیں ! تو ہمارا تو اِیمان بالغیب ہے اور قرآنِ پاک میں شروع ہی میں ہے (ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ) اُن لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو تقوے والے ہیں ! ! خودہی تفسیر آگے فرمادی متقین کی
( اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ) ٢ نماز اور خرچ یعنی مالیات معاشیات معاشرت یہ ساقط نہیں ہوسکتی ! شریعت نے اس کو اُتنا ہی اہتمام دیا ہے جتنی انسانی ضرورت کی ضرورت تھی ! انسان کو جتنی ضرورت تھی اُتنا ہی اہتمام ، اقامت ِ صلوة پھر زکوة ساتھ لگاد یا کہ یہ بھی کرو معاشرت معاشیات تو گویا جان سے تو جانی عبادت کرلی اور جان کے بعد مال کا درجہ ہے، خدا کی راہ میں وہ بھی خرچ کردیا اُس میں بھی بخل نہیں کرنا جہاں جتنی ضرورت ہوتی ہے اور جتنی اُس کی استطاعت ہوتی ہے وہ خرچ کرتا رہتا ہے تو وہ متقین ہیں اُن کے لیے ہدایت ہے توایمان بالغیب ہوا ! !
بعد میں (عین موت کے وقت ) تو اِیمان پھر خود ہی ہوجاتا ہے ! اگر نظر آنے لگے تو پھر کفر کا سوال ہی کوئی نہیں وہ تو سب ہی کچھ نظر آتا ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر استقامت دے ،صحیح عقائد پر استقامت دے اور آخرت میں رسول اللہ ۖ کے ساتھ محشور فرمائے،آمین۔ اختتامی دُعا.........
١ سُورة البقرة : ٣٦ ٢ سُورة البقرة : ٢ ، ٣

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.