jamiamadniajadeed

عقائد میں تمام اَنبیاء کی تعلیم ایک جیسی ہے

درس حدیث 282/40 ۔۔۔۔۔ عقائد میں تمام اَنبیاء کی تعلیم ایک جیسی ہے ! ''تقدیرات'' علمِ اِلٰہی ہیں عقل اُن کا اِحاطہ نہیں کر سکتی ! رُوح اور جسم کا تعلق لافانی ہے ! زمانے سے پہلے ''زمانہ''نہیں تھا !کسی بھی نبی کی بے ادبی کفر ہے ! عذاب ِ قبر اور گمراہی سے بچائو کا طریقہ!(1988-01-31)

حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
عقائد میں تمام اَنبیاء کی تعلیم ایک جیسی ہے !
''تقدیرات'' علمِ اِلٰہی ہیں عقل اُن کا اِحاطہ نہیں کر سکتی !
رُوح اور جسم کا تعلق لافانی ہے ! زمانے سے پہلے ''زمانہ''نہیں تھا !
کسی بھی نبی کی بے ادبی کفر ہے ! عذاب ِ قبر اور گمراہی سے بچائو کا طریقہ!
(درس نمبر39 31 - 01 - 1988 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
ایک(اعتقادی) مسئلہ ہے جو اِسلام نے بتلایا ہے وہ'' تقدیر'' کا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عالَم میں ہونے والا ہے وہ سب طے فرمادیا ہے، اُس میں'' خیر'' ہو یا'' شر'' ہو جو بھی کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کا مقدر کردہ ہے طے کردہ ہے اور اِس کا مطلب یوں سمجھ لیجیے کہ مراد (تقدیر سے)گویا علمِ باری تعالیٰ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ اُس کو تمام چیزوں کا علم ہے اور قدرت بھی ہے کہ سب کچھ اُسی کا طے کردہ ہے پھر یہ طے فرماکر اُس نے اِس عالَم کو وجود بخشا ! ! !
اس میں یہ بھی آتا ہے کہ تمام مخلوقات کی جو کیفیات ہیں تقدیرات ہیں وہ حق تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے سے بہت پہلے پچاس ہزار سال پہلے طے فرمادیں ١ تواُس زمانہ میں زمانہ تو تھا نہیں !
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٧٩
زمانہ تو یہ ہے ! ہم دیکھتے ہیں سورج نکل رہا ہے غروب ہو رہا ہے ! وقت دیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ یہ سب حادِثْ مخلوق اور نئی پیدا شدہ چیزیں ہیں ! اصل حالت جو ہے وہ وہی ہے ''لازمان لامکان '' نہ کوئی زمانہ ،نہ مکان یعنی جگہ ! اصل حالت وہ تھی، یہ(تو بس) انداز ہے کہ اگر اِن سالوں سے اور دِنوں سے گناجاتا اور یہ سال اور دن اُس وقت ہوتے تو یہ ہوتا ! !
اللہ تعالیٰ کو ہم جانتے ہیں کہ وہ ایک ذات ہے اور حیات ، قدرت ، علم ، اِرادہ ، سمع ، بصر ، کلام،
یہ سب ذاتِ باری تعالیٰ کی صفات ہیں اور یہ'' صفاتِ ذاتیہ'' ہیں یہ '' صفاتِ سبعہ'' کہلاتی ہیں ! ! سات صفات ہیں باقی جو صفات ہیں جیسے رزق دینا اِن کاتعلق دُوسری چیز سے بھی بنتاہے وہ رازق ہے دے سکتا ہے لیکن جب اُس نے پیدا کیا کسی چیز کو تو دیا رزق، یہ بدرجۂ کمال جس ذات میں موجود ہے وہ حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے ! ! !
علم کا کمال ،قدرت کا کمال :
کمالِ قدر ت یہ ہے کہ کوئی چیز دائرہ قدرت سے خالی نہ ہو ! اور علم کا کمال یہ ہے کہ کوئی چیز اُس کے علم سے غائب نہ ہو ! تو جو کچھ وجود میں آرہا ہے وہ ایک خاکہ کے تحت ہے ہمیں اس کا کیا پتہ ؟ ہمیں توظاہر نظر آتا ہے ،ہم چاہتے ہیں جاتے ہیں دُکان کھولتے ہیں دفتر جانا چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں کوئی اور کام کرنا ہوتا ہے کرتے ہیں، ارادہ کرتے ہیں دوپہر کو جائیں گے لیٹیں گے سوئیں گے آرام کریں گے وہ کرتے ہیں ! روز مرہ کے دسیوں کام ایسے ہیں جو اِنسان ارادہ کرتا ہے اُسی طرح ہوتا ہے ! اور کوئی کوئی کام ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہر چند کوشش کرڈالتا ہے نہیں ہوتا ،کوئی رُکاوٹ پیش آجاتی ہے ! تو اِنسان کے ارادے اور عمل کا ایسا حال نہیں ہے کہ اُس کے اختیار میں (ہی ہے کہ جو چاہا کرلیا) معلوم ہوا کہ اپنے اختیار میں نہیں ہے ! ! !
اور ایسی چیزیں بھی ہیں جو دن میں کئی کئی دفعہ وجود میں آجاتی ہیں اور بعض دفعہ کبھی کبھی وجود میں آتی ہیں ! اور یہ سب دلیل ہیں عاجز ہونے کی ! اور دلیل ہیں اس بات کی کہ ہوتا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ارادہ فرمائے ! اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ معاملہ ہی نہیں ہے ساری موجودات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو علمِ باری تعالیٰ سے خارج ہو ! کیونکہ وجود بخشنے والاہی وہ ہے ! اور وجود بخش کر اُس کی حفاظت کرنے والا بھی وہی ہے ! اور اتنی باریکیاں ہیں کہ انسان کا دماغ اُس میں قاصر رہ جاتا ہے !
کتنی مخلوقات ہیں یہ سب کی سب یوں ہی نہیں !
( مَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا بِاطِلًا )
جو کچھ ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان پیدا کیا ہے باطل نہیں ! !
( مَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ )
سب درست ہیں جوہم نے پیدا فرمایا ! !
ہم تو ظاہر کو جانتے تھے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں جو نہیں چاہتے وہ نہیں کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک جو چاہتی ہے وہ ہوتا ہے اور وہ نہ چاہے تو نہیں ہوتا
( لاَ تَقُوُلَنَّ لِشَیْیٍٔ اِنِّیْ فَاعِل ذٰلَکَ غَدًا اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ )
کسی چیز کو ہرگز یوں نہ کہیں آپ کہ یہ میں کل کروں گا(بلکہ) یہ بھی کہیں کہ اگر خدا چاہے گا تو میں کروں گا
یعنی خدا کی مشیت پر موقوف ہیں اُس کے اِرادے پر موقوف ہیں ! تو یہ مسئلہ ہو گیا ایمانِ(غیب ) کا ( جو)نظر ہمیں نہیں آرہا !
تقدیر پر بحث نہیں کرسکتا :
اگر کوئی برائی کرنے والا یہ سوچ لے کہ میں تو یہ جواب دے دُوں گا اللہ تعالیٰ کے یہاں کہ تونے ہی تو مقدر فرمایا ہے تو یہ بات نہیں چلے گی کیونکہ مقدر نظر نہیں آر ہا صرف ایمان بتایا گیا ہے کہ اللہ کے علم پر اُس کی قدرت پر اور من جملہ علم اور قدرت کے یہ تقدیر بھی اُسی میں داخل ہے تو اُس پر اِیمان آپ کا فرض ہے ،نظر وہ نہیں آتی ! ہاں اگر کسی کو نظرآجائے تو وہ مکلف نہیں رہے گا اُس کو تو پھر سب ہی کچھ نظر آجائے گا وہ تو خودبخود ہی مومن ہوجائے گا لیکن نظر آتا ہی نہیںاور ایمان مطلوب ہے تو فرمایا گیا (وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ)نظر نہیں آتا مگر غائب پر اِیمان رکھتے ہیں اس بناء پر کہ اللہ نے بتلایا ہے اور اللہ کا پیغام جنابِ رسول اللہ ۖ نے پہنچایا ہے اس لیے ہمارا ایمان ہے۔
آپ کلمہ پڑھتے ہیں، اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْاٰٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہ وَشَرِّہ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی پڑھتے ہیں تقدیر جو بھی ہے بہتر ہو یا بری ہو اللہ کی طرف سے ہے ! اوربہتر یا برااِنسان کے حق میں جو ہے وہ اور چیز ہے (انسان کے علاوہ ) کسی اور کے لیے وہ اور چیز ہے ! انسان پانی میں نہیں رہ سکتا لیکن مچھلی پانی سے باہر نہیں رہ سکتی ! تو اِنسان کے اعتبار سے جو خیر اور شر ہے وہ انسان کو بتایا گیا !
جنات بھی مکلف ہیں :
باقی انسان کے علاوہ جنات بھی مکلف ہیں اطاعت عبادت تمام چیزوں کے مکلف ہیں ! ان (دو)کے علاوہ کوئی مکلف نہیں۔ تو انسان کو اور جنوں کو ہی عقل دی گئی تو اِنہیں عقل کی وجہ سے مکلف فرما دیا گیا ! ایک روایت میں آتا ہے کہ عقل سے حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا بِکَ آخُذُ وَبِکَ اُعْطِیْ ١ اور تیرے ہی ذریعہ سے مواخذہ کروں گا اور تیرے ہی ذریعہ دُوں گا اوکمال قال علیہ السلام ۔
عقل کا مطلب :
تو عقل کہتے ہیں عربی میں ''باندھنے ''کو تو عقل ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو برائیوں سے روکے رکھتی ہے باندھے رکھتی ہے ! یہ مناسب ہے یہ نامناسب ہے ،فلاں وقت فلاں چیز مناسب فلاں وقت فلاں چیز مناسب حتی کہ گفتگو تک میں کون سا جملہ یہاں فِٹ بیٹھتا ہے کون سا نہیں ،کون سا موقع کے مناسب ہے کون سا نہیں، بہت باریکیوں تک گیا ہوا ہے دماغ انسان کا ! تو عقل خدا نے بخشی تو مکلف بنادیا ! بھلائی برائی دونوں کی تمیز دی (ھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ) ہم نے دکھا دیے دونوں راستے ۔ تو اس طرح سے اس ایمان بالغیب کا مکلف یہی (جن واِنس )ہیں !
حیوانات مکلف نہیں ہیں :
باقی جتنی چیزیں ہیں اُن میں نہ عقل ہے نہ وہ مکلف ہیں ! جن میں عقل نہیں ہے جانور ہیں مکلف نہیں ہیں اور جانوروں میں کافر بھی نہیں ! وہ سب ایک ہی طرح ہیں ! اور پھر ان کے علاوہ
١ مشکوة شریف کتاب الاداب رقم الحدیث ٥٠٦٤
اور مخلوقات ہیں اُوپر کی معلوم نہیں کس کس طرح کی وہ مخلوقات ہیں فرشتے ہیں فرشتوں جیسی ہیں اور بھی ہوں گی جو ہمیں پتہ نہیں (مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ) اپنی مخلوقات اور اُن کے لشکروں کو اور جھنڈوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا !
نبیوں کا ایمان :
تو اللہ تعالیٰ نے بعض مخلوقات جو بنائی ہیں اُن کا ایمان بالغیب ہے ہی نہیں اُنہیں تو نظر آتی ہیں وہ(غیبی) چیزیں جیسے انبیائے کرام کا جو اِیمان تھا وہ بھی ایمان بالغیب نہیں رہا اُن کو بھی نظر آتی تھیں وہ چیزیں فرشتہ نظر آتا تھا وحی آتی تھی تمام چیزیں نظر آتی تھیں تو سب نبی ایمان میں ایک جیسے ہیں ! !
کسی بھی نبی کی بے ادبی کفر ہے :
سب نبی نبوت کے وصف میں ایک جیسے ہیں اس لیے کسی بھی نبی کے بارے میں کوئی جملہ (گستاخی کا) اگر معاذ اللہ زبان سے نکل جائے تو کفر ہو جائے گا ! اور رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ سب اَنبیائے کرام بھائی بھائی ہیں جیسے کہ مائیں مختلف ہوں باپ ایک ہو تو سب بھائی بھائی ہیں تو جب وہ ایک درجے کے ہوئے تو اُن(کے بارے) میں آگیا قرآنِ پاک میں ( لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہ) کسی رسول میں ہم تفریق نہیں کریں گے کہ اُسے زیادہ اور اِسے کم نبی مانیں نبی سب کو ایک درجے کا ماننا پڑے گا لیکن ( تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ) یہ بھی ہے، بعض اَنبیائے کرام کو بعض پر اللہ نے فضیلت دی ہے وہ ذکر بھی فرمائی گئی ہے حدیثوں میںبھی آئی ہے لیکن ہمارا تو ایمان سب پر ہے جنہیں ہم جانتے ہیں اور بیشتر وہ ہیں جنہیں نہیں جانتے چند کو جانتے ہیں جن کے اَسمائے گرامی آئے ہیں احادیث میں یا قرآنِ پاک میں یا تاریخ کی کتابوں میں باقیوں کا تو پتہ ہی نہیں چلتا، توہمارا اُن(سب) پر ایمان ہے ! اُن کا ایمان کیسا تھا ؟ وہ بالغیب نہیںرہا ، اُن کووہ چیزیں نظر آتی تھیں ،
جناب ِ رسول اللہ ۖ نماز پڑھا رہے تھے اور اِرشاد فرمایا کہ ابھی ابھی جنت اور جہنم میرے سامنے آئے اور فرمایا کہ میں اگر خوشہ لے لیتا جنت کا تو تم کھاتے رہتے جب تک دُنیا رہتی ( مَابَقِیَةِ الدُّنْیَا ) ! ! کیونکہ جنت کی چیزوں کو فنا نہیں ہے تو وہ فنا نہ ہوتی وہ قائم بھی رہتی کھاتے بھی رہتے ! اور اس میںکوئی بات غلط نہیں اور تمام (غیبی) باتوں کا جوڑ آپ نے اُن باتوں سے لگادیا تھا جو بعد میں وجود میں آتی رہیں گی !
کچھ صحابہ کرام نے دیکھ لیں اور کچھ صحابہ کرام خبر دے گئے اور دُنیا سے چلے بھی گئے وہ بعد میں دُوسروں نے دیکھ لیں، تمام چیزیں جو آپ نے فرمائیں اُن میں نہ جھوٹ ہے نہ مبالغہ ہے نہ غلطی ہے سب کی سب سچ اور صحیح !
تو رسول اللہ ۖ کو اور دیگر تمام اَنبیائے کرام کو جو اِیمان کی کیفیت عطا ہوئی تھی وہ وہبی بھی تھی قدرتی تھی نبوت کی تھی اور وہ ایمان بالغیب سے اُوپر کا درجہ ہے جیسے فرشتوں کا ایمان کہ وہ کبھی متزلزل نہیں ہوسکتا اُس میں شک نہیں آسکتا تردّد نہیں آسکتا ! اُنہیں نظر آتا تھا،جو نظر آتی ہو چیز اُس میں کسے تردّد ہوتا ہے آپ کو نظر آجائے تو آپ کو تردّد نہیں رہتا اُس چیز میں، قسم بھی کھالیتے ہیں دُوسروں کو بھی بتاتے ہیں اطمینان سے بتاتے ہیں کیفیات بتاتے ہیں تفصیلات بتاتے ہیں۔
''تقدیرات'' دائرہ عقل سے باہر ہیں حل نہیں ہو سکتیں بس ایمان لانا کافی ہے :
اور رسول اللہ ۖ وہ چیزیں ایسے بیان فرماتے ہیں جیسے کہ ہو چکی ہوں کیونکہ اُن میں کوئی تخلف ہوتا ہی نہیں،ہونی ہی اُسی طرح ہے اور قرآنِ پاک میں بھی ہے جگہ جگہ ( وَلَوْتَرٰی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُئُ وْسِھِمْ) اگر تم اِن مجرموں کو دیکھو ،یعنی قیامت کے دن جو ہونے والی چیزیں ہیں اُن کو ایسے انداز میں بیان کیا گیا جیسے کہ ہوچکی ہیں تو ایسے انداز میں بات کر دینا یہ کیا چیز ہے ؟ تو اُس کو آقائے نامدار ۖ نے اس طرح حل فرمایا کہ یہ ہے'' تقدیر'' اس کا نام تقدیراتِ اِلٰہیہ ہیں یہ حق ہیں جب حق ہیں تو انہیں حق ماننا ضروری ہوا ! حق ماننے کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان لانا ضروری ہے ! لیکن ان کے بھروسے آپ برا کام کرتے رہیں کہ اگر مقدر میں برائی لکھی ہے تو یہ ہوگا اور اگر نہیں لکھی تو میں نہیں کروں گا برائی ! اور اگرمقدر میں خدا نے لکھ دی ہے تو پھرمیرے سے پوچھ نہیں ہوگی ! یہ بات نہیں چل سکتی کیونکہ مقدرآپ کو نظر آیا نہیں ! یہ تو آپ کو صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ اِس پر ایمان رکھو اور اگر اِس پر ایمان نہیں رکھو گے تو گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اور اللہ تعالیٰ کے علم پر تمہیں پورا اِیمان نہیں حاصل ہوا ! اور اُس کے علم کا جو کمال ہے وہ تم نے ابھی نہیں مانا ! ابھی اُس سے تم واقف نہیں ہوئے اس واسطے تقدیر پر ایمان رکھنا بتایا ! ! !
تمام انبیاء ِ سابقین نے بھی ایسا ہی بتلایا :
اوریہ تعلیم صرف رسول اللہ ۖ ہی کی نہیں ہے پہلے سے چلی آرہی ہے، انبیائے کرام اُصولی تعلیم ایک ہی دیتے رہے ہیں، کلمہ ہے توحید ہے ، نیکی کی اور برائی سے بچانے کی یہ تعلیم سب انبیائے کرام میں رہی ہے، رسول اللہ ۖ کو فرمایا گیا ( اِتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرَاھِیْمَ ) اِبراہیم علیہ السلام کی ملت کی پیروی کرو اور انبیائِ کرام میں بہت سوں کے نام گنا کر جن کو لوگ پہچان سکتے تھے دُنیا میں ! کیونکہ بہت سے ایسے ہوئے جنہیں پہچانا نہیں جاسکتا نام ہی اُن کے نہیں قرآنِ پاک میں ! ! ( اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت عطا فرمائی (فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ) اُن کی ہدایت کی پیروی کرو !
اُن کی پیروی کا مطلب :
اب اُن کی ہدایت کی پیروی کا مطلب کیا ہے کہ سب نبیوں کی تعلیم پہلے ہی سے ایک چلی آرہی ہے (اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا اِلٰی نُوْحٍ) آپ پر ہم نے ایسے وحی کی ہے جیسے نوح علیہ السلام پر کی ہے ! قرآنِ پاک میں ہے ! دُوسری جو آیت پڑھی وہ بھی قرآنِ پاک کی ہے، تو نبوت کے وصف میں سب انبیائے کرام ایک ہیں،تعلیم عقائدکی سب انبیائے کرام نے ایک ہی دی اور سب کا ایمان ایک ہی چیز پر تھا
ہاں اُمتی لوگ جو ہیں وہ مکلف کس چیز کے ہیں ؟ وہ ایمان بالغیب کے مکلف ہیں اور غیب کی باتوں کا یقین آجائے تو (اس کے لیے) معجزات بھی صادِر ہوئے انبیائے کرام علیہم السلام سے تاکہ یقین آنے میں مدد ملے ! یہ خدا کی طرف سے ایک مدد تھی جو اِنسان کی اللہ نے اپنی رحمت سے کی کہ اُسے ہدایت پر قائم رہنے میں مدد مِل جائے سہارا لگ جائے ! تویہ مسائل تقدیر کے ہیں اور اس میں جنابِ رسول اللہ ۖ نے ایمان بالقدر واجب قرار دیا ہے اور اس میں ہی آدمی زیادہ پریشان ہوتا ہے کافی وسوسے آتے ہیں مگر اُن وسوسوں کا تو خیال ہی نہ کرو کیونکہ اس میں تو بتایا یہ گیاہے کہ تم علم ِ باری پر پورا یقین رکھو ! ! !
اپنی حالت جانچنے کا طریقہ :
تم کیاہو کیا نہیں ہو وہ علامتوں سے پہچان لو ! اگر تمہارے لیے آسانیاں نیکی میں ہو رہی ہیں تواُس پر خو ش ہوتے رہو اور اگرنیکی میں دُشواریاں اور برائی کی طرف آسانیاں نظر آرہی ہیں تو ڈرو اوراُس سے رُکو ! کیونکہ دونوں چیزیں بتادیں یہ بھی راستہ واضح ہے کیا کیا چیز بری ہے اور کیا چیز اچھی ہے وہ معلوم ہے ! تو جب نیکی کرو تو شکرکرو ! اور برائی ہوتو استغفار کرو ! اور خداسے پناہ مانگو کہ آئندہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بچائے رکھے ! تم ظاہرکے مکلف ہو صرف ! اور تمہارا حساب کتاب جو آخرت میں ہوگا وہ کون سے پیمانے سے ہوگا تقدیر کے یا اس(اچھے برے اعمال کی بنیاد) سے ؟ تو وہ اِس پیمانے سے ہوگا کیونکہ تمہیں کافی حد تک اختیار دیا بھی گیا ہے اور اختیار .........................
.............چلتی آرہی ایک شاخ اس قسم کی وہ'' نیچری'' کہلاتے ہیں جن میں سے'' سر سیّد '' بھی تھے ! اور اب یہ ''پرویز'' گزرا ہے ابھی ! اور اِسی انداز ِ فکر کے اور لوگ بھی ہیں وہ لوگ اس کے قائل نہیں ہیں لیکن قائل نہ ہونا بِلا وجہ ہے ! ! !
عالمِ برزخ، مثال سے وضاحت :
تو ایک آدمی پاس سوتا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے ایسے دیکھا ایسے اُٹھا ایسے بیٹھا ایسے دوڑا ہوا گیا وغیرہ وغیرہ اور دُوسرا جاگتا ہوتا ہے وہ پاس بیٹھا ہوتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا یہ تولیٹا ہوا ہے تو اُس کی رُوح پروہ احساسات گزرے ہیں(اس کی)مراد وہی ہے !
اب یہ بھی سوال ہوتا ہے کہ بھئی یہ ہندو تو جلا ہی دیتے ہیں اور اگر وہ لاش مچھلیاں کھاگئیں کہیں سمندر میں ہوا ایسا قصہ پھر کیا ہوگا ؟ وغیرہ وغیرہ اور ایٹم بم میں توپھر سارے ہی ختم ہوجاتے ہیں پتہ نہیں راکھ بھی رہتی ہے یا وہ راکھ بھی بھاپ بن جاتی ہے ؟ ! جو بھی صورت ہو تمام صورتوں میں جو اُس کے ایٹم ہوں گے اُن میں حیات ڈال کر یہ سوال و جواب اُس سے ہوگا ۔
جسمانی رابطہ :
اور سوال وجواب(برزخ میں) فقط رُوحانی نہیں ہے بلکہ جسم کا دخل اُس میں رکھا گیا ہے اور جسم کو دخل یہاں بھی ہے عمل میں جو آدمی کام کرتا ہے جسم سمیت کرتا ہے جسم سے کرتا ہے ! تو قبر میں بھی وہ ہے ! اور قیامت میں جو حشر ہوگا وہ فقط رُوحانی نہیں ہے جسمانی جسم سمیت ! اور جنت میں جو داخلہ قیامت کے بعد ہوگا وہ جسم سمیت ہوگا ! ورنہ تو شہداء آج بھی جاتے ہیں جنت میں ! اور رسول اللہ ۖ نے بتلایا ہے کہ اُن کی یہ شکل بنادی گئی ہے اور اس طرح سے وہ اُڑتے ہیں فِیْ حَوَاصِلَ طَیْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِی الْجَنَّةِ حَیْثُ شَائَ تْ جہاں وہ چاہیں جنت میں جاتے ہیں اورعرش کے نیچے قندیل ہیں اُن میں اُن کی اَرواح رہتی ہیں قَنَادِیْلُ مُعَلَّقَة تَحْتَ الْعَرْشِ یہ اُن کے ٹھکانے اور مرکزہیں ! جنت میں داخلہ اب بھی ہے توقیامت میں پھر کیا ضرورت رہی ؟ اس لیے قیامت میں تو پھر جسم سمیت ہے داخلہ !
لافانی تعلق ،مثال سے وضاحت :
اور رُوح کا تعلق جسم کے اجزاء سے لا فانی ہے یہ فنا نہیں ہوتا اگر کوئی ریڈیو اسٹیشن ہو (جیسے) لاہور اور اُس کی طرف(ریڈیو کی) سوئی لگادی جائے اور چاہے کروڑوں کی تعداد میں ریڈیو ہوں اور مختلف سمتوں میں وہ لوگ چلے جائیں الگ الگ ریڈیو لے کر لیکن لگا تو رہے گا لاہور ہی ! ! بالکل اسی طرح سارے جسم کے جو اَجزاء ہیں ان سب کا تعلق رُوح کے ساتھ ایسا ہی ہے ! اور جب حق تعالیٰ کا حکم ہوگا تو یہ رُوح اپنے اَجزاء کو کھینچ لے گی ! وہ تعلق ریڈیائی کہہ لیں، ریڈیائی تو مثال کے طور پر ہے ،ریڈیائی جو چیز ہے وہ مادّی ہے اور یہ مادّی سے اُوپر کی بات ہے ! مادّی چیزوں کو فنا آتی رہتی ہے خرابیاں اُن میں آتی رہتی ہیں اور رُوحانی چیزوں میں دوام ہے اُن میں خلل وغیرہ نہیں آتا تخلف نہیں ہے ! تو(جب)سوال یا عمل دُنیا میں جسم سمیت ہے تو قبر میں بھی سوال جسم سمیت ہے ! !
قبر وبرزخ کا مطلب :
اور'' قبر'' کا مطلب قبر نہیں ہے بلکہ ''برزخ'' ہے ! اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے (مِنْ وَّرَآئِ ھِمْ بَرْزَخ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ) جب انتقال ہوجائے اُس وقت سے لے کر اُٹھنے کے وقت تک یہ عالمِ برزخ ہے ! عالمِ برزخ میں برزخی طور پر سوال ہوگا !
برزخ درمیان کو بھی کہتے ہیں یہ درمیانی کیفیات ہیں درمیانی حالت اور اس میں سوال جو ہے وہ بھی مرکب ہے جسم اور رُوح سے مِلا کر ہے سوال اور جواب ! آقائے نامدار ۖ نے اس بارے میں پوری رہبری فرمائی اور یہ کہ یہ چیز پیش آنے والی ہے ! اور پیش ِنظر رکھنی ہے کہ جانا ہے اور کسی کو پتہ نہیں کب اُس کا جانا ہوجائے ! ہر ایک کے لیے یہی ہے ! ! !
عذابِ قبر سے بچائو :
ویسے رسول اللہ ۖ نے علاج بھی بتلایا ہے مثلاً سُورۂ مُلک ایک دفعہ پڑھتے رہنا ،کوئی دیر بھی نہیں لگتی دو ڈھائی منٹ لگتے ہوں گے یہ عذابِ قبر سے نجات دلاتا ہے ! سوالِ قبر سے نجات دلاتا ہے ! یہ سورت مانع بن جائے گی عذاب سے تو ایک دفعہ روزانہ پڑھتے رہنا چاہیے ! !
گمراہی سے بچائو :
عقائد کے بارے میں مجھے یہ خیال آتا ہے کہ سورۂ کہف کی پہلی دس آیتیں بہت تھوڑی سی بنتی ہیں وہ روزانہ صبح کو کوئی پڑھتا رہے ایک دفعہ تو دجال سے محفوظ رہے گا ! اور جب دجال سے محفوظ رہے گا تو باقی فتنے تو سارے اُس سے کم درجے کے ہیں تو پھر سارے فتنوں سے محفوظ رہے گا ! !
تو عذابِ قبر کے لحاظ سے (رات کو) یہ سورتِ( مُلک) اور ہدایت پر قائم رہنے کے لحاظ سے ان آیتوں کا معمول بنالینا فجر کے بعد، چلتے چلتے چند قدم چلے گا وہ دس آیتیں پوری ہوجاتی ہیں توایک منٹ لگتا ہوگا زیادہ سے زیادہ شروع کی دس آیتیں پڑھنے میں ! تو رسول اللہ ۖ نے اُس عالَم میں جو پیش آنے والی چیزیں ہیں کچھ وہ بتائیں پھر اُن کے ساتھ ساتھ معاون چیزیں بتلادیں کہ یہ اُس میں مدد گار ہوں گی !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر استقامت دے اور آخرت میں رسو ل اللہ ۖ کے ساتھ محشور فرمائے ، آمین ۔ اختتا می دُعا ................

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.