jamiamadniajadeed

خیالات اور وسوسوں پر اِشکال

درس حدیث 279/37 ۔۔۔۔۔ خیالات اور وسوسوں پر اِشکال ، اس کا جواب اور علاج اپنی تعریف کرنا اور کروانا گناہ ہے ! انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں ! (1988-01-03)


( دسمبر 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
خیالات اور وسوسوں پر اِشکال، اس کا جواب اور علاج
اپنی تعریف کرنا اور کروانا گناہ ہے ! انبیائِ کرام معصوم ہوتے ہیں !
( درس نمبر36 کیسٹ نمبر 82-B 03 - 01 - 1988 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں رکھی ہیں اُن میں ایک چیز یہ ہے کہ طرح طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں ! اچھے بھی برے بھی، کبھی نیکی کی چیزیں سوچتا ہے کہ یہ کروں گا یہ کروں گا اور کبھی برائی کے خیالات بھی آتے ہیں اور اگر برائی کرنے کے خیال نہ آئیں تو وسوسے بھی آجاتے ہیں ! تو یہ کیا چیز ہے ؟ یہ'' فطرت'' ہے، اب جب فطرت ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ نے رکھی ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے تو پھر اُس پر گرفت ہے یا نہیں ؟ تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اِشکال کو دُور فرمایا ! ارشاد ہوا اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ بِہ صُدُوْرُھَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِہ اَوْ تَتَکَلَّمْ ١
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی آیت میں نازل فرمایا تھا ( اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ) جو تمہارے اندر دلوں میں ہے ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالیٰ تم سے اُس کا حساب فرمائیں گے ! !
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٦٣

یہ بات تو ایمان والوں کے لیے بہت ہی شاق ،تشویش اور بے چینی کی تھی کہ ہمارے دل میں جو بات آئے ہمارے ذہن میں جو بات آئے اللہ تعالیٰ اُس بات کا بھی حساب فرمائیں ! ؟ تو اس تکلیف میں مبتلا رہے صحابہ کرام کچھ وقت جب تک اس آیت کی مزید تشریح نہیں ہوئی کہ کیسے ہوگا یہ حساب اور کیسے اس سے بچنا ہوسکتا ہے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ایسی صورت نہیں ہے بلکہ وسوسے جو ذہن میں آتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کو معاف فرمایا ہے ! مَا لَمْ تَعْمَلْ بِہ جب تک اُس پر عمل نہ کرے اَوْ تَتَکَلَّمْ یا وہ زبان سے ادا نہ کرے ! ذہن میں جو چیز آئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہوتی ہو تو اُس پراگر عمل نہیں کیا تو کوئی حساب نہیں ! بلکہ عمل نہ کرنے پر آگے حدیثوں میں دُوسری جگہ آتا ہے کہ ثواب ہے ! ذہن میں بات آئی اور اُس سے رُک گیا تو رُکنے پر ثواب ہے ! اسی طرح سے کوئی بات ذہن میں آئی ہے مگر اُس کو ذہن میں ہی رکھا ظاہر نہیں کیا زبان سے ادا نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں اُس پر بھی کوئی گرفت نہیں !
وسوسوں کے متعلق سوال :
صحابہ کرام نے ایک دفعہ دریافت کیا اِنَّا نَجِدُ فِیْ اَنْفُسِنَا مَا یَتَعَاظَمُ اَحَدُنَا اَنْ یَّتَکَلَّمَ بِہ ہمارے ذہنوں میں بعض دفعہ ایسے خیالات آتے کہ گفتگو اور زبان پر لانا بھی اُن کا ایسا لگتا ہے جیسے بہت بڑا گناہ ہے ،بہت گراں گزرتی ہیں یہ چیزیں ہمیں اس طرح کی ! ! !
حکیمانہ جواب :
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَوَ قَدْ وَجَدْتُّمُوْہُ کیا تم (ایسے خیالات کی وجہ سے اپنے اندر) ایسی تکلیف پاتے ہو ؟ قَالُوْ نَعَمْ اُنہوں نے کہا ایسی بات تو ہے ،اب آپ کہیں گے کہ وسوسے آنے کون سی اچھی بات ہے ! لیکن وسوسے آنے کا مطلب ہے کشا کش شروع ہوئی ہے ! اور کشاکش کا مطلب یہ ہے کہ طاقت ہے تو کشاکش ہو رہی ہے ! ورنہ وسوسہ تو آکر حاوی ہوجائے ! !
ایمانی طاقت ہے جو مدافعت کر رہی ہے اُس سے اور یہ کشاکش ایمان کی وجہ سے ہو رہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ بات پائی جا رہی ہے ؟ ؟ انہوں نے عرض کیا کہ پائی جا رہی ہے ! !
قَالَ ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانْ ١ یہ تو خالص ایمان کی علامت ہے کہ ایمان اُن چیزوں کو جو ناپسند ہیں ایمان کے خلاف ہیں آنے سے روک رہا ہے ! توجو تمہیں محسوس ہوتا ہے اس میں فکر کی کوئی بات نہیں علاج کی بھی ضرورت نہیں ، اپنے کام میں لگے رہو تو وہ وسوسے خود ہی تھک جائیں گے ! ! !
جب یہ فطرت ہوئے تو ان کا علاج ؟
تو یہ انسان کی فطرت ہے خیالات آنے طرح طرح کی باتیں آنی تو اِس فطرت کی چیز سے پریشان نہ ہوں ! ! کیونکہ اگر آپ یہ کہیں کہ یہ خیال نہ لاؤ تو وہ خیال ضرور آئے گا ! !
جتنی دفعہ سوچیں گے کہ یہ بات ذہن میں نہ آئے نہ آئے تو اورآئے گی تب ہی تو نفی کرنی پڑتی ہے نا، توجب یہ خیال جمائو گے کہ یہ خیال نہ آئے تووہ اور زیادہ آئے گا ! ! !
تو اس کا علاج ایک تو یہ ہے کہ خدا کی یاد میں لگ جائو یا کسی دُوسری طرف لگ جاؤ تو وہ خود ہی چلا جائے گا مثلًا اگر آپ کو کوئی چیز پیش آئی ہوئی ہے (جو دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے ) اورپھر کوئی ایسی مصروفیت پیش آجائے جیسے ٹیکنیکل چیزیں ہوتی ہیں کہ فلاں مشین کو دیکھنا ہے بغور دیکھنا ہے تو تمام طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور اِدھر لگ جائے گی توجہ اور وہ جو چیز ذہن میں تھی وہ ہٹ جائے گی ! یا کوئی چیز ذہن میں آئی ہوئی تھی اور حساب میں گڑ بڑ ہورہی ہے میزان درست نہیں ہورہی پھر (جب بغور کرے گا تو) دُوسری دفعہ سب چیزوں کو بھول جائے گا ! تو معلوم ہوا کہ کسی اور طرف لگ جانا علاج ہے اس کا ! ! یہ علاج نہیں ہے کہ اُس کو دفع کرنے کی کوشش کرو ! ! ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اطمینان دلا دیا کہ یہ فکر کی بات ہی نہیں ہے تو صحابہ کرام کی توجہ اُس طرف سے ہٹ گئی ! اور اُن کا یہ علاج بھی ہو گیا ! اور علاج بھی اس میں بتادیا گیا کہ اس کی طرف توجہ کرو ہی مت وسوسے آتے رہیں گے جاتے رہیں گے کوئی فکر کی بات ہی نہیں ! ! !
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٦٤

حاجی عابدصاحب،بانی ٔدارُالعلوم دیوبند :
یہ دیوبند میں حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ تھے ١ مسجد ِ چھتہ اُن کی عبادت گاہ تھی جہاں (دارُالعلوم) دیوبند بعد میں قائم ہوا ،اُنہوں نے ہی حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کو مدعو کیا تھا کہ یہاں مدرسہ بنائیے ! اُنہوں نے ہی دیوبند کی جامع مسجد بنائی اور اُس میں مدرسہ کی جگہ رکھی تھی جہاں اب پھر چلا گیا ہے مدرسہ ایک اختلاف کے بعد ٢ مگر وہ چھوٹی سی جگہ ہے مولانا طیب صاحب رحمة اللہ علیہ کے صاحبزادوں نے وہاں شروع کیا ہے پھر اپنا سلسلہ ٣ اور یہ تو بہت بڑا مدرسہ ہے اوراب اسے اور زیادہ ترقی ہوگئی طلباء دُگنے ہوگئے اور زمین بھی بہت بڑی لے لی ! مسجد بہت بڑی بنارہے ہیں بہت بڑے منصوبے ہیں ،اب تو اس کا خرچ بھی بڑھتے بڑھتے ایک کروڑ دس لاکھ ہے غالبًا فنڈ سالانہ ! ! اوریہ سب مسلمانوں کے اللہ تعالیٰ نے دلوں میں ڈال رکھا ہے ! !
بہر حال اصل بانی جو بنتے ہیں وہ بنتے ہیں حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ، وہ پیر بھائی تھے حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے ،وہی مہتممِ اوّل تھے اُن ہی کی مسجد ِ چھتہ میں مدرسہ شروع ہوا ! ! حضرت (نانوتوی)نے فرمایا کہ میں اپنے بجائے محمود کو بھیج رہا ہوں تو مولوی محمود کو بھیجا انہوں نے جو دیوبند ہی کے رہنے والے تھے وہاں پڑھانا شروع کیا چھتہ ہی کی مسجد میں اور سب سے پہلے پڑھنے والے جو تھے وہ بھی محمود حسن صاحب تھے ، حضرت شیخ الہند اَسیرِ مالٹا ! !
حضرت حاجی صاحب کی کنارہ کشی :
اب اس کے بعد کچھ اختلافات ہوئے ،حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ اُس کے اہتمام سے دست کش ہوگئے ! پھر دوبارہ اُنہیں بلالیا پھر بنالیا مہتمم ! پھر دست کش ہوگئے ! پھر تیبارہ بنالیا مہتمم !
١ حضرت حاجی محمد عابد صاحب اور ہمارے خاندان کے جد ِامجد اوپر جاکر حضرت بندگی سید محمد اسماعیل صاحب
پر ایک ہوجاتے ہیں دونوں خاندانوں کا آبائی وطن دیوبند ہے۔ محمود میاں غفرلہ
٢ ١٤٠٢ھ/ ١٩٨٢ء میں قائم ہوا تھا۔ ٣ ماشاء اللہ اب یہ مدرسہ بھی بہت بڑا بن چکا ہے ٢٠١٣ء میں
''امن عالم کانفرنس'' کے موقع پر احقر دیوبند گیا تو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ محمود میاں غفرلہ

پھر دست کش ہوگئے ! اور پھر الگ ہی رہے وہ ! لیکن رہے اسی جگہ عبادت خانہ اُن کا یہ مسجد ِ چھتہ ہی رہا ! مولانا یعقوب صاحب رحمة اللہ علیہ آگئے صدر مدرس بنائے گئے تو جگہ جو رہی وہ یہی رہی ہے حاجی صاحب کی ! بعد میں جو جگہ خریدی گئی اور وہ بھی یہیں اس سے متصل خریدی گئی وہ بھی حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ کے نام ہی پر ہے۔
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ تو رہے ہیں میرٹھ میں مطبع ١ میں اور اُنہوں نے فرمایا کہ میں انہیں بھیج رہاہوں اور میں خود اس کے لیے مالی کوشش کرتا رہوں گا طالب علموں کے لیے، آخری سالوں میں دو سال تشریف لائے ہیں لیکن نہ تو دارُالعلوم کے باقاعدہ مدرس رہے ہیں اور نہ وہاں کے شیخ الحدیث رہے ہیں نہ مہتمم رہے ہیں (البتہ) سر پرست رہے ہیں ! ! !
حضرت نانوتوی کا فیض اور قبولیت :
اب خدا کی شان کہ اُن سے پڑھنے والے میرٹھ جا کر پڑھتے رہے اور اُن کا فیض اتنا چلا اتنا چلا کہ معلوم ہوتا ہے کہ دارُالعلوم کے بانی ہی حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ ہیں ! ! !
شیخ الحدیث مولانا یعقوب صاحب نانوتوی :
مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ جب داخل ہوئے دارُالعلوم میں تو شیخ الحدیث مولانا یعقوب صاحب رحمة اللہ علیہ جو حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے خالہ زاد یا پھوپھی زاد بھائی بنتے تھے اور مولانا مملوک علی رحمة اللہ علیہ کے صاحبزادے (تھے)، مولانا مملوک علی صاحب کا نام تو یہاں کورس کی کتابوں میں بھی آتا ہے ان سے مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ نے پڑھا ہے ان کی وفات کے بعد اور لوگ رہے شیخ الحدیث پھر حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ شیخ الحدیث ہوگئے ! تو حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ جب دیوبند آتے تھے تو اُنہوں نے ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ سے ! تو حاجی صاحب کو چونکہ ا ختلاف ہو گیا تھا مدرسہ کا اہتمام چھوڑ دیا تھا یکسو ہوگئے تھے تو(حضرت تھانوی) آتے تو وہیں تھے مسجد ِ چھتہ میں جو متصل تھی مدرسہ سے ،آخری عمر تک
١ پرنٹنگ پریس

وفات تک وہی جگہ رہی اور مولانا یعقوب صاحب رحمة اللہ علیہ تو اُسی مسجد میں ٹھہرے، حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ دیوبند آئے تووہ بھی اُسی مسجد میں ٹھہرے یعنی اُن میں حجرے اس طرح کے بنے کہ اُن میں ایک میں یہ، ایک میں وہ، ایک میں وہ ،گویا کہ ان لوگوں کا عبادت خانہ اور رہنے کی جگہ یہ بنتی رہی پڑھانے کی بھی جگہ بنتی رہی۔
حضرت حاجی صاحب عظیم مربی :
تو مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ ان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں گیا وہاں تو میرا دل چاہا کہ میں اُن سے ملوں ، میں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ سے عرض کیا کہ میں اُن سے ملنے کو جانا چاہتا ہوں کوئی حرج تو نہیں ہے ؟ اُنہوں نے کہانہیں ! جائیں ! کہتے ہیں میں ملا اور ہر دفعہ ملتا رہا کیونکہ حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ بھی حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مکی رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ تھے تو اس نسبت سے ایک تعلق بھی تھا ! وہ کہتے ہیں میں پہلی دفعہ گیا تو ایک شخص نے شکایت کی وسوسوں کی ! وہ اُن سے بیعت ہوگا اور ذکر و اَذکار سیکھ رہا ہوگا اُس نے شکایت کی کہ وسوسے آرہے ہیں تو حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نے اُسے یہ جواب دیا کہ
'' جب تم یہ ذکر کررہے ہو اس میں لگے ہوئے ہو تو(اس کی برکت سے) یہ آ نہیں رہے بلکہ جا رہے ہیں نکل رہے ہیں ! اور پھر تشبیہ دی اُنہوں نے یہ کہ چور جب آتا ہے تو اُس کا پتہ نہیں چلتا کہ کب آیا ! ؟ لیکن جب اُسے پکڑا جاتا ہے یا کھٹکا وَٹکا محسوس ہوتا ہے پھر جب بھاگتا ہے تو نظر آتا ہے ! تویہ جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں تمہیں ! ! ''
مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے اُس میں کہ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت حاجی صاحب بہت اچھے مربی بھی ہیں کہ انسان کو تسلی دے سکیں سمجھا سکیں تربیت دے سکیں ! اور یہ بات بالکل حدیث کے مطابق ہے !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کو فرمایا کہ بس یہ وساوس ہیں اور'' فطرت'' ! جہاں تک تعلق ہے فطرت کا وہ(معاف اور) در گزر ہے۔
اپنی تعریف کرنا ، کروانا :
مجھے ایک خیال آرہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اپنی تعریف نہ سنو ! اور کوئی کسی کے سامنے تعریف کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ تم نے تو اس کی کمر توڑ دی ! یا قَطَعْتَ عُنُقَہ اس کی گردن ہی مار دی تم نے ! تو پسند ہی نہیں فرمایا اور فرمایا کہ جو تعریف کرے اُس کے منہ میں مٹی ڈال دو ! آئندہ تعریف ہی نہ کرے یا ایسی بات کہہ دو یا ترکیب کرو ایسی کہ وہ تعریف تمہارے سامنے تمہاری نہ کیا کرے ! کیونکہ جب تعریف سنو گے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اُس کے شر سے بچ سکے ! خود پسندی آسکتی ہے ! اپنے دماغ میں بڑائی آسکتی ہے ! اور بڑئی اللہ کو ناپسند ہے، تکبر بڑائی یہ ناپسند ہے اور اتنی ناپسند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ میری چادر ہے اَلْکِبْرِیَائُ رِدَآئِیْ ایسے سمجھ لو کہ جیسے کسی کی چادر ہو یہ، توجو اس کو کھینچا تانی کرتا ہے میں اُسے جہنم میں پھینک دُوں گا قَذَفْتُہ فِی النَّارِ ١ او کما قال علیہ السلام ! !
اسی طرح سے یہ بھی فرمایا ہے کہ کوئی آدمی جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اُس کے دل میں ذرا سی بھی بڑائی ہوگی یعنی وہ جنت کا مستحق نہیں ہوگا ۔
نبی علیہ السلام اپنی تعریف پر خوش ہوئے ! وجہ ؟
اوراِدھر یہ ہے کہ تعریف سن کر خوش ہوتے رہے ہیں بعض بزرگوں کا یہ ملے گا، جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی تعریف پر خوش ہوئے ہیں اور ایک صحابی نے وہ قصیدہ پڑھا بَانَتْ سُعَادُ فَقَلْبِی الْیَوْمَ مَتْبُوْلُ اور وہ وہ تھے کہ جنہیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھمکی دلائی تھی وہ پھر آگئے اور اُنہوں نے قصیدہ پڑھا ، قصیدہ میں تعریفی کلمات ہیں :
نُبِّئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ھَدَّدَنِیْ

وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَامُوْلُ
مجھے یہ خبر ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تہدید کی ہے یعنی دھمکی دی ہے لیکن معافی کی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اُمید کی جا سکتی ہے ۔ تو میں آگیا اور
١ مشکوة شریف کتاب الادب رقم الحدیث ٥١١٠
اَنَّ الرَّسُوْلَ لَسَیْف یُسْتَضَآئُ بِہ

مُہَنَّد مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ مَسْلُوْلُ ١
اس طرح کا قصیدہ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور خوش ہو کراُن کو چادر عنایت فرمائی، یہ کیا ہے ؟ اپنی تعریف پر خوش ہونا یہ کون سا حصہ ہے ؟ یہ حصہ وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھا ہے اور جب اللہ نے انسان میں رکھا ہے تو اُتناحصہ تو لازمًا رہے گا اور اُس پر گرفت نہیں ! !
حد بندی ممکن نہیں :
لیکن اس کی حد بندی کرنی یہ نبی کے علاوہ کسی اور کے لیے ممکن نہیں ! لہٰذا صحابیوں کو تو منع کردیا کہ تعریف سنو ہی مت ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں تو اُنہیں اپنی تعریف پر اُتنی ہی خوشی ہوگی جتنی اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھ دی ہے بس ! ! اُس سے اگلا حصہ وہاں خود بخود ہی نہیں ہوگا ! تویہ تکبر نہیں ہوا یہ خود پسندی نہیں ہوئی بلکہ یہ فطرت ہوئی ! کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہ ٢ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صفات پر پیدا کیا یعنی اپنی صفات کے اُوپر پیدا کیا ہے حیات ہے، علم ہے ،ارادہ ہے، قدرت ہے ،سمع ہے، بصر ہے، کلام ہے، سننا، گفتگو کرسکنا ،دیکھ سکنا، ارادہ، طاقت، حیات یہ چیزیں دیں ! تو اللہ تعالیٰ نے اور صفات جو ہیں وہ بھی انسان کو دی ہیں ! اُن کا بھی عکس انسان کے اندر آیا ! تو یہ فطرت میں اُس کے داخل ہوگئیں ! ! جیسے مٹی ہونا فطرت میں داخل ! آگ فطرت میں داخل ! غصہ فطرت میں داخل ! یہ فطری چیزیں ہوگئیں ! اور فطری چیزیں ہوگئیں تو ان میں امتیاز اور حد بندی جو ہے وہ نہیں ہو سکتی بعض چیزوں میں ! اور وہ ایسی ہیں کہ اللہ کو ناپسند ہیں تو انسان کو بالکل روک دیا جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ان چیزوں میں بالکل نہ پڑو ! اورجو ایسے کر تا ہے وہ دوستی نہیں کر رہا وہ دُشمنی کر رہا ہے ! جو تمہاری تعریف کرتا ہے وہ تمہارے ساتھ اچھائی نہیں کر رہا ! اور تم تعریف پر خوش ہو رہے ہوتو اچھا ئی نہیں کر رہے ! !
١ بے شک اللہ کے رسول ایک ایسی تلوار ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور وہ اللہ کی تلواروں میں سے ہندی اور سونتی ہوئی تلوار ہیں ۔ ٢ بخاری شریف کتاب الاستئذان رقم الحدیث ٦٢٢٧
بعض اہلُ اللہ ؟
لیکن ایسے ایسے اکابر اَولیائے کرام گزرے ہیں کہ جن کے بارے میں کوئی تردّد یا دُوسرا لفظ ہے ہی نہیں ، تعریف ہی تعریف کا لفظ ہے اور بلا شبہ وہ اَولیائے کبار میں ہیں لیکن اُن کی تعریف اُن کے متوسلین نے کی ہے، امیر خسرو رحمة اللہ علیہ نے نظام الدین اَولیاء رحمة اللہ علیہ کی تعریف کی ! اور اسی طرح سے جو'' مجذوب'' ہوتے ہیں وہ اپنی تعریف پر خوش ہوتے ہیں ! اور وہ مجذوب ہیں غیر مکلف ہیں مکلف ہی نہیں ، اَولیائے کرام میں ہیں تو یہ کیا حصہ ہے ؟ جب وہ غیر مکلف ہو گیا مجذوب ہے مغلوب الحال ہے اُس پر خدا کی طرف سے کوئی گرفت نہیں رہی لیکن وہ بھی خوش ہوتا ہے اپنی تعریف پر ! تو یہ ہے فطرت جو اللہ نے انسان کے اندر رکھ دی ہے ! وہ اُتنا خوش ہوتا ہے جتنا مواخذہ نہ ہو اللہ کے ہاں ! چونکہ کبھی تعریف کرو گے تو وہ پتھر بھی ماردے گا ! ؟ تواُس کی تعریف یا خوشی کوئی چیز نہیں ! ! لیکن ایسے اولیائے کرام کہ جو ہوش میں رہتے تھے اُن کی تعریف کا کیا ہے ؟ وہ یہی کہنا پڑے گا چونکہ اللہ نے فطرت میں رکھی ہے اور اللہ نے اَنبیائے کرام کو تو'' معصوم'' رکھا ہے !
اَولیائے کرام کو ''محفوظ'' رکھا ہے ! بچاتے ہیں اللہ تعالیٰ کہ وہ اُس حد تک نہ آگے جانے پائیں کہ جس میں گناہ میں ملوث ہونا پڑے ! ! !
اپنی اچھی حالت پر خوشی ؟ ایک صحابی کا واقعہ :
ایک صحابی نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھاایک آدمی آگیا اُس نے مجھے دیکھا میں بڑا خوش ہوا ! تویہ تو میرے دل میں خوشی آگئی غیر کی وجہ سے غیر اللہ کی وجہ سے ! تو میری نماز ہوئی یا نہیں ہوئی ؟ اور کیسی ہوئی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ! ہوگئی کوئی بات نہیں ! اگر کسی آدمی نے تمہیں اچھی حالت میں دیکھ لیا اور تمہیں یہ خیال آگیا کہ اس نے مجھے اچھی حالت میں دیکھ لیا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ! ! !
''دکھاوا'' بری چیز ہے :
اور دُوسری شکل یہ ہے کہ آپ نے دیکھا فلاں آدمی آرہا ہے تو نیت باندھ لی تاکہ مجھے دیکھ لے ! تویہ نیت باندھنا یہ ریا کاری میں داخل ہے ! یہ بالکل غلط ہوجائے گا ! اور ایک یہ کہ آپ نے جب شروع کیا تو وہ نیت تھی ہی نہیں بعد میں اُس نے دیکھ بھی لیا تو الگ بات ہے ! ! !
یہاں ہمارے ہی علماء میں گزرے ہیں وہ بتلاتے تھے کہنے لگے مجھے ذہن میں یہ بڑا شک رہتا تھا کہ میں کہیں جاؤں مہمان ہوں اوروہاں تہجد پڑھوں ! تو لوگ دیکھیں گے ! تو (اپنی اس اُلجھن کو ) کسی سے عرض کیا ! تواُنہوں نے اُن کو ایک جواب دیا کہ وہاں جا کر شروع کرنا تہجد یہ تو غلط ہے ! لیکن اگر تم پہلے سے پڑھنے کے عادی ہو پھر کسی جگہ مہمان ہوجاؤ وہاں اُٹھ کر پڑھ لو تویہ(ریا کاری والی چیز) اُس کے لیے نہیں ہے ،یہ (معمول)پہلے سے چونکہ شروع کر چکے ہو وہ جاری رکھے رہو ! ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اُس میں تخفیف کر لو وہاں زیادہ نہ پڑھو کم کرلو ! تاکہ جو رِیا کاری کا حصہ ہے وہ ذرا سا کٹ جائے اُس میں سے ! لمبی نہ پڑھو مختصر کردو رکعتیں ! ! !
تو اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی ہے ! یہ دین کا اعجاز ہے کہ جو فطرت سے تعلق رکھتی ہو وہ بھی بتائی ! عقائد سے رکھتی ہو وہ بھی بتائی ! اعمال سے رکھتی ہو وہ بھی بتائی ہے ! دین کو جامع بنادیا ہے جو قیامت تک چلتا رہے یہ دین کا اعجازہے ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے کا اور حق ہونے کا
یہ ایک ثبوت ہے کہ ایسی چیزیں اس میں آگئی ہیں کہ جو فطرت کو بھی شامل ہیں ! عقائد کو بھی شامل ہیں ! اعمال کو بھی شامل ہیں ! حکام کو بھی شامل ہیں ! تمام چیزوں کو شامل ہیں ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔ اختتامی دُعا .......................

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.