jamiamadniajadeed

تقدیر'' پراِیمان ''ظاہر ''پر عمل

درس حدیث 278/36 ۔۔۔۔۔ ''تقدیر'' پر اِیمان ''ظاہر ''پر عمل ! وبائی علاقہ سے بھاگو مت اور باہر سے جائو مت ! اولاد کی تربیت والدین پر واجب ہے (1987-12-27)


( نومبر 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''تقدیر'' پر اِیمان ''ظاہر ''پر عمل ! وبائی علاقہ سے بھاگو مت اور باہر سے جائو مت
اولاد کی تربیت والدین پر واجب ہے
( درس نمبر35 کیسٹ نمبر 82-A,B 27 - 12 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جو ہدایات دیں یا تعلیمات دیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ وَاِذَا اَصَابَ النَّاسَ مَوْت اگر لوگوں میں کوئی بیماری ایسی پھیلے کہ جس سے اموات ہونے لگیں وبائی بیماری ہو جس کے نتیجے میں موت ہو جاتی ہو وَاَنْتَ فِیْھِمْ اور تم وہاں ہو فَاثْبُتْ تو وہیں رہو ! دوسری جگہ نہ جائو ! ! حدیث شریف میں اُس آدمی کے لیے بڑا اجر آیا ہے ! کہیں بیماری ہو تو وہاں سے نہ جائے اور ٹھہرا رہے تو اُس پر اجر ہے ! اور اگر بیماری ہو کسی جگہ وہاں جانا چاہے تو منع ہے کہ نہ جائے ! !
طاعون کی بیماری اور مشاورت :
حضرت سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ جارہے تھے شام کے علاقے میں راستے میں معلوم ہوا کہ وہاں طاعون پھیلاہوا ہے ! تو مشورہ کیا،کسی نے کہا وہاں جائیں کسی نے کہا نہ جائیں ! یہ تو ظاہر بات ہے جس کی جہاں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے(موت) مقدر فرمادی ہے آنی تو اُسی طرح ہے ! لیکن ہمیں تعلیمات تو ظاہر پر چلنے کے لیے دی گئی ہیں ! '' مقدر'' تو اِیمان رکھنے کے لیے بتایا گیا ہے ! !
تقدیر کا مطلب :
''تقدیر اِلٰہی'' کا مطلب'' علم اِلٰہی ''ہے کہ اللہ کا علم ناقص نہیں ہے مکمل ہے ! جو آگے کو ہونے والا ہے وہ بھی اُسے پتہ ہے ! تو تقدیر پر اِیمان تو اللہ کے علم پر گویا ایمان ہوا صفت ِ علم پر ! اور اس بات پر کہ علم ناقص نہیں ہے علم کامل ہے اللہ کی ذات کا ! ! !
دوسری چیز ہے ''ظاہر'' ظاہر جوہے ہم اُس کے مکلف ہیں ! تقدیرات کا علم ہمیں نہیں ہے تقدیرات پر ایمان بس بتایا گیاہے ! کہ ایمان رکھو ! اور کرو کیا ؟ کرو یہ جو ظاہر ہے، اسی پر اجر ہے ! اسی پر گرفت ہے ! اسی پر جزا سزا تمام چیزوں کا مدار ہے ! ! ! تو یہاں بتلایا گیا کہ ایسی اگر صورت پیش آجائے اور وہاں تم ہو تو نکلو مت ! ! !
اور دوسری حدیثوں میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب جارہے تھے تو کچھ نے مشورہ دیا کہ وہاں چلیں کیونکہ ہونا جو تقدیر میں ہے وہ ہوگا ہی ! اور کچھ حضرات نے کہا کہ نہ جائیں ! اُنہیں ضرورت تھی اس میں اس بات کی کہ کسی طرح یہ معلوم ہو کہ ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کوئی ہدایت دی ہے ہمیں ؟ کوئی حدیث ہے ایسی ؟ تو حضرت عبدالرحمن اِبن عوف کہیں گئے
ہوئے تھے جیسے کسی بستی میں کام کے لیے چلے جائیں آس پاس چلے جائیں ،واپس آئے تو مشورہ اُن سے کیا گیا کہ یہ بات چل رہی ہے اس میں کیا رائے ہے آپ کی ؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ میری رائے نہیں بلکہ حدیث موجود ہے ! ! میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے دونوں چیزوں کو منع فرمایا ہے ،جہاں بیماری ہو وہاں سے نکلو مت اور جہاں کہیں بیماری ہو اور تم وہاں نہ گئے ہوئے ہو تو وہاں جاؤ مت ! ! !
سائنسی اُصول بھی ''وحی'' کے تابع :
یہ اُصول وحی کے ہی ہیں اللہ کے بتلائے ہوئے ہیں ! آج کے دور میں جو بہت ترقی یافتہ دور ہے روز بروز ترقی کی طرف جارہے ہیں انہوں نے بھی یہی طے کیا ہے ! ڈاکٹروں نے کہ جہاں بیماری ہو وہاں جانا نہ چاہیے اور جو وہاں ہیں اُنہیں نکلنا نہ چاہیے ! ان کے یہاں ''جراثیم'' چلتے ہیں ! ! تو جراثیم اُس کے ساتھ ہوسکتا ہے لگ گئے ہوں ! ؟ وہ کہیں اور جائے تو وہاں بھی بیماری پھیلے گی اس لیے نہیں جانا چاہیے ! اور مدتِ تاثیر کیا ہے جراثیم کی ؟ وہ بھی اُنہوں نے انداز کر لیا وہ ہے سات دن ! تو کہیں بیماری ہو رہی ہو وہاں سے کچھ لوگ آرہے ہوں تو وہ ''قرنطینہ'' ١ کر دیتے ہیں سات دن کا ! ایک ہی جگہ ٹھہرا دیتے ہیں اُن کو محدود علاقہ میں تاکہ اُن میں سے کسی میں اگر جراثیم آئے ہیں تو اُسی تک رہیں آگے نہ پھیلنے پائیں ! اور سب ڈاکٹر بھی یہ کہتے ہیں توعقلاً بھی ایسے ہوا ! ؟
لیکن اُن حضرات کی آخرت پہ نظر تھی اور تقدیر پر ایمان تھا بہت زیادہ ! ! تو انہیں تشفی نہیں ہورہی تھی جب تک حدیث شریف نہ مل جائے ! اور حدیث میں مل گیا یہ کہ جہاں بیماری ہو وہاں تم مت جاؤ ! ! تو اب بھی یہی ہے جو لوگ جاتے ہیں جو ڈاکٹر جاتے ہیں پوری احتیاط سے جاتے ہیں علاج کے لیے بھی پہنچتے ہیں امداد کے لیے بھی پہنچتے ہیں اپنے انجکشن لگاتے ہیں یا جو بھی تدابیر ہوتی ہیں وہ پوری کرتے ہیں محتاط رہتے ہیں ! کھانے پینے کی احتیاطیں کرتے ہیں !
بعضی بیماریاں ایسی ہیں جن کے جراثیم کسی خاص ذریعہ ہی سے پہنچ سکتے ہیں ویسے نہیں پہنچ سکتے ! کالرے (Cholera)کے جراثیم یہ کھانے پینے کی چیزوں سے ہی پہنچ سکتے ہیں ! پانی پکا ہوا پیے ! اور کھانے میں یہ ہے کہ کھانا گرم کر کے کھائے جوش دے کر کھائے ! بغیر اس کے جراثیم داخل نہیں ہوسکتے جسم میں ! تو اگر کوئی آدمی ایسی جگہ پہنچے اور وہاں یہ احتیاط کر لے کہ پکا ہوا پانی اورپکی ہوئی غذا اور گرم کر کے اور جوش دے کے اس طرح سے احتیاط کرے تو وہ ٹھیک رہے گا ! ہو سکتا ہے وہ وہاں کی آب و ہوا سے(یا اپنے) قلبی ضعف کی وجہ سے متاثر ہو تو ہو ! بیماریوں سے وہ نہیں ہوگا اُس بیماری سے وہ بچ جائے گا !
اخلاقی ضرورت :
پھر یہ ہے کہ جہاں وہ لوگ رہتے ہیں اگر وہاں معاذاللہ ایسی بیماری ہو اور سب بھاگنے لگیں تو جو مرے ہوئے ہیں یا جو بیمار ہیں اُن کی تیمارداری کون کرے گا ! ؟ اخلاقًا بھی ایسی چیز ہے
١ Quarantine وہ میعاد جس میں مسافروں یا وباء زدہ علاقہ کے بیماروں کو جبرًا سب سے علیحدہ رکھا جاتا ہے تاکہ مرض پھیلنے نہ پائے۔
انسانیت کے لحاظ سے بھی ایسی چیزہے ! اور ڈاکٹری لحاظ سے یہ ہے کہ کچھ لوگ متاثر ہوں گے ! کچھ نیم متاثر ہوں گے ! اور کچھ برداشت کرجائیں گے تو اُن میں خود ہی وہ جراثیم داخل ہوجائیں گے اور برداشت بھی ہوجائے گی ! بدن دفاع بھی کرلے گا اور وہ ٹھیک ٹھاک رہیں گے ! ! ؟
بصرہ میں وبائی حملہ :
تو ایسے ہوا ہے سن ١٣٠ھ میں غالبًا یعنی تاریخ میں وہ موجود ہے کسی سال میں بصرہ میں طاعون ہوا اور اتنی اموات ہوئیں کہ لوگ رہے ہی نہیں گھر میں ! خالی ہوگئے ! تو باہر سے دفن کرنے والے نہیں ملتے تھے کہ اتنے انتظام کرلیں ! ! تو کنڈی لگا دیتے تھے اور پھر موقع ملتا تھا آکر نہلا دُھلا کے دفن کر دیتے تھے ! اوریہ اتنا بڑھا کہ پھر لوگوں نے یہ کیا کہ ایک کمرے میں بند کر کے یا دروازہ بند کرکے گھر کا اور اُس کے آگے چُن دیتے تھے (دیوار) ! کیونکہ نہ آسکتے ہیں ! نہ دفن کر سکتے ہیں ! نہ کچھ کر سکتے ہیں ! تاریخ میں لکھا ہے کہ بہت بڑی تعداد ستر ہزار کے قریب اُس میں شہید ہوگئی ! ان سب کو شہادت کا اجر ملتا ہے جو مسلمان بھی اس میں گئے ہیں وہ سب کے سب ہی شہید ہوئے ہیں ! گویا اتنا بھی موقع نہیں ملا اُنہیں ! انتظام ہی نہیں وہ کر سکے ! مگر رہے ہیں وہ موجود ! تب ہی تو یہ ہوا ہے اور اگر سارے کے سارے نکل جاتے پھر کیا ہوتا ؟ اور پتہ نہیں کہاں کہاں پہنچتا یہ مرض ! ؟ وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں فراغت ہوئی کچھ بیماری ختم ہوئی تو پھر اُن لوگوں کو جن کو اس طرح سے بند کیا تھا چُن دیا تھا اُن کے دروازوں کے آگے، ہم لوگ گئے داخل ہوئے اُن کی تدفین کا انتظام کیا کسی نہ کسی طرح جیسے بھی مناسب ہوا ہوگا ! تو اِس میں کافی وقت لگ گیا، اب کتنا ؟ یہ نہیں بتایا مہینہ لگا، دو لگے، ڈیڑھ لگا بہرحال سرکاری لوگ بھی ہوں گے پبلک کے لوگ بھی ہوں گے سب ہی اِس کام پر لگے ہوں گے !
جسے خدا رکھے اُسے کون چکھے !
کہتے ہیں ایک جگہ دروازہ کسی طرح ہم توڑ کر داخل ہوئے تو دیکھا ایک بچہ ہے ! کہنے لگے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آیاکہ یہ بچہ کیسے زندہ ہے ؟ ؟ باقی سب ختم ہوچکے تھے اور وہ زندہ ہے ! ! تو کہنے لگے ابھی ہم اسی میں تھے کہ ایک کتیا داخل ہوئی ! وہ بھی اُس کتیاکی طرف گیا وہ بھی اُس کی طرف گئی اور اُس نے دُودھ پلایا ! ! ؟ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اُس کی زندگی تھی ! سب مرگئے وہ رہ گیا ! غذا کا کیا ہو ! ؟ اللہ تعالیٰ نے وہ بھیج دیا ! ! اللہ کے لیے کوئی بات ہی نہیں ! انسان کے لیے نہایت تعجب کی بات ہے کہ کوئی بچ جائے اس طرح سے ! ؟ کوئی دیکھنے بھالنے والا نہیں ہے کوئی خدمت کرنے والا نہیں وہ کتیا ہی اُسے چاٹ چاٹ کے صاف کرتی تھی وہ ٹھیک ٹھاک رہتا تھا ! ! ! اور غذا ؟ غذا کے لیے اللہ نے اُس کتیاکے دل میں ڈال دیا کہ جاؤ ! ! ورنہ کتیا اور انسان کا دُودھ پلانے کا جوڑ تو نہیں ہے ! مگر اس(کتیا) کے دل میں خدا نے یہ ڈال دیا ! اور اُس کے دل میں خدا نے وہ ڈال دیا ! اس طرح وہ بچہ مل گیا اُن کو ! اُس سال کے عجائبات میں حافظ ابن ِکثیر رحمة اللہ علیہ نے اَلبدایہ والنہایہ میں یہ واقعہ بھی دیا ہے !
یہ کام ثواب کیسے بن سکتا ہے ؟
حدیث شریف کی تعلیم یہ ہے اور یہ تعلیم آج کی جدید ترین معلومات کے مطابق ہے کہ نہ وہاں جائے نہ وہاں سے نکلے ! ! اب یہ تو ہوئی مادّی چیز اس کو ثواب کیسے بنائے گا ؟ ؟ کیونکہ شریعت نے تو، آپ سودا لیتے ہیں خریدتے ہیں بیچتے ہیں گھر سے باہر نکلتے ہیں کام کاج کے لیے جاتے ہیں اُس سب کو عبادت بنایا ہے ! تو عبادت اس طرح بنے گا کہ نیت ہو ! نیت تویہ ہو کہ مذہب پر عمل کرنا ہے اللہ نے جو حقوق بتائے ہیں ! وہ ادا کرنے ہیں ! تو اب اسلام نے تو آخرت اور اجر پر نیت رکھنی بتائی ہے ! تم کوئی کام اپنی ذات کے لیے کرو ہی نہ توسارے کام عبادت بن جائیں گے ! وَحَتَّی الُّقْمَةَ تَجْعَلُھَا فِیْ فِی امْرَأَتِکَ ١ کسی کی بیوی بیمار ہو تو اُسے کھلائے پلائے اُس کے منہ میں لقمہ ڈالے اُس کو غذا دے پانی پلادے کوئی خدمت کرے وہ بھی عبادت ہے ! وہ بھی حَسنات میں داخل ہے ! حالانکہ یہ انسانی خدمت ہے ! یہ کوئی کھڑے ہو کر خدا کے سامنے عبادت کرنے کے طرز کی عبادت نہیں ہے ! یہ معاملات کے اندر داخل ہے ! تو ایک یہ کہ ہسپتال میں لے جائو داخل کردو ! ایک یہ کہ خود خدمت کرو ! تو دونوں میں فرق ہو گیا جو لوگ خود خدمت کر رہے ہیں
١ بخاری کتاب مناقب الانصار رقم الحدیث ٣٩٣٦

وہ مایوس نہ ہوں ! اور اگر بوجھ سمجھ کر ہسپتال داخل کرتے ہیں تو یہ نہ کریں ! بلکہ ثواب سمجھ کے خدمت کریں ! ایسے ہوتے ہیں بڑھاپے میں بیچارے کسی کام کے نہیں رہتے ! بس زندہ ہیں ! اور لیٹے ہوئے ہیں ! بالکل معذورہوش بھی نہیں جیسے سو رہے ہوں بیہوش ہیں ! مہینوں کیا برسوں اس حالت میں رہتے ہیں ! اب اُس میں یا تو ہسپتال لے جا کے داخل کردو اُسے اور یا خود خدمت کرلو ! ضرورت پڑے ہسپتال لے جاؤ پھر خود خدمت کرلو ! دونوں میں سے کوئی صورت کر لے آدمی تو اس میں جو خدمت کریں گے اُنہیں ثواب ہے ،اور توجہ نہیں جاتی انسان کی کہ اس میں ثواب ہوگا، کوئی آدمی اپنی بیوی کی خدمت کرے بچے کی خدمت کرے اُس میں ثواب ہو ادھر توجہ نہیں جاتی انسان کی ! لیکن ایسا نہیں ہے شریعت نے بتلایا کہ نہیں وہ بھی ثواب ہے، نیت اس میں یہ کہ خدا راضی ہو ! ! !
اور(میرے پاس) بعض لوگوں کے حالات آتے ہیں ! خطوط آتے ہیں ! بہت عجیب حالات اور بڑی برداشت ہے اُن میں ! دماغ ہی خراب ہے بیوی کا اور اُس کا وہ علاج اور اُس کی تمام تکالیف وہ برداشت کر رہا ہے ؟ ! تو یہ خدا کی طرف سے ہے کہ بہت بڑا کام ہے ! ! بڑا مشکل مسئلہ ہے ! ماں باپ کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہوجاتا ہے ! اُن کو برداشت کرنا بڑا مشکل مسئلہ ہے ! لیکن بہت بڑا ثواب ہے خداکی رضا حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ! ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تو تعلیم فرمائی کہ وہاں رہو، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ وہاں عَمْواس ١ میں تھے اور ان کی وفات اُسی طاعون میں ہوئی ہے ! تو یہ جیسے ان کے لیے تو خاص حدیث ہو کہ تمہارے ساتھ یہ بات ہونے والی ہے تو یہ کرنا ! یہ بات ان کے لیے( نبی علیہ السلام کے) معجزات میں سے بھی بن گئی ! ! !
مہربانی بھی رُعب بھی :
ارشاد فرمایا وَاَنْفِقْ عَلٰی عِیَالِکَ مِنْ طَوْلِکَ وَلَا تَرْفَعْ عَنْھُمْ عَصَاکَ اَدَبًا جتنی تمہاری طاقت ہے اپنے گھر والوں پر خرچ کرو ! اور خرچ کرو گے تو وہ لاڈ میں آجائیں گے ! وہ خراب ہوجائیں گے !
١ شام کی طرف ایک علاقہ کانا م

وہ بگڑ جائیں گے ! تو وہ بھی منع فرمادیا کہ یہ جو تادیب ہے تہذیب سکھانی ہے اس کے لیے جس چھڑی کی جس لاٹھی کی ضرورت پڑتی ہے (وہ بھی ہاتھ میں اُٹھائے رکھے) .....................................
اگر ہم دیں گے(خرچ) تو خراب ہوں گے تو دینا ہی بند کردو یہ بھی غلط ہے ........ نہیں ،خرچ بھی کرو ! اور تادیب تہذیب سکھانی ادب سکھانا اخلاق بتانے یہ بھی فرض ہے ! اور اس کے لیے جس سختی کی ضرورت ہے وہ جاری رکھو ! یہ نہیں ہے کہ تم اُن کے سامنے بالکل رِیشہ خطمی ١ بن جاؤ ! تم اُن کے بڑے ہو تو بڑاپن جو ہے وہ قائم رکھواُن کے لیے ! ورنہ وہ غلط ہوجائیں گے ..... ................... . لَا تَرْفَعْ عَنْھُمْ عَصَاکَ اَدَبًا اُن کے اُوپر سے اپنی لاٹھی نہ اُٹھاؤ ! جو تہذیب سکھانے والی لاٹھی ہے وہ اُن کے اُوپر رہنی چاہیے تمہاری طرف سے ! ! !
اولاد کے لیے بہترین تحفہ :
حدیث شریف میں دوسری جگہ آتا ہے کہ ماں باپ کا اولاد کے لیے اس سے اچھا کوئی تحفہ نہیں ہے کہ وہ اُنہیں تہذیب سکھائے ! ادب سکھادے ادبِ حسن ! عمدہ ادب سکھادے کہ ایسے نہیں ایسے ! بڑوں کے سرہانے نہ بیٹھو ! پائینتی بیٹھو ! تمیز ہی نہیں ہوتی بڑابیٹھاہے، اِدھر سرہانے بیٹھ جائیں گے ؟ ! بالکل تمیز نہیں کریں گے ! ؟ باپ اِدھر بیٹھا ہے بیٹا سرہانے بیٹھ جائے گا بالکل تہذیب نہیں ! اُنہیں بتادیا جائے کہ یہ غلط ہے یہ بد تہذیبی ہے ! تو پھر وہ اس کے عادی ہوجائیں گے ! ! !
اوربڑوں کے سامنے بیٹھیں گے اور ٹیک لگا کے بیٹھ جائیں گے بڑے آرام سے ! ؟ جیسے بڑے آدمی ہیں ؟ تو اُنہیں بتایا جائے کہ ایسے نہیں بیٹھا کرتے اس کے بجائے اس طرح بیٹھو ! تو یہ تمام چیزیں جو ہیں نشست وبرخاست تک کی یہ سب کی سب اجرمیں داخل ہوجاتی ہیں ! ! !
ادب سکھانا واجب ہے :
اور سکھانا ان کا وہ واجبات میں سے ہوگیا کہ ہر بڑا چھوٹے کو بھی سکھائے ! اگر نہیں سکھائے گا تو آگے کیسے چلے گا سلسلہ ؟ ما ں باپ کا سکھانا جو ہے وہ بالکل اور انداز کا ہوگا ! تواس لیے اُن کے لیے فرما دیا کہ لاٹھی رکھو اُن کے اُوپرقائم ! ! !
١ ایک دواکا نام ہے، کنایةً بہت ہنسنے والے کو بھی کہتے ہیں ۔

دل میں اللہ کا خوف بٹھائو :
ارشاد فرمایا وَاَخِفْہُمْ فِی اللّٰہِ ١ یہ جو بچے ہیں یا اولاد ہے خدا کا خوف ان کے دل میں بٹھاتے رہو ! اللہ کی ذات کے بارے میں ان کے دل میں خوف بٹھاتے رہو کہ یہ اللہ کاحکم ہے یہ اللہ کا حق ہے یہ اس طرح سے ہے ! فلاں بارے میں اللہ کا حکم یہ ہے اُس کی نافرمانی نہیں کرنی ! یہ (ڈر)جتنا ہوسکے بٹھاتے رہو اور اس سے فائدہ ہوتا ہے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے، فائدہ نہ ہونے کی تو بات ہی کوئی نہیں ! اس واسطے کہ دین توچلنا ہی ہے یہ تو نہیں ہے کہ اور اُمتوں کی طرح یہ دین ختم ہوجائے ! چلنا ہے تو اس کا مطلب ہے تاثیر بھی چلنی ہے ! قبولیت بھی چلنی ہے ! اور لوگ مانیں گے بھی ! ہاں بعضے ایسے ہیں جن میں نہیں ہوتی صلاحیت وہ ماں باپ کے لیے ایک آزمائش بن جاتے ہیں ! سمجھائیں بھی ماں باپ ،نہیں سمجھ میں آتی بات ! تو اُس میں ماں باپ معذور ہیں ! اُس وقت تک(ماں باپ) مکلف ہیں جب تک وہ مکلف خود نہ بنیں ! !
نفسیاتی اصطلاحات :
اور نئی قسمیں انہوں نے نکالی ہیں نفسیات والوں نے ''مدرٹارچر'' اور فلاں ٹارچر یعنی ایک مزاج ہوتاہے کہ ایسا کام کیا جائے جس سے تکلیف پہنچے ماں کو یا باپ کو ! ایک بیماری اُنہوں نے تشخیص کی نفسیاتی علاج کرنے والوں نے ! بہرحال جو بھی کچھ کیا ہے جوبھی چیزیں ہیں وہ پھر الگ بات ہے ! مگر جب وہ بالغ ہوگیا خود مختار ہوگیا آپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تو آپ کو اپنا اجرمل گیا ! اُس کا نااہل ہونایہ اُس کے ساتھ ! ممکن ہے کسی وقت بعد میں اُس کی بھی اصلاح ہوجائے ؟ ٹھوکر لگتی ہے ! سنے ہوئے ہوتا ہے تو فائدہ ہوجاتا ہے ! تو اُس (ٹھوکر سے)سے وہ تمام چیزیں یاد آتی جاتی ہیں اور وہ خود بخود بدلتا چلا جاتا ہے ! فائدے سے خالی وہ بہرحال نہیں ہے !
تو اللہ تعالیٰ نے ہم تک دین اور دُنیا اور یہ ہی نہیں بلکہ آداب اور تمام چیزیں جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچائیں ! اور صحابہ کرام نے یاد رکھیں عمل کیا اور ہم تک پہنچائیں ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق نصیب فرمائے اپنی مرضیات پر چلائے ،اپنی رضا اور فضل سے نوازے ،آمین۔ اختتامی دُعا .....................

١ مشکوة کتاب الایمان رقم الحدیث ٦١

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.