jamiamadniajadeed

قرآن کی تفسیر حدیث ہی سے کی جاسکتی ہے

درس حدیث 276/34 ۔۔۔۔۔ قرآن کی تفسیر حدیث ہی سے کی جاسکتی ہے ڈکشنری سے نہیں !گناہ کے کام میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی ! ''سٹھیا''جانے سے پناہ چاہے،لمبی عمر سے نہیں !نیت ٹھیک ہو تو ہر کام عبادت بن جاتا ہے ! (1987-12-13)


( ستمبر 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
قرآن کی تفسیر حدیث ہی سے کی جاسکتی ہے ڈکشنری سے نہیں !
گناہ کے کام میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی !
''سٹھیا''جانے سے پناہ چاہے،لمبی عمر سے نہیں !
نیت ٹھیک ہو تو ہر کام عبادت بن جاتا ہے !
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر33 کیسٹ نمبر81-B 13 - 12 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے آدابِ معاشرت سکھائے اور اُن کو فرض کردیا ضروری بتادیا ! ہیں رہن سہن کے، تعلقات کے، رشتہ داری کے لیکن اُنہیں ضروری اور واجب قرار دے دیا اور اُن کو عبادت بنا دیا ! آپ نے نہیں بنایا اللہ نے بنایا ہے ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ! !
بنایا خدا نے ہے بتایا آپ نے ہے ! تو اُس میں یہ چیزیں آتی ہیں کہ والدین کی نافرمانی درست نہیں ! اور عقوق یعنی نافرمانی کسے کہتے ہیں ؟ نافرمانی کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور بندے دونوں کے خلاف ہو ! اگر بات صرف ماں کی یا باپ کی ہے تو دیکھا جائے گا جائز ہے یا جائز نہیں ، حد ِ جواز میں ہے تو بھی واجب ہے ماننی ! اور اگر حد ِ جواز میں بھی نہیں ہے، شریعت کی تعلیم اُس کے خلاف ہے اور فقہا کا فتوی اُس کے خلاف ہے تو پھر نہیں ہے ماننی ! ایسے ہی جو شریعت کے خلاف بات ہو جس کی وہ تاکید کرتے ہیں وہ بھی نہیں ماننی ! جب نہیں ماننی تو خفاہوں گے پھرکیا کرے ؟ تو یہ کر ے کہ خفا اُنہیں نہ ہونے دے جہاں تک ہو سکے کوئی اور طریقے اختیار کرے، بہت طریقے ہیں جن سے ایک انسان ایک طرح نہیں منتا تو دُوسری طرح منتا ہے بالواسطہ من جاتا ہے کوئی اور ذرائع ہوں اُن سے مان جاتا ہے اور جس طرح سے بہلا دیا جاتا ہے بہلانے کی کوشش کرے ! اچھا بہلانے میں تو آتے ہیں بہت بوڑھے ہوگئے ہوں تو ! سمجھ نے کام ہی چھوڑ دیا اُن کی اور ایسے بوڑھاپے سے تو پناہ مانگی گئی ہے ! اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے کہ جس میں انسان کی سمجھ کام چھوڑدے اس کا نام ہے ھَرَمْ ! اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَرَمِ آیا ہے حدیث شریف میں ، ایسے بوڑھاپے سے پناہ مانگی گئی ہے اور یہ بھی آیا مِنْ اَنْ اُرَدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ ١ عمر کے بدترین حصے تک مجھے پہنچائے(اس سے پناہ چاہتا ہوں )۔ عمر بڑی لمبی لمبی ہوجاتی ہے صحابہ کرام کی بڑی لمبی عمریں ہوئی ہیں دو ڈھائی سو سال کم اَز کم حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی ہے ورنہ اس سے بھی زیادہ تین سو چار سو پانچ سو مختلف اقوال ہیں بہت بڑی عمر پائی ،ڈھائی اور تین سو تو پائی ہی پائی ہے لیکن اسلام لانے کے بعد عمر کا آخری حصہ ساٹھ سال اسلام میں گزارے ہیں اُنہوں نے، حسان اِبن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ ساٹھ سال کے تھے جب مسلمان ہوئے اور ساٹھ سال اسلام میں گزارے،
اس طرح کے واقعات ہیں یہ لیکن اَرْذَلِ الْعُمُرِ کا حصہ نہیں آیا اَرْذَلِ الْعُمُرِ جو ہے پناہ اُس سے مانگی گئی ہے لمبی عمر سے نہیں مانگی گئی !
اگر اعمال اچھے ہوں تو لمبی عمر مبارک ہے :
بلکہ لمبی عمر کو تو فرمایا کہ طُوْبٰی لِمَنْ طَالَ عُمْرُہ وَحَسُنَ عَمَلُہ ٢ وہ آدمی بڑا خوش قسمت ہے کہ عمر لمبی عمل اچھے ! گویا عمر لمبی اور عمل اچھے ہوں تو کوئی بات نہیں ! مگر یہ کہ عمر میں ایسا حصہ آجائے ( لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا ) ٣ اس سے پناہ مانگی گئی ہے مِنْ اَنْ اُرَدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ
١ بخاری شریف کتاب الدعوات رقم الحدیث ٦٣٧٤
٢ مشکوة شریف کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٢٧٠ ٣ سُورة الحج : ٥

تو وہ بہلانے کا معاملہ جو ہے وہ اُس وقت ہوتا ہے جو عمر(میں اس حالت ) کو پہنچ گئے تو آدمی اُن کو ڈانٹ ڈپٹ کرے ذلیل سمجھے اُن کی خدمت نہ کرے صفائی کا خیال نہ رکھے ، یہ بہت بڑا گناہ ہے ! بلکہ یہ کہ جس نے ایسا وقت پایا اور بخشش خدا سے نہ کرا سکا اپنی تو وہ تو بڑا بد نصیب شمار کیا گیا ہے ! یہ وقت توایسا ہے کہ اُن کی خدمت ہی کی جائے ! اور وہ ایک ہی چیز کو کئی کئی دفعہ کہتے ہیں ! کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ ! اور ابھی آپ سے کہا میرے لیے چائے بنا کے لاؤ اور آپ لائے بناکے اور وہ سو بھی گئے ! بیٹھے بیٹھے سو جاتے ہیں ! تو پھر لٹادو اُنہیں آرام کرادو ! پھر گرم کر کے دے دو چائے ! پوچھ لو اُن سے ! یہ کہنا کہ یہ تو ناک میں دم کر رکھا ہے ! ابھی تو اتنی دفعہ جھک جھک کر رہے تھے کہ چائے بنا کے ،لاکے دو کام چھوڑ دو ! میری کوئی خدمت نہیں کرتا میرا خیال نہیں کرتا ! بنا کے لایاہوں بیٹھے بیٹھے سو رہے ہیں ! اس طرح کی باتیں کرنی عظیم گناہ ہے ! اور اس طرح کی باتوں کو برداشت کر لینا بہت بڑا ثواب ہے ! بڑی خوش نصیبی ہے اُس آدمی کی جو ایسی چیزوں کو برداشت کرلے اور بہت بڑی بات ہے ! ! بڑھاپا ہے کھانسی ہوگئی ! حقہ بھی پیتے ہیں ! بے چینی ہوتی ہے دوسرے کمرے میں جگہ بھی ہر ایک کو تومیسر نہیں اتنی کہ الگ الگ بیڈ روم ہوں ! تو اُن کی کھانسی سے اُن کے حقہ سے تنگ آنا بالکل غلط بات ہے ! یہ چیزیں منع ہیں ! اور یہ چیزیں گناہ ہیں ! اور ایسی حالت میں جب دماغی توازن پر اَثر پڑجائے تو بہلانا جائز ہے ! ! !
اور اس(حالت) سے پہلے جو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ یہ نہیں ہوتا کہ ماں باپ سمجھ نہیں رہے کہ یہ ہمیں چکر دے رہا ہے ! بہلا رہا ہے ! چکر دینے کا تو برا مانتے ہیں ! بہلانا کہ یہ ہمیں بہلا رہا ہے ؟ اس نے فلاں بات چھپائی ہے تووہ جان بوجھ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں ! آخر وہ بھی توماں اور باپ ہی ہیں نہ ؟ ! جب وہ سمجھیں گے کہ اس نے ایسی(غلط) چیز کی ہے اوراس طرح سے (اب) یہ یوں یوں باتیں بنا رہا ہے تو پھر اُن کی شفقت کا تقاضا یہ ہوگا کہ اُن کی خفگی ختم ہوجائے گی ! اسے آپ سمجھیں گے لڑکا سمجھے گا کہ میں نے بہلادیا ! یا میں ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہوگیا ! ؟ اور بڑے سمجھیں گے کہ چلو چھوڑو، جب یہ اس طرح سے پچھتا رہا ہے ! یا مان گیاہے غلطی ! یا احساس ہو گیا ہے اسے فلاں چیز کا تو چھوڑو اسے ! ! تو یہ ہیں رہن سہن کی چیزیں ! ! !
ہر عمل نیکی بن سکتا ہے :
سمجھ میں نہیں آتا کہ (ان چیزوں سے) خدا کی رضا کا کیا تعلق ہے ؟ ! لیکن اسلام نے بتایا کہ جس وقت انسان بالغ ہوجاتا ہے جب تک مرتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اُس ہرکام میں نیت کی جاسکتی ہے اور نیکی بن سکتا ہے ہر کام ! یہ نہیں ہے کہ وضو کرو گے نماز پڑھو گے تو نیکی شمار ہوگی ورنہ نہیں ! یہ بات نہیں ہے ! اسلام نے بتایا کہ تمام عمل نیکی بن جاتے ہیں ! ایک دُکاندار ہے تجارت کرتا ہے دیانتداری سے کرتا ہے ،منشا اُس کا یہ ہے کہ میری تجارت بھی چلے ! محلے والوں کو فائدہ بھی پہنچے ! ضرورت مندوں کو ضرورت کی چیز یہیں کے یہیں مِل جائے تو اُسے ثواب ہے ! اور اگر وہ نیت یہ کرتا ہے کہ میں یہاں محلہ میں بیٹھا ہوں جو بیچارہ ایسا ہوگا کہ جا نہیں سکے گا بیوہ عورت ہے ! فلاں ہے اُس کے بچے ہیں ! چھوٹے سے ہیں کہاں جائیں گے ! وہ میرے پاس ہی آئیں گے ! میں اُن سے جو چاہوں گا لیتا رہوں گا پیسے وصول کرتا رہوں گا ! ایک یہ نیت ہوگئی ! اب کی تو ہے دُکان محلہ میں اُس نے، ایسی جگہ کی ہے جہاں ضرورت ہے اور وہ ضرورت سے ناجائز فائدے بھی اُٹھا سکتا ہے اور اپنی ضرورت کو کنٹرول رکھتے ہوئے یہ تو نہیں کہ نفع پروہ نہیں دے گا ،دے گا تو نفع ہی پر لیکن ضبط کرتے ہوئے بہتر چیز مہیا کرے اور وہ دے تو یہ تاجر صدوق امین ہوگیا ! تاجر بھی ہوگیا ! سچا بھی ہوگیا ! امانت دار بھی ہوگیا ! تو اس کے مال میں بھی برکت ہے ! اور اس کی تجارت عبادت ہے ! ! !
حضرت جنید کا قصہ :
میں نے سنایا ہوگا شایدپہلے بھی حضرت جنید ِ بغدادی رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے کہ اُنہوں نے حج کے دن عرفات میں جس دن حج ہوتا ہے اور وہ وقت ذوالحجہ کی نو تاریخ کو زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے مغرب تک، لیکن شرعًا وقت پھر بھی ہے فجر تک اگر فرض کریں کہ گاڑی پنکچر ہوگئی نہیں پہنچ سکا ،کوئی اور چیز ہوگئی اوروہ لیٹ پہنچ سکا ہے مغرب میں پہنچا ہے عشاء میں پہنچا ہے تو وہاں (عرفات میں ) چکر لگاآئے تو حج مِل گیا اُسے فجر سے پہلے پہلے ! ورنہ خدا نخواستہ اگر فجر ہوگئی اور نہیں پہنچ سکا اُس میدان میں تو حج گیا ! تو اُس میدان میں وہ دیکھتے رہے کہ ایک آدمی کاروبار کررہا ہے بظاہر ! لیکن اُس کا دل غافل نہیں ہے ؟ ! دل سے ہوجاتی ہے اللہ اللہ کرنے کی(عادت اور ہمیشگی) جیسے آپ یہاں (خانقاہ میں )چند منٹ کرتے ہیں تو اس عادت کو بڑھا لیا جائے تو بڑھتے بڑھتے وہ پھر پکی عادت بن جاتی ہے ! پھر آپ نماز پڑھتے ہوں گے توذکر جاری رہے گا ! تلاوت کرتے ہوں گے ذکر جاری رہے گا ! باتیں کرتے ہوں گے ذکر جاری رہے گا ! یعنی خدا کی یاد جاری رہے گی ! اُنہوں نے دیکھا کہ اس کو غفلت ہی نہیں ہے ! کر رہا ہے کاروبار مگر خدا کی یاد سے غفلت بالکل نہیں ہوئی اسے صبح سے شام تک جو وقت تھا اُس کا منٰی میں یا وہاں عرفات میں ! ! !
اور ایک فقیر کو دیکھا وہ مانگتا پھر رہا ہے ! اور خدا ہی کا نام لے کر مانگ رہا تھا ! مانگتے تو اللہ ہی کے نام پر ہیں ! ویسے حسین کے نام پر بھی مانگ لیتے ہیں اور بھی کر لیتے ہیں ! بہرحال یہ تو ایک جہالت ہے ناواقفیت ہے مسائل کا پتہ نہیں ! تو وہ خدا کے نام پہ مانگ رہا تھا اور دل میں اُس کے دُنیا ہی دُنیا تھی کہ یہ کیا دے رہا ہے ؟ وہ کیا دے رہا ہے ؟ اور کتنے ہوگئے ؟ تو اُنہوں نے یہ اظہار فرمایا اپنے کسی ہمراہی سے کہ دو آدمی عجیب میں نے دیکھے ! ایک یہ جو نام خدا کا لے رہا تھا اور دل غافل تھا ! اور ایک وہ کہ جو کاروبار میں لگا ہوا تھا مگر دل خدا کی طرف ! اب یہ اتنی چیزیں اور ایسی آسان آسان چیزیں اور ان ہی پر بخشش ہوجاتی ہے ! تو انسان اپنی عقل سے نہیں پہچان سکتا تھا اس بات کو ! عقل میں تو یہی آتا ہے کہ عبادت تو یہ ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھے تو ہوئی عبادت ! ورنہ کیا عبادت ؟ نماز پڑھی تو عبادت ! ورنہ کیا عبادت ؟ صرف ان عبادات کو سمجھتا ہے عبادت ! یہ انسان کی اپنی غلط فہمی ہے بلکہ ہر چیز عبادت ہے جب سے بالغ ہوا ہے جب تک زندہ ہے جو کام کرے گا وہ عبادت میں داخل ہوسکتا ہے ! بس نیت کرنی پڑے گی خداکی رضا کی ! توہر جائز کام عبادت بنتا چلا جائے گا ! ! تو اب ماں باپ کی خوشی ! پرواہ بھی نہیں کرتا آدمی ! خیال ہی نہیں کرتا(اس کی اہمیت کا) ! اور ہے ایسی اہم چیز ! اب چاہے جیسے حاصل ہو طریقے اُس کے مختلف ہیں !
''جھوٹ''کیا ہے ؟
ایک مسئلہ میں اور عرض کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جھوٹ کیا چیز ہے ؟ ؟ جھوٹ کو کتابوں میں لغت کی جو لکھا جائے گا اور فلسفہ کی کتابوں میں جو لکھا جائے گا وہ یہ لکھا جائے گا کہ خلاف ِ واقع کوئی بات کہے تو وہ جھوٹ ہے !
اور شریعت میں جھوٹ کی تعریف الگ ہے ! کیونکہ شریعت میں تعلق ہے ثواب اور گناہ سے ! تو شریعت نے الگ تعریف کی ہے اس کی ! تو شریعت میں جھوٹ وہ ہے کہ جس میں نقصان ہو ! اور سچ بولنا بھی منع ہوجاتا ہے بعض دفعہ ! اور بعض دفعہ سچ بولنا گناہ بھی ہوجاتا ہے ! ؟ اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ آدمی اگر اسے پتہ چل گیا کہ فلاں جگہ فلاں آدمی ہے تو یہ اُسے جان سے مار دے گا ! یہ اُس کے پیچھے پڑا ہوا ہے ! تو آپ کے لیے سچ بولنا وہاں گناہِ عظیم ہے ! اور آپ چاہے جھوٹ جو بھی بول لیں کہ ہاں وہ مِلا تو تھا راستے میں فلائنگ کوچ سے جا رہا تھا فلاں جگہ جا رہا تھا تاکہ اُس کا ذہن اِدھر سے ہٹ جائے اس کی جان بچ جائے ! ورنہ آپ جانتے ہیں ظالم ہے قاتل ہے ڈاکو ہے ! !
اِغوا کرنے والا ہے پوچھ رہا ہے فلاں لڑکی جو تھی وہ اِدھر سے گزری تھی آج کالج آئی ہے نہیں آئی ہے ؟ چپڑاسی سے پوچھتا ہے اور پتہ ہے اُسے کہ یہ اِغوا کرنا چاہتا ہے اسے ! تو چپڑاسی کے ذمہ جھوٹ بولنا فرض ہے ! وہ جاہل ہے دین سے تو پھر کہے گا کہ میں جھوٹ بولوں یا سچ بولوں ؟ ممکن ہے کہ وہ سچ ہی اختیار کر لے وہ سچ گناہ ہوجائے گا شریعت کی نظر میں ! لغت کی کتابوں کی بات نہیں ! !
قرآن کی تفسیر حدیث ہی سے کی جاسکتی ہے ڈکشنری سے نہیں :
تو اس لیے شریعت کی جتنی بھی چیزیں ہیں قرآنِ پاک ہے اُس کو جو حل کیا جاتا ہے وہ احادیث کی روشنی میں حل کیا جاتا ہے لُغت سے نہیں کیا جاتا ! فقط لُغت کافی نہیں ہوتی ! تفسیر کہتے ہیں معنی ٔ مرادی بیان کرنے کو کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی ! تفسیر کے معنی ترجمہ کے نہیں ہیں ! ترجمہ جو ہے وہ تو ڈکشنری سے بھی ہو سکتا ہے ! غیر مسلموں نے بھی بڑی بڑی ڈکشنریا ں لکھ رکھی ہیں ! اور بڑے بڑے بلیغ اور فصیح اور سب پلے بڑھے وہیں عرب میں ! اور عربی کی خدمت کی ہے بہت زیادہ ! مگر زبان سمجھ کر اپنی ! تو ڈکشنری اور چیز ہے ! اور دین اور چیز ہے ! اور قرآنِ پاک اور دین کو سمجھنا اگر ہے تو پھر حدیث سمجھنی پڑے گی ! صحابہ کرام سے پوچھنا پڑے گا کہ اُنہوں نے کیا سمجھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ جملہ فرمایا تھا ! ؟ یہ کس مطلب سے فرمایا تھا ؟ تو وہ اندازِ بیان دیکھنے والے تھے ! تو اندازِ بیان دیکھنے والا جو بیان کرے گا تو وہ مراد ہوگی اُس سے ! وہی لی جائے گی !
تو اس میں یہ بھی ہے کہ بیوی اب گھریلو معاملات میں بات بات پر بگڑ جائے گی ! خفا ہوجائے گی ! زندگی گزارنی مشکل ہوجائے گی ! باہر سے آپ آئیں گے کار خانے سے دُکان سے کہیں حساب کرکے آرہے ہیں کوئی دفتر سے آرہا ہے ! تھکا ہوا گھر میں آتا ہے ! اور گھر میں آتے ہی پھر تلخی ! تو اُسے تو ضرورت ہے آرام کرنے کی وہ تھکا ہوا آیا ہے اور یہاں آتے ہی گھر میں اُلٹی سیدھی باتیں شروع ہوجائیں تو وہ آرام کہاں گیا وہ تو تکلیف ہوگئی اُسے ! تو ایسی صورت میں کیا کرے ؟ گزارا تو کرنا ہے، تو شریعت ِ مطہرہ نے پھر یہاں اس طرح کی باتیں کرنے کی اجازت دی ہے جس سے تعلقات خوشگوار رہیں تو اُس میں اگر ضرورت پڑجاتی ہے ایسی بات کہنے کی کہ جو واقع میں نہیں ہوئی مگر وہ خوش ہوجائے گی تو پھر یہ ٹھیک ہے بالکل ! اس میں ثواب ہے ! !
بعض دفعہ دماغوں میں خلل ہوجاتا ہے ! بیویوں کے ایسے خطوط آتے ہیں (ہمارے پاس) اور میاں کو آنے میں دیر ہوگئی ! اور اُس کی بیوی کا دماغی توازن جو صحیح نہیں ہے وہ سمجھتی ہے کہ کہیں اور گیا ہے ! فلاں جگہ گیا ہے ! کسی اور سے تعلقات قائم کر چکا ہے ! اور ایسے ہی ماں باپ کا بھی ہوجاتا ہے وہم میں مبتلا ہوجاتے ہیں ! ! اور بیچارے (شوہر)اللہ جانے اُن کو کتنا ثواب ملتا ہوگا، ہنڈیا بھی خود ہی پکانی پڑتی ہے تو اب اِس میں اُس کو ایسی بات کرنی ہے کہ جس سے اُس کو شفا ہو یہ ضروری ہے ! جس طرح بھی اُسے شفا ہو تشفی ہو ! اگر بالکل سچ بولے گا کورا جواب دے دے گا ! تو وہ ٹھیک نہیں ہے !
تو اس میں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ شرعًا جھوٹ کسے کہتے ہیں اور سچ کسے کہتے ہیں ؟ توشرعًا یہ باتیں جھوٹ نہیں ہیں کیونکہ گناہ نہیں لکھا گیا جھوٹ کا مطلب ہے گناہ ! وہ نہیں ہے !
ایک آدمی کی طرف سے جا کر کہتا ہے کہ اُنہوں نے سلام کہا تھا آپ کو حالانکہ اُنہوں نے سلام نہیں کہا ! تو یہ کیا ہے ؟ یہ جھوٹ ہے ! کہاں کہا ہے سلام اُنہوں نے ؟ ! مگر یہ کہہ دینا کہ اُنہوں نے سلام کہا ہے وہ خیریت پوچھتے تھے آپ کی وغیرہ وغیرہ،اب یہ باتیں اُس نے اپنی طرف سے بنادیں تاکہ اُن کے تعلقات اچھے رہیں یہ جھوٹ ہے یا نہیں ؟ تو ڈکشنری میں دیکھو تو جھوٹ ہے ! اور ویسے ! ویسے فرمایا کہ یہ ثواب ہے ! لَیْسَ الْکَذَّابُ الَّذِیْ یُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ ١ جو آدمی لوگوں میں صلح کرائے وہ کذاب نہیں وہ جھوٹا نہیں اور جو ایسا سچ بولے کہ جس سے فساد کھڑا ہوجائے ! اور فساد جب کھڑا ہوتا ہے تو بڑھتا چلا جاتا ہے رُکتا ہی نہیں ! وہ سچ جو ہے وہ ثواب کے قابل نہیں رہا اللہ کی نظر میں ! اُس کو چھپائے رکھو اُس کو ظاہر کرنا ضروری نہیں ! بلکہ بعض دفعہ جیسے میں نے مثال دی ہے اُس چپڑاسی کے لیے تو گناہ ہے یہ بتا نا ! وہ یہ کہہ دے کہ اُس کی درخواست آگئی ! نہیں آسکی وہ آج ! تاکہ وہ ٹل جائے !
تو ایسے ہی گزارا ماں باپ کے ساتھ ہے ! ایسے ہی گزارا بہن بھائیوں کے ساتھ ہے ! ایسے ہی میاں بیوی کا بھی ہے ! ان تمام اُمور میں حسن ِ تدبیر کی اجازت دی گئی ہے ! اور اُس میں جو آدمی سے ایسی بات ہوتی ہے کہ جس سے ٹھنڈک پڑے اور فتنہ نہ اُبھرے اور بے چینی نہ پیدا ہو گھر میں وہ منع نہیں ہے ! میاں بیوی کا اسی طرح کا نازک تعلق ہوتا ہے ! ذرا سی بات ہوجائے تلخی ہوجائے طلاق کا لفظ نکل جائے تعلقات ہی ختم ہوجاتے ہیں ! وہ اجنبی بن جاتی ہے ! تو ایسی صورت میں سچ ہی بولتا رہے تو یہ کون سی بات ہو گئی ؟ ! اس سے تو تعلقات خراب ہوجاتے ہیں ! تو شریعت ِ مطہرہ نے تو بہت اُوپر کی بات کی ہے بہت آگے تک کی بات کی ہے ڈکشنری والوں کا تو کام نہیں ہے وہاں تک پہنچنا ! !
تو اللہ تعالیٰ نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں رہن سہن کے طریقے بتائے اور یہ کہ رہن سہن کے یہ طریقے اختیار کرو گے تو عبادت بنتی چلی جائے گی ! !
گناہ کے کام میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی :
میں نے بتایا کہ نافرمانی اُس کا نام ہے کہ جس میں گناہ نہ ہوتا ہو ٢ لیکن اگر اُس کام
١ بخاری شریف کتاب الصلح رقم الحدیث ٢٦٩٢
٢ یعنی ماں باپ نے اگر ایساکام کہا جس میں گناہ نہیں ہے اور اس نے نہ کیا تو یہ نافرمانی ہے۔ محمود میاں غفرلہ
کے کرنے میں جو ماں باپ کہہ رہے ہیں گناہ ہوتا ہے پھر وہ نہ کرنا ! یہ عقوق میں داخل نہیں ہے ! وہ کہتے ہیں جاؤ پیسے لے جاؤ سنیما دیکھ آؤ ! الگ الگ سمجھ ہے ماں باپ کی بھی ! ہر انسان کی سمجھ اللہ نے الگ بنائی ہے ! ایسی کوئی چیز کہتا ہے وہ نہیں مانتا ! نہیں مانتاتو بس ٹھیک ہے اُس میں گناہ نہیں ہے عقوق میں وہ داخل نہیں ہے ! ! جائز کام کو کہتے ہیں پھر بھی وہ نہیں کرتا پھر بھی ٹلا جاتا ہے وہ عقوق میں داخل ہوجائے گا ! ! !
فرض نماز پڑھنے کا فائدہ،نہ پڑھنے کا نقصان :
اور نمازِ مکتوبہ نہ چھوڑو ،نمازِ مکتوبہ اِس کے میں نے فوائد بتائے تھے پچھلی دفعہ کہ وہ آدمی اللہ کی ذمہ داری میں گویا آجاتا ہے ! یہاں فِیْ ذِمَّةِ اللّٰہِ آیا ہے اور فَقَدْ بَرِأَ تْ مِنْہُ ذِمَّةُ اللّٰہِ ١
اللہ کی ذمہ داری اُس سے بری ہے ۔
(اس کے )ایک معنی تو یہ ہیں کہ جو آدمی نماز پڑھے گا ہم اُس پر تلوار نہیں اُٹھائیں گے ! ہم نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ یہ مسلمان ہے ! یعنی جہاد کے موقع پر ! اور اگر نماز کا وقت آیا اذان بھی دی گئی سب نے نماز پڑھی اور وہ اُدھر نظر آرہا ہے بیٹھا ہوا ویسے ہی ! پھر اُسے کوئی مجاہد اگر تیر ماردے گا تو وہ پھر شمار نہیں ہوگا اس طرح سے ! بَرِأَتْ مِنْہُ ذِمَّةُ اللّٰہِ اللہ کی ذمہ داری میں وہ نہیں ہے ! !
دوسری صورت وہ ہے کہ نماز پڑھتا ہے تو نماز میں خود آیات ایسی آتی ہیں ،دُعائیں ایسی آتی ہیں جن میں اللہ سے مدد طلب کی جاتی ہے ( اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) تیری ہی عبادت کرتے ہیں تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں تو مدد چاہنا آگیا اس میں ! اور بھی ایسے کلمات آرہے ہیں جن میں انسان کی حفاظت ہوتی ہے ایک طرح کی ! حصار رہتا ہے ایک طرح کا ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے ! عمل کی توفیق فرمائے ! آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محشور فرمائے، آمین۔ اختتامی دُعا .........
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٦١





Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.