jamiamadniajadeed

جائز کاموں میں والدین کی اطاعت ضروری ہے

درس حدیث 275/33 ۔۔۔۔۔ جائز کاموں میں والدین کی اطاعت ضروری ہے،ناجائز میں نہیںدُنیا بھی دین بن جاتی ہے ! داڑھی کا اِنکار یا نفرت کفر ہے والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق نہ دینی چاہیے (1987-12-06)


( اگست 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
جائز کاموں میں والدین کی اطاعت ضروری ہے،ناجائز میں نہیں
دُنیا بھی دین بن جاتی ہے ! داڑھی کا اِنکار یا نفرت کفر ہے
والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق نہ دینی چاہیے
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر32 کیسٹ نمبر80-A 06 - 12 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس چیزیں تعلیم فرمائیں اور ہدایت فرمائی کہ اُن پر قائم رہو
ایک تو یہ کہ لاَ تُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ اللہ تعالیٰ کی ذات ِ پاک اور اُس کی صفات میں بھی اسی طرح ہے کسی کو شریک نہ سمجھنا اس پر پختہ ایمان رکھنا کہ اللہ پاک کی ذات واحد ہے ایک ہے (وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہ وَّاحِد لَآ اِلٰہَ اِلَّاہُوَ ) وَاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ چاہے تمہیں کوئی مارنے والا ماردے جلانے والا جلادے، چاہے مارے جاؤ چاہے جلائے جاؤ بہر حال اس بات پر قائم رہنا ضروری ہے
دوسری چیز ارشاد فرمائی کہ وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِدَیْکَ ماں باپ کی نافرمانی نہ کرنا وَاِنْ اَمَرَاکَ اَنْ تَخْرُجَ مِنْ اَھْلِکَ وَمَالِکَ ١ اگرچہ وہ یہ کہیں کہ تم اپنے اہل اور مال سب چھوڑ کر نکل جاؤ، بہت بڑا حق بتلایا گویا والدین کا ! اور باطنی اور حقیقی اسباب میں تو خالق ،رازق، رب، اللہ تعالیٰ ہیں ! لیکن ذرائع میں اور ظاہری اسباب میں ماں اور باپ ہیں ! تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بعد اِن کا درجہ فرمایا (وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ) یہ پندرہویں پارے میں سورۂ بنی اسرائیل میں ہے اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرمادیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو (وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا) والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (آگے ارشاد فرمایا کہ) اگر بالکل بڑھاپے کے دور کو پہنچ جائیں ( اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلَاھُمَا) اُن میں سے کوئی ایک اِس حد کو پہنچ گیا یا دونوں پہنچ گئے اِس حد کو (فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا) تو نہ تو جھڑکو ! اور نہ یہ کہو کہ تنگ کردیا تم نے ! '' اُف'' جیسے کرتے ہیں تنگ ہونے پر (وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا ) اچھی بات کہو اُن سے ( وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ) اطاعت کا بازو اُن کے سامنے بڑی شفقت کے ساتھ رحمت کے ساتھ جھکائے رکھو
( وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ) ٢ اور اُنہوں نے جو تمہیں تربیت کیا ہے اُس کے بدلے میں یہ دُعا بھی دو اُنہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرما ایسے جیسے انہوں نے مجھے تربیت کیا ہے ! یعنی جس شوق اور محبت سے انہوں نے مجھے تربیت کیا ہے وہی محبت تو اِن کی طرف متوجہ فرما،وہی رحمت متوجہ فرما ! !
دین کے ساتھ دُنیا کی تعلیم بھی :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے محض دین کی تعلیم نہیں دی ! دُنیا کی بھی دی ہے ! رہن سہن کی بھی دی ہے ! اس کا تعلق دُنیا سے ہے بالکل ! اور بعضے دُنیا دار ہوتے ہیں مگر ماں باپ کے انتہائی مطیع ہوتے ہیں ! ہیں وہ دُنیادار ! دیندار نہیں کہلا سکتے وہ لیکن ماں باپ کی بڑی اطاعت کرتے ہیں تو یہ نہیں کہ اس پر اُنہیں ثواب نہیں مِل رہا بلکہ بڑا درجہ حاصل کر لیتے ہیں ! تو یہ الگ نیکی ہے ! !
١ مشکوة کتاب الایمان رقم الحدیث ٦١ ٢ سُورۂ بنی اسرائیل : ٢٣ ، ٢٤

ماں باپ کی بد دُعا کا کوئی توڑ نہیں ہے :
اور معاذ اللہ ماں باپ کی اگر نافرمانی کرے اور اُس کے بعد اُن کا دل دُکھتا رہے اور وہ بد دُعا دے بیٹھیں تو یہ بڑی سخت چیز ہے ! اس کے بارے میں اولیائِ کرام نے لکھا ہے کہ اس کا علاج کوئی نہیں ہوتا ! اَوّل تو بد دُعا نکلتی ہی نہیں ! اور دیتے ہیں تو لگتی نہیں ! قرآنِ پاک میں ہے گیارہویں پارے میں ( وَلَوْ یُعَجِّلُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْھِمْ اَجَلُھُمْ ) ١ جولوگ زبان سے کہتے ہیں اپنے مال یا اولاد کے بارے میں ! وہ زبان سے نکلنے والی بات اگر پوری ہوتی جائے تو پھر سب ختم ہوگیا ہوتا کب کا ! پھر تو کوئی بچتا ہی نا ! تو ٹھیک ہے وہ جملے سخت بھی کہتے ہیں تنگ بھی کرتے ہیں برا بھی کہتے ہیں کوس بھی ڈالتے ہیں بعض دفعہ ! لیکن اللہ تعالیٰ اُن کے کلمات کواُن پر نافذ نہیں فرماتے ! لیکن اگر زیادہ دل دُکھ جائے توکبھی کبھار ایسے بھی ہوجاتا ہے معاذ اللہ خدا پناہ میں رکھے کہ اگر کسی کو لگ جائے ماں یا باپ کی بد دُعا تو پھر اُس کا علاج کوئی بھی نہیں ہے ! یہ تو ہوئی بات اُن تمام معاملات کی جو جواز کی حد میں ہیں ! !
اور ایک وہ حقوق ہیں کہ جو اِسلام سے متعلق ہیں اُن میں کیا ہے ؟ یعنی ایک کافر ماں جو ہے بیٹے کو اِجازت نہیں دیتی کہ مسلمان ہو ! مسلمان ہوگا بھی تو برا بھلا کہے گی، ڈانٹ ڈپٹ کرے گی ، کوسے گی، پیٹے گی، سب کچھ کرے گی گو شفقت بھی رہے گی ساتھ ! بلکہ اُس کابرا کہنا ہی تعلق کی وجہ سے ہوگا ! تو اس میں کیاحکم ہے ؟ اُس میں یہ حکم نہیں ہے کہ اُن کی بات مان لیں ! ( اِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْم ) اگر یہ ماں باپ کوشش کریں کہ شرک پر آجاؤ معاذ اللہ کفر پر آجاؤ ! ( فَلَا تُطِعْھُمَا) تو اُن کی اطاعت نہ کر و ! ( وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا) ٢
ہاں دُنیا میں اُ ن کے ساتھ زندگی اچھی گزارو ! دُنیاوی معاملات کا جہاں تک تعلق ہے اُس میں اُن کا پورا پورا خیال رکھو ! ! !
١ سُورہ یونس : ١١ ٢ سُورۂ لقمان : ١٥

دُنیا کی بات بھی دین بن جاتی ہے :
اب یہ دُنیا کی بات ''دین'' بن جائے بالکل سمجھ نہیں قبول کرتی اس کو ! لیکن ہے ایسے ! یہی چیز اللہ نے بتائی ہے کہ ہے یہ دُنیا کی بات ! ماں باپ سے تعلق رکھنا ! اُن کی بات پوری کرنا ! اُن کی خواہش کا اِحترام کرنا ! بالکل دُنیا سے تعلق ہے اس کا ! لیکن اس میں ثواب ہے اور شریعت نے یہ بتلایا کہ مسلمان کا ہرعمل ثواب ہے ! ہر عمل عبادت ہے ! چاہے بالکل دُنیا ہو ! کیونکہ اُس میں جواز، عدمِ جواز ، ان چیزوں کا وہ خیال رکھ رہا ہے تو وہ عبادت بنتا جا رہا ہے ! بظاہر دُنیاداری ہے ! بظاہر دُکانداری ہے ! لیکن وہ خیال رکھ رہا ہے کہ غلط نہ تول دُوں ! غلط نہ ناپ دُوں ! خراب چیز نہ دے دُوں ! کوئی خریدار اچھے گمان سے آئے اور میں اُس سے کہوں یہ سودا اچھا ہے ! اور وہ سچ مچ خراب ہو ! یہ نہ ہونے پائے اس خیال سے نہیں کہ میری تجارت کو نقصان ہوگا ! بلکہ اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ منع فرمایا ہے تو پھر یہ عبادت بن جائے گی ! !
ترکِ دُنیا کی تعلیم نہیں دی گئی :
اور انبیائِ کرام کی تعلیم یہی ہے انبیائِ کرام نے یہ نہیں کہا کہ تارک الدنیا ہو کے پہاڑ پر جا بیٹھو ! کسی اور جگہ جنگل میں جا بیٹھو ! یہ نہیں بتلایا ! بلکہ دُنیا میں رہنا سہنا بتلایا ہے ! اور اس رہنے سہنے کو عبادت بنایا ہے ! وہ اس طرح بنایا ہے کہ ہر چیز میں اللہ کی طرف رُجوع کرتے رہو ! اور ہر چیز میں خدا کے حکم کو ملحوظ رکھو وہ عبادت بنتا چلا جائے گا ! !
ایک سبق آموز قصہ :
ایک شخص تھے بنی اِسرائیل میں جُرَیْج اُن کا نام ہے اُنہوں نے نماز کی نیت باندھ لی اور ماں نے آواز دی وہ کہنے لگے یَارَبِّ اُمِّیْ وَصَلَاتِیْ (اے رب)اِدھر میری ماں اُدھر میری نماز ! اب اسلام میں تو یہ حکم ہے کہ نماز میں انداز کر لو کہ کیا ہے وجہ اُس کی کہیں بچھو نے کاٹ لیا ہے ؟ کہیں کرنٹ لگ گیا ہے ؟ تو نیت توڑ دو ! دوبارہ باندھ لو نیت ! اور اگر کوئی اور وجہ ہے اس طرح سے کہ کوئی ضرورت ہے کسی چیز کی کسی کام کی وہ آواز بار بار دے رہی ہے اور پتہ نہیں چل سکا اُسے کہ (میں )نماز پڑھ رہا ہوں یا کیا ہے تو پھر مختصر کر دو ! چار کی نیت باندھی ہے نفلوں کی تو دو پہ سلام پھیر کے بات سن لو اُس کی ! بعد میں دو پڑھ لو اسلام نے یہ بتلایا ہے ! اب اُن کا دل نماز میں لگا ہوا تھاخدا کی طرف لگا ہوا تھا، اُن کے ذہن میں وہ بات آئی جو اُس وقت تک تعلیم نہیں کی گئی تھی ! اُس کے بارے میں ہدایات نہیں دی گئی تھیں تفصیلات نہیں بتلائی گئی تھیں پچھلی اُمتوں کو ! تو کہنے لگے کہ اِدھر میں تیرے ساتھ لگا ہوا ہوں خدا وند کریم اُدھر میری ماں بلا رہی ہے یَارَبِّ اُمِّیْ وَصَلَاتِیْ اِدھر میری نماز ہے اُدھر ماں ہے ! اور پھر پڑھتے رہے ! پھر آواز دی اُس نے پھر پڑھتے رہے ! اسی طرح کئی دفعہ ہوا ! آخر کو اُسے بہت تکلیف پہنچی معلوم نہیں اُسے کیا ضرورت پیش آئی ہوئی تھی جس سے اُس کے دل کو تکلیف پہنچی بہت زیادہ دلی صدمہ ہوا ! اور اُس نے کہا اچھا یہ میرے پاس نہیں آتا اور میرا منہ نہیں دیکھنا چاہتا تو خدا وند کریم یہ اُس وقت نہ مرے جب تک فاحشہ اور بدکار عورتوں کا منہ دیکھنا اسے نہ ملے ! ! یعنی مطلب تو یہی ہوا کہ میرا منہ نہیں دیکھنا چاہتا تواسے یہ سزا ملے کہ اس کا واسطہ فاحشہ اور بدکار عورتوں سے پڑے ! حقیقت تو یہ تھی نہیں کہ ماں کا منہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے ! حقیقت تو یہ تھی کہ عبادت میں دل لگا ہوا تھا ! اور وہ سوچتے تھے کہ عبادت جس میں میں لگا ہوا ہوں وہ اختیار کروں یا ماں کے پاس جائوں ؟ !
دیگر مذاہب میں یہ تفصیلات نہ تھیں ........ :
کیونکہ دُوسرے مذاہب میں اتنی تفصیلات نہیں تھیں کہ تم جو کام کرو اور خدا کی نیت سے کرو تو چاہے تم اینٹ اُٹھا رہے روڑے اُٹھا رہے ہو کانٹا ہٹا رہے ہو راستے میں سے اُس پر بھی اجر ہے ! بلکہ اتنا اَجرمِل جاتا ہے کہ بخشش ہی ہوجاتی ہے ! اللہ تعالیٰ کو پسند آجائے تو ایک عمل بھی بخشنے کے لیے کافی ہے ! ! بہرحال (پھر)واسطہ ضرور پڑا اُن کو بد کار عورت سے زِنا کار عورت سے ! اور اِلزام لگادیا اُس عورت نے ! اچھا لوگوں کو جب پتہ چلا تو اُنہوں نے جو اِس کا گرجا تھا وہ ڈھا دیا ! بڑا خراب آدمی ! بڑا یہ بنا ہوا ہے ! بیٹھا ہوا ہے ! جیسے عوام کا رُجحان ہوتا ہے کہ اگر عقیدت ہوگی تو حد سے بڑھ جائیں گے ! نفرت ہوگی تو حد سے بڑھ جائیں گے ! بلا تحقیق کے ! اُن کا بیان بھی نہیں سنا صرف اُس عورت کے اِلزام پر ہی اُنہوں نے اُس کا صَوْمَعَة (یعنی)گرجا ڈھا دیا جو عبادت خانہ تھا ! تو وہ اُتر کے آئے ! پہاڑی جیسی اُونچی جگہ پر بنا رکھا ہوگا ،تھوڑی اُونچی جگہ ہوگی، اُنہوں نے کہا بات کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ تیری کارستانی ہے ! انہوں نے وضو کی اور اُس کے بعد نماز بھی پڑھی غالبًا حدیث شریف میں آتا ہے اور پھر اُس سے پوچھا کہ بچے تیرا باپ کون ہے ؟ یَا بَابُوْسْ مَنْ اَ بُوْکَ اب وہ بچہ تو پیدا ہوا تھا بولنے کے قابل نہیں تھا ! لیکن اُس نے نام بتایا کہ فلاں ہے میرا باپ ! اب یہ ایک عجیب چیز تھی کہ ایک بچہ جو ابھی پیدا ہوا ہے چند گھنٹے گزرے ہوں یا چند دن گزرے ہوں ایک یادو دن گزرے ہوں بمشکل ! وہ بات بتائے اور جواب دے بات کا ! تو اُن کی عقیدت کی توانتہا نہیں رہی اور اُنہوں نے کہا کہ ہم تو آپ کا گر جا سونے سے بنائیں گے ! ! اُنہوں نے کہا نہیں مِنْ طِیْنٍ ١ بس یہ مٹی ہی سے بنادو ! !
مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت میں تھے لگے ہوئے خشوع اور خضوع کی کیفیت تھی ماں بلا رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ عمل پسند نہیں ہے (کہ خشوع خضوع کی وجہ سے ماں کو نظر انداز کر دے)کیونکہ خشوع اور خضوع قائم رکھتے ہوئے ماں کی خدمت بھی تو ہو سکتی تھی ! وہ کرنی چاہیے تھی ! اسلام نے یہ تفصیلات بتادیں کہ ایسی صورت میں نماز مختصر کردو اور اُس کی بات سنو جا کر ! اور اگر زیادہ خطرہ ہو تو توڑ بھی سکتے ہو ! دوہرا لو اُسے ! اور جو یہ کام کرو گے تو یہ ثواب سے خالی نہیں اس میں بھی ثواب ہے ! !
ماں باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق نہ دینی چاہیے :
اور یہ جو فرمایا گیا چاہے تمہاری بیوی اور چاہے تمہارا مال سب وہ کہیں کہ چھوڑ کے چلے جاؤ یہ مبالغةً ارشاد فرمایا تعلیم کے لیے ! (یعنی) ذہن انسان کا اطاعت پر اتنا زیادہ آ جائے ! مطلب یہ نہیں ہے کہ سچ مچ ماں باپ ایسے کریں اور سچ مچ وہ ایسا کردے ! بلکہ اگرماں باپ کہیں کہ فلاں عورت کو طلاق دے دو اور کوئی شرعی وجہ نہ ہو تو اُسے اختیار ہے دے یا نہ دے ! بلکہ نہ دینا زیادہ ضروری ہے !
١ بخاری رقم الحدیث ١٢٠٦ و ٢٤٨٢

فقہاء جنہوں نے تمام احادیث کا مطالعہ کیا ہے اور اُس سے پھر مذہب کی حقیقت نکالی ہے اُنہوں نے پھریہ فرمایا کہ اگر کوئی شرعی وجہ نہیں ہے تو بالکل ضروری نہیں ہے ماں باپ کا (کہا)ماننا ! بلکہ نہ مانے طلاق نہ دے ! یہاں ارشاد ہے کہ چاہے تمہاری بیوی اور چاہے تمہارا مال وہ سب کچھ چھڑوانا چاہیں پھر بھی چھوڑ دو..... (اب حدیث کے مطابق تو )جو بھی کچھ ہے سب چھوڑ کر چلے جاؤ ! اوراُن کی بات مانو ! بظاہر اِس میں یہ کلمات آرہے ہیں ! لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے ! بلکہ مطلب یہ ہے اس حدیث شریف کا کہ اِنتہا درجے اطاعت کرو جہاں تک شریعت نے تمہیں اجازت دی ہے اُس میں بالکل کوتاہی نہ کرو ! مگر جہاں شرعی حکم آجائے وہاں بس پھر رُک جاؤ اب اُن کی اطاعت نہیں کی جائے گی ( وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْم فَلَا تُطِعْھُمَا )
تدبیر کیا اور کیسے کرے ؟
حسنِ بصری رحمة اللہ علیہ سے پوچھا گیا ایک مسئلہ کہ عشاء کی نماز اور اندھیرا ؟ یہ چراغ اور روشنی اور بجلی یہ تو تھی ہی نہیں ! بلکہ لالٹینیں بھی نہیں تھیں ! مٹی کا تیل بھی نہیں تھا ! تو اُس زمانے میں اندھیری رات کو لڑکا سمجھدار ہو وہ جانا چاہے نماز کے لیے عشاء کی اور ماں منع کرے کہ نہیں گھر میں ہی پڑھ لو ! تو اُن سے پوچھا مسئلہ کہ کیاکرے ؟ اُس کی بات مانے کیونکہ جب وہ جائے گا باہر جب تک واپس نہیں آئے گا نماز پڑھ کے وہ تشویش میں رہی گی پریشانی میں رہے گی ! تو اُس کی بات مان کے رُک جائے یا جماعت میں جائے ؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ نہیں اِنْ مَنَعَتْہُ اُمُّہ شَفْقَةً لَمْ یُطِعْھَا اِس میں اُس کی بات وہ نہیں مانے گا ! لیکن جواب کیسے دے ،تلخ جواب دے یا کیا کرے ؟ اصل میں بہلا دینا چاہیے جیسے کسی کو خوش کر دیتے ہیں کسی انداز سے ! کوئی جملہ کہہ کے ! کوئی فقرہ کہہ کے ! کوئی اور بات کرکے ! کسی اور چیز میں لگا کے ! اس طرح سے کار روائی کی جائے اُن کے ساتھ ! کیونکہ وہ تو بالکل شفقت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ! اس لیے کوئی اچھے کلمات ہی کہے جائیں گے ! کوئی اچھی تدبیر ہی سامنے رکھی جائے گی ! تاکہ اُن کے ذہن سے وہ بات بھی محو ہوجائے اور شریعت کے خلاف بھی نہ ہونے پائے ! !
والدین کی کفریہ حرکتیں !
اب تو عجیب باتیں سننے میں آتی ہیں ! یعنی وہ داڑھی رکھنا بھی چاہتے ہیں اور ماں نہیں رکھنے دیتی ! ماں کہتی ہے میں تیرا دُودھ نہیں معاف کروں گی ! کبھی کچھ کہہ دیتی ہے ! کبھی کچھ کہہ دیتی ہے ! ان باتوں میں کیا ہے ؟ ان باتوں میں نہیں مانی جاسکتی ! اور ماں کا دُودھ معاف کرنا، نہ کرنا یہ تو کوئی چیز ہے ہی نہیں شرعًا ! ! لیکن ایسے لوگ ہیں جو رکھنا چاہتے ہیں ہمارے علم میں بھی آئے ہیں مسئلہ بھی اُنہوں نے پوچھا ہے اور وہ ماں اتنی بڑی دھمکی دیتی ہے ! جو اُس کے نزدیک سب سے بڑی دھمکی ہے کہ میں تیرا دُودھ نہیں معاف کروں گی وغیرہ وغیرہ ! تو ایسی چیزیں نہیں چل سکتیں ! کیونکہ وہ بالکل شریعت سے متقابل ہیں ! ! لیکن اس کے جواب میں بچہ اُنہیں برا بھلا کہنا شروع کردے ! بے غیرت ہو ! بے دین ہو ! ایسی کی تیسی تمہاری وغیرہ وغیرہ ! یہ بات نہیں کر سکتا بیٹا ! چپ رہے گا ! ٹل جائے گا ہٹ جائے گا ! جیسے کہ کسی نہ کسی طرح وقت گزاری ہو ! اس طرح پر کرے گا کا رروائی ایسی صورت میں ، اُن کو برا نہیں کہہ سکتا ! تلخ کلامی نہیں کرسکتا ! زیادہ تلخ کلامی کریں (وہ تو)وہاں سے چلا جائے کسی اور جگہ ! کوئی اور تدبیر کرے ! تدبیریں بتہری ہیں انسان کر سکتا ہے اگر سوچے تو ؟ ! تو اللہ تعالیٰ اس طرح کی آزمائشوں سے بھی بچائے ! لیکن اتنی بڑی جہالتیں جو ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت دے ! یہ کہنا کیسے درست ہے ماں کا کہ میں دُودھ نہیں معاف کروں گی ؟ ! تم دُودھ نہیں معاف کرو گی تو خدا تمہیں معاف کردے گا کہ تم اس طرح کی ایک نیکی سے اُسے روک رہی ہو ؟ ! اور تم سنت کی منکر بن رہی ہو ! ! ؟
داڑھی کا انکار یا نفرت کفر ہے :
داڑھی نہ رکھنا گناہ(کبیرہ) ہے بس ! لیکن داڑھی کا انکار کرنا یہ تو کفر ہے ! انبیائِ کرام کی رہی ہے ! بادشاہ رکھتے رہے ہیں ! جارج پنجم تک بھی رکھتے رہے ہیں ! اولیائِ کرام کی چلی آرہی ہیں تسلسل سے ! تو اس کا تو انکار ہی ممکن نہیں ! ایسی چیزیں ہیں عجیب و غریب ! !
مسواک ہے ! اب مسواک چلی آرہی ہے اور ساری دُنیا میں ہر آدمی جو ذرا دین کے قریب آیا پتہ ہے اُسے کہ یہ سنت ہے ! مگرنہ کرنا محرومی ہے ! ایک سنت سے محروم رہا ! داڑھی نہ رکھنا محرومی ہے کہ ایک واجب ترک کر رہا ہے ! لیکن انکار کردینا یہ اور چیز ہے ! یہ تو بہت بڑا گناہ ہے یہ کفر ہوجائے گا ! جیسے کہ اکثریت مسلمانوں کی ایسی ہے کہ نماز پڑھتے ہی نہیں ! ہیں وہ مسلمان ! اسلام کے لیے جان بھی دے دیں گے ! ایمان موجود ہے نماز نہیں پڑھتے تو وہ گناہگار کہلائیں گے ! یہ نہیں کہ کافر کہلائیں بس گناہگار کہلائیں گے ! اور اگر اُن میں سے کوئی نماز کا انکار کردے کہ ہے ہی نہیں ؟ نماز چیز ہی کیا ہے ؟ شریعت میں آئی ہی نہیں تو وہ کافر ہوجائے گا ! ! مگر ایسا مسلمان کوئی بھی نہیں ! جس سے بات کریں گے یہی کہے گا بھئی ہم گناہگار ہیں نہیں پڑھ سکتے ! پڑھنے لگیں گے ! دُعا کرو ہم پڑھنے لگیں ! کوئی بڑا نصیحت کرے گا تو کہیں گے جی دُعا کرو ہم پڑھنے لگیں ! !
تو اس لیے یہ جو چیزیں ہیں اگر اِن کے بارے میں ماں یا باپ اس طرح کی باتیں کریں تو وہ تو معاذ اللہ کفر ہے ! ایسی صورت میں اُن کی اطاعت نہیں کی جاتی ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ بھی نصیب فرمائے، آمین۔ اختتامی دُعا ................






Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.