jamiamadniajadeed

جہاد کی ایک تاثیر آپس کا اتفاق

درس حدیث 274/32 ۔۔۔۔۔ جہاد کی ایک تاثیر آپس کا اتفاق ! بادشاہ خواہ کیسا ہو اگر جہاد کرے تو ساتھ دینا ہوگا''جہاد'' منسوخ کرنے کے لیے انگریزوں نے'' جھوٹا نبی'' بنایاسیاسی معاملات پر فتویٰ سیاسی بصیرت کے حامل علماء ہی دے سکتے ہیں (1987-11-29)


( جولائی 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
جہاد کی ایک تاثیر آپس کا اتفاق ! بادشاہ خواہ کیسا ہو اگر جہاد کرے تو ساتھ دینا ہوگا
''جہاد'' منسوخ کرنے کے لیے انگریزوں نے'' جھوٹا نبی'' بنایا
سیاسی معاملات پر فتویٰ سیاسی بصیرت کے حامل علماء ہی دے سکتے ہیں
(درس نمبر 31 کیسٹ نمبر 79-B 29 - 11 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اَلْجِہَادُ مَاضٍ مُذْبَعَثَنِیَ اللّٰہُ اِلٰی اَنْ یُقَاتِلَ اٰخِرُ ھٰذِہِ الاُمةِ الدَّجَّالَ
جہاد کا سلسلہ چلتا ہی رہے گا اور اس کا حکم باقی رہے گا حتی کہ اِس اُمت کا آخری حصہ دجال سے جہاد کرے گا لَا یُبْطِلُہُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ کوئی اگر ظالم حاکم آگیا یا عادل آگیا دونوں صورتوں میں جہاد کا حکم قائم رہے گا۔
اس میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیز بتلائی ہے کہ اُس کی تاثیر یہ ہے کہ جب تک وہ چلتی رہتی ہے مسلمانوں میں اتفاق رہتا ہے ! وہ ''جہاد '' ہے ! اور جہاں وہ چیز ختم ہوتی ہے تو آپس کی تفرقہ بازی اُس کی جگہ آجاتی ہے ! اس سے غفلت ہوئی ہے ضرور مسلمانوں سے بس جب اس کی تیاری میں غفلت ہوئی ہے تو نقصان ہوا ہے ! ! !
جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جہاد جاری رہا جو آپ نے شروع فرمایا تھا اور اُس میں دو سپر پاوریں آگئیں (اسلام کے مقابل)ایک ایران کی تھی ! اورایک تھی رُوم کی ! رُومی سلطنت ایران پر بھی بھاری آئی تھی، جب صلح حدیبیہ ہوئی ہے یعنی سن ٦ ہجری میں انہوں نے ایران کے مقابلے کی تیاری کی جوابی کارروائی کی اور غالب آگئے ! !
مسلَّمہ سفارتی قانون کی پامالی اور غزوۂ موتہ :
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے چھیڑ چھاڑ شروع کردی، آقائے نامدا ر صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرستادہ تھا جسے آپ نے پیغام دے کر(رُومیوں کی طرف) بھیجا تھا وہ صحابی تھے اُن کو شرجیل نامی ایک شخص نے جو سردار تھا قبائلی علاقے کا جیسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قبائلی حصہ ہے (تقسیمِ ہند سے) پہلے وہ ہندوستان افغانستان کے درمیان تھا قبائلی حصہ لیکن آزاد شمار ہوتا تھا مگر زیرِاثر انگریزوں ہی کے تھا انگریز اُن میں کسی کو ''ملک'' کا خطاب کسی کو کچھ دیتے رہتے تھے، اسی طرح سے شام اور عرب کے درمیان ایک حصہ تھا اُس میں بھی یہی تھا کہ آزاد علاقہ تھا سردار تھے عربی بھی جانتے تھے اور رُومی بھی جانتے تھے جیسے اٹک کے بعض علاقوں کے وہ بھی بول لیتے ہیں پشتو اور جیسے پشاور کے علاقے کے ''ہندکو ''بول لیتے ہیں پنجابی بول لیتے ہیں اس طرح یہ لوگ بھی تھے عربی بھی بول لیتے تھے اور وہ بھی، تو یہ صحابی رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والسلام کا نامۂ مبارک لے کر جارہے تھے کہ درمیان میں اُس شخص نے ان کو شہید کردیا ! اس کے بدلے کے لیے وہ لڑائی ہوئی تھی جس کا نام'' غزوہ ٔ موتہ'' ہے ! اُس میں مسلمان تھوڑے تھے تین ساڑھے تین ہزار تھے ! اور ہرقل اس علاقے کا دورہ کر رہا تھا اَرضِ بلقاء کے قریب قریب کا، ان لوگوں نے ہرقل سے امداد چاہی اُس نے امداد دے دی ایک لاکھ آدمی دے دیے فوج دے دی ! مسلمانوں کو اُن سے مقابلے میں بہت ہی دُشواری پیش آئی اور ایک بھی نہ بچتا ! لیکن تدبیر کی گئی حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ایسی تدبیر کی کہ بچ جائیں ! باقی بڑے بڑے صحابہ کرام شہید ہوئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے تھے عمر میں دس سال ! حضرت عبداللہ اِبن رواحہ شہید ہوئے ! اور حضرت زید بھی شہید ہوئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے قریبی حضرات ،رشتہ دار بھی اور اِن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدمہ بہت رہا ہے بہت ہوا صدمہ کہ آنسو بھی بہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ! یہ(انتقامی اور تادیبی حملہ) بھی کامیاب نہ ہوا ! بس اتنا کامیاب ہوا ہے کہ اپنے آپ کو بچا سکے ! تو ضرورت تھی کہ اس(کا پورا بدلہ چکانے) کے لیے تیاری کی جائے تو پھر تیاری ہی میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لشکر روانہ فرمانے والے ہی تھے کہ وفات ہوگئی ! ! پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وہ لشکر بھیجا ، اُسی لشکر نے بڑھتے بڑھتے بڑھتے ہرقل کی سلطنت کا خاتمہ کردیا ! ! اللہ کی اتنی تائید تھی ! !
خط مبارک کی بے ادبی کا وبال :
اور یہ ایران کا جو بادشاہ تھا اِس نے بدتمیزی کی سفیر کے ساتھ گستاخی کی بدسلوکی کی والا نامے کے ساتھ گستاخی کی کہ اُسے چاک کردیا ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس بدتمیزی پر بہت زیادہ خفگی ہوئی اور دُعا اُن کے لیے ایسی کی کہ یُمَزَّقُوْا کُلَّ مُمَزَّقٍ ١ کہ یہ بھی سارے پارہ پارہ ہو جائیں ! !
تو بادشاہ کو اُس کے بیٹے نے مار دیا ! بیٹے کو پھر اور لوگوں نے ماردیا ! بادشاہ ہی نے بلکہ ایسا انتظام کردیا کہ ایک دوا پہ نام لکھ دیا ! تھی وہ زہر ! اُس نے وہ دوا کھائی اور وہ مر گیا ! اُس کے بعد بادشاہ بنانے کے لیے کوئی آدمی نہیں ملتا تھا تو شاہی خاندان کی ایک عورت کو اُنہوں نے بادشاہ بنایا ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اطلاع اس کی ملتی رہی !
اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کَیْفَ یَفْلَحُ قَوْم وَلَّوْ اَمْرَہُمُ امْرَأَةً یا لَنْ یَفْلَحَ قَوْم وَلَّوْ اَمْرَہُمُ امْرَأَةً
انہوں نے سارے معاملات عورت کے ذمہ کردیے کیسے کامیاب ہوں گے ؟ !
عورت کی حکمرانی ؟
جہاں عورت تابع ہو مردوں کے مشورے کے وہ تو ٹھیک ہے وہ چل جاتی ہے اُس کو فقہاء نے لکھا ہے وہ پارلیمانی نظام ہے کیونکہ وہ پابند ہوتی ہے، اُن کے عدمِ اعتماد کے ووٹ سے ہٹ سکتی ہے، پارٹی کی
پابند ہوگی لیکن اگر ایسے نہ ہو ڈکٹیٹر ہو تووہ تو پھر تباہی کی طرف لے جائے گی ،وہ ختم کردے گی اُس قوم کو !
١ بخاری کتاب العلم رقم الحدیث ٦٤

دوسری سپر پاور کے خلاف جہاد :
اب ان(ایرانیوں ) سے بھی جہاد چلا اِن کی طرف پہنچے ہیں حضرت خالد اِبن الولید رضی اللہ عنہ، (اس سے )پہلے اُنہوں نے شروع کیا سلسلہ اس طرح کہ جو مانعینِ زکوٰة تھے معاذ اللہ اِرتداد میں پڑگئے تھے یا مدعیانِ نبوت کے پیچھے چلے یا کسی اور طرح سے خراب ہوئے پہلے تو اُن کا صفایا کیا ! پھر وہ عراق کی حدود میں داخل ہوئے وہاں مقابلہ اِن ایرانیوں سے ہوا شروع ! ابھی یہ جاری ہی تھا کہ رُومیوں کی طرف بہت بڑی طاقت جمع ہوگئی تو حضرت خالد اِبن الولید رضی اللہ عنہ کو وہیں فتوحات روک کر اِدھر آنا پڑا شام میں ! شام میں پھر'' یرموک'' کا معرکہ ہوا ! دمشق فتح ہوا !
اُن میں شریک رہے حضرت خالد رضی اللہ عنہ ! تو جہاد کا سلسلہ جوچلا(پھر)چلتا رہا !
بنو اُمیہ کا دور :
اب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور آگیا بنو اُمیہ کا اُس میں بھی چلتا رہا ! صَیْفِیْ اور شِتَوِیْ یعنی سردی اور گرمی ، سردی میں ایک جانب اور گرمی میں دُوسری جانب، یہ جہاد ہوتا رہا، گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈے علاقے ترکی اور دُوسرے علاقوں کی طرف حتی کہ قسطنطنیہ تک پہنچے اُنہوں نے یہ بھی فتح کیا ! یہ قبرص بھی فتح کیا ! یونان پر بھی حملے ہوئے ! اسکندریہ میں عیسائی پہلے بھی تھے اُس وقت سے چلے آرہے تھے ! اُدھر اُوپر سے رُومی اٹلی والے اِدھر آجاتے تھے سمندر پار کر کے حملے کرتے تھے بحری لڑائیاں ہوتی تھیں بار بار ! ! یہ ان(یعنی حضرت معاویہ) کے دور میں چلتا رہا سلسلہ ! ! (اور )آپس میں بھی کچھ اِختلافات شدید رہے ! !
یزید کاآغاز و انجام دونوں برے :
(پھر)یزید کا دور آیا تو اُس میں ابتداء میں تو شہادتِ حسین ہے ! ! رضی اللہ عنہ
اور اُس کا آخری کام جو ہے وہ یہ ہے کہ حرم ِ مدینہ منورہ میں اُس نے بہت ظلم کیا ! بہت ظلم کیا ہے اُس نے ! یہ ''حَرّہ '' کا قصہ کہلاتا ہے اور مسلم اِبن عُقبہ مُری اُس کی طرف سے سردار تھا جیش کا، حرہ کی لڑائی تو ایک دن میں ختم ہوگئی تھی مدینہ منورہ فتح ہوگیا تھا لیکن یزید کو غصہ تھا اُس نے بعد میں یہ حکم دیا تھا کہ تین دن مدینہ منورہ تمہارے لیے حلال ہے اَمَرَہ اَنْ یَّسْتَبِیْحَ الْمَدِیْنَةَ ثَلاَثَةَ اَیَّامٍ ١
مدینہ منورہ میں صحابی کا بے دردی سے قتل :
ایک صحابی کا ذکر ہے میں رات ہی پڑھ رہا تھا یعنی پرانے صحابہ میں بڑی عمر کے صحابی اسی طرح اُن کے لڑکے بھی اور یہ یزید کے دوست بھی تھے ! اُن کو(مسلم بن عقبہ نے) بلایا کہا کہ بیعت کرو عَلٰی اَنَّکُمْ خَوَل وَ عَبِیْد لِیَزِیْدَ یہ بیعت کرو کہ تم خادم ہو غلام ہو یزید کے ! عجیب بات تھی یہ ! اُنہوں نے کہا کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلے گا اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلے گا تو میں اُس کے ساتھ ہوں اس پر میں بیعت کرتا ہوں ! اور میں امیر المومنین مانتا ہوں ! اُبَایِعُ اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ عَلٰی سُنَّةِ اللّٰہِ وَ سُنَّةِ رَسُوْلِہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس نے کہا کہ تونے نہیں کی بیعت ! تو جلاد سے کہا گردن اُڑادو اِس کی ! یہ مروان (اس مجلس میں موجود تھا )مدینہ منورہ میں گورنر رہا تھا وہاں کا اَمیر المدینہ رہا تھا وہ جانتا تھا ان(صحابی) کو ! یزید سے ان کی دوستی تھی یہ بھی جانتا تھا ! اور بہت اچھی دوستی تھی ! کَانَ صَدِیْقًا لِّیَزِیْدَ تو مروان صحابی سے چمٹ گیا کھڑے ہو کر اور اُس نے کہا کہ نہیں اسے نہیں مارو ! اس نے کہا کہ میں ضرور مارُوں گا قسم کھالی ! اور یہ حکم دیا کہ اسے قتل کرو ! کیونکہ اس وقت مروان گورنر تھا نہیں ! وہ توساتھ تھا مشوروں میں تھا ! امیرِ جیش جو تھا وہ مسلم اِبن عُقبہ تھا تو حکم اُس کا چل رہا تھا ! اس کی تو گزارش چل سکتی تھی ! اُس نے کہا کہ یا تو یہ الگ ہوجائے اُس سے، الگ نہیں ہوتا تو دونوں کو ماردو ؟ ! ! حالانکہ جرم کچھ بھی نہیں نکلا ! وہ صحابی کہتے ہیں میں نے بغاوت کی ٹھیک ہے ! میں اُس سے تائب ہوتا ہوں رُجوع کرتا ہوں ! اہلِ مدینہ میں سے سب نے کی تھی بغاوت !
(پہلے) یزید سے بیعت کی اور پھر انکار کردیا کہ ہم اِسے حاکم نہیں مانتے خَلَعُوْا یَزِیْدَ ! یہ جرم میں نے کیا تھا مگر میں اب بیعت کر رہا ہوں ! مگر عَلٰی سُنَّةِ اللّٰہِ وَسُنَّةِ رَسُوْلِہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ کہ وہ امیرالمومنین رہے میں اُسے مانتا ہوں امیر المومنین ! لیکن وہ نہیں مانا ! ! حتی کہ مروان نے جب سمجھا کہ میں
١ تہذیب التہذیب ج ١١ ص ٣٦٠ طبع بیروت
بھی مارا ہی جاؤں گا کیونکہ ایسے تو تھا ہی نہیں سلسلہ کہ وہ حکم دیں اور ذرا دیر لگے ! حکم دیا ہے تو بس مارو نہیں مارے گا(جلاد) تو وہ اُسے مارے گا وہ مجرم ہے کورٹ مارشل ہوجائے گا فورًا ہی ! تو نتیجہ یہ ہوا کہ مروان نے اُنہیں چھوڑ دیا اور وہ ماردیے گئے ! ! ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اُن کے ! یعنی عَنْ مَّنْ قُتِلَ صَبْرًا اور '' صَبْرًا ''کا مطلب یہی ہے کہ اُس کو رسیوں سے باندھ رکھا تھا کَانَ مَکْتُوْفًا اور اس طرح سے اُن کو شہید کیا ؟ ! ! یہ کار روائی کر کے اُس(یزید اور مسلم بن عقبہ) نے بہت بڑا ظلم کیا ہے اور بڑی توہین کی ہے مدینہ منورہ کی ! اس بناء پر بعض علماء نے تکفیر کی ہے یزید کی ! بہرحال فسق تو مانا ہی جاتا ہے کہ یہ بہت بڑا فسق ہے کہ اہلِ مدینہ کے ساتھ ایسا ظلم کیا جائے ! اُن کا خون اور مال یہ حلال سمجھا جائے لوٹ مار کی جائے اس لیے کہ اہلِ مدینہ نے تمام بنو اُمیہ کو نکال دیا تھا ! !
اہلِ مدینہ سے مکرو فریب کا وبال :
خیر وہ دور گزرایزید کا ، اسی زمانے میں یزید مر گیا ! ! کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے مَنْ کَادَ اَہْلَ الْمَدِیْنَةِ جو بھی اہلِ مدینہ سے کَیْد(مکر وفریب) کرتا ہے اُس کے بارے میں سزا آئی ہے اِنْذَابَ کَمَا یُذَابُ الْمِلْحُ فِی الْمَآئِ جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے ایسے وہ گھل جاتا ہے ! ! ! جوان آدمی تھا کوئی پینتیس سال کے قریب کل عمرہوئی ہے اس کی ! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں پیدائش ہوئی ! تو پھر ان(بنو اُمیہ) کی حکومت ختم ہوگئی ساری دُنیا سے ! صرف فلسطین میں یہ(محدود ہوکر ) رہ گئے بنواُمیہ ! گویا محصور کردیا انہیں ! ! !
پھر حضرت عبداللہ اِبن زبیر رضی اللہ عنہ (کا دور آگیا) پھر وہاں (شام) سے مروان نے (حضرت عبداللہ بن زبیر کے خلاف)کارروائی شروع کی اور شام فتح کر لیا اُس نے ! وہاں حکومت جمالی اپنی ! ابھی اسی میں تھا کہ اُس کا بھی انتقال ہوگیا ! توعبدالملک آگیا ! عبدالملک اِبن مروان نے پھر اور بڑھایا سلطنت کو ! اور حجاج اِبن یوسف یہ اُس کا جنرل تھا ! اس طرح سے یہ ایک سلسلہ پھر قائم ہو گیا بنواُمیہ کا ! ! !
بنو اُمیہ کا خاتمہ، بنو عباس کی آمد مگر جہاد نہیں رُکا :
اب سن ١٣٠ھ میں بنواُمیہ کی سلطنت ختم ہوگئی بنو عباس آگئے تومطلب یہ کہ یہ لڑائیاں بھی جاری ہیں یہ اختلافات بھی جاری ہیں حکومت بھی بدل رہی ہے ایک خاندان چلا گیا دُوسرا خاندان آگیا لیکن جہاد جاری تھا ! وہ جاری رہا ! ہارون رشید ایک سال حج کے لیے جاتا تھا ایک سال جہاد پر جاتا تھا اس طرح کرتا رہا ! تو یہ سلسلہ کہ جب بھی ذرا سی بات ہو جہاد جاری ہو جائے یہ چلتا ہی رہا ! اور مسلمانوں کو جہاد میں نقصان کبھی نہیں ہوا ! جہاد میں نفع ہی رہا ہے ! اور جہاد ایسی چیز ہے کہ اس کے لیے انسان جو قربانی دیتا ہے وہ بہت زیادہ ہے ! !
پنجاب کا خطہ اور سپہ گری :
ہمارے یہاں اگر جہاد کی رُوح پھونک دی جائے تو یہ علاقہ تو ویسے ہی سپاہیوں کا چلا آرہا ہے ! جب سے انگریز آئے ہیں اُس وقت سے لے کر انگریزوں کے جانے کے وقت تک تو پنجاب کے شہروں سے انگریز نے فوجی سپاہی بھرتی کیے ہیں ! ! تو ہمارا علاقہ تو بقولِ غالب ع
برسوں رہا ہے پیشۂ آبا سپہ گری
یہ تو سپہ گروں کی اولاد ہیں ! اور اب بھی فوج میں اَسی فیصد ہیں ! اس ساری آبادی میں اگر واقعی جہاد کی رُوح پھونک دی جائے تو فوجی تو سارے مِلا ملو کر نو لاکھ بنتے ہیں کل ! ساری فوج ہماری ملالیں ملیشیا ولیشیا تو یہ نو لاکھ کے قریب بن جاتی ہے ! لیکن اُس کے علاوہ جتنی آبادی ہے یہ سب غفلت میں پڑی ہوئی ہے ! آپس کے جھگڑے اور یہ اور وہ ساری چیزیں ! ایوب خاں کے زمانے میں جب جہاد شروع ہوا جہاد ہی کا نام دیا اُس نے ! کلمہ پڑھا اُس نے تو سارے لوگ اُدھر لگ گئے ! ........ فوج ملا کر کل ساڑھے تین ڈویژن فوج یہ تو کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی کامیاب رہے ! پیش قدمی بھی کی ہے آگے بھی بڑھے ہیں ! اور دِفاع بھی کیا ہے ! دونوں کام کیے ہیں اور ساری قوم ساتھ تھی اَن ٹرینڈ قوم ! !
عوام میں جہاد کی رُوح اور ہندوستان کا لرزنا :
اگر انہیں ٹریننگ دے دی جائے تو پھر کیا ہوگا ؟ ! اور جہاد کے جذبات آجائیں تو پھر کیا ہوگا ؟ پھر ہندوستان لرزنے لگے گا ! وہ کپکپائے گا ! چھیڑتے ہوئے بھی ڈرے گا کہ ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ! اور جو جانبازی پر آجائے تواُس کے مقابلے کے لیے کون آتا ہے ؟ ! اُس سے تو ضرور ہارنا پڑے گا ! !
حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی بات ہے کہ اُس(رُستم اور مہران) نے کچھ کہلادیا تھا کہ یہ ہے یہ ہے یہ ہے تو اُنہوں نے جواب دیا تھا کہ نہیں تم یہ بات مانو، صحیح ہوجائو، ورنہ میں ایسے لوگ لے کر آؤں گا کہ جو موت کے ایسے چاہنے والے ہیں جیسے تم شراب کو چاہتے ہو ١ تو موت اور اُس کا خوف جو ہے یہ ایسی چیز ہے کہ یہ اچھے خاصے آدمیوں کو ختم کردیتے ہیں اور یہ خوف نکل جائے تو بہت بڑی بات ہے ! ! !
جہاد کو ترک کر دینے کا وبال :
یہ سمجھئے ہلاکو خاں کے زمانے میں (مسلمانوں کی بزدلی کا) یہ حال ہوگیا کہ سترہ مسلمان تھے وہ گزر رہے تھے کہیں سے ! ایک خیمہ تھا وہاں دیکھا ایک عورت کھڑی ہے ہلاکو خاں کے خاندان کی چینی تھی گویااُس نے انہیں دیکھا ! اور انہوں نے سوال جواب کیا کچھ ! اور اُس نے کہا کہ بالکل یہاں سے نہ ہلنا ! یہیں کھڑے رہو ! میں تمہیں سب کو مارُوں گی ! اندر گئی تلوار لے کر آئی اور سب کو ماردیا ؟ ! ! اور اُن میں کسی میں اتنی جان نہیں رہی ٹانگوں میں کہ وہ بھاگ بھی سکیں ! ! ایک عذاب مسلَّط ہو گیا تھا اُن پر تو ایسا حال ہوجاتا ہے اگر موت سے ڈرو ! اور اگر جہاد نہ کرو تو یہ حال ہوجاتا ہے ! اور یہ(ہلاکو خان وغیرہ) مصر تک پہنچ گئے تھے اُس کے بعد تبدیلی آئی ! اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اہلِ مصر کو کہ اُن کا جو لشکر تھا پھر اُس نے تیاری کی اور خدا نے کامیابی دی ! اور ہلاکو خاں کی قوم میں سے لوگ مسلمان ہوتے چلے گئے ! ! تو اسلام جہاں کہیں ذلت ہو اُس جگہ جہاد کی اجازت دیتا ہے ! ! اور کہیں حکم دیتا ہے ! ! یہ حکم منسوخ ہونے والا نہیں ہے ! ! !
١ مشکوة کتاب الجھاد رقم الحدیث ٣٩٣٦

جہاد کو منسوخ کرنے کی انگریز کی کوشش :
انگریزوں نے اسے منسوخ کرنا چاہا ہے تو کچھ تو مفتی ایسے ملے کہ جو یہ کہنے لگے یہ ہندوستان دارُالحرب نہیں (دارُالاسلام ہے) ! ! جب ہندوستان دارُالحرب نہیں ہے تو لڑنا کس سے ہے ؟ ! اور انگریز کو بھگانا کیوں ؟ اس کے خلاف تحریک چلانا کیوں ؟ ! ! !
سیاسی استفتاء کا سیاسی جواب :
وہ کسی نے بھوک ہڑتال کی تھی، مولانا انور شاہ صاحب(کشمیری) رحمة اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ہے ؟ اُنہوں نے کہا کہ بھوک ہڑتال تو جائز نہیں ،بھوک ہڑتال ایک تو ہوتی ہے نا چوبیس گھنٹے کی اُس میں تو کوئی بات ہی نہیں وہ ناجائز نہیں ہے، ایک ہے'' مرن برت'' رکھتے تھے ، مرن برت کا مطلب یہ ہے کہ کھائے گا ہی نہیں جب تک کہ وہ کام پورا نہ ہو یہ مطالبہ پورا نہ ہو ! تو ہندوؤں نے ایسے رکھے ہیں مرن برت ! اور لوگوں نے بھی رکھے ہیں ! اور مرے بھی ہیں ! واقعی نہیں کھایا اور مر بھی گئے ! تو اُن سے کسی نے مسئلہ پوچھا تھا یہ کہ اس طرح سے بھوک ہڑتال کرنی جائز ہے یا ناجائز ہے ؟ تو اُنہوں نے پوچھا کہ اس سے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں ؟ ؟ کہا اثرات یہ مرتب ہوتے ہیں کہ جو بات کہی جاتی ہے بھوک ہڑتال کر کے وہ پھر وہاں قصرِ برطانیہ تک پہنچتی ہے ! اور برطانیہ اُس سے ہل جاتا ہے ! ! اُنہوں نے کہا کہ جو چیز اِن کافروں کو انگریزوں کو تکلیف پہنچا سکے اور پریشانی میں ڈال سکے وہ جائز ہے ! !
انگریز کا خود ساختہ نبی اور مفتی :
پھر ایسے ضرورت تھی فتوؤں کی ! تو ایسے فتوے بھی دیے گئے کہ یہ(ہندوستان) تو ''دارُالحرب ''ہے ہی نہیں ! بلکہ ''دارُالاسلام ''ہے ! یعنی انگریزوں کی حکومت گویا مسلمانوں کی حکومت بنادی اُنہوں نے ! خیراسی طرح پیغمبر ایک انہوں نے بنایا ! مرزا غلام احمد قادیانی ! وہ پیغمبر بنا اُس نے بھی یہی کہا کہ جہاد کا حکم منسوخ ہے ! !
نام کا جہاد بھی کام دکھا دیتا ہے :
اب جہاد ایسی چیز ہے کہ اگر غلط کام پر غلط مذہب والے بھی جہاد کا جذبہ پیدا کرلیں اسلام کے نام پر ! ہیں وہ غلطی پر جیسے شیعہ ہیں ! ہیں غلطی پر ! لیکن جذبہ اُنہوں نے جہاد کا پیدا کیا ! نام اُنہوں نے جہاد کا دیا ! جو لڑے گا شہید ؟ ! تو وہ سارے کے سارے(عراق سے) لڑ رہے ہیں ! اُن سے مقابلہ مشکل پڑرہا ہے !
فائدہ امریکہ کو :
اب نفع اُس کاپہنچ رہا ہے امریکہ کو ! کیونکہ امریکہ کی فوجیں پہلے یہاں نہیں تھیں خلیج میں لیکن اب آگئیں ! اُس کے جہاز ! بحری بیڑہ آگیا وغیرہ وغیرہ جہاں وہ نہیں تھا وہاں وہ پہنچ گیا ! ! اور عربوں کی زیادہ نظر اُدھر ہوگئی امریکہ کی طرف ! فائدہ امریکہ کو پہنچ رہا ہے ! !
یہ(خمینی) کس طرح سے لڑ رہا ہے اور ملک میں کنٹرول بھی ہے یعنی وہاں سے آنے والوں نے بتایا کہ مہنگی نہیں ہیں چیزیں ؟ ! لیکن اگر کوئی مہمان آجائے اور چیز بازار سے خریدنی پڑ جائے اپنے راشن کے علاوہ تو وہ بڑی مہنگی ہے وہ آٹھ دس گنا قیمت پر ملے گی ! چار گنی چھ گنی دس گنی قیمت پر ملے گی ! ورنہ خود جو اِنسان اپنا گزارا کرتے ہیں اُن کے لیے جو ہے وہ سستا ہی ہے ! حالانکہ لڑائی کو اتنے سال ہوگئے اور لڑائی کے بعد جو حالات ہوتے ہیں وہ بہت مشکل ہوتے ہیں سنبھالنے ! مگر نام کیا ہے ؟ جہاد کا نام ہے ! اب جب یہ (امریکی)بحری بیڑہ آگیا تو ڈر جانا چاہیے تھا اُنہیں ! مگر ڈرنے کے بجائے اُنہوں نے کہا ہمیں چھ لاکھ آدمی ایسے چاہئیں کہ جو خود کشی پر تیار ہو جائیں ! تو یہ بحری بیڑے کی بھی ہم ایسی تیسی پھیر دیں گے وہ چھ لاکھ آدمی مل گئے اُنہیں ! بات کیا ہے ؟ بات ہے اللہ کا نام اور جہاد کا نام ! وہ یہ لے رہے ہیں اس کی بنا ء پر یہ جذبات پیدا ہورہے ہیں ! !
عراق میں یہ جذبہ نہیں :
یہی جذبات اگر عراق میں بھی ہوں تو بڑی اچھی بات ہے ! وہاں نہیں ہیں ! گو وہ اہلِ سنت ہیں !
ہمارا تعلق اُن سے زیادہ ہے ! وہ یہاں آتے بھی نہیں ہیں ١ پھر بھی ہمیں تعلق اُن ہی سے ہے ! وہ سنت اور سنی ہونے کی وجہ سے ! لیکن وہاں شراب سے تائب نہیں ہوئے ! خدا کی طرف رُجوع نہیں کیا اُنہوں نے ! تو جب تک رُجوع اِلی اللہ نہیں ہوگا کامیابی نہیں ہوگی ! خرم شہر میں عراقیوں کا بہت بڑا مورچہ تھا ! بڑی تعداد میں وہ موجود تھے فوجی ! پینتالیس ہزار ! اور پینتالیس ہزار تو کئی ڈویژن فوج ہے یہ موجود تھی ! اور اُنہوں نے مائنز بچھا دیے تھے کہ یہاں کوئی نہ آسکے ! مگر وہ ایرانی کم بخت وہاں بھی پہنچ گئے اور اُن سب کو پکڑ لیا ؟ ! تو وہ قید میں ہیں ! وہ کیسے پہنچ گئے ؟ بس خود کشی میں کہ مائنز کے اُوپر چلتے رہے ،مرتے گئے ! دُوسرے پیچھے سے آتے گئے ! یا جانور چلائے اُنہیں مار دیا جو بھی صورت تھی ! بظاہر یہ کہ انسانوں کو چلایا ہے ! اور انسان چلے ہیں خود کشی کے ارادے سے قربانی کے ارادے سے ! نتیجہ یہ ہوا کہ اُنہوں نے فتح کر لیا ! !

١ اس ایران عراق جنگ کے دوران ایرانی بہت متحرک رہے ان کے سفیر ''ابو شریف'' اور وفود بہت کثرت سے آتے جاتے تھے مگر عراقی حضرات کی آمد و رفت برائے نام تھی ایک بار عراقی سفیر ایک بڑے وفد کے ساتھ جامعہ تشریف لائے تو انہوں نے اساتذہ اور طلباء میں خطاب بھی فرمایاحضرت نے بھی عربی میں شاندار خطاب فرمایا اور مشرقی عراق کا قدیم اور موجودہ جغرافیہ بتلایا اور یہ بھی بتلایا کہ'' شَطُّ العرب'' پر ایران دعویدار بن رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ'' ابادان'' ایران کا حصہ ہے حضرت نے فرمایا کہ ایران کا یہ مؤقف غلط ہے یہ عراق کا علاقہ ہے اور اس کا پہلے سے پرانا نام ''عبّادان'' چلا آ رہا ہے ایرانی اس کو'' ابادان'' بولتے ہیں جس پر وفد کے تمام ممبران بہت حیران ہوئے کہ ایک ہندی شیخ اہلِ عراق کو اِن ہی کا جغرافیہ بتلا رہا ہے !
اس موقع پر اپنے خطاب میں خمینی کے بارے میں یہ تاریخی جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ '' ھُوَ دَجَّال مِنَ الدَّجَاجِلَةِ ''
مولانا عبدالقادر صاحب آزاد اِس دفد کے ہمراہ تھے ان کے بقول جب اُنہوں نے اِن کو دریائے راوی کے پُل پر اسلام آباد جانے کے لیے رخصت کرتے ہوئے تاثرات معلوم کیے تو عراقی سفیر نے کہا کہ
''جامعہ اشرفیہ میں میں نے اچھی عمارت دیکھی ،حزب الاحناف میں اچھا مقبرہ دیکھا اور جامعہ مدنیہ میں اِس دریا جیسا علم رکھنے والے عالم کی زیارت کی۔'' محمود میاں غفرلہ
بحوالہ انوارِ مدینہ جنوری ٢٠١٩ء (ماضی کی جھلک ١٢ ستمبر ١٩٨١ئ، قدرے اضافہ کے ساتھ) ڈاکٹر محمد امجدغفرلہ

ان عراقیوں کا رُجوع اِلی اللہ نہیں تھا ! اور جہاں رُجوع اِلی اللہ اور جہاد جمع ہوجائے وہاں پھر کیا ہوگا حال ! وہ تو پھر ہندوستان سے آپ ڈرتے ہیں ! کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ! کوئی آہی نہیں سکتا گولہ باری کر جائیں کچھ بھی کرجائیں میزائلوں سے مار لیں ! کتنا مار لیں گے ؟ ! مگر جب آئیں گے قبضہ کرنے کے لیے اُس وقت یہاں والے مسلح ہوں گے ! جہاد کے لیے تیار ہوں گے ! جتنے آنے والے ہوں گے مارے جائیں گے ! لیکن یہاں یہ بات نہیں ہے پوری قوم سوئی ہوئی ہے !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت کو منع کیا ہے کہ یہ حالت کیا بناتے ہو تم ؟ ! یہ بالکل ناجائز ہے ! جہاد کے جذبات جب ہوں گے تو اِیثار بھی آئے گا ! اِیثار، قربانی یہ چیزیں پیدا ہوں گی ! مگر یہ چیزیں ہم میں بالکل نہیں ہیں ! یہ کام کس کے ہیں ؟ یہ ایک دو کے بھی نہیں ! یہ کام ہیں حکومت کے اور فرض ہے حکومت پر جہاد کی تیاری ! ! یہ امام کے فرائض میں ہے امام عادل ہو تو بھی جہاد کا جب حکم دے تو ٹھیک ہے ! اور اگر عادل نہیں بھی ہے اور حکم جہاد کا دے رہا ہے تو اُس کے جھنڈے کے نیچے بھی جہاد ہوگا ! ! جہاد کیا جائے گا ! !
''تقدیر'' پر اِیمان :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وَالْاِیْمَانُ بِالْاَقْدَارِ ١ یہ بھی بڑا ضروری ہے تقدیر پر اِیمان ! اور اس سے انسان کو بڑا صبر ملتا ہے ! بڑا ثبات بڑی پائیداری اور بہت تحمل ! برداشت ! تقدیر پر ایمان (کی برکت سے) ! اب تقدیر ہمیں نظر نہیں آتی ! مگر ایمان کی وجہ سے ایسے ہے جیسے نظر آرہی ہو ! ہمیں اُس پر ایمان رکھنا بتایا گیا ! یہ نہیں ہے کہ تمہیں نظر آجائے گا لکھا ہوا ،لکھا ہوا نظر آجائے تو پھر دارُالامتحان ہی نہ رہے ! اور نیک کو(اپنا انجام) نیک نظر آجائے تو وہ کرے ہی نہ نیکی ! اور برے کو(اپنے انجام کی ) برائی نظر آجائے کہ انجام برا ہوگا تووہ نیکی ہی نہ کرے کہ انجام تو خراب ہونا ہی ہے ! لہٰذاوہ تو مخفی ہیں سب چیزیں ! آپ کو اپنی سمجھ کے مطابق جو اعمال کرنے ہیں وہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائے ہیں اُن میں یہ ایک عقیدہ ہے کہ تقدیر پر اِیمان رکھو ! ! ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضااور فضل سے دُنیا اورآخرت میں نوازے ، آمین۔ اختتامی دُعا

١ مشکوہ کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٩




Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.