jamiamadniajadeed

"اِحسان" کی دو صورتیںدُعائے مغفرت کا فائدہ

درس حدیث 245/4 ۔۔۔۔۔ اسلامی فتوحات تین نسلوں تک جاری رہیں۔ ''اِحسان'' کی دو صورتیںدُعائے مغفرت کا فائدہ ۔ تمام جزئیات کا حتمی علم صرف اللہ کو ہے
(1987-05-03)

( اپریل 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اسلامی فتوحات تین نسلوں تک جاری رہیں ۔''اِحسان ''کی دو صورتیں
دُعائے مغفرت کا فائدہ ۔ تمام جزئیات کا حتمی علم صرف اللہ کو ہے
( تخریج و تزئین : شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس حدیث 245/4 ٥ رمضا ن المبارک ١٤٠٧ھ/٣مئی ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
''اسلام ''اور'' ایمان'' میں ایک فرق یہ بھی کیا گیا ہے کہ'' اسلام'' تو نام ہے زبان سے اقرار کر لینے کا اور'' ایمان'' نام ہے اُن باتوں کا ذہن میں دل میں رچ جانے کا، اگر وہ باتیں ابھی دل میں رچی نہیں راسخ نہیں ہوئیں تو وہ آدمی ابھی'' مسلمان'' ہوا ہے'' مومن'' نہیں ہوا قرآنِ پاک میں ہے ( قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا ) یہ دیہاتی آدمی جو آتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایمان قبول کیا ہم صاحب ِایمان ہو گئے تو آپ اُنہیں یہ بتلا دیجئے کہ ابھی تم صاحب ِایمان نہیں ہوئے تمہیں یہ کہنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہوگئے ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان نہیں داخل ہوا ہے ( وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ) تو ایمان اگر دل میں رچ جائے تو پھر مومن ہے اور اگر زبان سے کہہ رہا ہے اللہ کو ایک مان رہا ہے جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا رسول مان رہا ہے تو ابھی وہ ایمان کے درجہ میں نہیں پہنچا اسلام کے درجہ میں پہنچا ہے ۔
مسلمان ہونے والوں کی قسمیں :
بعض ایسے ہیں کہ بیٹھے سوچتے ہی رہتے ہیں مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور پھر ایمان قبول کرتے ہیں تو اُن کا یہ نہیں ہے اُن کو یہ نہیں کہا جائے گابلکہ وہ بالکل صحیح معنی میں مسلمان ہیں !
اور ایک یہ ہے کہ غلبہ دیکھ کر گمان کر کے کہ یہ ضرور اللہ کے سچے رسول لگتے ہیں وہ اسلام میں داخل ہورہا ہے ، اور کوئی اس لیے بھی آتے تھے مسلمان ہونے کے لیے کہ مارے نہ جائیں اسلام میں داخل ہوجاؤ تاکہ پھر ہماری لڑائی ان سے نہ رہے ورنہ اختلاف چل رہا ہے کسی بھی وقت مقابلہ ہو سکتا ہے تو پھر نقصان ہوگا ! اور بعض اس لیے آرہے تھے اور مسلمان ہوتے تھے کہ مالِ غنیمت ہاتھ لگے ! !
اسلامی فتوحات تین نسلوں تک جاری رہی ہیں :
کیونکہ مسلمان برابر فتوحات حاصل کرتے ہی جارہے تھے مسلمانوں کی فتوحات رُکی بھی نہیں ہیں بہت بعد تک جاری رہی ہیں تین نسلوں تک جاری رہی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ
ایک دور وہ آئے گا جس میں یہ پوچھا جائے گا کہ لشکر میں کوئی صحابی ہیں ؟ ؟
تو جب یہ کہا جائے گا کہ ہیں صحابی ! تو فتح حاصل ہوجائے گی ! !
پھر دور آئے گا جس میں پوچھا جائے گا کہ کوئی ایسا ہے جو صحابی کو دیکھے ہوئے ہو ؟ ؟
توکہا جائے گا کہ ہے ! تو بھی فتح ہوجائے گی ! !
پھر ایسا دور آئے گا کہ کہا جائے گا کہ کوئی ایسا ہے آدمی کہ جس نے صحابہ کو دیکھنے والوں کو دیکھا ہو ؟ توکہاجائے گا کہ ہے ! تو بھی فتح ہوجائے گی ! ! !
تو یہ تین دور تو ایسے ہیں کہ اس میں جس طرف بھی مسلمان گئے بالکل آقا ئے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق فتح ہوتی ہی رہی ، افریقہ کی طرف گئے ہیں پرلے سرے تک پہنچ گئے اُس سے بھی اُوپر یورپ میں داخل ہوئے جبرالٹر یہ جبل الطارق وغیرہ کے راستہ تو اسپین تک پہنچ گئے یہ سب مشہور معروف ہیں تو فتوحات بکثرت ہورہی تھیں تو بعض لوگ اس خیال سے مسلمان ہوجاتے تھے کہ چلو فائدہ رہے گا اس میں ، تو اُن کو فرمایاگیا کہ ابھی یہ بات نہیں ہے ابھی تو اِس درجہ کا نام اسلام ہے اللہ کی رحمت حاصل ہوگی ضرور بقدر ِاسلام ،اللہ کا اور آپ کا معاملہ بقدرِ اسلام ہے ۔اور ایمان جس کا نام ہے وہ بڑی چیز ہے وہ اس کے دل میں آہستہ آہستہ جب راسخ ہوجائے گی پھر یہ ایمان والا یا مومن کہلا سکے گا۔
''احسان'' و '' تصوف'' :
یہاں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس آنے والے نے یہ سوال کیا فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانْ ''احسان'' کے بارے میں مجھے بتلایئے کہ احسان کسے کہتے ہیں ؟ اب قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے (یَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ ) ( لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَة ) ( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )
تو احسان کرنے والو اچھائی کرنے والو ، تو یہ بات تو صحابہ کرا م جانتے تھے مگر آنے والے جو صاحب تھے اُنہوں نے جو دریافت کیا وہ اور الفاظ سے دریافت کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بتلائیے احسان کسے کہتے ہیں یہ بھی میں پوچھنا چاہتاہوں تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا جواب دیا اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ خدا کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ لیکن یہ تصور بہت مشکل ہے کہ اللہ کو ہم دیکھ رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے بہت زیادہ بلند و بالا ہے ہمارے تصورات سے ،اللہ تعالیٰ شکل سے منزہ ہے اور تمام خوبیوں سے متصف ہے تمام عیبوں سے پاک ہے اجمالاً تصور کیا جاسکتا ہے اور کچھ اس کو صوفیائے کرام بتلاتے ہیں سکھلاتے ہیں جیسے اَنبیائے کرام سے اُنہیں پہنچا اور اُسی کو وہ تصوف کی تعلیم کا آخری درجہ(اور سبق گردانتے ہیں ) ۔
اللہ کی عنایات کی کوئی حد مقرر نہیں :
اور (دُوسری طرف)خداکی عنایات کا تو کوئی درجہ ہی نہیں مقرر کیا جا سکتا وہ تو چلتی رہتی ہیں عمر بھر، یہ(تصوف) تو ایسے ہے جیسے کوئی نصاب ہو، کوئی کورس پڑھا جائے اُس کی تعلیم کا آخری درجہ یہ (احسان)ہے اُس کے بعد وہ اپنے علم کو کتنا بڑھاتا ہے یا خداوندی عنایات کتنی اُس پر ہوتی ہیں یہ الگ چیز ہے۔

''احسان ''کی پہلی صورت :
تو سرورِکائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ کہ اللہ کی ایسے عبادت کرو کہ گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو ،یہ نہیں فرمایا کہ دیکھ رہے ہو ١ حضرت مجدد صاحب کا ایک جملہ ملتا ہے اُن کے مکتوبات میں ،بڑا اچھا ہے ! وہ یہ کہ حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک جو ہے وہ ''وَراء ُالوراء ''ہے جو بھی تصور کر لیں آپ وہ آپ کا تصور کہلا ئے گا اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اس سے بھی آگے ہے پاکیزگی میں مقدس ہونے میں برتر وبالا ہونے میں جہاں تک انسان کا خیال پہنچ سکتا ہے وہ پہنچالے بس ،باقی انسان محدود، خیال محدود، طاقت محدود، معلومات محدود، وہ نہیں پہنچ سکتا، آگے عاجزی ہے اور اعتراف ہے اُس کی پاکیزگی کا جیسے
(سُبْحَانَ اللّٰہْ ) (سُبْحَانَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ) ( فَسُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ )
تصوف کی تعلیم اور تلقین یہ موجود ہے دُنیا میں اور اَنبیائے کرام علیہم الصلٰوة والسلام سے چلی ہیں اور صحیح صوفیائے کرام سے یہ چلی آرہی ہے اور آگے تک چلتی چلی جائے گی، اِنشاء اللہ۔
''احسان ''کی دُوسری صورت :
دُوسرا درجہ اور ہے فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہ یَرَاکَ یہ اگر خیال مشکل ہو جمانا کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں کیونکہ جب یہ خیال کریں گے تو کوئی چیز خیال میں لانی پڑے گی اور جب کوئی چیز خیال میں لائیں گے تو پھر وہ یہ چیز ہو گی وہ پھرمنع ہوجائے گی اُس کی نفی کرنی پڑے گی کیونکہ (قرآنِ پاک میں ہے) ( لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْیٔ )اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک اور اُس کی صفات جیسی کوئی چیز نہیں ہے تو اُس میں مشکل پڑے گی وہ بغیر(شیخ کامل کی) تلقین کے، بغیر مشق کے نہیں ہو سکے گا تو یہ دُوسرا خیال کرلیں آپ کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں ۔آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ جو عبادت اس طرح ادا کی جائے کہ گویا اللہ تعالیٰ مجھ کو دیکھ رہے ہیں از اَوّل تا آخر یہ خیال رہا تو پھر وہ عبادت احسان کے ساتھ ادا ہو ئی
١ بلکہ گویا کہ دیکھ رہے ہو یعنی فرض کرنا ہے کہ جیسے دیکھ رہے ہیں کیونکہ ذاتِ باری کی حقیقی رؤیت ناممکن ہے۔ محمود میاں غفرلہ
وہ عبادت صحیح طرح اداہوئی وہ ایمان بھی اسلام بھی معرفت بھی یعنی احسان بھی اُس میں آگیا۔
قیامت کے بارے میں سوال و جواب :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ صاحب)پھر آگے اور سوال کرتے ہیں کہ فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَةِ قیامت کے بارے میں مجھے بتلائیے ! اس پر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ کہ جتنا تم جانتے ہو بس اُتنا ہی میں بھی جانتا ہوں جو مجھ سے سوال کر رہا ہے جتنا وہ جانتا ہے بس اُتنا ہی میں بھی جانتا ہوں اور قرآنِ پاک میں بھی ہے (اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَة اَکَادُ اُخْفِیْھَا ) قیامت آنے والی ہے میں اُس کوبالکل ہی چھپا نا چاہتا ہوں ۔
قیامت کیوں آئے گی ؟
آنے والی کیوں ہے ؟ ( لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی) تاکہ ہر آدمی کو وہ مِلے جس کے لیے وہ کرتا رہا ہے جدو جہد یا عمل کرتا رہا ہے، نیک عمل کرتا رہا ہے اگر، تو اُس کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، کسی نے حافظ بنایا اپنی اولاد کو آگے اُس نے اپنی اولاد کو حافظ بنایا یا آگے اُس نے پڑھایا اور اُس سے سینکڑوں نے فائدہ حاصل کیا تو اب یہ اِس آدمی کا عمل بھی چل رہا ہے اِس کی اولاد کا بھی چل رہا ہے یہ نیکیاں چل رہی ہیں کب تک چلیں گی یہ نیکیاں ، جب تک قیامت نہ آجائے ۔
اسی طرح برائیوں کا بھی حساب ہے کسی نے برائی ایجاد کی ایک برائی خود ایجاد کر کے کی دُوسرے اُس کے بعد دیکھنے والوں نے یا جنہیں اُس نے سکھایا ہے وہ برائی کا کھاتہ اُس کا الگ چلتا تھا جیسے کہ قرآنِ پاک میں آیا ہے کہ سب سے پہلا قتل جو ہوا ہے وہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں میں جو آپس میں ایک نے دُوسرے کو مارا تھا اور شہید کردیا تھا تو یہ سب سے پہلا قتل ہے اور حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ اِلَّاکَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْاَوَّلِ کِفْل مِّنْ دَمِھَا جو بھی دُنیا میں ناحق قتل ہوتا ہے اُس کا ایک حصہ گناہ کا جس نے سب سے قتل پہلے کیا ہے اُس کو اِس گناہ میں حصہ پہنچ رہا ہے لِاَنَّہ اَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ ٢
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٢
٢ بخاری شریف کتاب الانبیاء رقم الحدیث ٣٣٣٥
کیونکہ اُس نے سب سے پہلے بنیاد رکھی ہے اس کا م کی، قتل کے طریقے کی کہ دُوسرے کو مار دیا جائے تو جس نے کوئی برائی کا کام شروع کیا ہے بنیاد ڈالی ہے وہ بھی چلے گا اور گناہ میں وہ شامل رہے گا جیسے کہ نیکیوں میں ۔
جو کچھ آپ آج کر رہے ہیں اب بیٹھے ہوئے سن رہے ہیں نماز پڑھی ہے جو بھی کچھ کر رہے ہیں یہ جتنا کچھ آپ کو مِل رہا ہے ثواب اتنا خود بخود سب کو مِل رہا ہے اُوپر تک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مِل رہا ہے جو کچھ آپ کر رہے ہیں سب کا ثواب اُتنا ہی اُن کو مِل رہا ہے اور جن جن کے ذریعے جو جو تعلیم پہنچی ہے اُن کو بھی مِل رہا ہے بغیر اس کے کہ کم ہو یعنی یہ اللہ کے دینے کا ایک طریقہ ہے یہ نہیں ہے کہ یہ حساب ہے کوئی بلکہ بِلا حساب ہے، دینے کا ایک طریقہ ہے بس ! !
اورگناہ کا بھی یہ ہے کہ وہ سبب بنتا ہے ایک دُوسرے کو دیکھ کر گناہ کرتے ہیں نقل کرتے ہیں سیکھتے ہیں آمادہ ہوتے ہیں تو وہ بمنزلِ اُستاذ شاگرد کے ہوتے جا رہے ہیں اُن میں بھی یہ چلے گا تو یہ کھاتے کُھلے ہوئے ہیں اگر چہ اُس کو مرے ہوئے کئی ہزار سال ہو گئے ہیں جس نے پہلا قتل کیا تھا اور اُس کے علاوہ جنہوں نے نیکیوں کی بنیادیں رکھی ہیں اُنہیں بھی ہزاروں سال ہوگئے ہیں لیکن نیکی والوں کو نیکی کا برائیوں والوں کو برائی کا(حصہ) مِل رہا ہے تو حق تعالیٰ اس سارے حساب کو جو مسجد اب بناگئے جنہوں نے یہ مسجد بنائی ہے جو پڑھ رہے ہیں نماز جب تک مسجد ہے اور مسجد قیامت تک ہے تو ثواب بھی قیامت تک رہے گا ! ! اب اس کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ رکھ دیا ہے کہ قیامت آجائے گی سب چیزیں ختم اور سب حسابات رُک گئے پھر دوبارہ اُٹھا کر(زندہ کر کے) اُسی کے مطابق (کھاتہ)اُس کے ساتھ کر دیا جائے گا ! ! !
دُعائے مغفرت کا فائدہ :
اور یہ بات کہ خود کچھ نہ کیا ہو یا کم کیا ہو اور اَجر بہت ملے اُسے خدا کے یہاں ، جب اُس کا حساب ہو رہا ہے قبر میں تو نیکیاں زیادہ نہیں ہیں لیکن جب اُٹھتا ہے قیامت کے دن تو بہت نیکیاں ہوتی ہیں ایسی مثالیں حدیث شریف میں آئی ہیں ۔ پوچھے گا خدا وند کریم مجھے اتنا زیادہ ثواب کہاں سے مِل گیا یعنی یہ اُس کے اَنداز سے زیادہ ہے جو اُس نے کیا تھا تو جواب یہ ہوگا کہ بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ ١ یہ تمہارے بچے جو تھے بیٹا جو تھا وہ تمہارے لیے استغفار کرتا رہا ہے اُس سے اتنا مِل گیا ! ! !
نیکیاں بڑھانے کے طریقے :
ایک ہے خرچ کرنا اور اُس کا ثواب بخش دینا، نماز پڑھنا اُس کا ثواب بخش دینا، روزے نفلی رکھنا اُن کا ثوب بخش دینا اِس سے تو نیکیاں اور بھی زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ اور ایک ہے فقط استغفار کرنا جیسے قرآنِ پاک میں طریقہ بتا دیا گیا قرآنِ پاک میں یہ دُعائیں آگئیں ( رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ )اس طرح کے اور بھی کلمات ہیں ۔ تو اولاد بھی نیکی میں زیادتی کا سبب بن جاتی ہے اِن کا اُس کے لیے دُعائے مغفرت کرنا رفع درجات کا سبب بن رہا ہے بلندی درجات کا ذریعہ بن رہا ہے۔ تو حق تعالیٰ نے اِس کھاتے کو ختم کرنے کے لیے کہ جس کی جتنی نیکی ہے وہ بھی رُک جائے اور جو برائی ہے وہ بھی رُک جائے یہ قیامت قائم فرمانی ہے اُ س کے بعد دوبارہ اُٹھیں گے تو بہت کچھ مِلے گا جو کچھ کسی نے کیا ہے ( لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی )ہر آدمی کو وہ جزا ملے گی جو وہ کرتا رہا اور اگر جزا سزا کے بغیررہ جائیں یوں ہی لوگ تو یہ اِنصاف سے بعید ہے ۔ ایک آدمی نے دُنیا میں مصائب بہت جھیلی ہیں اُن کا بدل وہ نہیں پا سکا تو اُن کا بدل نہ مِلنا یہ اللہ کی رحمت اور فضل سے بعید ہے۔
صحابہ کرام کا مجاہدہ اور آپ کے آنسو :
اور اِس کی مثالیں موجود ہیں صحابہ کرام نے ایسے ہی کیا اُنہوں نے ایمان لانے کے بعد سے وفات تک بالکل بے آرامی کی زندگی گزاری اور بخوشی گزاری حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو بہت یاد کرتے تھے بڑے بڑے حضرات ،حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں ہیں
١ سُنن ابن ماجہ باب بر الوالدین رقم الحدیث ٣٦٦٠
وہ یاد کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا پہلا زمانہ دیکھا تھا ریشمی کپڑے ہوتے تھے ریشمی بستر ہوتا تھا ریشم تھا اوڑھنا بچھونا اور مدینہ طیبہ میں جب وہ آگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آگئے تھے تبلیغ کرتے رہے ایمان کی دعوت دیتے رہے لوگ مسلمان ہوتے چلے گئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ پہنچے ہیں ہجرت فرما کر تو ایک دن اُن کو دیکھا کہ اُن کے کپڑوں میں چمڑے کا پیوند ہے ! کپڑے کا نہیں ! ! تو چمڑا ہر ایک کو ہرجگہ مِل سکتا ہے وہ راستہ میں پڑا ہوا بھی مِل جاتا ہے کسی بھی جانور کا ہو سکتا ہے اُس کا ہی کپڑے میں لگا لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برداشت نہیں کر سکے اور مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے انہوں نے ہی پوچھا کیا وجہ ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا پہلا زمانہ جو تھا اور اب یہ دور جو ہے اِس کا موازنہ اِس کا تفاوت اور یہ کہ تم کتنی مشکلات میں اب گزر رہے ہو یہ خیال کر کے مجھے آنسو آگئے ! ! تو انہوں نے عرض کیا لیکن میں اس حالت میں زیادہ خوش ہوں ! ! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے بھی کہا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ اُس حالت کی بہ نسبت اِس حالت میں انہوں نے کہا میں زیادہ خوش ہوں اِسی حالت پر رہے کہ ایک لڑائی ہو گئی بدر کی، دُوسری لڑائی ہو گئی اُحد کی، دُوسرے سال اُحد کی لڑائی میں وہ شہید ہو ئے جب شہید ہوگئے تو اتنا کپڑا میسر نہیں تھا کہ جو پورا کفن ہوسکے سر ڈھانپتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے پاؤں ڈھانپتے تھے توسر کھل جاتا تھا ! ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سر تو ڈھانپ دو کپڑے سے پاؤں ڈھانپ دو گھاس سے اِس طرح سے دفن ہو ئے ١ تو اِنہوں نے کوئی دن (ظاہری)عیش و آرام والا تو پایا ہی نہیں اسلام سے لے کر شہادت کے دور تک (البتہ رُوحانی و قلبی اور ضمیر کے اطمینان کی وجہ سے خوش رہتے تھے)۔
اور اب بھی اِن دو حضرات کی قبر یں وہاں نمایاں ہیں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے برابر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی اور باقی جو شہدائے اُحد ہیں اُن کی قبریں الگ الگ نمایاں نہیں رہیں وہ سب ایک ہیں ایک چبوترا ہے بنا ہوا بس اُس میں ایک سی زمین ہے لیکن ان دو حضرات کی قبریں اللہ کی شان ہے کہ ممتاز ہیں ابھی تک موجود ہیں اُن کی نشانیاں علامتیں ہیں ۔
١ بخاری شریف کتاب الجنائز رقم الحدیث ١٢٧٦
قیامت اور تمام جزئیات کا حتمی علم صرف اللہ کے پاس ہے :
تو اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے یہ کہ قیامت آئے لیکن کب آئے گی ؟ یہ اُس نے نہیں بتایا ! سب کچھ بتادیا اس طرح آئے گی یہ ہوگا یہ ہوگا یہ ہوگا ایسے گزرے گی، کیفیت یہ ہوگی شکل یہ ہوگی اُس کے لیے فرشتہ الگ ہے وغیرہ وغیرہ سب بتادیا وقت نہیں بتایا کہ وقت کیا ہوگا اُس کا ! ! تو (جو صاحب سوال کرنے والے تھے ) اُنہوں نے قیامت کے متعلق پوچھا تو اُس کا آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ جتنا پوچھنے والا جانتا ہے اُتنا ہی میں بھی جانتا ہوں اُس سے زیادہ نہیں جان سکتا یہ خداوند کریم کی حکمت ہے کہ اُس کا علم اُس نے اپنے پاس ہی رکھا ہے البتہ ''علم بالجزئیات'' یعنی کسی کی جزئیات کا علم بذریعہ کشف ہو جانا ایسا ہوتا آیا ہے بزرگانِ دین میں لیکن تمام جزئیات کا علم کسی کو حاصل ہو قطعی طور پر یہ نہیں ہو سکتاایسا علم صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے کہ تمام مخلوقات کیڑوں سمیت جو برسات میں خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اور خود بخود فنا ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے اس طرح کا ایک مادّہ رکھا ہے کہ اُس قسم کی آب وہوا جب آئے گی تو وہ پیدا ہوجائیں گے بے حساب ،اُن سب کا کھانا پینا رہنا سہنا جو شمار سے باہر ہے پیمانہ ہی نہیں ،عدد ہی کوئی نہیں اُس کا ،وہ سب پتہ اللہ کو ہے وہ خالق ہے اُن کا ،وہ رازِق ہے اُن کا، مُحْیِ ہے مُمِیْت ہے یہ سب چیزیں صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں ! باقی اور کوئی نہیں جان سکتا کیونکہ اور کوئی رب تو ہے بھی نہیں ! ! ہیں تو سب مخلوقات ہی ،یا رب کی طرف راہ دکھانے والے رب کے فرستادہ ہیں رب کے مقرب ہیں رب نہیں ہیں ! ! اللہ تعالیٰ کی ذات پاک جو ہے رب العالمین ہے پروردگار ہے پالنے والی ہے خالق ہے مصوِّر ہے ( لَہُ الْاَسْمائُ الْحُسْنٰی) تو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کے ساتھ یہ خاص ہے یہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور پھر علامات آرہی ہیں کہ علامات یہ ہیں قیامت کی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح عقائد پر قائم رکھے اور آخرت میں رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والسلام کے ساتھ محشور فرمائے ،ہمارے اعمال کو شرف ِ قبو لیت عطا ء فرمائے۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اِختتامی دُعاء .............

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.