درس حدیث 273/31 ۔۔۔۔۔ حدیث نقل کرنے میں کسی بھی صحابی سے غلط بیانی ثابت نہیں !صحابہ کے ''اقوال'' بھی ''حدیث'' ہیں ! '' کفر '' اور'' فعلِ کفر '' میں فرق !کفر کا فتوی لگانے میں بے اِحتیاطی سے کافروں کی تعداد بڑھ جائے گی !بدعتی دُنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں ! ناواقف زیادہ ہوںگے تو بدعتی بھی زیادہ ہوںگے ! (1987-11-22)
( جون 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
حدیث نقل کرنے میں کسی بھی صحابی سے غلط بیانی ثابت نہیں !
صحابہ کے ''اقوال'' بھی ''حدیث'' ہیں ! '' کفر '' اور'' فعلِ کفر '' میں فرق !
کفر کا فتوی لگانے میں بے اِحتیاطی سے کافروں کی تعداد بڑھ جائے گی !
بدعتی دُنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں ! ناواقف زیادہ ہوں گے تو بدعتی بھی زیادہ ہوں گے !
( تخریج و تز ئین : حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر30 کیسٹ نمبر 79-A,B 22 - 11 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ تین ایسی چیزیں ہیں کہ جو اِیمان کی جڑ ہیں ثَلَاث مِنْ اَصْلِ الْاِیْمَانِ ۔
ایک یہ کہ اَلْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ جو آدمی لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لے اُس سے رُک جاؤ !
لاَ تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍکسی گناہ کی وجہ سے اُسے کافر نہ کہو !
وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلٍ ١ کوئی برا کام ہوجائے تو اُس کی وجہ سے اُس کو اِسلام سے خارج نہ کرو، خارج نہ سمجھو ! ! !
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٩
یہ تو بالکل ایسے ہو گیا جیسے میں نے عرض کیا تھا پچھلی دفعہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک جماعت پیدا ہوئی فرقہ پیدا ہوا جنہیں '' حَرُوْرِِیْ ''بھی کہا جاتا ہے اور'' خَوارِج'' بھی کہا جاتا ہے اُس فرقے نے یہ عقیدہ بنالیاکہ جو آدمی کبیرہ گناہ کرے وہ اِسلام سے خارج اور کافر ہوگیا دوبارہ مسلمان ہو ! لیکن اس حدیث شریف میں اُن کی تردید ہے ! صحابہ کرام نے جو سنا وہ بتلایا اور صحابہ کرام نے جو سمجھا جو سنا جو بتلایا اُس پر چلنا یہی اصل میں ''اہلِ سنت'' کی علامت ہے ! ! !
خوارج اور معتزلہ بدعت فی العقیدہ میں مبتلا ہوئے :
اگر اِس سے ہٹ کر چلتا ہے کوئی تو وہ پھر اہلِ سنت میں داخل نہیں رہا ! وہ ''بدعتی'' فرقہ کہلائے گا ! خوارج کا فرقہ یہ بھی بدعتی ! اور معتزلہ اِن سے ذرا دُوسرے درجے میں تھے وہ بھی بدعتی ! تو بدعت ایک تو ہوتی ہے اعمال میں ! ایک ہوتی ہے عقائد میں ! تو عقائد کی بدعت میں یہ لوگ مبتلا تھے !
توجو لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لے اُس سے رُک جاؤ ،کس چیز سے رُک جاؤ ؟ اِس چیز سے رُک جاؤ کہ مثلاً لڑائی ہورہی ہے اور کوئی آدمی لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لیتا ہے تو عین لڑائی میں بھی رُک جائیں ! ایک صحابی کا اسی طرح کا قصہ ہوا تھا اُنہوں نے مسئلہ پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ ایک آدمی ہے میدانِ جہاد میں وہ میرے اُوپر حملہ آور ہوتا ہے اس طرح کہ میرا ہاتھ کاٹ دیتا ہے ! میں اُس کے پیچھے جاتا ہوں اور بعد میں سمجھتا ہے وہ کہ میں مارا جاؤں گا تو وہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لیتا ہے تو میں اُسے مارُوں یا رُک جاؤں ؟
رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے فرمایا کہ نہیں ، نہیں مار سکتے اب ! انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو مُلْتَجِأً یعنی پناہ پکڑنے کے لیے یہ بات کہہ رہا ہے ویسے تو نہیں کہہ رہا سچ مچ ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے ویسے نہ بھی کہہ رہا ہو جس طرح بھی کہہ رہا ہو رُکنا پڑے گا !
اُصول تو کوئی بنایا ہی جاتا ہے اُس اُصول کے تحت ہی چلنا پڑتا ہے ! تواسلام نے یہ اُصول بتایا کہ جو لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دے پھر اُسے نہ مارو ! اور اگر پھر بھی تم مارو گے تو پھر تم اُسی کے درجہ میں چلے گئے یعنی جو وہ کافر تھا اُس کے قریب قریب تم بھی چلے گئے ! اور مسلمان کو کافر سمجھنا یا کافر کہنا یہ غلط ہے ، یہ نہیں کیاجا سکتا ! تو کسی گناہ کی وجہ سے کافر کہہ دیا جائے یہ نہیں ہوگا ! ! !
صحابہ کی خدا خوفی :
رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کے زمانے میں صحابہ کرام سے گناہ تو ہوئے اُنہوں نے استغفار بھی کیا معافی بھی مانگی اللہ سے ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ طلب کیا کہ جو ''حد ''ہوتی ہے وہ نافذ کی جائے ہمارے اُوپر تاکہ آخرت کے حساب سے ہم بچ جائیں ! ! گناہ اُن سے ہوئے تھے ! اور اُن پہ کوئی دعویدار بھی نہیں تھا ! مگر اُن کی طبیعت اللہ تعالیٰ نے ایسی بنادی تھی کہ اُنہیں چین ہی نہیں آیا حتی کہ اپنے اُوپر ''حد ''لگوائی ! ؟ گواہ بھی کوئی نہیں ! خودہی دعویٰ کر رہے ہیں ! اور خودہی حد لگوا رہے ہیں اپنے اُوپر ! ؟ مرد بھی ہیں ایسے اور عورتیں بھی ہیں ایسی ! ! ! مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں کافر تو نہیں کہا ! گناہ تو ہوا تھا اُن سے، کبیرہ ہوا تھا کافر تو نہیں فرمایا ! چوری کر لی ہاتھ بھی کاٹا گیا کافر نہیں کہا گیا ! یہ کہا گیا ہے کہ توبہ کرو !
توبہ کرانے کی حکمت :
کیونکہ بعض دفعہ بلکہ بہت دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے جیسے کہ قتل ہے چوری ہے اور اِن میں پکڑا جاتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ اب چھوٹ کے جاؤں گا تو پھر ڈاکہ ڈالوں گا ! گویا ابھی اُس نے توبہ نہیں کی ! ! تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے فرمایا کہ توبہ بھی کرنی چاہیے یعنی آئندہ اس کام کو نہ کرنے کا اِرادہ ! اور اس کام کو جو کیا ہے برا سمجھنا، یہ ضروری ہے ! اگر یہ نہیں ہوا اور فقط سزا ہوئی ہے تو پھر یہ ہے کہ آخرت میں تخفیف تو ہوجائے گی کیونکہ (سزا کی صورت میں )تکلیف تو پہنچی، تکلیف تو اُس نے اُٹھائی ہے اور بعض صورتوں میں تو ہمیشہ کے لیے وہ معذور ہوجائے گا،(مثلاً) ہاتھ سے معذور ہوگیا چوری کرنے پر ! !
سزائوں میں چھان بین اوراِحتیاط :
اس میں ایک بات میں یہ ویسے کہنی چاہتا تھا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بس آسان ہے ہاتھ کٹنا ! ہاتھ کٹنا بھی آسان نہیں ہے ، یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں سزائیں بڑی سخت ہیں ٹھیک ہیں بڑی سخت ہیں ! مگر اُس کے ثبوت بھی کافی سخت ہیں ! آسانی سے اُن کا ثبوت بھی نہیں ہوتا اور آسانی سے وہ جاری بھی نہیں کی جاتیں ! اُن کے ثبوت کے لیے بھی بڑی شرائط ہیں ! اور چوری جسے شریعت نے قرار دیا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ یہاں سے پڑی ہوئی چیز اُٹھا کے لے جاؤ تو چوری ہوگئی یہ نہیں ہے چوری ! چوری کا مطلب یہ ہے کہ مال ہو محفوظ جگہ ہو وہاں پہنچے ایسا آدمی جس کا کوئی تعلق نہ ہو ،کوئی تعلق اُس کا اِس گھر سے نہیں ہے یہاں کا غلام نہیں ، خادم نہیں ، ملازم نہیں ،اگر ملازم ہے اور چیز کھلی پڑی ہے تو کھلی پڑے ہونے میں بھی(سزا کی) تخفیف ہوگی اور بہت طرح تخفیف ہے یعنی اس میں ہاتھ نہیں کٹے گا اور سزائیں (کم درجہ کی) دے دی جائیں گی ! تعزیری کار روائی کردی جائے گی ہاتھ کٹنا نہیں ہوگا ! شریک ہے کار وبار کا وہ چرا لیتا ہے تو اب بظاہر تو چوری ہے لیکن کاروبار میں شرکت ہے اس بناء پر ہاتھ نہیں کٹے گا اُس کا ! !
تو تقریبًا کوئی پندرہ یا سترہ توعام کتابوں میں ہیں موجود شکلیں کہ جن میں ہاتھ نہیں کٹتا ! بلکہ کوئی اور سزا دے دی جائے گی'' تعزیز'' جسے کہتے ہیں یعنی (قاضی کو)جو مناسب لگے جس سے اُس کو آئندہ جرأت نہ ہو سکے اُس کی حوصلہ شکنی ہو ہمت ٹوٹے اُس کی ! یہ ضروری ہے یہ ہو جائے ،ہاتھ نہیں کٹے گا ! !
.......ورنہ ٹنڈوں کی کثرت ہوتی :
اگر ذرا ذرا سی بات پر ہاتھ کٹ جایا کرتے تو پھر تو اسلام میں سب سے زیادہ ٹنڈے ہوتے ! اور لوگ کہتے کہ اسلام جو ہے یہ تو ٹنڈوں کا مذہب ہے لیکن یہ چودہ سو سال گزر گئے یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ اسلام ٹنڈوں کا مذہب ہے، کوئی قصہ پیش آجاتا ہے ایسا اور اُس میں پھنس جاتا ہے وہ آدمی ، کوئی صورت نہیں رہتی بچنے کی تو پھر ہاٹھ کٹ جاتا ہے ! لیکن وہ پھر سارے لاہور کے لیے کافی ہے ایک ہی ہاتھ ! یہاں چوری پھر نہیں ہوگی ! ! !
اسلامی سزا اسلامی طریقہ پر ہوگی، انگریز کے طریقہ پر نہیں :
لیکن ہو اسلام کے طریقے پر ،یہ نہیں ہے کہ الگ لے جا کے اور وہاں جیل میں ہی کاٹ دیا جائے اور پتہ نہ چلے اُس کا ،اس کاکوئی اثر نہیں ہوگا ! سزا جو بھی دی جائے گی اسلام کی رُو سے وہ اسلام کے طریقہ پر دی جائے گی ! اور وہ یہ ہے کہ سب دیکھیں ! اگر سب نہیں دیکھیں گے تو عبرت نہیں ہو گی ! اور جو سب دیکھ لیتے ہیں پھر جو عبرت ہوتی ہے یا ڈر بیٹھتا ہے تو لوگوں سے کھانا نہیں کھایاجاتا کئی کئی دن گھروں میں ! ایسا برا حال ہوتا ہے ! وہ نہیں کر سکتے پھر ہمت ایسی ! ! ! یہ تو میں نے درمیان میں عرض کردیا چوری کی بات کا !
باقی یہ کہ گناہ کا کام ہوجائے ایسا جس پر سزا بھی آئی دُنیا میں وہ بھی کبیرہ ! اور آخرت کی سزا کی وعید آئی ہے وہ بھی کبیرہ ! تو اِن کبائر پر کافر کسی کو کہہ دیا جائے یہ نہیں !
خوارِج کی دلیل :
یہ خوارِج کہتے تھے کہ دیکھو اگر کسی آدمی کو یہ پتہ ہو کہ یہاں سانپ ہے اس سوراخ میں تو کبھی ہاتھ نہیں ڈالے گا اُسے کتنا بھی کہو یا کچھ بھی ضرورت پڑے وہاں ہاتھ نہیں ڈالے گا ! کیونکہ پتہ ہے اُسے کہ یہاں سانپ ہے ! اسی طرح اگر اُس کا ایمان ہے خدا پر اور دین پر اور آخرت پر تو کبھی گناہ نہیں کرے گا ،معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا آخرت پر ایمان کم ہوا ہے یا رہا ہی نہیں ہے ! وہ تو کہتے ہیں کہ رہا ہی نہیں ہے اس لیے کہ اُس نے کبیرہ گناہ کیا ہے ایسا گناہ کہ جس کی سزا جہنم ہو جس کی سزا خدا کی یہاں ملے ،یہ بس خوارِج کی اور معتزلہ کی ایک عقلی دلیل تھی ١ اس لیے کہتے تھے ایمان سے خارج ہوگیا لیکن یہ بات تو نہیں ہے ! بات تو یہ ہے کہ بہت سے گناہ انسان کرتا ہے ایسی مثال سمجھ لیں جیسے کہ خلافِ قانون کار روائیاں بہت آدمی کرتے ہیں دن رات ! وہ اس واسطے کرتے ہیں کہ بچ جائیں گے قانون سے ! اسی طرح سے ایک ایمان والا آدمی بھی گناہ کرسکتا ہے اور بعد میں توبہ غالب آجائے گی اُس پر
١ جو اُلٹا ان کی کم عقلی پر دلالت کرتی ہے۔ محمود میاں غفرلہ
تو یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہو گیا بلکہ بہت سے خلافِ قانون کام ایسے ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ راستہ ہے اس راستہ سے نکل جاؤں گا تووہ کر لیتا ہے ! اسی طرح یہاں بھی ہے کہ کبیرہ گناہ کا اِرتکاب کفر کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ کبیرہ گناہ کا اِرتکاب بہت دفعہ اس خیال میں ہوجاتا ہے کہ استغفار کر لوں گا ! توبہ کرلوں گا ! وہ رِشوت لیتا رہتا ہے عمر بھر ! ! (اور)سوچتا رہتا ہے توبہ کرلوں گا ! !
میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس طرح کوئی کرے ،میں کہتا ہوں جو کرتے ہیں اُن کو یہ سمجھاجانا چاہیے (کہ)اُس کی وجہ سے کافر اُنہیں نہیں کہاجاتا ! کیونکہ پھر سچ مچ ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ توبہ کر بھی لیتا ہے ! اور کبھی ایسے ہو جاتا ہے کہ وہ درمیان میں بھی توبہ کرتا رہتاہے ! اور خدانخواستہ کبھی ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ دل ہی اُس کامسخ ہوجائے توبہ کی توفیق ہی سلب ہوجائے ! وہ پھر دُنیا ہی کی طرف لگا رہے ساری عمر ،یہ بھی ہوسکتا ہے ! تو یہ خطرناک چیز ہے آسان نہیں ہے ! !
تعلیم کیا ہے ؟
مگر ہمیں کیا تعلیم ہے ؟ ہمیں تعلیم یہ ہے کہ کسی گناہگار کو گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہا جا سکتا، گناہگار کو گناہگار کہا جا سکتا ہے، گناہ کے کام پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ برا ہے نفرت کی جاسکتی ہے ! کب تک ؟ جب تک وہ چھوڑے نہ ، ''آدمی'' سے نہیں '' عمل'' سے نفرت کی جا سکتی ہے !
(اور) فرمایا(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ اسلام سے خارج مت کرو ! حضرت انس رضی اللہ عنہ توبہت بعد تک حیات رہے ہیں اُنہوں نے جب اِن(خارجی) لوگوں کے عقائد سنے ہوں گے تو بتلایا ہوگا اور دُوسرے بھی موجود تھے صحابہ کرام اُنہوں نے یہ روایتیں سنائی ہوں گی
کسی بھی صحابی سے روایت میں غلط بیانی ثابت نہیں !
اورکوئی غلط بیانی کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ، کہیں بھی نہیں ثابت کہ کسی صحابی نے حدیث غلط بیان کی ہو ! یہ ہے ہی نہیں ! اس واسطے (سب نے) حدیث کے بارے میں سب کے سب صحابہ کرام کو(تسلیم کیا ہے کہ) عَدُوْلْ صَدُوْقْ سچے ہیں عادل ہیں بالکل ٹھیک بیان کرتے ہیں ! کسی صحابی کی روایت کسی نے سنی ہو اور تردّد ہوا ہو ! تو پھر دُوسروں سے تحقیق کی ہو ! تو یہی معلوم ہوا ہے کہ سچ تھی، غلط بات نہیں تھی ! ! !
حضرت عمر کی تجارت اور طالب ِعلمی :
جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ قاعدہ بنا لیا تھا کہ ایک صحابی سے اگر ایسی روایت سنتے تھے جو اُنہوں نے خود نہ سنی ہو کیونکہ وہ تجارت بھی تو کرتے تھے ! ہر وقت تو حاضر نہیں رہتے تھے ! زیادہ سے زیادہ حاضر رہتے تھے کوشش کرتے تھے لیکن کارو بار بھی کرتے تھے ! تو ایسی روایتیں بھی ہوگئیں کہ جواُنہوں نے نہیں سنیں ،مثال کے طورپر جب کہیں آپ جائیں تو تین دفعہ اجازت چاہیں اگر اجازت مل جائے گھر والا اجازت دے دے تو چلے جائیں اندر ،نہ اجازت دے تین دفعہ بھی تو چلے جاؤ واپس ! تو اجازت کا قاعدہ یہی تھا کہ سلام کر لو اور سلام کی آواز گھر میں پہنچ ہی جاتی تھی ! دروازے کوئی ایسے خاص نہیں تھے کہ جن میں ایسی حفاظت کا انتظام ہو (کہ) آواز نہ پہنچ سکے وغیرہ وغیرہ ،کوئی چیز ایسی نہیں تھی، اب یہ ہے کہ گھنٹیاں ہوتی ہیں تو گھنٹیاں بجائیں تو تین دفعہ بجائیں اُس کے بعد نہ آئے جواب تو چلے جائیں ! ٹیلیفون کا بھی یہی رہے گا کہ گھنٹی ہورہی ہے تو تین دفعہ کے بعد پھر بند کردو ! اگر نہیں اُٹھا سکا وہ ! ممکن ہے وہ سویا ہو اہو ، ممکن ہے وہ نماز پڑھ رہا ہو نیت بندھی ہوئی ہو ، گھنٹی بجتی رہے گی تشویش رہے گی تو اس طرح نہ کرو ! ! !
حضرت عمر کا تحقیق اور تثبُّت فرمانا :
حضرت ابو موسٰی رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلوایا تھا کسی کام سے اور پھر مصروف ہوگئے کسی طرف ذہن مصروف ہو گیا ! یہ آئے انہوں نے سلام کیا تین دفعہ سلام کیا جواب ہی نہیں دیا ! کیونکہ ذہن دُوسری طرف لگا ہوا تھا ! بہت دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ کان میں آواز پڑ جاتی ہے اور جب ذہن کو ذرا فرصت ملتی ہے دُوسری طرف سے تو ذہن میں آتا ہے کہ میرے کان میں یہ آواز پڑی تو تھی ! میں نے یہ سنا تو تھا ! بالکل اسی طرح اُن کو بھی ذہن میں آیا کہ میں نے سنی تھی تو فرمایا اَلَمْ اَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ قَیْسٍ اُن کی آواز میں نے نہیں سنی تو کیا ایسے نہیں ہوا ؟ ! تو لوگوں نے کہا ہوا تھا ! آئے تھے وہ چلے گئے ! اُنہیں بلا لیا بلا کے پوچھا کہ بھئی آئے تھے تو ٹھہرے ہوتے یہ کیا کہ چلے گئے ! اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہی فرمایا ہے کہ تین دفعہ سلام کرو اگر جواب آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ واپس چلے جاؤ ! قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے ( اِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ) اگر یہ کہا جائے گھر والا کہتا ہے کہ میں اس وقت نہیں مل سکتا تو واپس چلے جاؤ ! کیونکہ تمہیں کیا پتہ کہ وہ کتنا تھکا ہوا ہے ! ؟ یا کیا کیفیت اُس پر گزر رہی ہے ! ؟ اُس کو معذوری پر محمول کرو سچ مچ کہ وہ واقعی معذور ہوگا ! اس لیے ایسی بات کی ہے تو چلے جاؤ ! برا نہ مانو کہ میری توہین ہوگئی یہ نہ کرو ! یہ قرآنِ پاک میں آداب سکھائے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میں نے تو نہیں سنا ! یعنی اُنہوں نے نہیں سنا تھا ،اُنہوں نے کہا اور کوئی ہے ایسا جس نے یہ تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنی ہو ؟ ایسے آدمی کو لاؤ تلاش کر کے ! یہ آئے مسجد میں ، پوچھا انصار سے تو اُنہوں نے کہا ہاں ہم نے سنی ہے اور یہ ہم میں سب سے چھوٹی عمر کے ہیں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اُن میں چھوٹی عمر کے تھے ! ویسے تو وہ بارہ غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں یعنی بارہ غزوات اُنہوں نے بالغ ہونے کے بعد کیے ہیں ! ؟
بلوغت کی حد :
پندرہ سال سے زیادہ جو عمر تھی اُس کو شریک کیا جاتا تھا جہاد میں ورنہ نہیں ، منع کردیا جاتا تھا ! تو اُنہوں نے کہا اَصْغَرُنَا یہ جو سب سے چھوٹے ہم میں ہیں ابو سعید یہ آپ کے ساتھ جائیں گے، یہ چلے گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ میں نے بھی سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ! !
صحابہ اور تجارت :
تو پھر وہ فرمانے لگے اپنے آپ سے اَلْہَانِی الصَّفْقُ بِالْاَسْوَاقِ ١ یہ کہ میں بازار میں سودے وغیرہ کے لیے جاتا تھا اُس میں میں مشغول رہا ہوں ! تو ایسی تعلیمات ساری کی ساری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے سامنے نہیں آئیں ! اسی طرح سے اور بھی کوئی مسئلہ پیش آیا ہے تو اُنہوں نے
١ بخاری شریف کتاب البیوع رقم الحدیث : ٢٠٦٢
کہا ہے کہ لاؤ کوئی اور بھی لاؤ جس نے سنا ہو یہ ! کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص اُس کے کان میں تونہیں فرمایا ! سننے والے اور بھی ہوتے ہیں ! اور ایک بات ایک ہی دفعہ آپ نے فرمائی ہوگی ! بار بار ،بار بار فرمانا تو بہت کم ہے ! کیونکہ وہ ایک دفعہ کی بات بھی کافی ہوتی تھی اُن کے لیے ! اشارہ کافی ہوتا تھا چہرہ ٔ مبارک کی کیفیت جو ہوتی تھی وہ کافی ہوتی تھی اُن کے لیے ! تو ایک جملہ ایک دفعہ بھی نکلا ہے تو سننے والے توکئی ہوتے تھے وہ سب یاد رکھتے تھے ! بھلاتا نہیں تھا کوئی بھی کہ یہ بات ایسے ہی ہے چلو گزار دو ! یہ بات نہیں تھی ! وہ لے آئے اُن کے پاس اور اُنہوں نے یہ معذوری ظاہر کی ! تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ '' تَثَبُّتْ '' کا طریقہ نکالا تو صحابہ کرام سے گناہ ہوئے ہیں ۔
روایت کرنے میں گڈ مڈ ثابت نہیں :
مگر یہ گناہ نہیں ہوا ہے کہ حدیث میں گڈ مڈ کردی ہو ! یہ ثبوت ملا ہی نہیں کہیں بھی کہ کوئی روایت اُنہوں نے غلط بیان کی ہو ! جھوٹ باندھی ہو ! ! !
صحابہ کی احتیاط :
ہاں یہ ثبوت ضرور ملا ہے کہ بہت سے صحابہ کرام روایت یاد ہونے کے باوجود( حدیث کے الفاظ) بتاتے ہوئے دوہراتے ہوئے ڈرتے تھے ! مسئلہ بتادیتے تھے (مگر الفاظ) دوہراتے ہوئے ڈرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات ممکن ہیں اور ہوں اور ہم سے اُس میں کوئی غلطی ہو جائے ! اس لیے وہ یہ نہیں کرتے تھے ! سعد ابن ِاَبی وقاص رضی اللہ عنہ سے کم روایات ہیں ! حضرت زُبیر رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں '' حَوَارِیْ '' ١ فرمایا ہے یعنی میرا مخلص ساتھی ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی ہیں تورِشتہ بھی ہوا اور بہت بڑے صحابی ہیں اور بہت بہادر اَشْجَعُ النَّاسِ اکیلے ہی چلے جانا کہیں بھی چاہے ایک ہو دُشمن یا تعداد بہت ہو پرواہ ہی نہیں ہوتی تھی !
١ بخاری شریف کتاب الجھاد و السیر رقم الحدیث : ٢٨٤٧
اس طرح کی خدا نے اُن کو جرأت اور شجاعت عطافرمائی تھی ! عشرہ مبشرہ میں ہیں وہ ! مگر اُن کی روایات بہت تھوڑی ہیں ! اور اُن سے کہا گیا، کہنے لگے کہ میں ڈرتا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا جو میرے بارے میں کوئی بات غلط کہے قصدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ ١ تو اُسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ! ! یہی روایت اُن سے چلی آرہی ہے اور بھی چند روایات ہیں بہت تھوڑی ! سفر میں ساتھ رہتے تھے مسائل تو بتا دیتے تھے کہ ایسے نہ کرو ایسے کرو لیکن یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (لفظ)فرمایا ہے اس طرح کر کے وہ نہیں فرماتے تھے ! تو بہت سے صحابہ کرام کی یہ عادت تھی ! !
صحابہ کے اقوال بھی'' حدیث'' ہیں اور اُن کی دو قسمیں :
اس بناء پر صحابہ کرام کے قول لے لیے گئے ! کیونکہ اُنہوں نے حدیث نہیں بیان کی مسئلہ بیان کیا ہے ! تو وہ اُن کا فتوی ہو گیا اُن کا قول ہو گیا اُس کو بھی درجہ ''حدیث'' کا ہی دیا جاتا ہے ! اور وہ دو طرح کے ہیں :
ایک تو ایسے کہ جو سمجھ میں آتے ہیں ! اور ایک ایسے کہ جن کا سمجھ سے کوئی تعلق نہیں وحی سے ہی تعلق ہے !
تو جو اقوال ایسے ہیں صحابہ کرام کے کہ جن کا تعلق وحی سے ہی ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشادات ہی ہیں ! تو اُن کو کہتے ہیں کہ یہ ''مرفوع'' ہے حکماً ! یعنی گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے انہوں نے احتیاطًا وہ کلمات نہیں ادا کیے البتہ فتوی دیا ہے۔
ہر کسی پر کفر کا فتوی ،یہ کافروں کی تعداد بڑھانا ہوا :
تو(خوارِج اور معتزلہ کی طرح ) اسلام سے خارج کردینا کافر کہہ دینا یہ تو کافروں کی تعداد بڑھانا ہے یہ جو رواج ہوگیا ہے ذرا ذرا سی بات پر کافر کہہ دینا اور بہت ٹولے ایسے پیدا ہوگئے جو ذرا ذرا سی بات پر کافر کہہ دیتے ہیں ! یہ نہیں ہو سکتا ! ! بلکہ پہلے اُس کی وجہ معلوم کرنی پڑے گی ! !
١ بخاری شریف کتاب العلم رقم الحدیث : ١١٠
پوری تحقیق کرنی پڑے گی ! پھر اُس کے بعد تکفیر کی جائے تو کی جائے ورنہ نہیں کی جا سکتی تکفیر ! ! اگر وہ قطعیات کا اِنکار کرتا ہے یعنی وہ باتیں جو دین کی شروع سے آج تک چلی آرہی ہیں اور وہ سب کے علم میں ہیں متواترات ہیں اُن کا اِنکار کرتا ہے اگر ، یا اُن میں کسی ایک بات کا تو پھر کافر ہوسکتا ہے پھر تکفیر کی جائے گی اُس کی ! ورنہ نہیں !
ارشاد فرمایا کہ لَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلٍ کسی عمل کی وجہ سے یہ نہ کہو کہ یہ اسلام سے نکل گیا ! اب کوئی برا عمل کرتے ہوئے دیکھ رہے ہو اگر، تو بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اسلام سے نکل گیا ہے تاوقتیکہ اس سے بات نہ کرلو ! یہ جو ہمارے ناواقف لوگ ہیں بدعتی لوگ ہیں جنہیں مسائل کا پتہ نہیں ہے قبروں پر جاتے ہیں سجدے بھی کر لیتے ہیں اب اُنہیں کیا کہا جائے ! ؟ دیوبندی عالم سے پوچھو تو اور بریلوی سے پوچھو تو یہی ہے فتوی دونوں کا ایک ہی ہے کہ یہ کفر کا عمل ہے ! عملِ کفر ہے ! اور سب نے یہی لکھا ہے اس میں کوئی دیوبندی بریلوی کا بھی فرق نہیں ! کیونکہ علماء احتیاط کرتے ہیں ، علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ فعلِ کفر ہے ! وہ کام ہے یہ جو کافر کرتے ہیں وہ کام نہیں ہے جو مسلمان کرتے ہیں ! تو یہ کافروں جیسا کام ہوا ! کفر نہ ہوا ! تاوقتیکہ اُس سے اُس کی نیت معلوم نہ کر لی جائے ! تو یہ فعلِ شرک ہے !
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو نظر یہ آرہا ہے کہ وہ بت کو سجدہ کررہا ہے لیکن یہ نہیں پتہ چل رہا آپ کو کہ اُدھر پیچھے کوئی اُس کے کھڑا ہے تلوار لیے ہوئے یا ریوالور لیے ہوئے کہ توایسے کر ! تو ممکن ہے کہ ایسے ہوا ہو ! تو یک لخت دیکھتے ہی بغیر بات کیے نہیں کہا جا سکتا ! اور اس طرح کی جہالت کہ بتوں کو سجدہ کرنا اسی طرح سے قبروں کو سجدہ کرنا یہ چلی ہے ہمارے یہاں غیر مسلموں سے اصل میں ! اُن کے اختلاط سے ورنہ عرب میں نہیں ہے ایسی صورت ! عرب کا مطلب سعودی عرب نہیں بلکہ عرب علاقے سارے ! اُن میں نہیں ملے گی یہ بات ! !
مصری عالم سے گفتگو،بدعت کی وجہ :
ایک مصری عالم آئے ہوئے تھے وہ کہیں چلے گئے بزرگوں کے مزارات پر ،وہاں جا کر یہ بھی چیز دیکھی اُنہوں نے ! اُنہیں بڑا عجیب لگا ! ! پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ مصر میں ایسے نہیں ہے ؟ کیونکہ بدعت تو ہر جگہ ہے ! بدعت کی وجہ ہوتی ہے علم سے ناواقفیت ! مسائل سے ناواقفیت ! تو بدعت تو ہر جگہ ہے اور علم سے واقف کم ہیں ! ناواقف زیادہ ہیں ! تو بدعت زیادہ ہی ہوتی ہے اور بدعتی زیادہ ہی ہوتے ہیں ہر جگہ ! کوئی علاقہ اس سے خالی نہیں ! تو میں نے کہا یہ نہیں ہے وہاں ؟ کہنے لگے بدعات تو ہیں لیکن سجدہ نہیں ہے ! کہنے لگے میں نے اپنی عمر میں صرف ایک جگہ اسکندریہ (مصر) یا اور اسی طرف کہیں گئے تھے وہ بتلا رہے تھے کہ وہاں میں گیا وہاں میں نے ایک آدمی کو دیکھا اُس نے ایسے سجدہ کیا ! تو میں نے اُس کو بعد میں سمجھا یاکہ یہ تم نے کیا کیا پھر اُس نے اس بات کو مان لیا ! توبہ کرلی کہ غلطی ہوگئی ! تو وہاں یہ چیز نہیں ہے ! تو یہ آگیا ہے یہاں حدیث شریف میں لَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلٍ کسی بھی عمل کو دیکھو تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اسلام سے خارج ہو گیا تاوقتیکہ اُس سے بات نہ کر لو کہ اُس کا اعتقاد کیا ہے ؟ اگر وہ بعینہ خدا سمجھ رہا ہے تو پھر تو بالکل کفر ہو گیا ! اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ نہیں نہیں میں تو تعظیمًا کر رہا ہوں سجدہ ! اب سجدۂ تعظیمی کرنے والا کہلائے گا کہ ''شدید بدعتی '' ہے اور یہ کہلائے گا کہ فعلِ کفر کیا ہے اس نے ! !
''کفر ''اور ''فعلِ کفر ''میں فرق ہے :
اور'' کفر'' اور'' فعلِ کفر ''میں فرق کرنا تو بڑا ضروری ہے ! قرآنِ پاک میں بھی آگیا ( اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ) سوائے اُس کے کہ جو مجبور کیا گیا ہو ، اِکراہ کی شکل پیش آگئی ہو اُس وقت اگرکوئی برا کام ایسا کر لیتا ہے تو وہ الگ بات ہے ( وَقَلْبُہ مُطْمَئِنّ بِالْاِیْمَانِ ) دل اُس کا ایمان پر ہے ! دل میں بالکل(شک و شبہ) نہیں ! اگر اُس سے پوچھو کہ بھئی تودو خدا مانتا ہے ؟ تو وہ کہے گا کبھی نہیں مانتا ! ان کو خدا کے برابر جانتا ہے ؟ کہے گا نہیں ،خدا کا بندہ ہے ولی ہے پاکیزہ ہے وغیرہ ایسی باتیں کرے گا ! یا جو بھی کچھ کرتا ہے بہرحال اُس کی اصلاح ہوجائے گی ! وہ سن لیتا ہے بات، ٹھیک ہوجاتا ہے اصلاح ہوجاتی ہے اُس کی ! وجہ اُس کی جہالت ہوتی ہے ! تو صحیح چیز بھی یہی ہے کہ اَلْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ جو لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لے اُس سے رُکا جائے لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ گناہ کی وجہ سے(اُن کو کافر) نہیں (ٹھہرائو)اور اسی طرح عمل کی وجہ سے بھی نہیں ! ! !
اعتقاد کی خرابی ہو جائے جیسے'' مرزائی''تو کافر قرار دیا جائے گا :
البتہ اعتقاد ایسی چیز ہے کہ اُس کی وجہ سے کافر کہا جاتا ہے ! جیسے کہ مرزائی اب لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو کہتے ہیں لیکن ایک نبی بھی مانتے ہیں ساتھ ساتھ ،غلام احمد قادیانی کو اُنہوں نے نبی مان لیا ! تو اُنہوں نے متواترات ِ دین کا انکار کردیا ! جو صدیق ِ اکبر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلی آرہی ہے کہ جیسے مسیلمہ کذاب ہے اور اَسود ِ عنسی یا اور جس نے بھی دعوی کیا نبوت کا تو نہیں مانا گیا اُس وقت سے لے کر ! اور آج تک یہی صورت چلی آرہی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ! ! اور نہ ضرورت ہے ! ! تو اب جو ایسے کرتے ہیں یا کہتے تو ہیں لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ لیکن عقیدہ کریدیں تو اندر سے نکلے گا کفر ! ! تواُس کو تو کافر کہنا ہی پڑے گا ! کیونکہ یہ تو نہیں بتلایا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مسلمان ہونے کے بعد کافر کوئی ہوتا ہی نہیں ! لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے کے بعد کوئی کافر ہوتا ہی نہیں جو چاہے کرتا رہے ! یہ تو نہیں فرمایا ! بلکہ اعتقاد کا صحیح ہونا اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے ! اب نماز بھی وہ پڑھتا ہے ٹھیک ہے ! چاہے تہجد بھی پڑھتا ہو ! لیکن اُس میں کفریہ عقیدہ موجود ہے تو ایسی صورت میں بہ مجبوری تکفیر کی جائے گی ! سمجھائیں گے ! نہیں سمجھیں گے تاویلات کریں گے طرح طرح کی اور پھر اُسی پر جائیں گے توایسی صورت میں بہ مجبوری کافر ہی کہا جائے گا ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح عقائد پر قائم رکھے اسلام پر قائم رکھے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ عطا فرمائے، آمین ۔اختتامی دُعا.....................
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.