( مئی 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
حقیقی منافق کا نبی علیہ السلام کے بعد کھوج نہیں لگایا جاسکتا
آپ کے بعد منافقین کے متعلق حضرت عمر کے پالیسی اِرشادات
''آدم کُش ''حجاج کے چند واقعات
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر29 کیسٹ نمبر 78-A 08 - 11 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں سے ڈرایا ہے اُن میں ایک ''نفاق'' بھی ہے۔ ''منافق'' عرف ِ شرع میں اُس شخص کو کہتے ہیں کہ جو اِسلام ظاہر کرے اور حقیقتًا وہ نہ دل سے مسلمان ہو نہ زبان سے جیسے کہ تنہائی میں جب اپنے ساتھیوں میں بیٹھیں تو اسلام کے خلاف باتیں کریں ! اور جب مسلمانوں کے سامنے آجائیں تو اسلام کی سی باتیں کریں یہ نفاق ہے ! ( اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خٰدِعُھُمْ )منافقین اللہ کے ساتھ دھوکے کا معاملہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کریں گے جیسا وہ کرتے ہیں اسی طرح کا معاملہ اُن کے ساتھ ہوگا !
اب ''نفاق ''جو ہے وہ دل کی چیز ہے کس آدمی کے دل میں ایمان ہے اور کس کے دل میں نفاق ہے یہ پہچانا نہیں جاسکتا ، کون کسی کا دل کھول کر دیکھے کہ ایمان ہے اس میں یا ایمان نہیں ہے، ممکن نہیں ہے !
ہاں جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا تھا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کو (بذریعہ وحی ) پتہ چل جاتا تھا ! آپ بتلا بھی دیتے تھے یعنی کچھ صحابہ کرام کو جو بہت راز داں اور راز دار تھے حفاظت کرسکتے تھے راز کی ! اُن کو اُن کے نام بھی بتا دیے تھے اور وہ ایسے لوگ تھے کہ( پھرکفر پر) ہمیشہ ہی رہے یعنی اُن کی تقدیر میں جیسے ایمان لکھا ہی نہیں تھا ایمان پہ آنا تھا ہی نہیں اُنہیں ۔
راز دان :
ایسے لوگوں کے نام بتا دیے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو کہا جاتا ہے کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار تھے صَاحِبُ سِرِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ١ بہت سی باتیں ایسی اُن کے علم میں تھیں ، رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کو اُن پر اعتماد تھا ! وہ فرماتے ہیں کہ لوگ تو اور طرح کے سوالات کرتے تھے میں فتنوں کے بارے میں سوالات زیادہ کرتا تھا کہ آئندہ جو فتنے آنے والے ہیں وہ کیسے ہوں گے، کس طرح کے ہوں گے، کیسے بچا جائے گا وغیرہ ؟ میرے سوالات اس طرح کے ہوتے تھے ! یہ اہلیت تھی اُن میں کہ راز کی حفاظت کر سکیں اور راز کی حفاظت کرتے رہے ہیں تمام عمر ! ! ! ایک دفعہ اُن سے پوچھا بھی گیا تو اُنہوں نے (بس اتنا) کہا کہ اُن میں اتنے تھے اور اب ایک رہ گیا ہے اور اس حالت میں ہے وہ کہ اُسے ٹھنڈے گرم کا بھی پتہ نہیں چلتا ! یعنی اُس کی رگیں مر چکیں پٹھے مر چکے اس حالت میں ہے وہ ! ! !
اعتقادی نفاق :
تو یہ تو تھے اصل منافقین اور یہ آگ کے جہنم کے نچلے حصے میں ہوں گے ( فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ) العیاذ باللہ ! یہ خدا کے رسول کا ،اللہ کے دین کا مذاق کرتے تھے !
نبی علیہ السلام کے بعد حقیقی منافق کا کھوج نہیں لگایا جاسکتا :
وہ دور تو ختم ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی منقطع ہوگئی کوئی سلسلہ اب ایسا نہیں ہے کہ
١ مشکوة شریف کتاب المناقب رقم الحدیث ٢٦٣٢
جس کے ذریعے قطعی طور پر پتہ چل سکے کہ یہ منافق ہے ! کسی کو حق بھی نہیں ہے یہ کہ کسی کے بارے میں یہ کہہ دے کہ یہ منافق ہے اُس معنی میں جس معنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا !
عملی نفاق :
پھر یہ استعمال ہونے لگا اسی معنی میں کہ جو آدمی ظاہر میں کچھ ہو اورپیچھے کچھ ہو اُسے بھی کہہ دیتے ہیں مگر مجازًا ہے حقیقتًا نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں ایسا ہی ہے اور ایسا ہی ہو گیا اور مسلمان نہیں رہا ، یہ بات بھی نہیں ۔
ان کی دلداری ،حکمت اور فائدہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواِن (منافقین)کی دلداری ہی کی اور جو رئیس المنافقین تھا عبداللہ اِبن اُبی ٔ اُس کے بیٹے پکے مسلمان تھے اور وہ ہمیشہ دھوکے دیتا رہا مگر اِس کے باوجود جب اُس کی موت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص مبارک عنایت فرمائی ،اپنا لعابِ مبارک بھی ڈالا اور نماز بھی پڑھا دی ! بعد میں یہ حکم نازل ہوا کہ نہ پڑھائیں اُن کی نماز ( لَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہ ) اُس کی قبر پر بھی جاکر نہ کھڑے ہوں چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ مبارک رحمت ہی رحمت ہے تو اُس کی قبر جو ایک طرح سے عذاب کا مرکز ہے اُس کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا کہ اس رحمت کااثر وہاں نہ پہنچنا چاہیے ! ! دلداری جو فرماتے رہے اس سے فائدہ یہ ہوا کہ اُس کی موت پر تقریبًا ایک ہزار آدمی مسلمان ہوگئے ! موازنہ تو کرتا ہے نا آدمی کہ اس کی باتیں کیسی ہیں اور دُوسرا آدمی اگر سامنے ہو تو سوچتا ہے کہ اس کی باتیں کیسی ہیں ! ؟ آج بھی یہی ہے ایک آدمی اس طرح کا ہو اوردُوسرا بات کا سچا ہو تو اعتماد کرنے لگتے ہیں سچے پر ! اور رفتہ رفتہ اُس کی حقیقت کھل جاتی ہے اعتماد ہٹ جاتا ہے سمجھ جاتے ہیں لوگ کہ یہ اس قسم کا آدمی ہے۔ تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا جو روّیہ تھا وہ نہایت اچھا ظاہرًا باطنًا بڑا رعایت والا ! اور اُن کا ظاہر کچھ ! باطن کچھ ! تو اُس کے بعد بہت مسلمان ہوئے وہ خود نہ عیسائی تھا نہ یہودی بلکہ مشرک تھا ! ! !
آپ کے بعد منافقین کے متعلق پالیسی ،حضرت عمر کے ارشادات :
لیکن یہ دور گزر چکا بعد میں دور آگیا صحابۂ کرام کا ! اب اُنہوں نے کہا ہم پر تو وحی آتی نہیں جو کسی کو کافر کہیں یا یہ کہہ دیں کہ یہ منافق ہے یا اُس کے بارے میں اعتقاد جمالیں کہ یہ کبھی بھی مسلمان نہیں ہوگا ! ! تو اُنہوں نے ایسا نہیں کیا ! !
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ تقریر کی خطبہ دیا اُس میں فرمایا کہ وحی منقطع ہوگئی اِنَّ الْوَحْیَ قَدِ انْقَطَعَ ۔ پھر کیا ہوگا ؟ تووہ کہتے ہیں کہ اِنَّمَا نَأْخُذُکُمُ الْاٰنْ بِمَا ظَھَرَلَنَا مِنْ اَعْمَالِکُمْ
اب تو جو تمہارے اعمالِ ظاہرہ ہیں جو ہمیں نظر آرہے ہیں بس اُن پر مواخذہ کر سکتے ہیں ! تو فَمَنْ اَظْھَرَ لَنَا خَیْرًا جو آدمی ہمارے سامنے اچھائیاں کرتا ہوا نظر آئے گا اُس پر ہم اطمینان کریں گے اور اُس کی تصدیق بھی کریں گے اُس کو اپنے قریب بھی کریں گے اٰمنَّاہُ وَ قَرَّبْنَاہُ اورباطن اللہ کے حوالے ، اللہ جانتا ہے کہ وہ اندر سے کیسا ہے کیسا نہیں ہے بہرحال ہمارے سامنے یہ ہے ! ! !
اور وَمَنْ اَظْھَرَلَنَا سُوْئً لَمْ نَأمَنْہُ وَلَمْ نُصَدِّقْہُ جو برائی ظاہر کرے گا ہم اُس پر اطمینان نہیں کریں گے اُس کی تصدیق نہیں کریں گے وَاِنْ قَالَ اِنَّ سَرِیْرَتَہ حَسَنَة ١ اگرچہ وہ یہ دعوی کرتا رہے کہ میرا دل بڑا اچھا ہے میں باطن میں بڑا اچھا ہوں لیکن ہم(اس کی تصدیق) نہیں کریں گے، اُنہوں نے یہ اعلان کیا سمجھا دیا لوگوں کو کہ وہ وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اب ظاہر پر بس ہم فیصلے دیں گے ! اور حکم کریں گے ! اپنے دل میں بھی اُسے ہی جگہ دیں گے جو اچھائی کرتا ہوا نظر آئے گا اور جو برائی کرتا ہوا نظر آئے گا اُس کو وہ مقام نہیں دیں گے ! یہ نفاق کیسا تھا ؟ یہ حقیقی قلبی(نفاق) بمقابلۂ ایمان تھا ! ! !
نفاق کی ظاہری علامات :
دُوسرا درجہ نفاق کا ہے عملی، اعمال میں کوتاہی ،آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بھی بتلایا چنانچہ ایک حدیث شریف میں یہاں آرہا ہے کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس آدمی میں یہ باتیں پائی جاتی ہوں تو وہ بالکل منافق ہے اَرْبَع مَّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا اور اگر اُس میں ان چار میں سے
١ بخاری شریف کتاب الشھادات رقم الحدیث ٢٦٤١
تو وہ بالکل منافق ہے اَرْبَع مَّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا اور اگر اُس میں ان چار میں سے ایک بات پائی جارہی ہے تواُس میں نفاق کی ایک صفت پائی جا رہی ہے حتی کہ وہ اُس کو چھوڑے وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَة مِّنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَة مِّنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَہَا ۔ علامات کیا ہیں ؟
اِذَ ائْتُمِنَ خَانَ اُس کے پاس امانت رکھو توخیانت کرے !
وَاِذَا حَدَّثَ کَذَبَ جب بات کرے تو جھوٹ بولے !
وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ کوئی وعدہ کرلے معاہدہ کرلے تو وعدہ شکنی کرے عہد شکنی کرے !
وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ١ جب جھگڑا ہو تو گالی گلوچ پر اُتر آئے !
تو اِن چیزوں کو اگر دیکھا جائے تو آج مسلمانوں کی بڑی تعداد اِس میں مبتلا ہے ! ! خیانت ہے مال کے لالچ میں ! بات سچ نہیں کرتے جھوٹ کرتے ہیں ! سودے غلط بیچ دیتے ہیں اِینٹیں بھر کے بیچ دیں گے رُوئی کے ساتھ اور پتہ نہیں کیا کیا ملاوٹ وغیرہ اور باتوں میں جھوٹ ! وعدوں میں جھوٹ ! اُوپر سے لے کر نیچے تک یہ ہے ! عام سے لے کر خاص تک ! بڑے دولت مند سے لے کر چھوٹے تک ! اور بڑے حاکم سے لے کر اَدنیٰ تک یہ بات پائی جا رہی ہے ! ! !
صوفیاء کے چاروں سلسلے حضرت حسن بصری کے واسطہ سے حضرت علی تک :
تو اِس کے بارے میں حسن بصری رحمة اللہ علیہ جو تابعی ہیں صحابہ کرام کو دیکھا ہے بڑے خوش قسمت ہیں کہ اِن کی والدہ ماجدہ، زوجۂ مطہرہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں جب یہ دُودھ پیتے تھے ! اُس زمانے میں جب یہ روتے تھے تو وہ اپنا دُودھ اِن کے منہ میں دے دیتی تھیں تو انہیں یہ سعادت بھی حاصل ہے ! مدینہ منورہ ہی میں رہے ہیں حتی کہ دور بدلا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا وہ(حضرت علی) باہر نکلے مدینہ منورہ سے تو اُس کے بعد یہ بھی بصرہ وغیرہ آگئے پھر بصرہ ہی میں رہے ! اور آپ سنتے ہیں تو حسن بصری(کا تذکرہ ہی) سنتے ہیں ،بہت بڑے بزرگ تھے اولیاء ِکبار میں داخل ہیں اور رُوحانی تربیت ان کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوئی ! اور یہ ہمارے شجرے
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٦
جتنے یہاں چلتے ہیں طریقت کے سلسلے یہ سارے کے سارے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جاتے ہیں ! ! چشتی بھی قادری بھی نقشبندی بھی سہر وردی بھی، یہ چار سلسلے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما، افغانستان ان علاقوں میں رائج ہیں ،یہ چاروں کے چاروں سلسلے اُن پر جاتے ہیں ! ! !
حضرت ابوبکر اور سلسلۂ نقشبندیہ :
نقشبندی ایک طریقہ ہے وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر جاتا ہے لیکن درمیان میں اُس میں اِنقطاع ہے یعنی ایک بزرگ کو فیض حاصل ہوا ہے اُن بزرگ سے کہ جن کی وفات کو پچاس سال گزر چکے تھے ! تو یہ رُوحانی فیض تھا ! ایک اور بزرگ ہیں اُن کو فیض حاصل ہوا ہے رُوحانی طور پر اُن بزرگ سے کہ جن کی وفات کو ڈیرھ سو سال کا عرصہ گزر چکا تھا ! ! تو محدثین کے طرز پر متصل سلسلہ کہ زندگی میں مِلا ہو پیر سے ایسی صورت اگر دیکھی جائے تو وہ سلسلے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک جاتے ہیں ! تو اکابرِ دیوبند جو ہیں ان کے یہ سب سلسلے ہیں ! وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ والا بھی ! !
حضرت حسن بصری کو حجاج سے خطرہ اور اُس کی وجہ :
تو حسن بصری رحمة اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ بنتے ہیں اس لحاظ سے کہ اُنہوں نے فیض حاصل کیا ہے رُوحانی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ! چلے آئے بصرہ میں اور دور اُن کا تابعین کا اور اُس میں فتنے ہوئے طرح طرح کے ! ! حتی کہ حجاج اِبن یوسف بھی اُن کے دورمیں آیا ! حجاج اِبن یوسف سے وہ چھپ کر رہتے تھے ! یعنی چاہتے تھے کہ میرا پتہ نہ چلے کہ کہاں ہوں میں ! پہلے پتہ چلتا رہا ہے اُس کو لیکن اُس کے مزاج میں حسد بھی تھا ایک طرح کا !
بادشاہ کے سوالات :
اُس سے بادشاہ عبدالملک اِبن مروان نے پوچھا جو خلیفہ تھا کہصِفْ نَفْسَکْ مجھے بتاؤ تم اپنے بارے میں ، اپنا حال بتاؤ، اپنامزاج بتاؤ کہ تمہارا مزاج کیا ہے ؟ ! پہلے تو بچنا چاہا مگر اُس نے کہا نہیں بتاؤ بالکل صاف صاف بتاؤ تمہارے دل میں کیا کیفیات ہوتی ہیں طبیعت تمہاری کس طرح کی ہے جسے کہتے ہیں اُفتادِ طبع یا خدا نے جو بنائی ہو فطرت وہ بتاؤ کہ کیا ہے ؟ ؟ !
حجاج کا جواب اور مسلک :
اور وہ اطاعت ِ خلیفہ فرض سمجھتا تھا ( اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ) سے کہ جو تم میں حکمران ہیں اُن کی اطاعت کرو وہ سمجھتا تھا اُس کا یہ عقیدہ تھا کہ حاکمِ اعلیٰ کی اطاعت فرض ہے ! ! تواُس نے جواب میں کہا اَنَا حَسُوْد حَقُوْد لَجُوْج کہ حسد میرے دل میں بہت زیادہ ہے ! میرے دل میں کینہ بہت رہتا ہے ! اور لَجُوْج کسی چیز کے پیچھے پڑجاؤں تو بس چھوڑتا نہیں ..... ! ! لیکن اس کا مسلک تھا کہ اطاعت ِ امیر فرض ہے اور جو نہیں کرے گا وہ کافر ہوگیا ! یہ دماغ میں اس کے بسی تھی اپنی طرف سے اپنے اجتہاد سے ! ! !
''آدم کُش ''حجاج کے چند واقعات :
لیکن بہت قابلیت والا آدمی تھا ! دماغی صلاحتیں نہایت اعلیٰ تھیں ! اور لمبا مقابلہ کرنے کی قدرت بڑی تھی اس میں ! مقابلہ بڑے جوش و خروش سے اور بہت زور دار طرح کرلیا جائے یہ ہوسکتا ہے لیکن جب لمبا ہوجائے مہینوں برسوں لڑائی ہوجائے پھر اُس پر جمے رہنا یہ بڑا مشکل ہے ! اس میں ہی امریکا ہار گیا ویتنام میں ! اور اَلجزائر میں فرانس ہار گیا ! اور کہاں کہاں کتنی بڑی بڑی طاقتوں کو رُجوع کرنا پڑا کہ لمبامقابلہ بہت مشکل ہے ! افغانستان میں (رُوس سے)بھی لمبا مقابلہ چل رہا ہے اور اِن شاء اللہ اُسے نکلنا پڑے گا وہاں سے ! اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی مجاہدین میں اخلاص رہا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ کامیاب نہ ہوں ،یہی کامیاب ہوں گے ! ! تو اس میں یہ(دیر تک مقابلہ والی) بات تھی بلا شبہ ! ورنہ حکومت اتنی نہیں پھیل سکتی کیونکہ (بنو اُمیہ کے)عبدالملک نے ایک دفعہ اسے لکھا ہے کہ بس لڑائی بند کر دو ! اور سیز فائر لائن قائم کرلو ! اور اُس کے بعد پھر اُسی کو سر حد بنالو ہماری حکومت کی اور مخالفین کی حکومت کی ! وہ تنگ آگیا ! لیکن اس نے کہا کہ نہیں مجھے اور موقع دیجیے پھر اُس نے اور موقع دے دیا پھر یہ کامیاب ہوگیا اور اس نے شکست دی ! !
یہ شخص نہایت ذہین تھا ! حافظہ بہت عجیب تھا ! اور قرآنِ پاک پر اتنا عبور تھا کہ اُلٹا بھی اسے پتہ ہوتا تھا کہ اس آیت سے پہلے کیا آیت ہے ! ( مَا اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ وَمَا کَسَبْ)سے پہلے کون سی آیت ہے یہ بتانا بہت مشکل ہوتا ہے اس کے لیے زبردست حافظہ چاہیے لیکن اس خدا کے بندے کو یہ صفت حاصل تھی !
قتل کا بہانہ :
اور مارنے کا اسے شوق تھا آدمیوں کو ! توجو دُشمنوں کے حفاظ معروف تھے اُن کو مارنے کا بہانا یہی بنالیا اس نے کہ بُلا کے پوچھتا تھا کہ یہ آیت ہے قرآن کی ؟ کہا کہ ہے ! اس سے پہلے کیا ہے ؟ اب اُس (آیت) سے پہلے تو نہیں آتی حافظ کو آگے کی تو آتی ہے قرآنِ پاک اُلٹاتو کوئی نہیں پڑھتا آگے ہی کو پڑھتے ہیں ( لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ) سے پہلے کیا ہے وہ نہیں آئے گا اگلا آتا ہے ایک دم ذہن میں ! تو اِمتحانًا کوئی پوچھتا ہو ایسی جگہ جہاں دُشمنی ہو جان کا بھی خطرہ ہو ! تو کوئی بتا سکتا ہے اور اکثر نہیں بتا سکتے،اسی پر مارتا رہا ! بلاتا دُشمنوں کو تھا امتحان اُن سے لیتا تھا ! پھر ایسے مارتا تھا ! یہ قتل کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی یہ ظلم ہے بہت بڑا ظلم ہے ! ! !
بہانہ اُلٹا پڑ گیا :
اُس نے ایک آدمی سے پوچھا کہ ( اَمَّنْ ھُوَ قَانِت اٰنَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَائِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَیَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّہ )اس سے پہلے کیا ہے ؟ اُس نے فورًا کہا اس سے پہلے ( اِنَّکَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ) اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تو یقینًا جہنمی ہے ! ! اب یہ بد فالی بھی ہوگئی ایک طرح کی ! پھر اُس نے یہ کھیل موقوف کردیا اور کوئی دُوسرا کھیل شروع کردیا ! ! !
ایک عورت کی گفتگو :
ایک عورت نے اس کی لگام پکڑلی اور کہنے لگی قسم اُس ذات کی جس نے قرآنِ پاک کے نصف ِ اَوّل میں '' کَلَّا'' نہیں کہا تو تھوڑی دیر اس نے توقف کیا ا ورپھر کہاکہ میں نے واقعی قرآنِ پاک پر نظر ڈالی یعنی اپنے حافظہ سے اور نصف ِ اَوّل میں '' کَلَّا'' نہیں ہے اگر ہوتا تو میں تیری گردن اُڑا دیتا اب تو اپنی بات کہہ کیا چاہتی ہے ؟ وہ بات اُس کی پوری کردی ! ! !
فصاحت :
مطلب یہ کہ ذہن حافظہ فصاحت وبلاغت بہت بڑھی ہوئی تھی ! ظلم بھی بڑا مشہور تھا ! تو اس سے پوچھا کسی نے فصاحت و بلاغت کا ذکر آرہا تھا کہنے لگا میں سب سے بڑا فصیح ہوں ! ! لیکن مجھ سے بڑے حسن بصری ہیں اور وہ اوصاف بتائے اُن کے کہ اُن میں یہ وصف ہے یہ وصف ہے تو حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے مواعظ بہت ہی معروف تھے۔
حسن بصری کے بارے میں اِبن ِ سیرین کی تعبیر :
اِبن سیرین رحمةاللہ علیہ سے کسی نے اپنا خواب ذکر کیا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے ایک شخص کے بارے میں کہ ننگا ہے کوڑی پر کھڑا ہے، ڈھیر نجاست کا اور گندگی کا جو لگ جاتا ہے وہ وہاں کھڑا ہے اورستار بجا رہاہے یا بنسری ایسا کچھ ہے ! ! ! تو اُنہوں نے سنا اورسن کر کہا کہ یہ تو حسنِ بصری ہوسکتے ہیں ! کہا یہ کیسے ! ؟ سچ مچ اُس نے دیکھا بھی اُنہیں ہی تھا ! اس حالت میں دیکھا تو ذکر بھی نہیں کر سکتا تھا کسی سے کہ میں نے ایسے دیکھا ہے کہ کپڑے پہنے ہوئے نہیں ہیں عریاں حالت ہے اور بنسری بجا رہے ہیں اور گندگی کے ڈھیر پر کھڑے ہیں ، تو نام نہیں لے سکتا تھا کہ میں نے اُن کو دیکھا ہے ! اُنہوں نے کہا یہ صفات جو ہیں یہ حسن ِ بصری کی ہوسکتی ہیں ! کہا کیسے ؟ تعبیر اُس نے چاہی کہ تفصیل بھی بتائیں کہ یہ تعبیر کیسے آپ نے بتائی ہے تو اُنہوں نے کہا کہ کوڑی جو ہے یہ دُنیا ہے ! اسے انہوں نے پاؤں کے نیچے رکھا ہے ! اور کپڑے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کو کسی سے کوئی علاقہ (و سروکار) نہیں سوائے اللہ کے ! اور جو بنسری وغیرہ دیکھی ہے وہ اُن کے مواعظ ہیں !
تو یہ بہت بڑے آدمی تھے عالِم بھی ہیں ان کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں فقہ میں بھی ! یعنی حدیث کی جہاں بحثیں آتی ہے اُس میں یہ ذکر آتا ہے کہ ان کا یہ فتوی ہے ان کا یہ فتوی ہے یہ فتوی ہے بہت آتا ہے !
ظاہر ی منافق کے بارے میں حضرت کا فتوی، پھر رُجوع :
تو اِن کا ایک فتوی یہ تھا کہ جس آدمی میں یہ چار عادتیں ہوں وہ تو منافق ہو گیا یعنی فتوے کی رُو سے ایمان سے نکل گیا ! ! یہ بڑا سخت فتوی تھا اور اُس دور کے علماء کے خلاف تھا متشددانہ تھا یہ ! تو شاگردوں میں تووہی بات چل پڑتی ہے پھر ! عقیدت مندوں میں بھی وہی بات چل پڑتی ہے جو بڑا کہہ رہا ہوتا ہے ! تو مکہ مکرمہ جانا آنا ہر وقت تھا ہی عمروں کے لیے اور حج کے لیے مسلمان سفر کرتے ہی رہتے تھے اور علماء جمع ہوتے ہی رہتے تھے تبادلہ ٔ خیال کرنا پوچھنا مسائل کا پڑھنا پڑھانا یہ جاری تھا ! تو وہاں حضرت عطا ء اِبن اَبی رَباح تھے مکہ مکرمہ کے، ان ہی کے معاصر ہیں اور بہت بڑے عالم، مکہ مکرمہ کے تقریبًا اپنے دور کے بڑے عالم تھے ! جن کو اہلِ مکہ ایک رحمت سمجھتے تھے ! تو ہوتے ہوتے اُنہیں یہ بات پہنچی ! ان کا کوئی خاص آدمی گیا تھا اُس سے پوچھا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ حسنِ بصری یہ کہتے ہیں کہ جس میں یہ چار عادتیں ہوں وہ بالکل منافق ہے ! کیونکہ حدیث میں بھی آگیا اَرْبَع مَّنْ کُنَّ فِیْہِ چار باتیں جس میں ہوں کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا خالص منافق ہے تو فتوی بھی یہی ہے ! تو اُنہوں نے کہا کہ میرا سلام کہیں اُن سے پھر اُن سے پوچھیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے بارے میں اُن کا کیا کہنا ہے کیا رائے ہے ؟ کیونکہ والد ہیں اور نبی (بھی) ہیں ! اُن سے آکر جھوٹ بول لیں ! جھوٹا وعدہ کیا ! لے گئے ! آکر جھوٹا بیان دیا کہ بھیڑیے نے کھا لیا ! بہر حال جتنی بھی چیزیں اس میں آرہی ہیں وہ سب اُنہوں نے کی تھیں ! ! تو وہ منافق رہے یا مومن تھے ؟
تو حسنِ بصری رحمة اللہ علیہ سے اُنہوں نے جاکر سلام کے بعد یہ پیغام دیا تو اُنہوں نے رُجوع کر لیا خوش بھی ہوئے(کیونکہ) نفسانیت سے نہیں تھی یہ بات ! بلکہ سچ مچ اور علمی بات تھی جب اُنہیں یہ پہنچی تو اِس سے وہ خوش ہوئے ! ! !
علماء کے نزدیک اس حدیث کا مطلب :
تو اب معنی اس کے کیا ہیں علماء کے نزدیک ؟ علماء کے نزدیک معنی یہ ہیں کہ یہ نفاق ہے عادتوں کا اور حدیث میں خود جملہ موجود ہے جس کی طرف توجہ کی جائے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ کَانَ مُنَافِقًا حَتٰی یَدَعَہَا جب تک وہ عادت نہ چھوڑ دے وہ منافق ہے۔ توعادت چھوڑنے سے عادت کا نفاق گویا جاتا رہا اُس سے، یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی عادت کے چھوڑنے سے ایسا ہو گیا جیسے کلمہ پڑھ لیاہو دوبارہ اُس نے ،یہ تو کہیں نہیں اس(حدیث) میں کہ دوبارہ مسلمان ہو، دوبارہ کلمہ پڑھے (بس)یہ ہے کہ چھوڑ دے جب چھوڑدے گا تو پھر ٹھیک ہے ! تو مراد جو ہے اس نفاق سے عادت کا نفاق ہے ! !
مگر خبردار ! کفر کا خطرہ !
ہاں ایک بات یہ ہے کہ جو آدمی ایسی چیزیں کرتا ہے تو ہوتے ہوتے ہوتے ہوتے یہ بھی ہوسکتا ہے نتیجہ اس کا کہ معاذ اللہ ایمان جاتا ہی رہے بالکل ! یعنی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کو بالکل نفاق کی باتیں کہا ہے کوئی آدمی اُن ہی کواپنا وطیرہ بنالے اُن ہی پر چلتا رہے تو یہ خطرہ ضرور ہے کہ معاذ اللہ کہیں ایسا نہ ہو کہ رفتہ رفتہ واقعی ایمان سلب ہوجائے ! اس لیے یہ عادتیں جس میں بھی ہیں چھوڑنی چاہیئیں ، امانت میں خیانت ، توبہ کرنی چاہیے ! جھوٹ باتیں کرے جھوٹ بولے ، توبہ کرنی چاہیے ! وعدہ خلافی وعدے کو کوئی اہمیت ہی نہ دے ،اس سے توبہ کرنی چاہیے ! اِسی طرح سے اگر جھگڑا ہوتا ہے ایک دم گالی گلوچ پر آجاتا ہے گرم ہو کر کسی میں یہ صفت ہے ،تو اُس سے توبہ کرنی چاہیے ! اور اُسے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب سمجھنا چاہیے کہ یہ کبیرہ ہے معمولی نہیں ہے ! بڑے بڑے گناہ ہیں یہ ! ان کو معمولی سمجھنا یہ ایسی چیز ہو سکتا ہے کہ خدا نخواستہ رفتہ رفتہ رفتہ رفتہ ایمان گھٹتا چلا جائے اور اُس کی جگہ نفاق بڑھتا چلا جائے وہ نفاق جو اِیمان کی ضد ہے جو اِیمان کے مقابل ہے سچ مچ والا نفاق جو ہے وہ نہ کہیں خدا نخواستہ آجائے ! ! ! (مگر یہ جو ذکر کیا گیا ہے حدیث میں ) یہ تو عادتوں کا نفاق ہے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِسلام پر استقامت دے اعمالِ صالحہ کی توفیق دے اپنی مرضیات نصیب فرمائے اور آخرت میں رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اختتامی دُعا..............
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.