jamiamadniajadeed

معاشرہ کو ''سلجھانا''

درس حدیث 272/29 ۔۔۔۔۔ معاشرہ کو ''سلجھانا'' اُس کو'' متمول'' کرنے سے زیادہ اہم ہے نبی علیہ السلام نے'' فکری اصلاح ''کو ترجیح دی اُس دور میں برائیوں کا رواج تھا ! سزائیں نہ تھیں ! ایمان کامل ہو تو اِنسان گناہوں سے بچ سکتا ہے (1987-11-15)


( اپریل 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
معاشرہ کو ''سلجھانا''اُس کو'' متمول'' کرنے سے زیادہ اہم ہے
نبی علیہ السلام نے'' فکری اصلاح ''کو ترجیح دی
اُس دور میں برائیوں کا رواج تھا ! سزائیں نہ تھیں !
ایمان کامل ہو تو اِنسان گناہوں سے بچ سکتا ہے
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر28 کیسٹ نمبر 78-B 15 - 11 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کے جو کلمات رکھے ہیں وہ قرآنِ پاک میں بھی اُترے اور اُس میں ہے ( اِذَاجَآئَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ) جب مومن عورتیں آئیں بیعت کرنے کے لیے تو اُنہیں بیعت کر لیں لیکن اس طرح (عَلٰی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا) اللہ کے ساتھ شریک نہیں کریں گی (وَلَا یَسْرِقْنَ ) چوری نہیں کریں گی، زِنا نہیں کریں گی، بہتان نہیں باندھیں گی اور اچھے کام میں تعمیل کریں گی تو پھر بیعت کر لیں ،یہ کلمات قرآنِ پاک کی سُورۂ مُمْتَحَنَہ میں آئے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِن جب کوئی بدکار بدکاری کرتا ہے تو اُس وقت وہ ایمان کی حالت پر نہیں رہتا ! وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِن جس وقت چوری کر رہا ہے عین اُس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہے ! وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِن جس وقت شراب پیتا ہو اُس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہے ! ! !
اُن لوگوں میں ان تمام چیزوں کا رواج تھا ! سزا نہیں تھی ! ! کسی نے چور ی کر لی، سزا کوئی نہیں ہے اُس کے لیے ! حد کوئی نہیں ہے ! اور بدکاری کی مختلف شکلیں تھیں اور اُس میں کوئی حد نہیں تھی مقرر، سزا مقرر نہیں تھی ! شراب عام چیز تھی کوئی بات تھی ہی نہیں خرابی کی اس میں ! بہت کم ایسے ہیں کہ جنہوں نے شراب خود سے نہیں پی ! تاریخ میں اُن کے اسمائے گرامی آتے ہیں ، وہاں ذکر ملتا ہے کہ اُنہوں نے یہ دیکھا کہ شراب پینے کے بعد عقل کام نہیں کرتی اور آدمی ایسی باتیں کرتا ہے کہ جس پہ لوگ ہنستے ہیں ! تو یہ دیکھ کر کہ یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ ہنستے ہیں تو اُنہوں نے از خود ہی شراب کو اپنی طبیعت سے ناپسند کیا ! ورنہ منع نہیں تھا ! ابتدائے اسلام میں بھی منع نہیں تھا ! !
معاشرہ کو ''سلجھانا''اُس کو'' متمول'' کرنے سے زیادہ اہم ہے :
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی فرماتی ہیں کہ پہلے تو ایمان کی طرف آپ نے دعوت دی ! جب ایمان مضبوط ہو گیا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَ مَرْ اور نَہِی فرمایا کہ یہ کام کرو یہ نہ کرو ! اور اس کی یہ سزا ہوگی ! پھر حکومت ایک طرح قائم فرمائی ! اور احکامِ اِلٰہیہ تدریجًا نازل ہوئے ! آزاد معاشرہ کی پیداوار تھی جتنی جتنی برداشت ہوتی گئی اُتنے اُتنے احکام اُترتے چلے گئے ! چوری کے بارے میں پہلے تو نہیں اُترا تھا حکم کہ ہاتھ کاٹ دو ! ہاں جب معاشرہ'' سمجھ'' گیا ! یہ نہیں کہ ''متمول'' ہوگیا معاشرہ ! بلکہ سمجھ گیا سُلجھ گیا ذہنی طور پر ! ویسے غریب ہی تھے اور بہت غریب تھے کثرت سے ! ! !
غریبوں کی نماز :
ایک صحابی نے تونماز پڑھ کے دکھائی قصدًا ایک کپڑے میں ، ایک چادر ( تہبند کے طور پر) باندھ رکھی تھی، ایک اوڑھنے کی تھی جو اوڑھنے کی تھی وہ پاس ہی ایک لکڑی کھڑی تھی اُس پر لٹکی ہوئی تھی ! تو اُن سے کسی نے پوچھا کہ جناب نے ایسے کیوں کیا ؟ اُنہوں نے کہا اس لیے کہ تم جیسا کوئی آدمی مجھے دیکھے گا، دیکھے گا تو پوچھے گا، پوچھے گا تو بتاؤں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو کپڑے کس کے پاس ہوا کرتے تھے ! ؟
''غریب''مانتا ہے ''متمول''اکڑتا ہے :
اب یہ کہتے ہیں لوگ آج کل کے دور میں کہ پہلے معاشرہ درست ہو متمول ہو ہر ایک کو کھانے کو میسر ہو فراخ روزی حاصل ہو پھر یہ سزائیں نافذ کی جائیں اب دو کپڑے بھی میسر نہ ہوں اور چوری پر ہاتھ کاٹ دیا جائے ؟ !
معاشرتی نفسیات :
حالانکہ بات یہ ہے کہ آدمی غربت میں تو مان بھی لیتا ہے اگر غربت نہ رہے تو سنتا بھی نہیں کسی کی ! پریشان حال ہو کوئی بات کہی جائے تو سمجھ میں آجاتی ہے ! اور جو امیر ہو دولتمند ہو وہ تو سمجھتا ہے کہ دولتمند بھی میں ہی ہوں ؟ ! عقلمند بھی میں ہی ہوں ؟ ! تو دُوسروں کی بات تو خاطر میں ہی نہیں لاتا ! ! !
نبی علیہ السلام نے عوام کی ''فکری اصلاح'' فرمائی :
تو معاشرہ کی درستگی اُس دور میں کیسے ہوئی تھی ؟ وہ فکری لحاظ سے ہوئی تھی کہ اِن کا ذہن صحیح طرح سوچنے لگے حق کو حق ! باطل کو باطل ! اور دُنیا کی بہ نسبت آخرت پر نظر رہنے لگے ! ! تو پھر احکامِ اِلٰہیہ اُترنے شروع ہوگئے مدینہ منورہ میں ! سزائیں وغیرہ حدود یہ سب اُتریں ! ! !
شروع میں شراب حرام نہ تھی، غزوۂ اُحد میں ہدایات کی خلاف ورزی کی وجہ :
مدینہ منورہ جب تشریف آوری ہوئی ہے تو اُس وقت تک شراب منع نہیں تھی ! اور شراب پیئے ہوئے تھے صحابہ کرام جو اُحد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں ! اُن میں بہت سے ایسے تھے کہ صحابہ کہتے ہیں کہ شراب تو اُن کے پیٹ میں ہوگی اُس وقت جو ابتداء میں شہید ہوگئے ! حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی اُن میں شہید ہوئے ہیں ! اور بدر کے بعد اُن کا شراب اور نشہ اِس کا ذکر باقاعدہ آتا ہے حدیث کی کتابوں میں ! ! یہ (غزوۂ اُحد کا قصہ)بھی حدیث کی کتابوں میں آتا ہے اور وہ جو بھول گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو وہ تیس صحابہ کرام کا یا پچاس کا جو ایک دستہ مقرر کیا تھا کہ اِدھر سے نہ ہٹنا چاہے ہمیں کامیابی ہو اورچاہے ہمیں شکست ہو ! اور چاہے ہماری بوٹیاں جانور نوچ لیں تمہیں یہاں سے نہیں ہٹنا ! ! اُن لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں رہی اور دماغ میں یہی آیا اور چل پڑے ! کیونکہ لڑائی تھوڑی سی دیر ہوئی اور شکست ہوگئی کفار کو وہ بھاگے ! یہ سمجھے کامیاب ہوگئے اور اُتر آئے ! یہ اُن کا اُترنا سمجھ میں آتا ہی نہیں سوائے اس کے کہ آسان سی تاویل یہ ہے کہ وہ بھی شراب پیئے ہوئے تھے چونکہ (شراب کے بارہ میں )صحابہ کرام کا سوال یہ موجود ہے اور اُس میں یہ بھی موجود ہے کہ ہم میں سے بہت سے صحابہ شہید ہوئے اور شراب اُن کے پیٹ میں تھی وَھِیَ فِیْ بِطُوْنِھِمْ ١
ہدایت کی خلاف ورزی مالِ غنیمت کے لالچ میں نہ تھی بلکہ.... :
تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شراب کے نشہ میں ایسی چیز ہوگئی ہوگی ! ورنہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کرنے والے تھے ہی نہیں ! تو جنہیں امیر بنایا ہے وہ منع کررہے ہیں اور پھر بھی نہیں سن رہے اور کیا دماغ میں آرہی ہے کہ مالِ غنیمت ؟ ! اور مالِ غنیمت کا مسئلہ اُنہیں معلوم تھا کہ مالِ غنیمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس کے جو چیز ہاتھ میں آجائے وہ اُس کی ہوگئی بلکہ مالِ غنیمت کا مطلب تو یہ ہے کہ جمع کرنا ہے اکھٹا کرنا ہے بس ! ورنہ کچھ بھی نہیں لے سکتے !
اور یہ دُوسری لڑائی تھی اس سے پہلے بدر کی ہوچکی تھی اُن کو احکام معلوم ہو چکے تھے ! اور اسی طرح کئی ایک چھوٹی لڑائیاں بھی ہوئیں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دستے)بھیجتے رہے تھے تو اُن کو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مال کا لالچ تھا ! مال کا لالچ تو وہاں ہو جہاں مسئلہ معلوم نہ ہو ! جب مسئلہ معلوم ہے کہ ہم لے ہی نہیں سکتے تو پھر یہ کہنا کہ'' چلو غنیمت'' ؟ تو یہ ہی نشہ کی بات ہوئی ! اور پھر پہلے سے قرآنِ پاک
میں حکم بھی اُترا ہے ،موجود ہے ( لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ )
نماز اُس وقت نہ شروع کیا کرو جس وقت نشے کی حالت میں ہو حتی کہ تمہیں یہ پتہ چلے کہ کیا کہتے ہو !
١ بخاری شریف کتاب المظالم والغصب رقم الحدیث ٢٤٦٤

جب ہوش آجائے پھر نماز پڑھ لیا کرو ! گویا شراب جائز رہی ! بعد میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب منع کردی ! اور پھر آتا ہے کہ حَرَّمَ تِجَارَةَ الْخَمْرِ ١ شراب کی تجارت بھی منع کردی ! ایک تو یہ ہے کہ خود پیئے ،ایک ہے کہ خود نہیں پیتا تجارت کرتا ہے مگر نہیں وہ بھی درست نہیں ہے مسلمان کے لیے ! ! !
دن دہاڑے ڈاکہ مارنے والا مومن نہیں :
ایک چیز یہ ہے کہ انسان لُوٹ مار جب کرتا ہے اور بڑا رُعب داب اُس کا ہوجاتا ہے لوگ اُسے دیکھ کے نام سن کے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ! اُس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرتا ! دُور سے دیکھتے رہتے ہیں ! نظریں اُٹھا اُٹھا کے دیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ ! ایسی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں کہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھتے ہیں کہیں ڈر کے بھاگتے ہیں کہیں کچھ ہوتا ہے بڑا رُعب داب کسی آدمی کا پیدا ہو گیا ! وہ کون ہے ؟ وہ بڑا ''ڈاکو'' بن گیا ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَا یَنْتَھِبُ نُہْبَةً یَّرْفَعُ النَّاسُ اِلَیْہِ فِیْھَا اَبْصَارَھُمْ حِیْنَ یَنْتَھِبُھَا وَھُوَ مُؤْمِن کوئی جب ایسے لُوٹ مار کرتا ہے اور لوگ اُسے دیکھتے ہوتے ہیں ، بے بس ہوتے ہیں ڈرتے ہوتے ہیں جب وہ یہ حرکت کرتا ہوتا ہے تو (فرمایا وہ)مومن نہیں ! ! !
خیانت کرنے والا مومن نہیں :
اور ارشاد فرمایا کہ لَا یَغُلُّ اَحَدُکُمْ حِیْنَ یَغُلُّ وَھُوَ مُؤْمِن جب غلول خیانت کرتا ہے کوئی مالِ غنیمت میں خیانت ہو یا کہیں تو ایمان پر نہیں ہوتا فَاِیَّاکُمْ اِیَّاکُمْ ٢ اس چیز سے بچو بچو ! ! یہ چیزیں نہ آنے پائیں تمہارے اندر ! یہ سب چیزیں رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے روک دیں منع فرمادیں ، پہلے یہ اُن کی رواجی چیزیں تھیں ! یہ اکڑفوں ، سرداری، لوٹ مار، اِدھر لوٹتے تھے اُدھر سخاوت کرتے تھے ! ! !
١ بخاری شریف کتاب الصلوة رقم الحدیث ٤٥٩
٢ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٣

ارشادات کا مطلب ؟
اچھا اب اس حدیث شریف میں جو جملے آئے ہیں وہ بڑے سخت ہیں ! کہ جب وہ چوری کرتا ہے تو مومن نہیں ! جس وقت شراب پی رہا ہے مومن نہیں ! لُوٹ رہا ہے مومن نہیں ! خیانت کر رہا ہے مومن نہیں ! زِنا کر رہا ہے مومن نہیں ! یہ تو ایمان سے نکال دیا ! ! اصل مطلب اس کا کیا ہے ؟ اصل میں مطلب یہ ہے جو صحابہ کرام نے سمجھا اور صحابہ کرام کے بعد تابعین اور علماء نے سمجھا وہ یہ مطلب ہے کہ ایمان کامل نہیں رہا ! کمالِ ایمانی اُس وقت موجود نہیں ! اگر ایمان کامل موجود ہو تو یہ بات کر ہی نہیں سکتا ! کچھ علماء نے اس کی تفسیر کی کہ(ایمان) نکل آتا ہے دل سے اُوپر آجاتا ہے اور جب وہ ان گناہوں میں سے گناہ کا کام کر چکتا ہے معاذ اللہ ! تو پھر وہ لوٹ کر آجاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اگر مقصد یہ ہوتا کہ بس کافر ہوگیا تو پھر تو یہ بھی حکم فرمایا ہوتا کہ اس کے بعد دوبارہ کلمہ پڑھے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ دوبارہ پڑھے ! یہ نہیں ہے تو پھر اس کے معنی ؟ اس کے معنی اُن کے نزدیک یہ ہیں کہ جو یہ کام کرتا ہے وہ ایسے ہے کہ اُس کا ایمان گویا نکل گیا ! ! !
''خوارِج'' بہک گئے :
بعد میں کچھ سخت مزاج لوگ پیدا ہوئے ،وہ ہیں ''خوارج'' اُنہوں نے اس کا مطلب یہ لیا کہ بس ایمان سے نکل گیا اور کافر ہو گیا ! اب اُسے دوبارہ مسلمان ہونا پڑے گا ! کوئی جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹا بھی کافر ہو گیا دوبارہ مسلمان ہونا پڑے گا ! اُنہوں نے بالکل ایمان سے خارج کردیا ! لیکن یہ فرقہ کہلاتا ہے اہلِ بدعت کیونکہ انہوں نے نئی چیز ایجاد کی اب نئی چیز اعمال میں ایجاد کر لے کوئی یا عقائد میں ایجاد کرلے کوئی دونوں بدعتی کہلائیں گے تو یہ عقائد کی بدعت ہے ! ! !
''معتزلہ ''بہک گئے :
ان کے بعد ایک فرقہ اور آگیا وہ عقل پرست تھا ! وہ یہ اُصول بناکے میدان میں آئے کہ جو چیز ہماری سمجھ میں آئے گی وہ مانیں گے ! نہیں آئے گی تو اُس کے معنی اپنے آپ جو سمجھ میں آسکتے ہوں وہ بنائیں گے ورنہ نہیں ! یہی فرقہ'' معتزلہ'' کہلاتا چلا آیا ہے ! اور اس کے طرح طرح کے رنگ ہوتے رہے ہیں ! ! !
اب سر سیّد وہ بھی معتزلی تھے ! اُن کے بعد جو اور گزرے ہیں مرزا حیرت ہوئے اور شاید اسلم جیراج پوری کہلاتے ہیں اور پرویزی کہلاتے ہیں اس طرح کے جولوگ گزرے ہیں یا موجود ہیں ١ اُن کا اُصول یہ ہے کہ وہ حدیث جو عقل قبول کر لے وہ مان لو جو عقل قبول نہ کرے وہ نہ مانو ! !
آج کے معتزلہ :
سر سیّد نے کہا کہ پہاڑ کے پتھر کو لکڑی مارنی اور اُس سے پانی کا نکلنا یہ کیا بات ہوئی ؟ یہ کیسے ؟ سمجھ میں نہیں آتا ! لہٰذا قرآنِ پاک کی آیت ( اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرْ ) اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، اس کا ترجمہ بدل ڈالا ! اور اُنہوں نے کہا کہ اپنی لاٹھی ٹیک کر پہاڑ پر چڑھو جب وہاں پہنچے تو وہاں بارہ چشمے تھے ! اور(فَانْفَجَرَتْ) کے معنی(کہ)اُس میں سے پھوٹ نکلے ! اس کے معنی غائب کردیے گول مول کردیے ! کیوں ؟ عقل قبول نہیں کرتی ! عذابِ قبر ! ثوابِ قبر ! کاانکار کرتے ہیں کہ نہیں ہوتا ! کیونکہ اگر ہوتا تو نظر آتا، نظر تو آتا نہیں ! کہتے ہیں قبر میں لیٹا دو اور اگلے دن کھول کے دیکھو تو لیٹا ہی ہوا ہوگا بیٹھے گا تو نہیں ! لہٰذا عذاب اور ثواب یہ ہے ہی نہیں ! اُنہوں نے اپنا یہ عقیدہ بنالیا ! بدعات اور گمراہی میں پڑ گئے یہ بدعت کہلاتی ہے، یہ بدعت ِ عقائد ہوئی ! ! !
قرآن اور اجماع کا انکار کفر ہے :
اس میں ایسی چیز کا اگر انکار ہوجائے جو قرآن میں آئی ہوئی ہو تو کفر ہو جائے گا ! اور ایسی چیز کا انکار ہوجائے کہ جو شروع سے آج تک ہر مسلمان جانتا آیا ہے چاہے کہیں بھی گیا ہو، مثال کے طور پر مغرب کی تین رکعت ہیں یہ کسی بھی ملک میں چلے جائیں جہاں بھی مسلمان ہیں انڈونیشا، ملائشیا اور آگے چلے جائیں جاپان میں کوئی مل جائے چین کی طرف تو کروڑوں ہیں وہ تین ہی پڑھیں گے ! فجر کی دو ہی پڑھیں گے ! اب اگر ایسی چیزوں کا کوئی انکار کر دے تو پھر یہ ہے کہ وہ تو اسلام سے
نکل جائے گا یہ کفر ہے ! نماز کی تعداد ! گنتی رکعتوں کی ! یہ قرآنِ پاک میں کہیں نہیں ہے !
١ آج کل انہیں '' نیچری'' کہا جاتا ہے،غامدی جیسے بھی ان میں شامل ہیں ۔ محمود میاں غفرلہ

اور حدیث ِپاک میں بھی کم ہیں روایتیں ! اور عمل ،عمل بہت ہے وہ چلا آرہا ہے اتنا ہے کہ جہاں بھی جائیں گے وہاں یہی ملے گا ! جو نمازی ہوگا وہ اسی طرح پڑھے گا تو ایسی ایک چیز کا بھی انکار کردے تو کفر ہوجاتا ہے ! اسلام ختم ہوجاتا ہے ! !
ضروریاتِ دین :
تو تمام ضروریات یعنی جو چیزیں اسلام نے اس طریقے پر ثابت کی ہیں اور ہمارے پاس تک ثابت چلی آرہی ہیں وہ'' ضروریات ِ دین ''کہلاتی ہیں ، ضروریاتِ دین کا انکار نہیں کیا جا سکتا جیسے قرآنِ پاک کی آیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ! تو ان لوگوں نے عذابِ قبر کا انکار کردیا ! پلِ صراط کا انکار کردیا ! اور اعمال کے وزن کرنے کا انکار کر دیا ! کہ یہ کیسے وزن ہوسکتے ہیں ؟ عمل کون سی چیز ہے ،رہتا ہے کہاں باقی ؟ جو وزن ہوگا ! حالانکہ اب چیزیں نکل بھی آئی ہیں سائنسی ایسی جن میں عمل محفوظ رہتا ہے ! فلم بن جاتی ہے دوہرائی جاسکتی ہے دکھائی جا سکتی ہے ! ! تووہ اعمال جو موجود چلے آتے ہیں یا جو کچھ آپ کرتے ہیں وہ سب موجود ہیں اُس میں اللہ تعالیٰ جان پیدا فرما دیتے ہیں !
قبر کی زندگی :
وہ (عمل) قبر میں بلکہ ساتھ بھی آتا ہے وہ رہے گا ساتھ ! اور اچھے اعمال اگر ہیں تو وہ (انسان) کہے گا کہ مجھے تجھے دیکھ کر خوشی ہورہی ہے سکون ہوتا ہے ! تووہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا عمل ہوں اور تیرے ساتھ ہی رہوں گا ! !
تو عذاب یاسوالِ قبر کا ذکر احادیث میں بہت آیا ہے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تشریف لے جا رہے تھے آپ کی سواری جو تھی بِدکی تو اُس پر ارشاد فرمایا یَہُوْد تُعَذَّبُ فِیْ قُبُوْرِہَا ١ یہ یہودی ہیں ان کو عذاب ہو رہا ہے قبر میں ! اسی طرح اور جگہ گئے دو قبریں دیکھیں آپ نے اور فرمایا کہ ان کو عذاب ہورہا ہے ! اور وَمَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ ٢ کبیرہ گناہ میں نہیں یا بڑے مشکل گناہ میں نہیں (بلکہ) بچنا ممکن تھا لیکن یہ بچے نہیں اُس سے !
١ بخاری شریف کتاب الجنائز رقم الحدیث ١٣٧٥ ٢ بخاری شریف کتاب الوضوء رقم الحدیث ٢١٦

پیشاب کی چھینٹیں اور چغل خوری :
ایک یہ کہ اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا ! اور دُوسرا چغل خوری کرتا تھا ! یہ چیز تھی جس پر عذاب ہے پھر آپ نے ایک شاخ لی اُس کے دو ٹکڑے کیے اور ایک اس میں اور ایک اس میں گاڑ دی اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ یہ بھی فرمایا کہ میں نے دعا کی ہے کہ جب تک یہ (شاخیں ) رہیں ان کے اُوپر سے عذاب ہٹا دیا جائے ! ! !
انسان کو جو کچھ کیفیات ہوتی ہیں یہ ضروری نہیں ہے کہ اُس میں آدمی سچ مچ اُٹھ کر بیٹھے اور خواب دیکھتا ہے اور خواب بیان کرتا ہے اور اُس میں کہتا ہے یوں ہوا ! یوں ہوا ! یوں ہوا ! اور بعض دفعہ اُٹھتا ہے اُس کے اثرات بھی ہوتے ہیں ! تو ایسی چیزیں جو ہم سے مخفی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائی ہیں تو بتلائی ہی اس لیے ہیں کہ ہم سے مخفی ہیں ! ! آپ کے ارشادات کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہمیں اُس کا پتہ نہیں چلتا ! ہوتی ہیں وہ ! وجود ہے اُن کا ! تو ''معتزلہ'' جو تھے اُنہوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہی کہہ دیا کہ ہیں ہی نہیں یہ چیزیں ؟ ! کیونکہ عقل میں نہیں آتیں ! ! !
خوارِج کی گمراہی :
'' خارجی'' کہتے ہیں کہ جو بھی مرتکب ِکبیرہ ہے کوئی کبیرہ گناہ کر لے وہ ایمان سے خارج ہوگیا اور کفر میں داخل ہوگیا اب اُسے دوبارہ مسلمان ہونا پڑے گا ! ! !
معتزلہ کی گمراہی :
''معتزلہ'' کہتے ہیں کہ ایمان سے خارج ہوگیا ہے مگر کفر میں داخل نہیں کیونکہ اس میں یہاں کہیں یہ نہیں آیا کہ دوبارہ ایمان قبول کر ے ! ! !
اہلِ سنت :
اور اہلِ سنت والجماعت کا جو مسلک چلا آرہا ہے چاہے وہ جو بھی ہوں شافعی ہوں ، مالکی ہوں ، حنبلی ہوں ، حنفی ہوں اُن سب کا یہ ہے جو صحابہ کرام نے سمجھا ! مطلب اس کا وہ یہی ہے کہ کمالِ ایمانی جو ہے وہ نہیں رہتا اگر ایمان کامل ہوتو گناہ نہ کرسکے گا ! ایمان میں نقص ہے اُس کے اس لیے یہ گناہ بھی کرلیتا ہے وہ گناہ بھی کر لیتا ہے ! ایمان ایسی چیز ہے کہ وہ اگر کامل ہو تو گناہ سے رُک جائے گاوہ گناہ سے اُس کو روک دے گا ! ! !
اس میں وہ تمام (بُری)چیزیں بتائی گئیں جو اُس دور میں ہوتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب مٹادیں ،لُوٹ مار بالکل ختم ہوگئی ! اُس وقت ایسی تھی کہ فخر کی چیز تھی ! جیسے کہ اب کوئی غنڈا ہو وہ کوئی ایسی حرکت کرے تو اُس پرفخر کرے گا ! اور اُس کے پیرو کار بھی فخر کریں گے ! مگر یہاں تو یہ آگیا کہ جب وہ لُوٹ مار کرتا ہے لوگ اُسے دیکھتے ہوتے ہیں وہ اندرخوش ہوتا ہے یا فخر محسوس کرتا ہوتا ہے بڑائی محسوس کرتا ہوتا ہے تو اُس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ! ! یہ سب چیزیں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹادیں اسلام نے مٹادیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ! اختتامی دُعا....................




Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.