jamiamadniajadeed

اسلام لانے کے بعد صحابہ امن پسند اور دیانتدار ہو گئے

درس حدیث 269/28 ۔۔۔۔۔ اسلام لانے کے بعد صحابہ امن پسند اور دیانتدار ہو گئے سرکاری دورہ اور تحائف ! یتیم کا مال ؟ حکومت نگران ! کفار کے ہاں میدان سے بھاگنا گناہ نہیں (1987-10-25)


( مارچ 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اسلام لانے کے بعد صحابہ امن پسند اور دیانتدار ہو گئے ! سرکاری دورہ اور تحائف !
یتیم کا مال ؟ حکومت نگران ! کفار کے ہاں میدان سے بھاگنا گناہ نہیں !
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر27 کیسٹ نمبر 77 سائیڈB 25 - 10 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یتیم کا مال کھانا یہ بھی مُوْبِقَاتْ میں ہے مُہلِکات میں ہے انسان کو یعنی اُس کی عاقبت کو برباد کردیتا ہے تو وہ سات چیزیں کہ جن سے بچنے کی ہدایت فرمائی تاکید فرمائی اُن میں ایک یہ بھی ہے۔ انسان میں کمزوریاں ہیں اور وہ غالب آجاتی ہیں سوچتا ہے کہ نہ غالب آئیں پھر بھی غالب آجاتی ہیں تو اُنہیں اگر روک دیا جائے تو رُک بھی جاتا ہے آدمی ! !
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جس ماحول سے نکل کر مسلمان ہوتے تھے اُس ماحول میں بہت کم دیانتدار لوگ تھے اور اکثریت اُن کی حلال و حرام کی تمیز جانتی ہی نہیں تھی اُنہیں کوئی خبر ہی نہیں ، جب یہاں آتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو بتلاتے تھے کہ یہ غلط ہے یہ صحیح ہے ! !
مدبر بھی گوریلا بھی ! !
ایک صحابی ہیں حضرت مغیرہ اِبن شعبہ رضی اللہ عنہ یہ بہت بڑے صاحب ِتدبیر اور بڑے بہادر اور گوریلہ لڑائی کے ماہر ! تو اِن کا یہ ہوا کہ یہ کچھ لوگوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے دل میں یہ تھا کہ مسلمان ہو جاؤں گا تو اِنہوں نے اپنے ساتھیوں میں ایک کو مارا ! دوسرے کو مارا اور اُن کا مال لیا ! اور آگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اَمَّا الْاِسْلَامُ فَاَقْبَلُ تمہارا جو اِسلام ہے یہ تو میں قبول کرتا ہوں منظور کرتا ہوں ! ! وَاَمَّا الْمَالُ فَلَسْتُ مِنْہُ فِیْ شَیْ ئٍ ١ اَوْ کَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مال جو ہے اس کی ذمہ داری یہ میرے اُوپر نہیں ! مگر وہ رہے وہاں کچھ مطالبہ بھی نہیں ہوا اور صلح بھی اُس وقت تک نہیں ہوئی تھی حدیبیہ کی، حدیبیہ کی صلح میں یہ طے ہو گیا تھا کہ اگر کوئی ایسے کرے گا اور ہم اُسے واپس بلائیں گے تو آپ کو واپس دینا ہوگا وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِ یْنِکَ چاہے وہ مسلمان ہو چکا ہو ! اِلَّا رَدَدْتَّہ اِلَیْنَا ٢ پھر بھی ہمارے پاس آپ کو واپس بھیجنا ہوگا ! ! یہ معاہدہ ہوگیا ! یہ اس سے پہلے کی بات ہے ! !
تو یہ تمیز کہ یہ درست ہے یہ نادرست ہے یہ تو اسلام نے بتلائی ہیں چیز یں ! اس سے پہلے تو اِن لوگوں میں اس چیز کی کوئی تمیز نہیں ہوتی تھی ! کسی کو بھی پکڑ لیتے تھے اور بیچ دیتے تھے ! آپس میں قبائل میں دُشمنیاں تھیں مخالف قبیلے کے لوگوں کو پکڑ لیتے تھے اور بیچ ڈالتے تھے ! !
حضرت زید رضی اللہ عنہ جنہوں نے جناب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں تربیت پائی ہے اُن کو اسی طرح ایک دشمن قبیلہ جو تھا اُس نے حملہ کیا پکڑ لیا اور پکڑ کے اِغوا کر کے لے گئے لے جا کر بیچ دیا ! اور وہ غلام بن گئے ! ہوتے ہوتے وہ مکہ مکرمہ میں آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے ! یہیں رہے تو یہ تمیز کہ اس طرح سے مال جائز ہے لے سکتے ہو اس طرح ناجائز ہے نہیں لے سکتے ، یہ تمیز ہوتے ہوتے، ہوتے ہوتے اتنے درجے تک پہنچا دیا کہ تقوی یہ ہے کہ یہ لو اور یہ نہ لو۔
١ بخاری شریف کتاب الشروط رقم الحدیث ٢٧٣١
٢ بخاری شریف کتاب الشروط رقم الحدیث ٢٧١١

حضرت معاذ اِبن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی ہے کہ اَعْلَمُہُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ ١ حلال اور حرام کا علم رکھنے والے معاذ اِبن جبل ہیں ان کے پاس زیادہ ہیں معلومات اس قسم کی ! پہلے کچھ غلطی ہو گئی تھی نماز پڑھانے کی ! اُس کے بعد تنبُّہ ہوا ہوگا پھر پوچھتے رہتے ہوں گے خیال رکھتے ہوں گے حتی کہ یہ اتنے بڑے ہوگئے کہ اَعْلَمُہُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ فرما دیا ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمادی ! ان کو بھیجا تھا آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جائیں وہاں یمن سے وصول کر لائیں جو کچھ بھی اُن پر واجب ہوتا ہے، یہ گئے وہاں سے وصول کر کے لائے وہاں جب پہنچے اور وہاں ٹھہرے تو کچھ لوگوں سے دوستی ہو گئی تعلقات ہوگئے تو ان کو ویسے ہی اس طرح کے تحائف مل گئے اور وہ خالص دوستی جیسے ہوجاتی ہے وہ ہو گئی اُس میں ہی اُنہوں نے(تحائف) دیے ہیں یہ لے کر سب وصول کر کے آگئے ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چلتے وقت بتلا دیا تھا کہ شاید تمہاری دوبارہ آگے کو ملاقات میرے سے نہ ہو لَعَلَّکَ اَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِیْ ھٰذَا وَقَبْرِیْ ٢ شاید ایسے ہو کہ میری یہ مسجد اور میری قبر سے تم گزرو، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اس بات کو سن کر بہت رونا آیا تھا لیکن بہرحال وہ وہاں گئے مسلمانوں کے لیے تو یہی حکم تھا کہ جہاں بھیجا جائے وہاں جاؤ ! ثواب بھی اُس میں زیادہ ہے ! !
حکم کی تعمیل کرنے میں ثواب زیادہ ہونے کی وجہ :
ایک صحابی تھے اُنہوں نے سو چا کہ میں نماز ایک اور پڑھتا جاؤں اور لشکر باہر تھا تو وہ آگئے نماز پڑھی نماز کے بعد آپ نے دیکھا اور فرمایاکہ تم یہاں کیسے ؟ تم تو لشکر میں جا رہے تھے اُنہوں نے کہا جا تو رہا تھا اور جا بھی رہا ہوں اب بھی ،سوچا کہ ایک نماز اور جناب کے پیچھے پڑھ لوں ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند نہیں فرمایا ! یہ فرمایا کہ وہاں تمہیں جو اَجر ملتا وہ زیادہ تھا ! یعنی وہاں تم جا رہے ہو تو وہاں تمہیں یہاں کا اَجر خود ہی ملتا ! اب یہاں کاملا ہے وہاں کا نہیں ملا ! ایک رہ گیا ! تو عام نظر جو تھی
١ مشکوة شریف کتاب المناقب رقم الحدیث ٦١٢٠
٢ مشکوة شریف کتاب الرقاق رقم الحدیث ٢٧٣١

وہ اور چیز ہے اور خاص نظر اور ! تو حکم جب دے دیا جائے کہ جاؤ تووہی افضل تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت کی جائے اُسی میں فضیلت ہے ! !
سرکاری دورہ اور تحائف،حضرت عمر کا اعتراض :
تو یہ (حضرت معاذ یمن )چلے گئے، واپس آئے ہیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا جو کچھ وہاں سے وصولی ہوئی وہ پیش کر دی ! اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ یہ اُن لوگوں نے مجھے دیا ہے ! ابوبکر رضی اللہ عنہ نے توکچھ نہیں فرمایا اس کو منظور فرمایا ! لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اختلاف کیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے ! وہاں جانا جو تھا آپ کا وہ سرکاری طور پر تھا تو جو کچھ وہاں سے وصول ہوا وہ آپ کا نہیں ہے ! وہ سب سرکاری ہے وہ سب خزانے میں جمع ہونا چاہیے ! انہوں نے اختلاف ِ رائے کیا لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں کیا ! اور حضرت معاذ نے دلیل پیش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ مجھے مالی ضروریات مجبور کر رہی ہیں زیادہ ہیں میرے ساتھ لگی ہوئی ! تو ایک مقصد یہ بھی تھا وہاں بھیجنے میں کہ میری امداد ہو جائے ! تو یہ اُنہیں معلوم تھا اس لیے حضرت صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات کی تائید نہیں کی ! ! !
خواب اور حضرت معاذ کا تقوٰی :
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پھر خواب دیکھا ایک ! جیسے کہ میں کہیں ڈوب رہا ہوں ! اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بچایا ہے تو پھر اس کی تعبیر وہ یہ سمجھے کہ یہ مال غلط ہے ! آئے واپس وہ مال دے دیا کہ بیت المال میں جمع کر لیجئے ! ! !
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اُن(صحابہ) کا حال پہلے تو یہ تھا کہ لوٹ مار کرتے تھے ! حلال و حرام کی بالکل تمیز نہیں تھی ! اور جو آتے تھے وہ اُسی معاشرہ میں سے آکر مسلمان ہوتے تھے ! پھر اتنی تبدیلی آجانی اتنی تیزی سے کہ ان میں تقوی آجائے ! اور تمیز حلال و حرام کی ہوجائے ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرماناکہ مشتبہ چیزوں سے بچو جہاں شک پڑ جائے بس بچ جاؤ اُس سے ! اُس کو چھوڑ دو دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَالَایُرِیْبُکَ اور مُشْتَبَہَاتْ سے بچو اور فرمایا فَمَنِ اتَّقَی الْمُشْتَبَہَاتِ ١ جو بچے مُشْتَبَہَاتْ سے بس اُس نے اپنے آپ کو بچا لیا ! ورنہ مشتبہ چیزوں میں پڑ کر غلطی میں پڑ جاتا ہے ! ! تو اب اُن کا حال پھر یہ ہوجاتا تھا کہ وہ آئے ! اور واپس دے دیا مال سارا ! ضرورت بھی تھی مقروض تھے یا دیگر مصارف اُن کے ذمہ تھے جو شرعی تھے واجب تھے کوئی ایسے فضول خرچی کے نہیں تھے لیکن واپس کر دیا ! ! !
سفارش و تجویز :
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ جو بیت المال میں آنا چاہیے تھا اب آگیا بیت المال میں ! اس میں دینا چاہیے تھا ! انہوں نے دے دیا ! ! اب جناب ان کو یہ مال واپس کردیں اب انہیں آپ دے دیں ! ! واپس کرنا نہ ہوا وہ تو دینا ہو گیا کہ اب انہیں بطورِ انعام کے جناب یہ مال دے دیں تو پھر سب نے ہی اس سے اتفاق کیا کہ یہ بات ٹھیک ہے ! اب دینا جو ہوگا یہ بیت المال کی طرف سے ہوگا یہ امیر المومنین کا دینا ہوگا اور یہ درست ہوگا ! تو ان حضرات میں یہ تقوی آگیا لیکن جس ماحول سے نکل کر آتے تھے وہاں اگر یتیم کا مال ہاتھ لگ جائے کوئی متولی ہوجائے مالِ یتیم کا تو یتیم تو بیچارا کچھ نہیں سمجھ سکتا وہ تو شفقت کا محتاج ہے اور اُسے کچھ تمیز نہیں بچارے کو، اُس کو تربیت کی بھی ضرورت ہے سمجھ ہے ہی نہیں اُس میں ،وہ بچہ ہے تو یہ کرتے تھے کہ جلدی جلدی اُس کے مال کو کسی نہ کسی طرح سے گڑ بڑ کرتے تھے اپنے نام کرالیا اپنا کاروبار چلالیا اُس کے ذریعہ تاکہ بڑے ہونے سے پہلے پہلے یہ ہوجائے ! قرآنِ پاک میں ہے ( لاَ تَأْکُلُوْھَا اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا)
اور جو کھا رہا ہے مال یتیم کا تووہ آگ کھا رہا ہے (اِنَّمَا یَأْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا) آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بالکل روک دیا اور پوری دیانتداری سکھائی ! ! !
حضرت عمر کا دور اور یتیم کا مال :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایسے ہی ہوا ایک یتیم بچہ تھا اُس کا مال تھا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک تاجر کو دے دیا کہ یہ اِس کا مال ہے اورتم لگا لو تجارت میں ، وہ لگائے رکھامال
١ بخاری شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٢
اُس نے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ کیا ہوا اُس کا ؟ میں نے تمہیں وہ پیسے دیے تھے فلاں کے ! اُنہوں نے کہا کہ میں نے تجارت میں لگایا ہے اور اب وہ بڑھ کر اتنے ہو گئے ہیں نفع ہوتا رہا ہے اور اُس حساب سے دیکھا جائے تو اتنے بن گئے وہ غالبًا دس ہزار بن گئے ! تو دس ہزار دِرہم اُس زمانے میں یہ اچھی خاصی رقم ہوتی تھی ! ! کیونکہ یہ سمجھئے گا کہ یہ دُوسری جنگ جو ہوئی ہے اس سے پہلے اور جنگ ِعظیم چودہ ١ کے بعد جو تنخواہیں لوگوں کی ہوتی تھیں وہ چار روپے پانچ روپے ! اور وہ اتنے ہوتے تھے کافی اُن کے لیے کہ اُن سے ختم نہیں ہوتے تھے ! تو بہت سی چیزیں تو فری یا بہت سستی تھوڑے سے پیسوں کی لے آئے وہ چل رہی ہے مہینہ ! تو اُس زمانے میں دس ہزار دِرہم اگر کسی کے پاس ہوں یعنی دس ہزار روپے ہوجائیں تو یہ اُس کے گزارے کے لیے اورہوشمند ہونے کے دور تک کے لیے کافی ہوسکتے تھے ! تو اُنہوں پھر کہا کہ بس یہ واپس دے دو مجھے، واپس لے لیے تو دیانتداری کا دور آگیا اتنا کہ اس میں یہ نہیں رہا کہ کھاگئے یا اُڑا گئے یا نقصان دکھا دیا کوئی غلط چیز ایسی نہیں سب ٹھیک ہوتے چلے گئے ! !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں منع فرمایا کہ یہ مُوْبِقَاتْ میں ہے یہ تو ہلاک کرڈالنے والی چیزوں میں ہے عاقبت برباد ہوجاتی ہے اِس سے اور قرآنِ پاک میں الگ نازل ہوا یہی حکم، تو پھر یہ سارے کے سارے سب کے سب دیانت دار ہوگئے اور اب تک آپ سنتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں اب بھی دیانتدار لوگ ایسے ملتے ہیں کہ جویتیم کا مال یااور چیزیں کسی اور کی امانت اُس میں خیانت نہیں کرتے ! یتیم کا مال کھالینا یہ تو خدا سے بے خوفی کی بھی بات ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے اُوپر بھی یہی وقت آجائے اور اس کے بچے بھی اسی طرح کسی کے زیر نگرانی چلے جائیں تو اُس کو یہ خوف نہیں آرہا اور وہ کھا رہا ہے ! یہ غلط کام ہے یہ بے خوفی کی بھی بات ہے ! ایمان جب آجائے گا تو آخرت کا خیال ہروقت رہے گا ! خدا کی طرف ذہن ہر وقت رہے گا ! برائی سے بچے گا اور عمل کی جس طرح شریعت نے بتائی ہے ویسی کوشش کرتا رہے گا ! ! !
١ ١٩١٤ء ...... جنگ عظیم اوّل (٢٨ جولائی ١٩١٤ء تا ١١ نومبر١٩١٨ئ)
میدانِ جہاد سے فرار :
ارشاد فرمایا کہ ایک بہت بڑا گناہ جو ہے وہ یہ کہ جہاد ہو رہاہو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اَلتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِبہت بڑا گناہ ہے اور قرآنِ پاک میں بھی ارشاد فرمایاہے (وَمَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہ) جو لڑائی کے دن پشت پھیرے (اِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ) سوائے اس کے کہ اُس کی نیت یہ ہو کہ میں پلٹ کر پھر آؤں گا لڑوں گا ( اَوْمُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَةٍ) یا وہ جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ وہاں میری جماعت موجود ہے اُن میں جاؤں گا میں ،بھاگ کے نہیں جا رہا ہے ! میدان سے پیچھے ہٹناہوا یا یہ چال ہوئی ایک طرح کی یا پینترہ بدلنا ہو گیا جس طرح ! چال چلنی ہو گئی لڑائی کی ! تو اگرایسی نیت نہیں ہے اُس کی بلکہ سچ مچ بھاگ رہا ہے میدانِ جنگ سے ( فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ )اللہ کا غضب لے کر لوٹا ہے
( وَمأْوٰہُ جَہَنَّمُ ) ١ اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے ! ! !
یہ جو مجاہدین ہیں جب تک میدان میں نہیں جاتے تو کہتے ہیں ڈر لگتا رہتا ہے لیکن جب میدان میں چلے جاتے ہیں یہ افغانستان والے لوگ بتاتے ہیں تو پھر یوں نہیں لگتا کہ جیسے میدانِ جنگ میں آئے ہوئے ہیں (بلکہ) بے خوفی سی ہوتی ہے ایک طرح کی تو اللہ تعالیٰ جو مکلف کرتے ہیں کسی چیز کا تو وہ انسان کی فطرت کو جانتے ہیں اُس کے علم میں ہے اُس کی بنائی ہوئی ہے ( اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ) ٢
(کیا) وہ نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا ؟ وہ تو جانے گا ! تو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اللہ نے بنایا ہے انسان کی فطرت کو اِسی طرح کا کہ جب وہ میدان میں اُتر آئے تو یہ کیفیت نہیں ہوتی ! اگر جمنا چاہے تو جم سکتا ہے ! اور جب جمو گے تو پھر دُوسرے کو شکست اُٹھانی پڑے گی ! ! !
کفار کے ہاں میدان سے بھاگنا گناہ نہیں :
اُن کے ہاں پیچھے بھاگنا کوئی گناہ نہیں ہے ! مسلمانوں کے ہاں پیچھے بھاگنا گناہ ہے !
١ سُورة الانفال : ١٦ ٢ سُورة الملک : ١٤
یہاں ایک صاحب ہیں فوجی ١ وہ وہاں لڑائی میں تھے بنگلہ دیش بننے سے پہلے(مشرقی پاکستان کے) ''ہِلِّی ''کے محاذ پر اِن کے سپاہی بھاگنے لگے ! وہ تھے سو تقریبًا ایک جگہ ! اور ایک محاذ پر ہی اگر پیچھے ہٹ جائیں تو پھر سب محاذوں پر اثر پڑتا ہے اُس کا اور اگر وہاں جم جائیں تو دُوسرے محاذوں پر بھی اثر پڑتا ہے تو کوئی چھیانوے میل کا علاقہ تھا اُن کا وہ پیچھے ہٹنے لگے اور ہندو آگے بڑھے ! تو اِنہوں نے (اپنے سپاہیوں سے)کہا کہ تم شرم کرو اِن رام رام کہنے والوں سے تم پیچھے ہٹ رہے ہو بھاگ رہے ہو اور لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ تم پڑھتے ہو ! ! تو کہتے ہیں میں نے اُن سے اتنا کہا تو وہ جم گئے ! ! اگرچہ جمنا بالکل بے موقع تھا ! اُن میں سے اَسّی کے قریب شہید ہوگئے ! وہاں پیچھے ہٹنا رُک گیا ! اور گیارہ کے قریب کہتے تھے شدید زخمی ہوئے ! یہ سب کچھ ہوا لیکن پیچھے ہٹنا پھر بند ہو گیا ایک اِنچ بھی پیچھے پھر نہیں ہٹے ! ! تو اس طرح کی چیزیں جب پیش آتی ہیں اور مسلمان جمتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرما دیتے ہیں ! ! !
تو جہاد تو وہاں روز ہوتا رہتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات جو شمار کیے گئے ہیں وہ ستائیس تک ہیں جن میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ! باقی اور بھی ہیں جن میں آپ نہیں تشریف لے گئے اور یہ فرمایا کہ اگر مجھے اُمت کا خیال نہ ہوتا تومیں خود جایا کرتا ہر جہاد میں ! ! اور کسی بھی لشکر میں میں یہاں نہ بیٹھا رہتا مَا قَعَدْتُّ خَلْفَ سَرِیَّةٍ ٢ میں خود شامل ہوتا لیکن ایسے ہے کہ جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اور پابندی سے کریں تو وہ پھر واجب ہوجاتی ہے ! تو وجوب کے درجہ سے ہٹانے کے لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسا سمجھا جانے لگے ! اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کیا ہے کہ تشریف نہیں لے گئے بلکہ دُوسروں کو بھیجا ہے ! فلاں جگہ فلاں کو، فلاں جگہ فلاں کو امیر بنا کر بھیجا ہے ! !
١ ریٹائر میجر جنرل تجمل حسین صاحب ملک حضرت رحمہ اللہ کی خدمت میں کثرت سے تشریف لاتے رہتے تھے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی جو ناکام رہی پھر جیل ہوگئی اسی دوران حضرت رحمہ اللہ کی رحلت ہوگئی ،حضرت کے نام ان کے سیاسی اور تاریخی خطوط کا مجموعہ ماہنامہ انوار مدینہ (جلد ١١ شمارہ ١٢ دسمبر ٢٠٠٣ء تا جلد ١٢ شمارہ ٣ مارچ ٢٠٠٤ئ) میں قسط وار شائع ہوچکا ہے۔ محمود میاں غفرلہ
٢ بخاری شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٦
ایک اور دو کا تناسب یا ایک اور دس کا تناسب :
تو بھاگ جانااُس زمانے میں بالکل منع تھا پہلے یہ تھا کہ( اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ) ١ اگر تم میں سے بیس ہوں گے جو جم جائیں وہ دو سو پر غالب آجائیں گے، قرآنِ پاک کی آیت ہے اُس کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو پھر حکم بدل گیا ( اَلْاٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَة صَابِرَة یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ) ٢ اگر تم میں سو ہیں جو جمنے والے ہیں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے ! تو حکم بدل گیا کہ ایک اور دو کا مقابلہ رہ گیا ! تو ایک اور دو ہوں ! یا ایک اور دس ہوں ! اب تک وہی صورت ہے کہ اگر جم جائیں تو غالب پھر بھی آجاتے ہیں مسلمان ! تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میدانِ جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگنا (منع ہے)مگر اِس میں مستثنیٰ دو شکلیں کردیں ، ایک یہ کہ وہ اپنے گروہ کے پاس جا رہا ہے ! اور ایک صورت یہ ہے کہ وہ پلٹ کر حملہ کرنا چاہ رہا ہے ! وہ کوئی چال چل رہا ہے اس طرح کی، اُس میں اگر مارا گیا اور پیٹھ کی طرف سے گولی لگی اُس کے ! مارا گیا بظاہر ایسے ! لیکن وہ اِس میں داخل نہیں ! ورنہ بہت شدید بات ہے کوئی پیچھے ہٹے پیچھے ہٹنا بالکل منع ہے ! ! !
پاک دامن عورت پر بہتان :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکبائر گنائے اُن میں یہ آتا ہے وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلاَتِ ٣ بھی مُوْبِقَاتْ میں مُہلِکات میں شمار ہوتا ہے کہ کوئی پاک دامن عورت ہے اور اُ س پر الزام لگادیا ! یہ گویا اُس بیچاری کی بدنامی بھی ہوگئی مستقبل بھی اُس کا تباہ کرنا ہو گیا ایک طرح سے ! تو بظاہر تو یہ ہے کہ زبان ہی چلائی ایک کلمہ کہا ہے زبان سے ! لیکن حقیقةً خدا کا غضب مول لے لیا اُس نے ! مُہلِکات کا مطلب یہ ہے کہ اِس کے بعد ہو سکتا ہے کہ اُس سے نیکی کی توفیق ہی سلب کر لی جائے اور گناہ ہی کی طرف وہ چلتا رہے ! اور گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں معاذ اللہ کہ جن کا نتیجہ ایمان کاسلب ہوجانا ہے ! العیاذ باللّٰہ اللہ پناہ میں رکھے !
١ سُورة الانفال : ٦٥ ٢ سُورة الانفال : ٦٦ ٣ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٢
تو ایسے ہی نیکیاں بھی ،کوئی نیکی پسند آجاتی ہے اللہ کو تووہ نجات کا باعث بن جاتی ہے ! دونوں چیزیں ہیں ( نَبِّیْٔ عِبَادِیْ اَنِّیْ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) ١ میرے بندو ں کو بتلادیجئے کہ میں غفور رحیم ہوں !
( وَاَنَّ عَذَابِیْ ھُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ ) ٢ یہ بھی ساتھ ساتھ لگا دیا کہ میرا عذاب جو ہے وہ بڑا دردناک عذاب ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق دے ،صحیح راہ پر چلائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے ، آمین ۔اختتامی دُعا ...............
١ سُورة الحجر : ٤٩ ٢ سُورة الحجر : ٥٠



Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.