jamiamadniajadeed

سودی نظام قدیم اور فرسودہ

درس حدیث 268/27 ۔۔۔۔۔ سودی نظام قدیم اور فرسودہ ،غیر سودی نظام جدید ہے کافر حکومتوں کے ساتھ سودی لین دین کی اِجازت ہےقرض دینے کا اجر ، ''حسنِخاتمہ '' وجود سے بڑی نعمت ہے (1987-10-18)

( فروری 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
سودی نظام قدیم اور فرسودہ ،غیر سودی نظام جدید ہے
کافر حکومتوں کے ساتھ سودی لین دین کی اِجازت ہے
قرض دینے کا اجر ، ''حسنِخاتمہ '' وجود سے بڑی نعمت ہے
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر26 کیسٹ نمبر 77 سائیڈA,B 18 - 10 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں یہ بیان ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے سات ایسی چیزیں ہیں کہ جو ہلاک کر دیتی ہیں اُن سے بچو اَلسَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا ھُنَّ انہوں نے عرض کہ وہ کیا ہیں اے رسول اللہ ؟ ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اَلشِّرْکُ بِاللّٰہِ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا ! وَالسِّحْرُ اور جادو وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ اور ایسے آدمی کو قتل کرنا کہ جس کا قتل جائز نہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے ! یہ کام ایسے ہیں کہ انسان کے لیے ہلاکت کا باعث ہوتے ہیں مطلب یہ کہ آخرت برباد ہوجاتی ہے ! ! !
اور بعض برے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے بعد اُس انسان سے معاذ اللہ نیکی کی توفیق سلب ہوجاتی ہے برائی کی طرف چل پڑتا ہے اور اسی میں مرجاتا ہے ! اور خاتمہ کی خرابی وہ سب سے بُری چیز ہے سب سے زیادہ خطرناک چیز ہے ! ! اور خاتمہ کی اچھائی سب سے بڑی نعمت ہے انسان کی پیدائش سے بھی بڑی نعمت اچھا خاتمہ ہے ! ! پیدائش بھی نعمت ہے خدا نے وجود بخشا ! لیکن اس سے بھی بڑی نعمت ہے ''حسن ِ خاتمہ'' کہ خاتمہ ٹھیک ہو صحیح ہو اچھا ہو، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اور ہم سب کو جب کسی کا وقت آئے حسنِ خاتمہ عطا فرمائے ! ! ! تو یہ چیزیں وہ ہیں کہ جن کا انجام یہ ہوتا ہے کہ تباہی کی طرف چل پڑتا ہے یا یہ ایسا بڑا گناہ ہے کہ اس کے بعد نتیجةً خود بخود طبیعت مسخ ہوجاتی ہے چاہے کوئی سمجھائے کوئی کچھ کہہ لے مگر اُس کے سمجھ میں ہی نہیں آتی بات۔
ارشاد فرمایا کہ اَکْْلُ الرِّّبٰی ١ سود کھانا یہ بھی ایسی ہی چیز ہے کہ حق تعالیٰ سے استغفار کر لے توفیق ہوجائے تو الگ بات ہے ! لیکن اگر اللہ تعالیٰ کو برا لگ جائے اور استغفار اور توبہ کی توفیق بھی سلب ہوجائے تو پھر کیا ہوگا ؟ پھر تو مُہلِکات میں ہی ہے یہ ! ! !
سود خور کا مزاج :
اور سود جو ہے وہ دونوں طرح تباہ کن ہے : ایک اس انسان کے لیے جو کھا رہا ہے ! اور پوری قوم کے لیے جو کھا رہی ہے ! جو سود خور ہوتا ہے اُس کا لالچ تو بڑھتا ہی ہے اُس میں خاص طور پر بے رحمی بڑھ جاتی ہے ! اور بے رحمی بہت بری چیز ہے وَمَن لَّا یَرْحَمْ لَا یُرْحَمْ ٢ جو دُوسروں کے ساتھ رحمت کا معاملہ نہ کرے گا اُس کے ساتھ خدا کے یہاں بھی رحمت کا معاملہ نہیں ہوگا ! ! اور اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ ٣ تم اُن لوگوں پر رحم کرو ترس کھاؤ جو زمین میں ہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے اُو پر رحم فرمائے گا اَوْ کَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلاَمْ یہ مختلف جملے ہیں جو ذیل میں مختلف حدیثوں میں آگئے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت تو بہت زیادہ تھی ایک صحابی جانوروں کو پکڑ لائے تھے اُن کے پیچھے پیچھے وہ چڑیا بھی آگئی کیونکہ وہ بچے لے آئے تھے چڑیا کے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ واپس کرادیے کہ
١ مشکوةشریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٢
٢ مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث ١٢١٢٤ ٣ سُنن ترمذی رقم الحدیث ١٩٢٤

انہیں وہیں گھونسلے میں چھوڑ کر آؤ اِن بچوں کو تاکہ یہ جائے تو اب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت للعالمین ہونے کی بات ہے کہ سب کے لیے آپ کے قلب ِ مبارک میں رحمت اور شفقت تھی تو(سود خور کے دل سے) وہ ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔

سود خور کی خواہش :
اور سود خور چاہتا ہے کہ یہ آدمی جس نے مجھ سے روپے لیے ہیں یہ برباد ہی رہے اور میرے پیسے دینے ہی نہ پائے تاکہ مجھے اپنے پیسوں کا سود برابر ملتا رہے اور پھر سود دَر سود کا معاملہ چل پڑتا ہے وہ بھی اسی طرح تباہ کن ہے تو ''سود دَر سود ''ہو یا ''سود ''ہو بات وہی ہے ! اچھا جب مزاج آدمی کا مسخ ہوجاتا ہے اور بے رحمی آجاتی ہے تو بے رحمی ایسی چیز ہے کہ دُوسرے کی عزت بھی پھر نہیں کرتا ! !
انسانی حقوق مسلم ہو یا کافر :
تو انسان کی انسانیت کی جو عظمت ہے وہ اُس کے ذہن سے مٹ جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا (وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ ) انسان کو ہم نے قابلِ اکرام بنادیا ہے تو تمام انسان اُس میں شامل ہیں اُس میں یہ نہیں ہے کہ غیر مسلم شامل نہیں ہیں غیر مسلم بھی ہیں ۔
مثال سے وضاحت :
مثال کے طور پر ایک مسئلہ آتا ہے کہ انسان کے بالوں سے رسی بٹی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ توامامِ اعظم رحمة اللہ علیہ اسے منع کر تے ہیں ،وہ یہ نہیں فرماتے کہ مسلمان کے بالوں سے نہ بٹی جائے کافر کے بالوں سے بٹ لی جائے ! یہ نہیں ہے اس میں ! کیونکہ انسان قابلِ اکرام ہے فرض کریں کہ جس کے بال آپ نے رکھے تھے وہ مرا بھی کافر ہی ہے پھر بھی اس طرح کا معاملہ نہیں کیا جاسکتا ! !
اور اسی طرح سے مثلاً لاشوں کو کھلا چھوڑ دینا ! لاشوں کو بد حال بنانا ! ناک کان کاٹ لینا ! تمام چیزیں اسلام نے منسوخ کردیں ! لاشوں کو اسی طرح پڑا چھوڑ دیا جائے کہ چیل کوّے کھاتے رہیں یہ نہیں ہوسکتا ! ! !
معرکہ ٔ طائف اور بے حیا عورت :
طائف پر جب حملہ ہوا ہے تو منجنیق استعمال فرمائی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،منجنیق یعنی (پتھر کا گولا) پھینکنے کی ایک چیز ایک آلہ ایجاد کیا تھا وہ استعمال فرمایا ہے ! حدیث شریف میں ایک واقعہ اسی طرح کا آیا ہے کتاب الجہاد میں کہ طائف میں اُوپر جو قلعہ تھا اُن کا وہاں ایک عورت ننگی کھڑی ہو گئی ! ! اور بڑی بے شرمی سے اُس نے(مسلمانوں سے) خطاب کیا ! ! تو لوگوں نے کہا ............... مارو اسے ،اُس کو تیر مارااور لگا اور وہ مری اور گر گئی ! ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دفن ہی کرنے کاحکم فرمایا یعنی قبر تو ویسی نہیں بنائی جاتی، مسلمان جیسے اکرام کے ساتھ تو نہیں دفن کیا جاتا ! اور ایسی بے شرم عورتیں پہلے بھی تھیں اور اب بھی ہوتی ہیں ! ! تو اُس نے یہ حرکت کی اور تھی کافر ! ماری بھی گئی کافر ! مگر آپ نے لاش کو بند کرنے کا حکم فرمادیا ! اہلِ بدر میں (کفار کے) بڑے بڑے لوگ مارے گئے مگر اُن سب کو ڈھانپ دیا گیا ! ! اعزاز کے ساتھ تو نہیں مگر ڈھانپاضرور گیا ! ! تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والسلام کی تعلیمات جو ہیں اُن میں تو حیا ہے ، شرم ہے، اکرام ہے اور یہ جو سودخور ہوتا ہے یہ اکرام جانتا ہی نہیں ، کسی کا بھی اکرام نہیں کرتا ۔
''سودی'' فرسودہ نظام ہے، ''غیر سودی'' جدید نظام ہے :
آپ غور کریں ویسے بھی بہت ہی بڑی غلطی ہے عام لوگوں کی کہ یہ سمجھتے ہیں کہ سودی نظام ترقی یافتہ نظام ہے اور غیر سودی نظام جوتھا وہ پرانا تھا، یہ بات غلط ہے بلکہ سودی نظام پرانا تھا ! ؟ اور غیرسودی نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رائج فرما یا ہے ! ! مدینہ منورہ میں سود ہی کھاتے تھے وہ یہودی لوگ ( اَکَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ ) حرام خوب کھاتے ہیں ، رِشوت کھاتے تھے سود کھاتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ ذہن سخت ہو گیا ۔
''سود خور'' کا اپنے بھائی کے ساتھ سلوک :
ایک صحابی ہیں اُنہوں نے ایک یہودی کو ماراتھا اور وہ اُس کے رضاعی بھائی تھے اُس کے ہاں گئے تھے کہ ہمیں کچھ پیسے چاہییں ! ہمیں کچھ اناج چاہیے ! اُس نے کہاکہ اناج تو میں دے دُوں گا لیکن تم گروی رکھو میرے پاس ! کیا گروی رکھیں ؟ کہنے لگا عورتیں گروی رکھو اپنی ! یہ انتہادرجے کی بے غیرتی کی بات ہے کہنے والے کی بھی ! اور جس آدمی سے یہ بات کہی جائے اُس کی انتہائی درجہ کی توہین ہے ! تذلیل ہے ! تحقیر ہے ! یہ کوئی گائے بھینس ہے کہ جسے گروی رکھ لیں ! ؟ یہ اُس کا ذہن تھااپنا ! ! اس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا اور اُس کی تعریف کی کہ آپ تو بہت خوبصورت ہیں اور یوں ہیں اور یوں ہیں حالانکہ اُس کے رضاعی بھائی ہیں اُس سے بات ہو رہی ہے ! گویا رحم اور شفقت اور برا بری تو بالکل ذہن سے مٹ ہی گئی ! ترس کھانا تو کسی پہ ہے ہی نہیں ! وہ چاہے بھائی ہی ہو ! اُنہوں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا تو اُس نے کہا کہ اچھا تو اپنے بچوں کو گروی رکھ دو میرے پاس ! تو عورتیں نہیں ہیں چلو بچے توہو سکتے ہیں ! اُنہوں نے کہا کہ یہ بھی مشکل ہے ! جب بڑے ہوں گے بچے تو لوگ طعنہ دیا کریں گے کہ توتو وہ ہے جسے تیرے باپ نے گروی رکھ دیا تھا ! تو یہ تو بڑے طعنہ کی بات ہے ! عار ہے ! اب اُنہوں نے خود ہی تجویز پیش کی کہ ایسے ہے کہ ہم ہتھیار رکھ سکتے ہیں تمہارے پاس گروی ! ہتھیار رکھ لیں یہ ہو سکتا ہے ! وہ اُس نے مان لی بڑی مہربانی کی ! !
میرے کہنے کامقصد یہ ہے کہ اگر اُس سے پوچھا جائے اور اُس کی طبیعت اور مزاج جو اُس کا تھا وہ دیکھا جائے تو وہ تو بد ترین تھا نا ، اُس نے اپنی طبیعت سے جو دو باتیں کہی ہیں دونوں کی دونوں بڑی بدترین تھیں بڑی توہین آمیز ،بڑی تذلیل والی باتیں یہ اُس کا اپنا جو تھا ظرف یااپنی سوچ جو تھی وہ یہ تھی ............. مگر اسلام نے سود بالکل ختم کر دیا ۔
سو دخوروں کی بے وزن دلیل اور اُس کاجواب :
وہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں آیا ہے کہ ( لاَ تَأْکُلُوا الرِّبٰوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ) سود جو ہے وہ ڈبل دَر ڈبل نہ کھاؤ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈبل سود کھالو ،بس ڈبل دَر ڈبل ،سود دَر سود نہ ہو لیکن یہ سب قرآنِ پاک کو اِسلام کو مسخ کرنا ہے کیونکہ قرآنِ پاک میں آیا ہے ( اِتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبَوا ) اللہ سے ڈرواور جو کچھ بچا ہے سود وہ چھوڑ دو ( اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ) اگر تم مومن ہو، کیونکہ ہر انسان یہ سمجھتا تھا سود والا کہ سود کی جو رقم ہو ئی ہے وہ ہوگئی میری ! اب وصول کرنی باقی ہے ! (فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوْا ) اگر تم (ہمارے) اس کہنے پر نہیں چلو گے تو پھر اللہ اور رسول کی طرف سے جنگ ہے ( فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ) یہ سزا جو ہے اتنے سخت کلمات کسی اور جرم کے بارے میں نہیں ہیں جتنے سود کے بارے میں ہیں اور پھر آتا ہے ( فَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ) اگر تم توبہ کر لو گے تو جو تمہارا مال ہے بس وہ تمہارا حق ہے ! گویا سود یا سود دَر سود دونوں ختم ! ( رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ) رأس المال جیسے رأس ، رأس یہاں بھی بولتے ہیں وہ جو عربی والا '' رأس ''ہے وہاں سے چلا ہے یہ لفظ اور (لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ) نہ تم زیادتی کرو ظلم کرو کسی پر ،نہ تم پر ظلم کیا جائے گا !
سود کے بجائے قرض اور اَٹھارہ گنا ثواب :
اس کے بجائے قرض بتا دیا شریعت نے کہ قرض دے سکتے ہیں ! اب قرض دینے کے بعد آدمی کو بہت ہی تکلیف ہوتی ہے قرض تو دے دیا اور خود کو ضرورت پڑگئی پھر ؟ پھر وہ تقاضا کرتا ہے یا قرض خواہ نے قرض لے لیا اور اب دے نہیں سکتا آج وعدہ کیا ،کل کا کیا، پھر کیا اگلے مہینے کا ، پھر تین مہینے کا، پھر گئے پھر نہیں ،پھر گئے پھر نہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے تو اُس پر ثواب رکھ دیا ! حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمة اللہ علیہ نے تفسیر ِ عزیزی میں لکھا ہے قرض کی فضیلت میں کہ اس پر اٹھارہ گنا ثواب ہے ! اگر آپ وہ پیسے کسی کو ویسے ہدیةً دے دیں ! امداد میں دے دیں ! تو بھی ثواب ہے جس نیت سے دے دیں ثواب ہے اُس میں ! لیکن قرض دو گے تو یہ اٹھارہ گنا ہے !
تو یہ اٹھارہ گنا ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ وجہ سمجھ میں آتی ہے کیونکہ انسان کو قرض دینے کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقت پر وصول ہوجائے ! اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ دیر لگ جائے ! اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت ہی مشکل ہوجائے وصول ہونا ! ان تمام حالات میں جو اُسے تکلیف پہنچ رہی ہے وہ تکلیف باعث ِ اجر ہورہی ہے ! اُس کو اجر مل رہا ہے ! بشرطیکہ اُس سے اُس کا بدل اور نفع نہ چاہے( نرمی اور صبر سے کام لے)
اگر وہاں گیا ہے پیسے لینے قرض لینے پھر وہ مل گیا ہے تو اب اُس سے یہ چاہتا ہے کہ مجھے ذرا تکلف سے بٹھائے پہلے بوتل پلائے پھر ناشتہ کرائے یا کھانا کھلائے پھر چائے پلائے کچھ اس طرح کی خواہشات ہیں اُس کی یا وہاں گیا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ بھئی دو چار دن کا میراکام ہے وہ آکر کر جاؤتم مثلاً مزدور ہے راج ہے یا معمار ہے یا دستکار ہے کوئی ،یہ کیا ہے ؟ ؟ یہ سب سود ہے ! !
قرض دینے کے بعد امام ِ اعظم کی احتیاط :
بلکہ امام ِ اعظم رحمة اللہ علیہ کاتو یہ عمل ہے کہ اُن کاقرض تھا کسی کے پاس وہاں تشریف لے گئے قرض وصول کرنے کے لیے تو گرمی تھی دھوپ تھی تو اُس کے مکان کے سائے میں نہیں کھڑے ہوئے ! ہٹ کر کھڑے ہو ئے ! ! حالانکہ وہ اُس نفع میں داخل ہی نہیں ہے ،نفع جو منع ہے وہ تو وہ ہے جو اُس آدمی سے لیا جائے یااُس روپیہ کی وجہ سے لیا جائے یہ وہ نفع ہی نہیں ہے جو روپے کی وجہ سے لیا جائے ! تو جو بھی جائے گا وہاں یہی ہوگا ! تواس کامطلب یہ ہے کہ وہ احتیاط کرتے تھے اتنی زیادہ کہ پانی بھی نہیں پیتے ہوں گے جب تک وہ مقروض ہے اس خدشہ سے کہ کہیں یہ ''رِبٰوا'' میں نہ داخل ہوجائے ! سود میں نہ داخل ہوجائے ! تواسلام نے تو بالکل جڑ کاٹ دی ! !
نبی علیہ السلام کے ہاتھوں فرسودہ نظام کا خاتمہ اور جدید مالیاتی نظام کی بنیاد :
تو ترقی یافتہ چیز جو ہے وہ یہ ہے کہ سود نہ ہو ! او ر سود کا ہونا یہ تو پرانی بات ہے ! یہودیوں کی ایجاد ہے یہ ! جو اب تک یورپ اور دُوسرے ممالک میں دین پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے رائج ر ہی ہے ! !
کفار کے ساتھ سودی معاملات :
اور اسلام نے یہ اجازت دی ہے کہ اُمورِ مملکت اور تجارتی معاملات جو غیر مسلموں سے ہوتے ہیں غیر مسلم حکومتوں سے ہوتے ہیں اُن میں سود لینا بھی جائز ہے دینا بھی جائز ہے کیونکہ وہ مانتے ہی نہیں ! اور یہ ناممکن ہے کہ حکومت بھی ہو اور دُوسری جگہ اُس سے کوئی کام بھی نہ پڑے ! ایک حکومت ہو اور دُوسری حکومت سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو ! ! یہ تجارتیں چلتی تھیں ! عرب میں پہلے سے تھیں (رِحْلَةَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ)جو تھی، وہ تھی ہی تھی اور وہ رہی ہے ابتدائے اسلام میں بھی رہی ہے اور بعد میں بھی رہی ہے ! حتی کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں باقاعدہ جنگ چھڑ گئی جب باقاعدہ جہاد شروع ہوا ہے تو اُس دور میں وہ ختم ہوگئی ! ورنہ تجارت غیر مسلموں سے رہی ہے جاری ! ہاں دارُالاسلام میں جو غیر مسلم رہتا ہے یہاں پاکستان میں اُس سے سودی لین دین آپ کریں اس کی اجازت نہیں ! غیر مسلم حکومت کوئی ہو یا حکمراں ہو اُس سے معاملہ ہو تو اجازت ہے اُس میں بھی احتیاط یہ ہے کہ وہ معاملہ یہاں نہ ہو وہاں ہو، جہاں دارُالکفر ہے جہاں دارُالحرب ہے ! !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (سود کا فرسودہ نظام) بالکل ختم کردیا ( اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ) بس اپنا رأس المال لے لو جو تم نے دیا تھا اُس کو !
اور قرض کی اجازت دی، قرض درست ہے امانت رکھی جا سکتی ہے درست ہے اور قرض پر جو تکلیف پہنچتی ہے اُس پر ثواب بھی ہے !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح ہو گیا اور بعد میں حج ہوا ہے تو اُس موقع پر اعلان فرمایا تھا کئی چیزوں کا ،ایک میں پہلے بتا چکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا ایک بچہ تھا اُس کو قتل کردیا گیا تھا تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلَا اِنَّ دِمَائَ الْجَاھِلِیَّةِ مَوْضُوْعَة زمانۂ جاہلیت کے جو خون ہیں وہ ختم ہیں ! اب اسلام میں وہ (جاہلیت والی چیزیں ) دوبارہ زندہ نہ کرو ! جو کسی نے کسی کو مارا ہے تو اب اُس کا بدلہ نہ لو ! ؟ ورنہ قبائل لڑتے ہی رہتے ! بالکل ختم کردیا ! اور فرمایا لاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ کہ دوبارہ وہ کفر والے کام نہ کرنا کہ ایک دُوسرے کی جان لینے لگو ایک دُوسرے کی گردن مارنے لگو تو ایک یہ کیا !
اور دُوسرے فرمایا کہ اسلام میں ''رِبٰوا'' کوئی نہیں لاَرِبٰوا فِی الْاِسْلَامِ یہ تعلیم دی ! اس طرح کے جو بھی کلمات تھے یہ حجة الوداع کے موقع پر فرمائے ! پھر (سود کے معاملہ میں ) اپنے اُوپرسب سے پہلے عمل کر کے دکھا یا ! ! توگویا صحیح طریقہ جو ہے ہدایت پھیلانے کا وہ ہے ہی یہ کہ جو سب سے بڑا ہے یاحکمران ہے یا بااِختیار ہے وہ عمل کرے ! ! اگر وہ عمل کرتا ہے تو نیچے تک خود بخود عمل چل پڑتا ہے ! ! اور اگر وہ عمل نہ کرے تو پھر دُوسروں سے کہتا رہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ فلسفہ ہے یا وعظ ہے حقیقت کچھ نہیں ہے ! ! یہ خود کیا کرتا ہے ؟ ! جو یہ کرتا ہے وہی سب کرتے ہیں ! ! تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے ایک خون اور معاف کیا کہ وہ ختم ہے میں اُس کا بدلہ نہیں لوں گا ہمارے خاندان کا کوئی آدمی اُس کا بدلہ نہیں لے گا ! ! ؟
اور دُوسرے یہ کہ جو '' سود'' میرے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا جن لوگوں کی طرف ہے وہ سب معاف ہے ! یہ اعلان فرمایا گویا خود عمل کیا سب سے پہلے ! تو اب کسی کو بھی گراں نہیں گزرتی بات ! سب کے سب پھر وہ عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو حاکمِ اعلیٰ کر رہا ہے ! ! اگر حاکمِ اعلیٰ ایثار کرے گا وہی سب میں آتی چلی جائے گی ! ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایثار کرتے تھے اپنے آپ پر دُوسرے کو ترجیح دیتے تھے تو یہ تعلیم ہی نہیں دی فلسفہ ہی نہیں سکھایا بلکہ کیا بھی ہے اسی طرح سے ! تو پھر سب صحابہ کرام میں وہی چیز ...........اور اِتنا اِیثار کرنے لگے صحابہ کہ قرآنِ پاک میں تعریف آگئی ( یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَة) چاہے خود شدید ضرورت ہو پھر بھی دُوسرے کو اپنے اُوپر ترجیح دیتے ہیں ! ! !
توسرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والتسلیم نے یہاں فرمایا کہ اَکْلُ الرِّبَوا یہ جو سود کھانا ہے یہ بھی مُہلِکات میں ہے انسان کی طبیعت مسخ ہو جاتی ہے اور پھر جب مسخ ہوجائے تو گناہ کی طرف چل پڑتا ہے نیکی سے دُور ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور تباہی میں گرجاتا ہے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح راہ پر قائم رکھے اعمالِ صالحہ کی توفیق دے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔اختتامی دُعا. ..................

شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org



Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.