jamiamadniajadeed

حضرت ابن ِزُبیر نے اپنے والد کے خون کا بدلہ نہ لیا

درس حدیث 267/26 ۔۔۔۔۔ حضرت ابن ِ زُبیر نے اپنے والد کے خون کا بدلہ نہ لیا والی ٔ سوات اور خون کا بدلہ خون ! ''دیت '' کا فائدہ انصاف میں تاخیر سے ظلم پرورش پاتا ہے ! صدر ضیاء کو پیش کش ! (1987-10-11)

( جنوری 2021 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
حضرت ابن ِزُبیر نے اپنے والد کے خون کا بدلہ نہ لیا
والی ٔ سوات اور خون کا بدلہ خون ! ''دیت '' کا فائدہ
انصاف میں تاخیر سے ظلم پرورش پاتا ہے ! صدر ضیاء کو پیش کش !
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر25 کیسٹ نمبر 77 سائیڈ A 11 - 10 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سات مضر چیزوں سے بچو ! صحابۂ کرام نے عرض کیا وَمَاھُنَّ وہ کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا اَلشِّرْکُ بِاللّٰہِ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ماننا کسی اور کو خدا جیسا جاننا یہ اُس کی ذات میں شرک ہو گیااور جو صفات اللہ تعالیٰ کی ہیں وہ کسی اور میں ماننی ! یہ صفات میں شرک ہے دونوں ہی شرک ہیں دونوں ہی منع ہیں ! !
فرمایا جادُو سے بچو ! اور اس کی وجہ یہ کہ(اس میں ) تعظیم کی جاتی ہے غیر اللہ کی، بتوں سے شیطانوں سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی مُوْبِقَاتْ میں ہے یعنی انسان کی آخرت کو برباد کرنے والی چیز ہے !
وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ١ اور کسی کو مارنا قتل کرنا یہ اللہ نے منع فرمایا ہے یہ حرام ہے ! سوائے اس کے کہ حق بنتا ہو جیسے کہ'' قصاص'' کہ قصاصًا مارا جا سکتا ہے ،کسی کو قتل کیا ہے اُس نے تو اُس کے بدلے میں قصاصًا قتل کیا جائے گا ! ہاں اگر وہ راضی کر لے مقتول کے ورثہ کو کہ میں پیسے دئیے دیتا ہوں خون بہا دیتا ہوں '' دیت'' دیتا ہوں مجھ سے قصاص نہ لو خون کا بدلہ خون سے نہ لوتو، اُس کا موقع شریعت ِ مطہرہ نے نکالاہے ! !
مثال کے طور پر مقتول کے کچھ بچے بالغ ہیں کچھ نابالغ ہیں تو اب قاتل کو جیل میں رکھا جائے گا کیونکہ ممکن ہے وہ بالغ ہونے کے بعد اس بات پر راضی ہوجائیں کہ ہمیں دیت مِل جائے مال مِل جائے خون بہا مِل جائے اور خون بہا جو ہے وہ سو اُونٹ ہیں اُن کی قیمت بھی بہت زیادہ بنے گی آج کے حساب سے .............یا.......... اُس کی قیمت بھی بہت بڑی بنے گی ! اُونٹ ہر جگہ ہوتے نہیں توپھر وہ قیمت ہی رکھی گئی دونوں میں سے جس پر بھی وہ راضی ہوں ! !
قتل کی واردات اور انگریزی قانون کی خرابیاں :
یہاں تو قانون میں جو انگریزوں نے ہمیں دیا ہے جسے ہم کسی طرح بدلنے پر تیار نہیں ! دو خاندان برباد ہوتے ہیں ! ایک وہ جو مقتول کا خاندان ہے کہ اُن کا کمانے والا یا اُن کا سہارا یا جو بھی کچھ تھا وہ نقصان ہوا اُس کا ! اگر وہ کماتا بھی تھا تو کمائی کا بھی نقصان ہوا،ایک خاندان تو اِس طرح ختم ہوا ! اور دُوسرا خاندان یعنی قاتل وہ بھی بند ! اگر وہ بھی کمانے والا ہے تو اُس کا بھی نقصان ہوا ! یہی حساب ہوگا اور پھر عدالتیں عدالتوں کی کارروائی وہ شروع ہوگی سیشن جج سے یا کسی اور سے ! پھر اُس کے بعد سینئر سول جج ! پھر ہائی کورٹ میں ! پھر بڑا ہی لمبا کام ہے ! اُس میں خرچ ہوگا بے حساب ! رشوتیں بھی اور یہ بھی وہ بھی ! اتنے درجے ہوگئے ہر درجہ میں خرچ ہوتا جائے گا ! کیس وہی ہے ! گواہ بھی وہی ہیں ! مگر پھر بھی بہت درجے رکھ دیے انگریز نے ! ! اس لیے رکھے تھے کہ ہمارے آدمی تھک جائیں تو جتنا بھی جھگڑا بڑھایا جاسکے بڑھائیں ! ! بات کیا ہے
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٢

بات وہی تھی جو مجسٹریٹ کے ہاں دوہرائی ہے ! پھر آگے دوہرانی ہے ! اور آگے دوہرانی ہے ! جتنے درجے بھی آ رہے ہیں بات وہی ہے ! وکیل بھی وہی چلتے رہیں گے ! کوئی شروع سے ہی سپریم کورٹ میں کام کرنے والا وکیل آجائے تو آخر تک وہی چلے گا ہر عدالت میں ! تو ایک خرابی تو یہ ہے ! اسلام نے یہ ختم کردی ! ! !
اسلامی نظام میں ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ ہوگی بس :
اسلامی اگر عدلیہ ہو تو اس کی درجہ بندی نہیں ہے اُس میں تو مجسٹریٹ کا درجہ توہائی کورٹ کا ہوگا ! کیونکہ وہ تو شریعت کے مطابق جاتا ہے گواہ ٹھیک ہیں یا نہیں ؟ اگر گواہ ٹھیک ہیں تو یہ مجسٹریٹ جو ہے یہ خدا کی طرف سے مامور ہے اس بات پر کہ جو بات ثابت ہو رہی ہے گواہوں کے ذریعے سے اُس پر خدا کا حکم بتادے ! نافذ کردے خدا کا حکم ! ! اگر فرض کیجیے کسی چیز میں کمی رہتی ہے تو اس سے اُوپر سپریم کورٹ ہے وہ آگے اِدھر اُدھر نہیں جائے گا بس سپریم کورٹ میں جائے گا ! وہ یہ دیکھیں گے کہ اس میں کوئی غلطی کسی قسم کی ہوئی ؟ اگر غلطی ہے تو پھر تو وہ اُس کو کینسل کردیں گے اور اپنا فیصلہ دے دیں گے ! ! اور اگر غلطی نہیں ہے گواہ بھی ٹھیک ہیں معتمد ! اور گواہوں میں یہ شبہہ ہوسکتا ہے کہیں ایسی گڑ بڑ نہ ہو اُس کا بھی حق ہے کہ حاکم اُس کے بارے میں تحقیق کر لے کہ یہ گواہ کیسے ہیں جھوٹے ہیں سچے ہیں ! اس کے بارے میں کیا شہرت ہے وغیرہ وغیرہ ! سب چیزوں کی معلومات وہ کر لے گا اور وہ خود بخود کرے گا ! ! کیونکہ آگے سپریم کورٹ باقی ہے ہوسکتا ہے(وہاں کیس چلا جائے) اور اُس میں اس کی بدنامی بھی ہے ! ! اور اگر اس نے جان بوجھ کر غلطی کی ہے تویہ معزول ہے ! اور معزول بھی فورًا ہی ہو جائے گا لمبا چوڑا کام بھی نہیں ہے ! ! تو یہ تو آسان سا سلسلہ تھا ! اس میں انگریزوں نے درجہ بندی کردی ہے کہ یہاں بھی حکایت سناؤ ؟ ! پھر دوبارہ وہاں سناؤ ؟ ! پھر تیبارہ وہاں سناؤ ؟ ! وہی حکایت دوہرائے جا رہا ہے اتنے میں کوئی نہ کوئی گواہ بھی مرہی جائے گا ! نہیں پیش ہو سکے گابیمار ہوجائے گا ! کچھ ہو جائے گاتو بیس بیس تیس تیس سال لگتے ہیں ! ! !
صدرضیاء الحق کو پیش کش ! انصاف میں تاخیر کا نقصان :
پچھلے رمضان سے پہلے آئے تھے میرے پاس ایک صاحب وہ بتلا رہے تھے کہ جولائی ١٩٤٧ء میں میرا کیس شروع ہوا ہے اور دسمبر ١٩٨٦ء میں اُس کا فیصلہ ہوا ہے ! ! مکان کا کیس تھا میرے حق میں ہو گیا ! تو صدر (ضیاء الحق) صاحب کے رشتہ دار تھے ! یہ کہہ رہے تھے میں نے اُس کا کوئی نام نہیں استعمال کیا ! اپنے آپ میں اپنی کوششوں سے کامیاب ہو گیا ! ! میں نے اُن سے کہا کہ یہ کوئی قانون ہے اُن سے اُس مکان میں بچے بھی پیدا ہوئے ہوں گے ! پلے ہوں گے ! جوان ہوئے ہوں گے ! جوان ہوکر چالیس سال ہو نے کو آگئے ہوں گے ! اُن کی بھی اولاد سمجھدار ہوچکی ہو گی ! جب آپ خالی کرا کر اُس میں رہیں گے وہ اُدھر سے گزریں گے تو اُن کے جذبات کیا ہوں گے ؟ ؟ اور چالیس سال وہ کیس ساتھ لڑتے رہے ہیں ! ایک دُوسرے کے خلاف جذبات اُبھر تے رہے ہیں ! وہ دُشمنی وہ برائی دماغوں میں مستحکم ہوگئی ہوگی ! ! میں نے کہا آپ اُن کے رشتہ دار ہیں بات کرسکتے ہیں ؟ کہنے لگے کہ ہاں کر سکتے ہیں ! میں نے کہا اُن سے کریں بات وہ یہ قانون تو بدلیں اس کے بجائے اسلامی قانون لے آئیں ! ! بہت میں نے حوصلہ افزائی کی ! میں نے کہا ہم سارے اُن کے ساتھ ہیں ! ساری عمر وہ رہ لیں ! ! مگر یہ کام کر دیں یہ قانون بدل دیں اور لوگوں کے اسلام کے ذریعے فیصلے جلدی ہوں انصاف جلدی پہنچے جیسے اسلام نے حکم دیا ! ! ! ١
اسلامی نظام میں عدل اور احتیاط، انصاف میں تاخیر ظلم کی پرورش ہے :
انصاف میں تاخیر گو یا ظلم کو قائم رکھنا ہوگیا ظلم کی پرورش ہوگئی ! اور ظلم کی پرورش یہ حرام ہے ! اور انصاف جلدی سے جلدی پہنچانا یہ حکومت کا فرض ہے ! ! تو اسلامی نظام میں مثلاً قتل ِنفس میں ایک تو مارا ہی گیا اُن کا آدمی اب اگر وہ(قاتل خاندان کے) لوگ متمول ہیں تو وہ کہیں گے ہمارے آدمی کے بجائے دیت لے لو لیکن اس صورت میں تھوڑی سی مہلت دی جائے گی کہ اگر مقتول کے کچھ بچے
نابالغ ہیں وارث تو وہ بھی ہیں باپ قتل ہو گیا ہے بچے باقی ہیں تو بچے تو وارِث ہیں چاہے بالغ ہوں
١ حضرت اُس وقت جمعیة علماء اسلام کے مرکزی امیر تھے ۔ محمود میاں غفرلہ

چاہے نابالغ ہوں ! ! لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد وہ اسے معاف کردیں کہ چھوڑو کیا بدلہ لینا ہے ! ! !
صاحب ِ اقتدار کا عظیم حوصلہ :
حضرت زُبیر رضی اللہ عنہ کو جس آدمی نے شہید کیا تھا اور جو اُن کی شہادت میں شامل تھے یہ (ان کے صاحبزادے)حضرت عبداللہ اِبن زُبیر رضی اللہ عنہ جب حاکم ہوئے ہیں اور تمام جگہ ان کی حکومت پھیل گئی ہے ! بنو اُمیہ ختم ہوگئے تھے ! اُنہیں فلسطین میں انہوں نے ایک جگہ (محدود)کر دیا بس ! اور ساری دُنیا میں یزید کے بعد حکومت ختم ہوگئی بنو اُمیہ کی ! ! اُن سے کسی نے کہا کہ یہ آدمی آپ کے والد صاحب کے شہید کرنے والوں میں تھا حضرت زُبیر رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں '' حَوَارِیْ '' یعنی اپنا خاص آدمی (قرار دیا) ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی کے لڑکے تھے ! ابوبکر رضی اللہ عنہ کے داماد ہیں ! بڑی فضیلتیں ہیں جمع اور سب سے بڑی یہ کہ عشرہ ٔمبشرہ میں سے ہیں ! ! اُن دس حضرات میں ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنت کی)ضمانت دی ! ! تو کہنے لگے کہ اپنے باپ کے بدلہ میں اتنے چھوٹے سے آدمی کو میں مارُوں ؟ میں نہیں مارتا ! باپ میرا بہت عظیم شخصیت ! یہ مارنے والا ایک عام آدمی ہے(بہت چھوٹی حیثیت کا آدمی) ! اس کو مارُوں باپ کے بدلے میں ؟ تو چھوڑ دیا اُن کو ! ! اسی طرح یہاں بھی ہو سکتا ہے کہ بچے جب بالغ ہوں تو کہہ دیں کہ نہیں چھوڑدو اس کو یعنی معاف ہی کر دیں تو بھی قصہ ختم ہوگیا ! اور قاتل جو ہے وہ بھی مطمئن ہوگیا کہ انہوں نے میرے ساتھ احسان کیا ہے ! ! !
''دِیت''کا فائدہ :
اس کی دُوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ(مقتول کے ورثا) راضی ہوجائیں کہ چلو خون بہادو کیونکہ مثلاً مقتول غریب آدمی ہے اور قاتل جو ہے وہ بڑا آدمی تھازمیندار تھا وڈیرہ تھا کارخانے دار تھا بڑی حیثیت کا تھا اور اب جیل میں ہے ! اور یہ بہت معمولی حیثیت کے ،مزدوری کرکے گزارا کرتے تھے ! تو یہ مطالبہ تو براہ ِ راست کریں گے کہ جب اُس نے مارا ہے جان سے تو اُس کی جان کا ہمیں حق ہے مطالبہ کر نے کا ! اگر اُس نے مال چھینا ہوتا تو پھر مال کا مطالبہ ہم اُس سے کرتے ! اُس نے جان چھینی ہے لہٰذا اُس کی جان ہی کا مطالبہ کرسکتے ہیں ! ہاں وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے کہے گا جناب اتنا لے لو ! اتنا لے لو مہربانی کرو ! وہ خوشامد کرے گا ! اُس کے لوگ آئیں گے ! پھر یہ بچے ہو سکتا ہے خون بہا پر راضی ہوجائیں ! اب دونوں کا کار وبار بند نہ ہونے پائے گا ! ! ان کو بھی خون بہا اتنا مِل جاتا ہے کہ یہ بچے پل جائیں گے ! پڑھ جائیں گے ! اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے کمائی کرنے لگیں گے ! اور اُس (قاتل) کا بھی یہ ہے کہ وہ چھوٹ گیا ! ! !
خون کا بدلہ خون اور اِس کا فائدہ :
اور اگر خون کا بدلہ لے لیں تو پھر فائدہ یہ ہے کہ آئندہ کوئی ہمت ہی نہیں کرے گا مارنے کی ! ! اور یہ اُس وقت ہے کہ جب(فیصلہ) جلدی ہو ! اگرجلدی نہ ہو تو پھر نہیں ہو سکتا پھر قتل نہیں رُکتا ! فورًا ہی اگر بدلہ لے لیا تو ٹھیک ہے ! تو پورے (صوبہ)سر حد میں قتل بہت ہوئے ہیں اب بھی ہوتے ہیں ! اب تو یہاں بھی ہونے لگے اور بہت زیادہ ہونے لگے ہیں ! ! پہلے(یہ سلسلہ) وہاں تھا وہ مسلح رہتے ہیں اب یہاں ہر ایک مسلح رہتا ہے بے حساب اسلحہ ہے اور طرح طرح کے ،جو وہاں ہے وہ یہاں ہے ! ! !
والی ٔ سوات کا کارنامہ :
والی ٔ سوات کے دل میں آیا کہ میں خود اپنے آپ یہاں قتل بند کرائوں ! اُس نے سخت حکم دے دیا کہ جہاں قتل ہو تمہاری ذمہ داری ہے فورًا پکڑو اُس آدمی کواور ٹیلیفون وہاں تھے تو اُس نے کہا کہ مجھے ٹیلیفون پر بتاؤ کہ پکڑ لیا ہے ! تو اسی طرح ہو١ کہ وہاں پکڑا ! تھانے میں اُس کو لے آئے ! اور والی کو فون کردیا کہ ہم نے پکڑ لیا ہے قاتل ہے یہ ! گواہیاں مل گئیں ؟ جی مل گئیں ! فلاں چیز ہو گئی ؟ جی ہوگئی ! تو اس کو ماردو گولی ماردو ! ایسے مارو کہ میں بھی سنوں ! ٹیلیفون (کان سے)لگا رکھا تھا ! تو گولی ماری ! اور اُس(قاتل) نے بھی آواز نکالی ! اُس نے کہا کہ مرگیا ؟ کہا مرگیا ! اور کچھ نہیں ،(بس اس ) قصاص کے علاوہ دیت وغیرہ یہ بھی اُس نے اُڑا دی ! بس فورًا پکڑو فورًا مارو ! ! !
اور یہ بھی اُس نے کہا کہ دونوں کو ساتھ دفن کرو ! اور اگر کہیں ایسے ہو گیا (کہ قاتل)پکڑا گیا ! وقت پر آگیا ہاتھ ! تو پہلے اسے دفن کرو ! بعد میں مقتول کو دفن کرو ! ! !
قتل ناپید :
نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں قتل ہی ختم ہو گیا قتل تو کرتا ہی اسی لیے ہے کہ(اُس کو خیال ہوتا ہے کہ) میں بچ جاؤں گا ! بچنے کے راستے اُسے نظر آتے ہیں ! اگر اُسے یہ نظر آئے کہ جیسے کنویں میں اسے دھکا دُوں گا تو ساتھ ساتھ میں بھی ڈوبوں گا ! یہ نہیں ہے کہ اسے ہی دھکا دے دوں گا بس ! تو کنویں میں کبھی دھکا نہیں دے گا ! کیونکہ جانتا ہے کہ مجھے بھی ساتھ ہی جانا پڑے گا ! ! !
تو اصل میں انصاف کا جلدی حاصل ہونا جو ہے یہ بڑا اہم ہے بہت ضروری ہے اور جب تک دیر لگے گی ظالم ظالم ہے ! مظلوم مظلوم ہے ! اور مظلوم بددُعائیں دیتا ہے ! ! اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ اِتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ مظلوم کی بددُعا سے بچو ! یہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے ہدایت فرمائی فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابْ ١ مظلوم کی بددُعا اور قبولیت میں کوئی پردہ نہیں ہے ! فورًا قبول ہوتی ہے ! اور مظلوم کی طرف خدا کی تائید ہوتی ہے ! اور جس طرف خدا کی تائید ہوجائے پھر نتیجہ میں دوسرے ہی کی کامیابی ہوگی ! چاہے کسی چھوٹی طاقت بڑی طاقت کا مقابلہ ہی کیوں نہ ہوجائے ! ! !
ویتنام سے امریکہ کا فرار :
جیسے ویتنام میں ہوگیا آخر بھاگنا پڑا امریکہ کوبڑی بے عزتی بڑی ذلت و رُسوائی (کے ساتھ) ! مگر تائید ِ خداوندی اِن(مظلوم کفار) کے ساتھ ہوگئی ! اور اُن(امریکی) ظالموں نے پچاس پچاس دفعہ حملے کیے ! اور ڈیڑھ ڈیڑھ سو دفعہ حملے کیے ! سمجھ میں یہ آتاتھا کہ وہاں تو صرف زمین ہی رہ گئی ہوگی !
١ مسلم شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٢٩

وہ بھی تباہ حال زمین رہ گئی ہوگی ! اب یہ خدا کی قدرت ہے خدا بچائے تو بچائے ،نہیں ہونے پاتا تھا نقصان اتنا ! اور پیدائش کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے ! اوراُن میں پلتے بڑھتے رہے ہیں ! اور پڑھتے بھی رہے ہیں ! سکولوں میں ........ اتنی اتنی دفعہ بمباری کی ہے اُنہوں نے کہ معلوم ہوتا تھا کہ نسل کُشی کررہے ہیں ! زمین ہی صاف ہوجائے گی ! لیکن کچھ بھی نہیں ہوا ! خود صاف ہو گئے ! ! تو معلوم ہوا ایسی طاقت ہے کوئی غیبی جسے خدا ہم کہتے ہیں کہ وہ جس طرف ہوجائے اُس کا کچھ بھی (کوئی) نہیں بگاڑ سکتا اور سب کے سب عاجز آجاتے ہیں ! ! !
مسلمان کو ظلمًا قتل کرنے کا گناہ :
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل ِنفس کو بہت بڑا جرم قرار دیا اور یہ موبقات اورمہلکات میں سے ہے اگر انسان دوسرے مسلمان کو قتل کر رہا ہے اور یہ جائز سمجھ کر کر رہا ہے بے پرواہی میں تو گویا خدا کے حکم کا جو اُس نے قرآن میں اُتارا ہے انکار کر رہا ہے ! اور خدا کے حکم کا انکار کفر ہے ! ! لہٰذا قرآنِ پاک میں پانچویں پارے میں ہے نصف سے اگلے رکوع میں ( وَمَن یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا ) جو کسی مسلمان کو قصدًا قتل کرتا ہے( فَجَزَآؤُہ جَہَنَّمُ )اُس کا بدلہ جہنم ہے ! (خَالِدًا فِیْھَا)اُس میں ہمیشہ رہے گا ! ! اور ( خَالِدًا فِیْھَا) کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اگر حلال سمجھتے ہوئے کر رہا ہے کہ یہ جائز ہے تو کفر ہوگیا اور کفر ہو گیا تو جہنم ہے ! ! اور ایسا ہوتا ہے کہ آدمی معصیت کرتا ہے تو معصیت کی وجہ سے اُس کا دل مسخ ہوجاتا ہے اور وہ معصیتوں ہی کی طرف لگا رہتا ہے توبہ کی توفیق اُس سے سلب ہوجاتی ہے معاذاللہ ! اللہ پناہ میں رکھے ! ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بالکل منع ہے کسی مسلمان کو مارنا
(قَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ)
اقلیتوں کے ساتھ انصاف :
مسلمان بھی داخل ہیں غیر مسلم بھی داخل ہیں ! ! یہ ذمی(اقلیتیں ) ہیں ہمارے یہاں رہتے ہیں ان کو مارنا بھی جائز نہیں ! اور وہ بھی اگر حلال سمجھ کر مار تا ہے تو اُس کے بارے میں بھی یہ شک پڑ جائے گا کہ کہیں وہ بھی اسی وعید کا مستحق نہ ہو جائے ! کیونکہ اس میں اور طرح کے نقصانات ہیں وہ ذمی، مسلمان (اور) اسلام سے نفرت کرنے لگے گا اور اگر عدل ملے گا تو اسلام سے محبت کرنے لگے گا
جزیہ واپس کردیا :
حضرت ابو عبیدہ اِبن جراح رضی اللہ عنہ جب شام میں جہاد کر رہے تھے تو وہاں اُن کو جنگی مصلحتوں سے پیچھے ہٹنا پڑا ! اور اس کی خبر اُنہوں نے بھیج دی مدینہ منورہ فورًا ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اُنہیں خبر پہنچی تو اُنہوں نے کہا کہ برا کیا کیوں پیچھے ہٹے ؟ کیوں پیچھے ہٹے ؟ اُنہوں نے باربار ..... اور وہ (پیامبر)باخبر تھا مکمل ! پورا نقشہ معلوم تھا اور وہ اُن کو وجوہات بتاتا رہا کہ وجہ یہ ہے کہ اُن کی طرف سے بہت بڑا حملہ ہونے والا تھا اور ہم اُس کا مقابلہ اس طرح اس میدان میں کر سکتے ہیں ! وہاں نہیں کرسکتے ! وہ پھر کہنے لگے مگر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے ! اور اس(پیامبر)نے ساتھ یہ بھی ذکر کیا کہ جن لوگوں سے ہم نے جزیہ وغیرہ لیا تھا وہ واپس کردیا کہ ہم تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے تو تم یہ رکھ لو ! اور ہم پیچھے جا رہے ہیں ! تو وہ عوام جو تھی جن کی تائید کی بڑی ضرورت ہوتی ہے لڑائیوں میں وہ اس چیز سے نالاں بہت رنجیدہ تھے ! کہ یہ لوگ پیچھے ہٹ گئے کیونکہ ان کے معاملات سامنے آگئے تھے (جس کی وجہ سے مقامی کفار اِن سے بہت متاثر تھے) ! !
نبی علیہ السلام کی فیاضی :
آپ نے بہت سنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی فرماتے تھے اتنا دیتے تھے اتنا دیتے تھے اور کافروں کو بہت کچھ دیا ہے ! اور جو نئے نئے مسلمان ہوتے تھے اُنہیں بہت کچھ دیا ہے ! وہ اس لیے کہ یہ جب لیں گے تو محبت ہوگی اور تعلق پیدا ہوگا تو پھر بات بھی سنیں گے ! ورنہ بات سنتے ہی نہیں ! (چاہے)اچھی بات ہو،اچھی سے اچھی بات ہو ! ! اس سے اچھی بات کیا ہوگی جو خدا نازل کر رہا ہے اُن کے لیے مگر وہ سنتے ہی نہیں اُن کا حال یہ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو نوازتے رہے ! ! !
اسی طرح یہاں ہوا کہ اب یہ لوگ جب واپس آئے ہیں تو کفار ان کے معاملات دیکھ چکے تھے تو ان کا ہٹنااُنہیں پسند نہیں آیا ! اور اُن کااِصرار تھا کہ نہ جائیں آپ ہی لوگ رہیں ! اور ان کے لیے وہ دل سے چاہتے تھے کہ یہی دوبارہ آئیں اور وہ نہ آئیں جو پہلے تھے ! ! !
اسلام میں ٹیکس انتہائی کم لیا جاتا ہے :
اور ویسے تاریخ میں ہے وہ لوگ بہت خوش تھے مسلمانوں سے کیونکہ مسلمان تو لیتے ہیں تھوڑا سا جزیہ، ٹیکس ! اور اُن لوگوں نے اپنی حکومت چلانے کے لیے طرح طرح کے ٹیکسوں میں دبا رکھا تھا وہ ٹیکسوں کے بوجھ میں پبلک دبی ہوئی تھی ! کچھ نہیں کر سکتے تھے دائیں بائیں ہل نہیں سکتے تھے بندھے ہوئے تھے ! اور مسلمانوں نے بہت تھوڑا رکھا اور آزادی بھی دی ! بہت بڑا فائدہ اُنہیں حاصل ہوا ! ا س وجہ سے وہ ان کی واپسی سے ناخوش ہوئے ! !
تو وہ جوفرستادہ تھے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے اُنہوں نے بتایا کہ امیر المومنین آپ یہ سمجھئے کہ اُن کے لشکروں کے بہت ٹکڑے(دستے ہیں ) اُس نے بتائے اور وہ (دستے) صبح سے دوپہر کے قریب سے گزرنے شروع ہوئے فلاں اور فلاں جگہ تو ہمارے جو جاسوس ہیں وہ دیکھتے رہے اُن کو تو رات تک بھی ایک ٹکڑا نہیں پورا ہوا ! تو ایسے ٹکڑے اُن کے لشکروں کے کئی ہیں اُنہوں نے گنتی بتائی کہ اتنے ہیں تو اس بنا پر ہم مجبور ہوئے کہ پیچھے رہیں ! ! !
(تو) اگر ذمیوں پر ظلم کریں گے مارنے لگیں گے تو اسلام کی طرف آنے میں رُکاوٹ بنے گی ! تواس لیے اُن کا مارنا بھی مسلمان کے مارنے ہی کے درجہ میں تھا ! اور اگرکوئی اُس کو ماردے گا تو پھر قصاصًا اُس مسلمان کو بھی قتل کر دیاجائے گا ! ! اب ذمی جب اتناانصاف دیکھیں گے تو پھر اسلام قبول کریں گے ! ! اور بہت واقعات ہیں ایسے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کی عملی حالت دیکھ کر اسلام قبول کیا ہے ! یہ جو اِنڈونیشاہے،ملائشیا ہے، ملایا ہے ،سماٹراہے،جاوا ہے اور تھائی لینڈ ہے سنگا پور ہے وہاں جتنے مسلمان ہیں یہاں کون سی فوج گئی ہے ؟ ! اس کے برعکس آج جو ہمارا عمل ہے یہ انتہائی ذلیل لوگوں کا عمل ہے ! انگریز نے دبا دبا کر اور اخلاقی خرابیاں ڈال ڈال کر اس طرح حال کردیا ہے ! اور پھر پڑوس کا ہندوؤں کا(اثر بھی لیا ہے مسلمانوں نے جبکہ)مسلمان ممالک میں یہ حال نہیں ہے آپ کوئی چیز کسی سے خریدیں وہ پوری تولے گا ! اور پوری خریدیں توپوری ناپے گا ! اور گھر جاکر دیکھیں گے توزیادہ ملے گی ! تو یہ مسلمان ہونے کی وجہ نہیں ہے کہ ہم ایسے خراب ہیں (بلکہ) یہ (کافر ہندو) پڑوس کی وجہ ہے کہ اُن کو دیکھ کر اُن سے بھی آگے بڑھ گئے شراب خوری میں تو ہماری اخلاقی پستیاں انتہا کو پہنچ گئی ہیں ! ! ہمیں دیکھ دیکھ کر مسلمان ہوجائیں لوگ ایسی صورت نہیں بنے گی اب ! ! ہاں بطورِ افراد ایسے نمونے مِل جائیں گے کہ جن کے اثرات ہوں اور اُنہیں دیکھ کر اسلام کی طرف رغبت ہوجائے وہ مسلمان ہوجائیں یا کوئی مطالعہ کرے(اسلامی) تعلیمات کا (تو)وہ مسلمان ہوجائیں ورنہ عام حالت مسلمانوں کی ایسی اب نہیں ہے کہ اُن سے متاثرہوکر اسلام میں داخل ہونے شروع ہوجائیں ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطافرمائے اور اپنی رضا اور فضل سے نوازے، آمین ۔ اختتامی دُعا..................





Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.