jamiamadniajadeed

اللہ کا شریک ٹھہرانا عقلاً بھی برا ہے

درس حدیث 270/25 ۔۔۔۔۔ اللہ کا شریک ٹھہرانا عقلاً بھی برا ہے ! صرف ''اللہ''کے نام کی قسم کافر والدین اور حسنِ سلوک ! گناہ کے کام میں والدین کی اطاعت نہیں کرنی''صغیرہ ''گناہ بھی ''کبیرہ'' بن جاتا ہے (1987-11-01)


( دسمبر 2020 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اللہ کا شریک ٹھہرانا عقلاً بھی برا ہے ! صرف ''اللہ''کے نام کی قسم
کافر والدین اور حسنِ سلوک ! گناہ کے کام میں والدین کی اطاعت نہیں کرنی
''صغیرہ ''گناہ بھی ''کبیرہ'' بن جاتا ہے
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر24 کیسٹ نمبر 78 سائیڈA 01 - 11 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیزیں جو معیوب ہیں اُن سے بھی منع فرمایا ہے اور وہ دو قسم کی ہیں
ایک تو وہ کہ جنہیں ہم سمجھ نہیں سکتے وہ اعتقاد سے متعلق ہیں دل سے متعلق ہیں وہ بتلائیں
اور کچھ وہ ہیں جو اِنسان کی اپنی زندگی میں پیش آتی رہتی ہیں معاملات ہوئے یا اس طرح کی اور چیزیں ہوئیں
تو ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ اَلْکَبَائِرُ کبیرہ گناہ یہ ہیں اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہْ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ماننا ! دوسرے عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ ماں باپ کی نافرمانی کرنا ! تیسرے قَتْلُ النَّفْسِ (ناحق) قتل کرنا !
اور چوتھے اَلْیَمِیْنُ الْغَمُوسْ ١ جان بوجھ کرجھوٹی قسم کھانا !
اور بعض روایتوں میں ایک اور چیز بھی ذکر فرمائی گئی وَشَھَادَةُ الزُّوْرِ ٢ جھوٹی گواہی !
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٠ ٢ مشکوة شریف رقم الحدیث ٥١
شرک عقلاً بھی غلط ہے :
تو ان میں ایک چیز یعنی خدا کے ساتھ شریک کرنا یہ ایسی چیز ہے کہ جسے عقلاً بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی آدمی اقتدارِ اعلیٰ میں یاجو کام اُس نے کیا ہو اُس میں خوامخواہ دوسرے کا نام پسند نہیں کرتا ، پیدا تو کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ! اور کہا یہ جائے کہ فلاں بت نے پیدا کیا ہے ! تو یہ وہ بات ہوئی کہ جسے انسان اپنی ظاہری زندگی میں پسند نہیں کرتا کہ کام تو اُس نے انجام دیا ہو اور کہا یہ جائے کہ فلاں نے نہیں فلاں نے کیا ہے ! یہ بات عقلاً سمجھ میں آتی ہے ! لیکن حقیقت تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں تھا کیونکہ یہ باطنی چیزیں ہیں جن کا نظر سے حس سے تعلق نہیں ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے واسطے انبیائِ کرام علیہم الصلٰوةوالسلام کو بھیجا ہے اُنہوں نے یہ تعلیمات دیں ! ! !
والدین کی نافرمانی، وضاحت :
آگے دُوسری عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ ماں یا باپ کی یا ماں باپ دونوں کی نافرمانی کرنا ! نافرمانی کا البتہ معیار ضرور ہے کہ کس چیز میں کی جائے کس چیز میں نہ کی جائے ؟
اگر وہ نماز سے روکتے ہیں تو نماز سے تو نہیں رُکے گاکیونکہ اللہ کے حکم کا درجہ اِن سے بڑا ہے تو جو جائز کام ہو اُس جائز کام سے وہ روکتے ہوں تو رُکنا نہیں چاہیے ! ! نافرمانی کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس قسم کی نافرمانی کہ جس سے اُن کی ناراضگی ہوتی ہو اُنہیں دُکھ پہنچتا ہو مقصد بھی وہی ہے اُس میں انسان کی زبان سے لے کر اور باقی حرکات تک سب داخل ہیں قرآنِ پاک میں ہے
( وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّا اِیَّاہُ ) اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اُس کے سوا باقی کسی کی عبادت نہ کرو
( وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ) ١ اوروالدین کے ساتھ حسن ِ سلوک۔
صحابہ کرام میں تو ایسی صورت بھی تھی کہ باپ مسلمان ہو گیا بیٹا نہیں ہوا ! بیٹا مسلمان ہو گیا باپ نہیں ہوا ! بیوی نہیں ہوئی ! خود مسلمان ہو گیا اور کوئی بھی نہیں ہوا مسلمان ! ! یہ مثالیں ملیں گی ! ! !

١ سُورہ بنی اسرائیل : ٢٣
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بالکل شروع سے اسلام پر چلے آرہے ہیں اور ایک بیٹا عبدالرحمن جو ہیں وہ دیر میں مسلمان ہوئے ! بلکہ ہجرت بھی کر آئے ہیں تو مسلمان ہوئے ہیں ! اور بدر کی جو لڑائی ہوئی ہے غزوہ ہوا ہے اُس میں عبدالرحمن اہلِ مکہ کی طرف سے آئے ہیں ! تو ایسے بھی ہوا ہے ! !
کافر ماں باپ کے ساتھ روّیہ :
اب جو مسلمان ہوگئے تھے وہ ماں باپ سے تعلق رکھیں نہ رکھیں کیا کریں ؟ بہت بڑا مسئلہ تھا یہ اُن کے لیے اُلجھن تھی اور ایسی خلش ہوتی ہے یہ کہ جو دُور نہیں ہوتی کسی طرح ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے ساتھ بھی حسن ِ سلوک ہی کی تعلیم فرمائی کہ اچھا سلوک رکھو اُن کے ساتھ ! بداخلاقی نہ کرو بُرا برتاوا نہ کرو ! ماں باپ البتہ اِسلام لانے پر پریشان کیا کرتے تھے یہ مثالیں بہت ہیں ! !
بیٹا مسلمان ، باپ کافر :
سہیل تھے جو (قریش کی طرف سے) معاہدہ لکھنے آئے تھے حدیبیہ کے موقع پر اُن کے بیٹے ہیں ابوجَندل وہ مسلمان ہو گئے تھے اُن کو اِنہوں نے باندھ کے ڈال رکھا تھا زنجیروں سے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں ! وہ کسی نہ کسی طرح اِدھر آگئے ! اور آکر اپنے آپ کو مسلمانوں میں لا کے ڈال دیا کہ دیکھو میں مسلمان ہو گیا ہوں ! ! اور وہ جو(اُن کے باپ) سہیل تھے اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن نمائندہ بن کر آئے تھے کفارِ مکہ کی طرف سے صلح لکھنے کے لیے، وہ بالکل اکڑ گئے ! اُنہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ! اسے آپ میرے حوالے کریں گے ! لازماً واپس کریں گے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت عجیب عجیب جملے استعمال فرمائے جیسے خوشامد میں کہے جاتے ہیں ! اوریہ بھی فرمایا کہ اسے مجھے دے دو ! اب ''اسے مجھے دے دو'' کا مطلب تویہ ہوتا ہے کہ جیسے اپنی اولاد کورکھوں گا ویسے ہی اسے رکھوں گا ! اور یہ بہت ہی بڑا درجہ ہے ! ! اُنہوں نے کہا نہیں ! ایک ساتھی تھا اُن کا، کُرز اُس کا نام ہے جب اتنے کلمات فرمائے آپ نے تو اُس کو خیال آیاوہ کہنے لگا بلکہ ہم نے اسے آپ کو دے دیا ! حالانکہ وہ اچھا آدمی تھا بھی نہیں لیکن اُس نے بھی کہا لے لیں ! وہ کہنے لگا سہیل کہ نہیں یہ نہیں ہو سکتا، کسی طرح راضی نہیں ہوا ! ! پھر آخر کار اُن کو واپس کرنا پڑا تو باپ مسلمان نہیں ہوا اور بیٹا مسلمان ہوگیا ہے ! ! بڑی تکلیف، ٹکراؤ ہروقت اور دباؤ اُوپر کا ،ایسی مثالیں بہت ہیں ! ! !
بیٹا مسلمان ،ماں کافرہ :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے ماں مسلمان نہیں ہوئی، بہت پریشان رہتے تھے ! ان کے ذہنوں میں یہ بھی تھا کہ اس کی نجات ہوجائے کسی طرح ، میری ماں ہو باپ ہو اور کافر مریں یہ نہ ہو، دل میں یہ بھی تھا بہت پریشان رہتے تھے ! ! ایک دفعہ آئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اور دُعا کی درخواست کی کہ میری والدہ مسلمان ہوجائیں ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا دے دی ! وہ گھر گئے ہیں تو والدہ نے کہا کہ ٹھہر کے آنا میں نہا رہی ہوں نہانے کی آواز آئی پانی کی ! اور جب یہ اندر داخل ہوئے ہیں تو وہ مسلمان ہوگئیں ! ! ! اُن کے لیے بہت بڑا مسئلہ تھا یہ کہ ماں باپ دونوں یا ایک ان میں سے جو صورت بھی ہو نہ مسلمان ہوئے ہوں اور تنگ کرتے ہوں ! ! !
گناہ کے کام میں ماں باپ کی اطاعت نہیں کی جائے گی :
اب کافرانہ رُسوم توبڑی جاہلانہ چیزیں ہیں وہ اُن پر ڈٹے ہوئے اور نہیں سنتے ! ! تو اس میں جو نافرمانیاں ہوں گی اُن کا کیا حکم ہے ؟ ؟
تو اس میں نافرمانی، نافرمانی نہیں شمار ہوگی کیونکہ اللہ کا حکم اُن کے حکم سے بالا ہے ! اب آپ کے اختیار میں اتنی بات ضرور ہے کہ اُن کے ساتھ تلخی نہ کریں ! ٹَلا دیں ! غائب ہوجائیں ! کچھ (بھی) کریں اُن کے ساتھ بدسلوکی بد تمیزی پھر بھی نہیں بتائی ! ! !
بیٹی مسلمان ،ماں کافرہ :
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی تھیں یہ عرض کرنے لگیں کہ میری والدہ آرہی ہیں یعنی مدینہ منورہ وَھِیَ رَاغِبَة اور اُن کی رغبت ہے اب '' رَاغِبَة ''کا لفظ ایسا ہے عربی میں کہ دونوں معنی اس کے ہوسکتے ہیں اسلام کی طرف رغبت ہے یا اسلام سے نفرت ہے، دونوں معنٰی ہو سکتے ہیں رَاغِبَة عَنِ الْاِسْلَامْ اگر ہوتو اُس کے معنی ہوں گے اسلام سے اُنہیں نفرت ہے اَفَاَصِلُہَا میں اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کروں صلہ رحمی کروں ؟ ؟
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صِلِیْہَا۔ اَوْ کَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامْ ہاں صلہ رحمی کرو اُن کے ساتھ ! تو یہ معاملات ہیں جو پیش آتے ہیں گھریلو اور اُس میں اختلاف ہوتا رہتا ہے نظریات کا بھی اختلاف ہوجاتا ہے سیاسی بھی ہوجاتا ہے حکومتوں کا ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ طرح طرح کے لیکن ان سب کے بارے میں معیار بتایا گیا ہے کہ جہاں حکم ِ الٰہی ہو وہاں تو اُن کی بات ماننی ضروری نہیں ہے ورنہ اُن کی بات بھی مانو ! اور اگر ایسی چیز ہے کہ جس میں بات ماننی اُن کی ضروری نہیں ہے تو پھر اُن کے ساتھ بد سلوکی نہ کرو ! تلخ کلامی نہ کرو ! منہ چڑھا کر نہ بولو ! ناک چڑھا کر بات نہ کرو ! وغیرہ یہ تاکیدات ہیں ! ! !
اگر کوئی اس کا خیال نہ کرے عُقُوقْ یعنینافرمانی پر اُتر آئے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کو کبائر میں شمار کیا ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے یعنی بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوگا ! ! !
کون سا گناہ کبیرہ ہے :
توحدیث شریف میں جس کے اُوپر وعید آئی ہو کوئی کہ فلاں کام اگر کرے گا آدمی تو فلاں سزا ملے گی تووہ کبیرہ ہے ! یا خود کبائر کا نام لیا اور شمار کرادیا کہ یہ کبیرہ ہے یہ کبیرہ ہے یہ کبیرہ ہے تو یہ ''کبائر ''کہلائیں گے ! ! !
صغیرہ گناہ بار بار کرنا :
اور ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کبائر کی جس سے بہت زیادہ غفلت ہے، ہمارے دور میں تو بہت ہی غفلت ہے وہ یہ کہ صغیرہ گناہ کرتا ہی رہتا ہے ! گناہ چھوٹاسا ہے مگر پابندی سے عادی بن گیا اُس گناہ کا ! استغفار نہیں کرتا ! اُس گناہ کو کوئی خاص چیز نہیں سمجھتا ! تو ایسا گناہ جو چھوٹی سی بات ہو اور خاص چیز نہ سمجھتا ہو اُس کووہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے ! ! کیونکہ گناہ کو خاص چیز نہ سمجھنا یہ گناہ ہے ! اور اس سے وہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے تو صغائر سے بھی استغفار کرنا چاہیے اور کبائر سے بھی ! ! !
ارشاد فرمایا قتل ِ نفس کسی کو(ناحق)مار دینا۔
کفارہ والی قسم :
اور ایک وہ قسم ہوتی ہے جو مستقبل کے بارے میں ہو کہ کل کو یوں کروں گا یا پرسوں یوں کروں گا یا سال بعد یوں کروں گا پھر اُس کو اگر توڑ دے توکفارہ لازم آتا ہے ! ! !
''یمین ِ غموس'' کیا ہے ؟
مگر یہ کہ جو جانتا ہے کہ ایسی بات نہیں ہے اور گزری ہوئی بات کے بارہ میں قسم کھاتا ہے اور جھوٹی قسم کھاتا ہے وہ یمین ِ غموس ہے''غَمَسَ ''کے معنی ہیں ڈبونے کے ، غَمُوْسْ کے معنی ڈبونے والی یعنی گناہ میں ڈبونے والی یا خدا کی ناراضگی میں ڈبونے والی یا جہنم کی آگ میں ڈبونے والی ! ! !
بہرحال ماضی پر جو گزرچکی ہو چیز اُس کے بارے میں جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانی اس کا نام یمینِ غموس ہے تو جو کافر ہوتے تھے اُن کو تو کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی تھی جس طرح چاہیں قسم کھا لیں جو چاہے قسم لے لیں لیکن مسلمان، مسلمان کو روک دیا گیا۔
قسم صرف ''اللہ ''کی :
ایک تو یہ کہ'' اللہ ''کے سوا باقی قسم نہ کھاؤ کسی کی بھی، اللہ ہی کی قسم کھائی جا سکتی ہے ! اللہ کی ذات اس قابل ہے کہ جس کو قسم کے لیے استعمال کیا جائے اور دوسرے یہ کہ قسم جب یہ کھائے تو غلط نہ ہو ماضی کے بارہ میں جھوٹی نہ ہو، مستقبل کے بارہ میں دیکھا جائے گا کہ اُس نے جو قسم کھائی ہے کیا گناہ کے کام کی کھائی ہے مثلاً کسی نے قسم کھائی کہ ضرور چراؤں گا ! ضرور ڈاکہ ڈالوں گا ! ضرور گالیاں دوں گا جاکر فلاں آدمی کو ! تو ایسی قسم جو کھا بیٹھا ہے گناہ کی بات کے لیے اُس قسم کا توڑنا ضروری ہے اور اُس کا کفارہ دینا چاہیے وہ قسم قائم رکھنے کے قابل نہیں ! ! !
اور ایک ہے یہ کہ جائز کام کے لیے ہے ! صرف تاکید کے لیے قسم کھالی ہے اور نہیں کر سکا وہ کام ! تو اس صورت میں بھی وہ حانث ہوجائے گا اور اُسے کفارہ دینا پڑے گا یہ کفارہ ہی استغفار ہے گویا ایک طرح کا کہ جو غلطی ہوئی اور خدائے پاک کا نام غلط طرح استعمال ہوگیا تواس صورت میں اُس کا کفارہ رکھ دیا گیا ( اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ) دس مسکینوں کو کھانا کھلانا (مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ ) اپنے گھر والوں کو جیساکوئی کھلاتا ہے اوسطًا ویسا (اَوْکِسْوَتُھُمْ) یا اُن کے کپڑے ( اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ ) یا غلام آزاد کرنا ١
لیکن اگر کسی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ان میں سے، اپنے کھانے کو نہیں میسر دس کو کہاں سے کھلائے گا تو (فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ) جسے نہ میسر آئیں یہ چیزیں وہ تین دن روزہ رکھے (ذٰلِکَ کَفَّارَةُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ) یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب قسم کھا بیٹھو ( وَاحْفَظُوْا اَیْمَانَکُمْ ) ٢
قسموں کی حفاظت کرو بِلا وجہ نہ کھائو قسم !
سچے کو قسم کی ضرورت نہیں :
تو آدمی اگر سچ ہی بولے تو قسم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، جھوٹ بولے تو پھر گڑ بڑ کر نے کی ضرورت پڑتی ہے اور ایسی چیزوں میں پڑجاتا ہے لیکن باوجود اِن تمام چیزوں کے کبھی کبھار توقسم کھاتا ہی ہے آدمی تو پھر تمام چیزوں میں خیال رکھے۔
ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ شَھَادَةُ الزُّوْرِ جھوٹی گواہی ،'' زُور ''کہتے ہیں ہیر پھیر کو تو ہیر پھیر کی بات جو ہے وہ قَوْلَ الزُّورْ ہوتی ہیہیر پھیر کی بات کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہہ کیا رہا ہے ، ہیرا پھیری ہیرا پھیری ! ! اور یہاں آیا ہے شَھَادَةُ الزُّوْرِ تو اس کے معنی ہوں گے جھوٹی گواہی تو یہ جھوٹی گواہی جو ہے یہ بھی غلط ہے اور یہ کبائر میں شمار ہے ! انسان اسے معمولی سمجھتا ہوگا لیکن یہ نہیں ہے، اس میں حق تلفی ہوجاتی ہے یا اِدھر کی چیز اُدھر یا اُدھر کی چیز اِدھر ایسے ہوجاتی ہے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے گناہوں سے بچائے رکھے اپنی طاعت پر توفیق دے اور ہمیں دین پر چلا تا رہے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے ، آمین۔

١ اسلام نے ''غلامی ''ختم کرا کر ''آزادی'' کو رائج کیا ۔ محمود میاں غفرلہ ٢ سُورة المائدہ : ٨٩

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.