jamiamadniajadeed

نفس کی فناء اور اُس کی علامات

درس حدیث 266/24 ۔۔۔۔۔ نفس کی فناء اور اُس کی علامات ۔ زبان کا عمل اللہ کی یاد ۔ ''بات'' بھی اَمانت ہوتی ہے۔عمر بن عبدالعزیز کا تجارتی عدل۔ اِقامت ِ جہاد بھی حاکم کا فریضہ ہے۔جھوٹے بنی کا دماغ ٹھکائی سے درست ہوگیا (1987-09-27)


( نومبر 2020 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
نفس کی فناء اور اُس کی علامات ! عمر بن عبدالعزیز کا تجارتی عدل
اقامت ِ جہاد بھی حاکم کا فریضہ ہے ! جھوٹے بنی کا دماغ ٹھکائی سے درست ہوگیا
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر23 کیسٹ نمبر 76 سائیڈB 27 - 09 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بڑے سمجھدار صحابی ہیں ،شروع شروع میں تو ایسی بعض باتیں ملیں گی جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ کی ہو لیکن بعد میں انہوں نے علم حاصل کیا اور اتنا زیادہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فیصلوں پر اعتماد کیا فتوؤں پر اعتماد کیا ان کو اجتہاد کی اجازت دی ! یہ جب یمن جارہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ وہاں کوئی بات پیش آئے نئی تو کیا کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں کتاب اللہ میں دیکھوں گا، تو جتنا بھی قرآنِ پاک اُس وقت تک نازل ہو چکا تھا وہ یہ پڑھے ہوئے تھے انہیں معلوم تھا اور یاد بھی ہوگا حفاظ ہوتے تھے بکثرت ! دریافت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اگر قرآنِ پاک میں نہ ملے وہ چیز پھر ؟ تو انہوں نے کہاکہ جو میں نے جناب سے سنا ہے ،حدیثیں گویا پھر اُن میں وہ دیکھوں گا ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُن میں بھی نہ ملے تو ؟ پھر انہوں نے عرض کیا کہ اَجْتَھِدُ بِرَأْیِ ١ میں اپنی رائے سے پھر اجتہاد کروں گا تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع نہیں کیا بلکہ اجازت دی اور پسند فرمایا ! ! !
تو ایسے صحابی جنہوں نے فتوے اور فیصلے دیے ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن پر اِعتماد کیا یہ اُس درجہ کے صحابی ہیں ! تو ایسے ہوجاتا ہے کہ ایک آدھ دفعہ غلطی ہوجائے تو وہ غلطی فائدے کا باعث بن جاتی ہے کہ پھر آدمی کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ مجھے معلومات کم ہیں ! معلومات مکمل کرنی چاہییں علم کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے ! تو ان کا اسی طرح ہوا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے اَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ حلال اور حرام کوجاننے والے سب سے زیادہ یہ معاذ اِبن جبل ہیں انہوں نے کچھ سوالات کیے ۔
٭ ایک سوال یہ تھا کہ ایمان میں افضل ترین کیفیت کیا ہے ؟ ایمان لانے کے بعد انسان کی قلبی کیفیات بدلتی ہیں ایک کافر اور مومن میں بڑا فرق ہوجاتا ہے تو ایمان قبول کرنے کے بعد کون سی چیز ایسی ہے کون سی کیفیت ایسی ہے کہ جو نمایاں بھی ہو سمجھ میں بھی آئے اور افضل بھی ہو ،سب سے افضل !
ایمان کا اہم ثمرہ :
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اَنْ تُحِبَّ لِلّٰہِ وَتُبْغِضَ لِلّٰہِ کہ تم محبت کرو کسی سے تو خدا کے لیے ! اور بغض رکھو تو خدا کے لیے ! اپنی ذات کے لیے نہ ہو ! کسی میں نیکی کی اگر یکھتے ہو صلاحیتیں اور کیفیت دیکھتے ہو اُس کی نیکی کی تو اُس سے محبت کرنے لگو اور وہی اگر برائی کرنے لگے تو دُور ہوجاؤ اور برا آدمی برائی کرے تو برا لگے ! اور جب وہی آدمی نیکی پر آجائے تو اچھا لگنے لگے ! تو معلوم ہوا کہ اُس آدمی سے نہیں ہے محبت نہ نفرت بلکہ اگر خدا کی اطاعت کر رہا ہے کوئی بھی ہو تو وہ اچھا لگتا ہے اور خدا کی نافرمانی کر رہا ہے کوئی بھی ہو تو وہ برا لگتا ہے ! تو اَنْ تُحِبَّ لِلّٰہِ وَتُبْغِضَ لِلّٰہِ خدا ہی کے لیے محبت اور خدا ہی کے لیے نفرت یہ رہ جائے یہ کیفیت ہوجائے دل کی تو یہ ٹھیک ہے ! یہ ایمان کی سمجھئے علامت !

١ سُنن ترمذی شریف رقم الحدیث ١٣٢٧ و مشکوة شریف رقم الحدیث ٣٧٣٧
نفس کی فنا :
اور ویسے سو چا جائے تو اس میں گویا اپنے نفس کی فنا ہوگئی اپنی ذات اپنی خواہش اپنا ارادہ کچھ نہیں رہا نفی کردی اُس نے ! اپنے ارادے سے جو محبت ہوتی ہے وہ تو بلا وجہ بھی ہوتی ہے اور اُس میں یہ ہوتا ہے کہ اُس آدمی کی برائی برائی نہیں لگتی اور برائی سامنے آتی ہی نہیں ،یہ مُتَنَبِّیْ ایک(عرب) شاعر گزراہے بلند پایہ شاعر تھا ! اس لیے اس نے نبوت کا دعوی کردیا کہ میرا معجزہ میرا کلام ہے ! ! تو اشعار اُس کے بہت عمدہ ہیں بلا شبہ، آج تک بھی وہ اشعار اُسی طرح اپنی جگہ بڑے معنی خیز بڑے لطیف ! جیسے دیوانِ غالب چلا آرہا ہے ،یہ بڑے بڑے شاعر گزرے ہیں ان کا کلام اور ان کو بڑا کہنا وہ اسی وجہ سے ہے کہ ان کی دقت ِ نظر ان کی ذہنی پرواز بہت بلند ہے، اسی طرح اس کا بھی حال تھا ! ! !
ٹھکائی سے ہی جھوٹے نبی کا دماغ درست ہو گیا :
لیکن نبوت کا دعویٰ تو کسی کا سنا ہی نہیں گیا ! چلا ہی نہیں ہے کسی کا بھی ! تو اس کی بھی اسی طرح سے مرمت ہوئی ! تو یہ تائب ہوگیا کہ نہیں نہیں میں نبی نہیں ہوں ! ! پھر یہ جانے لگا بادشاہوں کے پاس پہلے وزراء کی تعریف کرتا تھا ! بعد میں وزراء سے آگے وزرائے اعظم کی ! اور خود نواب یا بادشاہ کی بس ! اور اُس سے نیچے لوگوں کی تعریف کو یہ سمجھتا تھا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے اپنی توہین سمجھتا تھا کہ یہ میرے معیار سے گری ہوئی چیز ہے ! ! تو اُس نے ایک شعر بھی کہا ہے
وَعَیْنُ الرِّضَا عَنْ کُلِّ عَیْبٍ کَلِیْلَة
وَلٰکِنَّ عَیْنَ السُّخْطِ تُبْدِی الْمَسَاوِیَا
یہ جو خوشی کی آنکھ ہے یعنی جس زمانے میں کوئی آدمی کسی سے خوش ہو اور تعلق رکھتا ہو تو یہ آنکھ جو ہے یہ ہر عیب دیکھنے سے عاجز ہوتی ہے عیب اُسے نظر ہی نہیں آسکتا ! اُس کی محبت جا گزیں ہے تو اُس کی برائی بھی کوئی بات نہیں ! نظر انداز کرتا جاتا ہے ! !
اور ناراضگی کی جو آنکھ ہوتی ہے وہ برائیاں دکھاتی ہے کہ دیکھو اس میں یہ خرابی ہے یہ خرابی ہے یہ خرابی ہے ! تو ناراضگی میں تو یہ ہوتا ہے کہ برائیاں نظر آئیں ! لیکن جس وقت اُس کو تعلق ِ خاطر ہو اور محبت ہو اُس وقت یہ نہیں ہوتا کہ برائیاں نظر آئیں ! تو جو عام رواجی تعلق ہے یا محبتیں ہیں وہ اسی قسم کی ہیں اور اس میں اپنے آپ کو دخل ہے اپنی ذات کو دخل ہے اپنے نفس کو دخل ہے ! اور بعض جگہ نفس کو نہیں ہے فطری طور پر ہی ہے اولاد کے بارے میں ہے جیسے کسی اور کے بارے میں جو عزیز واَقارب ہیں اُن کے بارے میں تواس میں نفس کودخل نہیں ہے فطری ہے ایک چیز ! تو ایسی چیزیں اگر ہوں تو انسان کی جان کو نفس کو اِس میں دخل ضرور ہوگا ! ! !
اپنی ''ذات'' کی نفی :
یہ جو ارشاد ہے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا اَنْ تُحِبَّ لِلّٰہِ وَتُبْغِضَ لِلّٰہِ کسی سے محبت ہو تو خدا کے لیے اور نفرت ہو تو خدا کے لیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات کی اُس نے بیچ میں سے بالکل نفی کردی ،رہ گئی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کا حکم اور اُس کا ارشاد اور اُس کی اطاعت جو وہ کر رہا ہے اُس سے اس کو اُلفت ہوجاتی ہے اُس کی قدرو منزلت کرتاہے ! ! اور جس میں اُس سے کوتاہی ہے اُس سے یہ دُور ہوجاتا ہے ! اور وہی آدمی نیکی کرنے لگے بس ٹھیک ہے پھر اچھا لگنے لگتاہے ! اور اچھاآدمی برائی کی طرف چلا جائے تو یہ دُور ہوجاتا ہے اُس سے ! تو معلوم ہوا کہ خود اپنے نفس کی نفی کا اس میں دخل ہے اس لیے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بڑا درجہ دیا کیونکہ یہ ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہے کہ اپنی ذات اور اپنے نفس کی نفی اور'' فطرت ''جو اللہ نے رکھ دی ہے اُس کے استعمال پر اتنا کنٹرول ہوجائے، یہ ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ہے یہ تو بہت خاص لوگوں کے لیے ہے ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ایمان قرار دیا ! بہت افضل ایمان ! بہت بہتر ایمان ! !
زبان کا عمل....... اللہ کی یاد :
مزید ارشاد فرمایا وَتُعْمِلَ لِسَانَکَ فِیْ ذِکْرِ اللّٰہِ اپنی زبان کو خدا کی یاد میں لگائے رکھو ! جہاں فرصت ملے خدا کی یاد میں لگائے رکھو یہ تو زبان کا ہوا ! زبان سے ذکر مدد گار ہوتا ہے دل سے یاد کرنے میں ! ذکرِ لسانی اگر کرتارہے اللہ تعالیٰ کانام لیتا رہے تو قلب میں جو نام لیتا ہے اُس کو مدد پہنچتی ہے ! تو اصل جو ہے وہ تو وہی(دل سے یاد کرنا)ہے ! ! اور حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کی تحریرات میں میں نے ابھی کہیں سنا ہے مجھے کوئی بتلا رہا تھا اُنہوں تحریر فرمایا ہے کہ دل کے اعتبار سے خدا کی معرفت جس کا نام ہے وہ صحابہ کرام کوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنے ہی سے حاصل ہوجاتی تھی، اِس دور میں ہمیں دقت ہوتی ہے محنتیں کرنی پڑتی ہیں دل کو لانا پڑتا ہے خدا کی یاد کی طرف مائل کرنے کے لیے ترکیبوں سے یعنی دو ہی طریقے ہیں یا تو محبت ہوجائے تو پھر آدمی دن رات اُسی کے ذکر میں لگا رہے گا کسی چیز سے مناسبت ہوجائے طبیعت اُس طرف چل پڑے تودن رات اُسی کا ذکر، اُسی میں لگا رہے گا ! اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یاد میں زبانی لگ جاؤ اتنی یاد کرو زبانی کہ وہ دل میں چلی جائے ! تو اب جو ہے طریقہ وہ یہ ہے کہ زبانی یاد اللہ کی اتنی بتلائی جاتی ہے کثیر تعداد میں کہ وہ دل پر اَثر انداز ہو ! یہ اختلاف ہے دور کازمانے کا ! اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنے ہی کی برکات ہوتی تھیں ! ! !
عرض کیاانہوں نے وَمَاذَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اور کیا چیز ہے ؟ اور بھی کوئی چیز ایسی علامت کے طور پر ارشاد فرمائی جائے جن سے انسان یہ پہچان سکے کہ وہ کتنا کامیاب ہوا ہے خدا کی طرف آگے بڑھنے میں ! !
لوگوں کے ساتھ معاملات ،مثال سے وضاحت :
تو یہ ارشاد فرمایا تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے وَتَکْرَہَ لَھُمْ مَا تَکْرَہُ لِنَفْسِکَ ١ یہ گویامعاملات داخل ہوگئے اس میں ! ! پہلی بات جو تھی وہ اپنی قلبی کیفیت ! اور دوسرے کی بات اور یہ ایسی ہے کہ ا س میں دوسروں کے ساتھ واسطہ پڑے معاملہ پڑے تو پھر کیا ہے ؟ مثال کے طور پر ایک آدمی کو کوئی مشکل پیش آئی ہے اور وہ مشورہ لینے آپ کے پاس گیا ، آپ اسے مشورہ جو دے رہے ہیں تواُس میں یہ سمجھئے کہ میں اگر ایسی جگہ مبتلاء ہوتا تو کیا کرتا تو جب آپ یہ سمجھیں گے تو مشورہ اسے اور طرح کا دیں گے اور دلچسپی سے دیں گے ! ! اور اگر یہ نہیں سمجھیں گے تو پھر یہ بات نہیں ہوگی ! نہ دلچسپی سے دیں گے ! اور نہ ثواب حاصل ہوگا ! تو وَتَکْرَہَ لَھُمْ مَا تَکْرَہُ لِنَفْسِکَ لوگوں کے لیے ناپسند بھی وہی کرو جو اپنی ذات کے لیے ناپسندکرتے ہو توکسی کو مشورہ جب دینا ہو تو اُس میں یہی ہے کہ دیانت داری ہو لازمی ۔
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٤٦
''بات'' بھی امانت ہوتی ہے :
اور دوسری جگہ آیا ہے حدیث شریف میں اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہے ،امانت گویا اُس کے پاس آرہی ہے یہ باتیں وہ سن رہا ہے تو یہ امانت ہوتی جا رہی ہیں ! اور جواب جو دے گا صحیح دینا پڑے گا اُسے ،ورنہ خیانت ہوجائے گی کیونکہ اُس نے ایک چیز اپنی بتائی ہے اور آپ سے وہ چاہتا ہے مشورہ تو آپ اُس کی بات کی حفاظت بھی کریں گے ! اور مشورہ بھی صحیح دیں گے ورنہ خیانت ہوجائے گی ! !
ایک اس میں تھوڑا سا فرق اور بھی ہے تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکْ وَتَکْرَہَ لَھُمْ مَا تَکْرَہُ لِنَفْسِکَ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ تُحِبَّ لِلْمُسْلِمِ مسلمان کے لیے تم پسند کرو بلکہ اس میں '' لِلنَّاسِ'' کا لفظ ہے اور''نَاسْ'' کا لفظ جو آیا ہے وہ عام آیا ہے( قُلْ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا) اے انسانوں ! میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں خدا کی طرف سے تو ''نَاسْ'' کا لفظ جو ہے وہ مسلمان کو بھی شامل ہے غیر مسلم کو بھی شامل ہے تو جس وقت(حضرت معاذ کویمن) بھیجا جا رہا ہے اُس وقت کے سوالات و جوابات ہیں ورنہ یہ(بھی ہو سکتا) ہے کہ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے طرف سے (بذریعہ کشف و اِلہام)یہ انداز ہو گیا ہوگا کہ یہ کسی جگہ حکومت کریں گے ! حکومت ایک تو ہوتی ہے صدر بننا، ایک گور نر بننا بھی تو حکومت ہی ہے اور پہلے زمانے میں گور نر زیادہ بڑی طاقت ہوتی تھی کسی کو گور نر بنانے کے بعد ہٹانا جو ہے وہ آسان کام نہیں تھا مشکل کام ہوتا ہے ممکن ہے نہ ہٹے فوج بھی اُس کے تحت تھوڑی بہت ہوتی تھی اور بڑھا وہ سکتا تھا، اثرات اُس کے ایسے ہوتے تھے ! ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھیجا یمن حاکم بنا کر توآپ کو انداز ہوگا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ ان سے اللہ تعالیٰ یہ کام لیں گے اُس میں یہی ہے کہ اُس کو سب آدمیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور قرآنِ پاک میں ہے ( وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ ) انسان کو ہم نے قابلِ اکرام بنایا ہے اسی واسطے کافر مر جائے گا اگر تو اُس کی ناک کان کاٹنا مُثلہ کرنا بدنماکرنا اس کی اجازت شریعت نے روک دی ! پہلے زمانے میں ایسی ہوتی تھی حرکتیں اب شریعت نے منع کر دیا ،یہ نہیں کرنا ! تو بنی آدم فرمایا انسانوں کو اور (کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا) لوگوں کے لیے ۔
حاکم پر کافر سے انصاف بھی فرض ہے :
اور یہ جو حکمران ہوگا یہ بھی لِلنَّاسِ ہوگا مسلمان بھی ہوں گے ! اور غیر مسلم بھی ہوں گے ! اور ہوسکتا ہے مسلمان تھوڑے ہوں غیر مسلم زیادہ ہوں ،جب علاقے فتح ہو رہے تھے اُس زمانے میں مسلمانوں کی تعداد تھوڑی اور غیر مسلموں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو یہ نہ ہو کہ تم اُن سے کوئی کام لو کوئی ڈیوٹی انجام دینے کو کہو اُن سے اور ایسی ڈیوٹی اور ایسی مشکل میں اُن کوڈال دو کہ جوتم خودنہ کرسکتے ہو ایسے نہ کرنا ! یہ کیا ہے ؟ یہ رعایا کے ساتھ ظلم ہوجاتا ہے ! اور حاکم پر فرض ہے کہ رعایا کی رعایت کرے ! اور اُس کا فرض ہے کہ اُن کو اَمن پہنچائے ! انصاف پہنچائے ! اُن کی ضرورتوں کو فورًا پورا کرے ! کیونکہ خدا نے اُسے اتنے وسائل دیے ہیں اتنی طاقت دی ہے کہ وہ یہ کرسکتا ہے لہٰذا اُس کا فرض ہو گیا۔
اقامت ِدین و جہاد بھی حاکم کا فریضہ ہے :
اقامت ِدین بھی فرض ہے جتنے فرائض ہیں سب پورے کرائے وہ لوگوں سے اور وہ کرا سکتا ہے اور کیسے نہیں کرے گا ؟ یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ چاہے اور نہ ہو ! ! اور جہادکا فریضہ اقامت ِفریضہ ٔ جہاد یہ حاکم کے ذمہ ہے ! اور آپ ذرا غور کرتے جائیں جب سے یہ کوتا ہی ہونے لگی ہے زوال ہی ہوا ہے ! اور قرآنِ پاک میں ہے ( قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَةً ) جو تمہارے قریب کافر ہیں اُن سے لڑو اگر نہ مانیں باز نہ آئیں معاہدہ شکنی کریں وغیرہ وغیرہ تو لڑو ! ( وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَةً ) اور اُن کے لیے تمہارے اندر سختی ہو نی چاہیے ! بالکل نرم بالکل حلوا ایسے نہ ہوں ! بلکہ تمہارے اندر وہ سختی پائیں ! جب تمہیں جھانکیں دیکھیں تو پائیں کہ سخت ہیں ! تو سیدھے رہیں گے ! ورنہ وہ چکر بازی میں لگ جائیں گے ! ! !
ہمارے ہاں کے بڑے، ہندوؤں سے ڈریں :
تو ہمارے یہاں تو اتنا افسوس ناک حال ہے کہ ہمارے بڑے بڑے یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان بڑی طاقت ہے ! ہم اُس کے مقابلے میں بہت چھوٹی طاقت ہیں ! ہم اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ! تو یہ باتیں تو ویسے بھی غلط ہیں چاہے نہ کر سکتے ہوں پھر بھی نہیں کہتا کوئی ! پھر بھی کہتا ہے کہ اچھا دیکھا جائے گا ! یہ کہنے کی باتیں ہیں اور اسلام والے تو کہہ ہی نہیں سکتے ! ایک اور دو کا تو مقابلہ ہے ہی ہے ! اُس میں تو جیت ہے ہی ہے کوئی بات ہی نہیں ! جبکہ عملاً ایسے ہے کہ ایک اور دس ! ایک اور بیس کا بھی مقابلہ ہو تو کامیابی ہوجاتی ہے ! ! اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی ہے لیکن ظلم نہ ہو اور نیت جہادکی ہو خدا وند ِقدوس کی ذاتِ پاک کے لیے ہو تو پھر ہے جہاد ! ! تو ارشاد فرمایا کہ تُحِبَّ للِنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ جب رعایا بن جائے تو پھر اُس پر زیادتی نہیں کی جا سکتی ظلم نہیں کیاجاسکتا سمجھ لو کہ اگرمیں ہوتا توکیا ہوتا اور کتنا کام کرسکتا تھا بس اُتنا کام اور اُتنی ڈیوٹی اُن سے لی جائے ! ! !
عدل پر مبنی تجارتی پالیسی :
میں نے آپ کو بتایا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے زمانے میں کچھ اشیائے ضرورت جو تھیں وہ مہنگی ہو گئیں اُن سے کہا گیا کہ یہ کیا بات ہے ؟ تو اُنہوں نے کہاکہ مجھ سے پہلے جو گزرے ہیں وہ غیر مسلم رعایا کو جو سبزی ترکاری دالیں یا جو بھی چیز وہ لاتے تھے اُن کومجبور کرتے تھے کہ سستی بیچیں تو اُنہیں نفع کم سے کم ہوا بہت تھوڑانفع ! ! اور مسلمان زیادہ لے لیتے تھے نفع ! !
تو میں اُنہیں (کفار کو) مجبور نہیں کرتا ! ! اس کابڑا اثر پڑتا ہے اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ معاملات جب اچھے ہوں تو مسلمان ہوتے چلے جاتے ہیں ! ! تو قرآنِ پاک میں تو یہ ہے۔
اور جہاد کا فریضہ ہے اور اُس کی تیاری ! جبکہ ہمارے یہاں اس سے بالکل غفلت ! سوئے ہوئے ہیں ! یہاں کوئی بھی آئے اور اپنے پنجے جمالے ! تو جوآج ہمارا حال ہے اسی طرح ہم رہیں گے کل بھی ! کیونکہ لڑ سکتے ہی نہیں ٹریننگ ہی کوئی نہیں ! وجہ ؟ ؟ نافرمانی خدا کے حکم کی ! اللہ نے توکہا ہے (وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ )جو تمہاری طاقت ہو سکتی ہے تیاری کرو ! اور جو طاقت ہے وہ کافی ہے ! یعنی عوام اگر ٹریننگ یافتہ ہوں اور جذبات اُن میں جہاد کے ہوں کوئی رُخ نہیں کر سکتا ! ! اور ہندوستان سارا ڈرے گا خود بخود ڈرے گا ! کہ یہ بالکل تیار ہیں ! اور ایک بلا ہیں ! یہ چمٹ گئے تو پیچھا چھڑانامشکل ہوگا ! ! تو یہ نہیں ہے کہ بمباری یا ہوائی جہاز جس کے پاس ہیں بس وہ جو چاہے کر لے ہرگز ایسے نہیں ! ! کیونکہ آخر میں قبضہ جمانا تو پھر فوج ہی کرتی ہے ! اور سب فوجی ہوجائیں اگر تو(دُشمن کی) فوج کیا کرلے گی ؟ ! نہیں جما سکتے(اپنے پنجے) کوئی بھی نہیں رہ سکتا ! اُن کے پاس فوج ہے شاید نو لاکھ یا کتنے ہیں یہ کوئی چیز ہی نہیں اگر یہاں کے آدمی سات کروڑ ٹرینڈ ہوں ! تو نو لاکھ فوج قبضہ نہیں جما سکتی ! اور نو لاکھ کے نو لاکھ آبھی نہیں سکتے یہاں ! اُنہیں اپنے لیے بھی تو چاہیے وہاں رکھنے کے لیے ! یہ کوئی ڈرنے کی چیز ہی نہیں ! اور بمباری سے قبضہ نہیں ہوتا ! قبضہ کرنے کے لیے تو بہرحال فوج ہی جائے گی ! یا اُس سے نیچے کے جو اور ہوتے ہیں رینجرز وغیرہ اس طرح کے وہ جائیں گے ! ! بہرحال ہماری بہت بڑی کوتا ہی ہے فریضہ ٔ جہاد سے غفلت ! ! وہ افغانی اور قبائلی تیار تھے کسی حد تک نشانہ بازی وغیرہ میں اور چھوٹے ہتھیاروں سے ایک جگہ جمے رہے ،اتنے مضبوط ہیں کہ اُن(رُوسیوں ) پر یہ اَثر انداز ہو رہے ہیں ! ! اگرچہ شہروں پر قبضہ نہیں کرسکتے اور گوریلہ لڑائی میں کبھی نہیں ہوتا شہروں پر قبضہ ! مگر گوریلہ لڑائی کی کامیابی یہ ہے کہ شہر کے علاوہ اُن کاقبضہ نہ ہونے پائے ! شہر سے جب وہ نکلیں تو وہ غیر محفوظ ہیں ! تو یہ گوریلہ لوگوں کی کامیابی ہے ! تو یہ کامیابی انہیں میسر ہے ! اور ان کے جذبات جہاد کے جذبات ہیں ! اور اللہ تعالیٰ برکت دے دے تو(رُوس پر) کامیاب ہوجائیں گے بالکل ! ! !
توایران میں اُس(خُمینی) نے تیار کیا لوگوں کو ! اب ہر آدمی وہاں لڑنے والا ہے ! چھوٹے چھوٹے بچے جو قریب البلوغ ہیں بالغ بھی نہیں ہیں وہ بھی لڑتے ہیں اور تیار ہیں ! اور پہرے دیتے ہیں اور مرتے ہیں ! اُن کے عقیدے کے اعتبار سے شیعیت کے باوجود بھی بقول اُن کے جذبہ ٔ جہاد ہے ! مگر اُن کی طرف کوئی طاقت رُخ نہیں کر سکتی ! بہت بڑی طاقت ہے امریکہ کی بھی رُوس کی بھی ! مگر ہوا کرے یہ نہیں ہو سکتا کہ اِدھر کی طرف رُخ کرلیں ! وہ ان پر قبضہ جمانے کا سوچ لیں یہ نہیں (ہوسکتا) ! تاوقتیکہ ان میں پھوٹ نہ ڈالیں اور کوئی چیز ایسی نہ کریں اُس سے پہلے وہ نہیں کر سکتے جب تک یہ متحد ہیں چونکہ وہ ساری قوم تیار ہے ! ! !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان حکمران کو یہ بتلایا کہ وہ یہ سوچ لے کہ کتنی طاقت ہے ان (کافر تاجروں ) میں یہ برداشت کر سکیں گے یانہیں اُتنا ہی کام اُن سے لے ! تواُس کا اثر پڑتا ہے اگر عدل ہو تو حکومت چلتی رہتی ہے ! اور ظلم ہو تو پھر نہیں چل سکتی لوگوں کی حمایت بھی نہیں رہتی دلوں سے ہٹ جاتی ہے ! رُعب بھی ہٹ جاتا ہے ! اور بالآخر قدرت جو کرتی ہے نظام اپنا قائم تواُس کے نتیجہ میں وہ حکمران چلتا ہوتاہے ! حکومت نہیں چل سکتی ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی علامتوں میں سے ایک یہ بتلائی کہ تُحِبَّ لِلّٰہْ وَ تُبْغِضَ لِلّٰہِ خدا ہی کے لیے محبت اور بغض ہو اور یہ کہ اپنی زبان کو خدا کی یاد میں لگائے رکھو۔
اور پھر دوسری بات دریافت کی توارشاد فرمایا تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ وَتَکْرَہَ لَھُمْ مَا تَکْرَہُ لِنَفْسِکَ کہ لوگوں کے لیے وہ پسند کرو جو اپنے لیے اور وہی ناپسندکرو جو اپنے لیے ناپسند کرو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کواتباعِ سنت کی توفیق دے ،دین کو سمجھنے کی توفیق دے اور عمل کی توفیق دے اور قبولیت سے نوازے، آمین۔ اِختتامی دُعا .............


شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.