( مارچ 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
پُر اَسرار شخص کی آمد اور سوال و جواب ۔طاعون اور دجال مدینہ منورہ میں نہیں آسکتے
خود کُشی کا فروں میں زیادہ مسلمانوں میں کم۔اچھی بُری تقدیر پر اِیمان اور اِس کا فائدہ
( درسِ حدیث نمبر3 (244) ٢٦ شعبان ١٤٠٧ھ/٢٦ اپریل ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دن بیٹھے تھے اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُل شَدِیْدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ ایک صاحب آئے اُن کا حلیہ یہ تھا کپڑے تھے بہت سفید بہت صاف، بال تھے بہت زیادہ سیاہ لَایُرٰی عَلَیْہِ اَثَرُ السَّفَرِ وہ آئے تھے تو سفر کا کوئی نشان محسوس نہیں ہوتا تھا، یہ نہیں محسوس ہوتا تھا کہ یہ مسافر ہیں کوئی گرد ہو غبار ہو ایسی بات نہیں تھی وَلَایَعْرِفُہ مِنَّا اَحَد اگر سفر سے نہیں آئے تھے تو پھر جاننے والوں میں سے ہوں گے تو وہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی اُن کا جاننے والا بھی نہیں تھا۔ اور اُس زمانے میں تو سفر اس طرح کا ہوتا تھا کہ غبار آہی جاتا تھا ،گھوڑے کا کریں سفر تو بھی، اُونٹ سے کریں تو بھی اور اگر اس کے سوا خچر یا گدھا سفر میں استعمال ہوتا تھا تو بھی بہرحال گرد آجاتا تھا تونہ تو آثارِ سفر تھے اُن پر نمایاں اور نہ ہی یہ کہ جب وہ یہیں سے آئے ہیں تو کوئی جاننے والا ہوتا ! تو جاننے والا بھی کوئی نہیں تھا ! !
ایک بات تو یہ ہوئی جو نئی سی چیز تھی ہمارے لیے حَتّٰی جَلَسَ اِلیَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے فَاَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وہ اِس طرح سے بیٹھے کہ اُن کے گھٹنے رسولِ کریم علیہ الصلوة والتسلیم کے گھٹنوں کے قریب ہوگئے جیسے کہ گھٹنے پر گھٹنے لگا لیں ٹیک لگا لیں یا سیدھ میں یہ معنٰی بھی ہو سکتے ہیں ، بظاہر اَسْنَدَ کے معنٰی ٹیک لگائی وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ اُنہوں نے اپنے ہاتھ رانوں پر رکھ لیے اور اس میں بھی یہ احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ لیے بہت ہی قریب ہو کر بیٹھ گئے بالکل مِل کر بیٹھ گئے جڑ کر بیٹھ گئے اور اُنہوں نے سوال کیے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔
اسلام کیا ہے ؟
کہنے لگے کہ یَا مُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامْ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بتائیے'' اسلام ''کیا ہے ؟ اِرشاد فرمایا اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْہَدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ اسلام تو اِس کا نام ہے کہ تم اللہ کے ایک ہونے کی گواہی دو اور یہ گواہی دو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں وَتُقِیْمَ الصَّلٰوةَ نماز صحیح طرح ادا کرو وَتُؤْتِی الزَّکٰوةَ زکوة دو وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ رمضان کے روزے رکھو وَ تَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا اور حج بھی کرو اگر تمہارے پاس زادِ راہ ہو اور سفر ممکن ہو تمہارے لیے۔
تو وہ جو پوچھنے والے صاحب تھے اُنہوں نے کہا صَدَقْتَ کہ آپ نے ٹھیک بات کی ! ! اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی آدمی سوال کرے تو جواب کے بعد تو یہ کہنا چاہیے کہ سَلَّمْنَا ہم نے تسلیم کی یہ بات اٰمَنَّا ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ آپ نے صحیح بات کہی کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ مجھے(پہلے ہی ) پتہ تھا اس بات کا اور اب آپ نے بھی یہ بات کہہ دی تو بالکل مِل گئی بات دونوں کی اور تصدیق ہو گئی۔ تو صحابہ کرام کہتے ہیں فَعَجِبْنَا لَہ یَسْئَلُہ وَ یُصَدِّقُہ ہمیں یہ تعجب ہوا کہ پوچھ بھی رہے ہیں اور پوچھنے کے بعد بجائے اس کے کہ مناسب جواب دیں جیسے کہ سوال کا جواب ملنے پر جملہ کہا جاتا ہے اُس کے بجائے انہوں نے تصدیق کی، یہ معاملہ اِن حضرات کے لیے عجیب تھا ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت وسعت ِقلبی اور نرمی تھی ورنہ صحابہ کرام پاس نہیں آنے دیتے تھے کسی کو اور اس طرح سے آجائے آکے بیٹھ جائے وہ وہیں چلا جائے بالکل قریب آجائے اتنا، یہ صحابہ کرام گوارہ نہیں کرتے تھے لیکن سب کچھ ایسے تھا جیسے اللہ کی طرف سے ہو رہا ہو۔
حج کب فرض ہوا ؟
حج فرض ہوا ہے بہت بعد میں زکوة اُس سے پہلے فرض ہو چکی تھی روزے بھی، تو گویا کافی بعد کی بات ہے یہ ،حج کی فرضیت شاید سن ٧ ھ یا ٨ ھ میں ہوئی ہے فتح مکہ کے بعد ہوئی ہے تو آٹھ میں فتح مکہ ہوا ہے تو یہ آخری دور کی بات ہوئی۔
ایمان کیا ہے ؟
پھر اُنہوں نے دوسرا سوال کیا یَا مُحَمَّدُ فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ ''ایمان ''کے بارے میں جناب بتائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ پہلا سوال تھا ''اسلام'' دوسرا سوال ہے ''ایمان''
تو اُس کا جواب ارشاد فرمایا اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اللہ پر ملائکہ فرشتوں پر کتب اُس نے جو نازل کیں زبور ہے اِنجیل ہے توراة ہے اور صحف ِابراہیم ہیں علی نبینا وعلیہم الصلوة والسلام جو بھی صحیفے اُترے اللہ کے وہ حق تھے ، اب یہ کہ وہ ہیں قائم ؟ قائم تو نہیں ہیں تحریف ہو گئی اُن میں ، اُترنا اُن کا حق ہے جس پر اُترے اُس کا نبی ہونا حق ہے جن پر اُترے تھے اُنہوں نے پیغام پہنچا یا ہے اپنی قوم کو یہ حق ہے یہ سب ہمیں معلوم ہوا ہے جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تو اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں پر اُس کے پیغمبروں پر اور آخری دن پر وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہ وَ شَرِّہ اور تقدیر پر بھی اِیمان ہے کہ اچھی اور بری یہ اللہ کی طرف سے ہے خدا ہی کی طرف سے ہوتا ہے مقدرات جو بھی ہوں ۔ یہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایمان رکھو بس، نظر ہمیں نہیں آرہی وہ، تقدیر ہمیں نظر تو نہیں آرہی لیکن اُس کا وجود ہے وہ ہمیں بتایا گیا ہے تو ہمارا (اس پر ) ایمان ہے بس۔ اس کے بعد بھی اُن صاحب نے فرمایا صَدَقْتَکہ آپ نے ٹھیک فرمایا ۔
وسوسہ کا جواب :
آدمی کو یہ وسوسہ آتا ہے کہ تقدیر میں جو لکھا تھا جب وہی ہوتا ہے تو اللہ کے یہاں یہی جواب دیں گے کہ تو نے مجھے ایسا ہی لکھا تھا اس لیے یہ غلطی ہو گئی مجھ سے مگریہ جواب نہیں چلے گا وہاں کیونکہ اس چیز پر ایمان بتایا ہے آپ نے جو نظر آپ کو نہیں آرہی یہ جواب تو وہ دے سکتا ہے جس نے دیکھ لیا ہو لکھا ہوا کہ اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہے .................. تو تقدیر پر اِیمان بتایا ہے بس۔ جیسے فرشتوں پر اِیمان جیسے اَنبیائے کرام پر اِیمان سب ہی اَنبیائے کرام ہم سے تو پوشیدہ ہیں اور سب ہی پر ہمارا اِیمان ہے
تقدیر پر اِیمان کا فائدہ :
اسی طرح تقدیر پر بھی ایمان ہے اور اس سے فائدہ پہنچانا مقصود ہے آپ کو ، وہ یہ ہے کہ ایک آدمی کو بہت تکلیف پہنچی کوئی حادثہ ہو گیا ہے پریشانی آگئی ہے تو (تقدیر پر اِیمان کی وجہ سے) خدا پر نظر رکھے تو اِس سے اُس کا غم ہلکا ہوگا تو مسلمان اور غیر مسلم میں یہی فرق ہے۔ توگناہوں کو حجت نہیں بنا سکتا کہ گناہ کرے آدمی اور اُسے دلیل بنالے کہ لکھا یہی تھا ایسے نہیں کر سکتا۔
مسلم اور غیر مسلم میں خود کُشی کا تناسب ، سبق آموز واقعہ :
مسلمانوں میں بہت کم ملیں گے جو خود کُشی کریں اور غیر مسلموں میں بہت ملیں گے جو خودکُشی کریں میں نے ایک قصہ سنا تھا ابھی کچھ عرصہ ہوا ایک مالدار آدمی تھا بہت متمول وہ اس سوچ میں پڑگیا کہ میں اسی لیے پیدا ہوا ہوں کہ میں کماؤں اور جمع کروں ؟ بیکار ہے یہ زندگی کماؤں ........ جمع کروں ... .. .. پھر مر جاؤں ! تو اُس نے اسی بات پر خودکُشی کی کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا(کہ) اُس کے آگے( کیا ہے اور بالاخر انجام کیا ہو گا)تو چونکہ وہ عالم نظروں سے غائب ہے اور وہاں جانا یقینی ہے سب کو اور وہاں جو ہونا ہے وہ پتہ نہیں ہے کہ کیا ہے تو اَنبیائے کرام کے ذریعے وہ بتلا دیا گیا اور اَنبیائے کرام نے بتلایا اس طرح پر سمجھا سمجھا کے اور دلیلیں دے کے اور ایسی مثالیں بھی بتادیں کہ دیکھو یہ اس طرح ہوگا یہ اس طرح ہوا ہے اور وہ ہوتا چلا گیا اُسی طرح یعنی جو باتیں اُنہوں نے دُنیا کے بارے میں بتائیں وہ صادق آتی چلی گئیں پھر آپ نے ان باتوں کے ساتھ ایسی بات جوڑ دی جو ابھی واقع نہیں ہوئی بلکہ آئندہ ہونے والی ہے یا آخرت میں ہوگی۔
آپ کی بعثت سے امن و امان آگیا :
حدیث میں آتا ہے حضرت عدی اِبن حاتم رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں آکر ایک آدمی نے بیروزگاری کا شکوہ کیا فَشَکَا اِلَیْہِ الْفَاقَةَ گویا فقر کی شکایت کی جس کی وجہ سے وہ تنگ آئے ہوئے تھے۔ دُوسرے نے آکر ڈاکووں کی (راہ زنی کی ) شکایت کی کہ ڈاکو ہم کو سفر میں لوٹ لیتے ہیں تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی اِبن حاتم طائی کو مخاطب کر کے فرمایا ھَلْ رَأَ یْتَ الْحِیْرَةَ تم نیحِیْرَة دیکھا ہے ١ تو ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اتنے دُور درازفاصلے سے ایک عورت تن ِ تنہا سفر کرے گی( اور آکر بیت اللہ کا طواف کرے گی) لَا یَخَافُ اِلَّا اللّٰہَ اَوِ الذِّئْبَ عَلٰی غَنَمِہ ، اَوْ کَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ خدا کے سوا کسی کا خوف اُسے نہیں ہوگا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ بھیڑیا یا کوئی جانور نقصان پہنچا دے اُس کی بکریوں کو سامان کو اُس کے مال کو باقی کوئی خدشہ نہیں ،یہ ایک کا جواب ہوا جس نے شکایت کی تھی کہ راستے میں ایسے ڈاکوہیں محفوظ نہیں ہیں راستے۔
دوسرے صحابی نے شکایت یہ عرض کی تھی کہ محتاجگی پریشانی فقر حد کو پہنچا ہوا ہے تو اِر شاد فرمایا کہ دیکھو یہ جو کِسری ہے اور یہ جو قیصر ہے لَتُنْفِقُنَّ کُنُوْزَھُمَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وہ دور آنے والا ہے کہ یہ جو دو سُپر پاورز ہیں قیصر اور کِسریٰ یہی تھیں بڑی سب سے سلطنتیں دُنیا میں جیسے آج رُوس اور امریکہ کا حال ہے اور یہ تماشے کھیلتے رہتے تھے جیسے یہ کھیلتے رہتے ہیں کسی کی اِمداد کردی کسی کو بڑھا دیا کسی کو گھٹا دیا تو اِن کے خزانے جو ہیں وہ تمہارے ہاتھ آئیں گے اور وہ تم اپنے ہاتھوں سے خرچ کرو گے۔ اب یہ باتیں وہ ہیں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ کے لیے ار شاد فرمائیں اور اُس وقت ارشاد فرمائیں جس وقت حالت یہ تھی(کہ بظاہر یہ ناممکن ہیں ) اِس کے ساتھ دُوسری چیز کا بھی جوڑ مِلا دیا کہ
١ دریائے فرات کے مغربی کنارے پر کوفہ اورنجف کے درمیان لَخمی بادشاہوں کا دارُالحکومت تھا ساسانیوں کے صدر مقامات میں سے پہلا صدر مقام جو ربیع الاوّل ١٢ ھ میں مسلمانوں نے فتح کیا۔ محمود میاں غفرلہ
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو اس طرح سے دیکھو گے کہ جیسے چاندکو دیکھتے ہیں لَا تُضَامُّوْنَ فِیْ رُؤْیَتِہ ١ اُس کو دیکھنے کے لیے ایک دُوسرے سے مِلنا نہیں پڑتا جب کوئی چیز چھوٹی ہو تو آدمی ایک دُوسرے میں مِل جاتے ہیں اُس کو دیکھنے کے لیے ،چاند کو دیکھنے لیے کوئی آدمی دُوسرے کے قریب نہیں جاتا اپنی جگہ سے دیکھ لیتے ہیں اسی طرح سے(دیدار بھی) ہوگا اور جنت کا ذکر فرمایا جہنم کا بھی ذکر فرمایا کہ انسان اُٹھے گا تو سامنے دیکھے گا تو جہنم دائیں دیکھے گا تو جہنم بائیں دیکھے گا تو جہنم، فرمایا اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْبِشِقِّ تَمْرَةٍ ٢ تو آگ سے بچنے کے لیے صدقات دیتے رہو چاہے کھجور کا پورا دانہ بھی میسر نہ ہو ٹکڑا ہی میسر ہو کھجور کے دانے کا تو وہ دے دو جیسے کسی سے کہا جائے کہ ٹیڈی پیسہ دے سکتے ہو تو ٹیڈی پیسہ دے دو ،آج کے دور میں یہ حیثیت ہے اس کی کہیں گر جائے تو مڑ کر بھی نہیں دیکھتا آدمی کہ کیا گرا ہے تو ایسے تم (اللہ کی راہ میں )دے کر بچو۔ آئندہ کے لیے فرمایا یہ (تکلیف) تھوڑے عرصے کی ہے دور بدلنے والا ہے۔
تو اب حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے یہ چیز بھی دیکھ لی اور میں اُن لوگوں میں ہوں کہ جنہوں نے کِسریٰ کے خزانے واقعی جمع کیے ٣ مالِ غنیمت کے طور پر اور خدا کی راہ میں خرچ کیے ، یہ بھی ارشاد تھاکہ خدا کی راہ میں خرچ کرو گے تو اِس خوش نصیبی کی بھی خبر دو تو یہ صحابۂ کرام کی ایک طرح سے تعریف بھی ہو گئی اور وہ واقعی ایسے ہی حضرات تھے ۔
اور جب یہ علاقہ فتح ہو رہا تھا تو اُس میں ایک جگہ ایسے ہوا کہ جیسے سر ہوتا ہے کسی بڑے جانور کا گھوڑے وغیرہ کا وہ سونے کا تھا بنا ہوا ، ایک صاحب آئے اور وہ لا کر سردار کو دے کر چلے گئے۔ اُنہیں وہ ڈھونڈ تے رہے کہ کون تھے یہی نہیں پتہ چلا گویا جو مال حاصل ہوا اُس میں ذرّہ برابر خیانت اُنہوں نے نہیں کی اُن کے سامنے آخرت تھی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تھی اور دُنیا کی زندگی اور نعمتیں یہ دولتیں اُن کی نظروں میں حقیر تھیں اور اپنے ایمان کو بچانا وہ فرض سمجھتے تھے اور ان کی وجہ سے ایمان کو
١ بخاری شریف کتاب التوحید رقم الحدیث ٧٤٣٦
٢ بخاری شریف کتاب المناقب رقم الحدیث ٣٥٩٥ ٣ ایضًا
کمزور کرنا یہ ہرگز اُنہیں پسند نہیں تھا تو اُن صاحب کی باقاعدہ پوچھ گچھ ہوتی رہی کہ کون تھے جو دے گئے اُس نے آکر یہ بھی نہیں کہا کہ یہ مجھے مِلا ہے اور میں فلاں جگہ سے لایا ہوں تو میرا حق کچھ بنتا ہے یہ بھی نہیں کہا تو جو مال آیا ہے اس طرح سے پھر اُنہوں نے خرچ بھی کیا ہے اور اس طرح سے لانے والوں نے جو خرچ کیا ہوگا وہ کتنے اِخلاص سے خرچ کیا ہوگا اور اتنا جب مال ہاتھ لگا تو غربت کہاں رہی فقر کہاں رہا ! ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کی باتوں کا جوڑ ان باتوں سے لگا دیا کہ جن کو صحابہ کرام نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ امن کا یہی حال ہے اور حضرت عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ تو لٹیرا تھا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ار شاد فرما رہے تھے تو میں اپنے دل میں یہ سوچ رہا تھا اَیْنَ دُعَّارُ طَیٍّ الَّذِیْنَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِلَادَ ١ یہ جو لٹیرے ہیں طئی کے یہ کہاں چلے جائیں گے جنہوں نے شہروں میں آگ لگا رکھی ہے (مگر بعد میں ) وہ سب بدل کر دیانتدار، دیندار، ایماندار آخرت کو ترجیح دینے والے لوگ ہوگئے۔
دُنیا کی چیز کے ساتھ آخرت کو جوڑنے کی حکمت :
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیزیں ایسی بتلائیں ہیں کہ جو ہمیں نظر نہیں آتیں وہ اس طرح بتائیں ہیں کہ اُس حدیث میں وہ چیزیں بھی جمع کردیں کہ جو ہمیں نظر آئیں ! آگے کو تو پھر ہم (خودبخود) سمجھیں گے کہ آدھی بات پوری ہوئی ہے تو اگلی بات بھی ضرور پوری ہو گی ایمان والوں کو ایمان کی قوت حاصل کرنے میں بڑی مدد ملے گی اس چیز سے ! یہی طریقہ رہا ہے رسول کریم علیہ السلام کا دجال کے بارے میں جس حدیث میں آتا ہے ظہور ہو گا اس طرح ہوگا اس طرح ہو گا اور یہ کہ وہ مدینہ میں نہیں آسکے گا وہیں یہ بھی آتا ہے کہ (مدینہ منورہ میں ) طاعون نہیں ہو گا اب ایک چیز تو ہے دجال (کوئی کہہ سکتا ہے کہ ) وہ جب آئے گا تو دیکھا جائے گا چودہ سو سال تو گزر گئے اب تک تو وہ آیا نہیں لیکن دوسری چیز تو دیکھی جاسکتی ہے کہ واقعی طاعون نہیں ہوا وہاں مدینہ منورہ میں یہ اتنا عرصہ گزر گیا مگر
١ بخاری شریف کتاب المناقب رقم الحدیث ٣٥٩٥
وہاں طاعون کا کوئی کیس نہیں ! جبکہ بظاہر بالکل سادی سی زمین ہے کوئی فرق نہیں ہے وہاں کی زمین میں اور کہیں اور کی زمین میں لیکن اللہ کا فیصلہ یہ ہے ۔
تقدیر پر اِیمان کا فائدہ :
توسرورِ کائنات علیہ الصلوة والسلام نے وہ باتیں بتائی ہیں جو نظروں میں نہیں ہیں ہماری بلکہ دُنیا میں وجود میں آنے والی ہیں یا عالمِ آخرت میں وجود میں آنے والی ہیں یا اللہ کے یہاں اُن کا وجودہے اور ہمیں نظر نہیں آرہا وہ سب باتیں آپ نے بتلائیں اُن میں سے ایک ''تقدیر ''بھی ہے۔ اب ایک آدمی کو تکلیف پہنچتی ہے بے حد،برداشت سے باہر ہوجاتی ہے لیکن اگر وہ سمجھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اُس کا حال بالکل اور ہو گا اور اگر ایمان نہ ہو تو بے تابی کا حال بالکل اور ہو گا ۔ اور اگر مسلمان یہ دیکھ لے کہ میرے فلاں عزیز کی موت ایمان پر ہوئی ہے تو اُس کا صدمہ ہی آدھا ہو جاتا ہے یہ اُس کے ایمان کی بات ہے تو انسان کی یہ جو روز مرہ کی زندگی ہے معاش ہے اس پر کتنا فرق پڑا ایک مسلمان کا حوصلہ بالکل اور ہوتا ہے اور غیر مسلم کا حوصلہ بالکل اور ! !
احسان کیا ہے ؟
پھر اُن صاحب نے سوال کیا فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانْ ''احسان ''کیا ہے ؟ پہلا اُنہوں نے سوال کیا'' اسلام ''کا پھر سوال کیا'' ایمان'' کا پھر تیسرا سوال کرتے ہیں ''احسان'' کا۔ اور احسان کا اس سے پہلے کوئی ذکر نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں ارشاد فرمایا ہو ہاں (وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ) اس طرح کے کلمات قرآنِ پاک میں موجود ہیں ۔ پھر احسان کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماما کہ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ خدا کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم (اُس کو ) دیکھ رہے ہو فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ اگر یہ مشکل ہے خیال کرنا خیال جمانا تو فَاِنَّہ یَرَاکَ ١ تویہ تو خیال کرو ہی کہ اللہ (تم کو)دیکھ رہا ہے، قرآنِ پاک میں ہے ( اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی) کیا (انسان) نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ تو ایمان ، اسلام، احسان یہ وہ چیزیں ہیں جو جاننی چاہئیں
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٢
سلوک و تصوف :
تو ''احسان'' جو ہے اسی کو ''سلوک'' کہتے ہیں اسی کو'' تصوف''کہتے ہیں ۔ اسلام میں صوفیاء کے یہاں جو باطنی تعلیم دی جاتی ہے اُس کا یہ منتہیٰ ہے (یعنی آخری سبق ہے)اس کے بعد اور بھی اُن کے سوالات ہیں قیامت کے بارے میں اور چیزوں کے بارے میں انشاء اللہ آئندہ درس میں بیان کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوآخرت میں آپ کا ساتھ نصیب فرمائے ،آمین، اختتامی دُعائ.....
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.