jamiamadniajadeed

سچا وعدہ'' تجارت کی ضرورت ہے''

درس حدیث 265/23 ۔۔۔۔۔ ''سچا وعدہ'' تجارت کی ضرورت ہے ! نفع کی حد ؟امام نماز زیادہ لمبی نہ کرائے ! باپ کا بیٹے کو تحفہ ! (1987-09-20)


( اکتوبر 2020 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''سچا وعدہ'' تجارت کی ضرورت ہے ! نفع کی حد ؟
امام نماز زیادہ لمبی نہ کرائے ! باپ کا بیٹے کو تحفہ !
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر22 کیسٹ نمبر 76 سائیڈ,B A 20 - 09 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
یہ ذکر ہو رہا تھا کہ ایک صحابی جن کا نام عَمْرو بنِ عَبَسَہْ ہے وہ بتلاتے ہیں کہ میں جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے کچھ سوالات کیے
اُن میں یہ سوال بھی تھا کہ دین میں کون کون لوگ داخل ہیں ؟ تو آپ نے اُس کا جواب ارشاد فرمایا کہ آزاد ہو یا غلام ! یعنی بالکل بے حیثیت جسے کہا جاتا تھا جانور کے درجے میں اُس زمانے میں (غلام کو ) سمجھا جاتا تھا وہ بھی ! ! تو دونوں ہیں ! اور آزاد میں دونوں قسم کے آگئے امیر ہوں یا غریب ! !
انہوں نے جو سوالات کیے وہ سوال وہی ہیں جو حدیث ِجبرائیل علیہ السلام میں گزرے جن میں اُنہوں نے سوال کیا تھا اسلام کیا ہے ؟ ایمان کیا ہے ؟ احسان کیا ہے ؟ قیامت کے بارے میں سوال کیا مگر وہاں جوابات اور ہیں آپ کے ! اور وہ ایسے ہے جیسے کہ کسی غیر مسلم کو اسلام کے بارے میں بتانا ہو کہ'' لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ '' پڑھنا یعنی اقرار کرنا ،اللہ کے سب انبیائے کرام پر جنہیں ہم جانتے ہیں اور جنہیں نہیں جانتے سب پر ایمان لانا، وغیرہ وغیرہ یہاں بھی وہی سوالات ہیں مگر جوابات بالکل مختلف ہیں ۔
اُنہوں نے پوچھا اسلام کیا ہے ؟ تو آپ نے انہیں یہ نہیں بتایا ! معلوم ہوتاہے کہ یہ یہ چیزیں جانتے تھے ! ! انہیں عمل بتایا کہ اسلام یہ ہے کہ آدمی گفتگو عمدہ رکھے میٹھی گفتگو ہو اِطْعَامُ الطَّعَامِ جو محتاج ہیں یا مسافر ہیں یا ضرورتمند ہیں یا قیدی ہیں اُن کو کھانا کھلاتا رہے ! ایمان کے بارے میں بتایا کہ صبر اورسماحت، صبر کا مطلب جمے رہنا استقامت سماحت سخاوت !
٭ میں نے دریافت کیا کہ اسلام کے اعمال میں کون سا عمل افضل ہے ؟ اَیُّ الْاِسْلَامِ اَفْضَلُ تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہ وَیَدِہ جس کی زبان اور ہاتھ سے سب مسلمان محفوظ رہیں مطمئن رہیں وہ ہے ! اسلام کا یہ عمل نیکیوں میں اسلام کے بتلائے ہوئے کاموں میں سب سے اچھا عمل ہے اور ہے بھی بڑا مشکل ! ! انسان کے ہاتھ سے تکلیف نہ پہنچے یہ تو ہو جاتا ہے ! کہ بھئی خود کمزور ہے کوئی تکلیف پہنچا ہی نہیں سکتا ! لیکن زبان سے تو پہنچاتا رہے گا غیبت کرلے گا چغلی کر لے گا کوئی برائی کردے گا کوئی الزام لگا دے گا دسیوں قسم کے گناہ ہیں جو انسان کرسکتا ہے اور دُوسرے کو اُس کے ذریعہ تکلیف پہنچا سکتا ہے ! آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے کاموں میں یہ کام بتایا کہ یہ سب سے بڑا کام ہے کہ اُس کی طرف سے لوگ مطمئن رہیں ۔
دُعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صحیح معنی میں اسلام پر عمل کی توفیق دے کہ دو سو سال سے مسلسل انحطاط اور خرابیاں چلتی آرہی ہیں ! ! اب مسلمان ایسی چیز بن کے رہ گیا ہے کہ جس سے کوئی بھی معاملہ کر لے تو اطمینان نہیں ہو سکتا ! اور حقیقتًا یہ تھا کہ اگر معاملہ مسلمان سے کیا جائے تو سمجھا جاتا تھا کہ یہ مسلمان کی بات ہے اور اُس کا بڑا وزن تھا ! ! ؟
وعدہ زبانی ہو یا تحریری پورا کرنا ضروری ہوتا ہے :
اور اسلام نے کوئی فرق نہیں رکھا ،لکھ کر وعدہ کرو یا زبانی وعدہ کرو ایک ہی بات ہے ! لکھ لو گواہ بنالو تاکہ معاملہ صاف رہے یہ الگ بات ہے لیکن اگر کوئی زبان سے وعدہ کرلیتا ہے تو اُس کے بارے میں فتوی کیا ہے ؟ اور لکھ کر وعدہ کرتا ہے اُس کے بارے میں فتوی کیا ہے ؟ تو فتوی ایک ہی ہے کہ وعدہ وعدہ ہی ہے اب چاہے لکھ کر کرے چاہے ویسے کرے ! ! تو مسلمان جو تھے وہ ایسے تھے کہ زبان کے پکے بات جو کرلی وہ پکی اور اب یہ ہے کہ کسی بات کا اعتبار نہیں ! تجارت کے اُصول کے بالکل خلاف کرتے ہیں ! !
''سچا وعدہ ''تجارت کی ضرورت ہے چاہے مسلمان ہو یاکافر :
اِسلام نے تجارت میں دیانتداری بتائی ہے اور دیانتداری جو ہے یہ تجارت کی ضروریات میں سے ہے ! اگر دیانتداری بر توگے تو تجارت کو فروغ ہوگا ! نہیں برتوگے نہیں فروغ ہوگا ! ایک اُصول ہے کھلا ہوا اِسے غیر مسلم اقوام نے اپنا رکھا ہے ! اور مسلمان اتنے گر گئے اخلاقی طور پر کہ تجارت میں بھی گڑبڑ کرنے لگے ! یہاں سے جو چیز باہر سپلائی ہوتی ہے نمونہ کچھ دکھا یا جاتا ہے بھیجتے کچھ ہیں ! نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں کی چیزوں کو پسند نہیں کیا جاتا ! اچھا پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ! ہمارا ملک مسلمان ہے ! مسلمانوں کو مسلمانوں سے تعلق رکھنا چاہیے ! ارے بھائی یہ دھوکے بازی کہ رُوئی میں تم اینٹیں بھر دو اور کسی چیز میں کوئی اور چیز مِلادو تو یہ کون سا اسلام ہے ؟ یہ کب اسلام نے بتلایا ! تو غیر مسلموں کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ یہ تجارتی اُصول ہے ! جیسے کہ سمگلر ہیں بات کے بڑے پکے بڑے سچے ! اشاروں میں ان کی باتیں ہوتی ہیں اور بالکل فرق اُس میں نہیں آنے دیتے ! باہر ملکوں میں ادائیگی ہوگی اور لین دین ہوگا یہ ہوگا وہ ہوگا بالکل ٹھیک ٹھیک ! ! یہ کیوں ہے ؟ اس واسطے کہ یہ سچائی اُن کی تجارتی ضرورت ہے ! ! تو تجارت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اُن میں ایک تقاضا یہ ہے تجارت کا کہ جو کہے وہ ٹھیک کہے، جو بات ہو رہی ہو وہ صاف ستھری ہو جو نمونہ دکھایا جائے مال وہی دیا جائے !
تجارت میں نفع کی حد ؟
نفع اندوزی نفع کا لالچ اتنا بڑھ گیا ہے کہ کوئی حساب نہیں اسلام نے تو بتایا( کہ زیادہ سے زیادہ) دس فیصد ! یہ سوفیصد اور دو سو فیصد یعنی لالچ کی کوئی حد نہیں ! یہ کیا ہے ؟ یہ خرابی ہے اخلاقی جس میں پوری قوم مبتلا ہے اور اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی اور اس کی اصلاح ہو گی تو حکام ہی سے ہوگی ! پہلے وہ اسلام پر عمل کریں تو سب چل پڑیں گے اُسی راستے پر ! یہاں ایک(افسر) تھے مسعود کھدر پوش، انتقال ہو گیا اُن کا ،جس شعبے میں وہ جاتے تھے اُن کے ماتحت سارے لوگ کھدر ہی پہنے لگ گئے کیونکہ وہ پہن رہا ہے کھدر تو جو وضع قطع جو اَطوار جو طریقے اُوپر والوں کے ہوں گے وہ نیچے تک آئیں گے ! ! !
٭ صحابی پوچھتے ہیں اَیُّ الِْایْمَانِ اَفْضَلُ اسلام تو کہتے ہیں زبان سے کلمہ پڑھنے کو اور ایمان اُس کے بعد کا درجہ ہے کہ وہ دل میں رچنے لگا جب دل میں رچ جائے تو پھر ایمان کا درجہ ہوجاتا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں اَیُّ الِْایْمَانِ اَفْضَلُ یعنی ایمان کے کاموں میں کون سا کام افضل ہے ؟ (تو صحابی کے سوال میں ) اَیُّ الِْایْمَانِ ہے ، اَیُّ اِیْمَانٍ نہیں ہے تو اَیُّ الِْایْمَانِ کا ترجمہ ہوگا ایمان کے اعمال میں سے یا اجزا میں سے کون سا عمل اچھا ہے ؟
قَالَ خُلُق حَسَن ارشاد فرمایا اچھا اخلاق ! ہمارے یہاں اخلاق کا کوئی وزن نہیں ہے گالیاں دیتے رہتے ہیں بد تمیزی کرتے رہتے ہیں بچے آپس میں اور بچے اور بڑے اور گلیوں میں اور گھروں میں بھی ! ! اسلام نے یہ منع فرمایا ہے اچھے اخلاق کی بس تعلیم فرمائی ! ! !
باپ کا بیٹے کے لیے تحفہ :
بلکہ یہ بھی ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی باپ کااپنی اولاد کے لیے اس سے اچھا کوئی تحفہ نہیں ہے کہ وہ اُسے اچھا ادب تعلیم دے اچھا طریقہ تعلیم دے، یہ ایک تحفہ ہے ! !
٭ صحابی نے دریافت کیا کہ اَیُّ الصَّلٰوةِ اَفْضَلُ نمازوں میں کون سی نماز افضل ہے یا نماز کے اجزا میں کون سا جزو افضل ہے ؟ تو ارشاد فرمایا طُوْلُ الْقُنُوْتِ یعنی نماز میں دیر تک کھڑے رہنا، دیر تک کھڑے رہنا کب ہوگا جب قرآنِ پاک کی تلاوت زیادہ کی جائے گی تو جو لوگ حافظ ہیں اُن کو چاہیے کہ وہ لمبی نماز پڑھیں مگر کون سی ؟ گھر میں جو پڑھی جاتی ہے تنہائی میں اپنی ذاتی جو (نفلی)ہوتی ہے وہ ! ! !
امام کو مسنون مقدار سے زیادہ لمبی نماز پڑھانے کی اجازت نہیں :
(مگر) باہر جب سب لوگ ہوں (با جماعت)تو بالکل اجازت نہیں ہے(امام کو) لمبی نماز کی ! ! بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خفا ہوگئے ! ایک صحابی تھے اُنہوں نے یہ کیا کہ نماز شروع کی اور سورۂ بقرہ شروع کردی عشاء کی نماز میں ! ایک اور صحابی تھے وہ لائے تھے کرائے پر اُو نٹنی، اُنہیں اُونٹنی سے پانی سینچنا تھا تو سورۂ بقرہ تو ڈھائی پارہ کی ہے اب کیا پتہ امام کتنی پڑھتا ہے ! ؟ انتظار کیا ہوگا اُنہوں نے کہ اب رُکتے ہیں یا اب رُکتے ہیں بہرحال جب وہ نہ رُکے اور انداز ہوا کہ یہ تو پوری سورت ایک رکعت یا دو میں پڑھیں گے تو اُنہوں نے اپنی نیت توڑ دی ! ! الگ نماز پوری کر کے اپنے کام چلے گئے ! ! اب یہ صحابی جو نماز پڑھا رہے تھے اِنہیں انداز ہو گیا یا پتہ چل گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ بہت برا کیا ! نماز فرض ہے اور فرض نماز کی نیت توڑنی یہ کبیرہ گناہ ہے یہ کیوں کیا ؟ اُنہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا ! ایک مسئلہ پیدا ہوگیا کہ کیا کرنا چاہیے تھا ! اور کیا نہ کرنا چاہیے تھا ؟ ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صحابی جنہوں نے نیت توڑی تھی اُن کو یہ پتہ چلا کہ ایسے یہ سوال اُٹھا ہوا ہے اعتراض اُٹھا ہوا ہے وہ خود حاضر ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ! اور عرض کیا کہ اس طرح سے ہم دن میں کام میں بھی ہوتے ہیں اور اس طرح میں اُونٹنی لایا اور ان صحابی نے جو نماز پڑھاتے ہیں اُس دن میں نے دیکھا کہ انہوں نے شروع کی ہے نماز سورۂ بقرہ سے فَاسْتَفْتَحَ بِسُوْرَةِ الْبَقَرَةِ وہ تو پھر لمبی نماز ہوجاتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ سن کر بہت غصہ آیا ! آپ بہت خفا ہوئے اور فرمایا فَتَّان ، فَتَّان ، فَتَّان یعنی فتنہ فتنہ پیدا کردیا ! ! یا فرمایا فَاتِن ، فَاتِن یعنی فتنہ مطلب ایک ہی ہے فَتَّان میں مبالغہ ہے اور فرمایا کہ نہیں بس سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور یہ سورتیں پڑھا کرو اور جب نماز پڑھاؤ تو پڑھانے والے کو چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے فَلْیُخَفِّفْ کیونکہ اُن میں مریض بھی ہوتے ہیں کمزور بھی ہوتے ہیں ضرورتمند بھی ہوتے ہیں فَاِنَّ فِیْھِمُ الْمَرِیْضَ وَالضَّعِیْفَ وَذَالْحَاجَةِ اُس کی گاڑی چھوٹ جائے گی اُس کی بس ہی چلی جائے گی لمبی نماز پڑھاؤ گے تو ! ! تو جماعت جب ہو رہی ہو تو یہ مسئلہ نہیں ہے کہ لمبی نماز پڑھائے ! ! البتہ جیسے تہجد کے نوافل ہیں خصوصًا اُن میں جتناکسی سے پڑھا جاسکتا ہے جتنا یاد ہو کسی کو پورا قرآن یاد کرلے تو اور بھی اچھی بات ہے ! ! !
قرآن کا معجزہ :
اور قرآنِ پاک کا معجزہ ہے میں ویسے ہی ذکر کر رہا ہوں اس وقت وہ آدمی(طالب علم) یہاں نہیں ہیں اُن کی کوئی اَسی نوے کے درمیان عمر ہے ! یہاں آئے ہوئے ہیں ،ماشاء اللہ حفظ کررہے ہیں ! میں نے پوچھا معلوم ہوا نو پارے حفظ کر لیے ہیں ! تو یہ اللہ کا ایک معجزہ ہے قرآنِ پاک یاد ہوجاتا ہے ! حالانکہ وہ عمر تو ایسی ہے کہ یاد چیزیں بھول جاتی ہیں مگر قرآنِ پاک کا معجزہ یہ ہے کہ وہ یاد ہوتا جا رہا ہے اور قرآنِ پاک میں آیا ہے ( وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ ) جس کی عمر ہم زیادہ بڑھا دیتے ہیں تو پھر لوٹ کر ویسے جیسے پہلے تھا پھر ویسے ہی یعنی عقل بھی کمزور حافظہ بھی کمزور سمجھ پورا کام نہیں کرتی وغیرہ ، دوسری جگہ آیا ( ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ ) عمر کا بدترین حصہ جو ہوتا ہے پھر لوٹ کر وہاں چلا جاتا ہے ( لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا)جاننے کے بعد ایسے ہوجائے جیسے کچھ آتا ہی نہیں اس(حالت) سے پناہ بھی مانگی گئی ہے اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَرَمِ اس طرح کے بڑھاپے سے اَنْ اَرُدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ عمر کا جو بدترین حصہ ہے میں اُس طرف لوٹایا جاؤں ......... ... .....
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمر لمبی ہو اور یہ خرابی نہ آنے پائے ! تو جو پناہ چاہی گئی وہ لمبی عمر سے نہیں بلکہ لمبی عمر میں جو یہ کیفیت ہوجاتی ہے وہ نہ ہو !
دو طبقے مستثنیٰ ہیں :
تو اس آیت کی تفسیر میں جو سورۂ یٰسین کی ہے ( وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ )
علماء کہتے ہیں کہ دوبارہ پھر ویسے ہی کردیتے ہیں بے عقل اور بے سمجھ ، اس سے مستثنیٰ ہیں دو طبقے
ایک'' عُلَمَائ'' کا جو باعمل ہو ! ایک ''حُفَّاظْ '' کا جو باعمل ہو !
اور ریٹائرمنٹ کے بعد حفظ کرنے والے تو بہت سارے ہیں ہمارے یہاں بھی کئی ہیں ہمارے علم میں بلکہ ساتھ ساتھ شرو ع کردیتے ہیں ریٹائرمنٹ پر پورا کرلیتے ہیں ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز میں لمبا قیام یعنی نفلی نماز توجسے قرآنِ پاک یاد ہے وہ جیسے تہجد میں پڑھتا ہے یا نوافل اپنی پڑھتا ہے الگ اُس میں وہ(قیام کا) حصہ افضل ہے ۔ مکہ مکرمہ میں جب بہت ہجوم ہوتا ہے تو ہم نے دیکھا کہ وہ فجر کی نماز میں ( لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ ) سے شروع کر کے اور دو آیتیں پڑھ کر رکوع اور پھر ( لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا ) سے ( وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ) پر دوسری رکعت کیونکہ مجمع کئی لاکھ کا ہے چھ لاکھ دس لاکھ اس کے درمیان درمیان ہوجاتا ہے حج کے دنوں میں فجر میں ! بہت باہر تک تو وہ اتنی مختصر نماز پڑھاتے ہیں تو یہ بالکل صحیح ہے عالمانہ نماز ہے۔
امامِ اعظم رحمة اللہ علیہ کے واقعات میں ہے کہ وہ کہیں سفر میں تھے تو امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ نماز پڑھادو ! اُنہوں نے نماز پڑھائی اور بہت مختصر پڑھائی ! فجر کی نماز حالانکہ لمبی ہونی چاہیے مگر بہت مختصر ! ! تو اِمام صاحب نے تعریف کی کہ فَقُہَ اَبُوْ یُوْسُفَ یہ فقیہ ہوگئے یعنی موقع محل کو پہچان لیا سفر ہے جانے کی جلدی ہے اطمینان ہو تو پھر ٹھیک ہے ! سورۂ بقرہ کا فجر کے وقت پڑھنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسے کیا ! اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو بہت لمبی لمبی سورتیں پڑھتے تھے سورۂ یوسف پڑھتے تھے ! سورۂ نحل پڑھتے تھے وہ تین پاؤ کی ہے سورۂ نحل ! تو یہ فجر میں ہے مگر اطمینان سے اور جب جلدی کی ضرورت ہو تو جلدی ۔تو تمام چیزوں کی رعایت کرنا ہے ! یہ نہیں ہے کہ کسی بھی چیز کو نہ دیکھو اور چلتے رہو ہر وقت ایک ہی رفتار ہے یہ نہیں ہوگا ! بدلتی رہے گی رفتار ، وہ شریعت پر ہی عمل ہوگا تمام چیزوں میں ! !
٭ صحابی نے پوچھا اَیُّ الْھِجْرَةِ اَفْضَلُ ہجرت کون سی یا ہجرت میں کون سی چیز زیادہ افضل ہے ؟ تو اِرشاد فرمایا اَنْ تَھْجُرَ مَاکَرِہَ رَبُّکَ جو اللہ کو ناپسند ہے وہ بات چھوڑ دو ،یہ ہجرت ہے ! ہجرت کے معنی چھوڑ نے کے ہیں ، اب چھوڑنے میں کون سی چیز افضل ہے ؟ فرمایا مَاکَرِہَ رَبُّکَ ۔
٭ اُنہوں نے پوچھا اَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ جہاد کون سا افضل ہے ؟
تو ارشاد فرمایا جہاد میں سب سے بہتر حصہ وہ ہے یااُس آدمی کا ہے کہ جس کا گھوڑا بھی ذبح کردیا جائے ! اور وہ خود بھی شہید ہوجائے ! وہ سب سے افضل ہے ! ! !
٭ تو کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا اَیُّ السَّاعَاتِ اَفْضَلُ ساعتوں میں اوقات میں کون سا وقت افضل ہے ؟
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جَوْفُ الَّیْلِ الْاٰخِرُ ١ رات کے آخری حصے کا وسط ! اب رات کو تین حصوں میں بانٹ لیا جائے جتنے گھنٹے ہوتے ہیں آخر کا تیسرا حصہ جو ہے اُس کا وسط جو ہے وہ سب سے عمدہ وقت ہے ! ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے ہی کر رکھا تھا پہلا حصہ بھی جاگتے تھے ، دوسرے حصہ میں آرام فرماتے تھے، تیسرے حصے میں عبادت بھی اور آرام بھی، کبھی عبادت کبھی آرام، کبھی عبادت زیادہ اور کبھی ہلکی عبادت جیسے طبیعت کو نشاط ہوا یا جیسے طبیعت کا تقاضا ہوا اُس کے مطابق ! ! !
یہ تعلیمات ہیں مختلف اور اس میں دونوں چیزیں آجاتی ہیں دُنیا بھی دین بھی حالات بھی اور مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے ؟ یہ بتلایا گیا ہے کہ'' اسلام'' فقط یہ نہیں ہے کہ آپ اللہ کی توحید کا اقرار کرلیں بلکہ اور کام بھی کرنے چاہئیں ،یہ چیزیں یہاں بتائی گئیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے ،آمین ۔اختتامی دُعا ..................
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org

١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٤٦

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.