jamiamadniajadeed

اعمال کی کثرت نہیں

درس حدیث 264/22 ۔۔۔۔۔ اعمال کی کثرت نہیں بلکہ عمل پر پابندی پسند ہےآج صحابہ کرام جیسی غربت نہیں پائی جاتی ''اسلام'' غریبوں کا مذہباسلام کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں (1987-09-13)


( ستمبر 2020 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اعمال کی کثرت نہیں بلکہ عمل پر پابندی پسند ہے
آج صحابہ کرام جیسی غربت نہیں پائی جاتی ''اسلام'' غریبوں کا مذہب
اسلام کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر21 کیسٹ نمبر 76 سائیڈ A 13 - 09 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
ایک صحابی ہیں حضرت عمرو بن ِ عَبَسَہ رضی اللہ عنہ وہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کچھ سوالات کیے۔
پہلا سوال وہ یہ بتاتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ مَّعَکَ عَلٰی ھٰذَا الْاَمْرِ اس معاملے میں یعنی دین کے قبول کرنے میں جناب کے ساتھ کون لوگ ہیں ؟ ؟
ارشاد فرمایا حُرّ وَ عَبْد آزاد بھی ہیں ! ! اور غلام بھی ہیں ! !
اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی پوچھے کہ آپ کی پارٹی کا ممبر بننے کے لیے کوئی شرط ہے ؟ کیا معیار ہے ؟ ذاتی مکان ہو یہ معیار ہے یا کار ہو کوٹھی ہو ،کاروبار ہو، وغیرہ وغیرہ ایسی کوئی چیز معیار ہے ؟ ؟ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے سوال کا ! کیونکہ کوئی آدمی کسی کو اگر ساتھ لیتا ہے تو اپنا نفع ضرور دیکھتا ہے کہ اس میں میرا نفع کیا ہے ؟ ؟
عمومًا ساتھ لینے والے وجاہت کا، رُعب و دَاب کا،مال و دولت کا یہ نفع دیکھتے ہیں ! ! لیکن آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب دیا بہت سادہ جواب ہے حُرّ وَ عَبْد آزاد لوگ بھی ہیں غلام بھی ہیں ! ! جو بھی آجائے اللہ کا بندہ انسان ہے ذوی العقول میں ہے مکلف ہے وہ آجائے تو اُس کو میں اس معاملے میں داخل کرلیتا ہوں ! ! یعنی اسلام میں داخل کرلیتا ہوں اُس کا ایمان اور اسلام معتبر ہے (دوسری) کوئی شرط نہیں جو چاہے اسلام قبول کرلے ہدایت کی طرف آجائے چھوٹا ہو بڑا ہو حتی کہ غلام ! ! !
غلاموں کا درجہ تو جانوروں کے برابر تھا ! اسلام نے بڑھایا ہے کہ جو تم کھائو وہ اُنہیں بھی کھلائو ! جو تم پہنتے ہو وہ اُنہیں بھی پہنائو ! اگر اُس نے کچھ پکایا ہے محنت کی ہے تو خادم ہے تو اُس کھانے میں سے اُسے بھی دیں ! کیونکہ اُس نے محنت تو کی ہے اُس کے پکانے میں ، بہت چیزیں اسلام نے بتلائیں اور بڑا درجہ اُنہیں دے دیا ! بہت بڑا درجہ اور ڈبل اجر کی بشارت دی ! ! ایک اللہ تعالیٰ کے احکام بجالانے کی اور دوسرے آقا کے کام کرنے کی ! بظاہر یہ ہے کہ وہ غلام خدمت کرتا ہے اُس کے بدلے میں کھاتا ہے پیتا ہے اور رہتا ہے اور پہنتا ہے لیکن یہ نہیں ! اللہ نے اُس پر اجر رکھ دیا ہے ! بظاہر یہ ہے کہ وہ کام کررہا ہے اور بہ باطن یہ ہے کہ اجر مِل رہا ہے اور ڈبل اجرمِل رہا ہے ! ! !
اسلام کیا ہے ؟
وہ صحابی جو ہیں حضرت عمرو بن عَبَسَہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے دریافت کیا مَا الْاِسْلَامْ اسلام کیا ہے ؟ اور اتنا تو سب جانتے ہیں کہ کلمہ پڑھ لینا یہ اسلام ہے ،اللہ کو ایک ماننا ،اُس کے سب نبیوں کو حق جاننا، جو وہ لائے ہیں پیغام اللہ کے پاس سے وہ سچ تھا حق تھا، سب نبیوں پر ایمان، جنہیں ہم جانتے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں جنہیں نہیں جانتے وہ بہت زیادہ ہیں مگر ایمان ہمارا سب پر ہے۔
جواب :
تو جواب میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نیا جواب دیا حسب ِ حال یعنی پوچھنے والا اگر جانتا ہو ایک چیز تو اُس کے جواب میں وہی چیز دوہرانی اس سے کوئی فائدہ خاص نہیں ہوتا بلکہ اُس کے جواب میں وہ بات بتائی جائے جو اُس کے علم میں نہیں ! توارشاد فرمایا طِیْبُ الْکَلَامِ وَ اِطْعَامُ الطَّعَامِ گفتگو ہو شیریں اور عمدہ ! یعنی مہمل باتیں نہ ہوں ، لغویات نہ ہوں ، گالی گلوچ، بہتان، غیبت، فضول باتیں یہ نہ ہوں ، تو عمدہ بات ہو ! ! اور عمدہ دونوں طرح ہوتی ہے ! ! !
ایک معنی کے اعتبار سے ! اور ایک انداز کے اعتبار سے ! تو انداز کے اعتبار سے بھی شیریں گفتار ہو !
وَ اِطْعَامُ الطَّعَامْ اور کھانا کھلانا ! اُس زمانہ میں غربت تھی بہت زیادہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے ہیں ! ! تو جواُمراء کا طبقہ تھا جوظالم تھا، غنڈے جیسے سرداروں کے بارے میں یہاں شہرت ہے یا وڈیروں کے بارے میں جیسے سنتے ہیں یا تو اس طرح کے لوگ تھے ! قبائل تھے قبائل کے سردار تھے ! وہ خود مختار تھے ! سیاہ و سفید کے جیسے مالک بنے ہوئے ہیں ، لُوٹ مار، قتل و غارت گری، اِغوا یہ قابلِ فخر چیزیں تھیں ! ! تو لُوٹ مار کرتے تھے ! اور سخاوت بھی کرتے تھے ! لیکن مجموعی حیثیت سے غربت غالب تھی۔
مال میں غریبوں کا حصہ :
تو اسلام جو ہے وہ غریبوں ہی کا مذہب ہے یعنی غریبوں کی رعایت بہت زیادہ ہے حتی کہ آپ کے مال میں شریک کردیا غریبوں کو ! کہ جب آپ کے پاس مال اتنا آجائے مقدار بتادی تو اُس کے بعد غریب اس میں شامل ہوگیا ! اُس کا حصہ اس میں ہے وہ'' ڈھائی فیصد ''دینا پڑے گا ! ! زمین ہے اُس کی پیداوار اتنی ہوگئی اُس میں سے ''دسواں حصہ ''دینا پڑے گا ! اور اگر خود محنت کی ہے پانی سینچا ہے بارانی نہیں ہے بلکہ محنت کرنی پڑتی ہے تو'' بیسواں حصہ''بہرحال شریک کردیا ! ! اب اگر کوئی غریب کو زکوٰة ادا نہیں کرتا تو ایسے ہے جیسے غریب کا مال خود کھائے جارہا ہے ! !
کیونکہ وہ حق اُس کا ہوچکا ہے ! ! تویہ غریبوں کے لیے بہت ہی مناسب مذہب ہے ! ! !
صحابہ کی غربت کا آج تصور نہیں کیا جاسکتا :
اور تھے ہی غریب اور اتنے غریب تھے کہ آپ تصور نہیں کرسکتے آج کے دور میں اُس کا کہ ایک کپڑا صرف ! ایک آدمی کے پاس ! وہی پہننا وہی اوڑھنا ! نیچے کا حصہ بھی اُسی سے ڈھکنا ہے اُوپر کا بھی ! اِدھر سے پلا اِدھر لے جاتے تھے اِدھر سے پلا اِدھر لے جاتے تھے پیچھے گردن پر گرہ دے دیتے تھے ! ! یہ اُن صحابہ کرام کا لباس تھا ! ! ! تو ایسی حالت میں اسلام پھیلا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غریب طبقہ جو وہاں تھا اُس کے بہت ہی حقوق دلائے ہیں اسلام نے منوائے ہیں ! ! تو آج تو اتنے(درجہ کے ) غریب آپ ڈھونڈیں گے تو شاید کوئی مل جائے ورنہ نہیں ملے گا ! اور یہ اُن کا عام حال تھا ! کھانے کو میسر نہیں !
تعلیم ہر حال میں جاری :
اور پڑھ رہے ہیں طالب علم ہیں اصحاب ِ صفہ ہیں تو جن لوگوں کے پاس وہ ہوتی تھیں کھجوریں یا کوئی چیز وہ لاکر رکھ دیتے تھے ٹانگ دیتے تھے اور یہ نہیں ہے کہ چھینا جھپٹی ہو ! بے صبری ہو ! نہیں اُن میں صبر تھا وہ دوسروں کا حق ملحوظ رکھ کر اُ س میں سے جتنی خود ضرورت ہو لے لیتے تھے ! ! تو اِطْعَامُ الطَّعَامْ کھانا کھلانے کا اہتمام کرنا یہ ایسی چیز تھی کہ جو پہلے بھی تھی بڑے بڑے لوگوں میں مگر ناموری کے لیے ! خدا کے لیے نہیں ! آخرت کے تصور سے نہیں ! اس خیال سے نہیں کہ اس پر اجر ملے گا ! تو جس کو کم میسر ہو وہ کم کھلادے۔ جو بڑے لوگ ہوتے تھے وہ تو یہ کرتے تھے کہ رات کو آگ جلادیتے تھے تاکہ کوئی مسافر بھٹکا بھولا بڑی دُور سے جسے آگ نظر آجائے گی وہ یہاں آجائے گا اور یہاں پہنچے گا تو اُسے کھانا مِل جائے گا وہ اس طرح سے کرتے تھے ! ! لیکن ان کی تعداد کتنی ہوگی ؟ بہت تھوڑی، ان کی یہ تعداد ضرورت مندوں کی ضرورت پوری نہیں کرسکتی تھی ! ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی کہ دوسروں کی بھوک کا اِفلاس کا کھانے کا خیال رکھیں ۔ صحابی بہت سمجھدار تھے اُن کو جوابات آپ نے وہ دیے ہیں جو عمل سے تعلق رکھتے ہیں ، باقی کلمہ ٔ شہادت لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ لینا ،یہ تو ہے ہی ہے۔
ایمان کیا ہے ؟
تو جب اسلام کے جواب میں آپ نے یہ فرمادیا تو اُنہوں نے پوچھا ''ایمان'' کیا ہے ؟ مَا الْاِیْمَانْ اوریہ سب سوال پہلے بھی گزرچکے ہیں حدیثوں میں وہ آپ کو میں سنا چکا ہوں اُس میں آپ نے وہ بتایا تھا جو غیر مسلم پر اسلام (لانے) کے لیے ہوتا ہے غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے کی جو تعلیم دی جائے وہ ہے وہ ! اور یہ مسلمان کے لیے ہے تو پوچھا مَا الْاِیْمَانْ
جواب :
تو ارشاد فرمایا اَلصَّبْرُ وَ السَّمَاحَةُ ١ ''صبر'' کے معنی ہیں برداشت کرنا صبر کے معنی ہیں جمے رہنا کسی چیز پر اور جمے رہنا یہ بڑا مشکل کام ہے ایک حالت پر جمے رہنا یہ مشکل ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ عبادت کو ناپسند فرمایا ہے۔
حضرت عائشہ کی پاک دامنی اور حضرت زینب کا تقوی :
ایک صحابیہ ہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن ہیں اور زوجہ مطہرہ ہیں حضرت زینب اور بہت متقی اور بہت عبادت گزار تھیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب الزام لگایا ہے منافقوں نے جس کو ''اِفک ''کہتے ہیں اور قرآنِ پاک میں اُس کی صفائی میں آیات اُتری ہیں ، دس آیتیں اُن کی براء ت میں اور احکام میں ! اور یہ اظہار کرنے میں کہ(اس کے پس ِ پردہ) منافقین تھے تو اُس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اُن کی تعریف کرتی ہیں کہیں تو کہتی ہیں وَھِیَ الَّتِیْ تُسَامِیْنِیْ مِنْ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم یہی میرے مدِّ مقابل رہتی تھیں یعنی جیسے گھر میں تقابل ہو یا متقابل شکل بن جائے ایسی شکل میں وہ میرے مدِّ مقابل رہتی تھیں اور کہیں آتا ہے حِزْبَیْن اَزواجِ مطہرات دو حصوں میں بٹی ہوئی تھیں ، ایک طرف حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما تھیں دوسری طرف حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں تو وہ فرماتی ہیں کہ یہ میرے مدِّمقابل رہتی تھیں باتوں میں لیکن ناجائز حد تک ہو، یہ نہیں ہے ! !
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٤٦
تو جب یہ الزام لگا تو اُس پر وہ فرماتی ہیں کہ ان کی بہن جو تھی اُس نے تو الزام میں حصہ لیا ! اور زینب رضی اللہ عنہا نے بالکل اُس الزام میں حصہ نہیں لیا ! اُن سے بھی پوچھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اُنہوں نے جواب دیا اَحْمِیْ سَمْعِیْ وَ بَصَرِیْ میں اپنے کان اور آنکھوں کو بچاتی ہوں یعنی میں غلط بات کرنے سے بچاتی ہوں تو میں تو کچھ نہیں کہہ سکتی نہ میں نے کوئی چیز ایسی دیکھی نہ میں نے کوئی چیز ایسی سنی ! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اِن کی بہن نے حصہ لیا اور زینب کو اُن کے تقوے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بچالیا اُن کے تقوے کی تعریف فرمائی فَعَصَمَہَا اللّٰہُ بِالْوَرَعِ ١ حالانکہ مدِّمقابل تھیں !
(تو ایسے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوجہ محترمہ) حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے وہاں دیکھا تو ایک رسی تھی بندھی ہوئی بے طرح یا تو یوں لمبائی میں بندھی ہوئی تھی یا چھت سے لٹکی ہوئی تھی یا ایسے بندھی ہوئی تھی بہرحال ایک رسی بندھی ہوئی تھی، دریافت فرمایا یہ رسی کیسی ؟ ممکن ہے وہ دن میں کھول دیتی ہوں اُسے ،اُس دن نہ کھولی ہو تو بتایا کہ یہ زینب کی رسی ہے ! اور رات کو جب نماز پڑھتی ہیں تو جب بالکل تھک جاتی ہیں تو اس سے سہارا لے لیتی ہیں ! یعنی بغل کے نیچے لے لیتی ہوں یا آگے لے لیتی ہوں جس طرح بھی باندھ لیتی ہوں وہ اس طرح سہارا لے لیتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لَا یہ نہیں حُلُّوہُ اسے کھول دو ! ! اور عبادت کتنی کرے انسان ؟ فرمایا نِشَاطَہ جب تک طبیعت کا نشاط ہے اُس وقت تک بس عبادت کرے ! اور جب بالکل طبیعت تھکنے لگے فَتَرَ تو پھر آرام کرے ! ! !
بڑے رُتبہ کا مدار خدا سے تعلق پر ہے،عمل کی زیادتی نہیں پابندی پسند ہے :
کیونکہ زور لگانے سے اور اپنی طاقت سے زیادہ صرف کرنے سے کوئی بڑا رُتبہ نہیں مِل سکتا، بڑے رُتبے کا مدار ہے اخلاص پر اور بڑے رُتبے کا مدار ہے خدا سے تعلق پر ! اور بخشوانے والی چیز عبادتوں کی کثرت نہیں ہے ! بخشوانے والی چیز وہ صرف خدا کی رحمت ہے ! تو ایسے خیال جو ہیں
١ بخاری شریف کتاب الشھادات رقم الحدیث ٢٦٦١
اُن کی نفی فرمادی ! اور فرمایا کہ نہیں نشاط جتنی دیر ہو بس اُتنی دیر عبادت کرو اگر طبیعت میں نشاط نہیں رہا بلکہ طبیعت تھکی تھکی ہوگئی ہے بدن ڈھیلا ہونے لگے طبیعت تھکنے لگے تو پھر آرام کرو فَاِذَا فَتَرَ (فَلْیَقْعُدْ) ١
ایک عورت تھیں وہ حاضر ہوئیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو پوچھا کہ یہ کون عورت ہیں ؟ تو اُنہوں نے کہا کہ یہ وہ عورت ہیں کہ جن کی نماز کا ذکر یا چرچا بہت ہے آج کل عورتوں میں کہ یہ زیادہ عبادت کرتی ہیں ! نماز بہت پڑھتی ہیں ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَہْ نہیں رہنے دو عَلَیْکُمْ بِمَا تُطِیْقُوْنَ ٢ جتنی تم میں جان ہے بس اُتنی عبادت کرو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پسند فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ(اتنا) عمل ہوتا تھا جس پر ہمیشگی کی جائے اور ہمیشگی اُسی پر کی جاسکتی ہے جو تھوڑا ہو، بہت زیادہ ہو لمبا چوڑا ہو وہ کچھ دن تو چلے گا اُس کے بعد پھر کوئی عارض پیش آجائے گا کوئی معاملہ پیش آجائے گا مصروفیت پیش آجائے گی تو وہ رہ جائے گا ! یا جوش ہے جب تک جوش ہے خوب لگا ہوا ہے ! ذرا جوش ٹھنڈا ہوگا تو پھر وہ سارے کا سارا ہی جائے گا ایک دم ! ! اور اگر درمیانی رفتار رکھے گا تو جس پر ہمیشگی ہو وہ عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے ! اَحَبُّ الْعَمَلِ اِلَی اللّٰہِ اَدْوَمُہ ٣
''صبر'' کا مطلب اور مواقع :
تو'' صبر'' کا مطلب ہے جمے رہنا ! اور جمے رہنا بڑا مشکل کام ہے ! یہ جو مقابلے ہوتے ہیں حکومتوں کے بڑے لمبے تو لمبا مقابلہ بڑا مشکل پڑجاتا ہے بڑی بڑی حکومتیں ہارجاتی ہیں اُس میں جیسے امریکہ ویتنام میں ہارگیا ! اور فرانس الجزائر میں ہارگیا ! بیس سال لڑائی چلتی رہی ! ویتنام میں بھی پندرہ سال تقریبًا چلتی رہی ہے یا زیادہ ! ہارنا پڑا ! لمبا مقابلہ جو ہے وہ بہت مشکل کام ہے ! !

١ بخاری شریف کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٥٠
٢ بخاری شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٤٣
٣ سنن ابی داود ابواب قیام اللیل رقم الحدیث ١٣٦٨
تو صبر کا مطلب ہے جمے رہنا اب کوئی بھی چیز آپ نے اختیار کی ہے اُس کو چھوڑنا نہیں ہے اُس پر لگے رہنا ہے تو لگے رہنا جو ہے کیونکہ وہی مطلوب ہے وہی اللہ کو پسند ہے اس واسطے وہ(عمل) بہت زیادہ نہیں رکھا گیا وہ تھوڑا رکھا گیا ۔
اچھا یہ صبر تو اِدھر ہوگیا دُوسرے صبر اُدھر بھی تو ہوتا ہے جہاں کچھ نہ ملے ! کھانے کو ہی میسر نہیں ہے ! پھر صبر کرو ! اور صبر جہاد میں بھی ہوتا ہے ! وہاں جمے رہنا پیچھے نہیں ہٹنا یہ صبر ہے ! ! تو ''صبر ''لفظ تو بہت مختصر سا ہے مگر معنی اس کے جمے رہنے کے ثابت قدمی کے ہیں اور یہ ہر طرف مراد ہے ! یہ نہیں کہ ایک سمت مراد ہے دوسری نہیں ہے ،نہیں ہرجگہ یہ چلے گا ! ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا)
اور آپ سنتے ہیں ( وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) وہاں بھی صبر کا لفظ آیا ہے اور کوئی صدمہ پیش آیا تو برداشت کرلیا بس ہم اسے صبر سمجھتے ہیں ، یہ نہیں ہے(صرف) بلکہ روزے میں جو صبر ہے وہ بھوک کا صبر ہے پیاس پر صبر ہے ! جہاد میں وہاں صبر ہے ! میدانِ جنگ میں صبر ہے ! اور اِدھر تمام عبادتوں میں جمے رہنا یہ صبر ہے ! جو کام شروع کرو اُسے مکمل کرو اور اُسے ہمیشہ کیا جائے دائمی طور پر ! ! !
سخاوت اور مسلمان :
دوسرا فرمایا کہ ''سَمَاحَة '' یعنی سخاوت ! ! اور سخاوت ایسا وصف ہے جو آپ دیکھتے ہیں آج اس خراب ترین دور میں اتنا بُرا دور جس میں بے عملی عام ہے اس دور میں بھی سخاوت مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔
ہندؤوں کی کنجوسی :
ہندئووں میں وہ بات نہیں پائی جاتی تو١٩٦٠ ء میں ١٩٦٢ء میں جب چین نے حملہ کیا تھا تو چندے کیے اُنہوں نے ہندئووں سے بھی مسلمانوں سے بھی ! مسلمانوں نے زیادہ دیا ہندئووں نے دیا ہی نہیں ! ! وہاں بڑے بڑے مِل ہیں شوگرمِل ہندئووں کے ہیں اِنکم ٹیکس مارے بیٹھے تھے ! لیکن نہیں دیے چندے ! ! اور کہیں کہہ دیا کہ ہم اتنا مقروض ہیں ! ایک مِل آنر نے جنگ کے لیے پچیس ہزار دیے ! ! !
بعد میں میں گیا تھاہندوستان تو اُدھر جاکر یہ حالات معلوم ہوئے تھے ! ! ! اب مسلمانوں کی فطرت میں یہ چیز داخل ہوگئی ہے ! اُنہیں پتہ بھی نہیں ہوتا ،دین پر بھی عمل نہیں کرتا ہوتا نماز بھی نہیں پڑھتا ہوتا مگر(کچھ نہ کچھ) سخاوت کرلیتا ہے ! ! آپ جائیں گے مسجد بنانے کے لیے چندہ(طلب کریں گے تو ) وہ دے دے گا ! مدرسے کے لیے وہ دے دے گا چاہے نماز بھی نہ پڑھتا ہو ! دین کے کام کے لیے ! جہاد کے لیے ! کوئی اور فنڈ ہو اُس کے لیے وہ دے دے گا ! ! یہ ''سَمَاحَة '' جو ہے اس گھٹیا دور میں جبکہ انسان کا تو آج یہ حال ہوا ہوا ہے پاکستان کی حدود میں کہ ہر آدمی اپنی ذات کو جانتا ہے ! اور اپنی ذات کو نفع پہنچانا چاہتا ہے ! باقی سب چیزیں بعد میں ! مُلک بھی بعد میں دیکھا جائے گا خیال ہی نہیں آتا مُلک کا ! ! بس اپنی ذات کے تحفظ کا رہ گیا ہے ! ! تو اس حالت میں بھی یہ ہے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مدارس بھی چل رہے ہیں مساجد بھی بن رہی ہیں آباد بھی ہیں ! ! یہ کیا ہے ؟ یہ سخاوت جو ذہنوں میں رچی ہوئی آئی ہے جس کا کوئی پتہ بھی نہیں چلتا اُسے کہ میرے اندر یہ بات ہے بھی یا نہیں مگر تحت الشعور وہ چلی آرہی ہے ! !
یہ سرورِکائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے جو چودہ سو سال پہلے سبق دیا تھا وہ وِرا ثتًا چلا آرہا ہے اور اس گھٹیا دور میں بھی اُس کے آثار پائے جاتے ہیں ! ! ! اس کے بعد اور سوالات بھی ہیں (ان صحابی کے)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق دے، ایمان پر قائم رکھے معرفت عطا فرمائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین، اختتامی دُعاء ..........


Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.