( اگست 2020 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''ایمان ''کی علامات ۔ ''وسوسہ ''کا علاج
تین طلاقوں کا مطلب'' تین'' ہی ہوتا ہے
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر20 کیسٹ نمبر 75 سائیڈ A 30 - 08 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے دریافت کیا کہ مَا الْاِیْمَانُ ایمان کیا ہے ؟ تو مراد کیا تھی مراد ایمان نہیں ! ایمان تو وہ جانتے تھے مسلمان تو تھے، اُن کی مراد یہ تھی کہ علامت کیا ہے ایمان کی یا یہ کہ اُنہوں نے واقعی پوچھا کہ ایمان کیا ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے جواب میں اور بات بتلائی کیونکہ ایمان تو وہ جانتے ہی تھے مسلمان تو وہ تھے ہی پکے تو اُن کو اور بات ہی بتلانی مناسب تھی۔
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے جواب میں '' ایمان'' کے بجائے ''علامت ِ ایمان'' بتائی کہ ایمان کی علامت یہ ہے : اِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَائَ تْکَ سَیِّئَتُکَ فَاَنْتَ مُؤْمِن جب تمہاری قلبی حالت یہ ہو کہ نیکی کرنے کے بعد تمہیں نیکی سے خوشی ہوتی ہو یعنی راحت اور سکون نصیب ہوتا ہو، نیکی کرنے کے بعد خوشی کا مطلب تکبر نہیں ہے بڑائی نہیں ہے کہ آپ خوش ہوں کہ اب مجھے بڑائی کا موقع مل گیا یہ مقصد نہیں ہونا چاہیے ! یہ مقصد ہے بھی نہیں بتلانے کا ! بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسان کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے کہ اگر نماز نہ پڑھی ہو دیر ہوجائے رُکاوٹ پیدا ہوتی چلی جائے تو وہ چڑچڑا ہو جاتا ہے کہتا ہے میں نے فرض پڑھ لیے ہیں اور مجھے فلاں چیز پڑھنی باقی ہے اور میں جلدی کررہا ہوں اور یہ بیچ میں فلاں چیز پیش آگئی گھر میں بچے رونے لگے کچھ اور ہو گیا تو اُس کی طبیعت پر بوجھ ہو رہا ہے کہ یہ بیچ میں نہ رہ جائے کہیں اور جب پڑھ لیتا ہے تو طبیعت مطمئن ہوجاتی ہے جیسے کوئی خوشی کی بات اُس کومل گئی ہو ! خوشی کی بات سن لی ہو اُس نے ! حالانکہ یہ وہ بات ہے کہ جو اُس کے اور خدا کے درمیان ہے ! !
اسی طرح کوئی بیمار ہو گیا روزے نہیں رکھ سکا، اللہ نے بخش رکھا ہے معاف کر رکھا ہے حتی کہ اگر کوئی بیمار ہے اور بیماری ہی میں انتقال کر جائے رمضان کے بعد بھی بیمار ہی رہا تو معافی ہے کوئی بات ہی نہیں ! یعنی اللہ نے تو رُخصت دے رکھی ہے کہ نہ رکھے اور وہ نہیں رکھتا ! لیکن طبیعت پر بوجھ رہتا ہے کہ دیکھو یہ میں ہمیشہ رکھتا تھا اور اس دفعہ نہیں رکھ سکا یا سب مسلمان رکھ رہے ہیں اور میں نہیں رکھ سکا ! ! ایسے قصے آپ نے بہت سنے ہوں گے کہ جو پکے عامِل قسم کے مسلمان ہیں پکے روزہ دار ہیں اُن کو جب ایسی کوئی بیماری پیش آئی بڑھاپا پیش آیا ضعف پیش آگیا تو وہ روتے ہیں اس بات پر کہ یہ میرا پہلا رمضان ہے جو ایسے ہوا یہ میرا پہلا روزہ ہے جو ایسے ہوا ! اور اگر وہ ٹھیک ہوجائیں اور اگلے دن روزے کے قابل ہوگئے تو پھر اُنہیں جو خوشی ہوگی وہ (بھی ظاہر ہے) ! ! !
دینی شعائر کی بے حرمتی اور مذاق سے کافر ہو جاتا ہے :
اب روزہ فِیْمَا بَیْنَہ وَبَیْنَ اللّٰہِ ١ ایک چیز ہے جو وہ جانتا ہے یا خدا جانتا ہے بلکہ ہر نماز کا اور تمام چیزوں کا ایسا ہی بن جاتا ہے قریب قریب ! ! کیا پتہ کہ اس نے کپڑے پاک کیے ہیں یا ویسے ہی آگیا نماز پڑھنے ! وضوء بھی کیا ہے یا بِلا وضو ہی پڑھ رہا ہے ! بِلا وضو پڑھنا کفر ہے ! جانتے ہوئے ناپاکی سے پڑھنا کفر ہے کیونکہ اس میں دین کا مذاق اُڑانا ہو گیا ایک طرح کا ! ! !
١ یعنی اللہ اور بندہ کے درمیان معاملہ
تو اللہ تعالیٰ کے جو شعائر ہیں احکام ہیں یا علامتیں ہیں دین کی اُن تمام علامتوں کا احترام بھی ضروری ہے چاہے وہ علامتیں ''مقامات'' کی شکل میں ہوں جیسے مسجد جیسے کعبة اللہ ،اور چاہے وہ ''احکام'' کی شکل میں ہوں جیسے کوئی اذان دے رہا ہے اوردوسرا مذاق اُڑا رہا ہے تو کفر کا اندیشہ ہے ! یہ نہیں کر سکتا ! نماز پڑھ رہے ہیں لوگ اور مذاق اُڑا رہا ہے کوئی تو بڑا مشکل ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ کیا ہے ؟ مسلمان ہے یا نہیں ہے مسلمان ! ! ؟ ؟
دوسری شکل یہ کہ پڑھتا نہیں ہے گناہگار سمجھتا ہے اپنے آپ کوکہ میرا قصور ہے ! ایسی مثال بہت ملے گی یہ بہت بڑی تعداد ہے مسلمانوں کی جو نہیں کرتے عمل اور کہتے ہیں کہ ہمارا قصور ہے ہم گناہگار بندے ہیں ہم ایسے ہیں ہم ویسے ہیں اپنے ہی آپ کو برا کہتے ہیں ! مذاق اُڑانے کی جرأت نہیں کرتے ! !
تقویٰ :
تو اللہ تعالیٰ کے شعائر جو ہیں ، جو مقدس چیزیں علامت ِدین بنادیں اُس نے،عبادتیں ہوں یا مقدس مقامات ہوں کسی کی بھی توہین نہیں کی جا سکتی ! اور اگر اُن کی تعظیم کوئی کر رہا ہے تو یہ دل کے تقوے کی علامت ہے کہ دل میں اس کے تقوی ہے ! خدا کی یاد بسی ہوئی ہے ! خدا کی یاد بسے گی تو نافرمانی سے خوف ہوگا ! اور فرما نبرداری کا ذوق ہوگا تو یہ تقوی ہے ! گناہ سے بچنا اس وجہ سے کہ خداوند ِقدوس کی یاد اُس کے دل میں بس گئی ہے اوروہ گناہ سے بچتا ہے تو یہ تقوی کی علامت ہے
( فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو جوجواب دیا وہ یہ ہے اِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَائَ تْکَ سَیِّئَتُکَ جب تمہیں تمہاری نیکی سے خوشی ہوتی ہو اور اگر برا کام کر لو تو طبیعت پر بوجھ رہتا ہو کہ میں نے برا کام کیا کئی کئی دن افسوس رہتا ہے صدمہ رہتا ہے اُس کا ! تو ارشاد فرمایا کہ بس پھر سمجھ لینا کہ تم مومن ہو فَاَنْتَ مُوْمِن ! یہ کیفیت جوہے یہ اچھی ہے ۔مگر ناز(فخر اور اِترانا ) تو نہیں ،ناز تو پھر بھی منع ہے ایک خوشی کی چیز ہے بس ، یہ بھی ایک خوشخبری ہے ایک طرح کی بشارت ہے ''بشارت'' کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے خوش ہونے کے قابل بات ہے یہ یعنی خدا کا شکر کرنے کے قابل بات ہے جب آپ کسی چیز پر خوش ہوتے ہیں تو شکر کرتے ہیں نا ، کھانا کھاتے ہیں الحمد للہ کہتے ہیں ٹھنڈا پانی مل جائے پیاس شدید ہو طلب بھی ہو اُس کی تو خدا کا شکر کرتے ہیں تو اسی طرح سے جب یہ حالت ہو کسی کی تو اُسے خدا کا شکر کرنا چاہیے ! !
نتیجہ کا پتہ موت کے وقت چلے گااس لیے پہلے ''ناز'' نہیں کر سکتا :
مطلب یہ نہیں ہے کہ پھر مطمئن ہوجائے کہ بس جی میں تو ہو گیا پاس امتحان میں ، امتحان(کے نتیجہ) کا وقت آیا نہیں ! پاس کیسے ہوگیا ؟ ! یہ تو آج کا سبق یاد ہوا ہے سمجھ لیجیے ! باقی (امتحان کا نتیجہ تو) وہ ہوگا جس دن دُنیا سے رُخصت ہوگا ! تو جس دن کام ٹھیک ہو گیا سمجھیے اُس دن کا سبق یاد ہو گیا ! اگلے دن کا پتہ نہیں ! جب تک امتحان نہ ہو جائے اور اس دارُ الامتحان سے نہ نکل جائے اور یہ پرچے مکمل ہو جائیں تو پھر ٹھیک ہے ! اوروہ کسی کو پتہ ہی نہیں ! وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بذریعہ وحی) بتلاسکتے تھے ! کوئی اور نہیں بتا سکتا اس بات کو ! ! اور جن کو آپ نے بتائی ہے یہ بات کہ تم ایسے ہو ! تم جنتی ہو ! میں نے تمہیں جنت میں دیکھا ہے ! بار بار بشارتیں دی ہیں تو اُن کی حالت کیا تھی ؟ اُن کی حالت یہ تھی کہ وہ پھر بھی ڈرتے تھے ! اس لیے نہیں کہ ایمان نہیں تھا معاذ اللہ اُن کا ! ایمان تھا مگر خدا کی معرفت (بھی اُسی قدر) زیادہ حاصل ہوگئی تھی اور جسے خدا وند ِقدوس کی معرفت حاصل ہوجائے تووہ پھر ڈرتا ہی ہے اللہ تعالیٰ سے ! جتنا جان لے گا اُتنا ہی ڈرے گا ! !
باقی اب بعد کے حضرات کے لیے کیا ہے ؟ تو یہ ایک علامت بتادی گئی ! وہ ایسی ہے کہ اُس زمانے میں بھی چلتی تھی اور آج کے دور میں بھی چلتی ہے ! اور اُس کا نام کیا ہے'' مُبَشِّرَاتْ '' تاکہ ذرا مطمئن رہو مایوسی نہ ہونے پائے مایوسی منع ہے مایوسی کفر ہے ! ! مایوسی کفر کیوں ہے ؟ اس واسطے کہ اُس میں ایک صفت کا انکار لازم آتا ہے یعنی خدا کی'' صفت ِ رحمت'' کا انکار گویا کر رہا ہے ! تو خدا کی کسی بھی صفت کا انکار کردے کوئی تو کافر ہوجائے گا مسلمان نہیں رہے گا ! ! !
گناہ کیا ہے ؟
جب یہ ارشاد ہوا وَسَائَ تْکَ سَیِّئَتُکَ تمہاری برائی تمہیں بری لگے تو اس کے بعد آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن صحابی نے ایک اور سوال کیا فَمَا الْاِثْمُ گناہ کیا ہے ؟ برائی پھر کیا ہے ؟ اس کی کیا علامت ہوگی ؟ تو اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا تواُس کو بہت لمبی فہرست بتلاتے ،یاد کراتے، بجائے اُس کے ایک ضابطہ بتادیا ! ! کہ بس یوں سمجھ لو اِذَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ شَیْئ فَدَعْہُ ١ تمہارے دل میں جس بارے میں تردّد ہوجائے تووہ چھوڑ دو بس ! (اور) سمجھ لو کہ اس میں بہتری نہیں ہے، یہ مال حلال ہے یا حرام ہے ؟ تردّد ہوجائے تو چھوڑدو اُسے !
کئی اور علامتیں اور اس طرح کے کلمات دوسری جگہوں پر اور آ رہے ہیں ، کہیں ارشاد فرمایا اَلْاِثْمُ مَاحَاکَ فِیْ صَدْرِکَ گناہ وہ ہے جس سے تمہارے دل میں تردّد ہو دُکھڑ پُھکڑ ہو کہ پتہ نہیں کیا ہے کیانہیں ہے !
وَکَرِھْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ ٢ اور تم یہ بھی نہیں پسند کرتے کہ کسی کو پتہ چلے اس بات کا ! ! کیونکہ جب برائی ہوتی ہے تومعلوم ہوا کہ خود اپنا ظن ِ غالب یہ ہے کہ یہ برائی ہے جب ظن ِ غالب یہ ہے کہ یہ برائی ہے تو اُسے چھوڑ دینا چاہیے۔
''مسئلہ'' کا اعتبار ہوگا ''وسوسہ'' کا نہیں :
اب بعض چیزوں میں ایسے ہوتا ہے آدمی کو کہ وسوسے ہوجاتے ہیں ! اُن کا اعتبار نہیں ہے ! مسئلہ کا اعتبار ہے ! پوچھا جائے علماء سے سیکھ لیا جائے مسئلہ بس پھر ٹھیک ہے ! اب اگر مسئلہ معلوم ہونے کے بعد بھی تردّد رہتا ہے تو سمجھنا چاہیے کہ یہ وہم ہو گیا ہے جیسے کہ ہوتا ہے بہت سے لوگوں کو کہ وضو کر لی پھر دوبارہ کی ! ! !
مختلف قسم کے شیطان :
حدیث شریف میں آیا ہے کہ الگ الگ قسم کے ہیں شیطان بھی ! جیسے اللہ نے فرشتے بنائے ہیں اعضائے اِنسانی کی حفاظت کے لیے جوڑوں کی حفاظت کے لیے ! بس اسی طرح سے شیطانوں کی بھی بڑی تعداد ہے ! اور اُن کو خاص خاص قسم کی قوتیں حاصل ہیں ! تو ایک وہ ہے جو وسوسے ڈالتا ہے ! ''وَلَھَانْ '' اُس کا نام بھی لیا گیا ہے ٣ ! یعنی اُن کی جنس کا اور اُن کی برادری کا اُن کی قوم کا نام یہ ہے
١ مشکوة کتاب الایمان رقم الحدیث ٤٥ ٢ مشکوة کتاب الاداب رقم الحدیث ٥٠٧٣
٣ مشکوة کتاب الطہارة رقم الحدیث ٤١٩
عالِم کا قصہ :
اور میں نے توخود دیکھا ہے ایک عالِم تھے اور اس چیز میں مبتلاء تھے عالِم ہونے کے باوجود ! ! تو ایک دفعہ میں نے وضو بھی کی نماز بھی پڑھی سلام پھیرا (تو دیکھا کہ) جب (میں نے)وضو کر نی شروع کی تھی تو بھی(وہ) پاؤں دھو رہے تھے جب ہم نماز پڑھ کر فارغ ہو کر آئے ہیں تو بھی میں نے دیکھا وہ حوض پر بیٹھے ہوئے ہیں اور پاؤں ہی دھو رہے ہیں ابھی تک ! ! اور تہجد گزار تھے ! ! مجھے یہ خیال آتا ہے کہ سردیوں میں کیا ہوتا ہوگا ! ! ٹھنڈ ے پانی سے جب اتنی دیر وہ(وضو) کرتے ہوں گے ! یہ تو ٹب باتھ ہو گیا اچھا خاصا ! ممکن ہے مفید ہوجاتا ہو اُن کے لیے اتنا لمبا چوڑا پانی میں رہنا بہت دیر تک ! ہو سکتا ہے کہ مفید ہوجاتا ہو بہرحال ایک مشکل ہے۔
حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کسی ساتھی کو دیکھا تھا اُنہوں نے ایسے ہی کہ وہ ان ہی وسوسوں میں مبتلاء تھے ! تو وہ فرماتے تھے کہ وہ تالاب میں جاکر غوطہ لگاتے تھے نہانے کے لیے ! کیونکہ اور جگہ تو اُن کو تردّد رہتا تھا پتہ نہیں پانی پہنچا ہے یا نہیں پہنچا ! اس لیے نہاتے تھے تالاب میں ، نہر میں غوطہ لگا لیتے تھے اور (قریب)ساتھی کھڑا کر لیتے تھے پھر غوطہ لگانے کے بعد جب نکلتے تھے تو پوچھتے تھے کہ دیکھو میری کمر پر پانی پہنچ گیا ہے یا نہیں ! ! حالانکہ غوطہ لگانے کے بعد کمر پر پانی نہ پہنچنا اس کا تو مطلب ہی کوئی نہیں ! ! تو وہ یہ کرتے تھے ۔
یہ جو چیزیں ہوں کیا یہ بھی اُس میں داخل ہیں جو دل میں تمہارے تردّد ہو ؟ تویہ اُس میں داخل نہیں ہیں یہ تو'' وہمیات'' میں داخل ہیں کیونکہ شریعت نے بتادیا ہے کہ تین دفعہ دھو لو عضو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توایک ایک دفعہ بھی دھویا ہے اور وضو ہو ئی ہے ! اور دو دو دفعہ بھی دھو کر وضو کر کے دکھایا ہے ! اور تین تین دفعہ بھی ! ! !
خاص نبیوں کا وضوء :
اور اس طرح مکمل وضو کہ پاؤں بھی دھوئے جائیں مسح بھی ہو اِسے فرمایا کہ یہ میرا وضو ہے اور مجھ سے پہلے جو اَنبیائے کرام گزرے تھے اُن کا وضو ہے ! پچھلی اُمتوں میں پاؤں دھونے نہیں تھے ! سر کا مسح نہیں تھا ! ہو سکتا تھا یہ بوٹ پہنے رہیں اور وضو ہوجائے اُتارنے ہی نہ پڑیں ! لیکن اَنبیائے کرام ! اَنبیائے کرام کا ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ پاؤں بھی دھو تے تھے مسح بھی کرتے تھے تو اِرشاد فرمایا ھَذَا وَضُوْئِیْ وَ وُضُوْئُ الْاَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِیْ ١ مگر اس طرح کہ جتنی چیز تر ہونی ہے وہ بتلادی
وضو،غسل ،استنجاء کے وسوسہ کا علاج :
اب اس کے بعد بھی اگردل میں تردّد رہتا ہے تو بالکل پرواہ نہ کرے ! بلکہ علاج کے طور پر بتایا گیا ہے بڑے بڑے حضرات کو معمولی درجے کے لوگ نہیں بہت بڑے بڑے حضرات کو کہ علاج اس کا یہ ہے کہ تم سنت پر عمل کر لو ! اور اپنی نماز پڑھ لو ! اب وہ جو وسوسے والا شیطان ہے وہ یہ دل میں ڈالے گا کہ وضو ہی نہیں تھی ! نماز ہی نہیں ہوئی ! پھر جب تک تم یہ نہیں کہو گے کہ نہیں ہوئی تو بھی مجھے پرواہ نہیں ہے ! کیونکہ میں نے تو عمل کر لیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشاد پر اور حدیث پر ! تو جب تک یہ نہیں کہو گے اُسے جواب میں اپنے نفس سے کیونکہ وہ نظر تو آنہیں رہا سامنے ! وہ تو دل میں ڈال رہا ہے ! تو اپنے آپ سے ہی کہنا ہوا ! تو اپنے آپ سے جب تک یہ نہیں کہو گے کہ کوئی پرواہ نہیں ہے ! نماز نہیں ہوئی ہے تو نہ سہی ! سنت کے مطابق تو کر چکے ہو نا عمل ! اب بھی یہ کہہ رہا ہے کہ نہیں ہوئی یعنی وسوسے میں ڈالنا چاہ رہا ہے ! تو اپنے دل کو جواب یہ دیا جائے کہ پرواہ نہیں ہے کوئی حرج نہیں ہے ! نہیں ہوئی ہے تو نہ سہی ! جب یہ کریں گے آپ تو ٹھیک ٹھاک ہوجائیں گے ! وہ وسوسے وغیرہ سب جاتے رہیں گے ! ! اور پھر تین دفعہ ہی پانی پھیرانے میں وضو سچ مچ(بلا تردّد) ہوجایا کرے گا۔
فتویٰ کے بعد تردّد نہ ہونا چاہیے :
ہاں کہیں ایسی جگہ پہنچا ہے جہاں کوئی عالِم بھی نہیں ہے اورخود تردّد ہے تو پھر چھوڑ دو ! اور جب عالم مل گیا مسئلہ معلوم کر لیا اور پتہ چل گیا کہ حرام ہے تو پھر چھوڑ دو ! اورپتہ چل گیا حلال ہے ! توپھر اب ٹھیک ہے ! حلال سمجھو ! اب بعد میں بھی جو تمہارے دل میں دُکھڑ پھکڑ ہے اُس کا اعتبار کوئی نہیں
١ المُعجم الاوسط رقم الحدیث ٣٦٦١
فتویٰ میں بدنیت نہ ہو :
بات وہ چلے گی جو شریعت سے ثابت ہو گئی اور آپ کو عالِم نے بتلا دیا آپ نے فتوی لیا فتوی کا جواب آگیا بس تردّد اپنا رفع کردینا چاہیے ! بشرطیکہ فتوی لینے دینے میں بدنیت آپ نہ ہوں ! !
مسلک تو ہے حنفی ! دے دی ہے طلاق ! اب جا کر فتوی لیتے ہیں غیر مقلدوں سے ! اور وہ دُنیا میں اکیلے ہیں ! ! ! چاروں امام یہ کہتے ہیں کہ تین دفعہ طلاق دے، طلاق ہو گئی ! !
یہ ایک شاخ نکلی ہے اس طرح کی جو کہتے ہیں تین طلاقیں اگر ایک مجلس میں دے دیں تو تین نہیں ہوں گی ! ؟ باقی چاروں اماموں کے نزدیک تین ہوجائیں گی کیونکہ ''تین '' کا لفظ ہے ! نہ پونے تین پر بولاجا سکتا ہے ! نہ سوا تین پر بولاجا سکتا ہے ! وہ تو(عدد کے اعتبار سے) مکمل لفظ ہے (تین بار دی ہے مگر) ایک مجلس میں دی ہے اس لیے نہیں ہوگی ! ! یہ کوئی وجہ نہیں ہے ! ! !
امام بخاری کے نزدیک بھی ''تین'' کا مطلب ''تین'' ہے :
اور روایات موجود ہیں بخاری شریف میں ہے خود امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا رُجحان یہی ہے اور ترجمة الباب یعنی عنوان بھی اُنہوں نے یہی باندھا ہے۔
اب یہ چیزیں جو ہیں اس طرح کی آپ جانتے ہیں مگر (اس کے باوجود)جان بوجھ کر جاتے ہیں اُن کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لیے ! یہ کیا کر رہے ہیں ؟ یہ خیانت کر رہے ہیں ! آپ خود خیانت کررہے ہیں ! اور یہ گناہ نہیں چھوڑ رہے (جس کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے یعنی) مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ کیونکہ تمہارے دل میں تردّد لازمًا ہوگا ! ! یہ نہیں ہے کہ اُدھر جاکر تمہیں شرحِ صدر ہو رہا ہے ! ! بلکہ تم دُنیا دار ہو اور تم آخرت سے نہیں ڈر رہے ! ! تم دُنیا ہی کو سب کچھ سمجھ رہے ہو اس لیے ایسا کرتے ہو ! ! !
شیطانی مغالطہ ''غصہ کی طلاق'' :
اب کہتے ہیں '' غصے'' میں دے دی ، بھئی ''خوشی'' میں کون دیتا ہے ؟ کوئی عید کے دن آکر عیدی کے طور پر دیتا ہے بیوی کو طلاق ! ؟ وہ تو دی ہی جاتی ہے غصہ میں ! ! اور اگر اُسے مسئلہ معلوم نہیں تھا تو'' تین'' کیسے دیں ؟ یہ کہتے ہیں کہ بھائی مسئلہ نہیں معلوم تھا ! ارے بھائی مسئلہ نہیں معلوم تھا ؟ ''نکاح'' کاتھا معلوم یا نہیں ؟ ''نکاح'' کا معلوم تھا تو'' طلاق'' کا بھی معلوم ہوا ! اور جب معلوم تھا تو ''ایک'' کا بھی معلوم تھا'' تین'' کا بھی معلوم تھا ! تو دی کیوں تو نے ؟ ؟ یہ ساری کٹ حجتیں ہیں یہ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ میں بھی آتی ہیں اور شعائراللہ کی بے حرمتی میں بھی آتی ہیں بالکل ! ! !
طلاق کے احکام جہاں ذکر کیے گئے وہاں قرآنِ پاک میں آیا ہے کہ یہ ''آیات اللہ ''ہیں اور ان کے بارے میں آیا ہے ( لَا تَتَّخِذُوْ اٰیَاتِ اللّٰہِ ھُزُوًا) ان کو مذاق نہ بناؤ ! ان کا استعمال ایسے نہ کرو ! یہ حقوق ہیں بس ! جو بتادیے اللہ تعالیٰ نے ان کی ضرورت تھی نسلِ انسانی کو ! ! اللہ نے اُس کے احکام بیان فرمادیے تومذاق نہ بناؤ اِستہزا نہ بناؤ ! ! ! ( لَا تَتَّخِذُوْ اٰیَاتِ اللّٰہِ ھُزُوًا )
سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے ان صحابی کو دو باتیں بتائیں کہ ایک تو یہ علامت ہے ایمان کے مکمل ہونے کی کہ تمہیں نیکی کرنے کے بعد راحت میسر آئے جیسے راحت نصیب ہوتی ہو ! سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ ! ! برائی کرو تو طبیعت پر اُس کا بوجھ رہے سَائَ تْکَ سَیِّئَتُکَ تمہیں اپنی برائی بری لگے تو تم مومن ہو فَاَنْتَ مُوْمِن ! ! ! اُن صحابی نے پھر دُوسرا سوال کیا کہ گناہ کیا ہے ؟ تو ارشاد فرمایا مَاحَاکَ فِیْ صَدْرِکَ جو تمہارے دل میں تردّد ہو ! اِذَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ شَیْئ فَدَعْہُ جو چیز تمہارے دل میں حلال و حرام میں تردّد پیدا کر جائے پھر چھوڑ دو ! اور یہ نہیں ہے کہ علماء کو تردّد نہیں ہوتا ! علماء کو بھی تردّد ہوتا ہے ! وہ بھی ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ! ! پھر دوسری جگہ بھیجتے ہیں وہاں سے پوچھتے ہیں ! ! جمع ہو کر غور کرتے ہیں ! ! ! سب کو ہوتا رہتا ہے درجہ بدرجہ اُنہیں کم چیزوں میں ! یا اُنہیں اہم چیزوں میں ! نئی چیزوں میں نئی ایجادات کوئی ہوں تو ! ! ! مشینی ذبیحہ ٹھیک یا نہیں ہے ؟ اس کے بارے میں کچھ علماء کاخیال ہوا ٹھیک ہے ! کچھ کا خیال ہوا ٹھیک نہیں ہے ! آپس میں گفتگو کی دلائل ہوئے ! تو جن کا خیال تھا کہ ذبیحہ جائز ہے اُنہوں نے رُجوع کرلیا کہ ہمارا خیال صحیح نہیں ! صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ذبیحہ مشینی جو ہے وہ ٹھیک نہیں ہے وہ درست نہیں ہے حرام ہے ! ! !
تو سب کو ہوتا رہتا ہے تردّد ! جب یہ ہو اور حل نہ نکل رہا ہو ! تو اُس وقت اُسے چھوڑ دے تاوقتیکہ حل نکل آئے قابلِ اطمینان ! ! اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے نہیں کہ آپ کچھ ہیں جاکہیں رہے ہیں ! جانتے ہیں کہ یہ غلط بتائے گا مسئلہ پھر بھی اُس کے پاس جا رہے ہیں ! ایک عالِم کو چھوڑ دیتے ہیں جو پڑھاتا بھی ہے سبق اور جانتا بھی ہے ! اور ایک اور آدمی کے پاس چلے جاتے ہیں جنہیں کچھ بھی نہیں آتا اُس سے کہتے ہیں زبانی(بغیر تحریر وغیرہ کے)۔
طلاق کا مسئلہ اور جاہل پیر :
اب میرے پاس ایک صاحب آئے اوروہ ایک سیّد ہے اللہ کا بندہ اور بیوی کو طلاق دے چکا ہے ! وہ لوگ آئے میرے پاس اورمجھے بتایاوہ کہتا ہے میرا پیر مراقبہ کر کے کہتا ہے کہ نہیں ہوئی طلاق ! صحیح مسئلہ یہی ہے کہ نہیں ہوئی طلاق ! کیونکہ وہ مراقبہ کر کے کہہ رہا ہے ! تو گویا خدا سے ڈائریکٹ معلوم کر رہا ہے وہ ! اور پھر اُسے پتہ چل رہا ہے ! (لوگ اُسے)یہ کہتے تھے دیکھ اللہ کے بندے مسئلہ آگیا ہے اس طرح سے یہ ! تو وہ چپ ہوجاتا تھا ! اُس کے بعد پھر پیر کے پاس جاتا تھا ! پیر پھر اُسے تسلی دیتا تھا مراقبہ کرلیتا تھا کوئی آنکھیں میچ کے ! اس کے بعد پھر اُسے بتا دیتا تھا کہ اس میں تمہاری تو نہیں ہوئی تمہاری تو نہیں ہوئی (طلاق)، بہت دنوں اس تردّد میں رہا ! ! تو مجھے بڑا عجیب لگا ! ! میں نے کہا یہ کوئی دلیل ہے مراقبہ کر لیا اور کہہ دیا نہیں ہوئی ہے طلاق ! ! یہ کوئی شرعی چیز بنتی ہے ؟ علمی چیزیں ہیں بتادی گئیں ہیں ! اسی لیے پڑھا جاتا ہے ورنہ پڑھے کون ؟ پھر تو سارے ہی مراقبہ کر لیا کریں ! اور جو دل میں آرہا ہے وہ کہہ دیا کریں ! پھر تو'' دین'' دین ہی نہ رہے ! ! !
علماء کی محنت :
حالانکہ دین میں تو(علماء کی انتہائی محنت کے ساتھ) اتنی باریک تر شقوق نکالی گئی ہیں (اور اُن پر تحقیقات کرکے لوگوں کے لیے بہت ہی سہو لتیں پیدا کر دی گئی ہیں مثال کے طور پر آپ) یہ کہتے ہیں نا کہ(سفر میں ) اڑتالیس میل پر تو قصر ہوجاتا ہے ! اب اڑتالیس میل کیا ہوتا ہے ؟ ایک میل کتنا ہوتا ہے ؟
تو علماء نے بہت پیمائش کی ! بڑے پیمانے نکالے ! اُنہوں نے کہا کہ(ایک میل) ایک ہزار'' باع'' کا ہوتا ہے، ''باع'' کہتے ہیں اسے کہ یہ دونوں ہاتھ ایسے پھیلالو یہ دونوں ہاتھوں (کا پھیلائو) سمجھیے بن گئے چار ہاتھ (یعنی چار ذِرع اور ایک ذِرع ڈیڑھ فٹ کا ہوتا ہے تو) چار ہاتھ بن گئے چھ فٹ کے تو اب چھ فٹ کو ایک ہزار سے آپ ضرب دیں تو چھ ہزار فٹ(کا ایک میل) اُنہوں نے پیمائش کی ہے !
اور ایک ذِرع کتنی ہے ؟ اُنہوں نے کہا کہ یہ چو بیس اُنگلیاں ہیں !
اچھا اُنگلی کتنی ہے ؟ اُنہوں نے کہا اتنے چاولوں کے برابر اور وہ جو(چاول) لیے جائیں گے وہ کس طرح رکھے جائیں گے ؟ ایک کو دوسرے سے ملا کر اس طرح رکھو تو پھر وہ اُنگلی(کے برابر) بنے گی کیونکہ اُنگلی اگر وہ پہلوانوں کی لی جائے وہ بہت (بڑی ہوگی)اور کسی پتلے دُبلے اورنازک آدمی کی لی جائے تو وہ اور ہوگی تو اُس کی بھی پیمائش بتلائی !
پھرکہا چاول کتنا ؟ کیونکہ چاول بھی کہیں موٹے کہیں باریک کہیں کیسے کہیں کیسے بہت قسم کے ! ! اُنہوں نے کہا کہ خچر کے اتنے بال لے لیے جائیں گے اور خچر کے بال معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں کیونکہ جہاں آب و ہوا ایک ہی جیسی ہوتی ہے خچروہیں ہوتا ہے تو اُس کے بال اتنے لے لو وہ ........... مطلب یہ ہے میرے کہنے کا کہ اِن علمائے کرام نے جتنی محنت کی ہے وہ آپ کے انداز سے باہر ہے اس کے باوجود ایک آدمی کسی جاہل کی پیروی تو کرے ! کہ اُس نے یوں مراقبہ کر کے بتادیا ! اور علماء کے فتوے کا اعتبار نہ کرے ! ! تو یہ داخل نہیں ہے اُس (تردّد والی صورت)میں بلکہ یہ بالکل حرام ہے ! ! !
یہ جو(حدیث ہے) مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ دل میں تردّد ! تو دل میں تردّد کا مطلب تو یہ ہے کہ سچ مچ جو متقی علماء ہیں جن کے پاس واقعی علم بھی ہے اُن میں اختلاف پیدا ہو گیا تو اُس میں کیا کرے آدمی ! ! اور وہ حنفی عالموں میں آپس میں بھی ہو سکتا ہے ! اور وہی مراد ہے ! حنفی شافعی(اختلاف مراد ) نہیں ہے وہ تو الگ الگ مسلک ہوگئے ! ! حنفیوں میں ہو گیا ! شافعیوں میں ہو گیا آپس میں ! مالکیوں میں ہو گیا ! حنبلیوں میں ہوگیا ! تو بس وہ چیز چھوڑ دے آدمی فَدَعْہُ کیونکہ بعض علماء کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے بعض کہہ رہے ہیں ٹھیک ہے اور دونوں متقی ہیں ۔
اور اگر اُن میں ایک جو کہہ رہا ہے کہ ٹھیک ہے ! متقی بھی نہیں ہے ! تو پھر سمجھ لو کہ وہ ہے ہی بالکل غلط، اُس میں تو پھر تردّد کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔تردّد تو وہاں ہوتا ہے جہاں دونوں بلند پایہ ہیں دونوں متقی ہیں اوردونوں علم میں بھی بڑے ہیں وہاں اختلاف و تردّد ہو گا تو چھوڑ دے ! ! !
اس (حدیث)میں دو چیزیں ارشاد فرما دی گئیں ایک ایمان کی علامت اور ایک گناہ (کی علامت)
تو دل میں جب تردّد ہو بس اُسے چھوڑ دیا کرو ! ! تو سمجھو گناہ سے نجات ہو تی رہے گی ! ! !
بس پھر بچتے رہو گے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمانِ کامل معرفت ِ کاملہ عطا فرمائے آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محشور فرمائے، آمین ۔اختتامی دُعا ............
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.