jamiamadniajadeed

اسلام کا مدار کلمہ ہے

درس حدیث 263/20 ۔۔۔۔۔ اسلام کا مدار کلمہ ہے ، اسلام دُنیا کی سپر پاور رہا فرانس کے سکّہ پر کلمۂ طیبہ ، منکرین ِ زکوة کا فتنہ پاکستان کے حکمران اسلام کی راہ میں رُکاوٹ ہیں (1987-09-06)


( جولائی 2020 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اسلام کا مدار کلمہ ہے ، اسلام دُنیا کی سپر پاور رہا
فرانس کے سکّہ پر کلمۂ طیبہ ، منکرین ِ زکوة کا فتنہ
پاکستان کے حکمران اسلام کی راہ میں رُکاوٹ ہیں
( تخریج و تز ئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
(درس نمبر18 کیسٹ نمبر 75 سائیڈB 06 - 09 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب آپ دُنیا سے تشریف لے گئے تو کچھ صحابہ کرام کا یہ حال ہوا کہ اُنہوں نے بہت زیادہ غم کیا حَتّٰی کَادَ بَعْضُھُمْ یُوَسْوِسُ حتی کہ بعض تو ایسے ہو گئے کہ طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا ہوگئے ! اور شدید وسوسوں کے قریب ہو گئے ! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وَکُنْتُ مِنْھُمْ میں بھی اُن میں تھا ! اور پریشانی بہت زیادہ اِس وجہ سے ہوگئی کہ بعض قبائل نے اِنکار کردیا زکوة دینے سے ! اُنہوں نے کہا کہ اب یہ ایک طرح کا ٹیکس ہے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور بات تھی ! قرآنِ پاک میں آیا ہے (خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَةً )ان کے مالوں میں سے زکوة لیں صدقہ لیں (تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا) آپ ان کو پاک کریں گے صاف کریں گے اور جب یہ آئیں اور لائیں اپنا صدقہ جو ان کے اُوپر واجب ہوتا ہے تواِن کو دُعا دیجیے کہ اللہ کی رحمت اِن پر ہو،خدا کی رحمت کی دُعا ! اِن کے لیے '' صلوة'' کا لفظ استعمال فرمالیجیے (صَلِّ عَلَیْھِمْ )۔( اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَن لَّھُمْ )آپ کا یہ لفظ استعمال کرنا یا دُعا دینا اس سے ایسی رحمت کہ جس سے اِنہیں سکون حاصل ہو نازل ہوتی ہے ! تو اُنہوں نے کہا کہ یہ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک تھا (صرف اُن کی خصوصیت تھی ) ! ! !
اب ہم کیوں دیں ؟ ؟ ؟ ایک تو یہ فرقہ ہو گیا ! ! !
جھوٹے نبی کا فتنہ :
دوسرے جو لوگ نبوت کا دعویٰ کر رہے تھے اُن میں مسیلمۂ کذاب جو تھا بہت طاقتور دُشمن تھا ! اُس کے مقابلے میں بہت شہید ہوئے ہیں صحابہ کرام ! اہلِ بدر میں سے بھی بڑے بڑے قیمتی حضرات قُرَّاء یعنی عالِم اور قاری ! فقط قاری نہیں اور یہ ستر کے قریب ہیں ! کل ساڑھے سات سو کے قریب صحابہ کرام شہید ہوئے ہیں بہت بڑی تعداد ہے یہ ! ! بہت ہی بڑا نقصان ہے اسی کے بعد تو قرآنِ پاک کو لکھا گیا ! ! !
عیسائیوں کی طرف سے حملے :
اورایک عیسائیوں کی طرف سے جو حملے شروع ہوگئے تھے ! تو مدینہ منورہ کا حال یہ ہو گیا کہ رات کو پہرہ دیتے تھے کہ کسی طرف سے حملہ نہ ہوجائے ! باقاعدہ اُنہوں نے جتھے بنا لیے باریاں مقرر کر لیں ! اب وہ سارے مدینہ منورہ کے گرد گشت کرتے رہتے تھے کہ کسی طرف سے دُشمن حملہ آور نہ ہوجائے ! تو یا تو نوبت اسلام کے عروج کی بڑی تیز رفتاری سے جاری تھی یا پھر اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا سے رُخصت ہوگئے اور ساری چیزیں جیسے رہ گئیں لگتا یوں تھا جیسے بنی بنائی عمارت وہ خدانخواستہ ڈیہہ گئی ہو ! تو اِن کو بہت تشویش طرح طرح کے وسوسے خیالات پیدا ہوئے ! ! !
حضرت عثمان کی کیفیت :
تو حضرت عثمان بھی اُن ہی میں تھے جو متفکر رہتے تھے اس بارے میں کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا حضرت عمر وہاں سے گزرے اُنہوں نے سلام کیا ان کو، سلام کرنا تو سنت ہے اور جواب دینا واجب ہے تو کہتے ہیں کہ میں ایسا منہمک تھا(خیالات میں ) کہ مجھے نہ اُن کے گزرنے کا پتہ چلا ! نہ اُن کے سلام کا پتہ چلا ! آپ غور کریں تو ایسے حالات بعض اَوقات گزرتے ہیں اِنسان پر اِنہماک کے مشغولیت کے کہ اُس کے آگے سے کوئی گزر بھی جائے تو پتہ ہی نہیں چلتاکہ کوئی گزرا ہے وہ اپنے دھیان میں اتنا مستغرق ہوتا ہے کہ اُسے خبر نہیں ہوتی ! ! تواپنا فرماتے ہیں کہ یہ حال تھا کہ میں بیٹھا ہوا تھا حضرت عمر آئے گزرے آگے سے، سلام کیا ! جواب کی مجھے خبر ہی نہیں ! معلوم ہوا کہ نہ یہ آنکھیں دیکھتی ہیں ! نہ یہ کان سنتے ہیں ! بلکہ کوئی اور طاقت ہے جو سنتی ہے اور دیکھتی ہے ! وہ طاقت اگر کسی طرف متوجہ ہوجائے تو پھر یہ آنکھیں بھی بیکار اور کان بھی بیکار،نہ کانوں میں آواز گویا سنائی دے گی اور نہ آنکھوں کا کام ہوگا کہ کیا ہو رہا ہے ! ! ! یہ ایک بڑی بد سلوکی کی بات تھی کہ وہ سلام کریں مجھے میں جواب ہی نہ دُوں ! فَاشْتَکٰی عُمَرُ اِلٰی اَبِیْ بَکْرٍ تواُنہوں نے جا کر گلہ کیا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہ یہ کیا ہوا ہے ؟ ثُمَّ اَقْبَلَا پھر یہ دونوں میرے پاس آئے اور دونوں نے سلام کیا، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا مَا حَمَلَکَ عَلَی اَنْ لَّا تَرُدَّ عَلَی اَخِیْکَ عُمَرَ سَلَامَہ یہ کیا بات ہوئی ! ان کو سلام کا جواب نہ دینے پر کس چیز نے آپ کو اُبھارا ؟ یہ تو گویا خفگی کی علامت ہے بہت زیادہ ! کیا چیز پیش آئی ؟ قُلْتُ مَا فَعَلْتُ میں نے کہا میں نے تو یہ نہیں کیا ایسا ہوا ہی نہیں ! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بخدا تم نے ایسا کیا ہے بَلٰی وَاللّٰہِ لَقَدْ فَعَلْتَ ! اب یہ بات تو بہت ہی بری بات ہے کہ وہ کہے میں نے کیا ہی نہیں ایسے ! ہوا ہی نہیں ایسے ! دونوں میں تضاد ہے ٹکراؤ ہے دو نوں میں ایسا ٹکراؤ ہے کہ دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے ! تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قسم کہا کھا کر کہا کہ بَلٰی وَاللّٰہِ لَقَدْ فَعَلْتَ ! قَالَ قُلْتُ وَاللّٰہِ مَاشَعَرْتُ اَنَّکَ مَرَرْتَ وَلَا سَلَّمْتَ کہتے ہیں کہ میں نے پھر قسم کھا کر کہا مجھے کچھ بھی پتہ نہیں چلا کہ آپ گزرے ہیں سلام کیا ہے یا نہیں کیا کچھ پتہ نہیں مجھے کوئی خبر نہیں خبر ہی نہیں کچھ احساس ہی نہیں ہوا اِس کا ! ! توابوبکر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ یہ حالت ہے ! کیونکہ اور صحابہ کرام کی بھی ایسی حالت تھی کہ اُنہیں جیسے کہتے ہیں نا کہ کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ،کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا ایسے حواس معطل ہوئے ! تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صَدَقَ عُثْمَانُ یہ سچ کہہ رہے ہیں ٹھیک کہہ رہے ہیں اور قَدْ شَغَلَکَ عَنْ ذَالِکَ اَمْر معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام میں تمہارا ذہن تھا لگا ہوا اُس میں مشغول تھے ذہن اُس میں مصروف تھا ! فَقُلْتُ اَجَلْ میں نے کہا بالکل ٹھیک یہی بات تھی ! پوچھا اُنہوں نے مَا ہُوَ کیا چیز ہے ایسی ؟ میں نے کہا کہ تَوَفَّی اللّٰہُ تَعَالٰی نَبِیَّہ صلی اللہ علیہ وسلم قَبْلَ اَنْ نَسْاَلَہ عَنْ نَّجَاةِ ھٰذَا الْاَمْرِ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا لیا اور ہم یہ پوچھ نہیں سکے کہ اس معاملہ میں نجات کیسے حاصل ہوگی ؟ ؟ ؟
نجات کا مدار کیا ہے ؟
اس کا جواب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیا قَالَ اَبُوْبَکْرٍ قَدْ سَأَلْتُہ عَنْ ذَالِکَ جو بات تمہارے ذہن میں ہے کہ ہم یہ نہیں پوچھ سکے وہ میں نے پوچھی ہے میں نے پوچھ لی تھی وہ بات !
فَقُمْتُ اِلَیْہِ کہتے ہیں میں کھڑا ہو گیا جذبے میں جوش میں اور میں نے کہا بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ اَنْتَ اَحَقُّ بِہَا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ واقعی اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ پوچھ لیں کہ مدار ِ نجات کیا ہے ؟ ایک انسان جو پیدا ہوا ہے اُس کا مدارِ نجات کیا ہوتا ہے ؟ ؟
تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا نَجَاةُ ھٰذَا الْاَمْرِ اس معاملہ کی نجات کیسے ہوگی ؟ یعنی یہ جو کچھ پیش آرہا ہے جب سے آئے ہیں اور جب جائیں گے ،اس سب معاملہ میں نجات کی سبیل کیا ہوگی عند اللہ قیامت کے دن خدا کے سامنے ؟ ؟
فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا مَنْ قَبِلَ مِنِّی الْکَلِمَةَ الَّتِیْ عَرَضْتُ عَلٰی عَمِّیْ فَرَدَّھَا جو آدمی میرا وہ کلمہ جو میں نے اپنے چچا ابو طالب کے سامنے پیش کیا میں نے کہا کہ میرے کان میں آہستہ سے آپ کلمہ کہہ لیں اُحَاجُّ لَکَ بِھَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ قیامت کے دن میں اللہ کے یہاں اس کی وجہ سے آپ کی نجات کے لیے حجت کرلوں گا ! لیکن اُنہوں نے رد کردیا ! جو یہ کلمہ قبول کرلے تو یہ نجات ہے اُس کے لیے فَھِیَ لَہ نَجَاة ! ! ! ١ تو مدار تو کلمہ ہی ہے، اصل یہی ہے پہلے یہ ہی سکھایا جاتا ہے جو مسلمان ہونا چاہتا ہے اُس کو کلمہ ہی پڑھایا جاتا ہے جیسے جڑ یہ ہے باقی اعمال جو ہیں وہ سب شاخیں ہیں ۔
اسلام پوری دُنیا میں پھیل کر رہا :
ایک صحابی نقل کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لَا یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ کوئی گھر ایسا نہیں رہے گا دُنیا میں ،چاہے وہ گھر اِینٹوں سے بنا ہوا ہو اور چاہے وہ گھر اُون کی بٹی ہوئی چیزوں سے، جیسے خیمہ ہوتا ہے ، تنبو وغیرہ میں رہنے والے لوگ ہوں یا گھروں میں ،جیسے شہروں میں رہنے والے لوگ ہیں اِلَّا اَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَةَ الْاِسْلَامِ اللہ تعالیٰ وہاں اسلام کا کلمہ پہنچا دیں گے بِعِزِّ عَزِیْزٍ وَ ذُلِّ ذَلِیْلٍ چاہے کوئی عزت والا عزت سے رہے اور چاہے کوئی ذلت کو قبول کرنے والا ذلیل ہو بہرحال یہ کلمہ پہنچ کر رہے گا ! !
اِمَّا یُعِزُّھُمُ اللّٰہُ فَیَجْعَلُھُمْ مِنْ اَھْلِھَا یا تو اللہ تعالیٰ کا یہ کلمہ وہ پہلے ہی قبول کرلیں گے تو اللہ اُن کو (مزید)عزت دیتا چلا جائے گا اَوْ یُذِلُّھُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَھَا یا وہ(اولاً) ذلیل ہوں گے(اس طرح پر کہ) قاصر ہوں گے مسلمانوں سے مقابلے میں اور پھر اطاعت قبول کریں گے،بہر حال جو اطاعت قبول کررہے ہیں جزیہ دے رہے ہیں ٹیکس دے رہے ہیں ذمی بنے ہیں وہ عزت میں نہیں ہیں وہ ذلت میں ہیں ! قُلْتُ فَیَکُوْنُ الدِّیْنُ کُلُّہ لِلّٰہِ ٢ تو میں نے کہا سارا دین اللہ کا پھیل ہی جائے گا سارے عالم میں ! ! توہوا بھی اسی طرح سے ہے کہ رفتہ رفتہ رفتہ رفتہ صحابہ کرام ہی کے دور میں پوری دُنیا میں اسلام پھیل گیا !
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٤١
٢ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٤٢
فرانس کا سکہ اور کلمہ طیبہ :
اور آپ سمجھیے گا کہ یہ اسپین اور فرانس وغیرہ یورپ کا حصہ اس کی تو آبادی بہت ہی تھوڑی ہے اور بڑا خراب علاقہ تھا ٹھنڈا علاقہ یہاں تو ایسے ہے کہ کوئی کوئی گھرہوگا آباد، اسپین پر جب حکومت ہوئی ہے تو فرانس وغیرہ میں جو اِن کے سکے تھے اُن پر کلمہ اُنہوں نے چھاپ دیا ! حالانکہ وہ الگ حکومت تھی مگر(مرعوب ہوکر) دباؤ اتنا قبول کیا کہ کلمہ چھاپ دیا ! ! اسی طرح کوئی جگہ ایسی رہی نہیں ہے کہ جہاں پیغام نہ پہنچ گیا ہو اِسلام کا ! کیونکہ اگر پیغام ہی نہ پہنچے تو پھر حجت رہتی ہے انسان کے لیے کہ خداوند ِکریم تیرا پیغام مجھے نہیں پہنچا ! !
چین کے حاکم کو دعوت نامہ :
بہت پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والا نامے تحریر فرمائے تو چین بھی لکھا ہے اور چین کے حاکم نے قبو ل کیا ہے اورجواب اچھا دیا ہے ! لیکن وہ جواب ان کا جب پہنچا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہنچا ہے آپ دُنیا سے رُخصت ہوچکے تھے ! پتہ نہیں راستہ کیا ہوتا ہوگاان کا ؟ کتنا فاصلہ ہوتا ہوگا ؟ راستے ہر وقت چلتے بھی ہوں یا نہ چلتے ہوں ؟ جیسے سردیوں میں بند ہوجاتے ہیں وقت ایک لگا ! جواب بھی اُس نے دیا ! ہدایہ وطحائف بھی بھیجے ! تو اُس نے قبول کیا ! اور بڑی دُور کی جگہ سمجھی جاتی تھی یہ ! اور یہ جاپان وغیرہ ! یہ چھوٹے جزائر ہوں گے اُس وقت جو طابع ہوں گے ان ہی کے اِس علاقہ کے ! ! !
صدیوں اسلام دُنیا کی واحد سپر پاور رہا :
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام تو گھر گھر پہنچ گیا ہے اگر کسی نے قبول کر لیا اور اسلام میں داخل ہوگیا تو ٹھیک(عزت ہی عزت ہے ! ) نہیں ! تو نہیں (ذلت ہی ذلت ہے ! ) کیونکہ دُوسری سپر پاور کوئی نہیں رہی تھی ! مسلمان رہے ہیں سپر پاور صدیوں ! ! بس دو سو سال سے تقریباً زوال شروع ہوا ہے جو ١٣١٤ھ میں مکمل ہوا ہے ترکی حکومت کے خاتمہ پر ! یہ زوال کی انتہا ہوئی ہوئی ہے ! ! !
جس (ذلت کی) حالت میں اب ہیں مسلمان ،حق تعالیٰ کو اِختیار ہے کہ وہ بدل دے اور دُعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حالات بھی بدلے ہماری اصلاح سچ مچ فرما دے اور ہمیں اہل بنائے اور آگے بلندیاں نصیب فرمائے پوری مسلمان قوم کو ساری دُنیا کو ! ! !
وقتی غلبہ نہ کہ دائمی :
دُوسری جو طاقت تھی عیسائیوں کی کبھی ایسے ہوا ہے کہ کسی حد تک کسی میدان میں غالب آگئی ہو ورنہ نہیں غالب آسکی ! اسی طرح اچانک کوئی طاقت (وقتی طور پر)اُبھری ہو اور وہ چھا گئی ہو ! بہت نقصان پہنچا دیا ہو ایسے بھی ہوا ہے ! جیسے ہلاکو، چنگیز یہ چلے ہیں اور بڑا نقصان پہنچا ہے ! لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ مسلمان ہونے شروع ہوگئے ! اوروہ اسلام کا جزو بن گئے اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں اسلام ڈال دیا مسلمان ہوتے چلے گئے سب ! ! !
تو جو فکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تھی اُس کا جواب تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیا لیکن دوسری حدیث جو اور آگے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی ہے وہ اس کتاب میں موجود ہے وہ اس گفتگو کا حصہ نہیں ہے لیکن اس کتاب میں ایسے اندازسے دی ہے کہ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اس بات کی ایک طرح سے تشریح بھی ہوجاتی ہے کہ یہ کلمہ نجات ِ آخرت کے لیے توکافی ہے ہی ہے ! لیکن دُنیاوی بلندی کے لیے بھی یہ کافی ہے ! !
اسلام کی راہ میں حکمران رُکاوٹ ہیں :
ہاں اگر مسلمان عمل چھوڑ دیں اور پھر یہ کہیں کہ ہماری مدد نہیں ہو رہی تو یہ تو بات ایسے ہی ہے (بیکار) آپ سمجھ لیں خود دیکھ لیں اپنا حال ! دیکھ لیں کہ چالیس سال ہو گئے ہیں پاکستان بنے ہوئے شاید اکتالیس ہوگئے اور اس عرصہ میں سب کچھ ہوا ہے ! مگر اسلام نہیں آنے دیا ! کون مانع رہا ہے ؟ حکمران مانع رہے ہیں ! کسی ایک کا نام نہیں لیا جا سکتا ہے پورا طبقہ اَز اَوّل تاآخر سلسلہ ہے ایسے کہ اسلام ہی نہ آنے پائے ! جو سوراخ بھی نظر آتا ہے اسلام کے آنے کا وہ بھی بند کردیا جاتا ہے ! ! !
ملک ٹوٹنے کی وجہ :
ہاں اسلام کانام لینا اور بہکانا یہ ضرور رہا ہے ! تو جو انگریز کرتا وہ اُس کے جانشین بن کر اِن لوگوں نے کیا ہے ظلم ! ! ! پھر اگر بنگلہ دیش بن جائے اور پاکستان ٹوٹ جائے آدھا تو اِس میں قصور اسلام کا نہیں ہے ! اس میں قصور بے عملی کا ہے کہ اسلام کے اُوپر عمل نہیں کیا ! !
تو (مشرقی پاکستان کا)وہ حصہ جہاں کوئی راستہ ہمارا نہیں جاتا ! خشکی کا راستہ آٹھ سو میل ! درمیان میں دُشمن ہندوستان ! بحری راستہ لنکا سے جاتا ہے بہت طویل ! ہوائی راستہ وہ بھی اسی طرح ! مگر اس کے باوجود اسلام کا صرف نام ہی لیا تھا تو وہ ملا رہا مدتوں ! فقط اسلام کے نام پر ! ! اگر اسلام سچ مچ آگیا ہوتا تو وہ بھی ملا ہی رہتا اور ہو سکتا تھا کہ اور آگے بڑھے ہوتے(ہندوستان کے اندر تک) کیونکہ اسلام کا جذبہ ایسی چیز ہے کہ یہ انسان کو ناقابلِ شکست بنادیتا ہے ! اس جذبے کو اور اس جذبے والوں کو شکست نہیں ہو سکتی ! ! مگر وہ(اسلام) نہیں آیا ذرا بھی نہیں آنے پایا ! !
کالج زدگی کا وبال :
اب لوگوں کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ کوئی چیز جانتے ہی نہیں سوائے اپنی ذات کے ! ! ہر شخص اپنی ذات کی حد تک مصروف ہے اور اُس کا اِنہماک یہی ہے کہ میں ! اورمیری ذات ! میرے گھر والے ! میرا خاندان ! بس ہر ایک کو اپنی ذات کی ترقی مقصود ہے ! باقی مُلک کا نہیں ہے کوئی وفادار ! اور نہ اسلام کا وفادار ! بڑے لوگوں میں سب کا یہ جذبہ ہے ! ! !
مدارس کا فائدہ :
چھوٹے لوگوں میں ہے کہ اسلام پر عمل بھی کرتے ہیں ! قرآنِ پاک کی تلاوت ہے ! بچوں کو قرآنِ پاک پڑھانا ہے ! بس افرادہیں جو پڑھاتے ہیں اور یہ بھی پوری اصلاح نہیں قبول کرتے اسلام کی ! !
سپر طاقت :
تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں عمل کی توفیق دے اگر عمل آگیا تو پھر اللہ کا وعدہ ہے
(اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ ) تم ہی سب سے بلند ہو '' اَعْلَوْنَ ''سب سے بلند سپر پاور تم ہو (اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ) شرط یہی ہے کہ ایمانِ(کامِل) پایا جائے تو پھر تم سب سے بلند ہو پھر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو ایسے ہوجائے گا ! ! تو اس کے لیے دُعا ہی کی جا سکتی ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور فضل فرمائے رکھے اور ہم سب کو اپنی رضا سے نوازے، آمین ۔ اختتامی دُعا .........



Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.