( جون 2020 ء )
ضرورت سے زائد خرچ کر ڈالو۔ تہجد میں عبادت آخر میں اِستغفار
جہاد فریضہ ہے،ورلڈ آرڈر'' کھرے'' مسلمانوں کا حق ہے !
بوڑھے صحابی کا جذبہ قتال ! بادشاہوں کا سالانہ جہاد !
( تخریج و تز ئین : حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر18 کیسٹ نمبر 74 سائیڈ,B A 16 - 08 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے یہ چیز چلی آرہی ہے کہ نجات کا باعث تو صرف ایمان ہے لیکن اس بات کو عام کرنا یہ منع ہے اور کیوں منع ہے ؟ اُس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ کم سمجھی کی وجہ سے یہ خیال کرنے لگیں گے کہ بس کلمہ پڑھ لیا نجات ہو گئی اور چاہے جو کرتے پھریں ! ! !
ایک واقعہ ہے لمبا اُس میں آتا ہے نام حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہم بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے کچھ اور لوگ بھی تھے آپ کھڑے ہوئے اور کہیں تشریف لے گئے اور بالکل پتہ نہیں چلا کہ کہاں تشریف لے گئے ! تو ہمیں بڑا اَندیشہ ہوا کہ معلوم نہیں کیا بات ہوئی ! کیا چیز پیش آئی ہے ! حادثہ بھی ہو سکتا ہے ! ! تو کہتے ہیں وَفَزِعْنَا اس سے ہم چوکنَّے ہو گئے یا گھبراگئے دونوں معنی ہو سکتے ہیں ہم کھڑے ہو ئے اِدھر اُدھر دیکھنے کے لیے تو کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو میں اس کام کے لیے چلا اور میں پہنچا ایک باغ میں اور باغ میں دیکھا میں نے کہ اندر داخل ہونے کا دروازہ ہے یا نہیں ہے ؟ تو ایک پانی پہنچانے کی جو نالی ہوتی ہے سیراب کرنے کی وہ مجھے نظر پڑی ! میں اُس میں داخل ہو کر اندر پہنچ گیا ! ! تو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا مجھے دیکھ کر کہ ابو ہریرہ ہیں ؟ میں نے کہا جی ہاں پوچھا کہ کیا بات ہے کیسے آئے ہو یہاں ؟ میں نے عرض کیا کہ اس طرح تشریف فرما تھے جناب اور تشریف لے گئے اور دیر ہو گئی انتظار میں ،ہمیں خیال ہوا اور طرح طرح کے اَندیشے ذہن میں آئے تو اس طرح سے میرے ذہن میں سب سے پہلے خیال آگیا تو میں پہلے یہاں اندر آگیا لیکن لوگ ضرور اسی طرح میرے پیچھے تلاش کرتے پھر رہے ہوں گے ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن لوگوں کی تشویش کا احساس فرمایا اور فرمایا کہ دیکھو یہ میرے چپل ہیں نعل ہے یہ لے جاؤ اور راستے میں جو آدمی بھی ملے تمہیں ایسا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دیتا ہو خدا ہی کے قابلِ پرستش ہو نے کو مانتا ہو تو اُسے جنت کی خبر دے دو خوشخبری سنادو یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِھَا قَلْبُہ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّةِ ۔
ایک دستور :
اور نعلِ مبارک علامت تھی کہ واقعی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آئے ہیں اور یہ پرانا دستور چلا آرہا ہے کہ جب کوئی پیغام بھیجا جاتا تھا تو اُس میں کوئی علامت دے دی جاتی تھی تاکہ دوسرے لوگ سمجھ جائیں کہ یہ واقعی اُن ہی کا پیغام ہے ،بہت اہم کام ہو جیسے معاہدہ تبدیل کرنا، منسوخ کرنا تو اُس میں یہ دستور تھا کہ اُن کا سگا عزیز کوئی آئے وہ یہ بات کہے پھر مانی جائے گی ورنہ نہیں ! ! یہاں یہ ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نعلِ مبارک دے دیے اور کہا کہ دیکھو جو بھی ایسا آدمی تمہیں ملے جس کے دل میں یہ یقین ہو کہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو اُس کو جنت کی خوشخبری دے دو، تو اب یہ دل تو نہیں ناپ سکتے ہیں کہ کس کے دل میں ہے کس کے دل میں نہیں ہے ! یہ تو صرف بیان کرسکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے کہ جس آدمی کے دل میں لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا یقین ہو وہ جنتی ہے، یہی کہہ سکتے تھے ! کہتے ہیں مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے پہلے سب سے ! تو اُنہوں نے کہا یہ کیا ہے تمہارے ہاتھ میں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلِ مبارک ہیں اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے اور یہ خوشخبری سنانے کے لیے بھیجا ہے کہ جس سے بھی میں ملوں اُس کو یہ بتا دُوں یعنی یہ حدیث سنا دُوں مَنْ یَّشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِھَا قَلْبُہ بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن تو لیا اِس کے بعد اُنہیں خوش ہونا چاہیے تھا ! ! لیکن ایسی بات نہیں ہے ! بلکہ اُنہوں نے غور کیا اور اُنہوں نے اِن کو دھکا دیا ! اِن کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھکیلا اور یہ پیچھے گرگئے ! ! فَخَرَرْتُ لِاِسْتیِ اور کہنے لگے کہ چلو وہیں چلو ،لوٹ کے چلو ! تو یہ لوٹ کے چلے آئے ! اور کہتے ہیں میں خوب رویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ! اور پیچھے پیچھے میرے یہ بھی آگئے ! ! !
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلے میں پہنچا تھااور رو رہا تھا تو پوچھا آپ نے کہ کیا بات ہوئی ہے ؟ تو وہ کہتے ہیں میں نے بتایا میں اس طرح سے پیغام جناب کا لے جا رہا تھا عمر رضی اللہ عنہ ملے اُنہیں میں نے یہ بات سنا ئی اُنہوں نے جناب مجھے اس طرح سے دھکا دیا ! سینے پر میرے ایسے دھکیلا کہ میں سرین کے بل گرا ! اور یہ کہا کہ چلو لوٹ جاؤ وہیں لوٹ چلو ، تو اتنے میں وہ بھی آگئے پوچھا آپ نے اُن سے یَا عُمَرُ مَاحَمَلَکَ عَلٰی مَا فَعَلْتَ یہ تم نے کیا ہے اِس کی وجہ کیا ہوئی کس لیے ایسے کیا ؟ ؟
عدالتی اُصول :
اس حدیث میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ جب تک دُوسرے کی بات نہ سن لے کوئی فیصلہ نہ کرے تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ! کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی اور بات بھی ہوئی ہو عرض کرنے لگے پورے آداب کے ساتھ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ بھی لگایا ساتھ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اَبَعَثْتَ اَبَا ہُرَیْرَةَ بِنَعْلَیْکَ کیاجناب نے بھیجا ہے واقعی ؟ نعلِ مبارک دے کر بھیجنا اور بات ہے اور یہی پیغام دے کر بھیجنا کیا یہی پیغام دے کر جناب نے بھیجا ہے یا نہیں ؟ تردّد تھا اِن کو ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نَعَمْ میں نے یہی پیغام دے کر بھیجا ہے اور یہ ٹھیک کہتے ہیں ۔
حضرت عمر کی رائے قبول فرمائی :
یہ عرض کرنے لگے پھر جناب ایسا اعلانِ عام نہ کرائیے فَاِنِّیْ اَخْشٰی اَنْ یَّتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْہَا فَخَلِّھِمْ یَعْمَلُوْنَ اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ پیغام سنیں گے تو بس لوگ تو پھر عمل کرنا چھوڑ دیں گے بیٹھ جائیں گے میرے خیال میں تو یہ آتا ہے کہ جناب اُنہیں عمل کرتا ہوا چھوڑ جائیں تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی رائے سنی تو اُس سے اتفاق فرمایا اور فرمایا فَخَلِّھِمْ ١ رہنے دو بس ٹھیک ہے۔
کیونکہ اِس میں غلط فہمی عام لوگوں کو ہو سکتی ہے اور موٹی سمجھ والوں کو تو ضرور ہوجائے گی جو گہرائی تک نہیں پہنچتے اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے دُنیا میں اور گہرائی تک پہنچنے والوں کی تعداد ہمیشہ ہی کم رہی ہے اور یہ اللہ کی حکمت ہے اگر سب ایک جیسی سمجھ کے ہوتے تو حاکم کے بعد کوئی محکوم نہ ہوتا ! !
حضرت معاذ کا سوال اور نبی علیہ السلام کا جواب :
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کوئی عمل مجھے ایسا بتلائیے کہ جنت کے قریب کر دے جہنم سے دُور کردے ! رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کے اِس سوال کو پسند بھی فرمایا اور فرمایا لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ اَمْرٍ عَظِیْمٍ تم نے بہت بڑی بات کے بارے میں سوال کیا ! وَاِنَّہ لَیَسِیْر عَلٰی مَنْ یَّسَّرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ جس کے لیے اللہ اُسے آسان کردے وہ آسان بھی ہے کوئی مشکل بھی نہیں ہے اور اِرشاد فرمایا کہ تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہ شَیْئًا اللہ کی عبادت کرو اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ،نماز پڑھو، زکوة دو، رمضان کے روزے رکھو،حج ِ بیت اللہ کرو،یہ اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلادیے ۔اور حج کی فرضیت جو ہوئی ہے وہ سن ٨ھ میں ہوئی ہے جب فتح ِ مکہ مکرمہ ہو گیا گویا یہ آخری دور کی روایت معلوم ہوتی ہے۔
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٩
پھر فرمایا اَلَا اَدُلُّکَ عَلٰی اَبْوَابِ الْخَیْرِ جو بھلائی کے نیکو کاری کے نیکی کے دروازے ہیں وہ بتاؤں تمہیں ؟ اَلصَّوْمُ جُنَّة روزہ ڈھال ہے اور اَلصَّدَقَةُ تُطْفِیُٔ الْخَطِیْئَةَ یہ جو گناہ کی آگ ہوتی ہے صدقہ اُسے مٹا دیتا ہے کَمَا یُطْفِیُٔ الْمَآئُ النَّارَ جیسے پانی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے اس میں ''زکوة'' کے علاوہ ''صدقہ'' کا لفظ کہا گیا ہے۔
ضرورت سے زائد سب خرچ کردو :
کہیں اِس سے بھی آگے آتا ہے ( یَسْئَلُوْنکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ) کیا خرچ کریں ( قُلِ الْعَفْوَ ) اِرشاد فرمایا اِن سے کہہ دو کہ جو تمہاری ضرورت سے زائد ہے وہ خرچ کرو ! ! !
ایک دفعہ گوشت آیا تھا گھر میں تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ گوشت آیا تھا تو عرض کیا اہلیہ مطہرہ نے کہ وہ سب تقسیم ہو گیا دے دیا لوگوں کو، بس اتنا یہ بچا ہے تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب بچا ہے سوائے اس کے جو ہم کھالیں گے باقی جو خدا کے نام پر دے دیا وہ سب بچا ہوا ہے وہ سب ہمارے لیے محفوظ ہو گئے !
تہجد اور آخر میں اِستغفار :
ارشاد فرمایا یہ کہ صَلٰوةُ الرَّجُلِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ ایک چیز یہ ہے کہ آدمی رات کے وقت نماز پڑھے رات کے ساتھ تاریکی کا تصور خود آتا ہے گویا خاموشی ہے اور چھپ کر اپنے اور خدا کے درمیان جو اِس طرح سے نماز پڑھتا ہے ! پھر اپنے آپ کو یہ بھی سمجھے کہ میں نے کچھ نہیں کیا ! یہ بھی ضروری ہے ! اور اگر تہجد پڑھنے لگا مگر اپنے آپ کو دُوسروں سے اچھا بھی سمجھنے لگا تو پھر غلط بات ہوجائے گی وہ ایسے ہے جیسے نیکی بھی کی اور اُس پر پانی بھی پھیر دیا تو اللہ تعالیٰ کم سمجھی سے بچائے ! ! !
قرآنِ پاک میں تو ہے کہ ( کاَنُوْا قَلِیْلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ )رات کو تھوڑے وقت لیٹتے ہیں اور سوتے ہیں ( وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) اور صبح کے وقت وہ اِستغفار کرتے ہیں تو کم سوئے یعنی زیادہ وقت عبادت میں گزارا ،اس کے باوجود اِستغفار کی ضرورت ہے ! یہ نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اچھا سمجھ لیا ! اعلیٰ سمجھ لیا ! !
علمائِ ربانییّن کی علامت :
قرآنِ پاک میں ہے اہلُ اللہ کی علامت ( تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عِنِ الْمَضَاجِعِ ) اُن کے پہلو لیٹنے کی جگہ (بستروں ) سے الگ رہتے ہیں ( یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا) اللہ کو پکارتے ہیں اللہ کو یاد کرتے ہیں (اس حال میں کہ ) دونوں چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں ''خوف'' بھی ''طمع'' بھی، اللہ سے (مغفرت اور رضا کے )ملنے کی اُمید ! اور خوف بھی اللہ (کے عذاب)کا ! !
اللہ کے راستہ میں قتل کرنا اور قتل ہو جانا :
اس کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت چوٹی کی باتیں بتلائیں اِن میں اہم بات اسلام اور اُس کا ستون نماز، اُس کی چوٹی جو اُوپر کی ہے وہ ''جہاد'' ہے ۔
ایک بات تو یہ ہے کہ جہاد بڑا مشکل کام ہے ! جو جاتا ہے تھوڑی دیر کے لیے بھی، اُس کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ زندہ رہے گا یا نہیں ............... جس پر گزرتی ہے وہ جان سکتا ہے ! ! !
جہاد کے فوائد :
دُوسرے یہ کہ جہاد کے جو فوائد ہیں اُن کا اَنداز ہی آپ نہیں کر سکتے، جہاد کی خاطر تو بس اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ( اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ )اللہ نے مال بھی جان بھی لے لی اور فرمایا ( قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) اللہ کے راستہ میں قتال کرو اور فرمایا ( اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالاً ) نکل کھڑے ہو ہلکے اور بوجھل ہر حال میں ! ! !
بوڑھے صحابی کا جذبۂ قتال،لاش کی حفاظت :
ایک صحابی تھے اُنہوں نے یہ سنا اور کہا کہ میں جا رہا ہوں جہاد میں ! اور وہ عمر رسیدہ تھے ! بیٹوں نے کہا کہ جناب ہم جارہے ہیں ، کہا نہیں میں خود جاؤں گا ! اللہ کا یہ اِرشاد میرے کان میں پڑے اور میں نہ جاؤں خود یہ نہیں ہو سکتا ! ! توخود ضعیف العمر تھے مگر باصرارِ تمام وہاں پہنچے اور راستے میں تھے کہیں بحری سفر پر تو وفات ہو گئی ! ! صحابی کہتے ہیں ہم نے ایک ہفتہ اُن کی لاش اپنے ساتھ ہی رکھی ! پھر جب ہم اُترے ہیں ساحل پر وہاں اُن کو دفن کیا، اب ہر ایک کے لیے یہ حکم نہیں ہے، بہرحال اُن کی لاش کو خدا نے سالم رکھا اور واقعی سالم رہی ہوگی تبدیلی اُس میں کوئی نہیں آنے پائی یہ بھی نہیں کہ اُنہوں نے ممی (Mummy) لگائی ہو یا کچھ اور کیا ہو، مصالحہ لگا یا ہو ،ایسی کوئی چیز نہیں ! ! یہ غیر مسلموں کا طریقہ تھا اسلام میں تو نہیں ہے یہ ! اسلام میں تو یہی ہے کہ جب انتقال ہوجائے تو پھر تدفین جلد کردی جائے بس ۔
سالانہ جہاد :
تو مطلب یہ ہے کہ جہادبہت بڑی چیز ہے اور بادشاہ جہاد کرتے رہے ہیں ثواب کی نیت سے (حالانکہ خود اُن کو جانے کی)ضرورت نہیں تھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جہاد کے لیے جایا کرتے تھے یہ ہارونِ رشید جو تھا عباسی خلیفہ ایک سال حج کے لیے جاتا تھا ایک سال جہاد کے لیے۔
جہاد اور عالمگیریت ١ :
اور جہاد ہی تھا جس کی وجہ سے آپ سپر پاور رہے ہیں دُنیا میں ، اگر جہاد نہ ہوتا تو سپر پاور نہیں بن سکتے تھے اور یہی ہے حکم ( اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ) تم سب سے اُوپر ہو ! سب سے اُوپر تو سپر پاور ہوتیہے (اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) اگر(تم کامل مومن ہو ) اور فرمایا( لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ) اللہ خلیفہ بنائے گا تمہیں تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں (معاذ کو)بتایا کہ وَذُرْوَةُ سَنَامِہِ الْجِہَادُ اس کی چوٹی جو ہے وہ جہاد ہے۔
حضرت معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو شہادت ہوئی وہ عمواس (فلسطین) میں ہوئی ہے جہاں حضرت ابوعبیدہ اِبن الجراح رضی اللہ عنہ بھی تھے دوسرے حضرات بھی تھے ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے وہاں (طاعون کی ) وباء پھیلی اور اُس میں اِن کی وفات ہوئی ہے لیکن یہ وہ علاقہ تھا جہاں جہاد جاری تھا
١ WORLD ORDER
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں وہاں وباء ہوا کرتی تھی اُس وقت اُس وباء میں بہت بہت قیمتی حضرات وفات پاگئے تو ارشاد فرمایا کہ اِس کی چوٹی جو ہے وہ جہاد ہے۔
جہاد کی خاص برکت :
اوربلا شبہ سارے سیاسی اختلافات جتنی قسم کے بھی ہیں سب ختم ہوجاتے ہیں کوئی آپس میں مسلمانوں میں تفریق نہیں رہتی ایک دوسرے کے ساتھ مدد معاونت یہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اتحاد کے جذبات پیداہوتے ہیں ورنہ تو خالی بیٹھے ہوئے ہیں جیسے پاکستان میں روز فرقہ واریت فرقہ واریت اور طرح طرح کی چیزیں ۔
جہاد سے غفلت کی سزا :
بہر حال ایک فریضہ ہے جس سے غفلت کی، اُس غفلت کی سزا یہ ملی کہ یورپ حاوی ہو گیا اسلامی طاقتوں کو ختم کردیا اُس نے ! ! اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ! ! !
''ورلڈ آرڈر'' شرعی فریضہ :
فریضہ کیا تھا ؟ فریضہ یہی تھا کہ اپنے آپ کو سپر پاور رکھو ( وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ )خدا اور رسول کے دُشمن اور اپنے دُشمن پر رُعب ڈالتے رہو ! سب سے آگے تیاری میں بھی تم رہو ! تو یہ راکٹ واکٹ جو بنائے ہیں یہ فرض تھے ہمارے اُوپر مذہبی رُو سے ! ! اِن سے ہم نے کوتاہی کی ہے ! اگر قوم کوتاہی کرتی ہے تو بڑی سخت سزا ملتی ہے پھر تو اُس کی سزا سارا ملک بھگتا ہے ! ! !
خرابیوں کی جڑ ''زبان'' :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ میں تمہیں یہ ساری چیزیں جو جڑہیں اِن(خرابیوں ) کی وہ بتاؤں ؟ اُنہوں نے کہا ضرور ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک پکڑی اور فرمایا کُفَّ عَلَیْکَ ھٰذَا اس کو روکے رکھو ! فَقُلْتُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ! وَاِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَکَلَّمُ بِہ جو ہم باتیں کرتے ہیں کیا اِن پر مواخذہ ہوگا ؟ تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ یَامَعَاذُ ! وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْ عَلٰی مَنَاخِرِہِمْ اِلَّا حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ ١ یہ جو جہنم میں لوگوں کو منہ کے بل گراتی ہیں چیزیں وہ کیا ہیں ؟ وہ زبان ہی کی بوئی ہوئی کھیتی ہوتی ہے ! جب وہ کٹتی ہیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے ! ! زبان سے جتنے گناہ ہوتے ہیں اُن کا تو اَنداز بھی آپ نہیں کر سکتے ! ہر وہ آدمی جس کی زبان چلتی ہے کمزور ہو چاہے ! گناہ کر سکتا ہے ! بیمار ہو گناہ کر سکتا ہے ! جوان ہو، ضعیف العمر ہو، کوئی بھی ہو زبان سے گناہ ہوتے ہیں ! ! تو آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس طرف توجہ دلائی اور اس سے ہی کلمہ بھی ادا کرتے ہیں ! اس سے ہی کلمۂ خیر بھی کہتے ہیں ! اور اسی سے ہی کلمہ ٔ شر بھی کہا جاتا ہے ! کلمات ِ کفر بھی کہے جاتے ہیں ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے عمل کی توفیق دے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محشور فرمائے ، آمین۔ اِختتامی دُعاء ...............
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٢٩
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.