( مئی 2020 ء )
صرف عقل پر اِنحصار گمراہی ہے '' عقل پرستی'' کی وجہ سے سر سیّد بھی گمراہ ہو گئے !
کمیونسٹوں اور عقل پرستوں کے دلائل خود اِن کے خلاف جاتے ہیں !
جنت یا دوزخ واجب کرنے والی چیزیں !
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس نمبر17کیسٹ نمبر73 سا ئیڈB 02 - 08 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا مَفَاتِیْحُ الْجَنَّةِ شَھَادَةُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ جنت کی کنجیاں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی شہادت میں ہے اور کہیں اور کلمات بھی آئے ہیں اس میں یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ یہ جنت کی کنجی ہے، یہ بھی ارشاد فرمایا مَنْ شَھِدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ یا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہُ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ ١ اللہ تعالیٰ اُس پر آگ حرام کر دیتے ہیں !
اِرشاد فرمایا کہ ثِنْتَانِ مُوْجِبَتَانِ دو چیزیں ایسی ہیں جو لازمی کر ڈالتی ہیں ایک صحابی نے دریافت کیا کہ مَا الْمُوْجِبَتَانِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہْ وہ کون سی ہیں ؟ ؟
١ مشکٰوة کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٦ و مسلم شریف کتاب الایمان رقم الحدیث١٤٢
اِرشاد فرمایا کہ مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ النَّارَ جو آدمی اللہ کے ساتھ شریک مانتا ہوا مرا وہ آگ میں جائے گاتو گویا واجب ہو گئی آگ ! ! !
وَمَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ١ اور جس کی موت اس طرح ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کر رہا نہ ''صفات'' میں نہ ''ذات'' میں وہ نہ خدا مان رہا ہے کسی اور کو،نہ خدا جیسی صفت کسی کی مان رہا ہے تو وہ جنت میں جائے گا اُس کے لیے جنت واجب ہو گئی ! !
اللہ کسی چیز کا پابند نہیں :
تو اللہ تعالیٰ پر واجب تو کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ سب کچھ اُس کا ہے، اور جب سب چیز یں اپنی ہوں تو پھر آپ کے ذمہ کوئی چیز واجب نہیں ، آپ کا قلم ہے دل چاہے آپ جیب میں رکھیں اور دل چاہے قلمدان میں رکھیں ! نہ جیب میں رکھنا واجب ہے نہ قلمدان میں رکھنا واجب ہے ! اور دل چاہے لکھیں اور دل چاہے بند کر کے رکھ دیں ! دل چاہے روشنائی بھریں اور نہ دل چاہے تو دھو کر رکھ دیں اُس کو ! تو اپنی چیز میں کوئی چیز واجب نہیں ہوتی اپنی مرضی چلتی ہے ! ! !
''واجب '' کا مطلب ؟
لیکن اللہ کا یہ احسان ہے اُس نے یہ کلمات استعمال فرمانے کی اجازت دی کہ میرے ذمہ یہ ہے ! میرا وعدہ یہ ہے ! مجھ پر یہ واجب ہے ! یہ کلمات استعمال کرنے کی اجازت دی اُس نے یہ اُس کا کرم ہے ! رہا وجوب ؟ وجوب نہیں ہے ! ! !
صرف عقل پر اِنحصار گمراہی ہے :
ایک فرقہ پیداہو گیا جو منطقی اور فلسفیوں کا تھا وہ کہلاتے ہیں ''معتزلہ'' عقل کو زیادہ مانتے ہیں وہی آج تک چلا آرہا ہے یہ چکڑ الوی، پرویزی ٢ اور اس طرح کے جو طبقے ہیں یہ سب معتزلہ والے ہیں کہ جو بات عقل میں آتی ہے وہ مانتے ہیں جو سمجھ میں نہ آئے نہیں مانتے، اُس میں معجزات کا انکار لازم
آجاتا ہے کیونکہ وہ سمجھ کی چیز ہی نہیں ۔
١ مشکٰوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٨ ٢ غامدی ، الھُدٰی انٹرنیشنل وغیرہ
معجزہ کیا ہے ؟
''معجزہ ''کہتے ہی اُس کو ہیں کہ جو خرقِ عادت ہو، عادتًا ایسے نہیں ہوتا مگر پیش آگیا تو وہ معجزہ ہو گیا کہ جس کے لانے سے دُوسرا عاجز ہو جس قسم کی چیز لانے سے دُوسرا عاجز ہو یہ نبی کی ہوتی ہے تو نبی سے جو کرامت کی قسم کی چیز ظاہر ہو اُس کو'' معجزہ'' کہتے ہیں ، نبی کے علاوہ کسی سے ایسی چیز ظاہر ہوجائے اُسے ''کرامت'' کہتے ہیں ۔
صحابہ کی کرامت :
حضرت اُسید اِبن حُضیر رضی اللہ عنہ اور ایک اور صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے رہے اور دیر ہو گئی رات تھی اندھیری تو چھڑی یا لاٹھی رکھی جاتی ہے دیہات میں بھی ویسے بھی حفاظت کے طور پر، بس وہ چھڑیاں اُن کے پاس تھیں کتے سے جا نور سے یا اور کسی چیز سے بچاؤ کے لیے ، وہ وہاں سے روانہ ہوئے تو ایک چھڑی روشن ہو گئی ! اور اُس سے روشنی جلتی رہی، آگے چل کر (ایسی جگہ آگئے کہ ) راستہ الگ الگ ہوگیا دونوں کا، تو جہاں راستہ الگ الگ ہوا وہاں دوسری چھڑی میں بھی روشنی پیدا ہوگئی ! انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔
''کرامت'' اور ''اِستدراج'' میں فرق :
توایسی چیز جو کسی متبع ِ سنت سے ظاہر ہو اُس کو ''کرامت ''کہتے ہیں اگر وہ اتباعِ سنت اور اتباعِ شریعت نہیں کر رہا اور اُس سے اِس قسم کی چیز ظاہر ہوجائے وہ کرامت نہیں کہلاتی اُس کا نام ''اِستدراج'' ہے اور وہ بہت ترقی بھی نہیں کر سکتا ہے ،رُوحانی ترقی تو بالکل مسدود ہوجاتی ہے ! تماشوں میں لگ جاتا ہے کسی کو یہ دکھایا کسی کو وہ دکھایا ! ! !
سرسیّد عالِم تھے مگر گمراہ ہوگئے :
اور خرقِ عادت کی بات میں کر رہا تھا کہ ایک طبقہ ایسا ہے کہ جو خرقِ عادت چیزیں مانتا ہی نہیں اُن کاانکار کر دیتے ہیں کہ یہ باتیں غلط ہیں حالانکہ وہ قرآن میں آگئیں اور قرآنِ پاک میں آئی ہوئی چیز کا انکار کیسے ہو ؟ تو قرآنِ پاک میں آئی ہوئی چیزوں میں اُنہوں نے ترجمے میں ردّو بدل کردیا یہی سرسیّد(احمد خان) ہیں ١ جو علی گڑھ یونیورسٹی کے ہیں بہت صلاحیتیں تھیں ان میں ذہنی لیکن بھٹک گئے عالِم بھی اچھے تھے بڑے اساتذہ سے پڑھا ہے تو انگریز کا اور کچھ مادّیت کا ایسا اثر اُنہوں نے قبول کیا کہ بالکل مادّیت کی طرف آگئے اسباب (ظاہریہ) کی طرف آگئے (اور باطنی اسباب کا انکار کردیا) کہ یہ بات ہوگی تو یہ ہوگا جیسے کوئی کہے ''دوا'' ہوگی تو'' شفا ''ہوگی یہ بالکل مادّیت کی طرف (میلان ہو گیا تھا اِن کا) حالانکہ شفا جو ہے وہ اللہ دیتا ہے بلا دوا کے بھی ہوجاتی ہے اور لوگ مایوس ہوجاتے ہیں مگر وہ بالکل ٹھیک ہو کر بیٹھ جاتا ہے ! لوگ نہلا دیتے ہیں کفنا دیتے ہیں اور وہ ٹھیک ہو کر پھر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاتا ہے ! ! تو حیات اور موت اور صحت اور مرض ساری چیزیں خدا کے اختیار میں ہیں مگر وہ (عقل پرست) ہر چیز کا کوئی ایک سبب (ظاہری بھی)نکالتے ہیں ۔
عقل پرستی کا نقصان ،تفسیر میں ردّو بدل :
اور جہاں جہاں ایسی چیزیں قرآنِ پاک میں بھی آئی ہوئی ہیں اُن کے بھی ترجمے میں ردّوبدل کرنا پڑا اِن (سرسیّد) کو، انہوں نے ایک تفسیربھی لکھی ہے اُردو میں ،مضامین لکھے ہیں ''مقالاتِ احمدیہ'' کے نام سے بہت جلدوں میں سولہ سترہ جلدوں میں ہے ! بڑے فاضلانہ مضامین ہیں ! اُردو ہے بڑی صاف ! اُس دور میں ایسی صاف اُردو ! یا تو کسی نے بعد میں ٹھیک کی ہے ! حوالے بھی ہیں اُس میں مگر سب میں توڑ مروڑ توڑ مروڑ توایک عام آدمی پڑھنے والا توویسے ہی بہک جائے گا کہ حوالے سے لکھی ہے بات لیکن اگر کوئی اتنی معلومات رکھتا ہو کہ وہ اُن حوالوں کی جگہ کو بھی دیکھ لے کہ کہاں کا حوالہ دیا ہے ! وہ پھر سمجھ جائے گا کہ یہاں اس نے یہ غلطی کی ہے قصدًا ! اور فلاں حصے کو اِس نے چھپالیا ہے ! ! !
١ جیسا کہ برصغیر میں دیگر بہت سے غداروں ، جاگیرداروں اور درباری علماء کو''شمس العلماء '' کا خطاب دیا تھا غاصب انگریز نے اپنی وفاداری کے صلہ میں ان کو ''سر'' کے لقب سے نوازا تھا۔ محمود میاں غفرلہ
حضرت موسٰی علیہ السلام کا معجزہ ،عقل پرست سرسیّد کی من گھڑت :
حضرت موسٰی علیہ السلام کا معجزہ قرآنِ پاک میں آتا ہے ( وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ ) جب موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے پانی چاہا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ( فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا ) اِس عمل سے اُن کے ایسے ہواکہ پتھر میں سے بارہ چشمے جاری ہوئے تو اِس ( اِضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرْ ) کا ترجمہ اُنہوں نے بدل ڈالا اور کہا کہ
اپنی لاٹھی ٹیک کر'' پہاڑ'' پر چڑھ جاؤ(بجائے)'' پتھر'' پر چڑھ جائو (کے)''حَجَرْ'' کا لفظ ہے حَجَرْ تو پتھر کو کہتے ہیں ''جَبَلْ '' کا لفظ نہیں ہے جَبَلْ کہتے ہیں پہاڑ کو مگر اُنہوں نے ترجمہ کر ڈالا یہی کہ اپنی لاٹھی ٹیک کر پہاڑ پر چڑھ جائو۔
جب وہاں چڑھے تو وہاں نظر آیا جیسے پرلی طرف دیکھا ہو کہ بارہ چشمے بہہ رہے ہیں ! یہ تصرف تبدیلی تحریف کرنی پڑی اُنہیں ! کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو چیز عقل میں آتی ہے وہ مانیں گے باقی جو عقل میں نہیں آتی تو نہیں مانیں گے، بہت چیزوں کا انکار، جنت جہنم کے وجود کا انکار، عذابِ قبر کا انکار اور پل صراط کاانکار، ایک دو چیز کا نہیں بہت چیزوں کاانکار اُنہوں نے کردیا، یہ سب کہلاتے ہیں معتزلہ، (تو تیرہ سو سال پہلے) سے جو (عقل پرستوں کا) سلسلہ شروع ہوا ہے تو آج تک چلا آرہا ہے یہ سلسلہ۔ ١
اہلِ سنت کا عقیدہ :
تو ایسے ہوا کہ اُن (فلسفیوں ) نے یہ کہا ہے کہ جب انسان اطاعت کرتا ہے تو اللہ کے ذمہ اُس کا بدلہ دینا واجب ہے ! ہمارے یعنی اہلِ سنت کے نزدیک واجب نہیں ہے ، اہلِ سنت میں سارے آتے ہیں حنفی بھی آتے ہیں ، شافعی بھی آتے ہیں ، مالکی بھی آتے ہیں ، حنبلی بھی آتے ہیں یہ سب اہلِ سنت کہتے ہیں کہ واجب اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز نہیں ہے اپنے فضل سے اُس نے واجب کر رکھی ہے،
١ ''عقل پرستی'' ہزاروں برس پرانی دماغی بیماری ہے، اَنبیاء کی پیروی،صحبت اور شاگرد ی کی برکت سے یہ بیماری چلی جاتی ہے اور عقل روشن ہوجاتی ہے۔ محمود میاں غفرلہ
واجب (کا لفظ خود اپنے لیے استعمال )فرمادے تو اُس کا فضل ہے یہ ! ! مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ (نہیں ) اللہ پر واجب ہے ! ! !
تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ جو واجب کر دیتی ہیں ، ایک چیز جہنم کو اور ایک چیز جنت کو، جہنم کو شرک اللہ کی ذات یا صفات میں اور دُوسرا اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا۔
اللہ کے منکر مادّہ پرستوں کے دلائل میں ٹکراؤ ہے :
میں یہ ذکر کر رہا تھا کہ جو ''خدا'' کو نہیں مانتے ''مادّے'' کو مانتے ہیں ! اُن میں تضادبھی پایا جاتا ہے ! ! آپ اگر غور کریں وہ کہتے ہیں کہ کوئی چیز بلا سبب نہیں ہوتی ! بلکہ وہ خدا کی نفی پر جو سبق پڑھاتے ہیں سکولوں میں وہ اس طرح کہ بھوکار رکھتے ہیں ! کہتے ہیں اللہ سے کہو کہ وہ دے دے ! ! مطلب یہ ہے کہ خدا تو نہیں دیتا تم کرو گے تو ملے گا ! ! اس طرح سے لاتے ہیں ذہن کو ! ! ! تو چائے آجائے یہ کبھی نہیں ہوگا بناؤگے پکاؤگے پھر آئے گی ! اسی طرح اِرادہ کرو اور خود بخود ہنڈیا پک جائے یہ بھی نہیں ہوتا ! بہت کچھ کرنا پڑتا ہے پھر تیار ہوتی ہے ! تو خود بخود کچھ بھی نہیں ہوتا وہ یہ کہتے ہیں ! ! اور جتنی بھی چیزیں ایسی (مادّی اور محسوسات کی سی) ہیں (اُن میں ) نظر آتا ہے کہ واقعی خود بخود کچھ بھی نہیں ہوتا ! ! !
تو ایک طرف تو اُن کا یہ پورا زور ہے کہ خود بخود کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ انسان کرتا ہے تو ہوتا ہے اور دُوسری طرف (اُن سے پوچھیں ) کہ بھائی یہ عالَم کیسے چل رہا ہے ساری دُنیا یہ کیسے چل رہی ہے ؟ بارش ہونا ! پودوں کا پیدا ہونا ! اور یہ اور وہ تمام چیزیں ، آپ نے تو کھانا کھایا اور سو گئے ! اور صبح کو اُٹھے تو بھوک لگی ہوئی تھی ! تو یہ جو ہضم ہو گیا تھا یہ سب کیسے ہو گیا ؟ ؟ تو یہ تمام جو چیزیں نظروں سے غائب ہیں اور عمل میں آرہی ہیں ! وہ کھانا جو کھایا تھا وہ گیا کہاں ؟ وہ تو رہنا چاہیے ! جب کھالیا ایک دفعہ تو پھر رہنا چاہیے فناکیسے ہو گیا وہ ؟ تو فنا کا عمل جاری ہے ہر وقت ! اسی لیے دو بارہ کھانا پڑتا ہے، فنا کا عمل جاری ہے تو پانی پینا پڑتا ہے ! جو زائد ہوتا ہے وہ خارج ہوجاتا ہے ورنہ جزوِ بدن بن جاتا ہے اور جزوِ بدن بن کر پھر رہنا چاہیے اُسے یہ بھی نہیں ! وہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فنا ہو رہا ہے ! !
تو یہ جو چیزیں ہیں اس طرف اُن کے ذہن نہیں جاتے ،اُن سے پوچھو یہ عالَم کیسے چل رہا ہے یہ سورج چاند کا نظام بہت باقاعدہ بہت حساب سے اتنے حساب سے ہے کہ ہماری بھی سمجھ میں وہ آنے لگا ہے یعنی انسانوں کی، چنانچہ پیشنگوئی کردیتے ہیں کہ چاند گرہن ہوگا فلاں وقت سے فلاں وقت تک ! سورج گرہن ہوگا ! فلاں فلاں ملک میں نظر نہیں آئے گا ! اور اِس وقت سے اِس وقت تک ہوگا ! ! تو معلوم ہوا کہ یہ سب چیزیں حساب سے چل رہی ہیں ان کو چلانے والا کون ہے اس کو وہ نہیں مانتے ! ارے بھئی اِدھر تو تم کہتے ہو کہ ایک پیالی چائے بن کر نہیں آسکتی بغیر سبب کے، بغیر تمہارے کچھ کیے ! اور اُدھر کہتے ہو کہ سب کچھ خود بخود ہورہا ہے ! تضاد ہو گیا نا ؟ ٹکراؤ ہو گیا نا ؟ وہاں بھی کہو کہ سبب ہے ! اور وہ سبب کیا ہے ؟ اُس کو وہ ''فطرت'' کہہ لیں کچھ کہہ لیں ! ! !
ہم اُس کو کہتے ہیں '' اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک '' اور '' بہت بڑی ذات ہے لامحدود ''
اور وہ کہتے ہیں کہ '' بہت بڑی مخلوق ہے لامحدود '' کیونکہ اُن کی جہاں تک نظر پہنچی ہے وہ بہت دراز فاصلہ ہے وہاں تک روشنی بھی نہیں پہنچ سکتی ! روشنی کو بھی لاکھوں سال چاہئیں ! ! حالانکہ بہت بڑی رفتار ہے روشنی کی ! ! !
تو اللہ تعالیٰ نے اسی لیے ہر اِنسان کے ذمہ کردیا کہ وہ خدا کو تو مانے جب وہ دیکھتا ہے کہ میں کھارہا ہوں پی رہا ہوں میں یہ کر رہا ہوں وہ کر رہا ہوں اور فلاں چیزیں پیدا ہو رہی ہیں اور خود بخود ہو رہی ہیں تو اُس کا ذہن جانا چاہیے کہ کوئی ''خالق ''ہے ! اور ٹکراؤ نہیں ہے آگ اور پانی کا کہ یہ تو پیدا کررہا ہے سبزہ ! اور دُوسرا اُسے آگ لگا رہا ہے ! کیونکہ دو خدا تو نہیں ہیں لہٰذا سبزہ پیدا فر ما رہا ہے سبزہ ہو رہا ہے ! اور جب خشک سالی ہو رہی ہے تو خشک سالی ہی چل رہی ہے ! تووہ جو نظام چاہتا ہے وہ چلتا ہے ! اور وہ سب دیکھتے ہیں ، کوئی ٹکراؤ نہیں ہے کہ ایک پودا آپ نے لگایا وہ اچھا خاصا ہو گیا دوسرا کوئی آیا اُس نے جلا دیا ! تو خیال ہو کہ ہاں بھئی کوئی دو (خدا) ہیں تصرف کرنے والے ! یہ بات نہیں ہے ! !
تو اللہ تعالیٰ ایک ہے فرماتے ہیں کہ ( لَوْ کَانَ فِیْھِمَا اٰلِہَة اِلَّا اللّٰہُ ) اگر زمین اور آسمان میں معبود ہوتے سوائے خدا کے کوئی اور ہوتے ( لَفَسَدَتَا ) تو اُن میں فساد آگیا ہوتا ! یہ گڑبڑ ہوگئے ہوتے ! ٹکراؤ ہوجاتا ٹکراؤ خود بخود ہوتا ہے ! تو یہ بات ہے ہی نہیں ، معلوم ہوا خدا ایک ہے اُس کی ذات ایک ہے۔
کمیونسٹوں کے دلائل خود اُن کے خلاف پڑتے ہیں :
اور یہ کمیو نسٹوں کے دلائل خود اِن کی دلیل سے ٹوٹ جاتے ہیں کہ جب یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ سبب سے ہوتا ہے تو عالَم کیسے چل رہا ہے ؟ اُسے کیوں نہیں کہتے کہ سبب سے چل رہا ہے ؟ اُسے کیوں نہیں کہتے کہ کوئی چلانے والا ہے ؟ مدبر ہے، تدبیر دیتا ہے ! سورج جہاں سے پچھلے سال نکلا تھا اُسی جگہ سے آج نکلا ہے ! کل نکلے گا اُسی جگہ سے ،اسی طرح غروب بھی ! ! یہ باقاعدہ اِتنا مضبوط حساب ہے کہ جس کی اِنتہا تک انسان بڑی مشکل سے پہنچ سکتا ہے ! اُس میں بھی غلطی کر جاتے ہیں ! چاند نظر نہیں آئے گا مگرآجاتا ہے نظر ! یونیورسٹی والے کہہ دیتے ہیں موسمیات والے کہہ دیتے ہیں کسی حساب سے نظر نہیں آئے گا لیکن آجاتا ہے نظر ! تو حق تعالیٰ کی قدرت اور (حسابی نظام) اُس کا اُس کے مطابق اِنسان نکالتا ہے تو انسان سے غلطی ہوتی ہے ! اور اُس کے مطابق قواعد پھر نکالنے پڑتے ہیں کہ فلاں جگہ ہم سے غلطی ہوئی ! !
تو اللہ تعالیٰ کی ذات ِ پاک کے ماننے کے سب مکلف ہیں کیونکہ جس جس کو عقل دی ہے اُس کے پاس اللہ نے دو چیزیں رکھ دیں یعنی فرشتہ بھی ہے جو اُسے اِلہام کرتا ہے کہ تو غور کر یہ ! اگر کہیں بالکل جنگل میں پیدا ہوا ہے بھیڑیے نے پالا ہے اُسے تو وہاں بھی وہ فرشتہ اُس کے ذہن میں ڈالے گا کہ خالق کی طرف توجہ کر ! غور کر ! اگر اُس نے نہیں کیا غور تو اُس کا قصور ہے ! بھیجا جو گیا ہے اُسے تو دارُلامتحان میں ہی بھیجا گیا ہے ! ! (دُوسری چیز شیطان ہے جو برائی کی طرف اُس کو مائل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے)۔
''مُرجیہ'' ایک گمراہ فرقہ :
اب دُوسری طرف ایک اور فرقہ پیدا ہو گیا تھا وہ اِس بات سے گمراہ ہو گیا کہ جو اللہ کا کلمہ پڑھ لے تو اُس کے بعد جو چاہے کرتا رہے کسی چیز سے نقصان نہیں ہوگا ! ! یہ فرقہ ''معتزلہ '' اور ''خوارج'' کے بالکل مدِّ مقابل تھا ، وہ اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ جو ''توحید'' کا اقرار کر لے ''رسالت'' کا اقرار کر لے پھروہ جو چاہے کرتا رہے تو اُسے نقصان نہیں ہوگا ! ! یہ بھی غلط ہے (معتزلہ اور خوارج کی غلط فہمیوں کی طرح) ۔
صحیح عقیدہ :
صحیح چیز وہ ہے جواہلِ سنت کہتے ہیں کہ کلمہ بھی پڑھے خدا کو بھی ایک مانے بِلا شریک کے صفات اور ذات دونوں میں سے کسی میں کوئی شریک نہیں اُس کا اور اعمالِ صالحہ بھی کرے اورخدا سے اُس کی رحمت کی اُمید رکھے کہ میرے یہ عمل اُس کے یہاں قبول ہوگئے ہوں گے ! مجھے یہ اُمید ہے ! بے خوف نہ ہو ! کیونکہ وہ تو غنی ہے نہ قبول کرے تو کچھ بھی نہ قبول کرے ! اور قبول فرمانا چاہے تو وہ رحیم ہے وہ تھوڑی سی چیز کو قبول فرمالے ! تھوڑی سی چیز کو بہت بڑا بنادے ! تھوڑی سی چیز پہ سب کچھ معاف کردے ! تووہ رحمتوں والا بھی ہے ! رؤوف بھی ہے ! بخشنے والا ہے غفور بھی ہے عیبوں کو چھپانے والا ہے، غفور ! غفار ! ستار ! بہت صفات ہیں اُس کی تو بالکل بے خوف ہوجانا کلمہ پڑھ کر، یہ گمراہی ہے ! تواہلِ سنت نے کہا کہ(توحید ورسالت کے عقیدے کے ساتھ) نیکیاں بھی کرے اور پھر بھی خدا کی رحمت پر نظر رکھے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح عقائد پر قائم رکھے اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِیمان کے ساتھ دُنیا سے اُٹھائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اِختتامی دُعا ............
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.