( اپریل 2020 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اللہ کی مرضی کے مقابلہ میں اپنی خواہش کو فنا کر ڈالنا
معاہدہ مسلمان اور کافر دونوں سے پورا کرنا ضروری ہے
دو طرح کے'' مجاہد'' اور دو طرح کے'' مہاجر''
( درس نمبر16کیسٹ نمبر74 سا ئیڈB 23 - 08 - 1987 )
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ خطبہ دے رہے تھے تقریر فرما رہے تھے اُس میں فرمایا کہ
لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَةَ لَہ اُس آدمی کے پاس یا اُس آدمی کے ایمان کا اعتبار نہیں جس کے پاس دیانتداری نہ ہو امانتداری نہ ہو۔
وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَہْدَ لَہ ١ اور اُس آدمی کے دین کا بھی اعتبار نہیں کہ جو عہد کا پابند نہ ہو، وعدہ کر لے معاہدہ کرلے اور پابندی نہ کرے اُس کی، وہ بھی ایسے ہی ہے۔
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٥
تو اُدھر تو اِرشاد فرمایا تھا کہ جو '' لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ '' کہہ لے وہ جنت میں چلا جائے گا ! اِدھر یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ جو اَمانتدار نہیں اُس کا دین ہی کوئی نہیں ! اور جس نے عہد کی پابندی نہیں کی اُس کا دین ہی کوئی نہیں ایمان نہیں ! تو دونوں چیزوں میں بظاہر ایسے لگتا ہے جیسے کہ میل نہ ہو (حالانکہ) یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ مسلمان کو جو جو کام کرنے چا ہیئیں وہ بھی بتا دیے اور یہ بھی بتایا کہ اعمال سے غافل نہ ہو۔
اور آدمی اگر یہ سمجھے کہ میں خدا کے حقوق ادا کر دُوں تو بس کافی ہو گئے یہ غلط فہمی ہے اُس کی ! یہ امانتداری دُوسرے کا حق ہے خدا کانہیں ہے بندوں کا ہے ! ! اور معاہدہ کرے اور اُس کی پابندی یہ بندوں کا حق ہے ! ! اور اُس میں آکے مسلمان بھی کافر بھی دونوں برابر ہو جاتے ہیں ، یہ نہیں ہے کہ آپ نے مسلمان سے وعدہ کیا ہے تو پھر توپورا کریں اور کافر سے کیا ہے تو پابند نہیں ہیں ایسے نہیں ہے بلکہ پابندی ضروری ہے ! ! !
بین الاقوامی معاہدے اور اِسلامی اُصول :
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ کا ہی قصہ ہے کہ ایک معاہدہ کی مدت ختم ہونے لگی تو اُنہوں نے لشکر کَشی کا اِرادہ کیا اور لشکر لے کر روانہ ہوگئے، پیچھے سے ایک صاحب نے آواز دی کہ وَفَائ لَاغَدْر وَفَائ لَاغَدْر ١ اُنہوں نے بلا یا اور بات سنی کہ کیا مطلب ہے اس کا کہ وفا کرو یعنی عہد پورا کرو غداری نہ کرو ! پھر اُنہوں نے بتایا کہ اگر کوئی لوگ آپ سے معاہدہ کرنے کے بعد مطمئن ہوں غفلت میں ہوں مغالطہ میں ہوں (اور اس خیال میں ہوں ) کہ ہم معاہدہ (میں مزید توسیع) کر لیں گے اب وعدہ تقریبًا اس مہینے کے ختم پر ختم ہوجائے گا تو ختم ہوتے ہی حملہ اگر آپ کریں گے تو اچانک ہوگا اور اُن کے خیال کے خلاف ہوگا ! وہ اطمینان سے ہوں گے ! وہ سمجھتے ہوں گے کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے خطرے کی اور آپ اُن کی غفلت سے فائدہ اُٹھائیں گے ! ! (اور اُن کی )وہ غفلت ہوگی آپ پر بھروسہ کی وجہ سے ہے اُس نے آپ پر بھروسہ کیا اس وجہ سے وہ غفلت میں ہیں ! ! !
تو یہ بھی ایک طرح سے بدعہدی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے ! لہٰذا ایسا نہ کریں (بلکہ)
١ مشکوة شریف کتاب الجہاد رقم الحدیث ٣٩٨٠
اُنہیں پہلے بتلادیں کہ آئندہ آپ معاہدہ نہیں کریں گے اُس کے بعد حملہ کریں پھر وہ غداری نہیں ہے ورنہ غداری ہوگی ! ! !
کلمہ گو دو قسم کے ہیں :
مسلمان کو یہ بتلایا گیا کہ جو لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لے گاجنت میں چلا جائے گا اس کے دو مطلب ہیں :
ایک یہ کہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس اقرار کے جو تقاضے ہیں وہ سارے پورے کرے تو جنت میں جائے گا ! اور ممکن ہے بلا حساب ہی چلا جائے ! !
اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ آخر کار جنت میں چلا جائے گا سزائیں وغیرہ بھگتنے کے بعد جو بھی کچھ حال گزرے وہ گزرنے کے بعد ! خدا پناہ میں رکھے وہاں کی ہر قسم کی تکلیف اور سزا سے ، تو اُس سے گزر کر وہ پہنچے گا وہاں ، جنت ہی میں پہنچے گا ! جنت میں جانے کا وہ مستحق بن چکا ہے یہ مقصد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ! دو میں سے ایک مقصد ہے گویا۔
یہ مطلب نہیں ہے کہ بس جس نے یہ کہہ لیا تو پھر ضرور جنت ہی میں جائے گا چاہے جو کرتا پھرے یہ نہیں ہے بلکہ بڑے سخت کلمات ہیں اور اُس میں یہ ہے کہ لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَةَ لَہ اور لَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَہْدَ لَہ امانت نہیں تو ایمان نہیں ، معاہدہ کی پابندی نہیں ہے تو دین نہیں ! اور ''دین'' کا مطلب'' اسلام'' ہے ( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ ) ( وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ )
تو دین اور اسلام ایک ہی معنٰی میں ہے۔
کامل مومن کی علامت :
مسلمان کون ہے ؟ حدیث شریف میں آتا ہے : مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہ وَیَدِہ کامِل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دُوسرے مسلمان محفوظ رہیں وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ ١ مومن وہ ہے جس سے لوگ مطمئن رہیں جان اور مال کے بارے میں وہ مطمئن ہیں کہ کوئی نقصان اس سے ہمیں نہیں پہنچے گا ۔
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٣
اوّل درجہ میدانِ جہاد :
اس میں آتا ہے یہ وَالْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہ فِیْ طَاعَةِ اللّٰہِ ''مجاہد'' کے ایک معنٰی تو وہ ہیں جو میدانِ جہاد میں جائے وہ تو اَوّلین درجہ ہے سب سے بلند درجہ ہے بہت مشکل ہر ایک کے بس کا بھی نہیں ہے صحت نہ ہو تو جوان کے بھی بس کا نہیں ! ! !
باقی فرمایا مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہ فِیْ طَاعَةِ اللّٰہِ جو اپنے نفس سے جہاد کرے اپنے نفس کے خلاف کر لے کہ اللہ کی اطاعت کا تقاضا یہ ہے اور میرے نفس(کی چاہت) کا تقاضہ یہ ہے تواُس میں وہ اپنے نفس سے لڑے اور خدا کا حکم جو ہے وہ پورا کرنے کی پابندی کرے اور اُس کو ترجیح دے۔
اور مہاجر ! مہاجر تو اُس کو کہتے تھے کہ اسلام کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر آجائے مدینہ طیبہ ۔ مہاجر کے اور معنی بھی ہیں ارشاد فرمایا وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْبَ ١ جو گناہ کے کام چھوڑ دے جو غلطیاں کرنی چھوڑ دے وہ مہاجر ہے '' ھَجَرَ'' کا معنی چھوڑا ''مُھَاجِر'' کا معنی وطن چھوڑ کر آنے والا، آپ نے اِرشاد فرمایا وطن چھوڑ کر آنے والا تو ہے ہی ہے۔ جو خطاؤں اور گناہوں سے بچے اور چھوڑ دے اُن کو کرنا وہ مہاجر ِ کامِل ہے ! تو ایمانِ کامِل اُس کا جو اَمانتدار، ایمانِ کامِل اُس کا جو بات کا اور عہد کا پابند ہو ( وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا) عہد جو ہے پورا کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے بارے میں سوال ہوگا۔
دو طرح کے ''مجاہد'' :
اور اِدھر یہ بتلا دیا کہ'' مہاجر'' کے بھی دو ہی معنٰی سمجھ لو اور'' مجاہد'' کے بھی دو ہی معنی سمجھ لو۔ ایک وہ جو فی سبیل اللہ ہے (یعنی) میدانِ جہاد اور ایک وہ ہے جو میدانِ جہاد میں نہیں ہے (مگر) اپنے نفس سے لڑتا ہے ،خدا کی اطاعت کااور اپنے نفس کا جہاں ٹکراؤ ہوجائے تو وہاں اپنے نفس کو چھوڑ کر خدا کی اطاعت کرتا ہے۔
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٤
دو طرح کے ''مہاجر'' :
اور مہاجر ! مہاجر کے معنی چھوڑ نے والا ! توایک تووہ معنٰی ہیں جو(دین اور ایمان کی خاطر) وطن چھوڑ دے ! ! اور دُوسرے معنٰی یہ ہیں کہ خطاء اور گناہ ،یہ کام چھوڑ دے۔
اللہ کے لیے محبت اور نفرت کی وضاحت :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ جس آدمی کی حالت یہ ہوجائے کہ کسی سے محبت ہے تو خدا کے لیے اور بغض ہے تو خدا کے لیے ! وہ نہ خوبصورت دیکھتا ہے اور نہ بدصورت دیکھتا ہے نہ غریب دیکھتا ہے نہ امیر دیکھتا ہے ! اُس کو یہ پسند ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کر رہا ہے وہ نیک ہے اُس سے اُس کو محبت ہوجاتی ہے ! اور چاہے کتنا بھی خوبصورت ہو کتنابھی مالدار ہو کتنا بھی بااثر ہو جب وہ گناہ کا کام کرتا ہے تو وہ اُسے پسند نہیں آتا اُس سے اُسے نفرت ہوتی ہے ! !
اور اگرگناہگار آدمی توبہ کر لیتا ہے تو اُس سے اُسے محبت ہوجاتی ہے ! ! تواس کا مطلب یہ ہے کہ جو نفرت تھی اس آدمی سے وہ بھی خدا کے لیے ! جب اس نے توبہ کر لی گناہ کے کاموں سے تو محبت ہوگئی اس کا مطلب ہے خدا کے لیے ہوئی ! وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ وہ خرچ بھی کرتا ہے خدا کی رضا کے لیے رُکتا بھی ہے تو خدا کی خوشنودی کے لیے فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ ١ ایسے آدمی کو سمجھو کہ ایمان اُس نے مکمل کر لیا ! اپنے نفس کو ختم کردیا درمیان سے ! معاملات جو بھی ہورہے ہیں اُس کے ذریعے وہ وہ ہو رہے ہیں جو خدا نے بتائے ہیں ! اور جو اپنا نفس چاہتا ہے اُس کو اُس نے فنا کردیا ! ! جو خدا کی مرضی ہے بس اُس پر وہ چلتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے اور اسی طرح کرنا ہے، تو جو آدمی اپنے نفس کو بیچ میں سے بالکل ہٹا دے تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ اُس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا ! ! یہ کمالِ ایمان کی دلیل ہے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمانِ کامل عطا فرمائے اپنی رضا سے نوازے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے ،آمین۔اختتامی دُعا ................
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٠
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.