jamiamadniajadeed

نیت کا معاملہ

درس حدیث 243/2 ۔۔۔۔۔ نیت کا معاملہ معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ ''مظلومیت ''مہاجرین کا بڑا اِعزاز ہے۔ اَنبیاء علیہم السلام کی کسی چیز کی توہین پر کفر کا اَندیشہ ہوتا ہے
(1987-04-19)

( فروری 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
نیت کا معاملہ معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ ''مظلومیت ''مہاجرین کا بڑا اِعزاز ہے
انبیاء علیہم السلام کی کسی چیز کی توہین پر کفر کا اَندیشہ ہوتا ہے
( درس حدیث 243/2 ١٩ شعبان ١٤٠٧ھ/١٩ اپریل ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
میں نے یہ پچھلی دفعہ عرض کیا تھا کہ جس طرح سے انسان کا ایک ''ظاہر'' ہے ایک ''باطن ''ہے اسی طرح سے(انسان کی باقی) تمام(دینی) چیزیں ہیں ''ظاہر'' یعنی اعمال ''باطن'' یعنی نیت، یہ بھی دو حصوں پر مشتمل ہوا، ان دونوں کو صحیح ہونا چاہیے اگر نیت صحیح نہیں ہے عمل صحیح ہے تو بھی وزن کم ہوجائے گا نیت صحیح ہے عمل غلط ہوگیا ہے تو بھی وزن کم ہوجائے گا اور نیت غلط ہے بالکل اور عمل صحیح ہے بالکل تو بالکل بے اعتبار ہوجائے گا جیسے منافقین نیت بالکل غلط اور نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جس سے اشرف نماز نہ ہوئی نہ ہوگی باوجود اِس کے بیکار ہے۔ تو نیت کو معمولی سمجھنا یہ توجہ نہ کرنے کی وجہ سے ہے علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے اگر دیکھا جائے تو نیت پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔
علمائِ کرام نے اس حدیث شریف کو اِتنا پسند کیا کہ کتاب کی اِبتداء ہی اس حدیث اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتْ سے کرتے ہیں اِمام بخاری رحمة اللہ علیہ نے بخاری شریف لکھی ہے سفر اور حضر میں وہ لکھتے رہتے تھے جیسے جیسے ذہن میں آتا تھا موقع ملتا تھا وہ لکھتے تھے بڑی پاکیزگی سے بڑی ہی اچھی طرح اتنی اچھی طرح لکھی اُنہوں نے اتنی اچھی نیت سے لکھی کہ وہ کہتے ہیں جَعَلْتُہ حُجَّةً بَیْنِیْ وَبَیْنَ اللّٰہِ یہ کتاب میں نے اپنے اور اللہ کے درمیان ایک حجت بنائی ہے یعنی دلیل ہے یہ میرے عمل کی کہ میرا عمل اس طرح کیوں تھا تو اُس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیا تھا حدیث شریف میں یا یہ آیا ہے قرآنِ پاک میں ، بخاری شریف میں تفسیر بھی لکھی کتاب التفسیر اُس کاایک حصہ ہے تو اُن کے اخلاص کا بہت بڑا درجہ تھا تو خدا کے یہاں سے قبولیت بھی اُسی درجہ کی ہوگئی اور ساری دُنیا کے مسلمان بخاری شریف کو جانتے ہیں امام بخاری کو جانتے ہیں ۔ اورجو صاحب ِ مشکوة ہیں اُنہوں نے بھی یہی کیا ہے کہ اُسی طرز پر سب سے پہلے یہ روایت لائے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتْ اعمال کا اعتبار خدا کے نزدیک نیتوں سے ہے، نیت صحیح عمل صحیح، نیت خراب عمل کا اِ عتبار نہیں ۔
اس میں ایک بات یہ آرہی تھی کہ وَاِنَّمَا لِامْرِیٍٔ مَّا نَوٰی انسان کو وہ ملے گا جو وہ نیت کرے فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ فَہِجْرَتُہ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ جس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے ہے اُس کی ہجرت اللہ اور رسول ہی کے لیے ہے ۔
ایک سوال کا جواب :
اس میں عربی کے اعتبار سے بلکہ ہر زبان کے لحاظ سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ' شرط' اور 'جزا' الگ الگ ہوتے ہیں شرط اور جزاکا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک جملہ بولتے ہیں کہ اگر تم میرے پاس آئے تو میں تمہارے پاس آوں گا تو یہ شرط اور جزا ہوگئی' 'اگر تم میرے پاس آئے' 'تو یہ شرط ہوگئی ''تو میں تمہارے پاس آوں گا'' یہ جزا ہوگئی اس کو شرط اور جزا کہتے ہیں گرائمر کے اعتبار سے نحو کے اعتبار سے تو شرط اور جزا کے جو جملے ہوتے ہیں الگ الگ ہوتے ہیں بعینہ ایک ہی نہیں ہوتے ،اگر کوئی یہ کہے کہ اگر تم میرے پاس آئے تو اگر تم میرے پاس آئے تو یہ کوئی(بامعنٰی) جملہ نہیں بنا ۔ حدیث شریف میں جو عبارت ہے وہ(بظاہر) اسی طرح کی ہے ۔حالانکہ کلام اللہ سب سے زیادہ اعجاز والا اور اُس کے بعد نمبر دو جو اعجاز ہے حدیث شریف کا ہے باقی اور جتنے بھی جملے ہیں یا کلمات ہیں سب میں خامیاں نکلیں گی اور حدیث شریف میں جتنا غور کریں گے خوبیاں نکلیں گی اس لحاظ سے اعجاز ہے اس میں اور یہ اسلام کا اعجاز ہے اور اللہ کے ارادے کا اعجاز ہے اس لیے کہ کسی کا کلام اس طرح محفوظ نہیں رہا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محفوظ رہا اور سند تک موجود ہے باقی کسی نبی کا ہے ہی نہیں موجود ۔تواس طرح بیان کرنے کا مقصود اور حکمت یہ ہے کہ جو کچھ کروگے بعینہ وہی ملے گا تو جس نے نیت یہ کی کہ ہجرت اللہ اور رسول کے لیے ہے تو جتنی اچھی نیت ہوگی بعینہ وہی جزا ملے گی جو اُس کی ہوتی ہے، وہاں آخرت میں بعینہ وہی پائے گا اور اگر خیال ہے اُس کا کہ یہاں کاروبار نہیں چلتا وہاں چلا جاؤں تو پھر یہ اللہ کے لیے نہیں بلکہ پھر اُس کی ہجرت اُسی کام کے لیے ہوگی، شادی کرنے کا خیال تھا کاروبار کا خیال تھا تو پھر جس کے لیے نیت کی ہے اُس نے ،پھر وہی ہوگا بس وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوِامْرَأَةٍ یَّنْکِحُھَا یا تَزَوَّجُھَا فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ ۔ ١
مدینہ منورہ میں پہلا خطبہ :
تو قصہ یہ ہوا تھا کہ ایک عورت تھیں صحابیہ رضی اللہ عنہا اُنہوں نے ہجرت کی تو اُن سے ایک صحابی نے کہا کہ میں شادی کرنی چاہتا ہوں تو اُنہوں نے کہا کہ میں تو مدینہ شریف جاکر رہوں گی اگر شادی کرنی ہے تو وہاں آجاو ٔوہ وہاں چلے گئے ! تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے جب یہ انداز فرمایا تو پھر آپ نے فورًا ہی تنبیہً یہ خطبہ دیا ہے اور یہ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد اتفاق سے سب سے پہلاخطبہ ہے جو آپ نے دیا ہے نیتوں کی درستگی کا۔
فتح ِمکہ کے بعد مکہ میں سکونت کی اجازت نہ ہونے کی حکمت :
اب سمجھ لیجیے کہ ہجرت تھی فرض تو اہلِ مکہ نے ہجرت کی تو جب مکہ مکرمہ فتح ہو گیا تو اُنہیں واپس آجانا چاہیے تھا لیکن نہیں اجازت ملی اُنہیں بلکہ حج کے بعد تین دن صرف رہ سکتے تھے پھر فورًا مدینہ

١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ١ ، بخاری شریف کتاب النکاح رقم الحدیث ٥٠٧٠
واپسی ضروری تھی اس لیے کہ آپ کوپتہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں تو ثواب بتایا گیا ہے ایک نماز کا ایک لاکھ کے برابر اور مدینہ طیبہ میں ہوتا ہے پچاس ہزار کے برابر ایسے ہی بیت المقدس میں بھی پچاس ہزار کے برابر تک گویا احادیث میں ملتا ہے کہ اتنا اتنا ثواب ہے لیکن جو لوگ ہجرت کر چکے تھے اُنہیں پھر بھی اجازت نہیں تھی مکہ مکرمہ واپس جانے کی کیوں ؟ جب ثواب ہے تو پھر کیوں اجازت نہیں ؟ ؟ اس لیے نہیں تھی اجازت کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے کر رکھا ہے کہ جو آدمی وہاں سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے ہیں جب وہ مدینہ طیبہ میں نماز پڑھیں گے مسجد نبوی میں تو اُن کو وہاں (مکہ میں ) نماز پڑھنے کا ثواب بھی ملے گا خود بخود تو نفع تو اس میں زیادہ ہو گیا، پچاس ہزار یہاں اور اس کے اُوپر جو اَلاؤنس اُنہیں مِل رہا ہے وہ اس سے بھی دُگنا ہے وہ ایک لاکھ تو اَب اگر اس پچاس ہزار کو چھوڑ کر فقط ایک لاکھ پر رہتے ہیں تو وہ نقصان ہے تو اس لیے بالکل اجازت نہیں تھی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ...........
''مظلومیت'' مہاجرین کا اعزاز :
اور ایک خاص بات ہے ''مظلومیت '' کی کہ سچ مچ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ مظلوم تھے تو اِن کو یہ حکم تھا اللہ تعالیٰ کو یہ پسند تھا کہ یہ اپنی مظلومیت کا اظہار خدا کے سامنے ہمیشہ ہی کرتے رہیں وہ اسی صورت میں تھا کہ جو گھر تھا (مکہ میں ) وہاں لوٹ کر نہ جائیں کہ ہم تیرے لیے چھوڑ کر آئے تھے اور ایسا چھوڑا کہ بعد میں اُدھر کا ہم نے رُخ ہی نہیں کیا سوائے اس کے کہ عمرے کے لیے چلے جائیں یا حج کے لیے جائیں ۔تواس مظلومیت پر جو عنایت خدا کی طرف سے ہوتی تھی وہ اتنی زیادہ تھی کہ وہ اگر مکہ مکرمہ واپس چلے جاتے تو اُس کا مقابلہ بالکل نہیں ہوسکتا تھااُس کے مقابلے میں وہ بالکل ہیچ تھی ! کیوں ؟ یہ ہیچ اتنا بڑا جملہ اتنی بڑی فضیلت کے باوجود میں ''ہیچ ''کا لفظ کہہ رہا ہوں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا دی ہے کہ اَللّٰہُمَّ اَمْضِ لِاَصْحَابِیْ ہِجْرَتَھُمْ خدا وند ِکریم میرے صحابہ کرام کے لیے جو اُنہوں نے ہجرت کی ہے وہ تو قائم رکھ اور اُسے جاری رکھ یعنی وہ ہٹنے نہ پائے وَلَا تَرُدَّھُمْ عَلٰی اَعْقَابِھِمْ اس طرح کا جملہ فرمایا ان کو اُلٹے پاؤں نہ لوٹا بلکہ ان کی ہجرت قائم رکھ۔
مہاجر کی مکہ میں وفات کا دُکھ :
اب ایک صحابی ہیں مہاجر ہیں حضرت سعد اِبن خولہ رضی اللہ عنہ وہ آئے مکہ مکرمہ ٹھہرے، تین دن کی اجازت تھی اس سے زیادہ نہیں ٹھہرسکتے تھے پتہ نہیں دوستوں نے مجبور کیا یا رشتہ داروں نے مجبور کیا ، کیا بات ہوئی جو وہ تین دن سے زیادہ ٹھہر گئے اور پھر بیمار ہوئے اور وفات ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن پر ترس کھاتے ہوئے یوں فرمایا کرتے تھے لٰکِنَّ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ یَرْثِیْ لَہ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ١ لیکن بیچارہ سعد اِبن خولہ ..................تو غلطی ہوگئی اُن سے تین دن نہ ٹھہرتے یا بیمار ہوگئے ہوتے پھر چاہے مہینہ بھر ٹھہرتے کوئی حرج نہیں تھا مگر بِلاوجہ کے اور بِلا عذرِ شرعی کے اُن کے لیے جائز نہیں تھا تو ہجرت اتنی بڑی چیز تھی اور اس کا ثواب اتنا بڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تنبیہ کی اور نیت درست رکھنے کا حکم فرمایا کہ بالکل درست رکھو نیت ۔
انبیائے کرام سے منسوب کسی چیز کی تحقیر پر کفر کا اندیشہ ہوتا ہے :
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اِنہوں نے جو نیت کی شادی کی تووہ بھی کوئی برا کام تو نہیں ہے بلکہ اِرشاد ہوا اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ ٢ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ٣ اوکماقال علیہ السلام یہ تو میری سنت ہے اور اگر کوئی آدمی نکاح سے چڑتا ہے حقیر سمجھتا ہے وہ میرا نہیں ہے، تو نکاح کو حقیر جاننا یہ غلط ہے چاہے نکاح نہ کرے بہت لوگ ہیں ایسے ،نکاح نہ کرنا الگ بات ہے حقیرجاننا الگ بات ہے کیونکہ یہ فرمایا یہ میری سنت ہے جو چیز سنت ہے اُس کو پھر بنظر حقارت دیکھنا یا برا کہنا وہ جائز نہیں ہے منع ہے یہ ہمیں جاننا چاہیے بڑا ضروری ہے۔
یہ جو گدھا ہے یہ ایک ایساجانور ہے کہ ہر آدمی اس کی مثال دیتا ہے اور بیوقوف کو کہتے ہیں یہ گدھا ہے اور یہی نہیں کہ یہاں کہتے ہیں بلکہ قرآنِ پاک میں بھی ہے ( کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا ) تو بیوقوفی میں ضرب المثل ہے یہ ،لیکن اس کے اُوپر کوئی سوار ہو اور آپ اُس کا مذاق اُڑائیں سواری کا
١ بخاری شریف کتاب مناقب الانصار رقم الحدیث ٣٩٣٦
٢ سُنن ابن ماجہ کتاب النکاح رقم الحدیث ١٨٤٦ ٣ بخاری شریف کتاب النکاح رقم الحدیث ٥٠٦٣
وہ بالکل منع ہے کیونکہ سب انبیائِ کرام اس کی سواری کرتے رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سواری کی ہے اور خَرِ عِیْسٰی تو مشہور ہی ہے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا گدھا۔ اور گدھے مختلف ہوتے ہیں جیسے سندھ میں ہوتے ہیں وہ تو گھوڑے کی طرح بھاگتے ہیں لیکن یہ جانور اِس اعتبار سے اتنا خوش قسمت ہے کہ انبیائے کرام کی سواری رہا ہے، عقل کے اعتبار سے بیوقوف ہونا یہ قرآنِ پاک میں بھی آگیاہے اور ضرب المثل ہے انسانوں میں ، اُس کو منع نہیں کیا گیا مگر سواری کا مذاق نہیں اُڑا سکتے تو لوگ تو بہت بے خوف ہوتے ہیں وہ داڑھی کا مذاق اُڑانا اور چیزوں کا مذاق اُڑانا جو چیزیں ثابت ہوجائیں کہ یہ سنت ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا انبیائے کرام کی تو اُس کا اگر مذاق اُڑاتا ہے تو پھر کفر کا اندیشہ ہے اور ذرا سی بات ہوتی ہے اور اِیمان اور کفر کا سوال کھڑا ہو جاتا ہے تو انسان کو بڑی احتیاط رکھنی چاہیے جب معلوم ہوجائے کہ یہ چیز سنت ہے بس پھر اس کے بعد اُس کے بارے میں کوئی برا کلمہ نہیں کہہ سکتا ۔
تو سرور ِ کائنات علیہ الصلٰوة والتسلیم نے یہ فرمایا نکاح میری سنت ہے اب اُسے کوئی برا نہیں کہہ سکتا ،ان صحابی نے اگر اِس (نکاح)کی نیت کرلی تو کون سی بری بات کی نیت کی ہے ؟ تو بری بات کی نیت نہیں ہے مگر مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ جو بہت افضل چیز ہے اُس کو چھوڑ کر ایک ایسی چیز میں لگ گئے جو بہت چھوٹی سی ہے ۔
بعض تاجروں کا رونا اور ناشکری :
یہ تاجر طبقہ جوہے میں نے سنا ہے کئی دفعہ اچھے خاصے لوگوں سے سنا ہے کہ پندرہ لاکھ کا نقصان ہو گیا دس لاکھ کا نقصان ہو گیا بیس کا لیکن دیکھنے میں پھر بھی وہ ٹھیک ٹھاک ! تو معلوم یہ ہوا کہ نفع جتنا اُنہوں نے سوچا تھا کہ اس سال مجھے پچاس لاکھ کا نفع ہوگا اور پچاس لاکھ کا نہیں ہوا پینتیس لاکھ کا ہوا ہے اس لیے وہ رو رہا ہے کہ میرا پندرہ لاکھ کا نقصان ہو گیا بالکل اسی طرح سے یہ بھی ہے کہ نقصان جو ہوا اُن کا وہ نفع کا نقصان ہو گیا ،کسی کو اگر لاکھوں ملنے والے ہوں اور اُسے ایک آنا ملے پانچ کا سکہ ملے تو کتنا بڑا نقصان ہے اسے ؟ مِلا تو ہے اس میں شک نہیں ہے فائدہ ہوا ہے حاصل ہی کچھ ہوا ہے لیکن نقصان کتنا بڑا رہ گیا نفع میں کتنی کمی آگئی جیسے کہ نہ ہونے کے برابر ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی آدمی اگر کسی جائز کام کی بھی نیت کر کے آرہا ہو تو بھی وہ وہ بات حاصل نہیں کر سکتا جو خدا اور رسول کے لیے ترک ِ وطن کرنے میں حاصل ہوتی ہے۔
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث شریف میں نیت پر زور دیا ہے اور میں نے عرض کیا جیسے ظاہر اور باطن دو چیزیں ہیں انسان کے ساتھ لگی ہوئی اُسی طرح سے یہ(انسان کے) اعمال میں بھی ہے ظاہر اور باطن ان دونوں میں تطابق ہونا ضروری ہے دونوں کا صحیح ہونا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں یہ بھی نہیں ہے کہ آپ کسی طرح سے ظاہرًا (اچھائی)کرتے رہیں اور باطنًا خراب نیت ہو اور پھربچ جائیں خدا کی نظر سے یہ تو نہیں ہو گا، خدا کے یہاں تو پتہ چلتا ہے، اُس کا فرق اجر پر بھی پڑے گا تمام چیزوں پر پڑتا ہے اُس کا اثر۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے نوازے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اِختتامی دُعا ............

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.