حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب ؒ کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ’’خانقاہِ حامدیہ چشتیہ‘‘ رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ ’’ انوارِ مدینہ‘‘ کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس ؒ کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس ؒ کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
بیعت میں بندہ اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کرتا ہے
پیر کا بیعت یا کسی بھی موقع پر غیر عورتوں کو چھونا حرام ہے
{ تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب }
( درس نمبر 15کیسٹ نمبر 71 سا ئیڈA 28 - 06 - 1987 (
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی ہیں حضرت عَمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ اپنا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ میں جناب ِرسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں آیا تو میں نے عرض کیا کہ اُبْسُطْ یَمِیْنَکَ فَلِاُبَایِعْکَ جناب اپنا داہنا دست ِ مبارک پھیلائیے میں بیعت ہوجاؤں فَبَسَطَ یَمِیْنَہٗ رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا دست ِ مبارک پھیلادیا، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت ہوتی ہے یہ ایک طرح کا معاہدہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ِ پاک سے ! ماضی میں جو کچھ کیا ہے اُس سے توبہ ! آئندہ نہ کرنے کا وعدہ ! آئندہ گناہ نہیں کروں گا اور استغفار بھی کرتا رہوں گا ،گناہ تو ہوتے رہتے ہیں پتہ بھی نہیں چلتا انسان کو ! اور بیعت جو ہے وہ زبانی بھی ہو سکتی ہے ہاتھ پر ہاتھ نہ رکھیں اس طرح بیعت ہو یہ بھی ہو سکتی ہے ! اور غائبانہ بھی ہو سکتی ہے خط و کتابت کے ذریعہ ! زبانی کہلانے کے جواب میں بھی ہو سکتی ہے۔
’’موت پر بیعت ‘‘کا مطلب :
اب حدیبیہ کے موقع پر چودہ سو کے قریب صحابہ کرامؓ نے بیعت کی تو اُس میں کوئی لمبے کلمات تو نہیں تھے، آتے تھے آکر بیعت کرتے تھے کہ میں جہاد میں ثابت قدم رہوں گا چاہے مرجاؤں ! پیچھے نہیں ہٹوں گا ! ! تو کوئی صحابی تو کہتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی کہ بھاگیں گے نہیں ! کوئی صحابی کہتے ہیں کہ بیعت علی الموت کی ! ’’ بیعت علی الموت‘‘ کامطلب بھی یہی ہے، یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم ضرور مر ہی جائیں گے ! ! بلکہ اس کامطلب بھی یہی ہے کہ بھاگیں گے نہیں چاہے مرجائیں ! ! ! تو اُس میں صرف یہ کلمات تھے تو چودہ سوصحابہ کرام تھوڑی دیر ہی میں بیعت ہوگئے تفصیلی لمبے کلمات کی ضرورت نہیں ’’میں نے بیعت کر لیا‘‘بس ! بیعت ہونے والے جواب میں کہہ دے تو بھی بیعت ہوگئی لیکن جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے دست ِمبارک سے مس ہوجانا کسی کے ہاتھ کا ! یہ تو بہت بڑا شرف ہے انمول ہے بہت بڑی بات ہے ! ! !
عورتوں کو بیعت کرنے کا طریقہ :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے ذکر ہوا ہوگا عورتوں کی بیعت کا کہ بیعت ہوا کرتی تھیں یا نہیں ؟ ہوتی تھیں تو کس طرح سے ہوتی تھیں ؟ مردوں کا تو یہ دیکھنے میں آتا تھا کہ ہاتھ مس کرتے ہیں اور جو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم وعدہ لیں وہ وعدہ کرتے ہیں یہ بیعت ہوگئی ! !
تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ عورتیں کیسے بیعت ہوتی تھیں ؟ تواُنہوں نے فرمایا اور بقسم فرمایا کہ مَا مَسَّتْ یَدُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم یَدَ امْرَأَۃٍ قَطُّ ۱؎ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا دست ِ مبارک کسی اجنبی عورت کے لیے بیعت کرنے کے واسطے کبھی نہیں چھوا بالکل ! کَانَ کَلاَمًا ہاں زبانی آپ بیعت فرماتے تھے ۔ اُس کا طریقہ یہ تھا کہ آپ نے ایک مضمون ارشاد فرمادیا سنادیا کہ ایسے ہے
۱؎ بخاری شریف کتاب الطلاق رقم الحدیث ۵۲۸۸
ایسے ہے ایسے ہے تم لوگ عہد کرو اَنْ لاَّ یَسْرِقْنَ وَلاَ یَزْنِیْنَ زنا نہیں کریں گی چوری نہیں کریں گی وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ کسی پربہتان تراشی نہیں کریں گی وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ اچھی بات جو ہوگی اُس میں کبھی نافرمانی نہیں کریں گی فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَ تویہ حکم دیا ہے اللہ نے کہ بیعت کرلو اور اللہ سے اُن کے واسطے دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی خطائیں معاف فرماتا رہے یا معاف فرمادے استغفار کرو اُن کے لیے ! تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا طریقہ یہی تھا اس طرح کے کلمات فرمادیتے تھے کہ یہ نہیں کرنا ! یہ نہیں کرنا ! یہ نہیں کرنا ! اور یہ کرنا ہے پھر دریافت فرمالیتے تھے اَنْتُنَّ عَلٰی ذَالِکْ ۱؎ تم اس عہد کو قبول کرتی ہو ؟ تم اس عہد کی پابندی کرنے کا عہد کرتی ہو ؟ وہ کہہ دیتی تھیں کہ جی ہاں ! یہ بیعت ہوئی لیکن دست ِ مبارک سے کسی عورت کو چھواہو یہ نہیں ہوا کبھی بھی !
پیر کا غیر عورتوں کو ہاتھ لگانا حرام ہے :
لہٰذا آج کے دور میں اگر کوئی پیر آئے اُس کو عورتیں مس کریں وہ عورتوں کو مس کرے دونوں چیزیں حرام ہیں ! ! رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے نہیں کیا جن کے لیے ساری اُمت اولادہے اور ساری اُمت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم شفیق بھی ہیں والد بھی ہیں سب کچھ ہیں آپ نے نہیں کیا ایسا کام ! ! ! تو اب اگر کوئی پیر بے پردگی پھیلاتا ہو وہ غلط ہے خلاف ِ شرع ہے بالکل حرام ہے توایسا پیر جو اس طرح کرے وہ ہدایت کا ذریعہ نہیں بن سکتا ! کیونکہ وہ تو ایک نہایت غلط کام کی طرف دعوت دے رہا ہے ! خود غلط کام میں مبتلاء ہے کہ وہ چھو رہا ہے ! ! !
عرب کے چار دانا :
بہرحال حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے جب یہ درخواست کی تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنا دست ِ مبارک پھیلادیا ! اب کہتے ہیں حضرت عمرو بن العاصؓ فَقَبَضْتُ یَدِیْ کہ پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ! اب یہ بات بڑی عجیب تھی ! ! کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم تو اپنا دست ِ مبارک
۱؎ بخاری شریف کتاب التفسیر رقم الحدیث ۴۸۹۵
اُنہیں بیعت ہونے کے لیے عنایت فرمارہے ہوں اور وہ پیچھے ہٹ جائیں ! ! تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا مَالَکَ یَا عَمْرُو کیا بات ہے عمرو کیا ہوا ؟ ؟ یہ تمہیں کیا ہوا ! تو تھے یہ بہت ہوشیار، بہت ہی زیادہ ہوشیار لوگوں میں اِن کاشمار تھا، چیدہ چیدہ عرب کے نامور سمجھدار لوگ جو گزرے ہیں اُن میں شمار ہے ان کا، حضرت عمرو بن العاص ہیں ، حضرت معاویہ ہیں ، مغیرہ ابن ِ شعبہ ہیں اور قیس(ابن سعد بن عبادہ( ہیں ۱؎ رضی اللہ عنہم ، یہ سب’’ دُہاۃِ عرب‘‘ ۲؎ میں گو یا شمار ہوتے تھے بہت بڑے بڑے صاحب ِ تدبیر بھی اور بہادر بھی۔
گوریلا جنگ کے ماہر :
حضرت مغیرہ ابن ِ شعبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو کہتے تھے کہ اگر کسی مکان میں بند کرکے سارے دروازے بند کردیں اُس کے، تو بھی اپنے لیے وہ راستہ نکال لیں گے ! ! وہ گوریلا لڑائی کے ماہر تھے ! بہادر بھی تھے ! تو یہ بھی اسی طرح بہت ہوشیار بہت بر موقع ہر چیز سوچ سکنے والے ! !
تو یہ(عمرو بن عاصؓ( عرض کرنے لگے اَرَدتُّ اَنْ اَشْتَرِطَ میں جو بیعت ہونا چاہتا تھا میرے ذہن میں یہ آیا کہ میں ایک شرط لگاؤں بیعت ہونے کے لیے تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم کی طبیعت ِ مبارکہ میں شفقت، نرمی، حِلم بہت زیادہ تھا برا نہیں مانے ! حالانکہ یہ حرکت ایسی کی کہ بیعت ہونے کو کہتے ہیں ! جب آپ نے دست ِ مبارک آگے بڑھایا تو اُنہوں نے پیچھے کھینچ لیا خفگی بھی ہو سکتی تھی ! مگر پوچھا کیا ہوا ہے تمہیں ؟ یہ کیا ہوا ؟ توجواب میں یہ کہہ رہے ہیں میں چاہتاہوں ایک شرط لگاؤں اس پر بھی خفگی ہو سکتی تھی ! مگر دونوں دفعہ خفگی نہیں ہوئی ! ! بلکہ وہ نرمی شفقت محبت حلم جو نبی کا ظرف ہوتا ہے وہ قائم ہے بدستور ! تو دریافت فرمایا کہ تَشْتَرِطُ مَاذَا کیا شرط لگانی چاہتے ہو ؟ قُلْتُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ
۱؎ یہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم کے صاحبزادے ہیں ۔ (تہذیب التہذیب ج۵ ص ۳۶۶(
۲؎ Great Thinktanks
یا یُغْفَرَلِیْ تو وہ کہنے لگے کہ میں یہ شرط لگانی چاہتاہوں کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں ! ! گویا جناب میرے لیے ذمہ داری لے لیں کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں ! ! !
تسلی بخش جواب ،اہم نکتہ سمجھایا :
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے اُن کو چند مسائل بتلا ئے قَالَ اَمَا عَلِمْتَ یَاعَمْرُو تمہیں یہ نہیں معلوم اے عمرو !
اَنَّ الْاِسْلَامَ یَہْدِمُ مَاکَانَ قَبْلَہٗ اسلام جب کوئی قبول کرتا ہے تو جوکچھ پہلے کیا ہوتا ہے سب ختم !
وَاَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَاکَانَ قَبْلَہَا ہجرت جو کیا کرتے تھے اور ہجرت فرض تھی تو ہجرت بھی ایسی ہی چیز تھی جو کچھ پہلے ہوا ہے اللہ معاف فرمائیں گے ! اور یہ بھی فرمایا کہ
اَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَاکَانَ قَبْلَہٗ ۱؎ آدمی اگر صحیح طرح ڈرتا ہوا تواضع کرتا ہوا اِستغفار کرتا ہوا حج کے ارکان ادا کرتا ہے گناہ سے بچتے ہوئے کرلیتا ہے تو جو اُس سے پہلے ہوئے ہیں گناہ وہ معاف ہوجاتے ہیں !
تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (تو(یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کی شرط لگائی جائے ! تو پھر یہ بیعت ہوگئے۔
لیکن سمجھداری کی بات ہے اور سمجھداری دین میں بھی کام آتی ہے اور سمجھداری سے کام کیا جائے تو بہت سا راستہ طے ہوجاتا ہے ایک دم، دینی اعتبار سے بھی اسی طرح ہے جیسے دُنیاوی اعتبار سے ہے کہ آدمی سوچتا رہتا ہے کہ مقصد کو پہنچنے کا قریبی راستہ ،قریبی تدبیر کیا ہو سکتی ہے اسی طرح سے آخرت کا اور اللہ تعالیٰ کی ذات ِ پاک کا معاملہ بھی ہے کہ اسلام نے تو بتلادی ہیں تمام چیزیں اب ان میں سے انتخاب کرنا اور قریب تر راستہ ڈھونڈنا یہ آپ کا کام ہے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر استقامت دے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے ، آمین ۔ اختتامی دُعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ مشکوہ شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ۲۸
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.