jamiamadniajadeed

فطرت '' بھی مخلوق ہے''

درس حدیث 257/14 ۔۔۔۔۔ اللہ کے وجود کے منکر بھی اُس کے وجود کے قائل ہیں ! اوربعض کمیونسٹ متردّد ! !''فطرت '' بھی مخلوق ہے ''اللہ'' اس سے بالا اور اُس کا خالق ہےایٹمی ذرہ'' اکائی'' نہیں بلکہ اُس کے اندر بھی'' اکائیاں'' ہیںدُنیا'' امتحانی کمرہ'' ہے یہاں ''جہالت'' عذر نہیں بن سکتی (1987-07-26)

( فروری 2020 ء )




اللہ کے وجود کے منکر بھی اُس کے وجود کے قائل ہیں ! اوربعض کمیونسٹ متردّد ! !
''فطرت '' بھی مخلوق ہے ''اللہ'' اس سے بالا اور اُس کا خالق ہے
ایٹمی ذرہ'' اکائی'' نہیں بلکہ اُس کے اندر بھی'' اکائیاں '' ہیں
دُنیا'' امتحانی کمرہ'' ہے یہاں ''جہالت'' عذر نہیں بن سکتی
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
(درس نمبر 14 کیسٹ نمبر 72 سا ئیڈB 26 - 07 - 1987 )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
.................................اور پھر یہ غور نہ کیا کہ خالق کون ہے میرا ،رب کون ہے میرا ؟ یہ جو کچھ ہوتا ہے دُنیا میں یہ خود بخود ہو رہا ہے اس کا قائل تو کوئی نہیں ہو سکتا ! مگر ہیں بھی جو باری تعالیٰ کے وجود کو نہیں مانتے ! وہ یہی کہتے ہیں کہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے ! ! لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ خود بخود تو کچھ بھی نہیں ہوتا آپ کو محنت کرنی پڑتی ہے تو پھر کمائی ہوتی ہے اور محنت کرنی پڑتی ہے تو کھانا تیارہوتا ہے تب رزق پیٹ میں جاتا ہے ! اور تن پہ کپڑا آتا ہے، کوئی چیز بھی آپ بوتے ہیں وہ ہوتی ہے، نہیں بوئیں گے تو گھاس ہی ہوگی ! خود بخود تو نہیں ہوتاگہیوں پیدا۔ تو عالَم کی تمام چیزیں یہ بتلاتی ہیں کہ کوئی قدرت طاقت ایسی ہے جس کی وجہ سے یہ کام ہو رہے ہیں ! جو لوگ کہتے ہیں کہ خودبخود ہو رہا ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ'' فطرت''(کی کار گزاری ہے یہ) اتنے تک وہ بھی قائل ہیں ! ! !
تبدیلی کا دعویٰ مگر عمل پرانے مذہب پر :
اور جولوگ وجودِ باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں جیسے کمیونزم والے وہ بھی ایک درجہ میں خدا کو مانتے ضرور ہیں ! آپ نے دیکھا ہوگا کہ تجہیز و تکفین میں یہ لینن وغیرہ جو ہیں ان کا جو اصل مذہب تھا یہودی تھے یا جو بھی کچھ تھے اُسی(مذہب کے) اعتبار سے اِن کو دفنایا گیا مقبرہ بنا یاگیا ۔
جو لوگ کمیونزم(اپنانے) سے پہلے ہندوؤں کی طرح مشرک تھے بدھ مذہب والوں کی طرح مشرک تھے اور اُن کے یہاں مُردوں کو جلایا جاتا تھا تو اب بھی جلایا جاتا ہے ،یہ جو اب مرے ہیں چند صدر پے درپے اُنہیں جلایا گیا تو کسی کو جلایا جاتا ہے کسی کو دفنا یا جاتا ہے یعنی جو مذہب پہلے تھا اُن کا اُس کا اثر چل رہا ہے اندر اندر، حالانکہ زبان سے یہ کچھ کہتے ہیں ۔
اگر اللہ کے وجود پر دلائل مشکل ہیں تو اُس کا انکار اِس سے بھی زیادہ مشکل ہے :
تو جیسے حق تعالیٰ کے وجود کا ثبوت اور نظر آنا مشکل ہے تو وجود کا انکار بھی بڑا مشکل ہے یہ کام سارے خود بخود ہوجائیں یہ نہیں ہو سکتا یہ وہ مانتے ہیں اور جاپان میں غالبًا ملاقات ہوئی تھی امریکہ کے صدر اور رُوس کے صدر کی تو اُس نے کہا تھا کہ لڑائی اگر ہوئی جنگ چھڑی اور نقصان ہوا ''خلقِ خدا'' کا تو
''خدا'' ہمیں ''معاف'' نہیں کرے گا ١
اب وہ کمیونزم کا قائل کمیونسٹوں کا سردار اُس نے یہ جملہ کہا کہ خدا ہمیں معاف نہیں کرے گا ! ! تو معلوم ہوا کہ آخرت کا بھی تصور ہے مَا بَعْدَ الْمَوْت بھی کچھ ہوتا ہے ! یہ تصور بھی ہے ! !
تردّد ..... انکار بھی اقرار بھی :
اور یہ سبق دینا کہ جو تم کروگے وہ ہوگا اور خدا کے کیے سے نہیں ہوتا تمہارے کیے سے ہوتا ہے تمہیں خود کرنا پڑے گا اب یہ اُنہوں نے قوم کو کام پر لگانے کے لیے نعرہ لگایا یا کس طرح نعرہ لگایا
١ ''مخلوق'' اور اُس کے'' خالق'' '' پیشی'' اور'' سزا و جزا '' کا بھی تصور ہے۔ محمود میاں غفرلہ
اور یہ کتنا کامیاب ہوا ! کیا دِلوں سے یہ بات مٹی کہ خدا کا وجود ہے ؟ ؟ کیا واقعی یہ کہنے لگے ؟ یا واقعی نہیں کہہ رہے ہیں ؟ ؟ توایک دفعہ قائل ہوگا ایک دفعہ منکر ہوگا اس طرح سے ہوگا ! ! بالکل وجود کا قائل نہ ہو یہ غلط ہے یہ بڑا مشکل کام ہے ! ! (بلکہ متردّد اور حیران ہی رہے گا)۔
دُنیوی نظام اور عقل کا دھوکہ :
بلکہ فطرت ِ انسانی جو ہے وہ تو جو دُنیا میں نظام دیکھتی ہے اُس کی قائل ہے ،دُنیا میں نظام یہ ہے کہ ہم کوئی بھی کیس کریں گے یا تقرب حاصل کرنا چاہیں تو ڈی سی کے پاس جائیں گے اُس کو درخواست دیں گے پھر وہ آگے جائے گی درخواست، کیونکہ براہِ راست گورنر سے میل ملاپ ایک دم نہیں ہوتا ،واسطہ در واسطہ ہوتا ہے۔ تو عام طور پر جو لوگ ہیں وہ یہی سمجھ بیٹھے کہ خدا تک پہنچنے کے لیے بھی واسطے چاہئیں ! اور وہ واسطے کون ہیں ؟ یہ بزرگ ہیں ! اور یہ کون ہیں ؟ یہ بالکل مختار ہیں ! اور ایک علاقہ ایک کے حوالے دُوسرادُوسرے کے حوالے ! اور ایک قسم کا کام ایک کے حوالے دُوسری قسم کا کام دُوسرے کے حوالے ! اور ایک قوم کا کام ایک کے حوالے اور دُوسری قوم کا کام دُوسرے کے حوالے ! !
یہ'' لات'' اور ''منات '' اور ''عزٰی'' یہ الگ الگ بت تھے اورالگ الگ قوموں کے تھے انصار جو تھے یہ اِحرام باندھتے تھے ''منات'' کا حج کے موقع پر ،اِنہوں نے اپنا بت الگ بنا رکھا تھا گویا ایک قوم کا وہ خدا تھا ! اور (یہ دستور) چلا کہاں سے ؟ یہ اَنبیائے کرام اور اَولیائِ کرام(کو اُن کے مرتبہ سے بڑھا کر اللہ کی ذات و صفات میں شریک جاننے ) سے چلا ہے ۔
اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ اِس کی ابتدا بھی اسی طرح ہوئی تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں کفر تھا نہ شرک تھا بعد کے دور میں اس طرح ہو اہے کہ اُنہوں نے اُن لوگوں کے بت تراش لیے جنہیں بزرگ سمجھتے تھے تصویریں بنالیں جنہیں بزرگ سمجھتے تھے اُن کی ! کس لیے ؟
تبرکاً اور یادگار کے طور پر ! اس لیے نہیں کہ وہ شریک سمجھتے ہوں وہ غلط کار ہوں ، یہ بات نہیں تھی لیکن جب وہ ختم ہوگئے اور اگلی نسلیں آئیں تو اُنہوں نے اُن کو ڈنڈوت ١ کرنی شروع کردی جیسے ہاتھ جوڑتے ہیں سر جھکالیتے ہیں یا سجدہ کرلیتے ہیں یا اور آگے................. تو پھر عبادت شروع کردی، کہتے ہیں ( مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ) ہمیں اللہ کا مقرب بنائیں اس لیے ہم پوجتے ہیں ان کو ! تو انسان تو یہ دیکھتا ہے کہ دن رات جو کام ہوتے ہیں بادشاہت تھی پہلے بادشاہ تک پہنچنا اور اب صدر تک پہنچنا واسطہ در واسطہ ہوتا ہے کوئی اُس کا ملنے والا ڈھونڈیں گے، وہ آپ کو ملادے توملادے ورنہ توملنا ہی نہیں ہو سکتا، اسی طرح خدا کے بارے میں بھی جتنی بھی غلطی پر قومیں گزری ہیں مشرک گزری ہیں اُن کا عقیدہ یہی تھا کہ خدا تک براہِ راست پہنچنا جو ہے وہ بغیر اِن کے نہیں ہوگا ! ! !
مسلمان ایسے نہیں ہیں :
خدا کا شکرہے مسلمان تو اس میں نہیں ہیں مبتلا ورنہ تو نماز ہی وہاں پڑھا کرتے جہاں بزرگ کا مزار ہوتا ! وہ آگے اور نماز اِدھر ،اسی لیے قبر کے سجدے کو منع کرتے ہیں اور اس میں دُنیا بھر میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، دیوبندی، بریلوی کوئی لے لیں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ قبر کو سجدہ چاہے تعظیم کی نیت سے ہو خدا بنا کر نہ ہو وہ حرام ہے، سب نے یہ لکھا ہے سب نے یہ فتوی دیا ہے، یہ تو بالکل جاہل جو نماز بھی نہیں پڑھتے وہ ایسا کچھ کر لیتے ہیں ،باقی جو نماز پڑھتے ہیں وہ تو ایسی حرکت نہیں کرتے ، نماز پڑھنے کے لیے وہ مسجد ہی میں جائیں گے امام ہی ڈھونڈیں گے خدا ہی کی عبادت کریں گے لیکن عقیدت میں کچھ دخل اُن بزرگوں کو دے دیتے ہیں ۔
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری قبر کو تم سجدہ گاہ نہ بنانا اور اُن لوگوں کو جو پہلی قومیں گزری ہیں اُن کو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے'' لعنت'' کے لفظ سے یاد فرمایا لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الْیَھُوْدِ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ ٢ اُنہوں نے اپنے انبیاء ِکرام کی قبروں کو مسجد بنایا سجدہ گاہ بنایا اوریہ بالکل شرک ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لیے اُنہیں سمجھ لے آدمی ذریعہ ..............
١ ماتھا ٹیکنا ، بندگی بجا لانا ١ بخاری شریف کتاب الصلٰوة رقم الحدیث ٤٣٥
ہر کوئی ہر جگہ خود بھی دُعا مانگ سکتا ہے :
اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہرجگہ موجود ہے اور ہر جگہ اُس سے دُعا کی جاسکتی ہے اُس کی طرف دل کا رُجوع ہر وقت کرنا چاہیے رکھنا چاہیے اور اُس سے دُعا کے لیے، بات کرنے کے لیے، اپنی اِلتجا پیش کرنے کے لیے یہ نہیں ہے کہ کسی اور سے آپ کہیں اوروہ کرے آپ کی طرف سے تو ہی ہوگی ورنہ نہیں ہوگی یہ بات نہیں ہے ! آپ کہتے ہیں ایک دُوسرے سے کہ ہمارے لیے دُعا کریں اُس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ خود نہیں کر سکتے دُعا حدیث شریف میں بتایا گیا ہے کہ ایک دُوسرے کے لیے دُعا کرو تو وہ زیادہ قبول ہوتی ہے بِظَہْرِالْغَیْب ِ ١ جہاں وہ موجود بھی نہ ہو وہاں اُس کے لیے کوئی دُعا کرے وہ زیادہ قبول ہوتی ہے یہ بتلایا گیا ہے۔
وسیلہ ؟
اسی طرح ''وسیلہ'' کہ اے اللہ تعالیٰ فلاں کے وسیلہ سے میں دُعا کرتا ہوں یہ بھی دُرست ہے یہ بھی جائز ہے اور یہ تصور ناجائز ہے کہ اللہ سے ہم براہِ راست مل ہی نہیں سکتے جب تک یہ واسطہ نہ اختیار کریں ،یہ غلط ہے، اسلام نے اس کو منع کردیا ۔
تو(کفار میں )دُنیا کی بیشتر آبادی تو اسی طرح کے لوگوں کی ملے گی جو خدا کو مانتے ہیں مگر ساتھ میں شرک بھی کرتے ہیں ۔
اور بہت کم آبادی ایسی ملے گی جو خدا کا انکار کرتے ہوں ، رُوس کے اندر جو ممبر ہیں وہ کمیونسٹ ہونے چاہئیں ، کمیونزم پر اُن کا اِیمان ہو، مذاہب کی نفی پر اِیمان ہو مگراُن کا حال دیکھ لیں تو یہی ہے کہ جو مرتا تھا اور جلتا تھا وہ آج بھی جلتا ہے اور جو مرتا تھا دفن ہوتا تھا وہ آج بھی دفن ہوتا ہے وہ ہیں بہت کم اوروہ بھی خدا کو ماننے سے خالی نہیں ہیں کیونکہ جب مشکل پڑتی ہے تو خدا یاد آیا ہے اور لکھا بھی تھا اُنہوں نے اُس زمانے میں ع جب کیا تنگ بتوں نے تو خدا یاد آیا ! !
١ مشکوة شریف کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٢٢٨
اللہ کے منکر ''فطرت'' کے قائل ہیں :
اب جو ناسمجھ ہیں اور نا سمجھی میں انکار کرتے ہیں اُن میں بھی تو درجے ہیں بالکل انکار کرنے والے بھی ملیں گے وہ کیا کہتے ہیں سب کام'' فطرت'' سے ہوتے ہیں ! ! تو'' فطرت'' کوئی طاقت ہوئی نا ! !
مسلمان ''فطرت'' سے بھی بالا ''ایک ذات'' کے قائل ہیں :
تو اُنہوں نے جس طاقت کو'' فطرت'' کہا ہے تو اُس سے پرے ایک طاقت ہے جو سب سے بڑی ہے جو ایک ہے اور وہ خدا ہے کیونکہ ایک ہونا ! اس تک تو پہنچنا ہی پڑتا ہے ! سوچتے سوچتے آدمی ایک ہونے تک تو پہنچتا ہے پھر اُس سے مرکب پیدا ہوئے جیسے گنتی میں ''ایک'' کے بغیر تو'' دو'' بنے گا نہیں تو ایک تک تو پہنچنا لازمی ہے پھر اُس کے بعد مرکبات ہیں انسان مرکب ہو گیا انسان کی رُوح وہ بھی مرکب ہے مگر بِاَمْرِاللّٰہْ پیدا ہوئی ہے ! اور تمام چیزیں مرکبات ہیں ، یہ سبزی یہ پھول یہ پیداوار جس چیز کی بھی ہو سب مرکب ہیں ! ! اور انسان جو دیکھتا ہے ایجاد کرتا ہے وہ اُسی کی چیزوں کو جوڑ جوڑ کر نئی ایجادات کرلیتا ہے جو اُس نے پیدا فرمائی وہ بھی مرکب اور جو یہ انسان بناتا ہے یہ اُن مرکبات سے مرکب ! ! !
اکائی سے نیچے کی طرف سفر !
اور کبھی'' نفی'' کی طرف چلتے ہیں تو''نفی ''کی طرف چلنا اب شروع کیا ہے تو بھی ایک طاقت نظر آئی، انہیں '' ایٹم''(ATOM) نظر آگیا یہ الیکٹرون(ELECTRON) اور پروٹون (PROTON) اُس میں مرکب نظر آگئے اور (اس کے اندر)ایک عالَم ہے زبردست طاقت ہے اُس میں ،اُس کو سب مانتے ہیں تونفی کی طرف جاتے ہیں ایک ہونے کی طرف جاتے ہیں ! !
اور یہ تو مادّی طور پر ہے جو نظر آرہا ہے ،آلات کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی تو با اِرادہ ٔاِلٰہی پیدا ہوا ہے اور جب یہ معدوم ہوجاتا ہے تو بھی تو کچھ رہتا ہے بہرحال بہت مسائل ہیں اور لطیف اور دقیق مسائل ہیں لیکن عام فطرت کے سادہ لوگ دیکھ لیں آپ ، تو وہ توسل چاہتے ہیں اور توسل ،توسط ، واسطے ماننے کسی سے ،یہ شرک ہے اور سارے ہندو یہی کرتے ہیں یا پھر یہ کرنے لگتے ہیں رفتہ رفتہ کہ جہاں کوئی چیز عجیب نظر آئی خدا کی قدرت کی اُسے پوجنا شروع کردیا جس چیز سے نفع زیادہ نظر آیا اُس کو پوجنا شروع کردیا ! چاہے وہ درخت ہو ! چاہے وہ حیوان ہو ! !
''وجودکا انکار'' ''وجود کے علم'' کے بعدہی ہو سکتا ہے :
تواللہ تعالیٰ کا فرمان بتلایا ہے انبیائِ کرام نے کہ ہر انسان کو توحید تک پہنچنا ضرور چاہیے، اگر کوئی آدمی اُس کے پاس نبی نہیں پہنچا ہے تو فطری طور پر لازمًا وہ خدا کو مانے گا ! !
اکیلا اگر ہوکہیں جیسے بعض بھیڑیے پال لیتے ہیں ناانسانوں کو ! اخبارات میں آتا رہتا ہے کبھی کبھار ، وہ اسے دُودھ بھی پلاتے ہیں پھر بڑا ہوجاتا ہے پھر وہ اُسی طرح رہنے لگتا ہے لیکن جب بڑا ہوگا اور عقل آئے گی پھر ؟ اگرچہ انسانوں میں وہ نہیں رہا مگر ہے وہ انسان اُسے ''مُوَحِّد ''ضرور ہونا چاہیے خدا کو ایک ماننے والا ضرور ہونا چاہیے اور اگر وہ مخلوق میں رہ رہا ہے تودن رات ایسی چیزیں دیکھتا ہے کہ چاہتا کچھ ہے ہوتا کچھ ہے ! چاہتا یہ ہے ہوتا اُلٹ ہے ! بہت چیزیں ایسی ہوتی ہیں پھر اُسے نظر ڈالنی چاہیے اللہ تعالیٰ کی ذات ِ پاک کی طرف جانا چاہیے ۔
دُنیا'' دارُالامتحان'' ہے جہالت عذر نہیں بن سکتی :
اور جتنی زندگی دی گئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے دی ہی اس لیے ہے کہ یہ'' دارُ الامتحان'' ہے ، اگر کوئی کہے کہ مجھے پتہ نہیں تھا تویہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ سب انبیائِ کرام بتاتے چلے آئے ہیں تعلیم پہنچی ہوئی ہے جنہوں نے خدا کاانکار کیا ہے اُنہیں وجود کے بارے میں علم ہوا ہے تب انکار کیا ہے ! ! ! ! !
تو اس طرح کی چیزیں کیا قیامت پر اور آخرت پر اثر انداز ہوں گی اور خدا کو اگر ایک مان لے تو کیا نجات کے لیے یہ کافی ہوگا ؟ تو ایک واقعہ یہاں (حدیث شریف میں ) آتا ہے۔
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ تشریف لے جارہے تھے کہیں تو وہاں ایک صحابی ہیں اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ،پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ایک سواری پر کُنْتُ رِدْ فَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی حِمَارٍ میں پیچھے تھا سواری استعمال جو ہو رہی تھی اُس وقت ،وہ گدھا تھااور لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہ اِلاَّ مُوْخِرَةُ الرَّحْلِ میرے اور آپ کے درمیان جو کجاوا ہوتا ہے بس وہ فاصلہ، کجاوے کی لکڑی بس یہ فاصلہ تھا آپ نے مجھے مخاطب کیا فرمایا یَامَعَاذُ ھَلْ تَدْرِیْ مَاحَقُّ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ تم یہ جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے ؟ ؟ قُلْتُ اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَمُ
ادب کا تقاضا بھی یہی تھا ،اگر جانتے بھی ہوں تو بھی ادب کا تقاضا یہی ہے کہ جب سوال کیا جارہا ہے تو جواب بھی اُن ہی سے لیا جائے تو اس لیے بہترین کلمات استعمال کرتے تھے کہ اللہ اور رسول زیادہ جان سکتے ہیں تو اِرشاد فرمایا کہ فَاِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ یَّعْبُدُوْہُ وَلَا یُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا ١ کہ صرف اُس کی عبادت کریں اور بالکل شرک نہ کریں ،کسی بھی چیز کو اُس کا شریک نہ ٹھہرائیں ۔
تو ہمارا تو عقیدہ یہی ہے کہ سب اُس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اَللّٰہُ الصَّمَدُ پڑھتے ہیں قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَد اَللّٰہُ الصَّمَدُ جتنی بھی مخلوقات ہیں ملائکہ بھی ،زمین و آسمان بھی انبیائے کرام علیہم الصلٰوة والسلام بھی اُس کے محتاج ہیں وہ بے نیازذات ہے ! تو یہ حق ہے اللہ کا بندوں پر کہ بالکل کسی کو شریک نہ کریں اُس کی ذات میں نہ اُس کی صفات میں ، شَیْئًا ذرا بھی۔
ایک اشکال کا جواب :
آپ کہیں گے کہ بہت سے نام ایسے ہیں جو مشترک ہیں ،اللہ کا نام بھی'' رؤوف'' ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی آیا ہے ( بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْف رَّحِیْم ) رؤوف ہے رحیم ہے، دونوں اللہ کے نام ہیں دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صفت کے طور پر اِستعمال کیے گئے ، مومنوں کے ساتھ آپ رؤوف اوررحیم ہیں ،بہت محبت فرماتے ہیں بڑا رحم فرماتے ہیں تو یہ تو شرک خود ہوگیا
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٢٤
صفات میں ؟ مگر نہیں ! اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کے برابرکسی کے اندر نہیں ! ماں باپ شفیق بھی ہیں رحیم بھی ہیں اولاد کے لیے ! لیکن اللہ کے برابر نہیں ! ! تو ماں باپ کے دل میں یہ رحم جو آیا ہے یہ ڈالا کس نے ہے ؟ یہ تو خدا نے ڈالا ہے تومعلوم ہوا کہ اصل میں تو رحیم وہ ہے درجۂ دوم میں ہم ہیں جو اِتنا دُکھ محسوس کرتے ہیں یا اتنی تڑپ محسوس کرتے ہیں یا اتنی قربانی دیتے ہیں اولاد کے لیے، دن اور رات کی اور نیند کی آرام کی،کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے ! ! تو یہ اصل میں اُس میں ہے، ہمارے دل میں ڈالی ہے اُس نے تو اُس جیسا صفت ِ رحم میں کوئی نہیں ہے اُس جیسا صفت ِ رأفت میں رؤوف ہونے میں کوئی نہیں ہے ! اس لیے صفات میں شرک نہیں رہا ! ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں یہ اِرشاد فرمایا وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ اَنْ لاَّ یُعَذِّبَ مَنْ لَّا یُشْرِکُ بِہ شَیْئًا جو اللہ کی ذات اور صفات میں بالکل شریک نہیں کرتا کسی کو بھی تو اللہ کے ذمہ یہ ہے کہ اُسے عذاب میں نہ ڈالے، عذاب نہ دے ،بچائے اُسے عذاب سے۔
میں نے عرض کیا کہ یہ تو بہت آسان سی بات ہے لوگوں تک میں پہنچانہ دُوں یہ خوشخبری ؟ مسلمان خوش ہوجائیں گے اس سے ،جو مسلمان ہو چکے وہ تو خوش ہو ہی جائیں گے،جو کافر تھے وہ تو تعجب کرتے تھے کہ سارے معبودوں کو اِنہوں نے مٹا کے ایک بنادیا ! یہ کیا ؟ اِنْ ھٰذَا اِلاَّ اخْتِلَاقُ یہ تو جدت ہے ان کی تخلیق ہے ! ! میں نے عرض کیا کہ اطلاع دے دُوں لوگوں کو ؟ قَالَ لَا تُبَشِّرْ ارشاد فرمایا کہ یہ خوشخبری مت دو لوگوں کو، اس سے پھر خرابیاں اور پیدا ہوجائیں گی فَیَتَّکِلُوْا اسی پر بس ٹِک جائیں گے کہ ہم مُوَحِّدْ تو ہوگئے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کر رہے ہیں ذات میں نہ اُس کی صفات میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تمام انبیائے کرام پر ایمان ہے جو آپ کلمہ میں پڑھتے ہیں اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہ وغیرہ تو پھراور کسی کام کی ضرورت نہیں رہی نہ نفلوں کی ضرورت نہ فرضوں کی ضرورت تو لوگ اس پر اعتماد کر کے غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں گے، لوگوں کی سمجھ جو ہے وہ ایک جیسی نہیں ہے
حضرت معاذ کو بتلانے کی وجہ ؟
تو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ توعلم حاصل کر چکے تھے اُن کو بتانے میں حرج نہیں تھا ! اور اب ہمیں دہرانے میں حرج نہیں ہے ! کیونکہ سب کو معلومات جو ہیں پہنچتی ہی رہتی ہے کچھ نا کچھ ! ! معلوم ہوا کہ اعتماد کر بیٹھنا وہ بھی غلط ہے اور اُس میں بسا اوقات ایسی چیزیں ہوجاتی ہیں انسان سے غلطی کی کہ اگر یہ سمجھ لے کہ میں تو کلمہ گو ہوں اور بخشا بخشایا ہوں اور برائیاں کرتا رہے تو کوئی برائی معاذ اللہ ایسی بھی ہو سکتی ہے تھوڑی سی ہی دیر میں کہ جس کی وجہ سے ایمان سلب ہوجائے اور قرآنِ پاک میں آیا ہے کہ ( لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے زیادہ آواز نہ اُٹھاؤ (وَلَا تَجْھَرُوْا لَہ بِالْقَوْلِ ) اور زور زور سے باتیں نہ کرو ( کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ ) جیسے آپس میں ایک دُوسرے سے زور زور سے بول کر بات کرتے ہیں ( اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ) کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال سب بیکار ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے احساس بھی نہ ہو ! ! تو اس واسطے فرمایا(حضرت معاذ کو) کہ نہیں ، یہ نہیں ہونا چاہیے ،عام نہیں بتلانا اس کو ،جو لوگ درجہ بندی کرسکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں اُن کو بتلاؤ تو بتلاؤ۔ تو ''حبطِ عمل ''جو ہے مکمل، معاذاللہ وہ یہ کہ ایمان سلب ہوجائے یعنی مرتے وقت کلمہ ہی نصیب نہ ہومعاذ اللہ ایسی بات ہوجائے ! ! !
آخری وقت کلمہ، اس کی وضاحت :
''کلمہ نصیب نہ ہو نے' ' کامطلب ایک تو یہ ہے کہ زبان سے نہ کہہ سکیں ایسے لوگ تو بہت ہیں وہ تو شہید بھی ہوتے ہیں وہ کہتا ہوتا ہے اِدھر ہے دُشمن اوراتنے میں گولی آکر لگ جاتی ہے مگر وہ کہلائے گا یہ کہ کلمہ گو ہے وہ کہلائے گا شہید ہے ! وہ ہدایت دے رہا ہے کچھ کر رہا ہے اور اسی میں اُس پر حملہ ہوگیا اور وہ شہید ہو گیا کلمہ نہیں پڑھ سکا تو کوئی حرج نہیں وہ کلمہ ہی کے لیے تو شہید ہوا ہے، گویا اُس کے رگ وریشہ میں کلمہ آگیا تو اُس کو تو نہلایا بھی نہیں جاتا وہ پاک سمجھا جاتا ہے زخموں سمیت خون بھی اُس کا اُسی طرح رہتاہے صرف زائد چیزیں اُتار لی جاتی ہیں جوتے وغیرہ ورنہ بِلا غسل کے کفن دے کر نماز پڑھ کر دفن کیا جاتا ہے۔
تو بِلا کلمہ (نصیب ہونے کا دوسرا ) مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلمہ کا جو مفہوم ہے یعنی ایمان وہ نہ سلب ہوجائے معاذ اللہ، ایمان سلب ہونے کا مطلب یہ ہے اور حبطِ عمل کامل جو ہے وہ بھی وہی ہے تو اُس سے ڈرتے رہنا چاہیے ،تو یہ اعتماد کر لینا کہ کلمہ پڑھ لیا ہے تو بخشے گئے بس اب جو چاہے کریں اس غلط فہمی میں لوگ نہ مبتلا ہوجائیں کہیں اِس واسطے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو روک دیا۔
حضرت معاذ نے یہ حدیث کب اور کیوں بیان کی ؟
اب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس یہ حدیث تھی اور سناتے نہیں تھے ! کب بتایا ہے ؟ جب وفات کے آثار ظاہر ہوئے طاعون پھیلا ہوا تھا شام کے حصے'' عمواس'' میں اُس زمانے میں شاگردوں کو بتلایا ہے کہ یہ ہے اور میں اس لیے بتا رہا ہوں کہ(یہ) حدیث ہے اور حدیث وغیرہ کا چھپانا منع ہے تو یہ کہیں میرے ہی ساتھ نہ چلی جائے اس واسطے میں بتا رہا ہوں تمہیں ،آثار ایسے نظر آ رہے ہیں کسی کا پتہ نہیں کون زندہ رہے کون نہ رہے تو اَخْبَرَ بِھَا مُعَاذ عِنْدَ مَوْتِہ تَأَثُّمًا ١ گناہ سے بچنے کے لیے ۔ قرآن میں آیا ہے( اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلْنَا ) جو اللہ نے اُتارا ہے اُس کو چھپانا وہ غلط ہے، جو اُتارا ہے وہ بتاؤ تاکہ ایمان بھی پورا ہو صحیح ہو مکمل ہو ،ناقص نہ رہے تو اس لیے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بتائی ہے اور یہ روایت ہم تک پہنچی ہے ! یہ روایت صحابہ کرام میں اور حضرات سے بھی ہے یہ ہی نہیں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ہی ہو دُوسرے صحابہ کرام سے بھی اس طرح کے کلمات ملتے ہیں ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ان حضرات سے بھی یہ روایت ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان پر ثابت قدم رکھے، اپنی معرفت اپنی رضا سے نوازے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین ۔ اِختتامی دُعا.................
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٢٥

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.