jamiamadniajadeed

مہر'' کی شناخت بحیثیت''

درس حدیث 256/12 ۔۔۔۔۔ ''مہر'' کی شناخت بحیثیت ِ''پیغمبر ''نہ کہ بحیثیت ِ''بادشاہ'' یہ نہیں فرمایا کہ اپنی حکومتیں میرے سپرد کر دو بلکہ فرمایا کہ اِیمان لائو اللہ پر غلامی ہزاروں سال پراناعالمی رواج تھا ! اسلام نے غلام اور باندیوں کو اِنسانی حقوق دلائے ! اسلام پر اعتراضات تاریخی خیانت ہیں ! کفار ہی غلام کیوں بنے ؟ اہل ِ یورپ کے سر اور بازو ننگے رکھنے کی وجہ (1987-07-19)


( دسمبر 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث کا سلسلہ وار بیان ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک با قاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''مہر'' کی شناخت بحیثیت ِ''پیغمبر ''نہ کہ بحیثیت ِ''بادشاہ''
یہ نہیں فرمایا کہ اپنی حکومتیں میرے سپرد کر دو بلکہ فرمایا کہ اِیمان لائو اللہ پر
غلامی ہزاروں سال پراناعالمی رواج تھا !
اسلام نے غلام اور باندیوں کو اِنسانی حقوق دلائے !
اسلام پر اعتراضات تاریخی خیانت ہیں ! کفار ہی غلام کیوں بنے ؟
اہلِ یورپ کے سر اور بازو ننگے رکھنے کی وجہ !
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس حدیث 256/12 ٢٢ ذیقعدہ ١٤٠٧ھ/١٩ جولائی ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شریف میں اِرشاد فرمایا تھا کہ کوئی بھی یہودی یا عیسائی اگرمجھ پر اِیمان لائے بغیر مر جائے گا تو اہلِ نار میں ہوگا کیونکہ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کا پیغام ہر کسی کوساری دُنیا میں پہنچا ہے۔
جب صلح حدیبیہ ہوئی یعنی سن ٦ھ میں اہلِ مکہ سے ایک معاہدہ ہو گیا جس کی رُو سے یہ طے پایا کہ آپس میں نہیں لڑیں گے، معاملات گفتگو سے طے کریں گے اور جو دوست قبائل ہیں مسلمانوں کے یا کفارِ مکہ کے اگر اُن میں جھگڑا ہو گا تو ہم تصفیہ کرائیں گے، یہ نہیں ہے کہ اپنے دوست قبیلے کی لڑائی میں مدد شروع کردیں ،اس طرح کا معاہدہ ایک طے ہو گیا۔ بہت عرصے سے قریش کے تجارتی سفر بند تھے وہ کھل گئے ! جانے آنے لگے وہ ! !
ادھر اِس عرصہ میں رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے بھی اسلام کے لیے(دیگر سلطنتوں کو) دعوت دینے کا کام کیا اور چاہا کہ والا نامہ تحریر فرمائیں ، دُنیا میں جہاں جہاں حکومتیں تھیں وہاں آپ نے والا نامے تحریر فرمائے ! لوگوں نے بتایا کہ بادشاہ جو ہیں وہ تو اگر کوئی خط مہر لگا ہوا ہو تو پڑھتے ہیں مہر نہ ہو تو نہیں پڑھتے تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة التسلیم نے مہر بنوائی ! مہر پر جو نقش تھا وہ نقش بادشاہ کے نام کا نہیں تھا بلکہ اُس پر نقش تھا '' محمد رسول اللّٰہ ''
یعنی خدا کے پیغامبر کی حیثیت سے اپنے آپ کو آپ نے ظاہر فرمایا، یہ نہیں فرمایا کہ اپنی اپنی حکومتیں میرے حوالے کردو ! نہیں کوئی تعلق نہیں حکومت سے ! البتہ بندے اور خدا کے درمیان تعلق کا صحیح ہونا یہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت میں رکھا ہے جگہ جگہ ! !
چین کے بادشاہ کو دعوت :
حتی کہ میں نے پڑھا ہے کہ چین میں بھی آپ نے والا نامہ بھیجا ہے، یہ نہیں ہے کہ بڑی معروف سلطنتیں جو تھیں وہیں تک بات رہی ہو''کسریٰ ''ایران( فارس ١ ) کابادشاہ، ''قیصر ''یورپ اور ایشیاء کا مشرقِ وسطیٰ کا بڑا بادشاہ تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کیا کہ فقط اُن ہی تک بھیجے ! بلکہ جو اور بادشاہ تھے وہاں کے جیسے ''نجّاشی'' کو جو شاہ ِ حبشہ تھا اور اِسی طرح مصر کے بادشاہ ''قِبط'' ٢ کو
١ فارس، پارس : ایران کا پرانا نام جسے ١١مارچ ١٩٣٥ء کو بدل کر'' ایران'' رکھ دیا گیا۔ ایران فارسی لفظ ''آریانا''( بمعنٰی آریوں کی سر زمین) سے ماخوذ ہے۔ (فیروزُ اللغات)
٢ مصر کے بادشاہ کا لقب '' عزیز''اور قبط کا لقب ''فرعون'' ہے، مصر کے عیسائیوں کے ایک فرقہ کو بھی'' قبط '' کہا گیا ہے ۔(منجد) مصر کا پرانا نام بھی ''قبط ''(COPT)تھا ۔(فیروزُ اللغات) محمود میاں غفرلہ
امام اعظم کے اُستاد رُوم کے سفر پر :
اور رُومیوں کے پاس تو وہ والا نامہ محفوظ رہا ہے رُوم میں بہت عرصہ تک، ہارون رشید کے زمانے تک ،عبدالملک ابن ِمروان یہ ہارون رشید سے پہلے گزرے ہیں یہ بنواُمیہ کی سلطنت کے بانی گویا ایک طرح کے ہیں ، بہت سمجھدار آدمی تھا، جرنیل اس کا بڑا ظالم تھا حجاج ابن ِیوسف جدھر سخت کارروائی کرنی ہوتی تھی اُسے بھیجتا تھا اُس کے دور میں امامِ اعظم رحمة اللہ علیہ کے ایک اُستاد ہیں شعبی رحمة اللہ علیہ اِن کو عبدالملک ابن ِمروان نے پیغام دے کر بھیجا رُوم کیونکہ یہ(رُومی) لوگ سارا علاقہ شام کا جس میں لبنان،فلسطین، اُردن اور صحرائے سینا سارا حصہ داخل ہے یہاں سے(پسپا ہو کر) چھوڑ چکے تھے اور اُوپر شمال میں ترکی کا حصہ ارض ِ رُوم جسے کہتے ہیں وہ بھی چھوڑ دیا اور اُس کے بعد پھرآگے تک یہ پہنچ گئے پھر اپنی جگہ اِنہوں نے اٹلی میں بنالی جو رُوم کہلاتا ہے یہ ان کا پرا نا مرکز چلا آرہا ہے تو وہاں بھیجا اُنہوں نے(شعبی کو)، اُس نے بڑی تعظیم و توقیر کی، روکنا چاہا انہیں کہ آپ مزید رُکیں مزید ٹھہریں مگر نہیں ،سرکاری کام جو ہوتا ہے اُس میں تو پھر ایسے نہیں ہو سکتا کہ آدمی اپنی مرضی سے ٹھہرے وہ تو جواب جو ہو وہ فورًا لانا ہوتا ہے مگراُس کے اِصرار پر کچھ ٹھہرے ۔
رُومیوں کی والا نامہ سے عقیدت کی وجہ :
ایک اُس نے لالچ بھی دلایا کہ آپ کو ایک چیز دکھاؤں گا ! وہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا والا نامہ ! جو آپ نے بھیجا تھا ''ہرقل'' کے نام جس کا مضمون چھپتا بھی ہے اور فوٹو بھی اُس کا چھپتاہے وہ اُنہوں نے تعظیم کے ساتھ رکھ رکھا تھا اُن کا یہ خیال تھا کہ جب تک ہم اس گرامی نامے کی تعظیم کرتے رہیں گے ہماری حکومت چلتی رہے گی حکومت کا وجود رہے گا اس لیے وہ تعظیم اُس کی کرتے تھے ! ! !
حضرت شعبی کے خلاف بادشاہ کی ناکام عیاری :
اُنہوں نے وہ دکھایا پھر ایک خط دیا مہر شدہ جسے کوئی نہ پڑھے، یہ بھی نہ پڑھیں علاوہ جواب کے یا جواب کے ساتھ بہرحال وہ لاک تھا ایک طرح کا، وہ لاکر اِنہوں نے پیش کردیاعبدالملک کے پاس ، تو عبدالملک نے وہ پڑھا اور پڑھ کے پوچھا ان سے کہ پتہ ہے آپ کو کہ اس میں کیا لکھا ہے ؟ انہوں نے کہا مجھے پتہ نہیں ،انہوں نے کہا اس نے یہ لکھا ہے کہ یہ آدمی جنہیں آپ نے بھیجا ایسے ہیں ایسے ہیں بہت سمجھدار بہت ہی تعریف کی اور اتنے سمجھدار ہیں کہ ایسے شخص کے موجود ہوتے ہوئے آپ کی قوم نے کسی اور کو کیوں بادشاہ بنایا ! کیوں اپنا امیر بنایا ! یہ امیر کیوں نہیں ہوا، یہ کیوں رہ گیا ؟ ایسا مضمون اُس میں تھا تو پوچھا ان سے کہ آپ سمجھے کہ کیا مطلب ہے اس کا ؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہی اِرشاد فرمائیں تو بادشاہ نے کہا کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ میرے دل میں تمہاری طرف سے برائی پیدا ہو کہ یہ آدمی اس قابل ہے اتنی صلاحیتوں والا ہے کہ یہ میرا ملک چھین سکتا ہے تو میں تمہیں زندہ ہی نہ رہنے دُوں مطلب اُس کا یہ ہے کہ میں اپنا ایک قیمتی آدمی ماردُوں تمہارے خلاف اُس نے مجھے بھڑکایا ہے ! ! ! تو انہوں نے عبدالملک ابن ِمروان کی تعریف کی کہ یہ سمجھداری بھی آپ کاحصہ ہے، خاص حصہ ہے ! ! اور واقعی یہی تھا اور واقعی شعبی بھی اتنے ہی بڑے آدمی تھے، تابعین میں ہیں علامہ ہیں تقویٰ ،طہارت، حافظہ، حدیث کی واقفیت بہت زیادہ تھی ! حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھی زیارت کی تھی جب وہ کوفے تشریف لائے تو ! یہ کوفہ کے رہنے والے تھے۔
حجاج کے خلاف بغاوت :
بغاوت کی انہوں نے حجاج ابن ِیوسف کے مقابلہ میں شروع شروع میں عبدالملک ابن ِمروان نے ان کواپنے قبیلے کا بڑا مان لیا تھا لیکن ان کی طبیعت نہیں ملی ان سے اور مظالم دیکھے، غلط کام دیکھے تو پھر جن لوگوں نے حجاج ابن ِیوسف کے خلاف بغاوت کی اُن میں یہ بھی ہوگئے لیکن ان لوگوں کو شکست ہوگئی، شکست ہوگئی تو یہ لوگ چلے گئے منتشر ہو گئے اوریہ ادھر آگئے بخارا وغیرہ کی طرف، یہاں جہاد ہو رہا تھا اُس میں شامل ہوگئے ۔

حجاج کی سی آئی ڈی اور ایک جرنیل کی فریفتگی :
وہاں (بخارا کی طرف) ایک جرنیل تھااُس کو ایک قصّہ پیش آیا مسئلہ پیش آگیا اور یہ بہت ہی مشکل بات ہوتی ہے یہ بغیر علم کے حل نہیں ہوتا علم بھی چاہیے ذہن بھی چاہیے دونوں باتیں ضروری چاہیئیں ،ضرورت پڑی مسئلہ کے لیے، حل کوئی کر نہ سکا ،اِنہوں نے اُس کا جواب دے دیا وہ جو اِن کا کمانڈر تھا جنرل تھا بہت خوش ہوا ! اِن کو بلایا ان سے باتیں کیں اس کا پتہ سی آئی ڈی کے ذریعے چل گیا حجاج کو ! اُس نے کہااِنہیں فورًا بھیجو میرے پاس ! ! اس جنرل نے اُن سے کہا کہ آپ جیسا آدمی بہت قیمتی ہے ،عالم ایک دو دن میں تو نہیں ہوجاتا ہے ایک عرصہ لگتا ہے پڑھنے میں پڑھنے کے بعد پھر پڑھانے میں وہ بہت لمبی ٹریننگ ہے اور اس ذہن کا آدمی کہ جو ذہنی اِعتبار سے بہت ہی کامل ہو تو ایسوں کی تعداد اور بھی کم ہوتی ہے تو اُس نے کہا کہ آپ کسی بھی جگہ چلے جائیں میری طرف سے اجازت ہے ..... رُوپوش ہوجائیں ..... کچھ کر لیں ! !
بے جگری اور اللہ پر بھروسہ :
یہ بھی بڑے بہادر آدمی تھے انہوں نے کہا کہ اگر رُوپوش بھی ہوجاؤں تو میرے جیسا آدمی چھپے گا تو نہیں ! جہاں بھی جاؤں گا کوئی بات پیش آجائے کوئی جاننے والا مِل جائے کچھ ہوجائے پتہ تو چل ہی جائے گا ! تو کیا فائدہ اُس نے بلایا ہے میں جاتا ہوں ! ! ہونا تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے، زندگی ہے تو بچ جاؤں گا ،نہیں تو وہ مار دے گا خیرچلے آئے یہ ! ! گفتگو کی حجاج ابن ِیوسف سے اُس کے بعد پھر ان کو چھوڑدیا ، یہ بات جو ہے ٧٥ھ کے لگ بھگ کی ہے۔ اُس کے بعد پھر امام اعظم کا زمانہ بھی آیا ،امام اعظم رحمة اللہ علیہ ان کے شاگردوں میں ہیں انہوں نے ان سے حدیثیں سیکھی ہیں اور سن ٨٠ ہجری میں پیدا ہوئے ہیں امام اعظم سن ٦٠ھ سے لے کر ٨٠ھ تک کا عرصہ مختلف قول ہیں ان کی پیدا ئش کے بارے میں ، وفات ١٥٠ھ میں ہوئی ہے تو شعبی رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں میں ہیں اور یہ اُن کے بڑے اساتذہ میں سے ہیں اور تابعی ہیں ۔
جب ہر جگہ ہر کسی کو دعوت پہنچ چکی تو ایمان لانا ضروری ہوا :
تو مطلب یہ تھا کہ کوئی جگہ ایسی نہیں رہی کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نہ پہنچ گئی ہو جب سب جگہ پہنچ چکی ہے تو پھر اُن(یہودی اور عیسائی ) لوگوں کو اپنے ایمان کے بارے میں تو غور کرنا چاہیے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں تو کیسا اور کس پر اور کسے کیا کہیں ؟ کیا خدا کے بیٹا بیٹی ہو سکتے ہیں یا خدا ایک ہے ،بیوی کا محتاج نہیں ہے ، بیوی تو آدمی احتیاج کی وجہ سے کرتا ہے اولاد کو دل چاہتا ہے وہ بھی ایک حاجتمندی ہے وہ سوچتا ہے کہ فنا ہوجانا ہے تو بعد میں میرا سلسلہ قائم رہے اس طرح کی فنا ہونے والی جو ہیں خواہشات وہ تمام اُن میں پائی جاسکتی ہیں اور جو باقی ہے حَییْ ہے قَیُّومْ ہے وہ بے نیاز ہے ایسی ذات ایک ہی بنے گی، باقی سب اُس کے بنائے ہوئے اور اُس کی مخلوق ہیں اور جس طرح جسے بنادیا وہ مخلوق ہے، تو قابلِ پرستش جو ہے خالق ہے نہ کہ مخلوق ،چاہے مخلوق کا کتنا بھی بڑا درجہ ہوجائے اُس کے دربار میں لیکن پھر بھی قابلِ پرستش تو نہیں ہے، سب سے بڑا درجہ رسول کا ہوتا ہے ،قابلِ پرستش وہ بھی نہیں ، رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے اپنے لیے سجدہ کی اجازت نہیں دی بلکہ مصافحہ میں جو جھکتے ہیں اُسے بھی منع فرمایا کہ یہ بھی نہ کیا کرو مصافحہ کیا کرو بس، جھکا نہ کرو۔
اسلام نے توحید بہت زبردست طرح ذہنوں میں بٹھا دی۔
ورنہ تو جہنم ! پہلی وجہ :
تو یہ جملہ ہے تو بڑا سخت کہ کوئی یہودی کوئی عیسائی جو دُنیا میں آگیا ہے اور مرتا ہے اور ایمان مجھ پرنہیں رکھتا وہ جہنم میں جائے گا ! وجہ اُس کی ؟ ؟ وجہ اُس کی یہ ہے کہ سب جگہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچاہے پھر اگر کسی نے نہیں مانا تو اُس پر گرفت ہوگی اور وہ گرفت سے نہیں بچ سکتا ! !
دوسری وجہ :
پھر یہ کہ یہودی اور نصرانیوں کو تو بڑی علامات دی گئیں اور اتنی شناختیں بتادیں گئیں تھیں کہ اُن کا ایمان نہ لانا یہ جرم ہے ،اتنی علامتوں کو جاننے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے یہ بڑی غلط بات ہے۔
حدیث شریف میں ایک روایت آتی ہے اور اس روایت کا ذکر میں اس لیے کر رہا ہوں کہ شعبی رحمة اللہ علیہ( یہاں کتاب میں تو نہیں ہے یہ روایت لیکن ویسے ہے) اس کے راویوں میں آتے ہیں اسمِ گرامی ان کا عامر ہے'' شعبی'' تو اپنے قبیلہ اور خاندان کی طرف نسبت ہے وہ روایت کرتے ہیں کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جنہیں ڈبل اجر ملے گا ثَلَا ثَة لَّھُمْ اَجْرَانِ دو اجر ملیں گے، ڈبل اجر کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ایک کاثواب دس گنا ہوتا ہے اُس کا ثواب بیس گنا ہوگا ڈبل اجر تب ہوگا ؟
وہ کون ہیں ؟ ایک اہلِ کتاب میں سے وہ آدمی جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا ہو اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان قبول کر لے رَجُل مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ ، اٰمَنَ بِنَبِیِّہ وَاٰمَنَ بِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم تو اُس نے دو کام کیے ! ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے پہلے صحیح رہا ! پھر ایمان قبول کرلیا تو بھی صحیح بات کی اُس نے ! یہی گرامی نامے میں تحریر فرمایا تھا ہرقل کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اَسْلِمْ تَسْلَمْ اسلام قبول کر لو سلامت رہو گے یُؤْ تِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ تمہیں اجر اللہ تعالیٰ ڈبل دیں گے مگر وہ بھی اہلِ کتاب میں سے تھا آیت بھی لکھی ( یَآاَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْ اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ ) ١ یہ آیت بھی مکتوب ِ گرامی میں تحریر ہے وہ رسم الخط اُس زمانے کا ہے مگر اُس کو پڑھا جا سکتا ہے۔
اور دُوسر ا اَلْعَبْدُ الْمَمْلُوْکُ اِذَا اَدّٰی حَقَّ اللّٰہِ وَحَقَّ مَوَالِیْہِ کوئی غلام ہو اب وہ خدا کا حق بھی ادا کر رہا ہے اور اپنے آقاؤں کا حق بھی ادا کر رہا ہے جو اُس کے مالک بنے ہوئے ہیں اُن کی خدمت بھی کر تا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر بھی عمل کر تا ہے تو ڈبل کام کر رہا ہے ۔ ایک خدا کی اطاعت اور ایک آقا کی اطاعت تو درجہ اُس کا کیا ہوا خدا کی نظر میں ، خدا کی نظر میں درجہ اُس کا یہ ہوا کہ ڈبل اجر ہو گیا اُس کا۔
اور تیسرا وَرَجُل کَانَتْ عِنْدَہ اَمَة یَطَئُھَا فَاَدَبَّھَا فَاَحْسَنَ تَأْدِیْبَھَا وَ عَلَّمَھَا فَاَحْسَنَ تَعْلِیْمَھَا ثُمَّ اَعْتَقَھَا فَتَزَوَّجَھَا فَلَہ اَجْرَانِ
٢ کسی کے پاس باندی تھی تو باندی کو اُس نے تعلیم دی اُس کو

١ بخاری شریف کتاب بدء الوحی رقم الحدیث ٧
٢ بخاری شریف کتاب العلم رقم الحدیث ٩٧ ، مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ١١
ادب سکھایا ،یہ ادب ایسی چیز ہے کہ اگر کوئی لینے والی طبیعت ہوتو لے لیتی ہے اور نہ لینے والی طبیعت ہو تو اچھے خاصے باادب لوگوں کے یہاں بے ادب قسم کے پیدا ہوجاتے ہیں ،لیتے ہی نہیں ، وہ تہذیب ہی نہیں قبول کرتے تواِس نے اُس کو تعلیم دی اس کو آداب سکھائے پھر اس کو آزاد کر دیا پھر شادی کرلی تو اُس کو ڈبل اجر مِلے گا، ڈبل اجر ڈبل کاموں پر ہو گیا ''تعلیم وتادیب'' اور ''آزاد کرنا '' ! ! ! یہ دو کام اُس نے کیے پھر شادی کر نے کے بعد اُس کا درجہ اور بڑھا دیا، پہلے وہ باندی غلام جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی دُنیا میں ،بعد میں اِس نے اُس کو اپنے گھر کا فرد بنالیا اِنسانی حیثیت سے اُس کو اپنے برابر کا کرلیا اپنے خاندان کا جز وبنا لیا تو اس طرح سے دو کام جس نے کیے اُس کو بھی ڈبل اجر مِلے گا۔
اسلام پر اہلِ یورپ کا بے جا اعتراض :
بڑا اِعتراض کرتے ہیں یورپ والے غلامی پر کہ اسلام میں یہ غلام بنالیناایسی چیز ہے وغیرہ وغیرہ، بے محل اعتراض ہے ! یہ آج کرتے ہیں ،اُس زمانے میں تھا ہی یہ دستور، اگر کوئی کسی کو بھی پکڑ لے اور بیچ دے توعیب نہیں تھا،اُس میں سارے ہی داخل ہیں ! ! !
حضرت صہیب کا واقعہ :
میں نے شاید پہلے بتایا کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ جنہیں ''صہیبِ رُومی'' کہتے ہیں (یہ اصل میں عرب تھے) تو یہ اپنے آپ کو عربی کہتے تھے اور عربی جانتے بھی تھے اور جب عربی بولے گا غیر عربی تو (اُس وقت تک) صرف و نحو اور قواعد تو اتنے نہیں تھے اس لیے اُس میں غلطی ہوتی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ بھائی خدا سے ڈرو یہ نسب اپنا تم ''عربی'' بتاتے ہو یہ کیا ہے ؟
''نسب '' بدلنا گناہ ہے ،اس میں ترقی کیسے آتی ہے :
نسب کا بدلنا توبالکل حرام ہے جو آدمی جس نسب کاہے وہی بتائے اگر آدمی کے کام اچھے ہیں اور نسب کے اعتبار سے وہ نیچے درجے کاہے تو کام اچھے ہونے کی وجہ سے اُس نسب کو بھی ترقی مِل جاتی ہے خود بخود اور وہ اگر اپنی ترقی کی خاطر اپنا ''نسب'' بدل کر دُوسری طرف منسوب کرے اپنے آپ کو تو وہ غلط ہے وہ حرام ہے اور سخت عذاب ہے اُس کو ! ! !
تو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ یہ رُومی کہلاتے تھے ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دیکھو خدا سے ڈرو ! یہ کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ میں سچ مچ عربی ہوں ہمارے علاقے میں رُومیوں نے حملہ کیا اور(ہم کو) قید کر کے لے گئے اور پکڑ کے غلام بنا ئے تو میرا بچپن وہاں گزرا، وہ زبان مجھے آتی ہے اور عربی جو اپنی خاندانی زبان ہے اُس میں میں پیچھے رہ گیا تو حقیقتًا تو میں عربی ہوں تو (ان کے بارے میں )فارسی کے بھی اشعار ہیں :
ع
صہیب اَز رُوم و بلال اَز حبش
غلامی کا عالمی رواج اسلام کے آنے سے صدیوں پہلے کا ہے :
تو ہمارے یہاں (تاریخ کی کتابوں میں ) بالکل آسانی سے اس بات کی مثال مِل جاتی ہے کہ جو بڑی سلطنتیں تھیں مہذب وہ بھی یہ کام کرتی تھیں کہیں چھاپا مارا اور قید کر کے لے گئے لے جا کے غلام بنالیا ! بیچ دیا ! اسی طرح سے عرب بھی کرتے تھے اِنہیں کوئی اور مِل گیا اُس کو ایسے ہی بیچ دیا، ایک قبیلہ دُوسرے قبیلہ کا دُشمن ہے اُسے جب آدمی مِل جائیں گے وہ پکڑ کر لے جائیں گے۔
نبی علیہ السلام نے غلام آزاد کیا اور اپنا بیٹا بنا لیا :
اسی طرح حضرت زید بن حارثہ کو بھی پکڑا اور بیچ دیاان کاحصہ جو تھا رہنے کا وہ طائف کی جانب تھا وہاں ان کے دُشمن قبیلہ نے حملہ کیا اور پکڑ کر لے گئے اِن لوگوں کو، لے جاکر بیچ دیا اور غلام بنالیا، بکتے بکتے یہ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے ١ والد اور بھائی ڈھونڈتے رہے کہاں گئے کہاں گئے

١ زید بن حارثة بن شراحیل الکلبی : مکہ کے قریب بطحاء کے مقام پر نبی علیہ السلام نے انہیں دیکھا کہ ان کی سات سو درہم بولی لگائی جا رہی تھی،آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا تو اُنہوں نے اپنے مال سے ان کو خرید کر نبی علیہ السلام کی خدمت میں ہدیہ کر دیا،آپ نے ان کو منہ بولا بیٹا بنایا اور آزاد بھی کر دیا۔(تہذیب التہذیب ج ٢ ص ٥٤٠ رقم ٢٤٩٦) ۔ محمود میاں غفرلہ

کہاں گئے ! پتہ ہی نہیں چلتا تھا آخر کار پتہ چل گیا چونکہ مکہ مکرمہ میں ہر طرف سے آمدورفت تھی ، یہاں ان کو دیکھا کسی نے، بتادیا کہ وہ وہاں ہیں وہ آئے اوراُنہیں لے جانا چاہا مگر اِنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنا پسند کیا ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت پسند آئی آپ نے اعلان فرمایا وہاں جو دستور تھا کَعْبَةُ اللّٰہْ کے پاس جا کر یا کیسے کہ یہ آزاد بھی ہیں ! اور میرا بیٹا ہے یہ آج سے ! ! ! گویا مُتَبَنّٰی یعنی بیٹا بنالیا ! تو اس طرح سے (غلام بنانے کا)ہر جگہ پر دستورتھا توکوئی اسلام ہی میں نہیں تھا رواج۔

اس عالمی رواج کی وجہ ؟
ایسے ہی جنگی قیدیوں کو لے جاتے اب جنگی قیدیوں کو لے جاکے ایک تو یہ کہ کیمپ میں رکھیں کہیں جیل خانے میں رکھیں ،اُن کے کھانے کا انتظام کریں ، حفاظتوں کا انتظام ،اس لمبے دھندے میں کون پڑے ،اقتصادی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں وغیرہ وغیرہ ! ! تو دُنیا بھر کی حکومتوں نے یہ سلسلہ کر رکھا تھا کہ جو جنگی قیدی ہیں اُنہیں بانٹ دو پبلک میں ! خصوصًا جو لڑنے والے مجاہدین ہوں اُن میں بانٹ دو اُن کو دے دو، بچے ہوں ، بوڑھے ہوں ، عورتیں ہوں ، مرد ہوں سب کوبانٹ دو، مرد غلام ! عورتیں باندی ! اس طرح سے کرتے تھے تو اس سے اقتصادی مسئلہ کوئی نہیں پیدا ہوگا ایک آدمی کے حصہ میں ایک آدمی آیا وہ آدمی بھی کام کررہا ہے غلام سے کام لے رہا ہے وہ، مزدُوری کرانی ہو کوئی اور کام کرانا ہو ، رکشہ چلوانا ہو، کوئی اور دھندہ اس طرح کا جو بھی ہو یاتجارت ہو ! !
بڑے قابل لوگ بھی غلام بن جاتے تھے :
تو بڑے بڑے قابل بھی آجاتے تھے اس میں ، گرفتار ہوئے ہیں اچھے بھی برے بھی ،بڑی اعلیٰ نسلوں کے بھی اور کم خاندانوں کے بھی، جس طرح کے بھی ہوں ۔
ایک عورت تھیں اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکرکہا میرا جو غلام ہے وہ نجار ہے بڑا اچھا ترکھان ہے لکڑی کا کام بناسکتا ہے تو ممبر بنوایا تھا جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، اسی طرح کسی کے پاس کوئی ہنر اور کسی کے پاس کوئی، کوئی سینگی لگانا جانتے تھے کیونکہ غلام تو وہ مختلف نسلوں کے پکڑے ہوئے آگئے، بڑے بڑے قیمتی بھی ہوتے تھے ! اب اُنہیں آپ نے بنادیا منیجر کار خانے کا یا اپنے کاروبار کا یا کسی بھی چیز کا ! ! لیکن ہے وہ غلام ،اہلیت اُس میں ہے، منیجر بن جائے گا، یہ ٹھیک ہے
یہ ایاز جو ہیں محمود کے ، یہ بھی غلام تھے یہاں لاہور ہی میں رنگ محل میں ان کی قبر مبارک بھی ہے مگر بڑے اعتماد کے اوراِنہیں بڑا عہدہ اُس نے دیا جنرل بنادیا ! تو اس طرح سے مختلف(صلاحیتوں کے) ہوتے تھے ۔ تو قوموں کو(اس طریقہ کار کی وجہ سے غلام باندیاں سنبھالنے کے معاملہ میں اقتصادی اور اِنتظامی) دُشواری نہیں پیش آتی تھی لیکن یہ دستور ایک عرصے تک رہا پھر ختم ہو گیا۔
اسلام میں اخلاقی قدروں کی اہمیت :
اب جب کوئی چیز ایسی ہو کہ جو اخلاقًا برتری کی ہوتو مسلمان کو یہ حکم ہے کہ وہ اُس سے زیادہ اچھا برتاؤ کر کے دکھائے جو غیر مسلم کر رہا ہو ! توآج اگر یہ دستور ہٹ گیا غلام بنانے کا اور اب اِن کو جنگی قیدی بنا کر رکھتے ہیں اور کھانا پینارہنا سہنا سب اُن کا ایک جگہ کرتے ہیں قیدیوں ہی کی طرح سے تو ہم بھی اُسی طرح سے کریں گے اور غلام نہیں بنا سکیں گے ! اگر وہ اس دستور کو توڑدیں اور غلام بنانا شروع کردیں تو پھر ہم بھی کر لیں گے ایسے ! !
تاریخ سے جہالت کی وجہ سے اسلام پر اِعتراض :
اب وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں یہ کیا تھاغلام بنانا ! ارے بھائی اسلام میں کہاں تھا ساری دُنیا میں یہی تھا کافروں میں بھی یہی تھا اور وہ (کافر)تو غلام کو آزاد کرنا یا اس طرح سے اپنے خاندان کا جزو بنالینا یہ مسائل جانتے ہی نہیں تھے ! یہ تواسلام نے بتائے ہیں اور اسلام نے عبادت قرار دیا ! !
اسلام نے غلام اورباندیاں آزاد کرنے کا رواج دیا :
حضرت علی زین العابدین یعنی علی اِبن حسین رحمة اللہ علیہ تابعین میں ہیں وہ، اور آپ کو معلوم ہے وہ بہت بڑے عبادت گزار تھے ،صاحب ِ معرفت تھے اولیاء ِکرام میں تھے اُن کو ایک حدیث پہنچی اُس حدیث شریف میں یہ تھا کہ '' کوئی آدمی اگر غلام آزاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس غلام کے اعضاء کے بدلے میں اس آزاد کر نے والے کے اعضاء کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیں گے ''
یہ حدیث اُنہوں نے سنی اُن کے پاس ایک قیمتی غلام تھا اُس کی بہت قیمت بڑھ رہی تھی حضرت عبداللہ اِبن جعفر طیّار رضی اللہ عنہ غالباًاُس کی قیمت دے رہے تھے بہت زیادہ یہ بخاری شریف میں ہے توبجائے اس کے کہ وہ اُس کو بیچتے اُنہوں نے یہ حدیث سن کر اُس بہترین قیمتی غلام کو آزاد کردیا ١ اسی طرح سے (قرآنِ پاک میں فرمایا) ( فَکَاتِبُوْہُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا ) ٢ ''اگر دیکھتے ہو تم کہ یہ کما سکتے ہیں ان میں اہلیت ہے توانہیں آزاد کردو قیمت ان سے لے لو۔''
حضرت عمر نے حکماً غلام آزاد کرایا :
یہ محمد اِبن سیرین جو بڑے تابعی تھے، معروف امام ہیں ان کے والد جو تھے( سیرین ) حضرت خالد اِبن الولید رضی اللہ عنہ نے جب اِدھر حملہ کیا تھا عراق کی طرف تو اُس میں گرفتار ہو گئے تھے غلام تھے مگر بڑی دماغی اہلیت تھی اُن میں ، کما سکتے تھے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وہ غلام ہو گئے اُن کی ملکیت ہوگئے ،تو انس رضی اللہ عنہ کے پاس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا کی برکت سے بہت زیادہ مال بھی تھا ! اولادبھی تھی ! اور مال میں برکت نمایاں تھی، (سال میں )ایک دفعہ پھل ہوتا ہے کسی کے یہاں باغ میں تو ان کے یہاں (سال میں ) دو دفعہ پھل پیدا ہوتا تھا یہ برکات تھیں جو نظر آتی تھیں ۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ میں کماکر اِنہیں اپنی قیمت دے دُوں جو قیمت یہ کہیں کماسکتا ہوں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بُلا کر کہاکہ دیکھو مسلمان بھی ہوگیاہے یہ کما بھی سکتاہے اسے چھوڑ دو اسے آزاد کردو کتابت کرلو ''مکاتبت ''کہتے ہیں اُس کو کہ وہ قیمت اپنی دے دے تو آزاد ،اِنہوں نے منع کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر کوڑ ا اُٹھا یا وہ چھوٹا سا کوڑا دِرّہ کہتے ہیں وہ رہتاتھا ان کے پاس توحکمًا کہاکہ کرو اس معاملہ کو طے، پھر اُنہوں نے معاملہ طے کیا اور آزاد کر دیا اُن کو
١ بخاری شریف کتاب العتق رقم الحدیث ٢٥١٧ ٢ سُورة النور : ٣٣

غلاموں کو آزاد کرنا عبادت کا درجہ :
اسلام میں تویہ چیزیں بطورِ عبادت کے بتائی گئیں ہیں کہ کسی نے کوئی غلط قسم کھالی توکیا ہے کفارہ ؟ توغلام آزاد کرے (قرآنِ پاک میں ہے) ( اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ اَیَّامٍ ) ١
ان چار چیزوں میں سے کوئی سی چیز کرلے تین دن روزے رکھنے ہیں یا دس آدمیوں کوکھانا کھلانا ہے یا کپڑے پہنانے ہیں یا غلام آزاد کرنا ہے ،حیثیتیں مختلف ہوتی ہیں لوگوں کی بعضے کچھ بھی نہیں دے سکتے تو تین روزے ہی رکھیں قسم کے کفارہ میں ۔ اور پتہ نہیں کتنی چیزوں کے کفارے میں غلام آزاد کرنے کا حکم آتا ہے اور فضیلتیں الگ آگئیں اس میں ! ! !
تویہ ایسا اعتراض نہیں ہے کہ جس میں مسلمان شر ما جائیں ، یہاں سے جانے والے احساسِ کمتری میں مبتلاء ہوتے ہیں تو شرما جاتے ہیں جواب نہیں دیتے ورنہ جوابات تو اُس کے بہت عمدہ ہیں اور اسلام نے تو وہ برتری دی ہے غلاموں کو کہ جو دُنیا میں اس سے پہلے کبھی بھی حاصل نہیں رہی ،کسی کوبھی حاصل نہیں رہی کبھی بھی ! ! !
حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو بادشاہ نے ہدیةً دیا :
غلاموں کا ذکر ! غلاموں کا ذکر تو ملتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ جو جاریہ ملی تھیں بادشاہ کی طرف سے وہ حضرت ہاجرہ تھیں وہ جاریہ ہی تھیں بادشاہ کی باندی تھیں اُس نے خدمت میں پیش کی تھیں اَقْدَمَھَا جَارِیَہْ ٢ باندیوں کا اور غلاموں کا دستور کب سے تھا ؟ وہ تو بہت پہلے سے تھا تاریخ کے دور سے بھی پہلے سے چل رہا ہے۔

١ سُورة المائدہ : ٨٩ ٢ وَاَخْدَمَ ھَاجَرَ ( بخاری شریف کتاب الانبیاء رقم الحدیث ٣٣٥٨ )

حضرت ابوذر اور غلام :
اسلام نے آکر یہ شرف حاصل کیا ہے کہ اُن کو اِنسانی حق دیا مساوات دلوائی جس کے ما تحت کوئی(غلام یا یاندی) ہو تو اُن کو فرمایا اِخْوَانُکُمْ خَوَلُکُمْ جَعَلَہُمُ اللّٰہُ تَحْتَ اَیْدِیْکُمْ ١ حضر ت ابو ذر جو لباس خود پہنتے تھے غلام کو وہی پہناتے تھے اور یہ حدیث سناتے تھے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''جو تم پہنتے ہو وہ اُسے پہناؤ جو تم کھاتے ہو وہ اُسے کھلاؤ ۔''
ایک پتہ کی بات ! کفار ہی غلام کیوں بنتے رہے :
اسلام نے بہت بڑے احسانات کیے ہیں اُن پر پردہ ڈالنے کے لیے کہتے ہیں عجیب دستور ہے اسلام میں غلام بنانے کا ! جیسے کہ اسلام ہی غلام بناتا تھا اور دُوسرے نہیں بناتے تھے ، اُس کی ایک وجہ ہے وجہ یہ ہے کہ کوئی دو سو سال تک عیسائی توشکست ہی کھاتے رہے ہیں غلام ہی بنتے رہے ہیں تو وہ غلام بنانا توبھول ہی گئے نا ! بہت مدت ایسی گزر گئی کہ اُنہیں فتح یاب ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی جو غلام بنائیں ! تواب اُنہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسلام میں یہ دستور عجیب ہے غلام بنانے کا، ارے بھائی تم بھی تو بناتے تھے ! تاریخ میں دیکھ لو ! تم بھی بناتے تھے ! بعد میں موقع نہیں ملا تمہیں ، شکستیں ہی نصیب میں تھیں ! (توپسپا ہو کر )نکلتے چلے گئے (علاقوں سے اور)پیچھے ہٹتے چلے گئے (یہاں تک کہ)قسطنطنیہ میں جا کر تمہیں پناہ ملی ہے اور پھر کمزور ہی رہے وہ عیسائی ! ! !
موسم کے اعتبار سے علاقوں کی تقسیم :
ہر سال لڑائیاں ہوتی تھیں ہارون رشید بھی تھے اور لڑائیاں موسم کے لحاظ سے رکھی گئیں گرمیوں کے عرصہ میں اِدھر ترکی وغیرہ کی طرف چڑھائی کرتے تھے ! اور سردیوں کے عرصہ میں اور طرف ! ! تو چونکہ دُنیا بھر کی قسمت میں غلامی آگئی تھی اس لیے(جلن میں ) اسلام کا نام لیتے ہیں یہ ظالم ! !
١ بخاری شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٠
توانہیں تاریخ کی طرف بھی توجہ دلادی جائے جواب میں کہ تمہیں جو یہ نظر آرہا ہے وہ اس لیے نظر آرہا ہے کہ تم پر ایک عرصہ دراز تک سختیاں تھیں اس قابل ہی نہیں ہوئے کہ سر اُٹھا سکیں ! ! !
اہلِ یورپ کا رہن سہن ،سر اور بازو ننگے ہونے کی وجہ :
یہ تو اب چند سو سال سے اُٹھے ہیں اور ترقی کی ہے اہلِ یورپ نے ورنہ تو وہ جانوروں کی طرح رہتے تھے اور جو اِن کے یہاں تہذیب ہے وہ وہ ہے جواسلام نے غلاموں کی بتائی ہے، ''بازو نہیں ڈھک سکتے'' اب ان کے یہاں عورتیں ''بازو ننگے رکھتی ہیں '' وہی تہذیب صدیوں سے چلی آرہی ہے ان کے یہاں ، نَسْلاً بَعْد نَسْسلٍ مزاج بن گیا ہے ان کا ! ! !
غلاموں (اور باندیوں )کا ''سر کھلا رہے گا'' ! (غلام عمامہ اور باندی دوپٹہ نہیں لے سکتی) یہ احکام ہیں غلام اور باندیوں کے، وہ ان کے رہے ہیں وہ ان کے دماغوں میں رچ گئے ہیں اور جب یہ(اہلِ یورپ) ترقی پر آئے توچونکہ ان کاتھا ہی وہ لباس لہٰذا سب نے وہی پہنناشروع کردیا حالانکہ وہ اس لیے تھا کہ فرق ہو ''مسلمان '' او ر ''غیر مسلم'' کا اور ''غلام'' کافرق ہو اور ''آزاد'' کا فرق ہو ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر عمل کرنے کی توفیق دے اور اسلام پر اِستقامت دے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے ،آمین ۔اِختتامی دُعا.............

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.