jamiamadniajadeed

تمام انبیاء کرام اور اُن کی کتابوں پر اِیمان ضروری ہے

درس حدیث 255/11 ۔۔۔۔۔ تمام انبیاء کرام اور اُن کی کتابوں پر اِیمان ضروری ہے کیمیائی تاثیرات اور طبیعیات اٹل ہیں اللہ اِن کو بدل سکتا ہے قادیانی کیسے ایمان لائے گا ؟ (1987-07-12)

( نومبر 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث کا سلسلہ وار بیان ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک با قاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
تمام انبیاء کرام اور اُن کی کتابوں پر اِیمان ضروری ہے
کیمیائی تاثیرات اور طبیعیات اٹل ہیں اللہ اِن کو بدل سکتا ہے
قادیانی کیسے ایمان لائے گا ؟
( تخریج و تزئین : مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
( درس حدیث 255/11 ١٥ ذیقعدہ ١٤٠٧ھ/١٢ جولائی ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ اِس اُمت میں یعنی جن کو میں نے اللہ کا پیغام پہنچایا ہے ساری دُنیا میں ، کوئی بھی یہودی یا عیسائی مجھ پر اِیمان لائے بغیر اگر مر جائے گا تو وہ جہنمی ہوگا اِلاَّکَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ ١
میں نے عرض کیاتھا کہ تمام انبیائے کرام پر اِیمان رکھنا فرض ہے قرآنِ پاک میں ہے (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِہ وَالْمُؤْمِنُوْنَ )خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اِیمان ہے اُس چیز پر جو اللہ کی طرف آپ کے اُوپر اُتاری گئی اور دُوسرے اِیمان والے جو ہیں اُن کا بھی یہی ہے کہ وہ اِیمان لائیں مومن بھی وہی ہوگا جو اُس پر اِیمان رکھے گا (کُلّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہ وَکُتُبِہ ) ٢ سب کے سب
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث١٠ و مسلم شریف کتاب الایمان رقم الحدیث٢٤٠
٢ سُورة البقرة : ٢٨٥
اللہ پر اِیمان رکھتے ہیں اور اُس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں پر یعنی جو اللہ نے اُتاریں وہ حق تھیں ، منسوخ ہوجانا الگ بات ہے باقی توراة پر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی ہمارا اِیمان ہے کہ وہ صحیح سچ اور حق تھی۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور دی گئی ( وَاٰتَیْنَا دَاودَ زَبُوْرًا ) ١ یہ قرآنِ پاک میں ہے۔
حضرت اِبراہیم علیہ السلام کو مختلف صحیفے دیے گئے ( صُحُفِ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی ) ٢
یہ بھی قرآنِ پاک میں ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اِنجیل دی گئی ( وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ ) ٣
ہمارا اِیمان ہے کہ وہ صحیح وہ حق وہ سچ ہے لیکن منسوخ ہوتی رہیں تبدیلیاں آ تی رہیں ۔
پہلی اُمتوں پر اَحکامات میں سختی تھی :
قرآنِ پاک ہی میں ہے ( رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْنَا اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لَاطَاقَةَ لَنَا بِہ ) ٤ ہمارے اُوپر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلوں پر ڈالا تھا تو پہلے جو اَنبیائے کرام گزرے ہیں اور اُمتیں گزری ہیں اُن پر اَحکام سخت بھی تھے مثال کے طور پر بنی اسرائیل میں یہ حکم تھا کہ اگر پیشاب لگ جائے کپڑے کو تو کپڑا کاٹ دیں وہ پاک کرنے سے پاک نہ سمجھیں بڑی دِقت کی بات تھی بہت مشکل حکم تھا یہ !
اُس کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام آئے اُنہوں نے تبدیلی کردی اَحکام میں وہ شدت جو تھی اُن میں کمی آئی وہ اپنی جگہ درست تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں شدت تھی اور یہ اپنی جگہ درست ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانے میں تخفیف ہوئی ۔
١ سُورة النساء : ١٦٣ ٢ سُورة الاعلٰی : ١٩ ٣ سُورة المائدة : ٤٦ ٤ سُورة البقرة : ٢٨٦
آپ کی نبوت کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی ہے :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتایا گیا قرآنِ پاک میں آیا ( اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِیْلِ ) ١ نبی ٔاُمی کی پیروی کرتے ہیں جن کو دیکھتے ہیں کہ لکھا ہوا ہے اُن کا نام تورٰة اور اِنجیل میں ! قدیم نسخہ مجھے ایک دیکھنے کو مِلا تھا اُس میں یہی تھا مُحَمَّدیَمْ ''یَمْ'' تعظیم کے لیے بڑھادیتے ہیں ! ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی اور علامات تب بھی تھیں ! ! تو قرآنِ پاک میں آیا ہے ( اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَھُمْ ) ٢ جیسے آدمی اپنے بیٹے کا بیٹا ہونا پہچانتا ہے یقین کے ساتھ اسی طرح یقین کے ساتھ اہلِ کتاب بھی پہچانتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں ( اَلَّذِیْْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَأْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ) ٣ اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور خراب چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں اور اُن کے اُوپر سے وہ سختیاں جو تھیں وہ ہٹارہے ہیں یعنی وہ اِس اُمت میں نہیں رہیں ، اب اِس اُمت میں حکم یہ ہے کہ کپڑا ناپاک ہوجائے تو پاک کر لیں ۔
چغلی اور عذابِ قبر :
لیکن پیشاب اور اُس کی چھینٹیں اور اُس سے بدن کا ناپاک ہونا اور ناپاک چھوڑ دینا وہ سخت عذاب کی بات ہے ! رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کہیں سے گزر رہے تھے تو آپ کو محسوس ہوا کہ دو آدمیوں کو عذاب ہو رہا ہے قبر کا، تو اِنسان کی رُوح کہیں بھی ہو اُس کا ایک تعلق قبر سے رہتا ہے کیونکہ
١ سُورة الاعراف : ١٥٧ ٢ سُورة البقرة : ١٤٦ ٣ سُورة الاعراف : ١٥٧

قیامت کے دن جو اُٹھایا جائے گا اُسے تو اُسی تعلق کی وجہ سے جسم اُس کا دوبارہ جمع ہوجائے گا رُوح اَجزا کو جمع کرلیتی ہے چاہے وہ اَجزا ہوا میں اُڑا دیے گئے ہوں جلا دیے گئے ہوں ،جہاں جلائے گئے ہیں اُس جگہ سے تعلق رہے گا اور وہ تعلق فنا ہونے والا نہیں ہے ،تعلق کا دوام اور عدمِ دوام عارضی ہونا مستقل ہونا یہ خدا کے اِرادے پر موقوف ہے اللہ کے فیصلے پر موقوف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کی جو فطرت بنادی ہے بس وہ چل رہی ہے کوئی چیز سمجھ میں آتی ہے کوئی سمجھ میں بھی نہیں آتی آدمی کہتا ہے کہ یہ ہوگیا یہ ہوگیا(حالانکہ)جو ہورہا ہے قدرت کی طرف سے (وہ بس)اُس کی خبر دے دیتا ہے، بادل آرہے ہیں یہ ہورہا ہے بارش ہورہی ہے یہاں بھی ہوجائے گی انداز ہے ضروری نہیں ہے کہ بادل آجائے تو بارش ہوجائے، یہ انداز ہوا۔
طبیعیات (فزکس)کے اُصول اٹل مگر اللہ کی تخلیق ہیں ،اللہ چاہے تو ٹوٹ سکتے ہیں :
اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اللہ نے فیصلے کے طورپر کردی ہیں ،پانی جو ہے نشیب میں ہی جائے گا نیچے کی طرف اور بھاپ جو ہے اُوپر ہی کی طرف جائے گی دُھواں اُوپر ہی کی طرف جائے گا، ان کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا انسان کا اِتنا عادی ہو گیا ہے دیکھ دیکھ کر کہ خیال ہی نہیں جاتا کہ یہ قدرت نے کیا چیز کر رکھی ہے، یہ قدرت نے دائمی فیصلے دے دیے اس دُنیا میں ! اِن کا اُلٹ بھی ہوسکتا ہے پانی اُوپر جائے بھاپ نیچے آئے کیونکہ اللہ کے اِرادے پر ہے مدار سارا، جو کشش بھاپ کی اُوپر رکھ دی ہے وہ اگر نیچے رکھ دی جائے تو نیچے آئے گی بھاپ ! ! !
رُوح کا تعلق جسم سے :
تواِسی طرح رُوح کا اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ قیامت تک اور اُس کے بعد تک ہمیشہ کے لیے اِنسانی رُوح جن اَجزا سے اُس کا تعلق ہے وہ رہے گا وہ نہیں ہٹے گا اَجزا چاہے جانور کھا جائے چیل کوّے کھاجائیں اور چاہے وہ جلا کے فنا کردیے جائیں اُڑا دیے جائیں پھر بھی رُوح جو ہے وہ اُنہیں جمع کر لے گی اور جب جان آجاتی ہے تو وہ سارے اَجزا پھر کام کرنے لگتے ہیں ! ! کہیں سے جان نکل جائے تو وہی بیکار ہوجاتا ہے حصہ ! جان ہو توکام کرتا ہے وہ حصہ۔ تو حق تعالیٰ نے رُوح سے جو تعلق رکھا ہے اَجزا کا تو جو لوگ قبر میں دفن کرتے ہیں اُن کا تعلق قبر میں محسوس ہوگا اور جو جلاتے ہیں اُن کا اُس جگہ محسوس ہو سکتا ہے جہاں اُنہیں جلایا گیا ہو اور ایک ہی جگہ ایک آدمی جلا یا گیا ہو یا دس یا ہزار یا لاکھ یاکروڑ جلائے گئے ہوں پھر بھی اُسی جگہ کا تعلق رہے گا اُس سے ! مرکز اُن کے لیے وہ بن گیا وہ نقطہ ہے اُس سے تعلق ہے اُس کا ! !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے تو محسوس فرمایا کہ عذاب ہو رہا ہے، کیسے محسوس ہوا ؟ کہیں تو ایسے ہو جاتا ہے بعض دفعہ کہ سواری کا جانور بدک گیا جب جانور بگڑا ہے تو پھر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عذاب ِ قبر دیکھا ہے اس نے اس لیے بدک گیا ہے !
انسان اور جنات کو یہ چیزیں نظر نہیں آتیں کیونکہ جس طرح انسان مکلف ہے اِیمان بالغیب کا ویسے ہی جنات بھی مکلف ہیں اِیمان بالغیب کے، اُنہیں جنت نہیں نظر آتی جہنم نہیں نظر آتی ایک حد تک معلومات ہوتی ہیں بس جب کسی پر جن آتا ہے تو آپ لوگ پوچھتے ہوں گے کہ بھائی یہ کیا ہے اور کیسے ہے تو وہ دیکھ کے بتاتا ہے یا جا کے دیکھ آتا ہے اور نظر اُن کی کئی کئی ہزار میل تک جاتی ہے تو رفتار اُن کی ایسی ہے ایک سیکنڈ میں تیس چالیس ہزار میل ،تو آپ کو تو پتہ بھی نہیں چل سکتا کہ اتنی دیر میں وہ ہو آیا ہے یا نہیں حالانکہ وہ ہو کر، آکر بتادیتا ہے۔
کیمیائی تاثیرات اور حضرت سلیمان علیہ السلام :
حضرت سلیمان علیہ السلام جب عبادت فرماتے تھے جس وقت کی بھی جو بھی اوقات تھے نماز کے تو اُس میں ایک درخت سامنے آجاتا تھا وہ اُس سے پوچھتے تھے کیا ہے تو کس طرح سے ہے ؟ تووہ بتاتا تھا اپنا فائدہ ،یہ فائدہ خدا نے میرے اندر رکھاہے تو آپ تعلیم فرما دیتے تھے،انسانوں میں حکمت جو آئی ہے وہ اِس طریقہ پر بھی آئی ہے۔
وفات کی اطلاع :
تو ایک دن ایک درخت آیا اُس نے کہا میں آپ کے لیے وفات کی خبر لایا ہوں ، کہا کیسے ؟ کہ جب میں بڑا ہوجاؤں گا ! بڑا بھی ہو گیا تو پھر آپ کی وفات ہو گی ! ! عجیب بات ہے تریپن سال عمر حضرت سلیمان علیہ السلام کی لکھی گئی ہے اور اللہ نے حکومت ساری دُنیا کی دی، ہوا کی دی، جنات کی دی، سب کی دی اور آج تک نام ہے آج تک اُس کے اثرات ہیں ،جنوں سے قسمیں کھلواتے ہیں سلیمان علیہ السلام کی وہ مسلمان ہو یا کافر ہووہ سب مانتے ہیں ۔اور عمر مبارک ہوئی ہے اُن کی تریپن سال یعنی چالیس سال کی مدت میں نبوت ملی ہوگی اُن کو اُس عمر میں اور اُس کے بعد تیرہ سال کے دور میں یہ(سب کچھ) بھی ہو چکا تھا ! ! !
بیت المقدس کی تعمیر اور آپ کی وفات :
تو اب آخر میں اُنہوں نے بیت المقدس کی تعمیر شروع کرا رکھی تھی تو اللہ کی طرف سے بلاوا آگیا اُنہوں نے دعا کی کہ ایسے ہو کہ میں کھڑا رہوں اس کے سہارے عصا لاٹھی کے سہارے اور یہ کام مکمل ہوجائے تو اللہ کی طرف سے(ان کے لیے یہ اعزاز) تھا کہ جو حکم وہ دے دیں اُس کے خلاف کوئی جن کر نہیں سکتا (وَمَنْ یَّزِغْ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ) ١ ہو سکتا ہے کہ اِس کا مطلب یہ ہو کہ جو کوئی بھی جنات میں سے نافرمانی کرتا تھا اُس کو آگ کا عذاب شروع ہوجاتا تھا لہٰذانافرمانی کر ہی نہیں سکتا ! تو اُنہوں نے یہ دُعا کی کہ یہ جو کام پر لگے ہوئے ہیں جنات یہ لگے رہیں اِنہیں میرے انتقال کی خبر نہ ہو تووہ اُسی درخت کی لاٹھی کے سہارے سے اِسی حال میں جس طرح بھی اُنہوں نے بنایا اپنا سہارا وفات ہو گئی اور وہ کھڑے رہے دو سال اور یہ جنات دن رات کام میں لگے رہے اور کسی کو قریب جانے کی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ جائے یا پوچھے اُنہوں نے بس فرمادیا کہ یہ مکمل کرو ! بس وہ مکمل کر نے میں لگے رہے ! !
١ سُورہ سبا : ١٢
اور جب وہ مکمل ہو گیا تو دیمک نے اُس سہارے کی لکڑی کو کھالیا، دیمک نے کھایاہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام کا جسد ِاَطہر پھر کھڑا نہیں رہا ، پھر اُنہیں پتہ چلا کہ وفات ہوگئی ! ! قرآن میں ہے (اَنْ لَّوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْ فِی الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ ) ١ اگر وہ (جنات) جانتے ہوتے غیب تواِس تکلیف دہ عذاب میں مبتلا نہ رہتے تودو سال تک وہ جنات لگے رہے ! ! جب حیات تھے تو کسی وقت نظروں سے غائب بھی ہوجاتے ہوں گے کہ آرام فرما رہے ہیں ،سو رہے ہیں لیکن جب وفات ہو گئی تو پھر تو چوبیس گھنٹے وہ سامنے کھڑے رہے ہیں اور دن رات اُنہیں کام کرنا پڑا ! ! !
تو اب یہ تھا کہ انسان مکلف جنات مکلف یہ دو مکلف ہیں اِن کو عذاب ِ قبر نہیں نظر آتا جیسے اِیمان بالغیب کا انسان مکلف ہے ویسے ہی اِیمان بالغیب کا جن بھی مکلف ہے، وہ جنت پہ نبوت پہ جہنم پہ جزا اور سزا پہ اِسی طرح اِیمان رکھتے ہیں جس طرح انسان ،تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے فرمایا کہ یہ سواری جو ہے گھوڑا یہ اس لیے بگڑا ہے کہ اسے عذاب نظر آگیا یہ مکلف نہیں ہے جانور جو مکلف نہیں ہیں اُنہیں نظر آتا ہے اور وہ بھی ................... خدا پر اِیمان اُن کا ہے (اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ)کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو خدا کو نہ جانتی ہو اور اُس کی پاکی نہ بیان کرتی ہو تسبیح نہ بیان کرتی ہو ( وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ ) یہ الگ بات ہے کہ تم لوگ اِن پتوں کی درختوں کی گھاس کی اِن کی تسبیحات کو نہیں پہچان سکتے، نہیں سمجھ میں آسکتی، لیکن ہے ضرور اور ثابت بھی ہے احادیث سے جیسے میں نے آپ کو بتایا حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے وہ درخت آتا تھا وہ بتاتا تھا، اسی طرح اور بھی چیزیں ثابت ہیں اس طرح کی ! ! تو اللہ نے ان تمام چیزوں میں شعور رکھا ہے ایک درجہ کا تو وہ سب غیرمکلف ہیں کیونکہ اُن کو اِیمان لانے والی چیزیں نظر آتی ہیں اور کفر ہے ہی نہیں سرے سے مگریہ انسان اور جنات دومخلوق ایسی ہیں کہ ان کے لیے حساب ہے ان سے سوال ہے یہ مکلف ہیں ۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اِس گھوڑے کو وہ نظر آیا اس لیے بدک گیا ۔
١ سُورہ سبا : ١٤

پیشاب اور چغلی کی وجہ سے عذابِ قبر :
ایک جگہ آپ تشریف لے جارہے تھے فرمایا کہ اِن دو قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور مَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ کسی ایسے بڑے گناہ میں نہیں ہے یا کسی ایسے بڑے کام کی وجہ سے نہیں ہے کہ جس سے اِنہیں بچنا مشکل ہوتا ہو اَمَّا اَحَدُھُمَا فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ ایک جو تھا وہ تو چغلی کھایا کرتا تھا اور دُوسرا جو تھا کَانَ لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِہ ١ یہ جو پیشاب کرتا تھا تو اُس سے بچتا نہیں تھا چھینٹیں آجاتی تھیں تو پرواہ نہیں کرتا تھا ،یہ کوئی کام ایسا نہیں ہے مشکل جس سے انسان نہ بچ سکے اگر اِرادہ کرلے کہ یہ کام نہیں کرنا یہ گناہ نہیں کرنا پاک رہنا ہے تو پھر وہ پاک رہے گا ۔
ہر وقت پاک رہنا :
شریعت ِ مطہرہ نے ہمیں یہ بتلایا ہے کہ ہر وقت پاک رہو یہ نہیں کہ نماز کے وقت پاک ہو بلکہ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ ہر وقت پاک رہنا ہے جس وقت ناپاکی آئے پاک کر لے یہ تعلیم ہے اصل اور نماز کے وقت پاکی تو یہ گویا اُس کا آخری وقت ہے کہ نماز کے وقت تو سمجھو بالکل آخری وقت ہو گیا ہے اس وقت تو کرنی ہی پڑے گی پاکی حاصل۔
سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے جو عذابِ قبر دیکھا تو وہ اُس جگہ دیکھا جب گزرے ہیں قبروں پر سے تو پتہ چلا ہے۔ اس طرح کے واقعات بہت سارے ہیں اور اِن میں عذابِ قبر اور نعیمِ قبر قبر کی نعمتیں اور قبر کی کیفیات جو وہاں ہوتی ہیں یا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ بات احادیث سے ثابت ہے رُوح چاہے جس جگہ بھی ہو تعلق اُس کا یہاں سے رہتا ہی ہے۔
اہلِ قبور کو سلام ، اُن کی طرف سے جواب اور شناخت :
اِبن تیمیہ لکھتے ہیں کہ جب کوئی آدمی جاتا ہے تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر وہ سلام کرتا ہے
١ بخاری شریف کتاب الوضوء رقم الحدیث ٢١٦
مردے کو تو مردہ سلام سنتا بھی ہے جواب بھی دیتا ہے ! اور جسے دُنیا میں پہچانتا تھا اُس کو پہچان بھی جاتا ہے ! اور اس میں وہ سب برا بر ہیں بشرطیکہ مسلمان ہو ،اُسے سلام جب کیا جائے گاتو اللہ تعالیٰ نے اُس میں اتنا شعور ہمیشہ کے لیے رکھا ہے کہ وہ جواب بھی دے اور پہچان بھی سکے۔
اہلِ کتاب کو نبی علیہ السلام پر اِیمان لانا چاہیے ،اس کی عقلی وجہ :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب کے لیے ضروری ہے یہودی ہو، نصرانی ہو اُن کو میرے اُوپر اِیمان لانا ضروری ہے،اس واسطے کہ نہ یہودیوں کے خلاف کوئی بات فرمائی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، نہ عیسائیوں کے خلاف کوئی بات فرمائی، عقلی وجہ تو صاف ہے ! عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بڑا مانتے ہیں ہم بھی بڑا مانتے ہیں نبی ہیں خدا کے ! یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو بہت بڑا مانتے ہیں ہم بھی مانتے ہیں نبی ہیں خدا کے !
وہ ایک دُوسرے کے نبی کو نہیں مانتے مگر ہم سب کو مانتے ہیں :
وہ(اہلِ کتاب) آپس میں جھگڑتے ضرور ہیں ایک دُوسرے کے نبیوں کو نہیں مانتے ! مگر ہمارے یہاں یہ سلسلہ نہیں بلکہ سب اَنبیاء ِکرام پر اِیمان لاتے ہیں (کُلّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُولِہ ) اور انبیائِ کرام میں ہم کسی کی بھی تفریق نہیں کرتے ( لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہ) ١ تفریق نہ کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ تفریق نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی نبی ہے نبی ہے بس ، نبی معصوم ہوتا ہے نبی سے گناہ نہیں ہوتا نبی پر وحی آتی ہے نبی خدا کا سب سے زیادہ مقرب ہوتا ہے اُن میں جو درجات ہیں وہ الگ ہیں ( تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ) ٢ بعض کو بعض پر ہم نے فضیلت بخشی ہے فضیلت دی ہے مگر ہمارے لیے وہ سب نبی ہیں اور سب واجب الایمان ہیں چندکو ہم جانتے ہیں اور بہت زیادہ وہ ہیں جن کا نام بھی نہیں جانتے لیکن اِیمان تو ہے کہ نبی جو بھی تھا ہمارا اُس پر اِیمان ہے خدا جانتا ہے کہ وہ کون کون تھے، کیا نام تھا، کہاں گزرے ہیں ، کیا حالات تھے،
١ سُورة البقرة : ٢٨٥ ٢ سُورة البقرة : ٢٥٣
کیا تعلیم تھی، اور یہ بھی اِیمان کہ اُنہوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی اُنہوں نے اُمت کو تعلیم دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور اَنبیائِ کرام کی شفقت جو ہے اپنی اُمتوں کے ساتھ ہمیشہ بہت زیادہ رہی ہے ہمارا اِیمان اُن سب پر ہے ۔
آپ خاتم النبیین ہیں ،قادیانیوں کے اِیمان لانے کا طریقہ :
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النیین ہیں آپ پر اِیمان لایا جائے گا اور اِیمان لانے کی بات چل رہی تھی کہ .......... جو دُوسرا ہے اُس کا اِیمان کیسے ہے ؟ یہ قادیانی جو ہیں ان کے بارے میں ایک صاحب مجھ سے پوچھ رہے تھے میں نے کہا تھا یاد بھی دلا دیں تو اِن کا اِیمان کیسے ہوگا ؟ توجب اِیمان لائے گا تو وہ اُس کو کہے گا کہ یہ جھوٹا تھا ! مسیلمہ کے ساتھ ''کذاب ''کا لفظ لگا ہوا ہے'' مسیلمہ کذاب'' تو جو آدمی قادیانی ہے اور مسلمان ہو رہا ہے تو اُسے یہ بات کہنی پڑے گی کہ'' غلام محمد کو میں جھوٹا مانتا ہوں '' اسی طرح کوئی عیسائی ہے اور مسلمان ہو رہا ہے تو اُسے جہاں لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھوایا جائے گا وہاں اُسے یہ بھی کہا جائے گا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو میں اللہ کا رسول جانتا ہوں اُن کی والدہ کو وَلیہ مانتا ہوں ( اُمُّہ صِدِّیْقَة ) ١ یہ کہے گا وہ ،تاکہ پہلے جو عقیدہ ہے اُس کا کہ وہ خدا کی بیوی اور خدا کے بیٹے ہیں اُس سے تائب ہونا ثابت ہو جن اَجزا پر اُس کے کفرکا مدار ہے جیسے کوئی کہتا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ لیکن میں مانتا ہوں رسول مگر عرب کے لیے عجم کے لیے نہیں تو وہ صراحت کرے گا اس بات کی کہ آپ رسول ہیں ساری دُنیا کے لیے اور ہمیشہ کے لیے اور میں سوائے اسلام کے باقی سب (دینوں )سے بری ہوں اس کی بھی صراحت کرے گا اور اسلام پر ،صحیح عقائد پر اِیمان لانا ضروری ہے۔
اور اگر پتہ نہ چلے شبہ ہو کہ پتہ نہیں یہ کون ہے کون نہیں ہے ؟ تو اُس سے اِجمالاً کہلا یا جائے گا کہ اسلام کے سوا میں تمام چیزوں (دینوں ) سے بری ہوں ! یہ (سارا بیان)اس حدیث سے متعلق تھا
١ سُورة المائدة : ٧٥

اور اگر اہلِ کتاب میں سے کوئی مسلمان کے پاس آجائے اُس کو تعلیم دے پھر وہ اِیمان قبول کرلے تو اُسے اِیمان لانے پر کتنا اَجر ہے ؟
اور اگر اہلِ کتاب میں سے کوئی مسلمان ہوا ہے اور اُسے آپ نے تعلیم دے دی تو آپ کو کتنا اجر ہے ؟
وہ اگلی حدیث شریف میں آتا ہے اِنشاء اللہ آگے بیان کریں گے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح عقائد پر قائم رکھے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محشور فرمائے، آمین۔اِختتامی دُعا ...........

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.