( اکتوبر 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث کا سلسلہ وار بیان ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک با قاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''فلاح '' کا مطلب ، ایمان کی ''حلاوت'' کی نشانی
اذان میں درُود شریف کا صحیح طریقہ ، سب سے پہلے شیعوں نے اذان کو بگاڑا
( درس حدیث 250/10 ١٠ شوال المکرم١٤٠٧ھ/٧ جون ١٩٨٧ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں اِرشاد فرمایا گیاہے کہ جس آدمی نے اپنے دل میں ایمان کی ایسی کیفیت محسوس کرنی شروع کردی ہو کہ اللہ کو رب بنانے پر راضی ہو اور اسلام کو اپنا دین بنا کر وہ خوش ہے اور جناب ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر خوش ہے اللہ تعالیٰ کی رضامندی سے خوش ہے رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا ١ بس جس کا دل ان باتوں پر مطمئن ہوجائے جم جائے اُس نے ایمان کی حلاوت پالی شیرینی پالی ! ! اس دعا کے کلمات اور موقع بھی بتایا گیا ہے رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا ٢ اذان کے بعد یہ کلمات کہے جائیں ۔
اصل طریقہ اذان کا یہ ہے کہ اذان جب دی جا رہی ہو تو (سننے والا) مؤذن کے کلمات دہراتا رہے وہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہے تو سننے والا بھی یہی کہے جب اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ کہے
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٩ و مسلم شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٤
٢ سُنن ابن ماجہ کتاب الاذان و السنة فیہ رقم الحدیث ٧٢١
تو سننے والا بھی یہی کہے اور یہ بھی جائز ہے کہ '' وَاَنَا '' کہہ دے فقط کیونکہ رسولِ کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے ایسا بھی کیا ہے '' وَاَنَا '' کا ترجمہ ہے '' اور میں بھی'' یعنی مؤذن تو گواہی دے ہی رہا ہے میں بھی دے رہا ہوں ۔
اسی طرح اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ جب پڑھتا ہے مؤذن توبھی یہی کہا جائے گا وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ اور فقط '' وَاَنَا '' بھی درست ہے ۔
اذان اور درُود شریف :
درود شریف کا یہاں ذکر نہیں آتا کہ اذان کے درمیان میں جواب دینے والا درود شریف پڑھے حالانکہ اِسم گرا می آرہا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ جہاں نام آئے وہاں درُود پڑھا جائے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہا جائے لیکن یہاں نہیں بتایا گیا کیونکہ اذان (تسلسل سے بِلا وقفہ کے)چل رہی ہے اُس کے درمیان میں ( پڑھنے کا موقع ) نہیں ( مِل رہا)۔
مثال سے وضاحت :
جیسے خطیب جب(جمعہ کا) خطبہ دیتاہے تو اُس میں بھی وہ پڑھتا ہے اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ تو پھر وہ خود ہی کہتا ہے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہ وَاَصْحَابِہ وَبَارَکَ وَسَلَمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا اور سننے والوں کو (دورانِ خطبہ) یہ کہنا منع ہے کیونکہ بولنا منع ہے اُس وقت صرف (خطبہ) سننا بتایا گیا ہے۔
حنفی مسلک یہی ہے :
تو اصل جو بات ہے وہ وہیں جا کر رہتی ہے صحیح بات جو ہے دین کی وہ وہیں جا کر ٹھہرتی ہے کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلادیا اور صحابہ کرام نے وہ کرلیا،فقہائے کرام نے بڑی کوششیں کی ہیں تمام چیزیں لکھ دی ہیں ، حنفی حضرات نے تو بہت ہی محنت کی ہے کتابوں پر، اور وہ(ان موقعوں پر) منع کرتے ہیں حنفی مسلک یہی ہے، اُس کے بعد پھر آتا ہے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ اُس کا جواب دونوں طرح درست ہے کہحَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ ہی کہہ دے اور یہ بھی ہے کہ لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ اِس کا مطلب یا جوڑ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ کے ساتھ اس طرح بنتا ہے کہ مؤذن بُلا رہا ہے گویا کہ آؤ نماز کے لیے تو سننے والا یہ کہہ رہا ہے کہ میرا آنا یہ اللہ کی توفیق پر اور اُس کے طاقت بخشنے پر ہے ۔
''حَوْل '' اور'' قُوَّةْ '' میں فرق :
لَاحَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ ''حول'' کے معنٰی طاقت کے ہیں اور ''قوت'' کے معنٰی بھی طاقت کے ہیں لیکن فرق بھی ہے دونوں میں '' حول'' کے معنٰی ہیں '' ذہنی طاقت فکری قوت'' اور ''قوة ''سے مراد بدنی قوت جسمانی قوت تو جب یہ جواب میں لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ کہہ رہا ہے تو گویا خدا سے توفیق چاہتا ہے کہ میرا نماز کے لیے جانایہ تیری توفیق پر موقوف ہے تو ہی اِس کی فکری ذہنی طاقت دے گا کہ ذہن اُدھر جانا چاہے اور تو ہی جسمانی طاقت بھی دے گا تا کہ میں جا سکوں ۔
''فلاح'' کا مطلب :
اسی طرح حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ اور کہتے ہیں کہ '' فَلَاحْ '' کا جملہ کلامِ عرب میں بہت بڑا قیمتی جملہ ہے ! اور اِس کا ترجمہ کسی زبان میں نہیں ہے ! اور اس کے ہم معنٰی لفظ عربی زبان میں بھی نہیں ہیں ! آپ تو سمجھتے ہیں کہ معمولی سا لفظ ہے یہ ،یہ بات نہیں ہے بلکہ'' فلاح'' کے معنٰی ہیں دُنیاوی خیر اور آخرت کی خیر دونوں کے معنٰی لیے گئے ہیں تو دُنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی اور خیر اوربھلائی کے لیے آؤ، یہ معنٰی ہوئے، بہترین کلمات ہیں بہت عمدہ ترجمہ ہے بہت عمدہ جوڑ ہے ،اس کے جواب میں بھی وہ یہی کہے گا کہ جو بھی کچھ ہوگا وہ خدا کے دیے سے ہوگا لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ خدا ہی طاقت دے گا تو، خدا ہی قوت بخشے گا تو۔ اس کے بعد (مؤذن) جو کلمات کہے وہ دہرادیں (سننے والے) لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ تک ۔
درُود شریف اذان کے بعد کیوں ؟
اب درُود شریف رہ گیا تھا پڑھنا تو درُود شریف وہ اب پڑھے کیونکہ ذکر آیا ہے اذان میں اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ اورجواب آپ نے دیا اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ اور درُود شریف رہ گیا ہے وہاں ، تو(اب اذان) سے (فراغت کے) بعد درُود شریف پڑھناآیا ہے۔
التحیات میں بھی ایسے ہی ہے :
جیسے آپ پڑھتے ہیں اَلتَّحِیَّاتْ میں اُس میں بھی یہی ہے اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ پھر درُود شریف بتایا گیا لہٰذا آگے درُود شریف پڑھا جائے گا لیکن اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ ایسے نہیں بتایا گیا (اور کوئی ایسے پڑھتا بھی نہیں ) بلکہ وہ جملہ پورا ہی کیا جائے گا اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ پھر پڑھاجائے گا اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ جو بھی درُود شریف نماز میں آیا ہے۔
تو اذان کے بعد پہلے تو درُود شریف پڑھا جائے گا اُس کے بعد وہ دُعا جو مشہور ہے اَللّٰہُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ سے آخر تک مکمل دعا پڑھی جائے گی تو اس کے بعد یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ آدمی یہ دُعاکہہ لے رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو گویا اذان کا مسنون اور متوارث طریقہ تو یہی ہے، '' متوارث'' کے معنی ہیں ایسا عمل جو ہمیشہ سے مسلسل چلا آرہا ہو۔
اذان میں پہلا بگاڑ شیعوں نے کیا :
شیعوں نے بگاڑ دیا اُنہوں نے اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ اور عَلِیًّا وَلِیُّ اللّٰہِ وَصِیُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا پیچ میں اضافہ کردیا۔ اس پر مقدمہ چلا مقدمہ میں اُنہوں نے اعتراف کیا کہ یہ کلمات جو ہیں یہ بڑھائے ہوئے ہیں اصل اذان جو ہے وہ وہی ہے ۔
حنفیوں میں پیدا ہونے والے اہلِ بدعت کی ایجاد :
اس کے بعد ہمارے (بعض) حنفی لوگ بھی ایسا کرنے لگے کہ اذان سے پہلے پڑھنے لگے درُود شریف تو اَب اذان سے پہلے درُود شریف پڑھنا یہ تو کسی بھی کتاب میں نہیں آیا کہیں بھی نہیں آیا بلکہ اذان کے بعد آیا ہے تو اذان کے بعد تو چپ ہوجاتے ہیں حالانکہ پڑھنا چاہیے اذان کے بعد اگر سکھانا ہی مقصود ہے تو اذان کے بعد پڑھنا چاہیے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر (پہلے)آگیا ہے ا ذان میں ، جب ذکر آگیا ہے تب تو پڑھا نہیں اور جب ذکر ہی نہیں ہے اُس سے پہلے پڑھ دیا درُود شریف ۔
مثال سے وضاحت :
تو یہ تو ایسے ہے جیسے کہ رمضان کا چاند جب ہوا تو روزہ نہیں رکھا اور رمضان سے پہلے روزے رکھ لیے اور جب نماز کا وقت آیا مغرب کی، آفتاب غروب ہوا تو نماز ہی نہیں پڑھی اور اُس سے پہلے پڑھ ڈالی نماز گویا وقت سے پہلے۔
بریلی میں بھی کوئی بریلوی ایسا کرتا ہے اور کوئی نہیں کرتا :
اب یہ کیا ہے یہ (بدعت) ا پنا اِجتہاد ہے یہ کہیں کتابوں میں نہیں ہے حنفی مسلک میں نہیں ہے حنفی مسلک سے آگے بڑھ کر اپنے اجتہاد سے ایسی چیزیں نکال لیں ،کوئی کرتاہے کوئی نہیں کرتا، بریلی میں بھی یہی ہے کوئی(یہ بدعت) کرتاہے کوئی نہیں کرتا، دیوبندی بریلوی کا فرق ہی نہیں ہے اس کے اندر، مسائل میں تو فرق ہے ہی نہیں دیوبندی بریلوی کا۔
تو بریلی میں جو لوگ بریلوی ہیں وہ بھی نہیں پڑھتے اور فتوے بھی ہیں ایسے، نعیمی صاحب ١ نے بھی فتویٰ دیا ہے کہ یہ غلط ہے مگر صحیح طریقہ بھی تو بتانا چاہیے نا ...... اب صحیح کیا ہے ؟ تو صحیح یہ ہے کہ بعد میں پڑھے درُود شریف اور یہ دعا بھی پڑھے اگر مقصود لوگوں کو سنانی ہے اور سکھانی ہے تو یہ کام کرنا چاہیے کہ بعد میں درُود شریف پڑھے ،درُود شریف پڑھ کر پھر یہ بتلائے کہ اَللّٰہُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ سے اِختتام ِ دُعا تک ایسے تھا۔
.............( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ )ہم نے یہ قرآنِ پاک اُتارا ہے
١ مفتی محمد حسین صاحب نعیمی ،بریلوی مدرسہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور کے مہتمم
ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے اور یہ فرمایا تھا کہ یہ نبی آخری نبی ہیں تو قرآنِ پاک بھی محفوظ رکھا اور آخری نبی کی حیات ،سیرت، آپ کے احوال اقوال احکام وہ بھی اللہ نے محفوظ رکھے، اس طرح نہیں کہ کسی کو پتہ ہے کسی کو نہیں ، نہیں سب کو پتہ ہے اگر کوئی کہتاہے کہ میرے دل میں جو ہے وہ ہے'' دین'' تو یہ باطل ہے وہ تو معاذاللہ اسلام سے ہٹ گیا جیسے کسی جاہل پیر کو سنیں آپ اس طرح کی بات کہتے ہوئے، جاہل پیر اِس طرح کی باتیں کہہ دیتے ہیں وہ بالکل غلط بات ہے، دین وہی ہے جو کھلم کھلا شک سے بالا اور سامنے ہو، بس وہ دین ہے اور باقی باتیں جو وہ کہہ رہا ہے وہ اُس کی (من گھڑت) بات ہے ۔
اگر ''مجذوب'' ہے تو وہ غیر مکلف ہے مجذوب تو ویسے بھی قابلِ اتباع نہیں ہوتا نماز پڑھتا ہوتا ہے اِدھر اُدھر دیکھتا ہے ! نماز پڑھتا ہوتا ہے نیت توڑ کر چل دیتا ہے ! ! تو اُس کا تو ویسے بھی اتباع نہیں اور اگر ''فرضی مجذوب ''بنا ہوا ہے تو فرضی مجذوب بھی قابلِ اتباع نہیں دونوں ہی منع ہیں ۔ تو دین وہ ہے جو کھلم کھلا اور صحیح طریقوں سے ہم تک پہنچا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر قائم رکھے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اِختتامی دُعا.................
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.