jamiamadniajadeed

نیت کی اہمیت

درس حدیث 242/1 ۔۔۔۔۔ نیت کی اہمیت ۔ حضرت اَبوذر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اِسلام ۔ کفار کی تنگ نظری ، یہود کی خوش فہمی ۔ یہود کی بخت نصر کے ہاتھوں رُسوائی اور مدینہ آمد ۔ حضرات اَنصار کی یمن سے رحلت
(1987-04-12)

( جنوری 2019 ء )
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث کا سلسلہ وار بیان ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک با قاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرتِ اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
نیت کی اہمیت ! حضرت ابوذر کا اِسلام کفار کی تنگ نظری !
یہود کی بخت ِنصر کے ہاتھوں رُسوائی اور مدینہ منورہ آمد ! یہود کی خوش فہمی !
حضراتِ انصار کی یمن سے رِحلت
( درسِ حدیث نمبر1 (242) ١٢ شعبان ١٤٠٧ھ /١٢ اپریل ١٩٨٧ء)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا تو اُس میں ایک حدیث نقل کی کہ جناب ِ رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے اِرشاد فرمایا ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتْ کہ عمل کا اِعتبار خدا کے یہاں نیتوں پر ہے نیتوں کے مطابق ہے وَاِنَّمَا لِامْرِیٍٔ مَّا نَوٰی اور آدمی کو وہ مِلے گا جو وہ نیت کرے توایسے ہے کہ ہر کام کے دو حصے بن جاتے ہیں ۔
ایک جو دل میں سوچتا ہے ارادہ کرتا ہے اور ایک وہ جو سامنے وجود میں آتا ہے۔
ہر چیز کا اسی طرح ہے ایک دل میں جو ارادہ ہے وہ ہے اور ایک وہ جو وجود میں آجائے عمل کر لے، ارادہ ہے وضو کریں گے تو یہ نیت ہوگئی جب وضو کی تو یہ عمل ہو گیا، نماز پڑھیں گے یہ نیت کی ہے تو نیت ہوئی اور پڑھ لی تو عمل ہوگیا تو ہر عمل کو اگر بانٹا جائے اُس کا تجزیہ کیا جائے حصے کیے جائیں تو دو حصوں میں بنتا ہے ایک نیت اور ایک عمل ، تو عمل کا اعتبار کیسے ہوگا ؟ عمل کا اعتبار نیتوں پر ہے فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ فَہِجْرَتُہ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ جس آدمی نے ہجرت کی اور اللہ رسول کے لیے کی تو اللہ اور رسول کے لیے ہے اُس کی ہجرت فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا اور اگر کسی کی نیت ہجرت میں دُنیا ہے اَوِامْرَأَةٍ یَتَزَوَّجُھَا یا نیت یہ ہے کہ میں وہاں جاکر فلاں عورت سے شادی کروں گا یا کوئی اور چیز ذہن میں ہو جو اِس قسم کی ہو فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ ١ توجو اُس کی نیت ہے جس کام کے لیے اُس نے ہجرت کی ہے اُسی قدر خدا کے یہاں اُس کی ہجرت کا مقام ہوگا۔
آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تبلیغ کی ہے لیکن (پہلے پہل) یہ جبر نہیں کیا کہ تم بھی اسی طرح علی الاعلان تبلیغ کرو ! حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے آئے جب آئے تھے تو چھپ کر رہے اور اپنا مقصد بھی بیان نہ کر سکے کسی سے کیونکہ اُنہیں پتہ تھا کہ مکہ مکرمہ کی فضا ء ایسی ہے کہ میں نے اگر اُن کا نام لیا تو لوگ مجھے تکلیف پہنچائیں گے اور اُن تک جانے بھی نہیں دیں گے روکیں گے تو نام ہی نہیں لیا خودہی تلاش کرتے رہے ۔
حرمِ مکہ کی اِبتدائی حالت :
مکہ مکرمہ میں جیسے اب حرمِ محترم ہے اور تمام چیزیں ہیں یہ تھیں ہی نہیں صرف کعبة اللہ بنا ہوا تھا اور اُس کے گرد خالی زمین پڑی تھی اور اُس کے گرد مکانات تھے کعبة اللہ کے متولی یعنی قریش کے خاندان یا اور جو بڑے سردار ہوں گے اُن کے ۔
حضرت عباس چاہ زم زم کے متولی :
زمزم کے متولی تھے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اُن کا بھی قریب ہی تھا مکان توکعبة اللہ کی صرف یہ ایک عمارت تھی جو کمرے نما ہے بڑی بلند اور اُس کے پاس'' حطیم'' ہے نصف دائرے سے کم اُس میں اندر چلے جاتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں آنے جانے کا راستہ ہے، اُس حطیم میں عبدالمطلب چار پائی بچھا لیا کرتے تھے وہ اُن کی بیٹھک تھی اِدھر اُدھر چاروں طرف سفید زمین تھی میدان تھا اُس پر طواف بھی کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اسی طرح رہا ہے، ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی اسی طرح رہا ہے ایک سفید زمین گویا رہی۔
١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ١
حضرت عمر نے دیوار بنوائی :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چاروں طرف اُس کے ایک دیوار کھینچوادی اُس سے پہلے کوئی شکل نہیں تھی اور اب تو بہت بڑی جگہ دُنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے سب سے وسیع جگہ سب سے خوبصورت مزین اللہ تعالیٰ نے بنوادی ہے ۔
حضرت ابو ذر کا اسلام ، تلوار نہ جبر :
تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کو تلاش کرنے کے لیے یہ آئے اور وہاں بیٹھ گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اُدھر سے گزر کے گئے پوچھا کیا ہے کہاں سے آئے ہیں معلوم ہوتا ہے آپ باہر سے آئے ہوئے ہیں ؟ ؟ انہوں نے کہا جی باہر سے آیا ہوا ہوں ،لے گئے ان کو کہ آئیں پھر ہمارے یہاں ٹھہر جائیں وہاں ٹھہر گئے دوبارہ پھر اسی طرح اگلے دن بھی ایسے ہی ہوا اُنہوں نے دُوسرے دن یا تیسرے دن اُن سے پوچھا کہ اگر آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کس لیے آئے ہیں تو بڑا اچھا ہو اُنہوں نے کہا میں بتا تو دُوں گا اگر آپ وعدہ کریں کہ راز رکھیں گے کسی کو بتائیں گے نہیں تو (وعدہ لینے کے بعد) انہوں نے کہا کہ میں تو آیا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ نبی ہیں یہاں مبعوث ہوئے ہیں نبوت کا اُنہوں نے اظہار کیا ہے اُن کی تلاش میں ہوں اُن سے مِلنا چاہتا ہوں ، اُنہوں نے کہا بہت اچھی جگہ پہنچے ایسے کرو کہ میں چل رہاہوں آگے آگے تم پیچھے پیچھے چلو اور اگر کوئی اندیشہ ہوگا تو میں ایسے کھڑا ہوجاؤں گا کہ جیسے کوئی پیشاب کر رہا ہے رُک جاؤں گا بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر جس طرح بھی اُس زمانہ کا دستور تھا یا میں اپنا جوتا ٹھیک کرنے لگوں گا تو تم سمجھ جانا کہ کوئی آدمی ایسا ہے جو دیکھ رہا ہے ہمیں اور وہیں ٹھہر جانا اِس طرح آپس میں طے کر لیا اور چلے ! بالآخر پہنچ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اپنے آنے سے) پہلے( انہوں نے اپنے) بھائی کو بھیجا تھا بھائی (واپس آئے تو اُس) سے پوچھا کیسے ہیں کیا پایا ؟ بھائی نے کہا بہت اچھے ہیں نیکی کا حکم کرتے ہیں برائی سے روکتے ہیں وغیرہ ! کہنے لگے جیسے میں چاہتا تھا تفصیلات معلوم کرنی تم وہ نہیں کر کے آئے تو میں خود جاتا ہوں تو اب خود آئے تھے مطلب یہ کہ مکہ مکرمہ کی فضاء ایسی زیادہ خلاف تھی کہ کوئی آنے والا نام لے کر پوچھنے میں بھی خطرہ محسوس کرتا تھا
بخوشی فوراً اِسلام لے آئے :
تو یہ جب حاضرِ خدمت ہوئے تو مسلمان ہوگئے اور اسلام قبول کرنے کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ آپ اپنے گھر چلے جائیں وہاں (اس عقیدہ کے ساتھ ) یہ یہ عبادتیں ہیں یہ کرتے رہیں اور معاملات جو بھی ہوئے ہوں گے وہ اِرشاد فرمادیے کچھ چیزیں ایسی ہیں جو پہلے سے دُنیا بھر میں معروف چلی آرہی ہیں ظلم کرنا، کسی کا مال چھینا وغیرہ وغیرہ یہ سب چیزیں ہمیشہ سے بری سمجھی جاتی رہی ہیں انسان انہیں برا ہی سمجھتا ہے تو اُنہوں نے اِنہیں ہدایت کی کہ وہاں چلے جاؤ اور اس طرح سے کرتے رہو اور کسی کو بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کوئی کہ تم بتلاؤ کہ مسلمان ہوئے ہویا نہیں گویا اس قسم کی ہدایات آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیں اور رُخصت کرنا چاہا۔
ڈنکے کی چوٹ پر اسلام :
تو انہوں نے کہا جواب میں کہ میں تو ضرور علی الاعلان(حرم شریف میں ) سب کو کہوں گا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں تو یہ ان کے جذبات تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ تم یہ کرو مگر اِن کے اپنے جذبات تھے یہ کہ میں ایسے کروں ۔
کفار کی تنگ نظری اورعدمِ برداشت :
چنانچہ اگلے دن انہوں نے اسی طرح کیا اور لوگوں نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہوگئے تو وہ (مسجد حرام ہی میں )ٹوٹ پڑے ان پہ، مارنا شروع کردیا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آ کے چھڑا یا انہیں مگر اس طرح نہیں کہ میری خاطر چھوڑ دو ایسے نہیں چھوڑنے والے تھے یہ لوگ کسی کی خاطر کسی کے لحاظ سے چھوڑ نے والے نہیں تھے پورے بد لحاظ تھے !
دھمکی،ناطقہ بند !
ان کو اِن کا فائدہ سُجھایا کہ دیکھو اگر تم نے اس طرح مار ڈالا اِنہیں تو پھر تمہارے فلاں راستے سے گہیوں آتا ہے وہ آنا بند ہوجائے گا کیونکہ وہ تو یہی صورت تھی قبیلوں میں لڑا ئی چھڑ جاتی تھی راستے بند ہوجاتے تھے قصہ ہی ختم ہوجاتا تھا، جب تک مکافات نہ کریں ایک جھگڑا کھڑا ہوجائے گا، بہت تکلیف کا باعث ہوگا حضرت ابوذرنے بھی یہی کہا بالکل نہیں آسکے گا (غلہ)بہرحال آگئے پھر ٹھہرے(مکہ میں )۔
اگلے دن پھر اسی طرح(حرم شریف میں ) علی الاعلان اُنہوں نے تبلیغ بھی کی اِظہار بھی کیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں پھر اسی طرح سے اُن کو مارا پھر اسی طرح حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بچایا ۔ جیسے میں نے آپ کو نقشہ بتایا ہے کعبة اللہ کا اور اُس کے گرد صرف میدان کا اور اُس کے گرد مکانات آس پاس اِدھر اُدھر آبادی تو وہ(حضرت عباس) آگئے دونوں دفعہ اور وہ ہمیشہ سے ہمدرد رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اسلام کے خیر خواہ رہے ہیں ۔
رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے نہیں مجبور کیا کہ تم اعلان کرو ہاں ایسے ہے کہ ایسی جگہ کی تلاش کہ جہاں ہجرت کرکے چلے جائیں اور عبادت ادا کر سکیں اپنی پوری طرح بلا رُکاوٹ کے اُس کا حکم مِلا ہے اللہ کی طرف سے کہ یہاں سے چلے جائیں اور اس طرح سے کہ اس اس علامت کی جگہ ہے وہ جہاں جانا ہے آپ نے وہ علامتیں دیکھی ہیں خواب میں ارشاد فرمایا خواب بتلایا کہ تمہارا دارِ ہجرت مجھے دکھایا گیا ہے اس طرح سے اِنِّیْ اُرِیْتُ دَارَ ہِجْرَتِکُمْ ذَاتَ نَخْلٍ بَیْنَ لَابَتَیْنِ ١ اوکما قال علیہ السلام کھجو ر ہے اور دونوں طرف اُس کے پہاڑوں کے درمیان ہے پہاڑی علاقہ اِدھر بھی اِدھر بھی۔
بنو اِسرائیل کی مختصر تاریخ :
پھر ایسے ہوتا ہے اللہ کی قدرت کہ انصار مسلمان ہونے شروع ہوگئے اور اِن کا عجیب پس منظر ہے یہ سمجھئے کہ بنو اِسرائیل کو بڑا عروج حاصل ہوا بہت بڑی سلطنت حضرت سلیمان علیہ السلام بھی ان ہی میں سے گزرے ہیں پوری دُنیا کی حکمرانی رہی ہے ان کی لیکن (یہ بنی اِسرائیل)خدا کی نافرمانی میں مبتلاء بھی رہے ہیں ،گرفت بھی ہوتی رہی انہوں نے جب بہت برے کام کیے اور اللہ کا قاعدہ ہے (اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا ) ٢
جواُس میں متمول آرام سے زندگی گزار سکنے والے لوگ ہوتے ہیں (اَمِرْنَا بھی پڑھا گیا ہے )اُن کو ہم
١ بخاری شریف کتاب مناقب الانصار رقم الحدیث ٣٩٠٥ ٢ سُورہ بنی اسرائیل : ١٦
بڑھا دیتے ہیں اور جب وہ بڑھ جاتے ہیں تو پھر فسق و فجور برے کاموں پر لگ جاتے ہیں تو اللہ کی بات اُن پر صادق آنے لگتی ہے فسق کی وجہ سے جزا کے مستحق ہونے کی بات تب وہ زیرِ دفعہ آجاتے ہیں اُن پہ دفعہ لاگو ہوجاتی ہے تو پھراُسے ہم بالکل تباہ کر ڈالتے ہیں ۔
بنی اِسرائیل پر اللہ کی پکڑ :
تو یہ بنو اِسرائیل جو تھے برے کاموں میں جب لگے تو اِن کا ایک دُشمن پیدا ہو گیا بُخْتِنَصَرْ بہت زبردست آدمی تھا وہ آیا اور اُس نے بہت خون ریزی کی ان کے تمام خاندان تمام آبادیوں کی آبادیاں بھاگ کھڑی ہوئیں گھر چھوڑ دیے تو کچھ تو خیبر میں آکر آباد ہوئے اور کچھ مدینہ منورہ میں آباد ہوگئے بنوقریظة، بنونضیر، بنو قینقاع یہ لوگ جو تھے یہ وہی تھے ۔
انصار کی مختصر تاریخ :
اور انصار جو ہیں یہ وہ ہیں جو وادی سبا (یمن میں جنوب کی طرف رہتے تھے ،ان کی) ملکہ کا نام بلقیس تھا جس کا ذکر (قرآن میں ) پڑھتے ہیں ۔ تو وادی سبا بہت زیادہ سرسبز تھی شاداب تھی پھل تھے جو باغ تھے اُن کی دو وادیاں تھیں جیسے وادی کاغان کا ذکر ہوتا ہے سری نگر کا ذکر ہوتا ہے اس طرح سے یہ وادیاں تھیں اُن کی بہت سرسبز اور شاداب وہ سب تباہ ہوگئیں اس لیے کہ وہ(ناشکری کے طور پر ) یہ دُعا کرتے تھے (رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا ) کہ اب چلتے ہیں سفر میں تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آبادی آجاتی ہے سفر کا مزہ نہیں آتا کچھ مشقت ہونی چاہیے سفر کی وغیرہ وغیرہ خدا کے بندوں کے دماغ میں یہ (ناشکری کی ) بات آئی اور ساتھ ساتھ فسق و فجور میں مبتلاء ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے (سَیْلَ الْعَرِمِ ) بھیج دی ١ وہاں ایک بند تھا اُس سے (آب پاشی کا)کام لیتے تھے پیچھے سے کوئی سیلاب آیا ہے اتنے زور کا کہ وہ ڈیم ٹوٹ گیا اور تمام علاقہ بنجر ہوگیا یہ بھی اللہ تعالیٰ نے(قرآن پاک میں ) ذکر فرمایا ( وَبَدَّلْنٰاھُمْ بِجَنَّتَیْھِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَیْ اُکُلٍ خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَیْیٍٔ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ ) بس وہاں کچھ جھاؤ رہ گیا کچھ وہ کانٹے دار درخت رہ گئے بیریاں رہ گئیں باقی سب صاف ہوگئے ! ! !
١ یعنی سیلاب بھیج دیا۔
یمن سے نقل مکانی :
یہ انصاری لوگ وہاں سے ہٹے تو مدینہ منورہ میں آگئے ان کے آباؤ اَجداد مدینہ منورہ میں آکر رہنے لگے اب جب یہ یہودی تباہ ہوئے تو یہ بھی (فلسطین ،شمال کی طرف سے)اِدھر آگئے۔
یہودی سود خور، ظالم ،بے حیاء :
اور جب یہاں جم گئے مدینہ منورہ میں تو پھر وہی کاروبار سودی شروع کردیے یہ سودی ہمیشہ سے رہے ہیں رشوتیں لینی ڈھونس جمانی اتنا ظلم کیا ان ظالموں نے کہ اَوس اور خزر ج جو قبیلے بعد میں انصار کہلائے ہیں ان کے یہاں جب شادی ہوتی تھی تو وہ لڑکی ایک رات یہودیوں کے سردار کے پاس رہتی تھی پھر رُخصتی ہوتی تھی اگلے دن اُس کی اور یہ مجبور تھے شاید سود کے وجہ سے یا کس چیز کی وجہ سے گرے ہوئے تھے ایسے کہ یہ ذلّت گوارہ کرتے رہے حتی کہ انہیں ایک دفعہ غصہ آیا اور انہوں نے یہودیوں کو مارنا شروع کیا اُن کی اچھی طرح مرمت کردی پٹائی بھی کی ہوگی قتل بھی کیے ہوں گے بہرحال اس بلا سے اِس ذلّت سے اُن کی جان چھوٹ گئی ۔
بے حیاء یہودیوں کی خوش فہمی :
تو اب یہودیوں کی وہ بات نہ رہی کہ اکڑ کر چل سکیں تو اب یوں کہنے لگے کہ ہم میں نبی آنے والے ہیں وہ نبی آئیں گے تو پھر ہم تم لوگوں سے بدلہ لیں گے ظالم بھی خود اور اپنے ہی میں نبی بھی لانا چاہ رہے ہیں اور بدلہ بھی ان(مظلوم) انصار سے لینا چاہ رہے ہیں ۔
ایک سو بیس برس جنگ :
پھر یہ ہوا کہ اَوس اور خزرج میں باہم قبائلی لڑائی چھڑ گئی وہ چلتی رہی ہے ایک سو بیس سال بڑی لمبی لڑائی جو کوئی اُن میں اُبھر تا تھا وہ مارا جاتا تھا دُوسرا اُبھرا وہ مارا گیا کوئی خاص قابلِ ذکر سردار بھی نہیں رہا یعنی یہ صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ ہے ! ہجرت سے کوئی تین سال چار سال پہلے لڑائی ختم ہوئی ہے اور یہودیوں کی وہ باتیں ان کے ذہن میں تھیں وہ دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ نبی آنے والے ہیں اور وہ آئیں گے تو ہم تمہاری خبر لیں گے اور ہمیں تمہارے اُوپر غلبہ حاصل ہوجائے گا ۔
انصار کا قبولِ اسلام میں سبقت لے جانا :
مدینہ منورہ کے دونوں قبیلے اَوس اور خزرج کی جب یہ لڑائی تھمی آپس کی تو پھر یہ مکہ مکرمہ حج وغیرہ کے لیے آنے شروع ہوئے ، یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موقع پر دعوت دیا کرتے تھے اسلام قبول کرنے کی اپنے عقیدے توحید کی تو جو قبائل آتے تھے باہر سے اُن میں آپ تشریف لے جاتے تھے وہاں جا کر گفتگو کرتے تھے تو ان لوگوں سے جب گفتگو ہوئی تو ان لوگوں نے کہا کہ جو یہودی کہتے ہیں کہ اس طرح نبی آنے والے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہی ہیں وہ نبی تو ایسا کیوں نہ کریں کہ ہم سبقت کریں یہودیوں سے بھی پہلے ہم اسلام قبول کرلیں تو یہودیوں سے بھی پہلے وہ مسلمان ہونے شروع ہوگئے ہر سال وہ آتے تھے تو کچھ نہ کچھ تعداد زیادہ ہوجاتی تھی ۔
صحابی کی مدینہ منورہ آمد ، مدرسہ کا قیام :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں تبلیغ کے لیے کچھ حضرات بھیج دیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ انہوں نے وہاں تبلیغ کی بہرحال ان کے اسلام قبول کرنے کا ایک محرک یہ بھی تھا کہ یہودیوں سے یہ بات سنی تھی کہ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم مبعوث ہونے والے ہیں وہ اتنی دفعہ سنی تھی کہ وہ ذہن میں بسی ہوئی تھی سب کے (یہودیوں کے بھی عیسائیوں کے بھی) ایک دو کے نہیں بلکہ سب کے اَز اَوّل تا آخر اسی لیے قرآنِ پاک میں آیا ہے ( اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَھُمْ ) ١ جن کے پاس کتاب ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول ہونا اس طرح جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹے کا بیٹا ہو نا جانتے ہیں تو اب ان کے قبول کرنے کی وجہ سے یہ ہو گیا کہ یہاں مدینہ منورہ میں جگہ بن گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حکم دیا (صحابہ کو) کہ یہاں سے وہاں ہجرت کر جائیں ابھی خودآپ کو حکم نہیں ہوا تھا کہ آپ بھی ہجرت کرجائیں اور نبی کو جس جگہ حکم دیا جائے وہیں ٹھہرتے رہے ہیں تو خود اس لیے نہیں تشریف لے گئے ، آخر میں آپ کو بھی حکم ہوا ہجرت کی اجازت ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لے گئے ۔
١ سورہ بقرہ : ١٤٦
ہجرت کیوں فرض ہوئی ؟
آپ نے فرمایا کہ ہجرت فرض ہے کیونکہ جو کوئی مسلمان ہوگا کہیں بھی اور وہ رہے گا کافروں میں تو مارا جا سکتا ہے عبادات بھی نہیں ادا کر سکتا تو اس واسطے وہ ہجرت کر کے آجائے فرض تھی اور(حکم) اتنا زبردست طرح کہ قرآنِ پاک میں آیا ہے ( قَالُوْ کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا)ہم کمزور لوگ تھے اس لیے ہم وہاں رہے فرشتے پوچھتے ہیں پوچھیں گے اُس سے سوال کرتے ہیں کہ کیا زمین دراز نہیں تھی کھلی ہوئی نہیں تھی کہ تم اُس میں ہجرت کر جاتے (فَاُولٰئِکَ مَأْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا) اُن کا ٹھکانا جہنم ہے( اِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ ) ١ سوائے اُن لوگوں کے کہ جو بالکل کمزور ہیں سفر نہیں کر سکتے مرد ہیں عورتیں ہیں وہ الگ بات ہے ورنہ جو سفر کرنے کے قابل ہیں اُنہیں ہجرت کرنی فرض ہے۔
تو یہاں ایک لفظ (ہجرت)میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور اُس کے بارے میں عرض کیاتو ذہن میں آیا کہ یہ تاریخ بھی معلوم ہونی چاہیے کہ یہ آبادیاں کہاں کہاں سے آئی ہیں یہ( اَوس اور خزرج) سبا(یعنی یمن) سے آئے ہوئے تھے تو یہ یمن کا قبیلہ ہے ویسے تو غالباً یہ ملکہ سبا بھی بنو اِسرائیل ہی میں سے ہے ! !
یمن کے حکمران کی مدینہ آمد اور وصیت نامہ :
اور ان ہی کا حکمران جو تھا یمن کا '' تُبَّعْ'' تھا وہ تبع بھی آئے ہیں یہاں (مدینہ منورہ)اور اُنہوں نے آکر یہاں ایک مکان بنایا ہے اورایک خط لکھا ہے (جس میں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وصیت کی ہے کہ جب وہ تشریف لائیں تو یہ مکان اُن کے لیے ہے اور یہ میرا عریضہ ہے اُن کے لیے ! تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے تشریف لائے ہیں تو وہ مکان اُس زمانہ میں ابو ایو ب انصاری کی تحویل میں تھا (اور یہ یمن کے تھے)وہ(تبّع کا) گرامی نامہ بھی موجود تھا وہ بھی پڑھا ہے آپ نے یہاں آپ نے قیام فرمایا ہے مگر پھر اپنے لیے الگ جگہ بنائی ہے۔
١ سُورة النساء : ٩٧ و ٩٨
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَلْاِیْمَانُ یَمَانٍ وَالْحِکْمَةُ یَمَانِیَّة ١ اِیمان، یمن کا اِیمان ہے حکمت ،یمنی حکمت ! یمن کی تعریف فرمائی ، ہو سکتا ہے کہ یہ(ارشاد) بھی انصار کی طرف اشارہ ہو کہ یہ بہت بڑے لوگ تھے انصار اور اس میں کوئی شک نہیں ہے انصار کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے، اس حدیث کے بارے میں پوری باتیں تو نہیں ہو سکتیں ،ابھی میں نے شروع کی تھی درمیان میں رہ گئی اللہ نے چاہا(مزید بیان) آئندہ کریں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت میں اِن کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اختتامی دُعاء ............

١ مشکوٰة شریف کتاب المناقب رقم الحدیث ٦٢٦٧

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.