Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

ستمبر‬ 2024

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ ربیع الاوّل ١٤٤٦ھ / ستمبر ٢٠٢٤ء شمارہ : ٩
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر




جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +923334249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +923214790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
سیرت ِمبارکہ کے اشارات اور تحریکاتِ دور حاضر کے نظریات میں بنیادی فرق حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٠
اسلام اپنے اعلیٰ اوصاف کی وجہ سے دوسرے سب دینوں پر غالب ہے حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٢٠
تربیت ِ اولاد قسط : ١٨ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٤١
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٧ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٤٦
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب قسط : ٢ حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی ٥٣
اخبار الجامعہ ٦٢
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦٣




حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
پاکستان کی عدالت ِعظمیٰ نے ٦ فروری اور ٢٤ جولائی کو مبارک ثانی نامی قادیانی کے کیس میں اسلامی عقائد اور آئین ِپاکستان سے متصادم فیصلے پر ملک بھر سے شدید رد عمل آنے کے بعد بالآخر اپنے فیصلے سے متنازع حصے حذف کر دئیے ہیں !
کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدلیہ جیسے ذمہ دار ادارے پہلے سے ہی اپنی ذمہ داری اور حدود کا ادراک رکھتے اور ملک و قوم کے لیے اضطراب و انتشار کا باعث بننے والی لکیر عبور نہ کرتے ! !
مگر بھلا ہو ملت کے علماء کرام کا جو دین ِاسلام کے قوانین بھی جانتے ہیں اور فرنگی کے دئیے ہوئے نظام کی سیاہ کاریوں سے بھی واقف ہیں ، اُن کے نمک خواروں کی جفاکاریوں سے بھی باخبر و بیدار رہتے ہیں ، بروقت حرکت میں آگئے اور ایک بار پھر ختم نبوت کی ناموس کے پاک دامن کو کوئی آنچ نہ آنے دی ! !
مورخہ ٢٢ اگست ٢٠٢٤ء کو اسلام آباد سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے دائر ریفرنس پر سماعت ہوئی ، ملک بھر سے چیدہ چیدہ علما ء کرام کو عدالت کی جانب سے طلب کیا گیا تھا ، بحمداللہ سب ہی پہنچے !
جمعیة علماء اسلام کے قائدین قائد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم العالی کی زیر قیادت عدالت میں موجود تھے ، حضرت مولانا نے مختصر اور جامع متفقہ موقف پیش کیا اور شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہم کی تجویز کی تائید بھی فرمائی ! !
اور یوں اندر سے سہمی ہوئی عدالت نے دستبرداری کے لیے موقع کو غنیمت جانا اور اپنے فیصلہ کے مذموم حصوں پر بقلم ِخود کالک ملتے ہوئے اپنی گلو خلاصی کرائی ! ! اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی، انجامِ کار یہود و نصاریٰ کے خود ساختہ موسمی اور بے موسمی خس و خاشاک کو ملت ِاسلامیہ کے تمام علماء نے بیک دست تیلی دکھا کر ایک بار پھر ہمیشہ کے لیے بھسم کر ڈالا ! ! !
فَسُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلَام عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
آج سے پچاس برس قبل ٧ ستمبر١٩٧٤ء کو پاکستان میں قادیانیوں کو پارلیمانی اور آئینی سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تھا ! !
اب ٧ ستمبر ٢٠٢٤ء کو پچاس برس پورے ہونے پر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم العالی نے مینار پاکستان لاہور میں پچاس سالہ گولڈن جوبلی کے انعقاد کا اعلان فرمایا ہے ! عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اس عظیم الشان کانفرنس میں شرکت کرنا ہر مسلمان پر دینی ، ملی،اخلاقی، سماجی ، قومی اور سیاسی ہر اعتبار سے لازم ہے ! !
یہ یَوْمُ الْفَتَح بھی ہے اور یَوْمِ تَشَکُّرْ بھی اس کے ساتھ ساتھ یَوْمِ تَنَبُّہ اور یَوْمِ تَنْبِیْہ بھی ہے ! ! یعنی آئندہ بھی فتنہ قادیانیت کی طرف سے ناموس رسالت پر مزید ممکنہ حملوں سے مسلمان خود خبردار اور باخبر بھی رہیں اور قادیانیوں اور ان کے آقا یہود و نصاریٰ کو خبردار بھی کردیں کہ آگے کو اگر ناموس رسالت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ادنیٰ سی ناپاک جسارت بھی کی تو پہلے سے بڑھ کرمنکا توڑ جواب دیا جائے گا ! !
ان شاء اللّٰہ تعالیٰ




درسِ حدیث
٭٭٭
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درس حدیث ''خانقاہ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوار مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین
٭٭٭
گناہوں سے دل سیاہ اور استغفار سے صاف ہوجاتا ہے !
صغیرہ گناہوں سے بھی بچناضروری ہے
( درسِ حدیث نمبر٦٩/٣١١ ٢٨ جون ١٩٦٨ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اِنَّ الْمُوْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَةً سَوْدَائَ فِیْ قَلْبِہ
جب مومن سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پڑ جاتاہے ! فَاِنْ تَابَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہ اس کے بعد اگر اس نے توبہ کر لی اور خدا سے استغفار کرلیا تواس کا دل صیقل (صاف) ہوجاتا ہے اور گناہ کا سیاہ دھبہ ہٹ جاتا ہے ! وَاِنْ زَادَ زَادَتْ اور اگر توبہ واستغفار نہ کرے بلکہ گناہ کو اور بڑھا دے تو یہ سیاہی بھی بڑھ جاتی ہے ! حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہ یہاں تک کہ وہ سیاہی پورے دل کو گھیر لیتی ہے ! گویا سارے کاسارا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے ارشاد فرمایا فَذٰلِکُمُ الرَّانُ اَلَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ تَعَالٰی
اسی کانام '' رَانْ '' ہے جس کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ
( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ١
یعنی ان کے دلوں پر ان کے برے کاموں کے باعث زنگ چڑھ گیا ان کے قلوب ان ہی کے کر توتوں کی وجہ سے سیاہ پڑگئے ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٤٢
قرآن کریم میں اس آیت سے پہلے خدا تعالیٰ نے کفار کا ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ یومِ جزاء کا انکار کرتے ہیں ( اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیَاتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الاَوَّلِیْنَ ) جب ان پر ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتے ہیں
یہ توپہلے لو گوں کے قصے ہیں اب اس آیت ( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) میں اس طرف اشارہ کیا کہ یہ جو یومِ جزاء کا انکار کرتے ہیں یاقرآن حکیم کو پہلے لوگوں کی کہانیاں کہہ کر جھٹلاتے ہیں اور خود کونارِ جہنم کا مستحق بناتے ہیں یہ اس لیے نہیں کہ ان کی سر شت وفطرت ایسی ہے ، نہیں بلکہ ان مُنْکِرِیْن و مُکَذِّبِیْن کی بری حر کتوں اور اختیاری بد اعمالیوں کے باعث ان کے قلوب پر تاریکی چھاگئی ! مسلسل معاصی کے ارتکاب اور سر کشی کے باعث ان کے قلوب میں حق بات قبول کرنے ، یومِ جزاء سے ڈرنے یا خداکی آیات اور قصے کہانیوں میں فرق کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی ! گناہوں کی کثرت سے ان کے دلوں پرظلمت چھا گئی اپنی ہی کر توتوں کے سبب ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں گویا ! ان ہی دوسرے گناہوں کی عادت نے تکذیب و انکار جیسے عظیم اور ہلاکت آمیز گناہ تک پہنچایا ! ! !
تو اس حدیث شریف میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اگرکسی شخص نے گناہ کرنے کے بعد توبہ نہ کی اور برابر گناہ کرتا رہا تو رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ اس کا سارا دل سیاہ ہوجائے گا وہ قبولِ حق کی جملہ صلاحیتوں سے ہاتھ دھوبیٹھے گا ! مسلسل چھوٹے گناہ کرنے سے اس کے اندر گناہ کی قوت بڑھ جائے گی اور پھر بڑے سے بڑے گناہ کرنے سے بھی اجتناب نہیں کرے گا ! گناہوں کی عادت انسان کو بری طرح ہلاکت میں ڈال دیتی ہے ! اور یہ عادت دو طرح سے پڑتی ہے
٭ ایک تویہ کہ آدمی کسی گناہ کو زیادہ خطرناک خیال نہ کرے بلکہ معمولی سمجھ کرکرتا رہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ گناہ صغیرہ ہویا کبیرہ خطرے سے خالی نہیں ہوتا ! حدیث شریف میں ہے کہ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا
اِیَّاکِ وَ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ ١ یعنی چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچتی رہاکرو !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الرقاق رقم الحدیث ٥٣٥٦
کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہاں چھوٹے گناہوں پر بھی مواخذہ ہوسکتا ہے اور چھوٹے چھوٹے گناہوں کا ہمیشہ کرنا آدمی کو بڑے گناہوں پر جرأت دلاتا ہے ، اس میں بتدریج گناہ کی قوت بڑھتی رہتی ہے آخر کار یہ آدمی کبائر کا ارتکاب بھی کرنے لگ جاتا ہے ! !
ویسے بھی یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ صغیرہ گناہوں پر ہمیشگی اس کو کبیرہ گناہ میں تبدیل کر دیتی ہے ! ہاں اگر گناہ کرنے کے بعد پشیمان اور نادم ہوکر توبہ و استغفار کرے پھر عادت پڑنے کا خطرہ نہیں رہتا ! !
٭ دوسری وجہ (گناہوں کے عادی ہوجانے کی) یہ ہے کہ آدمی سرے سے گناہ کوگناہ ہی نہ سمجھے ! ١
اور یہ بہت ہی خطرناک صورت ہے ! ظاہر ہے کہ جب وہ گناہ کوگناہ ہی نہیں سمجھے گاتو کبھی بھی اس پر پشیمان نہیں ہوگا اور توبہ و استغفار بھی نہیں کرے گا ! !
گناہ کو جائز بنانے کی کوشش :
آج کل یہ مرض عام ہے کوشش کی جاتی ہے کہ گناہ کے کام کوکسی طرح جائز بنایاجائے ! کہا جاتا ہے کہ '' سود'' اتنا حرام ہے اور اتناحلال ہے ! ''شراب'' فلاں حد تک حلال اور فلاں حد تک حرام ہے ! گویا حرام کو کسی نہ کسی طرح حلال قرار دینے کی ناروا کوششیں کی جاتی ہیں ! (العیاذ باللّٰہ) حالانکہ دین مکمل ہوچکا ہے جو چیز جائز ہے وہ ناجائز نہیں بن سکتی اور جو کام ناجائز ہے وہ جائز نہیں ہوسکتا ! جو کام حضور صلی اللہ عليہ وسلم کے زمانہ میں جائز تھے وہ قیامت تک جائز رہیں گے ! اور جن کاموں کوحضور صلی اللہ عليہ وسلم نے ممنوع قرار دیا وہ قیامت تک ناجائز اور ممنوع رہیں گے ! ارشادہے
( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ) ٢
''آج کے روز میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین کے پسند کیا ''
١ جیسے ڈاڑھی مونڈنا یا غیر محرم عورتوں مردوں کا اختلاط رہنا یا عورتوں کا بے پرد گھر سے نکلنا یا جانداروں کی تصویریں اور ویڈیو بنانا وغیرہ محمود میاں غفرلہ ٢ سُورة المائدة : ٣
آج بہت سی چیزیں جن کوشریعت نے حرام قرار دیاہے جائز بتایا جاتا ہے ! زمانہ و حالات کے تقاضے کی آڑ لے کر ناجائز کوجائز بتایا جا رہاہے ! اس کا مطلب تویہ ہوا کہ دین مکمل نہیں اس میں ہر زمانہ میں تغیر و تبدل اور کمی بیشی ہوتی رہے گی ( العیاذ باللّٰہ ) !
نئے دین اور نئے نبی کا دروازہ بند :
حالانکہ دین ِ اسلام کی تکمیل ہو چکی ہے اکمالِ دین و اتمامِ نعمت کے بعد نہ نئی شریعت کی ضرورت ہے اور نہ ہی نئے نبی کی حاجت ! اب کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ خدا کے آخری نبی کی حرام کردہ چیزوں کوحلال اور حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے ! !
اللہ تعالیٰ ہمیں اسی دین ِکامل پر زندگی اور موت نصیب فرمائے، گناہوں پر جمے رہنے کی بیماری سے ہمیشہ ہمیشہ پناہ میں رکھے، توبہ و استغفار کی توفیق ارزانی فرمائے اور آخرت میں آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین ۔ (مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ دسمبر ٢٠١٦ ء بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ٢٨ جون ١٩٦٨ئ)
٭٭٭




وفیات
٭٭٭
٢٨ اگست کو جامعہ فاروقیہ راولپنڈی کے مہتمم و ناظم اعلیٰ وفاق المدارس پاکستان پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب انتقال فرماگئے۔
٢٧ اگست کو جامعہ مدنیہ جدید کے خادم منظر عباس کشمیری کی خالہ صاحبہ کشمیر میں اچانک وفات پاگئیں
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین !




سیرتِ مبارکہ
٭٭٭
سیرت ِمبارکہ کے اشارات
اور
تحریکات دورِ حاضر کے نظریات میں بنیادی فرق
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللہ '' صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
(٧)
'' تزکیة '' کس طرح ہوتا ہے ؟
تزکیة کا آغاز خود اپنے نفس سے ہوتا ہے پہلے خود اپنی اصلاح کرے اپنے نفس کو بخل، طمع، حب ِ مال جیسی آلودگیوں سے پاک کرے، تب درجہ بدرجہ دوسروں سے اصلاح قبول کر لینے کی توقع کرسکتا ہے !
اس سلسلۂ تحریر کا تعلق جناب رسالت مآب حضرت محمد رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی سیرت ِمبارکہ سے ہے لہٰذا وہی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن کا تعلق خود ذاتِ اقدس صلی اللہ عليہ وسلم سے ہے !
دولت پرستی اور حب ِ مال سے قلب کو پاک کرنے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے طے فرمایا لیا کہ جو کچھ آمد ہو وہ شام تک خرچ کردی جائے ! کاشانۂ نبوت میں رات کو کوئی ایک حَبَّہ ١ بھی باقی نہ رہ سکے !
گردنوں کو پھاند کر گزرنا خلافِ ادب ہے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ہاں کسی مجبوری کی صورت میں یہ بے ادبی معاف سمجھی جائے گی، آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو ایک روز خود ایسا کرنا پڑا ،آپ عصر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ کو خیال آیا کہ فلاں زوجۂ مطہرہ کے یہاں آپ کی کچھ چاندی رکھی ہوئی ہے ! جیسے ہی آپ نے سلام پھیرا بڑی پھرتی سے آپ کھڑے ہوئے اور ان زوجۂ مطہرہ کے یہاں تشریف لے گئے فوراً ہی واپس تشریف لے آئے ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ لوگ حیران ہیں کیا ماجرا ہے ! ؟
١ دانہ
خلافِ معمول اس طرح تیزی سے کیوں تشریف لے گئے ابھی کوئی دریافت نہیں کرنے پایا تھا کہ آپ نے خود ہی فرمادیا
'' مجھے نماز پڑھتے ہوئے یاد آیا ١ کہ کچھ چاندی رکھی ہوئی ہے مجھے گوارا نہیں کہ شام کا وقت ہو اور چاندی میرے پاس رہے (ایک روایت میں یہ ہے کہ چاندی میرے گھر میں رات گزارے ) لہٰذا میں کہہ آیا ہوں کہ اس کو تقسیم کردیں '' ! ! ٢
یہ احساسِ لطیف کی نزاکت ہے کہ عصر کا وقت ہے شام ہونے اور رات آنے میں کافی دیر ہے ٣ مگر یہ دیر بھی بہت دیر معلوم ہوئی ،گویا دولت کی آلودگی سے جس قدر جلد ممکن ہو دامن پاک ہوجائے ! یہ تھوری سی چاندی کا معاملہ تھا ممکن ہے دو تین تولہ ہی ہو مگر دولت کے بڑے سے بڑے انبار کے متعلق بھی آپ کا جذبہ یہی تھا ! !
ایک دفعہ کا واقعہ ہے رات کی چاندنی میں آپ تشریف لے جارہے تھے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، سامنے اُحد کا پہاڑ تھا آپ نے فرمایا اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا
١ نماز میں کسی بات کا یادآجانا غیر اختیاری ہے اور یہ بھی فطری بات ہے کہ انسان کا ذہن اور دماغ ہروقت کام کرتا رہتا ہے لہٰذا فطری اور غیر اختیاری پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی البتہ نماز سے غافل ہوکر خیال میں مصروف اور مشغول نہ ہوجانا چاہیے اس خیال کو ہٹاکر نماز ہی کی طرف دھیان لگا لینا چاہیے سنت ِ مبارکہ کی تعلیم یہی ہے واللّٰہ اعلم بالصواب
٢ ضرورت مند اور مستحق لوگوں کی کمی نہیں تھی ، صحیح البخاری باب من صلی بالناس فذکر حاجتہ ص ١١٧ ،
و باب الحضر فی الصلوة ص ١٦٣
٣ مسلک احناف کے بموجب گرمیوں میں تقریباً دو گھنٹے یا حضراتِ شوافع کے مسلک کے بموجب دوسرے مثل ہی میں عصر کی نماز پڑھی گئی تھی تو ابھی تقریباً ایک تہائی دن باقی تھا مگر الفاظ حدیث کَرِہْتُ اَنْ یُّمْسِیَ اَوْ یَبِیْتَ عِنْدَنَا (بخاری ص ١٦٣) سے وہی متبادر ہے جس سے مسلک ِاحناف کی تائید ہوتی ہے واللّٰہ اعلم بالصواب
میرے پاس ہو تو میری خواہش یہ ہوگی کہ تین راتیں نہ گزرنے پائیں کہ وہ سب راہِ خدا میں خرچ ہوجائے اور ایک دینار بھی میرے پاس باقی نہ رہے بجز اس دینار جو کسی مطالبہ کو ادا کرنے کے لیے محفوظ رکھنا پڑے ١ زندگی بھر درہم ودینار کو یہ سعادت میسر نہ ہوئی کہ کاشانۂ نبوت میں رات گزار سکے ! !
بعد وفات کے لیے ارشاد ہوا :
لَا یَقْتَسِمُ وَرَثَتِیْ دِیْنَارًا وَلَا دِرْھَمًا مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِیْ وَ مَؤُنَةِ عَامِلِیْ فَھُوَ صَدَقَة ٢
''(یعنی) یہ تو ہوگا ہی نہیں کہ میرے وارث دینار یا درہم تقسیم کرسکیں (البتہ کچھ جائیدادیں میری تحویل میں ہیں تو) ازواج کے نفقہ اور کارندے کے حَقُّ الْمِحْنَتْ کے علاوہ جو کچھ میرا ترکہ ہو وہ صدقہ ہے'' ! !
استحصال کی بندش :
تزکیة کا مطلب صرف یہی نہیں رہا کہ اِکْتِنَازْ نہ ہو یعنی حاصل شدہ درہم ودینار کو شب باشی کا موقع نہ ملے (شام سے پہلے ہی خرچ کردیا جائے) بلکہ تزکیہ کا دوسرا رخ(اپنی ذات کے لیے) یہ تھا کہ آمدنی صرف وہ ہو جو ہرطرح مقدس، طیب اور پاک ہو ! پھر اس'' پاک'' میں بھی یہ پابندی کہ زکوة یا صدقہ نہ ہو، یہ پابندی نہ صرف اپنے لیے بلکہ
(الف) نسلاً بعد نسل اپنی تمام اولاد کے لیے ! (ب) تمام خاندان کے لیے جو آلِ ہاشم کہلاتا تھا !
(ج) (انتہا یہ کہ) اپنے خاندان کے تمام آزاد کردہ غلاموں کے لیے ! ! ٣ پھر لطف یہ کہ
(١) محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا تمام تر'' ترکہ'' صدقہ ! آپ کے وارثوں کو یہ حق نہیں کہ اس کو تقسیم کرسکیں ! (مگر صدقہ یا زکوة کی یہ مجال نہیں کہ وہ آلِ ہاشم کا دامن چھوسکے)
١ بخاری شریف ص ٣٢١ ، ٩٥٤ وغیرہ ٢ بخاری شریف ص ٣٨٩
٣ جن کو'' مَوْلیٰ'' کہا جاتا ہے کیونکہ عربوں کا حوصلہ یہ تھا کہ وہ اپنے مَوَالِیْ کو بھی اپنے خاندان کا فرد سمجھا کرتے تھے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے مَوَالِیْ کو یہی حیثیت دی ہے ! ارشاد ہے :
اِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا وَاَنَّ مَوَالِیَ الْقَوْمِ مِنْ اَنْفُسِھِمْ ( سنن ترمذی ج ١ ص ٨٣ ابو داود ج ١ ص ٢٤٠ وھٰکذا فی النسائی ج١ ص ٣٦٦
(٢) پوری امت کے لیے یہ ضابطہ کہ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ یعنی جس قوم یا گروہ کے دولت مندوں سے زکوة لی جائے وہ اسی گروہ یا قوم کے ضرورت مندوں کو دے دی جائے ! مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ کے خاندان کے لیے اس میں یہ ترمیم کہ اس ضابطہ کا جزء اوّل تو واجب العمل کہ اگر دولت مند ہوں تو عام مسلمانوں کی طرح ان سے بھی زکوة و صدقہ لیا جائے ! ! لیکن دوسرا جزء (کہ ان کے ضرورت مندوں کو دیا جائے) حرام ! ! یعنی آلِ ہاشم کے دولت مند یہ نہیں کرسکتے کہ عام دستور کے بموجب وہ اپنی زکوة کی رقم یا صدقہ فطر اپنے کسی ہاشمی رشتہ دار یا اس کے آزاد غلام کو دے دیں ! ! یہ رقم لامحالہ کسی غیر ہاشمی مسلمان کو ہی دینی ہوگی ! ! ١
صدقہ کے کھجور آئے ہوئے پڑے تھے جگر گوشۂ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ بچے تھے ٢ انہوں نے ایک کھجور رمنہ میں رکھ لیا جیسے ہی سرکار دو عالم صلی اللہ عليہ وسلم کی نظر پڑی لخت جگر کو تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد ہوا : کِخْ کِخْ اَ مَا شَعَرْتَ اَنَّا لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَةَ ٣
'' اخ تھو اخ تھو ! تمہیں اتنی تمیز نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے ''
رازدرونِ پردہ ( گزران کی کیفیت ) :
ان تمام پابندیوں اور احتیاطوں کے بعد اندرونِ نشیمن کیا حالت رہا کرتی تھی ذرا جھانک کر دیکھو !
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا : جب بھی میں کھانا کھانے بیٹھتی ہوں ، طبیعت ایسی بھر آتی ہے کہ اگر چاہوں تو خوب رو سکتی ہوں ، مجھے وہ حالت یاد آجاتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی موجودگی میں رہی ! یہاں تک کہ ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئے، خدا کی قسم کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ دونوں وقت آپ روٹی اور گوشت سے شکم سیر ہوئے ہوں ! ! ٤
١ فتویٰ یہی ہے اگرچہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ'' سید ''کی زکوة ''سید ''لے سکتا ہے۔
٢ پیدائش نصف رمضان ٣ھ ( تاریخ الخلفاء ) آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی وفات کے وقت تقریباً ساڑھے چھ سال عمر تھی ٣ بخاری شریف ص ٢٠٢ و فتح الباری ٤ ترمذی شریف ج٢ ص ٥٨
'' میدہ'' آپ نے عمر بھر نہیں دیکھا ١ کبھی آپ کے لیے چپاتی نہیں پکائی گئی،'' جو'' کا آٹا بھی بے چھنا پکتا تھا، یہی خوراک تھی ! اس پر بھی دو دوماہ گزر جاتے تھے کہ چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی ! ! دو کالی چیزیں یعنی کھجور اور پانی غذا ہوا کرتی تھیں ! البتہ انصاری پڑوسی دودھ بھیج دیا کرتے تھے ! ! ٢
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ (آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے خادم خاص) فرماتے تھے گھر کے آدمی نو تھے ٣
دن رات کے خرچ کے لیے ان سب کے واسطے صرف ایک صاع ہوتا تھا ٤ اور ایسا بھی ہوا کہ آپ نے یہودی کے یہاں زرہ رہن رکھ کر'' جو'' منگوائے اور ایسا بھی ہوا کہ میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے لیے ''جو '' کی روٹی اور باسی چربی لے گیا ٥ اس کے سوا کچھ نہیں تھا ! !
بچھانے کا گدا چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ٦ اکثر کھرّ ی چارپائی پر آرام فرماتے تھے ٧ چٹائی کے پٹھے جسم مبارک میں گڑجایا کرتے تھے ٨ وفات ہوئی تو ذرہ ایک یہودی کے یہاں ٩ تیس صاع ''جو'' کے عوض میں رہن تھی ! ١٠
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک موٹا کمبل پیوند لگا ہوا اور ایک موٹے کپڑے کی لنگی نکال کر ہمیں دکھائی اور فرمایا ان دو کپڑوں میں رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی رُوح قبض ہوئی ١١
وفات کے بعد ترکہ یہ تھا : (ضروری) اسلحہ، ایک خچر، قطعہ اراضی جس کو صدقہ کردیا تھا ! ! ١٢
١ جس سے پوریاں ، سموسے ، کچوریاں ، پیزا وغیرہ بنائے جاتے ہیں
٢ بخاری شریف ص ٩٥٦ ٣ ازواج مطہرات ،دسویں خود آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم
٤ ایک صاع کا وزن دو سو ستر تولہ (تین سیر چھ چھٹانک ، تقریباً دو کلو چھ سوگرام)
٥ بخاری شریف ص٣٤١ ٦ بخاری شریف ص ٩٥٦ ٧ یعنی اس پر کوئی بچھونا نہ ہوتا تھا
٨ بخاری شریف ص ٣٣٥ ٩ تیس صاع تقریباً ڈھائی من ١٠ بخاری شریف ص ٤٠٩ و شمائل ترمذی شریف
١١ بخاری شریف ص ٨٦٥ و ترمذی شریف ج١ ص ٢٠٦ ١٢ شمائل ترمذی شریف ص ٢٩
ایک معمہ ...... :
سن ٧ھ میں خیبر فتح ہوا اس کے بعد ازواجِ مطہرات کے لیے نفقے مقرر کردیے گئے ہر ایک خاتون کا سالانہ نفقہ اَسّی وَسَقْ کھجور اور بیس وَسَقْ جو ١ ایک وسق کا وزن پانچ من ڈھائی سیر ٢
اس حساب سے اَسی وسق کھجور چار سو پانچ من اور بیس وسق ''جو '' ایک سو ایک من دس سیر ! !
کھجور اور ''جو ''کا جو بھی نرخ مانا جائے جب ایک شخص کی خوراک کے لیے مہینہ میں ایک من اور سال بھر میں بارہ من ''جو '' یا کھجور بھی کافی ہوتے ہیں تو یہ کئی سو من کی مقدار فاضل ہی تھی ! اس کے ذریعہ زندگی بہت خوشحال بن سکتی تھی پھر یہ تنگی کیوں تھی ! ! ؟ ؟
جواب :
کوئی حساب داں اس معمہ کو حل نہیں کرسکتا ! قرآنِ حکیم نے اس کا جواب دیا ہے جب صحابہ کرام کی شان یہ بیان فرمائی
( یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَة ) ٣
''(ضرورت مندوں کو) اپنے اوپر مقدم رکھتے ہیں باوجودیکہ خود کو شدید ضرورت ہوتی ہے''
( وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا ) ٤
''اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر (جب کھانا خود ان کو بھی محبوب ہوتا ہے
اور وہ خود بھی ضرورت مند ہوتے ہیں ) مسکین کو، یتیم کو اور قیدی کو''
ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر عوام کی اقتصادی حالت معلوم ہوجائے تو معمہ حل ہوجائے گا !
١ بخاری شریف ص ٣١٣ ٢ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تین سیر چھ چھٹانک (٢٧٠ تولہ)
٣ سُورة الحشر: ٩ ٤ سُورة الدھر : ٨
عوام کی حالت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو آپ کا مع اہل وعیال یومیہ وظیفہ نصف بکری مقرر کیا گیا تھا ١ کیونکہ متوسط درجہ کے مہاجر کی یومیہ آمدنی کا اوسط یہی تھا یہ آمدنی فی کس نہیں بلکہ فی گھر تھی ! ! ٢
اور جب متوسط درجہ کے مہاجرین کی یہ آمدنی تھی تو غریبوں کی آمدنی کا اوسط تو فی گھر اس سے بھی کم ہوگا جس کا لازمی تقاضا عمومی اِفلاس تھا ! پس عمومی اِفلاس اور عوام کی خستہ حالی اس معمہ کا حل ہے !
اس کی وضاحت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ سے ہوتی ہے
١ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت عروة البارقی رضی اللّٰہ عنہ کو بکری خریدنے کے لیے بھیجا تو آپ نے ایک دینار ان کو دیا تھا یہ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کی کمال ہوشیاری تھی آپ نے ایک دینار کی دوبکریاں خرید لیں ! (بظاہر آپ کسی گلہ میں یاکسی کے مکان پر پہنچ گئے) پھر بازار میں لاکر ایک بکری ایک دینار میں فروخت کردی ! دوسری بکری اور ایک دینار آقاء دوجہان ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کی خدمت میں پیش کردیا آپ نے ان کو دعادی ! !
(بخاری شریف ص ٥١٤)
بہرحال اگرچہ عروہ نے ایک دینار میں دو بکریاں خرید لی تھیں مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے آپ کو ایک دینار اسی لیے دیا تھا کہ عام طور پر قیمت ایک دینار کے قریب ہوتی تھی، پھر بازار میں ایک بکری کو ایک دینار میں فروخت کردینا اور خریدار کاایک بکری کو بلا تکلف ایک دینار میں خرید لینا بھی یہ بتاتا ہے کہ بازار میں عام قیمت تقریباً ایک دینار ہی ہوتی تھی اس صورت میں نصف بکری کا وظیفہ مقرر کرنے کا مفہوم ہوا کہ نصف دینار یومیہ حضرت ابوبکر کے گھر کے خرچ کے لیے مقرر کیا گیا ! دینا ر کی قیمت عام طور پر دس درہم ہوتی تھی !
( فتح القدیر باب الجزیة)
اس کے بعد نصف بکری یومیہ کے بجائے دو ہزار درہم اور جب آپ نے عیالداری کی ضرورتیں پیش کر کے اضافہ کی فرمائش کی تو ڈھائی ہزار درہم (تقریباً سات درہم یومیہ)۔ ( تاریخ الخلفاء ص ٥٨ )
ایک درہم ساڑھے تین ماشہ کا مانا جائے تو دو تولہ چھ ماشہ چاندی یومیہ حضرت صدیق اور ان کے اہل وعیال کے لیے مقرر کیے گئے
٢ تاریخ الخلفاء ص٥٨ مجتبائی بحوالہ طبقات ابن سعد
''خلیفہ دوم حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں جب از سرنو وظائف مقرر کیے تو ہر ایک زوجۂ مطہرہ کا سالانہ وظیفہ دس ہزار درہم مقرر کیا ! ام المومنین حضرت زینب بنت جحش (رضی اللہ عنہا) کے یہاں یہ رقم پہلی مرتبہ پہنچی تو فرمایا اللہ تعالیٰ امیر المومنین پر رحم فرمائے، یہ رقم میرے پاس بھیجی حالانکہ میری سہیلیوں میں ایسی ہیں جو مجھ سے زیادہ باہمت ہیں وہ زیادہ مستعدی سے اس رقم کو تقسیم کرسکتی تھیں ! جب پیش کرنے والوں نے کہا
محترمہ یہ تقسیم کرنے کے لیے نہیں ہیں یہ تو آپ کے جیب خرچ کے لیے ہیں
تو فرمایا : اچھا یہاں ڈال دو ان کو رکھواکر ان پر کپڑا ڈلوادیا اور اپنی خادمہ سے فرمایا کپڑے کے نیچے ہاتھ ڈال کر فلاں خاندان کے لیے رقم نکالو، فلاں خاندان کے لیے نکالو، اسی طرح خاندان شمار کراتی رہیں اور ان کے لیے رقومات علیحدہ کراتی رہیں !
خادمہ نے کہا سیدہ میں بھی تو حاضر ہوں کچھ میرے لیے بھی !
فرمایا جو کچھ کپڑے کے نیچے رہ گیا ہے وہ تمہارا ہے ! خادمہ نے کپڑا اٹھایا تو صرف پچاسی درہم باقی تھے ! وہ اس کو عطا فرمادیے '' ! ! ١
یہ تھا ''اسلامی سوشلزم '' ! اگراس کو سوشلزم کہا جاسکتا ہے جو تقسیم دولت کا قانون نہیں بنواتا بلکہ دلوں میں دولت سے نفرت اور غریبوں کی ہمدردی کا وہ جذبہ بھردیتا ہے کہ ان کو اطمینان جب ہی ہوتا ہے جب پوری دولت تقسیم ہوجائے اور امیر غریب کی سطح پر آجائے ! اسی کو تزکیہ کہا جاتا ہے کہ بخل، حب ِ مال اور حرص وطمع کے جراثیم سے وہ پارۂ گوشت ٢ پاک وصاف ہوجائے جس کو'' دل'' کہا جاتا ہے ! !
نتیجہ : یہ بحث بظاہر بے محل ہے مگر جب شروع ہوگئی تو اب یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ یہ اقتصادی نظام کو جس کی بناء مساوات پر رکھی گئی تھی جس کے لیے دولت مند غریب کی سطح پر آئے تھے وہ کتنی جلد کامیاب ہوا اور کیسا کامیاب ہوا ! ؟ ؟
١ کتاب الخراج للامام ابی یوسف ص ٤٥ ٢ گوشت کا ٹکڑا
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا وظیفہ یومیہ نصف بکری معین کیا گیا تھا یعنی پانچ درہم یومیہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دو سالہ دورِ خلافت میں جب رجسٹر میں درج مسلمانوں کے وظائف مقرر کیے تو اسی نسبت سے یعنی فی کس پانچ درہم یومیہ ! ! ١
٭ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ : فضائل ، خدمات اور مناصب کا لحاظ کرتے ہوئے (وظائف مقرر فرمادیے جو بارہ ہزار درہم سالانہ تک تھے ٢
جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق تھا تو یہ ضابطہ مقرر کردیا کہ جیسے ہی بچہ پیدا ہو اس کا وظیفہ جاری کردیا جائے !
اس کے علاوہ یمن کا علاقہ زرخیز تھا تو وہاں یہ حالت ہوگئی کہ ایسے ضرورت مند نہ رہے جن کو زکوة دی جاسکے !
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن کے والی (گورنر) تھے انہوں نے جو زکوة وصدقات کی رقمیں وصول کیں ان کا ایک تہائی مرکزی بیت المال (مدینہ) میں بھیجا مگر بجائے مبارکباد کے حضرت فاروق اعظم کی جانب تنبیہ نامہ پہنچا ! ؟
''آپ کو یمن اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ وہاں سے چندہ یا جزیہ وصول کر کے یہاں بھیجیں آپ کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہاں کے اہلِ استطاعت سے زکوة وصدقات وصول کریں اور اسی علاقہ کے ضرورت مندوں پر تقسیم کردیں پھر آپ نے یہ رقم کیسے بھیجی '' ؟
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا
''سب کو دے دیا گیا جب یہاں کوئی لینے والا نہ رہا تو یہ فاضل رقم بھیج دی''
اگلے سال حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نصف اور تیسرے سال زکوة کی پوری رقم مرکزی بیت المال میں بھیج دی ! ! اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مرتبہ بھی اتنی سختی سے لکھا تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا دو لفظی جواب یہ تھا :
١ کتاب الاموال لابی عبید ص ٥٩٦ رقم الحدیث ١٩١١ ٢ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے بارہ ہزار درہم سالانہ ، باقی ازواج کے دس دس ہزار ، حضرت علی اور تمام مہاجرین کے جو غزوۂ بدر میں شریک تھے پانچ پانچ ہزار ،حضراتِ انصار جو بدر میں شریک تھے ان کے چار چار ہزار درہم ( کتاب الاموال لابی عبید ص ٢٢٤ رقم الحدیث ٥٤٩ )
مَا وَجَدْتُّ اَحَدًا یَأْخُذُ مِنِّیْ شَیْئًا '' کوئی نہیں ملا جو مجھ سے کچھ لے لے '' ١
٭ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دور شروع ہوا تو مدینہ کی یہ حالت ہوگئی کہ لوگ زکوة کی رقم لیے پھرتے تھے اور کوئی شخص ایسا نہیں ملتا تھا جو اسے قبول کر لے ! !
٧ھ میں خیبر فتح ہوا تھا اس وقت سے اسلامی مملکت اس قابل ہوئی تھی کہ کسی درجہ پر مالی نظام قائم ہوسکا ! حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت ٢٣ھ سے شروع ہوا اس سولہ سال کے عرصہ میں پوری مملکت کی یہ حالت ہوگئی کہ غریبی کا نام و نشان نہیں رہا ! ! ٢ ساتھ ساتھ تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا تو وہی مدینہ جس میں قبہ دار پھاٹک ناپسند فرمایا گیا تھا اب اس کی تعمیرات محدود علاقہ سے آگے بڑھ کر کوہِ سَلْعَ تک پہنچ گئیں جو اُحد کے قریب مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر ہے ! !
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللہ'' صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٨٥ تا ٤٩٥ )
١ کتاب الاموال لابی عبیدة ص ٢٦٣ رقم الحدیث ٦٤٦
٢ اس نظام کی بنیادیں اتنی مضبوط تھیں کہ شدید خانہ جنگی کے باوجود خوش حالی کا دور دورہ رہا ! حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت یعنی خلافت ِ راشدہ کے تیس سال ختم ہونے کے بعد اگرچہ وصول اور خرچ کے بارہ میں وہ احتیاط باقی نہیں رہی تھی مگر جو اقتصادی ساکھ قائم ہوچکی تھی وہ قائم رہی ! جس کی ایک مثال یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے تقریباً ستاون سال بعد جب حضرت عمر بن عبدالعزیز (المتوفی رجب ١٠٧ھ/ ٧٢٠ء ) نے نظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا تو آپ نے عبدالحمید بن عبدالرحمن (گورنرعراق) کو حکم بھیجا کہ وظائف ِمقررہ ادا کردیں !
گورنر صاحب نے تعمیل حکم کے بعد رپورٹ بھیجی کہ تمام وظائف ادا کیے جاچکے ہیں تب بھی کافی رقم باقی ہے ! !
دربارِ خلافت سے حکم صادر ہوا آپ کے صوبہ میں جتنے مقروض ہیں ان کا جائزہ لو اور ان سب کے قرض ادا کردو جو فضول خرچی کی بناپر مقروض نہ ہوئے ہوں ! !
گورنر صاحب نے تعمیل کے بعد رپورٹ بھیجی کہ سب مقروضوں کے قرض ادا کیے جاچکے ہیں تب بھی رقم باقی ہے ! ! حکم صادر ہوا جن نوجوانوں کے نکاح نہیں ہوئے ان کے نکاح کرادیجیے اور مہر اس رقم سے ادا کردیجیے !
گورنر صاحب نے اس حکم کی تعمیل کے بعد بھی یہی رپورٹ بھیجی کہ رقم باقی ہے ! !
حکم صادر ہوا جو غیر مسلم کاشتکار جزیہ ادا کرتے ہیں ان کا جائزہ لیجیے، ان کو تَقَاوِیْ کی ضرورت ہو تو ان کی تَقَاوِیْ دے دیجیے کہ وہ آسانی اور سہولت کے ساتھ زمین بوسکیں ! ! (کتاب الاموال لابی عبید ص ٢٥١ حدیث ٦٢١)
( تَقَاوِیْ یعنی بجائی کے لیے مفت بیچ وغیرہ فراہم کرنا آج کل کھاد وغیرہ بھی شمار کی جاسکتی ہے )
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے وہ مضامین جو پندرہ بیس برس قبل ماہنامہ انوار مدینہ میں شائع ہوچکے ہیں قارئین کرام کے مطالبہ اور خواہش پر ان کو پھر سے ہر ماہ سلسلہ وار ''خانقاہ حامدیہ '' کے زیر اہتمام اس مؤقر جریدہ میں بطور قندِ مکرر شائع کیا جارہا ہے !
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے
(ادارہ)




اسلام اپنے اعلیٰ اوصاف کی وجہ سے دوسرے سب دینوں پر غالب ہے
( نظر ثانی و عنوانات : شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب )
٭٭٭
آج کل جبکہ دنیا ترقی کی دعویدار ہے جبکہ بزعم ِخود مہذب اور ترقی یا فتہ ملک اسرائیل کی بدعہدی اور دھوکہ بازی آپ کے سامنے ہے ، یہ اسرائیل دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام کا پروَردہ اور ان کے اخلاق کا آئینہ دار ہے ! اسلامی تعلیمات میں ایسی مکاریوں کا کوئی مقام نہیں ہے !
آج دنیا میں تمام ترقی یافتہ اقوام اپنے مفادات اور وسعت ِتجارت کی غرض سے سچی اوردیانتدار تو رہتی ہیں مگر اخلاقی اقدار سے یکسر خالی ہیں ،وہ کسی غیر مہذب قوم کو مہذب بنانے اورعمدہ اخلاق سے مزین کرنے کے لیے جنگ مول نہیں لیتیں بلکہ ان کا مطمح نظر توسیع پسندی اورغلبہ قائم رکھنا اور دوسروں کو کمزور بنانا ہوتاہے ! ! ویت نام اور کوریا کی جنگ نیز امریکہ چین اور اسرائیل کا وجود سب اسی (توسیع پسندی کے)شجرۂ خبیثہ کے ثمرات ہیں ! جہاں جہاں امریکی افواج مقیم ہیں ان علاقوں کے باشندوں کا معیارِاخلاق روز بروزگرتا جارہا ہے ! شراب وزنا عام ہیں اوران دوچیزوں کے جو نتائج بد ہوتے ہیں وہ انہیں گھیرے ہوئے ہیں !
آج دنیا میں سی آئی اے کی تخریب کاریاں سب کے سامنے ہیں ، کیا کوئی ان امریکی تباہ کاریوں کی وجہ بتلا سکتا ہے کہ کیوں ہیں ؟ کیا امریکی لوگ کسی کو بلند اخلاق سکھا سکتے ہیں ؟ وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ مال بڑھانے کے لیے کتنی سچائی ، دیانت اورکن اخلاق واصول کی ضرورت ہے اورمال کی فراوانی کی خاطر چھوٹی موٹی خیانتیں نہیں کرتے ! کمائی کی خاطر مرد وعورت کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور حکومت اپنے جائز وناجائز غلبہ کی فکر میں ! یہ ان کی تہذیب وترقی کا خاکہ ہے ! !
آئیے دیکھیں پیغمبراسلام نے بلکہ پچھلے انبیاء کرام نے جنہوں نے جہاد کیا ہے جہاد کا کیا نظریہ بتلایا ہے ؟ ان کا نظریہ جہاد یہ ہے کہ صرف خدا کی رضا حاصل کرنے اوراس کے دین کو پھیلانے کے لیے جہاد ہوگا لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ہمارے قانون کی عظیم کتاب ہدایة میں ہے :
وَاِنَّمَا فُرِضَ لاِعْزَازِ دِیْنِ اللّٰہِ وَدَفْعِ الشَّرِّعَنِ الْعِبَادِ
''جہاد صرف اس لیے فرض ہوا کہ خدا کے دین کو غالب کیا جائے اوربندوں سے شرکو رفع کردیا جائے''
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے :
اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ١
''مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا حتی کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہیں ''
وَلَا یَجُوْزُ اَنْ یُّقَاتِلَ مَنْ لَّمْ تَبْلُغْہُ الدَّعْوَةُ اِلَی الْاِسْلَامِ اِلَّا اَنْ یَّدْعُوْہُ ( ہدایة )
''جسے اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو اس سے لڑنا صرف اس صورت میں درست ہے کہ جب اسے دعوت ِاسلام د ے دی جائے''
اگر صرف ان نفسانی اغراض کا نام بلندی رکھا جائے جو آج کی(نام نہاد ) مہذب اقوام کا مقصود ہیں اور اس کی خاطر ہر مکروہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے ، تباہ کن لڑائیاں مول لی جاتی ہیں تودین ِاسلام کی خاطر کیوں نہ قتال جائز ہوگا جس کی تعلیمات سراسر مبنی بر خلوص اور خلقِ خدا کے لیے رحمت ہیں ! ؟
اسلام نے بے غرضی، بے نفسی اور رضاء الٰہی حاصل کرنے کی تعلیم دی ہے جو یقینا سب سے بلند مقصود ہے ! عدل واحسان ، عفو و درگزر ، رحم ، برائی کی جگہ نیکی ، زبان دل اور عمل کی سچائی ، شجاعت ، سخاوت ، عفت و پاکبازی، امانت ودیانت، شرم وحیا،حِلم وبردباری، تواضع و خوش کلامی، ایثار، اعتدال ، عزت ِنفس، استغناء ، حق گوئی ،استقامت، حقوق والدین ، حقوق اہلِ قرابت، حقوقِ زوجین،
ہمسایہ اور یتیموں کے حقوق، حاجتمند، بیمار، مہمان ،غلام اور انسانی برادری کے حقوق حتی کہ جانوروں کے حقوق تعلیم فرمائے ! !
١ صحیح البخاری کتاب الصلٰوة رقم الحدیث ٣٩٢
جھوٹ ،وعدہ خلافی، خیانت وبد دیانتی، غداری، بہتان ،چغل خوری، غیبت ، دو رُخاپن، بدگمانی، حرص وطمع، حسد، بخل ،چوری، ناپ تول میں کمی، رشوت، سود خوری، شراب خوری، فخروغرور، غیظ وغضب ، ظلم، ریاکاری، خودنمائی ، فحش گوئی، طعنہ زنی ،فضول خرچی وغیرہ سے منع فرمایا ! !
فطری آداب تعلیم کئے،طہارت وپاکیزگی، مجلس کے آداب، کھانے پینے کے آداب، ملاقات وگفتگو کے آداب، باہر نکلنے اور چلنے پھرنے کے آداب، سفر کے آداب، سونے جاگنے کے آداب ،لباس کے آداب ،خوشی اور غمی کے آداب سکھائے ! !
توحید، رسالت ،تزکیۂ نفس، طریق ِعبادت یعنی بندوں کا خداسے تعلق اور جوڑ بہترین طریقوں سے تعلیم فرمایا ! ! یہ اسلامی تعلیمات کا ایک مختصر سا خاکہ ہے
آپ خود ہی انصاف کریں کہ اگر کسی قوم میں یہ اوصاف نہ ہوں تو اسے یہ اوصاف سکھانے(کی کوشش و جدوجہد کرنا ) اس قوم پر رحم کھانا ہے یا ظلم کرنا ؟ اسلام نے اگر تلوار اُٹھائی ہے تو صرف اس لیے اُٹھائی ہے ! ! اور جنہوں نے اسلام سے روگردانی کی ہے وہ صرف اپنی خواہش ِنفس کے لیے کی ہے ! !
( اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَھُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ ) ( سُورة البقرة : ١٤٦ )
''اہلِ کتاب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا رسولِ خدا ہونا اس طرح جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کا اپنا بیٹا ہونا یقینی طورپر جانتے ہیں اور ان میں سے ایک فریق حق کو جاننے کے باوجود چھپاتا ہے ''
ان ہی اوصافِ جلیلہ کے باعث فتح مکہ کے بعد جب لوگ مسلمانوں سے ملے جلے تو امام زہری (جنہوں نے صحابہ کرام سے علوم حاصل کیے تھے )فرماتے ہیں کہ لوگوں کا یہ حال ہوا :
فَلَمْ یُکَلِّمْ اَحَد بِالْاِسْلَامِ یَعْقِلُ شَیْئًا اِلَّا دَخَلَ فِیْہِ فَلَقَدْ دَخَلَ فِیْ تَیْنِکَ السَّنَتَیْنِ فِی الْاِسْلَامِ مِثْلَ مَا کَانَ فِی الْاِسْلَامِ وَ اَکْثَرَ۔ (طبری)
''تو کوئی عقل مند ایسا نہ تھا کہ جس سے اسلام کے متعلق گفتگو ہوئی اور اس نے قبول نہ کیا ہو چنانچہ جتنے لوگ ابتداء سے اس وقت تک مسلمان ہوئے تھے صرف ان دوبرسوں میں ان کے برابر بلکہ ان سے زیادہ تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے''
امام زہری ر حمة اللہ علیہ کے اس قول کی تائید ( وَرَأَ یْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا ) ١ سے ہوتی ہے ! اَللّٰھُمَّ احْشُرْنَا مَعَھُمْ
حضرات آپ کو مذکورہ بالا عنوانات پر قرآنِ حکیم کی بعض تعلیمات ِقدسیة کی کچھ اور سیر کرائیں جن کے باعث قرآنِ عزیز کو ہم امن عالم کا ضامن کہتے ہیں کہ جان کے ساتھ مال اور آبرو کے تحفظات کیا کیا ہیں ؟
٭ امانت کے بارے میں ارشاد ہوا :
( اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ) ٢
'' اللہ تعالیٰ تم کو فرماتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچادو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو اللہ تم کو اچھی نصیحت کرتاہے
یقینا اللہ سننے دیکھنے والا ہے ''
٭ بے زبان بے سہارا بے کس لوگوں کے مال کے تحفظ کے لیے فرمان نازل ہوا :
( وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہ ) ٣
'' اور یتیم کے مال کے پاس نہ جائو سوائے اس صورت کے کہ جو اس کے لیے بہترہو حتی کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے''
٭ یہ بھی بتلایا گیا کہ ایک کودوسرے کا مال کن صورتوں میں جائز ہے :
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ) ٤
١ سُورة النصر : ٢ ٢ سُورة النساء : ٥٨ ٣ سُورة بنی اسرائیل : ٣٤ ٤ سُورة النساء : ٢٩
''اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو سوائے اس کے کہ آپس کی رضا مندی کے ساتھ تجارت ہو''
٭ ناپ تول میں کمی کے جرم پر قومِ شعیب برباد کردی گئی تھی ! آپ کی تعلیم تھی :
( اَوْفُوا الْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ ۔ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ) ١
''ماپ پورا بھر کر دیا کرو اورنقصان دینے والوں میں مت ہو اور سیدھی ترازو سے تولو ! اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا مت پہنچائو اورزمین میں فساد مت پیدا کرتے پھرو''
یہی تعلیم اس امت مرحومہ کو بھی دی گئی ارشاد ہوا :
( وَیْل لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ۔ وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ ) ٢
'' تباہی ہے گھٹانے (اور ڈنڈی مارنے ) والوں کی وہ لوگ کہ جب ماپ کرلیں لوگوں سے تو پورا بھرلیں اورجب ماپ کر یا تول کردیں دوسروں کو تو گھٹا کر دیں ''
( اَ لَا یَظُنُّ اُولٰئِکَ اَنَّھُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) ٣
''کیا لوگ یہ خیال نہیں رکھتے کہ ان کو اٹھنا ہے اس بڑے دن کے واسطے جس دن لوگ جہاں کے مالک کے سامنے کھڑے رہیں گے ''
( وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ ) ٤
'' اور سیدھی ترازو تولو انصاف سے ، اورمت گھٹائو تول کو ''
( وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ) ٥
'' اور ماپ پورا بھردو جب ماپ کردینے لگو اور سیدھی ترازو سے تولو ''
١ سُورة الشعراء : ١٨١ تا ١٨٣ ٢ سُورة المطففین : ١ تا ٣ ٣ سُورة المطففین : ٤ تا ٦
٤ سُورة الرحمن : ٩ ٥ سُورة بنی اسرائیل : ٣٥
٭ سود کے بارے میں حکم نازل ہوا :
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْ مِنِیْنَ ) ١
''اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ د و اگر تم کو اللہ کے فرمانے کا یقین ہے ''
( فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ) ٢
''پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجائو اللہ اوراس کے رسول سے لڑنے کواوراگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے تمہارا رأس المال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر''
( وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة اِلٰی مَیْسَرَةٍ وَاَنْ تَصَدَّقُوْاخَیْر لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِےْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّاکَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ) ٣
'' اور اگر( مقروض ) تنگدست ہے تو اسے کشائش ہونے تک مہلت دینا چاہیے اور اگر بخش دو تو تمہارے لیے بہت بہتر ہے ! اگر تم کو سمجھ ہو اور اس دن سے ڈرتے رہو جس دن اللہ کی طرف لوٹا دئیے جائوگے پھر ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا پورا دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا''
سود ایک ایسی چیزہے جسے ضرورت مند انسان شدید ضرورت کے وقت لیتا ہے ! اور دینے والے کے پاس رقم ضرورت سے زائد ہوتی ہے اس لیے دیتا ہے ! آپ غور کریں تو ضرورتمند سود لینے کے بعد زیادہ ضرورت مند ہو جاتاہے اوردینے والا زیادہ مستغنی مالدارتر ! جس سے لا محالہ انسانوں کی معیشت کا نظام تباہ وبرباد ہو جاتا ہے اورپھر انقلابات آتے ہیں ! !
نفسیاتی طورپر سود دینے والا اپنی منفعت پر نظر رکھنے کا عادی ہو جاتاہے اس میں ایثار وقربانی ،رحم دلی کا مادّہ رفتہ رفتہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے ! اس لیے شریعت ِمطہرہ نے اسے حرام ہی قراردے دیا !
١ سُورة البقرة : ٢٧٨ ٢ سُورة البقرة : ٢٧٩ ٣ سُورة البقرة : ٢٨٠ ، ٢٨١
اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہیں ( اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ) ١
اور سود خور شخص کے دل سے رحم کا مادہ خارج ہو تاجاتاہے آخر کار وہ ظالم ِمحض بن کررہ جاتاہے !
خلق ِخدا کی ضرور ت مندی اور احتیاج سے وہ ناجائز فائدہ اُٹھانے کا متلاشی رہتا ہے ! ! دوسروں کی محتاجگی اس کے عین سکون وراحت کا سبب ہوتی ہے ! اوراس طرح گویا وہ اُن صفات حسنہ سے لڑرہا ہے جو اللہ اور رسول نے اختیار کرنے کا حکم دیاہے، شاید اس لیے اللہ ورسول سے جنگ کی وعید شدید وارد ہوئی !
سود کہاں سے آیا ؟ ؟
مشرکین ِعرب میں یہ لعنت یہودیوں سے آئی تھی اوراُن کی فطرت تھی کہ حرام کو تاویلات کرکے حلال سمجھے لیا کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے اور اصرار کرتے تھے ، ویسے بھی انسان میں مالی لالچ آسانی سے غالب کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد وہ مال کے لالچ میں عقلی دلائل لاتا ہے، استدلالاتِ (باطلہ) سے حقائق ِفطریہ کوتوڑنا چاہتا ہے ! اس لیے اسے قیامت میں اس کے مناسب سلب ِعقل کی سزا دی جائے گی ! !
( اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ) ٢
''جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھیں گے جیسے وہ شخص اٹھتا ہے کہ جس کے حوا س جن نے لِپٹ کر کھو دئیے ہوں ''
( ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا) ٣
''ان کی یہ حالت اس واسطے ہوگی کہ اُنہوں نے کہا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سودلینا ، حالانکہ اللہ نے سوداگری کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے ''
حضرات ! ان چند آیات کے احکام یہ ہوئے کہ امانت ادا کرنی لازم ہوئی ،تجارت میں دیانتداری شرط اور طرفین کی رضا مندی ضروری ہوئی ،اورسود حرام قراردیا گیا ! !
١ سُورة النساء : ٢٩ ٢ سُورة البقرة : ٢٧٥ ٣ سُورة البقرة : ٢٧٥
اسلام میں اِحْتِکَارْ بھی ممنوع ہے ١ کیونکہ جگہ جگہ احسان کا حکم فرمایا گیا ہے اور اِحْتِکَارْ احسان نہیں بلکہ اس کے برعکس فعلِ منکر ہے
( اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَاْیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْن) ٢
''اللہ حکم کرتا ہے انصاف اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کو دینے کا اور بے حیائی نامعقول کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے تم کو سمجھاتاہے تاکہ تم یاد رکھو''
٭ اسی طرح اسمگلنگ بھی ممنوع ہے کیونکہ جائز اور معروف میں اطاعت ِامراء ٣ ضروری ہوتی ہے
( اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ) ٤
''حکم مانو اللہ کا اورحکم مانو رسول کا اور حاکموں کا جو تم میں سے ہوں ''
فیض الباری میں ہے کہ حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ
'' اگر حاکم تمباکو نوشی کو منع کردے یا کسی مباح فعل کو ضروری قراردے د ے تو وہ تاحکم ِثانی واجب الاطاعت ہوگا '' !
عام ضرورت کی چیزیں جیسے نمک پانی وغیرہ نہ دینا بلکہ معروف سے (یعنی جن چیزوں کے ذریعہ بھلائی کی جاتی ہے) رُکنا اور روکنا دونوں ہی خدا وندقدوس کو ناپسند ہیں !
( وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ) ٥ ''برتنے کی چیز نہ دیں ''
رشوت :
رشوت ستانی یہودیوں میں ایک خاص مرض تھا حتی کہ وہ اس کے ذریعہ احکامِ الٰہیہ میں تبدیلی کرالیا کرتے تھے آیت مبارکہ ( سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ ) ٦ میں حرام کھانے
١ یعنی ان تمام چیزوں کی ذخیرہ اندوزی جو حیات کے لیے ضروری ہوں
٢ سُورة النحل : ٩٠ ٣ حکام ٤ سُورة البقرة : ٥٩ ٥ سُورة الماعون : ٧ ٦ سُورة المائدة : ٤٢
سے رشوت مراد ہے ! ''جھوٹ بولنے کے لیے جاسوسی کرنے والے اور بہت حرام کھانے والے''
مسلمانوں کو قرآن حکیم میں واضح طورپر اس عادت ِبدسے روکا گیا ہے ، اس عادتِ بد سے سرکاری نظام معطل ہوکر رہ جاتاہے ارشاد ہوا :
( وَلَا تَاْ کُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْابِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) ١
'' اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو، اور نہ پہنچائو اموال کو حکام تک تاکہ تم لوگوں کے مال میں سے کوئی حصہ ظلم کرکے ناحق کھاجائو حالانکہ تم جانتے ہو''
چوری :
ممکن ہے کوئی یہ خیال کرے کہ چوری کی سزا جسمانی کیوں رکھی گئی مالی کیوں نہیں رکھی گئی ؟ پھر جسمانی سزا بھی اس قدر شدید رکھی گئی ہے کہ اسے کام کے ہاتھ سے محروم کردیا جائے ! ؟
سو اس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ
(١) چوری ایک ایسا مرض ہے کہ جس کے کرتے وقت خدا کی بعض صفات مثلاً قہر ،غضب، انتقام، حساب اور قیامت میں جواب دہ ہونے کا چورعملاً انکار کرتا ہے اور ذہناً وہ ان صفات سے غفلت برتتا ہے ! رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے زانی اور سارق کے بارے میں فرمایا کہ جس وقت وہ یہ کرتے ہوتے ہیں ان کا ایمان نہیں ہوتا
لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِن .........۔ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِن ٢
اور ظاہر ہے کہ اگر کمالِ ایمان ہوتا تو وہ ایسا جرم نہ کرتا ! !
(٢) دوسرے کے ہاتھ کی کمائی کو اپنے ہاتھ سے چراکر اسے محروم کردیتا ہے ! !
(٣) شدید ضرورت مند پر بھی رحم نہیں کھاتا ، نہ اسے غریب پر ترس آ تا ہے نہ مسافرپر ! !
١ سُورة البقرة : ١٨٨ ٢ صحیح البخاری کتاب الاشربة رقم الحدیث ٥٥٧٨
(٤) دوسرے کی قیمتی سے قیمتی اور خون پسینہ ایک کرکے کمائی ہوئی دولت کو کوڑیوں میں فروخت کرکے ضائع کردیتاہے اوراس طرح شدید دل آزاری کا سبب بنتا ہے ! !
(٥) دوسرے کے گھر میں جاکر دوسرے کی مِلک پر قبضہ کرتاہے اوراگر وہ بیدار و متنبہ ہو جائے تو بسااوقات نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے اوراس طرح گویا یہ جرم مالی ہی نہیں بلکہ جانی بھی ہوا !
آئے دن ایسے واقعات آپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں ! !
(٦) چوری ایک ذہنی عیاشی ہوتی ہے ! چور اس کا عادی ہوتا ہے اس لیے بے ضرورت بھی کرتا ہے !
موطا امام مالک میں ہے کہ
''اہلِ یمن میں سے ایک شخص جس کا ہاتھ اور پائوں کٹا ہوا تھا ،حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ان ہی کے پاس ٹھہرا اور شکایت کی کہ یمن کے حاکم نے اس پر ظلم کیا ہے ! یہ شخص رات کو نماز پڑھا کرتا تھا ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسے دیکھتے تھے تو اپنے دل میں فرماتے تھے تیری رات تو ہرگز چور والی رات نہیں ! ؟ ابھی اس کی فریاد پر کوئی کارروائی نہ ہونے پائی تھی کہ چند روز بعد حضرت اسماء بنت عُمیس کا جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں ایک ہارگم ہوگیا ! !
یہ شخص بھی اس کی تلاش میں حصہ لینے لگا اور یہ دعا کرتا تھا کہ خداوندا اس نیک گھرانے کو جس نے نقصان پہنچایا ہے تو اس کی گرفت فرما ! ؟
تلاش کرتے کرتے یہ زیور ایک سنار کے پاس ملا ! سنار نے کہا کہ میرے پاس ایک شخص لایا تھا اس کا حلیہ یہ تھا کہ ہاتھ کٹا ہوا تھا (یعنی یہی شخص نکلا جو خلیفۂ وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے یہاں ٹھہراہوا تھا اوران کے پاس حاکم یمن کی شکایت لے کر آیا تھا)جب سنار نے پورا حال بتلایا تو اس نے چوری کا اقرار کرلیا پھر اسے سزادی گئی ! ! حضرت صدیق اکبر فرماتے تھے کہ چوری سے زیادہ اس شخص کی بدعا میری طبیعت پر گراں گزرتی تھی '' ! ! !
اس واقعہ سے بھی یہ معلوم ہورہا ہے کہ اس کے دل میں خدا کا کوئی خیال نہ تھا گووہ رات کو عبادت بھی کرتا تھا ! کیونکہ اگر ذاتِ باری تعالیٰ کا یقین ہوتا تو ایسی بددعا نہ کرتا ! خلیفۂ وقت کے پاس ٹھہرنے کی وجہ سے اسے کوئی ایسی حاجت بھی نہ تھی جو جائز ہواور ناتمام رہے ! !
حق تعالیٰ خالق ہیں وہ جانتے ہیں کہ بیماری کس درجہ کی ہے اوراس کا صحیح علاج کیا ہے ؟ ؟
صحیح علاج عبرت ہے جو سزا یافتہ کو دیکھ کر ہوتی ہے ! ! جس کے دل میں چوری کے جذبات ہوتے ہیں وہ آنکھ نہیں میچتا بلکہ وہ اور زیادہ دیکھتا ہے اس لیے دیکھ کر عبرت حاصل کرتا ہے اور گناہ کے ارادہ سے باز آجاتا ہے قال اللّٰہ تعالٰی
( اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئً بِّمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْز حَکِیْم ) ١
''اورچوری کرنے والے مرد اورعورت کے ہاتھ کاٹ ڈالو ان کی کمائی کی سزا میں اللہ کی طرف سے تنبیہ ہے اوراللہ غالب ہے حکمتوں والا ہے''
٭ عزت ِنفس اور پاکدامنی کے طریقے سکھائے گئے ! ارشادہوا :
( قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ) ٢
''ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ ذرا اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اوراپنے ستر کو محفوظ رکھیں ''
( وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ ) ٣
''اورایمان والیوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اوراپنے ستر کو تھامے رکھیں ''
٭ زناکاری کی قباحت ظاہر کی گئی :
( وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہ کَانَ فَاحِشَةً وَّ سَآئَ سَبِیْلاً ) ٤
'' اور زنا کے پاس نہ جائو وہ بے حیائی ہے اور بری راہ ہے''
١ سُورة المائدة : ٣٨ ٢ سُورة النور : ٣٠ ٣ سُورة النور : ٣١ ٤ سُورة بنی اسرائیل : ٣٢
٭ کسی پاکدامن پر بدکاری کاالزام لگانا یا الزام پر مشتمل گالی دینا عظیم گناہ ہے
( اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَلَھُمْ عَذَاب عَظِیْم ۔ یَوْمَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ بِمَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ یَوْمَئِذٍ یُّوَفِّیْھِمُ اللّٰہُ دِیْنَھُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ ھُوَالْحَقُّ الْمُبِیْنُ ) ١
''جولوگ عیب (والزام ) لگاتے ہیں بے خبر ایمان والیوں پاکدامنوں پر، ان پر دنیا اورآخرت میں پھٹکارہے اوران کے لیے بڑا عذاب ہے جس دن کہ ظاہر کردیں گی ان کی زبانیں ہاتھ اورپائوں جو کچھ (بھی ) وہ کرتے تھے اس دن پوری دے گا اللہ ان کی سزا جو چاہیے ، اور جان لیں گے کہ اللہ ہی ہے سچا کھولنے والا''
دنیا میں ایسے مجرموں کو کس طرح رُسوا کیا جائے گا، خدا کی نظر میں وہ کیسے ہیں اور کیا سزا دی جائے گی، یہ سب باتیں ارشاد فرمائی گئیں :
( وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَةً اَ بَدًا وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ ) ٢
''اور جو لوگ پاک دامنوں پر عیب لگاتے ہیں پھر چار مرد شاہد نہ لائیں تواُن کو اسّی دُرّے مارو اوران کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی لوگ نافرمان ہیں ''
آپ نے غور فرمایا ہوتو کلام الٰہی میں خوفِ خدا اورتقویٰ پر ہر جگہ زور دیا گیا ہے کیونکہ ارتکابِ معاصی سے خلوت وجلوت میں یکساں طورپر اجتناب کرانے والی چیز صرف خوفِ خدا ہے وہ نہ ہو تو انسان تنہائی میں گناہ سے باز نہیں رہ سکتا ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی یاد اورتقویٰ کی نعمت نصیب فرمائے، معاصی سے اپنی پناہ میں رکھے اور توفیق ِمرضیات مر حمت فرمائے، آمین
آج انسان انسان کے حقوق نہیں پہچانتا ،بھائی بھائی کو اور اولاد ماں باپ کو اپنی نظرمیں کوئی اہمیت نہیں دیتی ! جس کا نتیجہ'' نظامِ عالم میں فساد'' ہوتاہے !
١ سُورة النور : ٢٤ ، ٤٥ ٢ سُورة النور : ٤
اسلام کی نظر میں ''حقوق العباد '' رشتہ داروں کو بھی شامل ہیں بلکہ والدین کا حق ربِّ حقیقی نے اپنے بعد فوراً بتلایا ہے اس کے بعد اور رحمی رشتوں کے حقوق آتے ہیں ! !
یہ زرّیں تعلیمات اگر ماں باپ اپنی اولاد کو ذہن نشین کرادیں توخود ان کی زندگی کتنی پرسکون ہو مگر شاید ایک فیصدی مسلمان ہی ان پیاری تعلیمات سے واقف ہوں ! ؟
حقوقِ والدین کے لیے ارشاد ربانی ہے :
( وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَا اَوْ کِلَا ھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ اُفِّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ) ١
''اور تمہارے رب نے حکم کردیا ہے کہ اس کے سواکسی کو نہ پوجو اورماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اگران میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ''ہوں ''(تک)نہ کہو اورنہ جھڑکو اور ان سے ادب کی بات کرو اور ان کے سامنے عاجزی ونیاز مندی کے ساتھ کندھے جھکائو اوریہ کہو کہ اے رب ان پر رحم فرما جیسا انہوں نے مجھے چھوٹا سا پالا''
( وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَفِصٰلُہ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ وَاِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْم فَلا تُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ) ٢
''اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے واسطے تاکید کردی،اس کی ماں نے تھک تھک کر اس کو پیٹ میں رکھا اوراس کا دودھ چھڑانا ہے دوبرس میں کہ میرا حق مان اوراپنے ماں باپ کا، آخر مجھ ہی تک آنا ہے اور اگروہ دونوں تجھ سے اس بات پر اڑیں کہ میرا شریک مان اس چیز کو جو تجھ کو معلوم نہیں توان کا کہنا مت مان اوردنیا میں دستور کے مطابق ان کا ساتھ دے اور اس کی راہ چل جو میری طرف رجوع ہوا''
١ سُورة بنی اسرائیل : ٢٣ ، ٢٤ ٢ سُورة لقمان : ١٤ ، ١٥
٭ رحمی قرابت داروں کے ساتھ حسن ِسلوک کی ان الفاظ سے تعلیم و تاکید فرمائی گئی :
( وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہ وَالاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ) ١
'' اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے واسطے سے آپس میں سوال کرتے ہو اور خبردار رہو قرابت والوں سے، یقین جانو اللہ تم پر نگہبان ہے''
٭ سب قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، پڑوسیوں ، ماتحتوں ، ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک
اور تکبر نہ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی :
( وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرًا ) ٢
''اللہ کی بندگی کرو، اس کا کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اورقرابت داروں کے ساتھ اور یتیموں ، فقیروں اورقرابت دار اوراجنبی پڑوسی اورساتھ بیٹھنے والے اورمسافر کے ساتھ اورمملوک وماتحت کے ساتھ حسن سلوک کرو اللہ تعالیٰ اِترانے والے اور بڑائی کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا''
اس آیت ِمبارکہ میں روزمرہ کی معیشت کے زریں اصول جمع فرمادئیے گئے ہیں ! یہ ممکن نہیں کہ کوئی ان اخلاقِ حمیدہ پر عمل پیرا ہو اوردنیا اس کی تعریف میں رطب اللسان نہ ہو !
اورجب خدا کا حکم جان کر ان پر عمل کرے گا تو عبادت کا ثواب بھی ملتا جائے گا اور خدا کا قرب حاصل ہوگا ''صاحب بالجنب'' میں برابر کے کمرے میں کام کرنے والا ساتھی افسر اور ساتھ میز پر بیٹھنے والا بھی داخل ہے اور کارخانہ میں ساتھ مزدوی کرنے والا(اور ہم جماعت) بھی ! !
حق تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے والا یقینا ان پر عمل کا جویا ہوگا ٣ ورنہ خدا کی ناراضگی اور عتاب دور نہیں جس کا پہلا ثمرہ نظام دنیا میں فساد اور بے چینی اور اُخری نتیجہ معاذ اللہ خدا کی ناراضگی ہوگا !
١ سُورة النساء : ١ ٢ سُورة النساء : ٣٦ ٣ طالب
( فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰی اَبْصَارَھُمْ ) ١
''پھر تم سے توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو ملک میں خرابی ڈالو اوراپنی قرابتیں قطع کرو یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی رحمت سے محروم کردیا پھر اُن کو بہرا کردیا اوراُن کی آنکھیں ا ندھی کردیں ''
الغرض خداوند کریم نے ایک مختصر اور جامع ہدایت فرمائی :
( وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْب مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ ) ٢
''مت خرابی ڈالو زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اوراس کو پکارو ڈر اور توقع سے یقینا اللہ کی رحمت نیک کام کرنے والوں سے نزدیک ہے''
صرف یہی نہیں کہ قرابت داروں کے حقوق بتلائے گئے ہوں بلکہ عام رہن سہن کے آداب بھی سکھائے گئے ، اخلاقِ فاضلہ اختیار کرنے کا حکم فرمایا گیا اور تکبر، خود پسندی اوربے رُخی جیسے اوصافِ ذمیمہ کی نشاندہی فرماکر ان کی بیخ کنی کی گئی ! ان ہدایات کو بغور دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ اگران پرعمل کیا جائے تو کیا واقعی دنیا میں جنت کے امن کا نمونہ پیدا ہوگاکہ نہیں ! ؟
( وَلَا تَمْشِ فِی الاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) ٣
'' اور زمین پر اِتراتا ہوا مت چل ، تو زمین کو پھاڑ نہ ڈالے گا اور نہ پہاڑوں تک لمبا ہو کر پہنچے گا''
( وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ۔ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ) ٤
''اور لوگوں کے سامنے اپنے کلّے مت پھیلا اورزمین پر اِترا کر مت چل، اللہ کو کوئی اِترانے والا اور بڑائیاں کرنے والا نہیں بھاتا ، درمیانی چال چل اوراپنی آواز نیچی رکھ''
١ سُورة محمد : ٢٢ ، ٢٣ ٢ سُورة الاعراف : ٥٦ ٣ سُورة بنی اسرائیل : ٣٧ ٤ سُورة لقمان : ١٨ ، ١٩
تکبر، بَخت واقبال کی وجہ سے ہویا جوشِ جوانی کے باعث بہر حال مذموم ہے اورخداوند ِکریم کی ناراضگی کا مستوجب ہے ! جو شخص ایسا کرتا ہے نہ وہ زمین کا نقصان کرتا ہے نہ پہا ڑوں کے برابر ہو سکتا ہے بلکہ وہ اخلاقِ حسنہ کا دامن چھوڑ دیتا ہے ! !
قرآنِ حکیم کی تعلیم سے ہمیں سلامت روی کی چال چلنے کا درس حاصل ہوتا ہے مگر
افسوس ہم چلے نہ سلامت روی کی چال
یا بے خودی کی چال چلے یا خودی کی چال
٭ قرآن حکیم نے آدابِ معاشرت بھی تعلیم فرمائے مثلاً کسی سے ملاقات کے لیے جائو تو ان باتوں کا خیال رکھو :
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰی اَھْلِھَا ذٰلِکُمْ خَیْر لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلا تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ ) ١
''اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا کسی کے گھر میں اس وقت تک مت جایا کرو جب تک اجازت نہ لے لو اوران گھروالوں کو سلام نہ کرلو،تمہارے حق میں یہ بہتر ہے تاکہ تم یاد رکھو ! پھر اگر گھر میں کسی کو نہ پائو تو اس میں نہ داخل ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ ملے اوراگر تم کو جواب ملے کہ واپس چلے جائو تو واپس چلے جایا کرو تمہارے لیے پاکیزگی اسی میں ہے''
انسان اگر زبان سے ذرابے احتیاطی کرے توزندگی وبال ہوجاتی ہے آپس میں سینکڑوں چھوٹی چھوٹی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ بڑھ کر فساد کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اس لیے ہدایت ہو ئی کہ زبان کو مقید رکھیں اور حسب ِذیل اصول پرزندگی گزاریں :
١ سُورة النور : ٢٧ ، ٢٨
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْقَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالاَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) ١
''اے ایمان والو ! ایک دوسرے کا تمسخرمت اُڑائو،کیا خبر وہ ان تمسخر کرنے والوں سے بہتر ہی ہوں ،اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کا شاید وہ ان سے بہتر ہوں ، اورایک دوسرے کو عیب نہ لگائو اور نہ کسی کی چِڑ ڈالو، ایمان کے بعد گناہ گاری والا نام برا ہے ،اور جو کوئی توبہ نہ کرے تو وہی ہیں بے انصاف ''
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْھُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّاب رَّحِیْم ) ٢
''اے ایمان والو ! بدگمانی سے بہت بچتے رہو، یقینا بعضی تہمت گناہ ہوتی ہے، اورکسی کا بھید نہ ٹٹولو، اورپس ِپشت ایک دوسرے کو برا نہ کہو ،کیا کوئی یہ پسند کرتاہے کہ اپنے بھائی کا جو مردہ ہو گوشت کھائے،تو تمہیں اس سے گھن آتا ہے اوراللہ سے ڈرتے رہو اللہ تعالیٰ یقینا معاف کرنے والا مہربان ہے''
انسان کو اپنی حقیقت سامنے رکھنی چاہیے ، جناب رسالتمآب صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے تم کسی سے بہتر نہیں ہو سوائے اس کے کہ تقویٰ کی وجہ سے فضیلت حاصل کرلو !
( یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْم خَبِیْر) ٣
''اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے آپس کی پہچان کے لیے رکھ دیں ، اللہ کے نزدیک تو یقینا وہی بڑا ہے جو زیادہ ادب والا ہو، اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے''
١ سُورة الحجرات : ١١ ٢ سُورة الحجرات : ١٢ ٣ سُورة الحجرات : ١٣
تمسخر کرنے سے لوگوں کی نظر میں وقار باقی نہیں رہتا اور اس سے قسم قسم کے نقصانات ہوتے ہیں کیونکہ جس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اس کی دل شکنی ہوتی ہے وہ بدلہ لینے کے لیے جواباً ہر طرح ذلیل کرنے کی کوشش کرتاہے ! اس بری عادت سے وہ انسان لوگوں کی نظر میں اتنا گرجاتا ہے کہ کوئی اچھی بات ہی
کیوں نہ کہے وہ مؤثر ثابت نہیں ہوتی لہٰذا ہر شخص کوچاہیے کہ اس بری عادت سے اجتناب کرے اور اللہ تعالیٰ نے جو اخلاقِ حمیدہ تعلیم فرمائے ہیں انہیں اختیار کرے !
آیت ِمبارکہ میں ایک دوسرے پر عیب لگانے اور کسی کی چڑ ڈالنے سے بھی منع فرمادیا کیونکہ ان حرکات سے فتنے ابھرتے ہیں اور ایسے شخص سے لوگ خود متنفر ہوجاتے ہیں اگر ان حرکات سے اجتناب نہ کیا جائے تو نفرت وعداوت کی خلیج روزبروز وسیع تر ہوتی جاتی ہے ، قلوب میں اس قدر بعد ہو جاتاہے کہ صلح و اختلاف کی کوئی امید باقی نہیں رہتی ، آیت ِمبارکہ میں خدا وند ِقدوس نے اس قسم کی باتوں سے منع فرمایا !
٭ مال اور جان سے کسی کے کام آنا کسی کسی وقت ہوتا ہے البتہ خوش کلامی کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے ! اس لیے اس سلسلہ میں بھی ارشاد ہوا :
( وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا ) ١ ''اور سب لوگوں سے اچھی طرح بات کیاکرو''
خدا کے پسندیدہ بندے کسی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے ....... بلکہ
( وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِمَرُّوْاکِرَامًا ) ( سُورة الفرقان : ٧٢ )
''اورجب کھیل مذاق کی باتوں سے گزرتے ہیں توبزرگانہ طورپر نکل جاتے ہیں ''
( وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ) ( سُورة الفرقان : ٦٣ )
''اور جب ان سے بے سمجھ لوگ بات کرنے (ہی) لگیں تووہ کہہ دیتے ہیں ''صاحب سلامت ''
( وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ
سَلٰم عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَ ) ( سُورة القصص : ٥٥ )
١ سُورة البقرة : ٨٣
''اورجب نکمی باتیں سنیں توان سے کنارہ کریں اورکہہ دیں ہمیں ہمارے کام اور تم کو تمہارے کام سلامت رہو ہم کو بے سمجھ لوگ نہیں چاہئیں ''
٭ یہ حقیقت ہے کہ اچھائی اوربرائی برابر نہیں ہوتے ! اس لیے برائی کے جواب میں برائی نہ کریں بلکہ بہتر اور اشرف انداز اختیار کرناچاہیے
( وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَاوَة کَاَنَّہ وَلِیّ حَمِیْم ) ( سُورة حٰم السجدة : ٣٤ )
''نیکی اور بدی برابر نہیں ! جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر بات ہو، ایک دم یہ ہوگا کہ جس سے تمہاری دشمنی ہوگی وہ گویا قرابت دار دوست بن جائے گا''
٭ تبلیغ ہر مسلمان کے لیے ہر موقع پر فرض ہے اس لیے جب کسی غیرمسلم سے تبلیغی گفتگو ہوتو نہایت
نفیس وپُر مغز گفتگو ہونی چاہیے
( اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ) ( سُورۂ النحل : ١٢٥ )
''اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور بہتر طرح نصیحت سناکر بلائو''
تبلیغ کے جواب میں اگر وہ سخت انداز اختیار کریں تو مسلمان کو اجازت نہیں کہ وہ اس کو جواب میں اسی طرح کی بدخوئی ،در شتی یا سب وشتم کا طریقہ اختیار کرے ! !
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک دن فرمایا وہ شخص برا ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دے ،کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسا کون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دے ؟ فرمایا کہ جو دوسروں کے ماں باپ کو گالی دیں گے تودوسرے(جواب میں ) اس کے ماں باپ کو گالی دیں گے ! ! تو گویا اس نے خود ہی اپنے ماں باپ کو گالی دی کیونکہ اس نے یہ خیال نہ کیا کہ بات کہاں تک پہنچے گی ! !
( وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِعِلْمٍ ) ١
١ سُورة الانعام : ١٠٨
''اورتم لوگ ان کو برا نہ کہو جن کی یہ خدا کے سوا پرستش کرتے ہیں کہ وہ بے ادبی سے بے سمجھے اللہ کو برا کہنے لگیں ''
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم کے ان ہی جامع اور کریمانہ اخلاق کی طرف قرآن حکیم نے نشاندہی فرمائی ہے
( وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ) ١ ''اورآپ پیدا ہوئے ہیں بڑے خُلق پر''
( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ) ٢
''تو اللہ ہی کی رحمت ہے کہ تم ان کے لیے نرم دل ہوگئے اور اگر تم ہوتے تند خو سخت دل توتمہارے پاس سے منتشر ہوگئے ہوتے''
جو رحمت ِخداوندی قلب ِاطہرمیں پوری مخلوق کے لیے اورخصوصاً اُمت ِمرحومہ کے لیے ودیعت فرمائی گئی تھی وہ قرآن حکیم میں ان کلمات سے ظاہر فرمائی گئی
( لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْز عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْص عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْف رَّحِیْم ) ٣
''تمہارے پاس تم ہی میں کا رسول آیا ،اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کے حر یص ہیں ، ایمان والوں پر نہایت شفیق و مہربان ہیں ''
تمہاری خیر خواہی اور نفع رسانی کی خاص تڑپ ان کے دل میں ہے ، لوگ دوزخ کی طرف بھاگتے ہیں ، آپ ان کی کمر یں پکڑ پکڑ کر ادھر سے ہٹاتے ہیں ! آپ کی بڑی کوشش اور آرزو یہ ہے کہ خدا کے بندے اصلی بھلائی اور حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوں ! ! کیونکہ ع
نبی ہمارا خدا کا پیار ا رئوف بھی ہے رحیم بھی ہے
جب آپ تمام جہان کے اس قدر خیرخواہ ہیں تو خاص ایمان داروں کے حال پر ظاہر ہے کس قدر شفیق و مہربان ہوں گے ! !
حضرات ! آئیے ہم سب حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی عظیم الشان شفقت ،خیر خواہی اوردل سوزی کی قدر کریں اور آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر دارین کی سعادتیں حاصل کریں ، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی
١ سُورة القلم : ٤ ٢ سُورة اٰلِ عمران : ١٥٩ ٣ سُورة التوبة : ١٢٩
ذاتِ پاک اور اس کے احکام بھلا دئیے اس کی یاد سے غفلت اور بے پروائی برتی، اللہ تعالیٰ نے خود ان کی جانوں سے ان کو غافل اوربے خبر کردیاکہ آنے والی آفات سے اپنے بچائوکی کچھ فکر نہ کریں اورنافرمانیوں میں غرق ہو کر دائمی خسارے اورابدی ہلاکت میں جاپڑیں ! ! !
عزیزانِ گرامی ! آج آنے والی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی علاج ہے اور امن ِعالم کے قیام کا یہی واحد ذریعہ ہے کہ ہم قرآنِ کریم کی ہدایات کے سامنے جھک جائیں ! !
یہ کیا قیامت ہے کہ ایک لمحہ اور دقیقہ کے لیے بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں گزرتا کہ سب سے پہلے اس کو تو اپنے سے راضی کرلیں کہ جس کے دروازے سے بھاگ کر ہم نے ذلت و نامرادی کی ٹھوکریں کھائیں جو ہمیں موت کی جگہ حیات، ذلت کی جگہ عزت اور زوال کی جگہ عروج عطا کرنے کو اب بھی تیار ہے ! یہ کتنا افسوس و حسرت کا مقام ہے کہ ہمارے دلوں پر قرآن کا اثر کچھ نہ ہو حالانکہ قرآن کی تاثیر اس قدر زبردست اور قوی ہے کہ اگر وہ پہاڑ جیسی سخت چیز پر اتارا جاتا اوراس میں سمجھ کا مادّہ موجود ہوتا تو وہ بھی متکلم کی عظمت کے سامنے خوف کی وجہ سے پھٹ کر پارہ پارہ ہو جاتا ! ! !
حضرات ! آئیے ہم سب مل کر تعلیماتِ قرآنی کو اپنائیں اور اس پر عمل پیرا ہوکر ثابت کردیں کہ آج کی دنیا جس امن ِعالم کی متلاشی ہے وہ قرآنِ حکیم فرقانِ عظیم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے ! ! !
یاد رکھو اس دورِ الحاد و زمانۂ قربِ قیامت میں اگر امن وسلامتی چاہتے ہو تو دنیا کے کونے کونے میں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لیے پیکرِ عمل بن کر تدبر سے تفکر سے اخلاق سے اخلاص سے ایثار سے کام لو اوردنیا کے درندہ صفت انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر کر ثابت کردوکہ امنِ عالم کا قیام صرف قرآنی تعلیمات میں مضمرہے !
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلاغْ




قسط : ١٨
تربیت ِ اولاد
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
بچوں کی تربیت کا طریقہ :
اللہ تعالیٰ جب کسی کو اولاد دے اور وہ سیانی ہونے لگے تو
٭ سب سے پہلے اس کو کلمہ توحید سکھلا دے پھر اس کو ضروری آداب سکھلائے !
٭ جب سامنے آئے سلام کرے ! ٭ جھوٹ بولنے سے اس کو نفرت دلائے !
٭ پردہ اور حیا کی اس کو تعلیم (تاکید) کرے ٭ لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک جگہ نہ کھیلنے دے !
اگر وہ نا محرم ہیں تو آئندہ کے مفاسد کی روک تھام ہے اور اگر وہ محرم ہیں تو لڑکیوں میں بے حیائی پیدا ہونے کا اور لڑکوں میں نقصانِ عقل کا احتمال ہے ! !
٭ خود بھی بچوں کے سامنے کوئی نا مناسب اور بے حیائی کا کام نہ کرے گو بچہ اتنا چھوٹا ہو کہ بدل بھی نہ سکتا ہو کیونکہ اس فعل کا عکس اس کے دماغ میں نقش ہو جاتا ہے پھر اس کا اثر بڑے ہو جانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے ! !
٭ ہنسی دل لگی کی عادت اس میں نہ پیدا ہونے دیں کیونکہ اس سے بے باکی پیدا ہوتی ہے ! !
٭ اس کا اہتمام رکھیں کہ سیانے بچوں میں دوستی نہ پیدا ہونے پائے کیونکہ اس سے مفاسد (اور خرابیاں ) شمار ہوں گی اور اگر ان کے باہم کھیلنے کی کوئی مصلحت ہو تو اس کھیل کے وقت خود حاضر رہیں بعد میں میل جول نہ ہونے دیں ! !
٭ اس کی عادت ڈالیے کہ وہ چھپ کر کوئی کام نہ کریں ، چھپ کر بچہ وہی کام کرے گا جس کو برا سمجھے گا تو گویا شروع سے ہی وہ برا کام کر نے کا عادی ہو جائے گا ! !
٭ اس کی بھی عادت ڈالیے کہ سخن پروری (خواہ مخواہ کی طرف داری) کبھی نہ کرے ! حق واضح ہوجانے کے بعد گو اپنے سے کم درجہ کا آدمی اس پر مطلع کرے لیکن فوراً اس کی بات مانے اور ہر بات میں اس کو تواضع و خاکساری کی عادت ڈالیے ! !
٭ اس کو یہ عادت ڈالے کہ اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا اقرار کرے ! اور اگر وہ غلطی متعدی ہو (یعنی کسی دوسرے سے اس کا تعلق ہو) تو صاحب ِحق سے معاف کروایا جائے اس کی عادت ڈالنا بہت ضروری ہے اور اس میں پیچھے ہٹنا تکبر اور ہمیشہ کے لیے ذلت و نفرت کا سبب بنتا ہے !
بچوں کی پرورش کرنے اور اچھی عادات سکھلانے مہذب بنانے کا دستورُ العمل :
بہشتی زیور کے چوتھے حصہ میں اولاد کی پرورش کا طریقہ کے ذیل میں کچھ ضروری دستور العمل ہے۔ دیکھنے سے اس مقام کا بعینہ نقل کر دینا مناسب معلوم ہوا۔ گو اس میں گزشتہ باتوں کا تکرار بھی ہے مگر ان کی اہمیت کے پیش ِنظر تکرار کو گوارہ کر کے اس میں قصور گوارہ نہیں کیا گیا ! اور وہ یہ ہے کہ جاننا چاہیے کہ یہ امر بہت ہی خیال رکھنے کے قابل ہے کیونکہ بچپن میں جو عادت بھلی یا بری پختہ ہو جاتی ہے وہ عمر بھر نہیں جاتی ، اس لیے بچپن سے جوان ہونے تک ان باتوں کا ترتیب وار ذکر کیا جاتا ہے :
٭ نیک بخت دیندار عورت کا دودھ پلائیں ، دودھ کا بڑا اثر ہوتا ہے !
٭ اس کے دودھ پلانے کے لیے اور کھلانے کے لیے وقت مقرر رکھو تاکہ وہ تندرست رہے !
٭ عورتوں کی عادت ہے کہ بچوں کو کہیں سپاہی سے ڈراتی ہیں کہیں اور ڈرائونی چیزوں سے، یہ بری
بات ہے اس سے بچہ کا دل بے حد کمزور ہو جاتا ہے !
٭ اس کو صاف ستھرا رکھو کیونکہ اس سے تندرستی رہتی ہے !
٭ اس کا بہت زیادہ سنگار نہ کرو !
٭ اگر لڑکا ہو تو اس کے سر پر بال مت بڑھائو !
٭ اگر لڑکی ہے تو اس کو جب تک پردہ میں بیٹھنے کے لائق نہ ہو جائے زیور نہ پہنائو ! اس سے ایک تو ان کی جان کا خطر ہ ہے دوسرے بچپن ہی سے زیور کا شوق دل میں پیدا ہونا اچھا نہیں !
٭ بچوں کے ہاتھ سے غریبوں کو کھانا کپڑا اور ایسی چیزیں دلوایا کرو ! اسی طرح کھانے کی چیزیں ان کے بھائی بہنوں کو یا اور بچوں کو تقسیم کرایا کرو تاکہ ان کو سخاوت کی عادت ہو مگر یہ یاد رکھو کہ تم اپنی چیزیں ان کے ہاتھ سے دلوایا کرو خود جو چیز ان ہی کی ہو (یعنی جس کے وہ مالک ہوں ) اس کا دلوانا کسی کو درست نہیں !
٭ زیادہ کھانے والوں کی برائی اس کے سامنے کیا کرو مگر کسی کا نام لے کر نہیں بلکہ اس طرح کہ
جو کوئی بہت زیادہ کھاتا ہے لوگ اس کو حبشی کہتے ہیں اس کو بیل سمجھتے ہیں !
٭ اگر لڑکا ہو تو سفید کپڑے کی رغبت اس کے دل میں پیدا کرو اور رنگین اور تکلف کے لباس سے اس کو
نفرت دلائو کہ ایسے کپڑے لڑکیاں پہنتی ہیں تم ماشاء اللہ مرد ہو، ہمیشہ اس کے سامنے ایسی باتیں کیا کرو !
٭ اگر لڑکی ہو تو جب بھی زیادہ مانگ چوٹی اور بہت تکلف کے کپڑوں کی عادت اس کو مت ڈالو !
٭ اس کی سب ضدیں پوری مت کرو کیونکہ اس سے مزاج بگڑ جاتا ہے !
٭ چِلّا کر بولنے سے روکو خاص کر اگر لڑکی ہو تو چِلّانے پر خوب ڈانٹو ورنہ بڑی ہو کر وہی عادت
ہوجائے گی !
٭ جن بچوں کی عادتیں خراب ہیں یا پڑھنے لکھنے سے بھاگتے ہیں یا تکلف کے کپڑے یا کھانے کے عادی ہیں ان کے پاس بیٹھنے سے اور ان کے پاس کھیلنے سے ان کو بچائو !
٭ ان باتوں سے ان کو نفرت دلاتی رہو : غصہ، جھوٹ بولنا، کسی کو دیکھ کر جلنا یا حرص کرنا، چوری کرنا، چغلی کھانا، اپنی بات کو پخ کرنا (منوانا) ،خواہ مخواہ اس کو بنانا، بے فائدہ باتیں کرنا، بے بات ہنسنا یا زیادہ ہنسنا ،دھو کہ دینا، بھلی بات کو نہ سوچنا ! اور جب ان باتوں میں سے کوئی بات ہو جائے تو فوراً اس پر تنبیہہ کرو !
٭ اگر کوئی چیز توڑ پھوڑ دے یا کسی کو مار بیٹھے تو مناسب سزا دو تاکہ پھر ایسا نہ کرے، ایسی باتوں میں
لاڈ پیار بچوں کو کھو دیتا ہے !
٭ بہت جلدی سونے مت دو ! جلدی جاگنے کی عادت ڈالو !
٭ جب سات برس کی عمر ہو جائے تو نماز کی عادت ڈالو !
٭ جب مکتب میں جانے کے قابل ہو جائے توپہلے قرآن پڑھوائو !
٭ مکتب میں جانے میں کبھی رعایت نہ کرو ! جہاں تک ہو سکے دیندار استاد سے پڑھوائو !
٭ کسی کسی دن ان کو نیک لوگوں کی حکایتیں (قصے) سنایا کرو !
٭ ان کو ایسی کتابیں مت دو جن میں عاشق معشوقی کی باتیں یا شریعت کے خلاف مضمون یا اور بیہودہ
قصہ یا غزلیں وغیرہ ہوں !
٭ ایسی کتابیں پڑھوائو جس میں دین کی باتیں اور دنیا کی ضروری کارروائی آ جائے !
٭ مکتب سے آنے کے بعد کسی قدر دل بہلانے کے لیے اس کو کھیلنے کی اجازت دو تاکہ اس کی طبیعت
اُکتا نہ جائے لیکن کھیل ایسا ہو جس میں گناہ نہ ہو جھوٹ بولنے کااندیشہ نہ ہو !
٭ آتش بازی یا باجہ فضول چیزیں مول لینے کے لیے پیسے مت دو !
٭ کھیل تماشہ دکھلانے کی عادت مت ڈالو !
٭ اولاد کو ضرور کوئی ایسا ہنرسکھلا دو جس سے ضرورت اور مصیبت کے وقت چار پیسہ حاصل کرکے
اپنا اور اپنے بچوں کا گزارہ کر سکے !
٭ لڑکیوں کو اتنا لکھنا سکھلا دو کہ ضروری خط اور گھر کا حساب کتاب لکھ سکیں !
٭ بچوں کو عادت ڈالو کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کیا کریں ۔ اپاہج اور سست نہ ہو جائیں ! ان سے کہو کہ رات کو بچھونا اپنے ہاتھ سے بچھائیں ، صبح کو جلدی اُٹھ کر تہہ کر کے احتیاط سے رکھ دیں ! کپڑوں کی گٹھری اپنے انتظام میں رکھیں ، پھٹا ہوا خود سی لیا کریں ، کپڑے خواہ میلے ہوں یا صاف ایسی جگہ رکھیں جہاں کیڑے چوہے کا اندیشہ نہ ہو ! دھوبن کو خود گن کر دیں اور لکھ لیں اور گن کر لیں !
٭ لڑکیوں کو تاکید کرو کہ جو زیور تمہارے بدن پر ہے رات کو سونے سے پہلے اور صبح جب اٹھو
دیکھ بھال لیا کرو !
٭ لڑکیوں سے کہو کہ جو کام کھانے پکانے، سینے پرونے، کپڑے رنگنے، کوئی چیز بننے کا گھر میں ہوا کرے
اس کو غور سے دیکھا کرو کہ کیسے ہو رہا ہے !
٭ جب بچے سے کوئی بات خوبی کی ظاہر ہو اس پر خوب شاباشی دو پیار کرو بلکہ اس کو کچھ انعام دو تاکہ اس کا دل بڑھے ! اور جب اس کی بری بات دیکھو تو تنہائی میں اس کو سمجھائو کہ دیکھو بری بات ہے دیکھنے والے دل میں کیا کہتے ہوں گے اور جس جس کو معلوم ہو گا وہ کیا کہے گا ! خبر دار پھر آئندہ مت کرنا ، اچھے لڑکے ایسا نہیں کیا کرتے ! اور اگر وہی کام پھر کرے تو مناسب سزا دو !
٭ ماں کو چاہیے کہ بچہ کو باپ سے ڈراتی رہے !
٭ بچہ کو کوئی کام چھپا کر مت کرنے دو ! کھیل ہو یا کھانا یا اور کوئی کام ہو ،جو کام چھپا کر کرے گا سمجھ جائو کہ وہ اس کو برا سمجھتا ہے سو اگر وہ برا ہے تو اس کو چھڑائو اور اگر اچھا ہے جیسے کھانا پینا تو اس سے کہو کہ سب کے سامنے کھائے پیئے !
٭ کوئی کام محنت کا اس کے ذمہ مقرر کرو جس سے صحت اور ہمت رہے ،سستی نہ آنے پائے !
مثلاً لڑکوں کے لیے ڈنڈ کرنا، ہلکی ورزش کرنا، ایک آدھ میل چلنا (یا دوڑنا) اور لڑکیوں کے لیے
چکی یا چرخہ چلانا ضروری ہے !
( باقی صفحہ ٦٢ )




قسط : ٢٧
رحمن کے خاص بندے
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
قتل ِ ناحق سے اجتناب
٭٭٭
قتل ِ ناحق، سنگین جرم :
''عباد الرحمٰن'' کی صفات میں ایک اہم صفت یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو ناحق قتل کرنے سے پوری طرح اجتناب کرتے ہیں چنانچہ فرمایا گیا :
( وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ) ( سُورة الفرقان : ٦٨ )
یعنی رحمن کے خاص بندے وہ ہیں جو کسی بھی جان کو جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے اسے حق کے بغیر قتل نہیں کرتے ہیں ''
واضح ہو کہ اسلام کی نظر میں کسی انسان کا ناحق قتل انتہائی سنگین جرم ہے قرآنِ پاک میں ایک بے قصور شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے درجہ میں قرار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشادِ خدا وندی ہے
( مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اَنَّہ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الاَرْضِ فَکَاَ نَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا) ١
''اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ بات لکھ دی تھی کہ جو کوئی جان کے عوض کے بغیر کسی جان کو قتل کرے یا بغیر فساد کے (قتل کرے) تو اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا تو گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ رکھا''
نیز سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا :
( وَلَا تَقْتُلُ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہ کَانَ مَنْصُوْرًا ) ( سُورة بنی اسرائیل : ٣٣ )
١ سُورة المائدة : ٣٢
''اور جس شخص کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو، اور جو شخص ظلما ًقتل کردیا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل سے قصاص لینے کا) اختیار دیا ہے، تو اس کو بھی چاہیے کہ قتل کرنے میں زیادتی نہ کرے ، اور بلا شبہ اس کی (منجانب شریعت قصاص کا اختیار دے کر) مدد کی گئی ہے''
واقعہ یہ ہے کہ اگر دنیا میں بلا وجہ قتل وقتال کا سلسلہ جاری ہو تو کسی شخص کی بھی جان محفوظ نہیں رہتی اور خوف ودہشت کی وجہ سے زندگی کا سکون کافور ہوجاتا ، پس امن وامان کی بقا کے لیے خون ریزی سے بچنا نا گزیر ہے ، اسی لیے احادیث ِشریفہ میں قتل ِناحق کو ''اکبرُ الکبائر'' (سب سے بڑے) گناہوں میں شامل کیا گیا ہے ! !
خادم رسول سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اَکْبَرُالْکَبَائِرِ : اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ ، وَقَوْلُ الزُّوْرِ، اَوْ قَالَ : شَھَادَةُ الزُّوْرِ ( صحیح البخاری ج ٢ ص١١٥ رقم الحدیث : ٦٨٧١ )
''سب سے بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی شریک ٹھہرانا ، کسی انسان کو ناحق قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات یا جھوٹی گواہی دینا''
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لَنْ یَّزَالَ الْمُؤْمِنُ فِیْ فُسْحَةٍ مِنْ دِیْنِہ مَالَمْ یُصِبْ دَمًا حَرَامًا ۔ ١
''ایمان والا شخص برابر اپنے دین کے بارے میں وسعت وسہولت میں رہتا ہے جب تک کہ خونِ حرام میں مبتلا نہ ہو''
سیّدنا حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اَبْغَضُ النَّاسِ اِلَی اللّٰہِ ثَلَاثَة : مُلْحِد فِی الْحَرَمِ ، وَمُبْتَغٍٍ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاھِلِیَّةِ ، وَمُطَّلِبُ دَمَ امْرِیٍ بِغَیْرِ حَقِّ لِیُھْرِیْقَ دَمَہ ۔ ٢
١ صحیح البخاری ج ٢ ص١٠١٤ رقم الحدیث ٦٨٦٢
٢ صحیح البخاری کتاب الدیات/ باب من طلب دم امری بغیر حق ج ٢ ص١٠١٦ رقم الحدیث ٦٨٨٢
''اللہ کے نزدیک تین آدمی سب سے زیادہ مبغوض ہیں (١) حدودِ حرم میں بد دینی پھیلا نے والا (٢) اسلام میں جاہلیت کی باتیں جاری کرنے والا (٣) خون ریزی کے لیے کسی کے ناحق قتل کا مطالبہ کرنے والا''
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ نقل فرمایا ہے
اِنَّ وَرَطَاتِ الاُمُوْرِ اَلَّتِیْ لَا مَخْرَجَ لِمَنْ اَوْقَعَ نَفْسَہ فِیْھَا ، سَفْکُ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَیْرِ حِلِّہ ( صحیح البخاری ج ٢ ص١٠١٤ رقم الحدیث ٦٨٦٢ )
''یقینا وہ ہلاکت خیز معاملات جن میں مبتلا ہونے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہتا، ان میں شرعی اجازت کے بغیر محترم خون کا بہانا بھی ہے''
ان احادیث سے قتل ِناحق کی برائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے !
دنیا میں سب سے پہلے قتل کرنے والے پر گناہوں کا بوجھ :
قرآنِ پاک میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا ذکر ہے کہ نکاح کے معاملہ میں حسد کی بنیاد پر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تھا جو دنیا میں سب سے پہلا قتل کا واقعہ تھا اس جرمِ عظیم کی پاداش میں قیامت تک جتنے بھی ناحق قتل ہوں گے اس کے وبال میں قابیل بھی شریک ہوگا چنانچہ بخاری ومسلم میں سیّدنا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
لَا تُقْتَلُ نَفْس ظُلْمًا اِلَّا کَانَ عَلٰی ابْنِ آدَمَ الْاَوَّلِ کِفْل مِنْ دَمِھَا لِاَنَّہ اَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ ١
'' دنیا میں جب کہیں کسی کا ظلماً قتل ہوتا ہے تو اس کا وبال حضرت آدم علیہ الصلٰوة والسلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر بھی ہوتا ہے ! کیونکہ اس نے دنیا میں سب سے پہلے قتل کا ارتکاب کیا''
١ صحیح البخاری ج ٢ ص١٠١٤ رقم الحدیث ٦٨٦٧ ، صحیح مسلم ج ٢ ص ٦ رقم الحدیث ١٦٧٧
اور بعض تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ برزخ میں قابیل کے لیے یہ سزا مقرر کی گئی ہے کہ پنڈلی کو ران کے ساتھ جوڑ کر اسے الٹا لٹکایا گیا اور اس کا چہرہ سورج کی طرف رہتا ہے جیسے جیسے سورج چلتا ہے اس کا چہرہ بھی گھمایا جاتا رہتا ہے (تاکہ اس کی تپش اسے مسلسل محسوس ہوتی رہے) ١
اوّلین قاتل کے لیے سنگین سزا کی وجہ یہ ہے کہ ناحق خون کا اثر صرف مقتول تک نہیں رہتا بلکہ اگلی نسلوں تک اس کے مضر اثرات منتقل ہوتے ہیں ! اور جب جس کو موقع ملتا ہے وہ خون کا بدلہ لے لیتا ہے، کتنے ہی خاندان سلسلہ در سلسلہ خونریزیوں کی نذر ہوکر فنا ہوگئے اور قصہ ٔ پارینہ بن چکے ہیں
مومن کو قتل کرنے کا گناہ :
ویسے تو ہر بے قصور انسان کا قتل گناہ ِ عظیم ہے لیکن خاص طور پر صاحب ِ ایمان کا قتل زیادہ بڑا گناہ ہے
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
( وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّ لَہ عَذَابًا عَظِیْمًا ) ( سُورة النساء : ٩٣ )
''جس نے جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کیا اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کیا ہے''
اس آیت میں کئی وعیدیں ایک ساتھ ذکر کی گئی ہیں
(١) جہنم کی آگ (٢) پھر اس میں لمبی مدت تک رہنا
(٣) پھر اللہ کا غضب ہونا (٤) پھر اللہ کی پھٹکار ہونا
(٥) اور عذاب ِ عظیم کا تیار کیا جانا
واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے اگر ایک وعید بھی ہوتی تو ڈر نے کے لیے کافی تھی، مگر یہاں اللہ تعالیٰ کے غضب کو ایسا جوش آیا کہ پانچ وعیدیں ایک جگہ پر جمع کردی گئی ہیں اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُ
١ ذکر مجاہد و ابن جبیر ، تفسیر ابن کثیر مکمل ص٤١٧ طبع دارالسلام ریاض
نیز حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْق ، وَقِتَالُہ کُفْر ( صحیح البخاری ج ١ ص ١٢ )
''مسلمان کو برا بھلا کہنا کفر ہے اور اس کو قتل کرنا کفریہ عمل ہے''
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَقَتْلُ مُؤْمِنٍ اَعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْیَا۔ ١
''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مومن کا قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے فنا ہوجانے سے بھی بڑھ کر ہے''
اور مسند احمد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے پیغمبر علیہ السلام کا یہ ارشاد منقول ہے :
کُلُّ ذَنْبٍ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّغْفِرَہُ اِلاَّ الرَّجُلُ یَمُوْتُ کَافِرًا ، اَوِالرَّجُلُ یَقْتُلُ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا ۔ ٢
''ہرگناہ کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیں گے سوائے اس شخص کے جو کفر کی حالت میں مرے یا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے''
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لَوْ اَنَّ اَھْلَ سَمَاوَاتِہ وَاَھْلَ اَرْضِہ اِشْتَرَکُوْا فِیْ دَمِ مُؤْمِنٍ لاَدْخَلَھُمُ النَّارَ ۔ ٣
''اگر آسمان اور زمین میں سب رہنے والے کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ (اس جرم کی سزا میں ) ان سب کو جہنم میں داخل فرمادیں گے''
اور ایک ضعیف روایت میں ہے کہ
١ سُنن النسائی ج٢ ص١٦٢ رقم الحدیث : ٣٩٩٢ ، سُنن الترمذی ج ١ ص٢٥٩
٢ مُسند احمد ١٦٩٠٧ ، نسائی ج ٢ ص ١٦٢ رقم الحدیث ٣٩٩٠ ومثلہ فی سُنن ابن داود ج ٢ ص٥٨٢
٣ الزواجر عن البیھقی ص ١٥٠ ، کذا فی سُنن الترمذی رقم الحدیث ١٣٩٨ ، الترغیب و الترھیب رقم الحدیث ٣٧١٣
''اگر کسی شخص نے ایک آدھ کلمہ کے ذریعہ بھی کسی قاتل کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ کے دربار میں وہ اس حال میں پہنچے گا کہ اس کی پیشانی پر یہ لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحم سے مایوس ہے '' ( سُنن ابن ماجة رقم الحدیث ٢٦٢٠ ، الزواجرص ١٥١)
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔ ١
''میرے (دنیا سے پردہ فرمانے کے) بعد کافر (کافروں جیسے کام کرنے والے) مت بن جانا کہ تم میں سے بعض لوگ دوسروں کی گردنیں اڑاتے پھریں ''
اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاغْتَبَطَ بِقَتْلِہ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا۔ ٢
''جو شخص کسی مسلمان کو قتل کرکے خوش ہو تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی نفل یا فرض کوئی بھی عبادت قبول نہ فرمائیں گے''
علامہ غسانی نے فرمایا کہ ''اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فتنہ کے زمانہ میں جو شخص اپنے کو حق پر سمجھتے ہوئے دوسرے کو ناحق قتل کرے تو ایسا شخص اپنے فعلِ بد پر مطمئن رہتا ہے اور اسے توبہ کی توفیق نہیں ہوتی'' ٣
اور سیّدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مُسْلِمٍ یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ الِاَّ بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ ، اَلنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّیِّبُ الزَّانِیْ ، وَالْمُفَارِقُ لِدِیْنِہِ التَّارِکُ لِلْجَمَاعَةِ۔ ٤
''جو مسلمان شخص اللہ کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواہی دیتا ہو اس کا خون صرف تین میں سے ایک بات پائے جانے پر ہی حلال ہوسکتا ہے (١) جان کا بدلہ جان
١ صحیح البخاری ج ٢ ص ١٠١٤ رقم الحدیث ٦٨٦٨ ، صحیح مسلم ج ١ ص ٥٨
٢ جامعہ المھلکات ٨١ ، سُنن ابی داود ج١ ص ٥٨٧ رقم الحدیث ٤٢٧١ ٣ الزواجر ص ١٥٢
٤ صحیح البخاری ج ٢ ص١٠١٦ رقم الحدیث ٦٨٧٨ ، صحیح مسلم ج ٢ ص٦٠ رقم الحدیث ١٦٧٦ ، سُنن الترمذی ج١ ص٢٥٩ رقم الحدیث ٤٧٣٠ ، سُنن النسائی ج ٢ ص ٢٣٧
یعنی قصاص (٢) شادی شدہ زنا کار (جس کے جرم کا شرعاً ثبوت ہوجائے) (٣) اور دین اسلام سے مرتد ہونے اور ملت ِ اسلامیہ سے الگ ہوجانے والا''
سیّدنا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امیر المومنین سیّدنا حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ باغیوں کے محاصرہ کی وجہ سے اپنے گھر میں محصور تھے اور باغیوں کی طرف سے انہیں قتل کی دھمکیاں دی جارہی تھیں تو ایک روز آپ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :
''آخر کس بنیاد پر تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے خود نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم سے سنا ہے کہ تین وجوہات کے علاوہ کسی بھی سبب سے کسی مسلمان کاقتل حلال نہیں ہے :
(١) شادی شدہ آزاد زِنا کار جس پر ثبوت کے بعد سنگساری کی سزا جاری ہوگی !
(٢) کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والا کہ اس سے قصاص لیا جائے گا !
(٣) وہ مرتد شخص جو اسلام لانے کے بعد اسلام چھوڑدے !
پس میں نہ تو اسلام کی حالت میں بدکاری کا مرتکب ہوا، نہ ہی اسلام سے قبل جاہلیت کے زمانہ میں یہ برائی کی، اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا کہ اس کا قصاص مجھ سے لیا جائے، اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد مرتد ہوا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ عليہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں '' ١
درج بالا احادیث میں جن تین لوگوں کے خون حلال ہونے کا ذکر ہے اس کے بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا تعلق حدود وقصاص سے ہے جس کو جاری کرنے کا اختیار کسی فرد کو نہیں ہوتا بلکہ اسلامی حکومت کو ہوتا ہے پس اسلامی حکومت اگر ثبوت اور شرائط پائے جانے کے بعد سزا جاری کرے تو یہ عمل دیگر لوگوں کے لیے عبرت کا سبب بن کرمعاشرہ میں امن وامان اور جان ومال کے تحفظ کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن اگر حکومت کے بجائے افراد کو سزا جاری کرنے یا بدلہ لینے کا اختیار دیا جائے گا تو خون ریزی ختم نہیں ہوگی بلکہ اور بڑھ جائے گی
(جاری ہے)
٭٭٭
١ مُسند احمد / بتحقیق احمد شاکر ج١ ص٣٥٨ رقم الحدیث ٤٥٢ طبع دارالحدیث القاہرہ




قسط : ٢
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب
( حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رحمة اللہ علیہ )
٭٭٭
مبحث دوم
٭٭٭
زندوں کے اعمالِ خیر سے مُردوں کا انتفاع :
دعا واستغفار کے علاوہ زندوں کے جن اعمال سے مردوں کا متنفع ہونا دلائلِ شرعیہ سے معلوم ہوتا ہے ان کو ابتداً ان دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
(١) ایک وہ اعمال جن کا سبب کسی حیثیت سے یہ مردے بنے ہوں !
(٢) دوسرے وہ اعمال جن کی حیثیت یہ نہ ہو !
اس مبحث ِدوم میں صرف پہلی قسم کے اعمال کے متعلق چند احادیث ملاحظہ ہوں :
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہ اِلاَّ مِنْ ثَلٰثَةٍ اِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ اَوْعِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْلَہ ۔ ( صحیح مسلم ج ٢ ص ٤١ )
''آدمی جب مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کے سارے سلسلے منقطع ہوجاتے ہیں بجز ان تینوں سلسلوں کے، ایک وہ صدقہ جاریہ جو اپنی حیات میں وہ کر گیا، دوسرے علم کا کوئی ایسا سلسلہ جس سے لوگوں کو فیض پہنچتا رہا ہے اور تیسرے اولاد صالح جو اس کے لیے دعا ئے خیر کرتی رہے''
یعنی یہ تین سلسلے یا ان میں سے ایک دو بھی اگر مرنے کے بعد کوئی خوش نصیب چھوڑ گیا ہے تو ان سے اس کو برابر ثواب اور نفع پہنچتا رہے گا مثلاً ایک شخص نے کسی کو دین سکھایا اس کے بعد یہ سکھانے والا مرگیا پھر اس کے اس شاگرد نے بہت سے لوگوں کو دین سکھایا اور علیٰ ہذا اس کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو سینکڑوں ہزاروں برس گزر جانے کے بعد بھی یہ علمی فیض اگر جاری رہے گا تو اس معلمِ اوّل کو اس کے ثواب کا حصہ ملتا رہے گا حالانکہ بعد میں اس تعلیم وتعلّم کا سلسلہ جاری رکھنا ظاہر ہے کہ اس پہلے شخص کا ذاتی عمل نہ ہوگا لیکن اس سلسلۂ خیر میں چونکہ یہ ایک واسطہ بناتھا اس لیے اس سلسلہ کا ثواب اس کو برابر ملتا رہے گا ! یہی حال صدقہ جاریہ کا بھی ہے
اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے ایک دوسری حدیث اس طرح مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِہ وَحَسَنَاتِہ بَعْدَ مَوْتِہ عِلْمًا عَلَّمَہ وَنَشَرَہ وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَہ وَمُصْحَفًا وَّرِثَہ وَمَسْجِدًا بَنَاہُ اَوْ بَیْتًا لِاِبْنِ السَّبِیْلِ بَنَاہُ اَوْنَھْرًا اَجْرَاہُ اَوْ صَدَقَةً اَخْرَجَھَا عَنْ مَّالِہ فِیْ صِحَّتِہ وَحَیَاتِہ یَلْحَقُہ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہ۔ ١
''مومن کو اس کے جن اعمالِ حسنہ کا ثواب اور نفع مرنے کے بعد بھی پہنچتا ہے وہ یہ ہیں : وہ علم دین جس کو وہ سکھا گیا اور پھیلا گیا ، اور وہ نیک اولاد جس کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا یا قرآنِ مجید کا نسخہ جو اس نے اپنی میراث میں چھوڑا یا مسجد یا مسافر خانہ یا نہر (تالاب ، کنواں ) جو خلقِ خدا کی نفع رسانی کے لیے اپنی زندگی میں وہ بنوا گیا یا کوئی اور صدقہ جو اس نے اپنی حیات اور صحت کی حالت میں نکالا تھا (اور خلقِ خدا کو بعد میں بھی اس سے نفع پہنچتا رہا) تو اس کا ثواب مرنے کے بعد بھی اس کو پہنچتا رہے گا ''
اور صحیح مسلم میں جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَن عَمِلَ بِھَا مَنْ بَعْدَہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُّنْقَصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ مِنْ شَیْئٍ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مَنْ بَعْدَہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُّنْقَصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْئ ۔ ٢
١ ابن ماجة ص ٢٢ ٢ مسلم ج٢ ص ٣٤١
''جس نے اسلام میں نیکی کا کوئی طریقہ کھولا اور خیر کے کسی باب کا افتتاح کیا تو اس کو اپنی اس نیکی کا ثواب بھی ملے گا اور اس کے بعد جو اور لوگ اس پر عمل کریں گے ان کے عمل کا بھی اجروثواب اس کو ملے گا، بغیر اس کے کہ ان عاملین کے ثواب میں سے کچھ کمی کی جائے ! اور علیٰ ہذا اسلام میں جس نے کسی بدی کا راستہ کھولا تو اس کو اپنی اس بدی کی سزادی جائے گی اور اس کے بعد جتنے لوگ بھی اس برائی کو اختیار کریں گے ان سب کے گناہوں کا بوجھ بھی اس پر ڈالا جائے گا بغیر اس کے کہ ان کے اپنے بوجھوں میں کوئی کمی کی جائے''
اہل علم کو معلوم ہوگا کہ جریر بن عبداللہ کی اس روایت کے علاوہ بھی اس مضمون کی متعدد احادیث کتب ِصحاح میں مروی ہیں بلکہ یہ دعویٰ بھی ان شاء اللہ غلط نہ ہوگا کہ احادیث میں یہ مضمون ''حد شہرت'' کو پہنچا ہوا ہے لیکن چونکہ منکرین ِوصولِ ثواب اس نوع کے عموماً قائل ہی نہیں اس لیے اس بحث کو طول دینا مناسب نہ ہوگا۔ اس باب کا اتنا ذکر بھی صرف مسئلہ کے استیعاب اور اطراف وجوانب کے احاطہ کے لیے کردیا گیا ہے !
مبحث سوم
٭٭٭
زندوں کے جن ایسے اعمال سے مُردوں کو نفع یا ثواب پہنچنا نصوصِ شرعیہ سے معلوم ہوا ہے جن کی فعلیت کا کسی حیثیت سے بھی وہ مردے سبب اور ذریعہ نہ بنے ہوں ، ان میں سے ایک تو وہ دعا واستغفار ہی ہے جس کا ذکر مبحث ِاوّل میں کیا جاچکا ہے اور علاوہ ان آیات واحادیث کے جن کی طرف وہاں اشارات کیے جاچکے ہیں ۔ اس کی ایک واضح ترین اور فعلی دلیل صحیحین کی وہ حدیث بھی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا جن کے متعلق آپ کو منکشف ہوا کہ ان کے مدفون مُردوں پر عذاب ہورہا ہے ! ١
١ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت ہے کہ آپ نے ان مبتلائے عذاب مُردوں کی آواز سنی !
آپ نے کھجور کی ایک ترشاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے ہر ایک کی قبر میں ایک ایک گاڑھ دیا اور جب بعض رفقاء نے آپ سے پوچھا کہ یہ آپ نے کس لیے کیا تو فرمایا :
لَعَلَّہ یُخَفَّفُ عَنْھُمَا مَالَمْ یَیْبَسَا (بخاری ومسلم عن ابن عباس)
''امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی''
اور صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے ان مُعَذَّبِیْن کے لیے تخفیف ِعذاب کی دعا فرمائی تھی جو اس طور پر قبول کی گئی کہ تم ایک ترشاخ کو ان قبروں پر نصب کردو جب تک وہ تر رہے گی ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی۔ واللّٰہ اعلم
بہرحال صحیحین کی اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ زندوں کی دعا واستغفار ان کے کسی عمل سے مردوں کو نفع پہنچنے کا تجربہ اس عالم میں بھی خود رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے ہاتھ سے ہوچکا ہے !
حضرت عبداللہ بن عباس کی اس حدیث کے علاوہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی صحیح مسلم میں قریباً اسی مضمون کی ایک حدیث مروی ہے جس کے متعلق بعض خاص قرائن کی بنیاد پر حافظ ابن حجر کی رائے یہ ہے کہ وہ اس کے علاوہ اسی قسم کا دوسرا ایک واقعہ ہے ! ١
دعا واستغفار کے علاوہ زندوں کے جن ایسے اعمال وافعال سے مردوں کو نفع مند ہونا نصوص شرعیہ سے معلوم ہوتا ہے جن کا سبب کسی طرح اور کسی حیثیت سے بھی مردے نہ ہوئے ہوں ،وہ صدقات وخیرات اور دوسری عبادات کے ذریعہ ایصالِ ثواب کی صورتیں ہیں اور چونکہ زیادہ تر انکار آج کل ان ہی صورتوں کا کیا جارہا ہے اس لیے اس کو کسی قدر ِبسط وتفصیل سے لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
مبحث چہارم
٭٭٭
جن طاعات وخیرات کے ذریعہ مُردوں کو نفع پہنچانے (اور با اصطلاحِ معروفِ ایصالِ ثواب کرنے )کا ارادہ کیا جائے ان کی تین قسمیں ہوسکتی ہیں :
(١) یا تو وہ محض مالی ہیں جیسے صدقہ ،خیرات، قربانی وغیرہ !
١ فتح الباری جزء اوّل ص ١٥٩ باب من الکبائران لا یستتر من البول
(٢) اور یا محض بدنی ہیں یعنی ان میں پیسہ تو کوئی خرچ کرنا نہیں پڑتا البتہ جسم وجان کو کچھ محنت ومشقت برداشت کرنی پڑتی ہے جیسے روزہ ، نماز، تلاوت ِ قرآنِ پاک اور ذکر اللہ وغیرہ !
(٣) اور یا ان دونوں (مالی اور بدنی) سے مرکب ہیں جیسے کہ حج کہ اس میں روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے اور اس کے ارکان کی ادائیگی میں دوڑ دھوپ کی مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے !
بہت سی احادیث ِ صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تینوں قسم کی عبادات کے ذریعے فوت شدہ مومنین کو (بلکہ بعض صورتوں میں زندوں کو بھی) نفع اور ثواب پہنچایا جاسکتا ہے !
عبادات ِ مالیہ کے ذریعہ ایصالِ ثواب :
سب سے پہلے ہم خالص مالی عبادات کو لیتے ہیں
(١) صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
اِنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِی صلی اللہ عليہ وسلم اِنَّ اَبِیْ مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا وَلَمْ یُوْصِ فَھَلْ یُکَفَّرُ عَنْہُ
( وَضَبَطَ بَعْضُھُمْ فَھَلْ یَکْفِیْ عَنْہُ ) اَنْ اَتَصَدَّقَ عَنْہُ ؟ قَالَ نَعَمْ ۔ ١
''ایک شخص آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے دریافت کیا کہ میرے باپ کا انتقال ہوگیا ہے اور اپنے ترکہ میں انہوں نے مال چھوڑا ہے اور کوئی وصیت نہیں کی ہے تو اگر میں ان کی جان سے کچھ صدقہ خیرات کردوں تو کیا میرا یہ صدقہ ان کے لیے کفایت ہو جائے گا ؟ یا مطلب یہ ہے کہ کفارہ ہوجائے گا ؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں ''
یہ حدیث اثبات ِ مدعا کے لیے کسی توضیح وتقریر کی محتاج نہیں ! ایک شخص مرگیا اس نے کوئی وصیت بھی نہیں کی ہے جس کے بعد قانون شرعی کے مطابق اس کا متروکہ مال وارثوں کی طرف منتقل ہوگیا اب اس کا لڑکا پوچھتا ہے کہ میں اگر اپنے مرحوم باپ کی طرف سے کچھ صدقہ خیرات کروں تو یہ ان کے لیے کفارہ ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہاں یہ ہوسکتا ہے !
١ صحیح مسلم کتاب الوصیة ج ١ ص ٤١
(٢) اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ میرے دادا عاص بن وائل نے سو اونٹوں کی قربانی کی نذر مانی تھی (جس کو وہ پورا نہ کرسکے) تو ان کی طرف سے ان کے ایک بیٹے ہشام بن عاص نے پچپن اونٹ ذبح کیے۔ پھر (میرے والد) عمرو بن عاص نے اسلام لانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا (غالباً سوال کا منشاء یہ تھا کہ اگر بقیہ پینتالیس اونٹ میں ان کی طرف سے قربان کردوں تو کیا اس سے ان کو کچھ نفع ہوگا ؟ ) آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا
اَمَّا اَبُوْکَ فَلَوْ اَقَرَّ بِالتَّوْحِیْدِ فَصُمْتَ وَتَصَدَّقْتَ عَنْہُ نَفَعَہ ذَالِکَ۔ ١
''تمہارے باپ اگر توحید ( لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ )کے ماننے والے ہوتے (یعنی مومن ہوتے )اور پھر تم ان کی طرف سے روزے رکھتے یا صدقہ وخیرات کرتے تو اس سے ان کو نفع ہوتا''
(٣) اور صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
اِنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ عليہ وسلم فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم اِنَّ اُمِّیْ اُفْتُتِلَتْ نَفْسُھَا وَلَمْ تُوْصِ وَاَظُنُّھَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّ قَتْ اَفَلَھَا اَجْر اِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْھَا قَالَ نَعَمْ۔ ٢
''ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ میری والدہ اچانک انتقال کر گئیں اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی ہے اور میرا گمان ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ صدقہ کر جاتیں ، تو اب اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ خیرات کروں تو کیا ان کو ثواب پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ''
بعض شارحین ِ حدیث کو اگرچہ شبہ ہوا ہے کہ یہ سوال کرنے والے صحابی سعد بن عبادة ہی تھے جن کے واقعہ کا ذکر آگے آرہا ہے، لیکن قرائن سے علامہ بدر الدین عینی شارح بخاری کی یہ رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ سعد کے علاوہ اور کوئی دوسرے صحابی ہیں اور یہ دوسرا واقعہ ہے واللہ اعلم !
١ کتاب الروح لابن القیم ص ١٩٣ بحوالہ مُسند احمد ٢ صحیح البخاری باب مایستحب لمن یتوفی ج ١ ص ٣٨٦ ، صحیح مسلم باب وصول ثواب الصدقة عن المیت الیہ ج ١ ص ٣٢٤ واللفظ لمسلم )
اور صحیح بخاری وغیر میں حضرت سعد کا واقعہ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے اس طرح مروی ہے
(٤) اِنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَخَابَنِیْ سَاعِدَةَ تُوُفِّیَتْ اُمُّہ وَھُوَ غَائِب عَنْھَا فَاَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ عليہ وسلم فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اُمِّیْ تُوُفِّیَتْ وَاَنَا غَائِب عَنْھَا فَھَلْ یَنْفَعُھَا شَیْئ اِنْ تَصَدَّقْتُ بِہ عَنْھَا ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَاِنِّیْ اُشْھِدُکَ اَنَّ حَائِطِی الْمِخْرَافَ صَدَقَة عَلَیْھَا ۔ ١
''کہ سعد بن عبادہ کی غیبت میں ان کی والدہ کی وفات ہوگئی ٢ تو وہ رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری عدم موجودگی میں میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے تو کیا اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو یہ ان کے لیے نافع ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ! تو انہوں نے عرض کیا کہ میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میرا باغ مِخْرَافْ میری ماں پر سے صدقہ ہے ''
نیز صحیح بخاری ہی میں حضرت عبداللہ بن عباس ہی کی ایک دوسری روایت اسی سلسلہ میں یہ بھی ہے
(٥) اِنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ اِسْتَفْتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم فَقَالَ اِنَّ اُمِّیْ مَاتَتْ وَعَلَیْھَا نَذْر فَقَالَ اقْضِہ عَنْھَا۔ ٣
''سعد بن عبادہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری والدہ فوت ہوگئیں اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی (جس کو وہ ادا نہیں کرسکیں تو کیا میں ان کی طرف سے اس کو ادا کرسکتا ہوں ؟ ) حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ہاں تم ان کی طرف سے اس نذر کو ادا کردو '' ٤
١ صحیح البخاری باب الاشھاد فی الوقف والصدقة والوصیة ج١ ص ٣٨٧
٢ حضرت سعد کی والدہ کا نام عمرہ تھا، ٥ھ میں ان کی وفات ایسے وقت ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم غزوہ خندق کے سلسلہ میں مدینہ سے باہر تھے اور ان کے بیٹے سعد بن عبادہ بھی آپ کے ساتھ غزوہ ہی میں تھے۔ (فتح الباری عمدة القاری)
٣ صحیح البخاری باب مایستحب لمن توفی ج ١ ص ٣٨٧ رقم الحدیث ٢٧٦١
٤ سنن نسائی کی ایک روایت سے اس نذر کے متعلق یہ تفصیل بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ نذر آزاد کرنے کی تھی اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت سعد کو ان کی طرف سے غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباری)
واضح رہے ان دونوں (روایتوں میں کوئی تناقص اور تعارض نہیں ہے واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ تو صدقہ کے متعلق سوال کیا تھا جس کا ذکر پہلی روایت میں ہے اور دوسری دفعہ نذر کے بارے میں دریافت کیا تھا جس کا ذکر دوسری روایت میں کیا گیا ہے۔
(٦) ایک تیسری روایت اس بارے میں اور بھی وارد ہوئی جس میں مذکور ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا کہ والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا ہے تو ان کی طرف سے کون سا صدقہ زیادہ بہتر اور افضل ہوگا ؟ آپ نے فرمایا ''المَائ'' (یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے پانی کا انتظام کرنا، چنانچہ حضرت سعد نے ایک کنواں تیار کراکے اپنی والدہ کی طرف سے اس کو وقف عام کردیا) ١
یہ روایت سنن نسائی وابی داود میں خود حضرت سعد ہی سے مروی ہے لیکن اس کی اسناد میں ایک انقطاع ہے ٢ تاہم صحیح بخاری کی مذکورہ بالا روایت سے متعارض یہ بھی نہیں ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ حضرت سعد نے اپنے باغ مخراف کے علاوہ اپنی والدہ کی طرف سے کنواں بھی وقف کیا ہو جس طرح آج بھی لوگ اپنے ماں باپ کی طرف سے انواع واقسام کے صدقات وخیرات کے ذریعے ایصالِ ثواب کرتے رہتے ہیں ۔
١ اس حدیث کی بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اس کے راوی حسن بصری نے یہ حدیث سناتے وقت اپنے شاگردوں سے کہا کہ فَتِلْکَ سِقَایَةُ آلِ سَعْدٍ بِالْمَدِیْنَةِ ( مدینہ میں سِقَایَةُ آلِ سَعْدٍ کے نام سے پانی کی جو سبیل ہے یہ وہی ہے )اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سعد نے اپنی والدہ کی جانب سے جو کنواں وقف کیا تھا بعد میں وہی ''سقایہ آلِ سعد'' کے نام سے بھی مشہور تھا۔ حضرت حسن بصری کی اس شہادت کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ اس حدیث کا استنادی درجہ کچھ اور بڑھ رہا ہے''
٢ سنن نسائی اور ابی داؤد میں سعد بن عبادة سے اس حدیث کو روایت کرنے والے سعید بن المسیب اور حسن بصری ہیں حالانکہ حضرت سعد بن عبادة کی وفات کے وقت بھی یہ دونوں صاحبان سنِ شعور کو نہیں پہنچے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان کے ایک راوی کا نام ذکر کرنے سے رہ گیا ہے اسی کو اصطلاحِ محدثین میں '' انقطاع'' کہتے ہیں ۔
ایصالِ ثواب کے بعض منکرین ان روایات کے اس اختلاف کو اصلاحی ''اضطراب'' قرار دے کر حدیث کو ناقابلِ احتجاج قرار دینے کی کوشش کرتے بھی دیکھے گئے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے ''اضطراب فی المتن'' کی حقیقت کو بھی سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی ہے یہاں اضطراب کا دعویٰ اس وقت چل سکتا ہے جبکہ یہ سارے سوال وجواب جو مندرجہ بالا تینوں حدیثوں میں مذکور ہیں ایک مجلس کے ایک ہی سوال وجواب کے متعلق راویوں کے مختلف بیانات ہوں ، لیکن جبکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے تو پھر اس کو ''اضطراب'' قرار دینا اصولِ فن سے ناواقفی کی ہی دلیل ہے۔ اس میں کوئی استحالہ بلکہ استبعاد بھی نہیں ہے کہ حضرت سعد بن عبادة نے مختلف دفعات میں یہ سوالات کیے ہوں اور جوابات پاکر ان کی تعمیل کرتے رہے ہوں ، غرض یہ تینوں روایتیں جیسا کہ ان کے مضمون سے ظاہر ہے الگ الگ مستقل حدیثیں ہیں ۔
وَمَنِ ادَّعٰی خِلَافَہ فَعَلَیْہِ الْبَیَانُ
(جاری ہے)




بقیہ : تربیت ِ اولاد
٭٭٭
٭ چلنے میں تاکید کرو کہ بہت جلدی نہ چلے، نگاہ اوپر اٹھا کر نہ چلے !
٭ اس کو عاجزی و انکساری اختیار کرنے کی عادت ڈالو ! زبان سے چال سے برتائو سے شیخی نہ
بھگارنے پائے، یہاں تک کہ اپنے ہم عمر بچوں میں بیٹھ کر اپنے کپڑے یا مکان یا خاندان یا کتاب و قلم دوات تختی تک کی تعریف نہ کرنے پائے !
٭ کبھی کبھی اس کو دو چار پیسہ دے دیا کرو تا کہ اپنی مرضی کے موافق خرچ کیا کرے ! مگر اس کو
یہ عادت ڈالو کہ کوئی چیز تم سے چھپا کر نہ خریدے !
٭ اس کو کھانے کا طریقہ اور محفل میں اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ سکھلائو !
امید ہے کہ اہل و عیال کو تعلیم وتربیت کے متعلق یہ مضمون کافی ہو جائے گا
(جاری ہے)




اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭٭٭
٣١ جولائی بروزبدھ بعد نماز مغرب کراچی سے جناب حاجی نذیر صاحب مع اپنے رفقاء ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب سے ملاقات کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور حضرت سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی بعد ازاں رات کا کھانا خانقاہ حامدیہ میں تناول فرما کر واپس تشریف لے گئے ۔
٥صفر المظفر١٤٤٦ھ/١١ اگست ٢٠٢٤ء بروز اتوار بعد ازظہر جامعہ مدنیہ جدید کی مجلس شوریٰ کا سالانہ اجلاس منعقد ہواجس میں تعلیمی ، تعمیراتی اور مالیاتی امورپر باہمی مشاورت ہوئی ، تعلیمی ومالیاتی اُمور پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ارکانِ شورٰی نے اہلِ خیر حضرات سے تعمیراتی امور پر خصوصی توجہ دینے کی پُر زور اپیل کی تاکہ مسجد حامد ، دارالاقامہ اور رہائشگاہوں کی تعمیر سے تعلیمی کارکردگی مزید بہتر ہوسکے، دعائے خیر پر اجلاس ختم ہوا،والحمد للہ !
١٤ اگست کو حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولانا محمد سلیم صاحب کی دعوت پر تقریب پرچم کشائی میں شرکت کے لیے پھول نگر ضلع قصور تشریف لے گئے ،بعد عصر کوٹ وسن کے مقام پر پرچم کشائی فرمائی اور مختصر بیان بھی فرمایا !
٩ صفر المظفر ١٤٤٦ھ/١٥ اگست ٢٠٢٤ء بروز جمعرات جامعہ مدنیہ جدید میں تعمیراتی کام کا آغاز ہوا جس میں مسجدحامد کے وضو خانے ، بیت الخلاء اور دارالاقامہ کی تیسری منزل کا باقاعدہ طورپر آغاز ہوا والحمد للّٰہ اللہ تعالیٰ مزید ترقی فرما کر قبول فرمائے، آمین
١٩ اگست بعد نماز عصر لکی مروت کے حاجی امان اللہ خان صاحب مرحوم کے صاحبزادے حاجی عبد الرشید صاحب اپنے رفقاء کے ہمراہ جامعہ تشریف لائے اور حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی ، بعد مغرب خانقاہ حامدیہ میں کھانا تناول فرما کر واپس تشریف لے گئے




امیرجمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٭ ٤ اگست بروز اتوار بعد عصر جمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کی جماعت نے امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور مختلف امور پر مشاورت ہوئی !
٭ ١٩ اگست بروز پیر بعد مغرب ملتان سے مدرسہ قاسم العلوم کے نائب مہتمم حضرت مولانا عمار محمود صاحب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب سے ملاقات کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے ،بعد مغرب خانقاہ حامدیہ میں حضرت صاحب کے ساتھ کھانا تناول فرمایا ۔
٭ ٢٦ اگست بروز پیر بعد نماز عشاء قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم پچاس سالہ گولڈن جوبلی ٧ ستمبر تحفظ ختم نبوت کانفرنس کے حوالے سے جمعیة علماء اسلام کے عہدیداران اور ذمہ داران اور تحفظ ختم نبوت کے زعماء کا تفصیلی مشاورت کے لیے امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم کی رہائش گاہ پر اجلاس ہوا ۔ اجلاس تقریباً دو گھنٹے جاری رہا ! اس موقع پر شاہین ِختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب ،حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب ثانی ، جمعیة کے مرکزی ترجمان جناب اسلم صاحب غوری ، ناظم اعلیٰ پنجاب مولانا حافظ نصیر احمد صاحب احرار ، مولانا حافظ غضنفر عزیز صاحب بھی موجود تھے ۔ قائد جمعیة نے کانفرنس کے حوالے سے بنفس نفیس تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا اور باہم تقسیم کار طے ہوا ، بعد ازاں امیر پنجاب کی رہائش گاہ پررات کا کھانا تناول فرما کر اسلام آباد واپس تشریف لے گئے۔




جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079142) MCB کریم پارک برانچ لاہور

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.