Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

ستمبر‬ 2023

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدینہ
جلد : ٣١ صفر المظفر ١٤٤٥ھ / ستمبر ٢٠٢٣ء شمارہ : ٩
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ ................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیلِ زر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 03334249302
جازکیش نمبر : 03044587751
جامعہ مدنيہ جديد : 04235399051
خانقاہِ حامديہ : 04235399052
موبائل : 03334249301
موبائل : 03354249302
دارُالافتاء : 03214790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
یَثْرِبْ مدینةُ النبی صلی اللہ عليہ وسلم حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ١١
تربیت ِ اولاد قسط : ٦ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٢٠
رحمن کے خاص بندے قسط : ١٧ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٢٦
میرے حضرت مدنی قسط : ٢ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٣١
سبق آموز تاریخی حقائق قسط : ١ حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ٣٨
آب ِزم زم ..... فضائل اور برکات قسط : ١ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب ٥١
ربیع الاوّل ، اُسوہ ٔ رسول اور ہمارا طرزِعمل مولانا نورالحق فیض صاحب زوبی ٥٨
اخبار الجامعہ ڈاکٹر محمد امجد صاحب ٦١
وفیات ٦٣
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
٣٠جولائی ٢٠٢٣ء کو صوبہ خیبر پختونخوا کی باجوڑ ایجنسی میں جمعیة علماء اسلام کے مقامی کنونشن میں خودکش بم دھماکے میں ٧١اَفراد شہید ہو گئے جبکہ سو سے زیادہ زخمی ہوئے !
پاکستان کی تاریخ میں جمعیة علماء اسلام کے جلسہ میں ہونے والے بدترین سانحہ کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی ! !
اگرچہ شہدا ء کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے حکومت کی طرف سے نقد اِمداد دی گئی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں درجنوں خفیہ ایجنسیاں اور ادارے ہیں اس جیسے حادثہ کا پہلے سے ادراک کر کے ان کا سدباب کرنا ان کی اوّل و آخر ذمہ داری ہے ! یقینا ان کی طرف سے اپنے فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی برتی گئی ہے ! جن سے یہ کوتاہی ہوئی ہے کیا اُن کا تعین کر کے اُن کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ؟ اگر کی گئی ہے تو اس کو اب تک عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا گیا ! ؟ اگر ان تمام کرداروں کی ماضی کی طرح اب بھی پردہ پوشی کی گئی تو آئندہ بھی اس جیسے حادثات کے امکانات مسترد نہیں کیے جا سکتے ! ملک میں جاری بدامنی کے اندھے طوفان میں کوئی اپنے کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا ! لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ سرکاری اداروں میں بیٹھے اِن افراد کو فی الفور بے نقاب کیا جائے جن کی غفلت اس سانحہ کا سبب بنی تاکہ عام آدمی میں عدم تحفظ کا احساس ختم ہو کر اطمینان کا ماحول پیدا ہونے پائے ۔
دعا ہے کہ اللہ تمام شہداء کی مغفرت فرمائے ، ان کے پسماندگان کی کفالت فرمائے اور صبر جمیل عطا فرمائے ، اور زخمی ہونے والوں کو شفائِ کاملہ عاجلہ عطا فرمائے ، ادارہ ان سب کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہے
٭
١٩محرم الحرام ١٤٤٥ھ/٦اگست ٢٠٢٣ء کو اِتوار اور پیر کی درمیانی شب میں بعدعشاء اَحقر کی والدة ماجدة رحمة اللہ علیہا ایک برس کی طویل علالت کے بعد رحلت فرما گئیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اگلے دن صبح ساڑھے آٹھ بجے جامعہ مدنیہ جدید میں ان کی نمازِ جنازہ ہوئی جس میں طلباء اور مقامی افراد نے شرکت کی ، اعلان کے مطابق ان کی دوسری نمازِ جنازہ دس بجے بہاولپور روڈ کی عید گاہ میں ادا کی گئی بعد ازاں قبرستان میانی صاحب میں حضرت اقدس والد ماجد نور اللہ مرقدہ کی قبر مبارک سے بالکل متصل جانب مشرق تدفین عمل میں آئی !
اَللّٰہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا اَجْرَھُمْ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَھُمْ وَاغْفِرْلَنَا وَلَھُمْ وَاجْمَعْنَا مَعَھُمْ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْم یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن
قارئین ِ کرام کی خدمت میں دعائے مغفرت اور حسب ِتوفیق ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔ محمودمیاں غفرلہ
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
رمضان المبارک کی اہمیت ! قرآن اور رمضان !
عورتوں کے لیے ذکر
(درسِ حدیث نمبر٥٧/١٦٦ ١٠ رمضان المبارک ١٤٠٥ھ/٣١ مئی ١٩٨٥ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
یہ توآپ حضرات کو معلوم ہے کہ یہ رمضان المبارک کے دن ہیں ،قرآنِ پاک کی تلاوت اوراِن اوقات میں کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کی خاص مناسبت ہے ! قرآن پاک کی تلاوت ہے، استغفار ہے ،دُعا ہے، ذکر کی کثرت ہے جس طرح بھی ہو جن کلمات سے بھی ہو، اس کے اِن دنوں میں خاص اثرات مرتب ہوتے ہیں ! !
رمضان میں اچھے اوربُرے عمل کا اثر :
حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ایک جگہ کہ جیسا رمضان گزارے گا آدمی ویسے ہی اُس کے اثرات ہوں گے ! خدا کی یاد میں اگر گزارا ہے توسارے سال اس کے اثرات رہیں گے ! غفلت میں گزارا ہے تو سارے سال اس کے اثرات رہیں گے ! تو اتنا زیادہ رمضان کے اعمال کو دخل ہے ! تو قرآنِ پاک کی تلاوت وہ تو ہو ہی جاتی ہے ،تراویح میں سننا بھی ہو جاتا ہے، حفاظ جو ہیں اُنہیں یاد کرنے کی وجہ سے زیادہ پڑھنا پڑتاہے ! !
رمضان میں کیا کیا کرنا چاہیے ؟
باقی اورچیزیں کون سی ایسی ہیں کہ جواِن دنوں میں کی جائیں ؟ تو دُعا، استغفار، تسبیح ، تہلیل (یعنی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھنا) ،یہ چیزیں ایسی ہیں جو کثرت کے ساتھ کرنی چاہئیں ! اس میں اجروثواب بھی ہے اورخدا کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے ! درود شریف کی کثرت کی بھی بڑی فضیلت ہے اورکچھ مقدار مقرر کرکے پڑھتا رہے ! کسی چیز کی کچھ مقدار کسی چیز کی کچھ مقدار ،اس طرح سے کرلینا چاہیے ! حدیث شریف میں آتا ہے اَلتَّسْبِیْحُ نِصْفُ الْمِیْزَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ےَمْلَئُہ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ لَیْسَ لَہَا حِجَاب دُوْنَ اللّٰہِ حَتّٰی تَخْلُصَ اِلَیْہِ ١
اس حدیث شریف میں سُبْحَانَ اللّٰہْ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ کی فضیلت بتائی گئی ہے کہ تسبیح جو ہے وہ نصف میزان ہے جیسے ترازو کسی بھی چیز کے تولنے کے لیے رکھی جائے تو ایک طرف باٹ رکھ دیا جائے دوسری طرف سُبْحَانَ اللّٰہْ رکھ دیا جائے تو یہ نصف میزان بن جائے گا نصف ترازو بن جائے گی بس وزن بتانا مقصود ہے کہ وزنی چیز ہے ! اورآدھی بھر چکی تھی آدھی خالی تھی تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ جب بندہ کہتا ہے تو یہ گویا ترازو بھر جاتا ہے ! وہ ترازو کا نصف وزن ہوا اوریہ بقیہ نصف کو پورا کردیتا ہے ! لہٰذا فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ےَمْلَئُہ ۔
اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے لَیْسَ لَہَا حِجَاب دُوْنَ اللّٰہِ حَتّٰی تَخْلُصَ اِلَیْہِ اس کے اورخدا کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے یہ سیدھا اللہ کے پاس پہنچتا ہے یعنی مقبول ہوتا ہے ! ہر چیز اللہ کے پاس ہے اللہ ہر جگہ ہے ! مراد یہ ہے کہ مقامات جیسے بنادیے ہیں (عالمِ بالا میں )جیسے (دنیا میں )مسجد بناد ی ہے کہ جماعت کرو ! جیسے کعبة اللہ بنایا ہے کہ اِدھر رُخ کرو ، ساری دُنیا میں جہاں بھی ہو اِدھر رُخ کرو ! اسی طرح اللہ تعالیٰ نے(عالمِ بالا میں ) مقامات بنادیے ہیں تو اُس مقام تک یہ سیدھا پہنچ جاتا ہے ! اس کے درمیان کوئی حجاب نہیں کوئی رُکاوٹ نہیں ! اور حجاب
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب ثواب التسبیح و التحمید رقم الحدیث ٢٣١٣
ہونے نہ ہونے کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ میں اوربندے میں فاصلہ ہے چیزوں میں فاصلہ ہے پردے سچ مچ کے ہیں ! ایک قسم کے پردے تو ہیں بلاشبہ جب ہی تو آنکھیں نہیں محسوس کرتیں ! ورنہ تو رویت ِ باری تعالیٰ ہوتی ! لیکن یہ کہ فاصلہ ہو ! فاصلہ نہیں ہے اللہ ہر جگہ موجود ہے ! تو اِس میں بتایا گیا ہے کہ اس کی قبولیت میں کوئی دیر ہی نہیں لگتی ! لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ میں اعتراف ہے کہ خدا کے سوا باقی کوئی قابلِ عبادت اورلائق ِپر ستش نہیں !
حدیث شریف میں آتا ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا جو بندہ بھی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ کہتا ہے یعنی توحید کا اقرار کرتا ہے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے ان الفاظ سے، مُخْلِصًا قَطُّ دل سے
اِلَّا فُتِحَتْ لَہ اَبْوَابُ السَّمَآئِ حَتّٰی یُفْضِیَ اِلَی الْعَرْشِ تو اُس بندے کے لیے قبولیت کے واسطے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں یہ عرشِ الٰہی تک سیدھا پہنچ جاتا ہے ! یہ فضیلت اس جملہ کو حاصل ہے اس لیے اس جملے کو بولنے والے کو بھی فضیلت حاصل ہو گئی ! مگر وہ شخص جو یہ جملہ کہنے والا ہے اس فضیلت کا مستحق ہوگا ؟ اُس کے بارے میں فرمایا کہ مَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ ٢ جب تک وہ کبیرہ گناہوں سے بچا رہے گا ! کبائر کا ارتکاب ایسی چیز ہے کہ اُس کے بعد قبولیت پر اثر پڑتا ہے اور فرق پڑتا ہے ! اورکبائر سے بچا رہے اگر تو اتنا بڑا درجہ ہے ! ! !
عورتوں کو کیا کرنا چاہیے ؟
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم سے ایک صحابیہ نقل کرتی ہیں یُسَیرة اُن کا نام ہے مہاجر تھیں گھربار ترک کرکے اسلام کے لیے ترکِ وطن کرکے تشریف لے آئی تھیں ! فرماتی ہیں قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم عَلَیْکُنَّ بِالتَّسْبِیْحِ وَالتَّہْلِیْلِ وَالتَّقْدِیْسِ یَعْنِیْ سُبْحَانَ اللّٰہِ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ ۔اس طرح کے کلمات جو خدا کی پاکیزگی بیان کرتے ہوں وہ کہتی رہا کرو ! اورفرمایا وَاعْقِدْنَ بِالاَنَامِلِ اوریہ جو ہیں پورے ان سے گناکرو ! گنتے تو ہیں ٣٣ دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہْ ، ٣٣ دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ اور ٣٤ دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب ثواب التسبیح و التحمید رقم الحدیث٢٣١٤
ان ہی اُنگلیوں کے پوروں سے، اوربھی طریقے ہیں اس کے جن میں اُنگلیوں پر ہزار تک بلکہ ہزاروں تک گنا جاسکتا ہے ! ! !
اُنگلیوں کی گواہی :
تو ارشاد فرمایا اُنگلیوں سے گنتی رہو ! فَاِنَّ ھُنَّ مَسْئُوْلَات مُسْتَنْطَقَات یہ جواُنگلیاں ہیں ان سے بھی پوچھا جائے گا خدا کے یہاں ! اوران سے بھی بلوایا جائے گاانہیں بولنے کی قوت دی جائے گی ! یہ جواب دیں گے یہ گواہی دیں گے ! اورفرمایا وَلَا تَغْفُلْنَ وَتُنْسَیْنَ الرَّحْمَةَ ١
اور غفلت نہ کرو کہیں ایسا نہ ہوکہ پھر رحمت ِ الٰہی سے تم محروم کردی جائو بھلادی جائو ! رحمت تمہارے حصے میں نہ آنے پائے ایسے نہ کرو ، غفلت منع ہے ! ذکر کسی نہ کسی طرح کرتا رہے آدمی یہ مطلوب ہے ! ہر آدمی اُس مقام پر پہنچ جائے جو بڑے بڑے حضرات کا مقام ہے وہ تو کارِدارد ہے ! لیکن اتنا جتنا کہ حدیث میں بتایا ہے اُتنا ہر آدمی کرتار ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہو تا ہے تو فائدہ ایک نسبت کا حاصل ہو جاتا ہے ! ! !
نسبت کا مطلب ؟
نسبت کے معنٰی کیا ہیں ؟ نسبت کے معنٰی ہیں ایمان کی قوت، اللہ کی ذات کے ساتھ دل کا ایک ربط خاص مضبوط قسم کا، وہ نسبت کہلاتا ہے ! یہ اَذکارِ مسنونہ ، تلاوت ، تسبیح ،تہلیل وغیرہ اگر کرتے رہیں ایک عرصہ تک تو یہ نسبت حاصل ہوجاتی ہے ! قرآنِ پاک پڑھنے پڑھانے والے کو بھی ! تفسیر پڑھنے پڑھانے والوں کو بھی ! حدیث اورعلومِ دینی جو پڑھتے پڑھاتے ہیں اُن کو بھی اسی طرح سے حاصل ہوجاتی ہے ایک نسبت ِخاص ! تعلق مع اللہ قوی قسم کا جس کے بعد پھر شک وتردد نہیں آتا ! اور اللہ اُس کو کفر سے اورکفر یات سے محفوظ رکھتا ہے ! تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے یہ طریقے بتائے
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب ثواب التسبیح و التحمید رقم الحدیث ٢٣١٦
وہ کلمات بتائے جو خدا کو بہت پسند ہیں اورکتنے پسند ہیں وہ مثال دے دے کر بتایا کہ ایسے پسندہیں ایسے پسند ہیں اورایسے پسند ہیں ! کہیں ترازو کا بتا دیا ، کہیں یہ بتادیا کہ اِس کلمے اورخدا کے درمیان قبولیت میں کوئی فاصلہ نہیں ، کوئی چیز حائل نہیں ہے ! آسمان وزمین کے فاصلے وہ بھی حائل نہیں بلکہ جیسے کوئی فاصلہ ہی نہیں ! تو اس طرح سے آقائے نامدار علیہ الصلٰوة والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے، اپنی رضا اورفضل ورحمتوں سے ہمیں دُنیا اورآخرت میں نوازے، آمین۔ اختتامی دعا.........................(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ اکتوبر ٢٠٠٥ )
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)
یَثْرِبْ مدینة النبی صلی اللہ عليہ وسلم
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
نیا دارِہجرت :
اب تکحَبش دارِ ہجرت تھا اس بیعت کے بعد ایک دارِ ہجرت کا اضافہ ہوگیا مکہ کو خیرباد کہنے والے اب یَثْرِبْ آنے لگے ! !
ماہ شوال ختم ہورہا تھا ذیقعدہ شروع تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کا ارادہ کر لیا ١ اجازت لینے کے لیے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا کچھ توقف کیجیے اُمید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی ! حضرت ابوبکر نے یہ ارشاد سنا تو تعجب ہوا ! مکرر دریافت کیا ، کیا آپ کو یہ توقع ہے میرے ماں باپ آپ پرقربان ؟ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ہاں اُمید تو یہی ہے ٢ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے اس سے زیادہ مسرت کی بات کیا ہوسکتی تھی کہ شرف ِرفاقت حاصل ہو ! آپ نے اُس وقت اِرادہ ملتوی کردیا اور اپنے آقا کے ساتھ سفر کرنے کی تیاری شروع کردی ، فورًا دو عمدہ سانڈنیاں خرید لیں ٣ اور اِس خیال سے کہ نہ معلوم کس وقت حکم ہوجائے، ان سانڈوں کو چرواہے کے حوالے نہیں کیا بلکہ گھر پر کھڑا رکھا
١ ابھی تک بیعت ِعقبہ ثانیہ نہیں ہوئی تھی جس میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی ہجرت کی گفتگو ہوئی اور حضراتِ انصار سے عہدلیا گیا
٢ بخاری شریف ص ٥٥٣
٣ بخاری شریف وغیرہ کی روایتوں میں یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چار ماہ تک ان سانڈنیوں کوگھر پر رکھ کر چارہ کھلاتے رہے جن کو آپ نے سفر ہجرت کے لیے خریدا تھا ! سفر ہجرت ربیع اوّل کے آغاز میں ہوا تو ان سانڈنیوں کو شوال کے آخر یا ذیقعدہ کے شروع میں خریدا ہوگا۔
اور بازار سے چارہ خرید کر کھلاتے رہے، اس انتظار میں چارہ ماہ گزر گئے اس اثناء میں بیعتِ عقبہ ثانیہ بھی ہوئی جس کا ذکر آگے آئے گا !
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دو سانڈنیاں ہی نہیں خریدیں بلکہ سفر کا نقشہ ذہن میں جماکر ضرورت کی تمام چیزیں فراہم کر لیں حتی کہ سفر میں ایک تحریر لکھنے کی ضرورت پیش آئی تو تحریر کا تمام سامان ساتھ تھا ! ٹھنڈے پانی کا اور نہ صرف پانی بلکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو پانی پلانے کے برتن کا بھی یہ انتظام تھا کہ اس کے منہ پر کپڑا بندھا رہتا تھا جیسا کہ سراقة جعشم کے واقعہ میں آئندہ معلوم ہوگا ان شاء اللہ ! !
بیعتِ عقبہ دوم :
پچھلے سال چھ مسلمانوں کی کوشش سے یثرب کے گھر گھر میں اسلام کا چرچا ہونے لگا تھا اس سال حضرت مصعب بن عمیر مقری رضی اللہ عنہ کی رہنمائی میں بارہ حضرات نے کوشش کی تو نہ صرف یثرب بلکہ یثرب کے باہر موضع قبا تک اسلام پہنچ گیا ! اسلام کیا تھا ؟ صرف کلمہ توحید پڑھ لینا ! بے شک قانونی اور فقہی نقطۂ نظر سے کسی کو مسلمان قرار دینے کے لیے یہی کافی ہے لیکن سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جس اسلام کا درس دے رہے تھے وہ قانونی نمائش سے بہت بلند تھا ! حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا مکتب مکتب ِعشق تھا، یہاں ایثار اور فدائیت کا درس دیا جاتا تھا ! مشائخِ طریقت کے یہاں ''درجہ ٔ فنا'' آخری منزل ہے یہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی خانقاہ کا پہلا سبق ہوتا تھا ! !
قرآنِ حکیم نے مومن کی شان یہ بتائی ہے ( اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہْ ) ١
اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہ وَوَلَدِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ٢
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی دعوت کی خصوصیت یہ تھی کہ جیسے ہی زبان پر کلمۂ توحید جاری ہوتا دل کے خلوت کدہ میں عشق و محبت کی شمع روشن ہوجاتی جو نہ صرف ظلمت دُور کرتی بلکہ اَنانیت کو بھی فنا کردیتی تھی !
١ ''جو ایمان لائے وہ بہت مضبوط ہوتے ہیں اللہ کی محبت میں '' ٢ ''کوئی مومن کہلانے کے لائق نہیں ہوتا جب تک میں اُس کو باپ اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ''
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو یثرب میں تشریف لانے کی دعوت دینا صرف ایک معز زمہمان کو بلانا نہیں تھا بلکہ ایک ہیبت انگیز اور حد سے زیادہ پُر خطر اِقدام تھا ! آپ کو تشریف لانے کی دعوت دینا ایک عظیم ترین انقلاب کو دعوت دینا تھا یعنی ایسی حاکمیت کو تسلیم کرنا تھا جس کے مقابلہ میں ہر ایک حاکمیت ختم ہورہی تھی ! ! اَوس اور خزرج کے رُؤسا اور شیوخ خصوصًا عبداللہ بن اُبی ابن سلول رئیس ِخزرج اور ابو عامر بن صیفی بن نعمان رئیس ِاوس جو نہ صرف حاکمیت بلکہ ملوکیت اور بادشاہت کے خواب دیکھ رہے تھے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا مدینہ تشریف لے آنا ان سب کے لیے پیغامِ ناکامی تھا اور اُن سب کے لیے مایوس کن تھا جو اُن کی حاکمیت تسلیم کرانے کے لیے ایسے سرگرم اورپُر جوش تھے کہ عبداللہ بن اُبی ابن سلول کے لیے شاہانہ تاج کی تیاری کی فرمائش بھی دے چکے تھے ! ! دوسری طرف آپ کی تشریف آوری قریش کی ناکامی تھی اور تشریف آوری کی دعوت دینا قریش جیسی جماعت کے مقابلہ پر سینہ سپر ہونا تھا جس کی عظمت کی چھاپ ہر ایک عربی بولنے والے کے دل پر تھی ! اور جس کی ناکامی پورے عرب کی ناکامی تھی !
اس کے علاوہ اقتصادی مسائل بھی نہایت اہم تھے مثلاً محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے جانثار جو اہل و عیال کو ساتھ لے کر آئیں گے ان کی ضروریات ِزندگی کس طرح فراہم ہوں گی ؟ ! ! یہ تمام مسائل تھے جو ایمان لانے والے تھے وہ دانشمند تھے ان تمام باتوں کو سمجھتے تھے مگر ان کے ایمان کی حرارت اس طرح کے تمام خطرات کے لیے برقِ خِرمن سوز تھی ١
عشق چوں خام ست باشد بستہ ناموس و ننگ
پختہ مغزانِ جنوں را کے حیا زنجیر پاست
با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش ست
ہر چند عقل کل شدۂ بے جنوں مباش ٢
١ ایسی بجلی جو کھیت جلا ڈالے ٢ ترجمہ : عشق جب تک کچا ہو تو عزت و ناموس کے ساتھ بندھا ہو تا ہے، جنون میں پختہ لوگوں کے لیے شرم و حیا پاؤں کی زنجیر کیسے بن سکتی ہے ! ہر کمال کے ساتھ تھوڑی سی پریشانی بھی چاہیے،تمہاری عقل جتنی بھی کامل ہو جائے پھر بھی بے غیرجنون کے نارہے !
یہ نو مسلم تھے ان کا اسلام نیا تھا مگر یہ نیا اسلام سراسر عشق تھا جس نے محبوب کے لیے ہر ایک قربانی اور اِیثار کو محبوب بنادیا تھا ! !
یہ شہادت گۂ اُلفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
حج کا زمانہ آیا اوس و خزرج کے تقریبًا پانچ سو اَفراد حج کے لیے روانہ ہوئے ! یہ اہلِ ایمان بھی اِس عزم کے ساتھ روانہ ہوئے کہ محبوب ربُ العالمین کو دعوت دیں کہ وہ مکہ کی خشک پہاڑیوں کو خیر باد کہیں اور یثرب کے سبزہ زار کو اِیمان کا کُشت ِزار بنائیں ! ١ لیکن یثرب کے سربراہ جو قریش کے ہم مشرب وہم نوا تھے اس جرأت کے لیے تیار نہیں تھے جس میں قریش سے براہِ راست تصادم تھا ! لہٰذا ان فدا کاروں نے اپنے منصوبہ کو پوشیدہ رکھا ان کی تعداد تہتر تھی ٢ ان میں دو عورتیں تھیں تیس نوجوان باقی اُدھیڑ عمر !
مکہ پہنچ کر بھی اس منصوبہ کو راز ہی رکھا اور رازداری کے ساتھ تاریخ وقت اور مقام طے کیا گیا ! !
١١ ذی الحجہ کی رات ٣ چاند آدھی مسافت طے کر چکا لوگ سوگئے تو طے کردہ خفیہ قرار داد کے بموجب اسلام کے یہ جانثار فرداً فرداً روانہ ہوئے ٤ اور اسی گھاٹی میں پہنچے جہاں گزشتہ سال بیعت ہوئی تھی ! سرورِ کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ کے چچا عباس وہاں رونق اَفروز ہوچکے تھے ! یہ بھی خواجہ ابوطالب کی طرح آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے سچے بہی خواہ، محافظ اور جان چھڑکنے والے مددگار تھے ! اور اگرچہ عمر میں صرف دو سال بڑے تھے مگر خود کو اپنے عزیز بھتیجے کا سرپرست سمجھتے تھے ٥ اور تجارتی کاروبار کے باعث باہر آنا جانا رہتا تھا تو قبائل سے واقف تھے، شیوخ قبائل سے تعلقات تھے ان کو
١ ہرا بھرا کھیت ٢ ابن ہشام ج ١ ص ٢٦٦ ابن ِاسحاق نے ان کے نام بھی شمار کرائے ہیں ج ١ ص ٢٧٣ تا ٢٧٩
٣ وسط ایام التشریق لیلة النفر الاوّل اذا ھدأت الرجل (ابن سعد ج ١ ص ١٤٩) فتسلل تسلل القطا مستخفین ( ابن ہشام ج ١ ص ٢٦٦ )
٤ سب سے پہلے رافع بن مالک ازرقی رضی اللہ عنہ بار یاب ہوئے۔ ابن سعد ج١ ص ١٤٩
٥ تعمیر کعبہ کے وقت جب پتھر ڈھو رہے تھے تو آپ نے اسی بزر گانہ شفقت کی وجہ سے بھتیجے محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کو فرمائش کی تھی کہ لنگی کھول کر مونڈے پر رکھ لیں تاکہ پتھر کی رگڑ نہ لگے۔
جانتے پہچانتے تھے اس تعارف کے ساتھ خوبی یہ تھی کہ بات کرنے کا بھی اچھا سلیقہ تھا چنانچہ جب آنے والے آگئے تو سلسلۂ کلام آپ نے ہی شروع کیا ! !
حضرت عباس کا خطاب :
آپ جس ارادہ سے آئے ہیں یقین ہے کہ اس کی ذمہ داری کا بھی آپ صاحبان نے بخوبی اندازہ کر لیا ہوگا ! محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی حمایت پورے عرب کی مخالفت ہے، محمد صلی اللہ عليہ وسلم اپنے خاندان کے سب سے زیادہ باعزت رُکن ہیں ، خاندان کا ہر فرد اِن کی حفاظت کے لیے سربکف رہتا ہے، جو اِن کے ہم نوا ہوگئے ہیں وہ ہم نوائی کی وجہ سے اور جو اِن کے ہم نوا نہیں ہوئے ہیں وہ خاندانی حمایت، قرابت اور خود اِن کے اخلاق وکردار کی وجہ سے ان کے جا نثار ہیں ! محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی حفاظت سے ہم نہ اُکتائے ہیں نہ تھکے ہیں ! محمد صلی اللہ عليہ وسلم نے خود ہی آپ کی دعوت منظور کی ہے اور وہ ہم سے الگ ہوکر آپ کے یہاں جانا چاہتے ہیں !
آپ پوری طرح غور کر لیں ، اپنی طاقت اور ہمت کا موازنہ کر لیں ، پورے عرب کی متحدہ طاقت سے آپ کو مقابلہ کرنا ہوگا ! سارا عرب ایک کمان سے آپ پر پتھر برسائے گا ! کیا آپ میں مقابلہ کی طاقت ہے ؟ ؟ آپ صاحبان کو لڑائیوں کا تجربہ ہے، کیا آپ لوگ نامعلوم مدت تک پامردی اور استقلال سے پورے عرب کے مقابلے میں ثابت قدم رہ سکیں گے ؟ ؟ صاف بات اچھی ہوتی ہے پوری طرح سوچ لو، جدا ہونے سے پہلے پختہ فیصلہ کر لو، بعد کی شرمندگی سے اِس وقت کی صاف بات ہزار درجہ بہتر ہے ! ! ! ١
جوابی خطاب :
حضرت عباس کی بات ختم ہوئی تو حضرت براء بن معرور نے مجمع کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا ٢
١ ابن سعد ج١ ص ١٤٩ ٢ یہ سب سے زیادہ سن رسیدہ اور اپنی جماعت کے سردار تھے۔ سیّدنا و کبیرنا (کعب بن مالک ) (سیرة ابن ِہشام ج١ ص ٦٢٤) مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے ایک ماہ پہلے وفات پاچکے تھے ۔ (فتح الباری) (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
آپ نے جو فرمایا ہم پہلے سے ہی سمجھے ہوئے ہیں ! ہم وفاداری سچائی اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کردینے کا عزمِ مصمم لے کر یہاں آئے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں حضرت والا (جن کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر ہم یہاں آئے ہیں ) فرمائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟ ؟
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا خطاب :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے کلام پاک کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں پھر فرمایا میں
(الف) اپنے رب (پرور دگار) کے لیے یہ چاہتا ہوں کہ صرف اُسی وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ کی عبادت کرو اُس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو !
(ب) اپنی ذات اور اپنے صحابہ (ساتھیوں ) کے لیے یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں رہنے کو جگہ دو، ہماری مدد کرو اور جس طرح تم خود اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہو ہماری بھی حفاظت کرو ! ایک روایت میں ہے کہ جس طرح اپنے بچوں اور عورتوں کی حفاظت کرتے ہو ہماری حفاظت کرو !
مجمع نے دریافت کیا ہمیں کیا ملے گا ؟ ؟ فرمایا ''جنت '' ! ! ! ١
اس کے بعد جوابی تقریریں شروع ہوئیں :
(١) سیّد القوم حضرت براء بن معرور نے دست ِ مبارک پر اپنا ہاتھ رکھا اور عرض کیا :
(بقیہ حاشیہ ص ١٥ )
لطیفہ : جب یہ حضرت (براء بن معرور) یثرب سے روانہ ہوئے تو راستہ میں سوال پیدا ہوا کہ نماز کس رُخ پڑھنی چاہیے شام کا رُخ کر کے یا کعبہ کا رُخ کر کے ؟ سب کی رائے ہوئی کہ شام کی طرف ! مگر حضرت براء رضی اللہ عنہ نے طے کیا کہ وہ کعبہ کی طرف نماز پڑھا کریں گے، راستہ بھر یہی رہا کہ ساتھی شام کی طرف نماز پڑھتے رہے اور یہ کعبہ کی طرف ! جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے استفتاء کیا تو آپ نے شام کی طرف نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی۔ (سیرة ابن ِہشام ج١ ص ٢٦٤، ٢٦٥)
١ مسند اِمام احمد ج ٣ ص ١٢٠ و سیرة ابن ِہشام ج١ ص ٢٦٦ کسی دنیاوی ترقی یا برتری کا وعدہ نہیں ہے جو کچھ ہو آخرت کے لیے ہو صرف اسی کا وعدہ ہے اور یہی نصب العین ہے۔ محمد میاں عفی عنہ
''یقینا ہم اسی طرح حفاظت کریں گے، ہم کسی کے مقابلہ سے جان چرانے والے نہیں ہیں (ہم اَبناء الحرُوب ہیں ) لڑائیوں کی گود میں پلے ہیں ، آباء واجداد سے یہی ترکہ میں ملا ہے''
(٢) عباس بن عبادة بن نضالة انصاری نے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا :
''حضرات ! آپ سمجھتے ہیں کیا ہورہا ہے ہم عہد کر رہے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی حمایت میں پوری دنیا کا مقابلہ کریں گے ! ہر ایک گورے اور کالے کے مقابلے میں سینہ سپر ہوں گے، جانیں قربان کریں گے ،مال لٹائیں گے، ہمارے سردار مارے جائیں گے، کیا ہم تیار ہیں ؟ اگر ایسا نہ کرسکیں تو کل کے بجائے آج الگ ہوجائیں ، آج دامن بچالینا کل کی رُسوائی سے بہت بہتر ہے'' ! !
(٣) حضرت ابوالہیثم بن تیہان نے عرض کیا :
''یا رسول اللہ گستاخی معاف، ایک بات واضح کرنی ہے، یہودیوں اور دوسرے قبائل سے ہمارے تعلقات ہیں ، یہ تعلقات اب باقی نہیں رہیں گے مگر ایسا تو نہ ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب فرمادیں آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے لوگوں میں چلے جائیں ''
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے یہ الفاظ سنے تو مسکراتے ہوئے فرمایا :
''یہ نہیں ہوسکتا، آپ کا خون میرا خون، آپ کی ناکامی میری ناکامی، میں آپ کا آپ میرے، جن سے تمہاری جنگ اُن سے میری جنگ، جن سے تمہاری صلح اُن سے میری صلح'' ! !
اس کے بعد سلسلہ ٔ بیعت شروع ہوا حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بیعت کی ١
١ ابن ِاسحاق کا بیان ہے کہ سب سے پہلے حضرت اسعد بن زُرارہ نے بیعت کی اور بنو عبدالاشہل کہتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت ابوالہیثم بن تیہان نے بیعت کی، مگر ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ حضرات بہت پہلے مسلمان ہوچکے تھے اِس وقت ان حضرات نے مکرر بیعت کی، نئے بیعت کرنے والوں میں اِس وقت حضرت براء ہی تھے رضی اللہ عنہم اجمعین واللّٰہ اعلم بالصواب !
بیعت میں اسی عہد کو دہرایا گیا ١ جوپہلی بیعت (عقبہ اُولیٰ) کے وقت کیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے، اللہ کا کسی کو شریک نہیں گردانیں گے، چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے، کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے، جس اچھی بات کا حکم کیا جائے گا تعمیل کریں گے، نافرمانی نہیں کریں گے ! اس کے علاوہ یہ بھی عہد لیا گیاکسی کو ناحق قتل نہیں کریں گے ٢ لوٹ نہیں ڈالیں گے ٣ ہر موقع پر حق بات کہیں گے، کسی کی مذمت وملامت کا خوف
١ سُورۂ ممتحنہ میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو فرمائش کی گئی ہے کہ جو عورتیں ہجرت کرکے آئیں ان سے آپ بیعت لیجیے اس بیعت میں انہیں چھ چیزوں کا تذکرہ ہے، اس مناسبت سے اس بیعت کو'' بیعت نساء ''کہتے ہیں ۔ مردوں سے اس موقع پر ان ہی باتوں کا عہد کرا گیا اس کے بعد بہت سے مواقع آئے ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے خاص اُس موقع کے لحاظ سے صحابہ کرام سے بیعت لی ہے مثلاً ایک مرتبہ اس پر بیعت لی اور عہد کرایا کہ کسی سے کوئی سوال نہیں کریں گے ! ایک مرتبہ اس پر بیعت لی کہ ہر ایک کے حق میں خیر خواہی کریں گے ! (بخاری شریف ص ١٣) یا مثلاً حدیبیہ کے موقع پر بیعت لی گئی جس کو بیعت ِرضوان کہا جاتا ہے کہ مرجائیں گے مگر میدان سے نہیں ہٹیں گے ! !
٢ وَلاَ نَقْتُلَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا نَنْتَھِبَ وَلَا نَعْصِیْ بِالْجَنَّةِ (بخاری شریف ص ٥٥٠، ٥٥١)
٣ یاد رکھیے غنیمت کو لوٹ نہیں کہا جاسکتا ! لوٹ کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے جس طرح مُثلة (ناک کان کاٹ ڈالنے) سے منع فرمایا ایسے ہی النُّہبَة ( لوٹ) سے منع فرمایا۔ اس پربیعت لی کہ لوٹ نہیں ڈالیں گے ( ایضاً ص ٣٣٦) لوٹ ڈالنے والے کے متعلق فرمایا مَنِ انْتَہَبَ نُہْبَةً مَشْہُوْرَةً فَلَیْسَ مِنَّا ( ابوداود : ٤٣٩١ ) گویا وہ مسلمان ہی نہیں ؟
لوٹ کا مقصد ذاتی مفاد ہوتا ہے ! خوفِ خدا جماعتی نظم یا امانت اور دیانت کا کوئی ضابطہ لوٹ میں نہیں آتا ! غنیمت میں یہ تمام باتیں شرط ہوتی ہیں ، غنیمت میں جو کچھ لیا جاتا ہے وہ پوری احتیاط اور دیانتداری کے ساتھ جمع کرایا جاتا ہے، ایک شخص میدانِ جنگ میں مارا گیا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ھُوَ فِی النَّارِ یہ دوزخ میں گیا ! صحابہ کو تعجب ہوا ! سامان کی تلاشی لی تو ایک عبا (اچکن) برآمد ہوئی جو مالِ غنیمت میں سے بلا اجازت اس شخص نے رکھ لی تھی (بخاری شریف ص ٤٣٢)
انتہا یہ کہ جوتہ کے تسمہ کے متعلق بھی یہی ارشاد ہوا شِرَاک اور شِرَاکَیْنِ مِنَ نَّارٍ (بخاری شریف ص ٦٠٨)
غنیمت کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ غنیم کے مال کو سرکاری طور پر ضبط کرلینے کا نام غنیمت ہے ! کچھ نا آشنائے ادب مصنف جو بظاہر اپنا درجہ حضراتِ صحابہ سے کم رکھنا نہیں چاہتے وہ غنیمت کے لیے بلا تکلف لوٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں معاذ اللّٰہ
ہمیں کبھی بھی حق بات کہنے سے نہیں روک سکے گا ، جب رسول اللہ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) یثرب تشریف لے آئیں گے
تو اپنی اولاد اور خود اپنی جانوں کی طرح ان کی حفاظت کریں گے ١ ان سب باتوں کا بدلہ جنت ہوگا ٢
بارہ نقیب :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس جماعت میں بارہ نقیب منتخب فرمائے تاکہ حالات کی نگرانی رکھیں ٣ ان کے نام خود اَنصار نے پیش کیے تھے ان میں سے نو خزرج کے تھے اور تین اَوس کے ! !
بروایت ابن ِاسحاق ان کے نام یہ ہیں ٤
ابو اُمامة اسعد بن زُرارة ، سعد بن ربیع ، عبداللّٰہ بن رواحة ، رافع بن مالک، براء بن معرور، عبداللّٰہ بن عمرو بن حرام ، عبادة بن صامت، سعد بن عبادة ، منذر بن عمرو بن خنیس، اُسید بن حضیر، سعد بن خیثمة ، رفاعة بن عبدالمنذر رضوان اللّٰہ تعالٰی علیہم اجمعین
جلسہ ختم ہوا سب حضرات اپنی اپنی قیام گاہوں پر خاموشی سے واپس ہوگئے، طے یہ ہوا کہ صبح سویرے الگ الگ اپنی اپنی قیام گاہ سے مدینہ روانہ ہوجائیں گے ! ! ! (جاری ہے)
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص٣١٤ تا ٣٢٣)
١ بیہقی بحوالہ البدایة والنہایة ج٣ ص ١٦٣ ٢ صحیح البخاری ص ٥٥١
٣ لیکونوا علی قومھم بما فیھم ( سیرة ابنِ ہشام ج١ ص ٢٦٧ )
٤ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک قصیدہ میں ان سب ناموں کو جمع کردیا ہے ۔ ( ابن ہشام ج١ ص ٢٦٨ )
قسط : ٦
تربیتِ اولاد
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اَولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ !
اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
چھوٹی اَولادکے مرجانے کے فضائل :
حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے تین بچے مر گئے ہوں وہ اُس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بن جائیں گے ! کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کسی کے دو بچے مرے ہوں ؟ فرمایا وہ بھی ! اِس پر کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم جس کا ایک ہی مرا ہو ؟ فرمایاوہ بھی ! کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم جس کا ایک بھی نہ مرا ہو ؟ تو آپ نے فرمایا اَنَا فَرَط لِّاُ مَّتِیْ وَلَنْ یُّصَابُوْا بِمِثْلِیْ میں اپنی اُمت کا آگے جا کر سامان کر نے والا ہوں اور میری موت جیسا حادثہ میری اُمت پر کوئی نہ آئے گا، اس لیے اُن کے واسطے وفات کا صدمہ ہی مغفرت کے لیے کافی ہے یعنی آگے جا کر اُمت کے لیے مغفرت کی کو شش وسفارش کروں گا ! ! !
اس پر شاید کوئی یہ کہے کہ جیسے بے اَولادوں کے لیے حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی وفات کافی ہے ایسے ہی اَولاد والوں کے لیے بھی کافی تھی پھر اَولاد کی شفاعت کی ضرورت کیا تھی ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کو زیادہ تسلی کے لیے اس کی ضرورت تھی، دو وجہ سے ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم تو اَدب وخوف کے ساتھ سفارش فرمائیں گے اور بچہ ضد کے ساتھ شفاعت کرے گا ! یہ بچے جس طرح یہاں والدین (ماں باپ) سے ضد کر تے ہیں قیامت میں اللہ تعالیٰ سے بھی ضد اَور نازو نخرے کریں گے چنانچہ اَحادیث میں آتا ہے کہ بچہ جنت کے دروازے پر جا کر کھڑا ہوجائے گا اُس سے کہا جائے گا کہ اَندر جاؤ کہے گا نہیں جاتا ! پوچھیں گے کیوں ؟ کہے گا جب تک ہمارے ماں باپ ہمارے ساتھ نہ ہوں گے اُس وقت تک ہم جنت میں نہیں جا سکتے ! تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے
اَیُّھَا الطِّفْلُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہ اَدْخِلْ اَبَوَیْکَ الْجَنَّةَ
''اے اپنے پر وردگار سے ضد کر نے والے بچے جا اپنے ماں باپ کو بھی جنت میں لے جا''
دوسرے عقلا ًشفاعت کرنے والوں کی تعداد بڑھنے سے زیادہ قوت وتسلی ہوتی ہے اگر چہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کو اِس کی ضرورت نہیں ، آپ تنہا ہی کافی ہیں مگر طبعًا (فطری طور پر) عدد بڑھنے سے تسلی زیادہ ہوتی ہے ١
ایک بزرگ کی حکایت :
ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ اُنہوں نے جوانی میں نکاح نہ کیا تھا اور بے نکاح رہنے ہی کی نیت کی تھی، ہر چند مریدوں نے عرض بھی کیا کہ شادی کر لیجیے مگر آپ نے منظور نہیں کیا، ایک دفعہ دو پہر کو سو کر اُٹھے تو اُسی وقت تقاضا کیا کہ میرا نکاح کر و ! مریدوں نے فورًا اِس کی تکمیل کی، ایک مرید نے اپنی لڑکی سے نکاح کردیا آپ نکاح کے حقوق اَدا کرتے رہے یہاں تک کہ ایک لڑکا بھی پیدا ہوا اَور کچھ دنوں کے بعد مر گیا تو آپ نے فرمایا الحمد للہ مراد حاصل ہوگئی اور بیوی سے کہا کہ اب مجھے تیری ضرورت نہیں میرا جو مقصود تھا پورا ہوگیا۔ اب اگر نکاح کا لطف حاصل کرنا چاہے تو میں طلاق دے کر کسی جوان صالح سے نکاح کر دُوں اور اگر میرے پاس رہنا چاہے تو کھانے پینے کی تیرے واسطے کمی نہیں
١ اَلْجَبْرُ بِالصَّبْرِ ملحقہ فضائل صبر وشکر ص ٣٣١
مگر حقوقِ نکاح کا مطالبہ نہ کرنا ۔ وہ لڑکی بھی نیک تھی اُس نے کہا مجھے تو صرف آپ کی خدمت مقصود ہے اور کچھ مطلوب نہیں ! !
خدام کو یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ پہلے تو اِس تقاضے سے نکاح کیا تھا اور اب طلاق دینے کو آمادہ ہوگئے ! خدام نے (اُن بزرگ سے) اِس کا سبب پوچھا ؟ فرمایا کہ میں نے نکاح کا تقاضا کسی نفسانی ضرورت کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ اُس کی منشاء (سبب)یہ تھا کہ میں نے خواب دیکھا تھا کہ میدانِ قیامت برپا ہے اور لوگ پل صراط سے گزررہے ہیں جو دو زخ کے اُوپر بچھا ہوا ہے، پھر میں نے ایک شخص کو دیکھاکہ پل صراط سے گزرتے ہوئے اُس کے قدم ڈگمگائے اور قریب تھا کہ جہنم میں جا گرے کہ اچا نک ایک بچہ نے آکر اُس کو سنبھالا اور مضبوطی کے ساتھ اُس کا ہاتھ پکڑ کر بجلی کی طرح پل صراط سے پار لے گیا ! میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ بچہ کون تھا ؟ کہا کہ اُسی شخص کا بیٹا تھا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا آج اُس کا سفارشی ہوگیا ! خواب سے بیدار ہو کر مجھے فکر ہوئی کہ میرے پاس آخرت کی اور جائیدادیں تو ہیں یعنی عبادتیں نماز روزہ وغیرہ مگر یہ جائیداد نہیں اس لیے میں نے چاہا کہ یہ جائیداد بھی پاس ہونی چاہیے چنانچہ نکاح ہوا اور بچہ پیدا ہو کر مرگیا تو اُن کا مقصود حاصل ہوگیا۔ ( فضائل صبر وشکر)
ایک حدیث ِ پاک کا مفہوم :
حدیث میں آتاہے کہ جب کسی مسلمان کا بچہ مرتا ہے تو ملائکہ اُس کی رُوح کو لے کر آسمان پر پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن سے اِرشاد فرماتے ہیں کہ تم نے میرے بندے کے بچہ کو لے لیا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہاں ! پھر فرماتے ہیں کیا تم نے میرے بندے کے جگر گوشہ کو لے لیا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہاں ! پھر فرماتے ہیں میرے بندہ نے کیا کہا ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ اُس نے آپ کی حمد (یعنی آپ کا شکر اَدا کیا) اور صبر کیا ! اس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گواہ رہو میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا اور فرمایا اُس کے لیے جنت میں ایک محل تیار کرو اَور اُس کا نام '' بَیْتُ الْحَمْد'' رکھو ! یہ چھوٹوں کے مرنے پر وعدہ ہے جس سے ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ بچوں کے مرنے پر نعم البدل (یعنی اچھا بدلہ) عطا فرماتے ہیں یعنی مغفرت اور جنت کا محل ! ! !
بڑی اَولاد کے مرجانے کی فضیلت :
اور بڑی اَولاد کے مرجانے پر بھی اسی طرح اَجر و ثواب کا وعدہ ہے حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مَنْ اَخَذْتُ صَفِیَّہ (اَیْ حَبِیْبَہ ) لَمْ یَکُنْ لَّہ ثَوَاب اِلَّا الْجَنَّةُ اَوْ کَمَا قَالَ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے محبوب اور پیارے کو لے لوں جو عام ہے خواہ وہ محبوب چھوٹا ہو یا بڑا (بھائی ہو یا بیوی) تو اُس کا اَجر جنت کے سوا کچھ نہیں یعنی وہ جنت میں ضرور پہنچے گا ! یہاں بھی نعم البدل ( اچھے بدل) کا وعدہ ہے اور جنت سے بہتر نعم البدل اور کیا ہوگا ؟ !
اسی مضمون کو ایک بدوی (دیہاتی )نے بہت خوبی کے ساتھ بیان فرمایا ہے جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بہت صدمہ ہوا تو بدوی نے آکر اشعار میں اُن کو تسلی دی۔ اشعار تو اہلِ عرب کی گھٹی میں ہیں ، بچہ بچہ یہاں تک کہ عورتیں بھی عرب میں شاعر ہوئی ہیں ! حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے اُس بدوی(دیہاتی شخص) سے بہتر کسی نے تسلی نہیں دی چنانچہ کہتا ہے :
اِصْبِرْ نَکُنْ بِکَ صَابِرِیْنَ فَاِنَّمَا صَبْرُ الرَّعِیَّةِ بَعْدَ صَبْرِ الرَّأْسِ
(اے ابن ِعباس رضی اللہ عنہما) آپ صبر کیجیے تاکہ ہم بھی آپ کی وجہ سے صابر بنیں مطلب یہ کہ آپ مقتداء ہیں آپ کے اَفعال کی سب اتباع کرتے ہیں پس ایسے حوادِث میں آپ صابر رہیں تو ہم مصیبت کے وقت میں صابر رہا کریں گے آپ نے صبر نہ کیا تو عوام بھی صبر نہ کریں گے !
سبحان اللہ ! کیسے اچھے عنوان سے صبر کی ترغیب دی ! آگے کہتا ہے :
خَیْر مِّنَ الْعَبَّاسِ اَجْرُکَ بَعْدَہ وَ اللّٰہُ خَیْر مِّنْکَ لِلْعَبَّاسِ
''آپ کے لیے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے زندہ رہنے سے وہ اَجر بہتر ہے جو اُن کے وصال پر آپ کو ملے گا ! کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اگر زندہ رہتے تو بہت سے بہت وہ آپ کو ملتے اور آپ کے لیے ثواب اُن سے بہتر ہے''
کیونکہ ثواب کی حقیقت ہے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی تو یوں کہیے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وصال پر صبر کرنے سے خدا آپ کو ملا اور یقینا اللہ تعالیٰ سب سے بہتر ہے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لیے خدا آپ سے بہتر ہے کیونکہ وہ مر کر خدا کے پاس پہنچ گئے اگر نہ مرتے تو دُنیا میں رہتے جس میں رویت ِ الٰہی ( یعنی اللہ کا دیدار) نہیں ہوسکتا ! ( اَلْجَبْرُ بِالصَّبْرِ ملحقہ فضائل صبر وشکر)
صبر و تسلی کاایک اور مضمون :
مرنے کے متعلق یہ سوچے کہ اگر وہ اِس وقت نہ مرتا بلکہ زیادہ دِن تک بیمار رہ کر صاحب ِ فراش بن کر (یعنی بستر پکڑ کر) مرتا تو شاید مبغوض ہو کر مرتا کہ شاید رشتہ دار بھی گھبرا جاتے اور اِس میں بھی اُس کا نقصان تھا ! کیونکہ تم اُس کو اِس حال میں یاد نہ کرتے اور ثواب بھی نہ پہنچاتے کیونکہ ثواب اُسی کو پہنچا تے ہیں جس کے مرنے کا صدمہ ہوتا ہے اور جس کے مرنے پر خوشی ہو کہ اچھا ہوا پاپ کٹا، اُس کو بہت کم یاد کیاجاتا ہے ! !
اسی طرح تمہارا بھی نفع اِسی میں ہے کہ اپنا عزیز محبوب حالت میں مرے (یعنی تمہاری نگاہ میں محبوب ہو) کیونکہ تم اُس کو یاد کرتے ہو تو وہ بھی تمہارے واسطے دُعا کرتا ہے ! پس تم کو اُس سے نفع پہنچتا ہے اور اُس کو تم سے نفع پہنچتا ہے۔ ( اَلْجَبْرُ بِالصَّبْرِ ملحقہ فضائل صبر وشکر)
حضرت اُمِ سلیم کا واقعہ اور صبر وتسلی کا مضمون :
حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہاکا قصہ حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ اُن کا ایک بچہ بیمار تھا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ (اُن کے شوہر) باہر سے آکر اُن کا حال دریافت کیا کرتے تھے ایک دن اُس کا انتقال ہوگیا اور شام کو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہانے اُن پر ظاہر نہیں کیا کہ بچہ کا اِنتقال ہوگیا تاکہ سن کر پریشان نہ ہوں اور پریشانی میں کھانا نہ کھا سکیں بلکہ جب اُنہوں نے دریافت کیا کہ بچہ کیسا ہے ؟ تو یہ جواب دیا کہ اَب تو سکون ہے (اور واقعی موت سے بڑھ کر کیا سکون ہوگا) یہ سن کر اُنہوں نے کھانا کھایا اور رات کو بیوی کی طرف میلان بھی ہوا۔ بیوی نے بے انتہا صبر کیا کہ اِس سے بھی انکار نہ کیا ! جب صبح ہوئی تو کہا کہ میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھتی ہوں کہ اگر کسی نے ہم کو کوئی چیز بطور ِ امانت کے دی ہو پھر بعد میں وہ امانت کو واپس لینا چاہے تو کیا کرنا چاہیے ؟
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی چاہیے کہ جب مالک اُس کو واپس لینا چاہے تو بڑی خوشی کے ساتھ واپس کردیا جائے۔ حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہانے کہا کہ تو پھر اپنے بچہ پر صبر کرو اور خوشی کے ساتھ اُس کے دفن کرنے کا انتظام کرو کیونکہ خدا نے اپنی امانت لے لی ہے ! ! !
حضرت ابوطلحہ بڑے جھلائے (یعنی غصہ ہوئے ) کہ تم نے رات ہی کو کیوں خبر نہ کی ۔کہا کیا ہوتا رات کو دفن کرنے میں مصیبت ہوتی اور رات بھر پریشان رہتے کھانا بھی نہ کھاتے اس لیے رات کو خبر نہ کی۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اُم سلیم کا عمل بہت پسند آیا اور میں اُمید کرتا ہوں کہ آج رات تم دونوں کو خدا نے مبارک اولاد عطا فرمائی ہے چنانچہ عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جو بڑے عالم اور بڑے سخی صاحب ِاموال واَولاد تھے !
حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے سچ فرمایا کہ یہ اَولاد اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس کو وہ جب لینا چاہیں خوش ہوکر خدا کے حوالہ کردینا چاہیے۔ اس پر شاید یہ سوال ہوگا کہ یہ اَمانت ہے تو پھر اللہ نے اِس کی اتنی محبت کیوں دی ہے اگر محبت نہ ہوتی تو اِتنا غم بھی نہ ہوتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اتنی محبت اِس وجہ سے دی ہے تاکہ پرورش ہو سکے کیونکہ بغیر محبت کے اس کے پیشاب پاخانہ کو اُٹھانا اور اُس کی پرورش کرنا مشکل ہے اسی لیے غیر کی اَولاد پالنا بہت دُشوار ہے۔ اور جب بچہ کی پرورش ہو چکتی ہے تو محبت میں بھی کمی ہونے لگتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ بڑے بیٹے کے ساتھ ویسی محبت نہیں ہوتی جیسی چھوٹے سے ہوتی ہے غرض اَولاد کو بھی خدا کی چیز سمجھو کہ اُس کی اَمانت چند روز ہمارے پاس ہے پھر اِس کے فوت ہونے پر زیادہ(اَفسوس نہ ہوگا) کیونکہ پریشانی کی بنیاد تو یہی ہے کہ تم اُن کو اپنی چیز سمجھتے ہو۔ (جاری ہے)
قسط : ١٧
رحمن کے خاص بندے
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارُالعلوم دیوبند )
٭٭٭
میانہ روی ، ایک پسندیدہ صفت :
''عِبَادُ الرَّحْمٰن ''کی صفات بیان کرتے ہوئے فضول خرچی اور اسراف کی مذمت کے ساتھ ساتھ کنجوسی کو بھی ناپسند قرار دیا گیا، گویا کہ اسرف اور بخل کے درمیانی درجہ کو پسندیدہ صفت مانا گیا ہے، یہ میانہ روی اسلام کی ایک نہایت امتیازی صفت ہے اسلام ہر معاملہ میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال پسندی کی تعلیم دیتا ہے چنانچہ فرمایا گیا :
( وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا) ١
''وہ جب مال خرچ کرنے پر آتے ہیں تو نہ تو فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی خرچ میں تنگی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں ''
یہاں اگرچہ یہ مضمون بخل واسراف کے تذکرہ کے ضمن میں آیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شریعت میں ہر معاملہ میں میانہ روی پسند ہے بلکہ یہ اُمت ِ محمدیہ کا خاص امتیاز ہے چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا :
( وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ) ٢
''اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو اور رسول تم پر گواہی دینے والے ہوں ''
١ سُورة الفرقان : ٦٧ ٢ سُورة البقرہ : ١٤٣
امام راغب اصفہانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ''وسط'' سے مراد ایسی پسندیدہ حالت ہے جو دو ناپسندیدہ اور نا گوار حالتوں کے درمیان ہو مثلاً ''جو دو سخا'' جو فضول خرچی اور بخل کے درمیان کی صفت ہے ! ١ اس معنی کے اعتبار سے عدل اور صراطِ مستقیم پر استقامت ہی میانہ روی کا سب سے بڑا مصداق ہے اسی لیے قرآنِ کریم میں جابجا صفت ِعدل کی تاکید کی گئی ہے اور اسے ایک قابل ِتعریف صفت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ایک آیت میں ارشاد فرمایا گیا :
( وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اُمَّة یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہ یَعْدِلُوْنَ) ٢
''اور جن کو ہم نے پیدا کیا ہے اُن میں ایک جماعت ہے جو سچی راہ بتلاتے ہیں اور اسی کے موافق اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں ''
اور ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ثَلَاث مُنْجِیَات خَشْیَةُ اللّٰہِ تَعَالٰی فِی السِّرِ وَالْعَلَانِیَةِ ، وَالْعَدْلُ فِی الرِّضٰی وَالْغَضَبِ، وَالْقَصْدُ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی ۔ ٣
''تین چیزیں نجات دینے والی ہیں (١) ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرنا (٢) خوشی اور ناراضگی میں بھی عدل پر قائم رہنا (٣) مالداری اور محتاجگی میں میانہ روری اختیار کرنا''
غور کیا جائے تو یہ تینوں باتیں انتہائی قیمتی اور پُر حکمت ہیں ، بہت سی مرتبہ آدمی لوگوں کے سامنے تو خوب پارسائی کا اظہار کرتا ہے لیکن اُس کی ذاتی زندگی تقویٰ سے خالی ہوتی ہے، ایسا شخص کبھی بھی بارگاہِ ربُ العالمین میں سرخ روئی حاصل کرنہیں کرسکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چھپی اور کھلی بات سے واقف ہے، اس لیے کوئی شخص کہیں بھی اور کبھی بھی اُس سے چھپ نہیں سکتا اسی طرح عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جس سے خوش ہوتے ہیں تو اس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں اور بے تحاشا
مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور جس سے ناراض ہوئے تو اُسے بس جہنم کے آخری درجہ کا مستحق قرار
١ عُمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ ٦٣٠ ٢ سُورة الاعراف : ١٨١
٣ السراج المنیر ٣/٥٥ عن انس بسند ضعیف،ومثلہ فی المعجم الاوسط للطبرانی ٦/٣٥٢ عن ابن عمر
دینے میں لگ جاتے ہیں اور اس کی خوبیوں کو یکسر فراموش کردیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ میں اور اِداروں میں فتنے رونما ہوتے ہیں اور لوگوں کی حسنات وسیئات کا توازن بگڑ جاتا ہے اس لیے ایسے مواقع پر بہرحال میانہ روی ہی سے نقصان سے نجات مل سکتی ہے !
یہی حال مالداری اور تنگدستی کا ہے کہ آدمی عموماً مالی وسعت کے نشہ میں حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھتا ہے اور تنگدستی میں بے جا اخراجات کی وجہ سے مزید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جبکہ میانہ روی اختیار کرنے میں ہی ہر طرح کی عافیت ہے جس کا ہر شخص تجربہ کر سکتا ہے !
اَخلاق میں توازن :
انسانی اَخلاق میں بھی درمیانی خلق ہی انسانیت کے لیے باعث ِعزت وشرافت ہے جس کی تفصیل کرتے ہوئے علماء نے فرمایا ہے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے تین طرح کی صلاحیتیں رکھی ہیں :
(١) قوت ِ عقلیہ (٢) قوت ِ شہوانیہ (٣) قوتِ غضبیہ
اب ہر ایک کے تین درجات ہیں :
(الف ) پس قوت ِ عقلیہ میں اگر آدمی حد سے زیادہ آگے بڑھ جائے اور ہر جگہ اپنی فکری صلاحیت لگانے کا شوق رکھے اور کسی حد پر رُکنے کو تیار نہ ہو تو انسان کی یہ کیفیت مذموم ہے جسے ''جزبرہ'' کہا جاتا ہے اس طرح کا انسان عمومًا گمراہ ہوجاتا ہے اور اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا !
اس کے بالمقابل اگر آدمی ضروری عقلی صلاحیت سے محروم ہو تو یہ بھی پسندیدہ حالت نہیں ہے اسے ''سفاہت'' یعنی بے وقوفی سے تعبیر کیا جاتا ہے !
اور ان دونوں حالتوں کے درمیان ایک حالت ہے جسے ''حکمت'' سے تعبیر کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صرف ضرورت کی جگہ پر عقل کا استعمال کرے اور اپنی حدود پر قائم رہے، تو یہ صفت پسندیدہ ہے جس کی قرآنِ کریم میں تعریف کی گئی ہے ارشاد ِ خداوندی ہے :
( وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا) ( سُورة البقرہ : ٢٦٩)
''اور جس کو حکمت عطا کی گئی اُسے خیرِ کثیر سے نوازا گیا''
( ب ) اسی طرح قوت ِ شہوانیہ کے بھی تین درجات ہیں : اوّل یہ کہ آدمی شہوت کے حصول میں بے قابو ہوجائے اور حلال و حرام کی تمیز چھوڑدے اور دن ورات اِسی اُدھیڑ بُن میں لگا رہے کہ کیسے شہوت اور لذت نصیب ہو ! تو یہ کیفیت انتہائی مذموم ہے جسے ''فجور' ' کہا جاتا ہے ایسا انسان فتنہ وفساد کا سرچشمہ اور پورے معاشرہ کے لیے رُسوائی کا سامان بن جاتا ہے !
اس کے بالمقابل اگر آدمی جسمانی اعتبار سے ایسا کمزور ہوکہ شہوت کی تکمیل پر قادر ہی نہ ہو تو یہ صورت بھی پسندیدہ نہیں ، اسے''عنتہ'' نامرد کہا جاتا ہے !
اور دونوں حالتوں کے درمیان وہ حالت ہے جسے ''عفت'' کہتے ہیں یعنی نہ تو آدمی بے قابو اور نہ عاجز نامرد ہو بلکہ درمیانی کیفیت اسے نصیب ہوکہ شہوت کے حصول کے حرام طریقوں سے بچے اور صرف حلال طریقے کو اپنائے یہی درمیانی طریقہ قابلِ تعریف اور لائق ِ تقلید ہے ! ایسے لوگوں کے بارے میں قرآنِ کریم میں فرمایا گیا :
( وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ ) ١
''اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کو تھام کر رکھتے ہیں ، مگر اپنی بیویوں اور باندیوں سے تو ان پر کچھ ملامت نہیں ، پس جو شخص اس کے علاوہ شہوت رانی کرے وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ''
(ج) کچھ اسی طرح حال قوت ِ غضبیہ کا بھی ہے کہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل اور جانی ومالی نقصان کے دفاع کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان میں قوت ِ غضبیہ رکھی ہے، جو فی نفسہ ضروری ہے، لیکن اگر یہ قوت حد سے آگے بڑھ جائے کہ موقع بے موقع ہر وقت آدمی غصہ ہی کرتا رہے، کمزوروں پر ظلم کرے، چھوٹوں پر جبر کرے، گھر والوں پر خواہ مخواہ دھونس جمائے تویہی قوت ِ غضبیہ آدمی کے لیے موجب ِ لعنت بن جاتی ہے، اس حالت کو ''تہوّر'' کہا جاتا ہے !
١ سُورة المومنون : ٥ تا ٧
اس کے بالمقابل اگر آدمی سرے سے قوت ِ غضبیہ سے محروم ہو اور جہاں غصہ آنا چاہیے وہاں بھی اسے غصہ نہ آئے تو اسے ''جمود'' کہتے ہیں اور ایسا شخص ''دبّو ، دیوث'' اور بزدل کہلاتا ہے معاشرہ میں اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی اور رُسوائی اور ذلت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
لیکن ان دونوں حالتوں کے درمیان جو صفت ہے اُسے ''شجاعت'' کہا جاتا ہے کہ نہ تو آدمی بے موقع غصہ کرے اور نہ ہی موقع پر مداہنت کرے بلکہ اس قوت کا برموقع اور بر محل استعمال کرے، تویہ صفت قابلِ تعریف ہے ١
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی خاص صفت یہ تھی کہ ''آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے نہ تو انتقام لیا اور نہ غصہ کا اظہار فرمایا، لیکن جب اللہ کے کسی حکم کو توڑنے کی بات سامنے آتی تو اُس وقت آپ کو ایسا جلال آتا تھا کہ کسی کو آپ کے غصہ کی تاب لینے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ (شمائلِ ترمذی ص ٢٤ )
اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر معاملہ میں میانہ روی اختیار کرے اور افراط و تفریط اور حدود سے تجاوز سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر کی توفیق سے نوازیں اور کوتاہیوں کو درگزر فرمائیں ، آمین (جاری ہے)
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org
١ تلخیص وتشریح اَز فیض ابرار، مجموعہ خطبات : مولانا سیّد اَبرار احمد صاحب دہلوی جلد چہارم
میرے حضرت مدنی قسط : ٢
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
اَمیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
بخیل کا مال ہے جتنا ہووصول کرلو :
ایک دفعہ حضرت تشریف لائے، گرمی کا موسم ! میں نے حضرت کے خادم سے پوچھا کہ تھرمس میں برف ہے ؟ وہ یہ سمجھے کہ پینے کے واسطے پوچھا ہے وہ کہنے لگے کہ تھوڑا سا ہے لاؤں ؟ میں نے کہا کہ پینے کو نہیں پوچھتا بلکہ میرے تھرمس میں سے اپنے تھرمس میں بھر لو، وہ کوئی نئے خادم تھے کہنے لگے کہ نہیں حضرت اس میں ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ جتنی جگہ ہے اس میں بھر لو، بخیل کا مال ہے جتنا ہو وصول کرلو۔ ( آپ بیتی ص ٤٠١)
یہ بخیل اِس کو پھر چھینکے پر رکھ دیتا :
ایک مرتبہ میرے پاس دہلی کے ایک صاحب نے گاجروں کے حلوے کا ایک پیکٹ بذریعہ ڈاک بھیجا اور اسی دن معلوم ہوا کہ حضرت تشریف لا رہے ہیں میں نے احترام واِشتیاق میں اس کو اپنے کمرے کے سامنے چھینکے پر رکھوادیا۔ اُس زمانہ میں میرا قیام مستقل اوپر کے کمرے میں شب وروز رہتا تھا حضرت کے تشریف لاتے ہی میں نے ایک مخلص سے کہا کہ بھائی چھینکے پر سے پیکٹ اُٹھا کر کھول کر حضرت کی خدمت میں پیش کرو۔ حضرت نے خود ہی پیش قدمی فرمائی اور چھینکے پر سے اس کو اُتار لیا اور اس کے کپڑے کو پھاڑ کر پھینک دیا ! وہ تو بادشاہ تھے ان کی نگاہ میں ایسی معمولی چیزیں کیا تھیں اور میں بقول ان کے بخیل اوّل ! تو مجھے اس کپڑے پر قلق ہوا کہ کیسا ضائع ہوا ! اور حضرت نے ایک دو اُنگلی تو اُس میں سے خود نوش فرمائیں اور باقی سارا جس کی مقدار اندازاً دو سیر ہوگی ایک ایک لقمہ سارے مجمع کوجو حضرت قدس سرہ کے ساتھ ان کے آنے پر ہمیشہ ہوجاتے تھے تقسیم فرمادیا اور میری نہ تواضع فرمائی اور نہ چکھایا اور سارا ختم کر کے ارشاد فرمایا کہ یہ بخیل اس کو پھر چھینکے پر رکھ دیتا۔ (آپ بیتی ص ٤٠١، ٤٠٢)
کھدر کا کپڑا :
حضرت نور اللہ مرقدہ کو کھدر سے تو عشق تھا اور ولایتی کپڑے سے نفرت تھی ! یہ تو ساری دنیا کومعلوم ہے، لیکن اس سیہ کار کے حال پر ایک مزید شفقت یہ تھی کہ میرے بدن پر جب بھی بدیسی کُرتا دیکھتے گریبان میں ہاتھ ڈال کر ایسے زور سے چاک فرماتے کہ نیچے تک وہ پھٹ جاتا تھا ! حضرت قدس سرہ کی حیات تک ڈر کے مارے کھدر کا میرے یہاں بہت ہی اہتمام رہا، چونکہ حضرت قدس سرہ کی آمد کا کوئی وقت مقرر نہ تھا نہ دن نہ رات، اس لیے گرمی میں بھی کھدر کا کرتا جھک مارکر پہننا پڑتا تھا !
حضرت گنگوہی قدس سرہ کی صاحبزادی نور اللہ مرقدہا کوحضرت سہارنپوری قدس سرہ سے بہت ہی محبت تھی اور حضرت کو بھی بہت ہی زیادہ ان سے عقیدت و محبت اور ان کا احترام تھا ! میرے حضرت کھدر بالکل نہیں پہنتے تھے۔ حضرت صاحبزادی صاحبہ نور اللہ مرقدہا نے بہت اہتمام سے روئی منگوا کر بہت ہی باریک سوت خود کاتا اور ایک جوڑا کرتا، پاجامہ، ٹوپی خود اپنے دست ِ مبارک سے سیا اور میرے حضرت سہارنپوری قدس سرہ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا، حضرت قدس سرہ نے ایک جمعہ تو ان کے احترام میں اس جوڑے کو پہن کر پڑھا اور دوسرے دن نکال کر اس ناکارہ کو یہ کہہ کر عطا فامایا کہ لو تم تو مولوی حسین احمد کی خاطر میں ہرقت کھدر پہنتے ہی ہو اِس کو بھی پہن لینا۔ (آپ بیتی ص ٤٠٢)
میرا سامان کچے گھر میں جائے گا :
جب اعلیٰ حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے بعض اَعذار کی وجہ سے مدرسہ کے جلسہ میں تشریف آوری سے عذر فرمادیا تو میرے حضرت قدس سرہ نے حضرت مدنی کو تار دیا جو اُس وقت کلکتہ تشریف فرما تھے کہ جلسہ میں تمہاری شرکت ضروری ہے، حضرت مدنی کو اللہ تعالیٰ بہت ہی جزائے خیر عطا فرمائے کسی دوسری جگہ تشریف لے جانا تھا وہاں التواء کا تار دے کر فورًا سہارنپور تشریف لے آئے، چونکہ خاص طور سے بلائے گئے تھے اس لیے مدرسہ کے مہمان خانہ میں حضرت مدنی کے قیام کا اہتمام میرے حضرت قدس سرہ نے فرمایا تھا تانگہ سے اُتر کر حضرت مدنی مدرسہ میں تشریف لے گئے میرے حضرت سے مصافحہ اور دست بوسی فرمائی، خدام سامان لے کر پیچھے پیچھے آرہے تھے میرے حضرت نے فرمایا کہ سامان اوپر مہمان خانہ میں لے جاؤ، حضرت مدنی نے ارشاد فرمایا کہ میرا سامان کچے گھر میں جائے گا۔ (آپ بیتی ص٤٠٢)
اَوجز کی چھ جلدیں حضرت مدنی و حضرت رائے پوری کے حالات میں آسکتی ہیں :
اس کے بعد سے جب تک مظاہر علوم کا سالانہ جلسہ ہوتا رہا جو تقسیمِ ہند تک بڑے اہتمام سے ہوتا رہا اور اس کے بعد سے بعض مجبوریوں کی وجہ سے بند ہوگیا حضرت ہمیشہ دو مرتبہ کے علاوہ سالانہ جلسہ میں تشریف لاتے رہے اور گویا حضرت حکیم الامت کے بعد مدرسہ کے جلسہ کے واعظ حضرت شیخ الاسلام ہی بن گئے، دو مرتبہ تشریف نہ لاسکے ایک مرتبہ تو جلسہ کے موقع پر حضرت مدحِ صحابہ کے سلسلے میں لکھنؤ جیل میں تھے اس سال جلسہ میں بعض مفسدین نے کچھ خلفشار پھیلایا، جلسہ کو بند کرنے کی کوشش بھی کی اور ایک مرتبہ باوجود دیوبند تشریف فرما ہونے کے میری حماقت سے تشریف آوری نہ ہوئی، میں تو مطمئن رہا کہ حضرت کو جلسہ کی تاریخ معلوم ہے دفتر سے ضابطہ کا خط اور اشتہار جا چکا ہے اور خود حضرت کو بھی مدرسہ کے جلسہ کا اہتمام رہتا تھا مجھ سے اکثر ایک دو ماہ قبل دریافت فرما لیا کرتے تھے کہ اپنے جلسے کی تاریخ نوٹ کرادو،کبھی میری تاریخ کہیں دوسری جگہ کی ہوجائے اور تم خفا ہو، اس لیے میں بالکل مطمئن تھا حضرت تشریف نہ لائے اور دیوبند میں مقیم رہے۔ جلسہ کے دن شام کو تشریف لائے اس لیے کہ بعض خصوصی مہمانوں سے خود حضرت کو بھی ملنا تھا میں نے عرض کیا کہ حضرت آج تو بڑاانتظار کرایا خیر تو ہے ؟ حضرت نے فرمایا کہ تم نے بلایا ہی نہیں ، میں نے عرض کیا کہ حضرت مدرسہ سے تو مطبوعہ اشتہار اور خط دونوں گئے ! حضرت نے فرمایا کہ وہ تو گئے تھے مگر اب تک کا معمول ہمیشہ یہ رہا کہ مدرسہ کے خط کے ساتھ یا علیحدہ مستقل حکم نامہ تمہارا بھی جاتا تھا اب کے نہیں گیا، میں نے سمجھا کہ میری آمد تمہارے نزدیک مناسب نہیں ہے مجھے اس وقت اپنی حماقت پر بہت ہی قلق ہوا، اس کے بعد سے کبھی مستقل عریضہ نہیں چھوڑا۔
اتنے واقعات اس وقت ذہن میں ہیں کہ اَوجز کی چھ جلدیں حضرت مدنی ورائے پوری کے حالات میں آسکتی ہیں ۔ ( آپ بیتی ص ٤٠٢، ٤٠٣)
حضرت مدنی کی حضرت شیخ پر شفقت و محبت :
میرے حضرت سیّدی وسندی ماوائی وملجائی شیخ الاسلام حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ قدس اللہ سرہ اَعلی اللہ مراتبہ کو جو شفقت ومحبت اس سیہ کار پر رہی اس کے دیکھنے والی سینکڑوں نہیں ابھی تک ہزاروں آنکھیں موجود ہیں ! حضرت قدس سرہ کا ہمیشہ مستقل اور مستمر معمول یہ رہا کہ دیوبند سے رُڑکی لائن پر جاتے ہوئے سہارنپور کے قصبات میں کسی جگہ جاتے ہوئے اگر ایک گھنٹے کا وقفہ بھی ملتا تھا تو واپسی کا تانگہ لے کر ضرور کرم فرماتے تھے، ہر چند کہ میں بار بار تکلیف کے خیال سے گستاخانہ لہجے میں نکیر بھی کرتا سینکڑوں واقعات اس کے گزرے جو اصل واقعہ اس جگہ لکھوانا ہے وہ تو آگے آرہا ہے، بیچ میں ایک چھوٹا سا فقرہ لکھواتا ہوں ۔ (آپ بیتی ص ٢٠١)
خیال ہوا کہ تمہارے درشن کر آؤں :
ایک مرتبہ دسمبر کا زمانہ، سردی زور پر، اور بارش اس سے بھی زیادہ ساڑھے گیارہ بجے رات کے میں اپنے مکان کے دروازے پر کتاب دیکھ رہا تھا، دروازے ہی میں سویا کرتا تھا، زنجیر زور سے کھٹکی، پوچھا کون ؟ ارشاد ہوا : حسین احمد ! ننگے پاؤں اُٹھ کر کواڑ کھولے اور تعجب سے پوچھا : حضرت اس وقت بارش میں ؟ ارشاد ہوا کہ لکھنؤ جانا ہے ، کلکتہ میل دو گھنٹہ لیٹ ہے، یہ تو مجھے یقین تھا کہ تم جاگ رہے ہوگے اس لیے خیال ہوا کہ تمہارے درشن کر آؤں ! میں نے نہایت گستاخی سے کہا ان مبارک ہونٹوں سے یہ لفظ بڑا ثقیل ہے ! میں نے چائے کی درخواست کی، فرمایا ریل پر جاکر پیوں گا، چائے پی کر بارش میں جانا پڑے گا، تانگہ بھی باہر بھیگتا رہا اور حضرت ایک گھنٹہ تشریف فرماکر کچھ خصوصی ارشادات فرما کر تشریف لے گئے، یہ بات تو بیچ میں آگئی تھی، سینکڑوں واقعات اس نوع کے پیش آئے، ان کے لیے ایک الف لیلہ ولیلہ چاہیے !
اَطرافِ سہارنپور کے سفر کا معمول :
اس وقت جو قصہ مقصود تھا وہ بھی ایک عجیب دسمبر کی رات، حضرت قدس سرہ آبھہ ایک گاؤں نانوتہ کے قریب تشریف لے گئے تھے ویسے تو اُس زمانہ کا اکثر یہ معمول تھا کہ حضرت ضلع سہارنپور کے کسی قصبے یا گاؤں میں جاتے تو اسٹیشن سے کار میں سیدھے میرے گھر تشریف لاتے،مجھے کار میں بٹھا کر اپنے ہمراہ لے جاتے تھے تین چار گھنٹے کا سفر ہوتا تھا واپسی میں مجھے مکان پر اُتار کر اور اسی کار میں اسٹیشن تشریف لے جاتے اور وہاں سے ریل میں ! اکثر دیوبند سے سہارنپور کا سفر آمدورفت کا ریل میں ہوتا اور سہارنپور کے اسٹیشن سے اسٹیشن پر واپسی تک کار میں آبھہ، نانوتہ ،بہٹ، رائے پور، گنگوہ کے سفرمیں اکثر معیت رہی۔
ریڑھی تاج پورہ کے سالانہ جلسہ کا تو خاص مستمرہ دستور تھا کہ حضرت قدس سرہ شام کو چار بجے کی گاڑی سے دیوبند تشریف لاتے، چائے نوش فرماتے، عصر کی نماز مدرسہ کی مسجد میں پڑھ کر کار میں ریڑھی جاتے، مغرب وہاں پڑھ کرایک گھنٹہ وہاں آرام فرماتے، اُٹھنے کے بعد کھانا نوش فرماتے یہ ناکارہ دستر خوان پرتو شریک ہوتا لیکن کھانے میں شریک نہ ہوتا، اس لیے کہ رات کو کھانے کا معمول نہیں تھا، عشاء کے بعد مدرسہ کے جلسہ میں پورے بارہ بجے تک وعظ فرماتے، پورے بارہ بجے وعظ ختم کرکے تقریبًا آدھ گھنٹہ مصافحوں میں لگتا اور کار میں مجھے بٹھا کر مجھے میرے دروازے پر چھوڑ کر اُسی کار میں اسٹیشن تشریف لے جاتے اور ڈیڑھ بجے کی گاڑی سے دیوبند اور علی الصباح مدرسہ کا سبق۔ (آپ بیتی ص ٢٠١، ٢٠٢)
یہ دیکھوں کہ آپ ان حالات میں کیا ارشاد فرمائیں گے :
اصل واقعہ دسمبر والا جو لکھنا شروع کیا تھا وہ مؤخر ہوتا جارہا ہے ایک مرتبہ آبھہ کار میں تشریف لے گئے معلوم نہیں کہ یہ ناکارہ ساتھ کیوں نہیں تھا ؟ غالبًا مدرسہ کی کوئی ضرورت تھی، دوسرے دن مغرب کے بعد حضرت قدس سرہ آبھہ سے واپش تشریف لائے اس قدر زور دار طوفانی بارش کہ کمرے سے باہر پاؤں رکھنا مشکل، اتنی ہی زو ردار سردی اور حضرت قدس سرہ کو شدت سے بخار آتے ہی فرمایا کہ مغرب نہیں پڑھی ہے، راستے میں دیر ہوتی چلی گئی، کہیں اُترنے کی جگہ نہیں ملی، مشلح وغیرہ سب بھیگ رہا ہے، میں نے جلدی سے لنگی پیش کی، کپڑے اُتارے لنگی اور چادر میں حضرت نے مغرب پڑھی، دو تین خادم بھی ساتھ تھے، اتنے حضرت نے نہایت ہی اطمینان سے مغرب کی جماعت کرائی، میں نے دو انگیٹھیاں بھرواکر منگوائیں اور عزیزم مولوی نصیر الدین کو اللہ بہت ہی بلند درجات عطا فرماوے دارین کی ترقیات سے نوازے اور ان چیزوں کے ثمرات وہ خود بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے وہ بغیرکہے چائے تیار کر کے لے آیا، چائے کی پیالی پیش کی گئی اور میں نے بری عادت کامظاہرہ کیا کارتو سہارنپور ہی تک تھی وہ حضرت کو اُتار کر چلی گئی میں نے عرض کیا حضرت نظامِ سفر ؟ ارشاد فرمایا کہ خیال یہ ہے کہ اِسی وقت ساڑھے دس کی گاڑی چلا جاؤں ! میں نے عرض کیا، بہتر ہے مگر ایک منٹ سکوت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت بارش بڑی زور کی ہورہی ہے سردی بھی زوروں پر ہے بخار بھی شدت سے ہے، معلوم نہیں دیوبند اِس گاڑی کی اطلاع بھی ہے یا نہیں ؟ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ اطلاع تو نہیں ہے لیکن اگر سواری نہ ملی تو اسٹیشن کی مسجد میں لوگ رہتے ہیں میں نے عرض کیا جیسے ارشاد ہو، مگر اِس وقت میں اور صبح چھ بجے میں کوئی زیادہ فرق تو ہے نہیں !
حضرت قدس سرہ نہایت تبسم سے جن کو اب یاد کر کے رونا آتا ہے (از کاتب الحروف، یہ لفظ لکھواتے وقت شیخ کی آنکھوں میں سے پانی نکل پڑا) یہ ارشاد فرمایا فرق تو کچھ نہیں ہے یہ دیکھوں کہ آپ ان حالات میں کیا ارشاد فرمائیں گے ؟ میں نے عرض کیا وہ تو حضرت نے ملا حظہ فرما لیا ! میں عرض کرچکا ہوں کہ بہتر ہے جیسے رائے ہو۔ اس پر حضرت قدس سرہ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں صبح ہی کو جاؤں گا صرف تمہیں دیکھنا تھا بہت سے واقعات ہیں اس نوع کے۔ ( آپ بیتی ص ٢٠٢، ٢٠٣)
(جاری ہے)
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
قسط : ١
سبق آموز تاریخی حقائق
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے زُہد و قناعت،
فضل و کمال اور خدا ترسی کے بعض گوشے
انتخاب : حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی (مرتب فتاویٰ دارُالعلوم دیوبند)
عنوانات : حضرت مولانا تنویر احمد صاحب شریفی، مجلس یادگار شیخ الاسلام پاکستان کراچی
٭٭٭
علم سے زیادہ عمل پر نظر :
حضرت مولانا رفیع الدین صاحب کا حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے متعلق بیان ہے کہ :
''میں نے انسانیت سے بالا درجہ اِن (حضرت نانوتوی) کا دیکھا وہ شخص ایک مقرب فرشتہ تھا جو اِنسانوں میں ظاہر کیا گیا تھا'' (سوانحِ قاسمی ج ١ ص ١٣٠)
یہ ایک عالِم کا عالِم کے متعلق بیان ہے کہ آپ صرف عالِم ہی نہ تھے بلکہ فنا ء فی اللہ تھے۔ آہ ! اب یہ بات ہمارے اس دور میں کہاں باقی رہی۔ اب تو صرف علم ہی کو سب سے بڑا سرمایہ سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے اسلاف کی نظر علم سے زیادہ عمل پر تھی۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ علم کے ساتھ عمل نے ایک عالم کو کہاں سے کہاں پہنچادیا تھا اور لوگوں کے دلوں میں ان کے احترام واکرام کا کتنا جذبہ پیدا کردیا تھا ؟
جو اَللہ کا ہوگیا کائنات اُس پر نچھاور ہے :
خود اِن ہی مولانا رفیع الدین صاحب کا بیان ہے :
''میں پچیس برس حضرت مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کبھی بِلا وضو نہیں گیا'' (سوانحِ قاسمی ج ١ ص ١٣٠)
اللہ اللہ ! تعلق مع اللہ بھی کتنی بڑی دولت ہے دنیا کے کسی بڑے سے بڑے حکمراں کا کبھی کسی نے یہ احترام کیا ہوگا ؟ سچ ہے جو اللہ تعالیٰ کا ہوگیا ساری کائنات اُس پر نچھاور ہونا اپنے لیے فخر سمجھنے لگی ۔
عشق ِنبوی کا سچا جذبہ :
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ حج کے لیے تشریف لے گئے ، حج سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ روانہ ہوئے ، جب اس مقام پر پہنچے جہاں سے قبۂ خضرا نظر آنے لگا تو آپ کا حال یہ ہوا جیسا کہ آپ کے ساتھی کا آنکھوں دیکھا بیان ہے :
''جناب مولانا مرحوم نے اپنی نعلین اُتار کر بغل میں دبالیں اور پا برہنہ چلنا شروع کیا میں نے ان کی دیکھا دیکھی اپنی جوتیاں اُتار ننگے پیر ہمراہ مولانا مرحوم چلنا شروع کیا مگر اس قدر پتھریاں پاؤں میں چبھنے لگیں کہ متحمل نہ ہوسکا، آخر جوتا پہن کر چلنے لگا مگر مولانا مرحوم مدینہ ٔ منورہ تک کئی میل آخر شب تاریک میں اسی طرح برہنہ پا پہنچ گئے '' (سوانحِ قاسمی ج١ ص ١٥٦)
دیکھیے اسے کہتے ہیں عشق نبی کا سچا جذبہ ! یہاں عاشق جاں نثار کی شوق سر مستی قابلِ دید ہے۔ نوجوان ساتھی نوکیلے پتھروں پر تاب نہیں لاتا لیکن یہ بوڑھا عالم جسم و جاں سے بے خبر اِنہیں پھولوں کی سیج سمجھ رہا ہے اور کس شان سے جا رہا ہے کہ ''نو کیلے خاردار پتھر کے ٹکڑوں '' کو ذرّہ برابر خاطر میں نہیں لاتا، اسی کا نام ہے صحابۂ کرام کی سی زندگی !
ہمارے علماء کرام کے لیے اس واقعے میں بڑا سبق ہے۔ کاش یہ سمجھیں کہ عالم کسے کہتے ہیں ؟ لوگ چمکنا چاہتے ہیں اور حضرت نانوتوی ؟ معتبر راویوں کا بیان ہے کہ حضرت مولانا نانوتوی فرمایا کرتے تھے :
''لوگ جان نہ گئے ہوتے تو ایسا گم ہوتا کہ کوئی بھی نہ پہچانتا کہ قاسم دنیا میں پیدا بھی ہوا تھا'' ؟ (سوانح قاسمی ج١ ص ٢٤٥)
کبھی فرماتے :
''اگر مولویت کی یہ قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک تک کا بھی پتہ نہ چلتا،جانوروں کا بھی گھونسلا ہوتا ہے میرے لیے تو یہ بھی نہ ہوتا، اور کوئی میری ہوا تک نہ پاتا''
(سوانح قاسمی ج ١ ص ٢٤٦)
اللہ اللہ یہ جذبہ ٔ خلوص وللہیت ! لوگ چمکنا چاہتے ہیں اور آپ گم ہونے کی سعی فرماتے ہیں ! ہمارے اس دور کے علمائے کرام سوچیں کہ ہم خود کس انقلاب کی نذر ہوگئے تھے ؟ جو مٹنے اور گم ہونے کا سبق دینے کے لیے آیا تھا آج اُسی کے ماننے والے اپنے کو نمایاں کرنے کے درپے ہیں ، یہ بھول رہے ہیں کہ نمایاں وہی کیا جاتا ہے جو اپنے کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے !
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
نوجوان علماء کے لیے درسِ عبرت :
نوجوان علماء کے لیے یہ واقعہ سراپا درس ِعبرت و بصیرت ہے، جو لوگ حضرت نانوتوی کو بڑی بڑی تنخواہوں پر بلاتے اُن کو جواب دیا جاتا :
''مجھے صاحب ِ کمال سمجھ کر بلاتے ہیں اور میں اپنے اندر کوئی کمال نہیں پاتا ''
(سوانح قاسمی ج١ ص ٢٤٦)
ہمارے زمانے میں لوگ اپنے کو ''خاکسار'' تو لکھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ ''خاکساری'' کسے کہتے ہیں ؟ آئیے دیکھیے ! یہ ہے ایک بڑے عالم کی سچی خاکساری ! ہم اپنا کمال کسی نہ کسی راستے سے ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور رات دن کرتے رہتے ہیں مگر جو ہرفن مولانا ہے اُس کی زندگی کا یہ نقشہ ہے کہ بڑی بڑی تنخواہ آپ پر پیش ہوتی مگر یہ کہہ کر انکار کردیا جاتا ہے کہ یہاں رکھا ہی کیا ہے :
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
طالب علم کا صحیح مقام کیا ہے ؟
جس زمانے میں حضرت نانوتوی حدیث پڑھتے تھے اُس زمانے کے متعلق حضرت تھانوی جیسے بزرگ کا بیان ہے :
''مولانا محمد قاسم صاحب فرماتے تھے حدیث پڑھنے کے وقت میں یہی سوچا کرتا تھا کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے کیوں فرمائی ؟ '' (سوانح قاسمی ج ١ ص ٢٤٦)
اس سے اندازہ کیجیے کہ ایک طالب علم کا صحیح مقام کیا ہے اور اُس کے غور و فکر کی لائن کس قدر درست ہے اگر یہی طالب علم آگے چل کر ''قاسم العلوم و الخیرات'' بنا تو حق یہ ہے کہ یہی ہونا چاہیے تھااور اُس کا قائم کردہ ادارہ اگر دنیائے اسلام میں سب سے بڑھ کر ''مرکزحدیث'' کی حیثیت رکھتا ہے توکوئی تعجب و حیرت کی بات نہیں !
یہ بصیرت افروز واقعہ ہمارے عزیز طلباء کے لیے ''درسِ عبرت'' ہے۔ کاش یہ سوچیں اور غور کریں ! !
قاسم ایسا سستا ! :
لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہی غدر کے بعد دہلی تشریف لائے تو مفتی صدرالدین کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ مفتی صاحب حضرت گنگوہی سے بڑی محبت و شفقت سے ملے اور حالات کے ساتھ آپ نے یہ بھی دریافت فرمایا : ''میاں قاسم کیا کرتے ہیں ؟ ''
حضرت گنگوہی نے بتایا : ''مطبع میں تصحیح کرتے ہیں آٹھ دس روپے تنخواہ پاتے ہیں ''
یہ معلوم ہوکر مفتی صاحب سناٹے میں آگئے اور حیرت وافسوس کے لب ولہجے میں ہاتھ پر ہاتھ مار کر فرمانے لگے ''قاسم ایسا سستا، قاسم ایسا سستا ! فقیر ہوگئے، فقیر ہوگئے'' (سوانح قاسمی : ج١ ص ٢٥٢)
ہزاروں پر لات مار کر آٹھ دس روپے کی ملازمت ! اللہ شاہد ہے اگر مولانا نانوتوی چاہتے تو اپنے زمانے میں خدا کی دی ہوئی استعداد کی بدولت سینکڑوں روپے کی ملازمت کر سکتے تھے،مگر جو اپنے کو گم کردینے کی فکر میں ہوا اور حلال وغیر مشتبہ روزی کھانا چاہتا ہو وہ بڑی تنخواہ کی ملازمت کیسے قبول کرتا ؟
بڑا عالِم :
یہی مولانا قاسم ہیں جن کے علم و فضل کی گواہی دیتے ہوئے اُس وقت ایک خدا رسیدہ بزرگ حافظ عبدالقادر شہید نے فرمایا تھا : ''جا تو بڑا عالم ہے'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٢٥٦)
اور پنجاب کے ایک نامی گرامی صاحب ِ کشف وکرامات بزرگ راؤ عبدالرحمن خاں صاحب نے حضرت نانوتوی کی دعا کے جواب میں فرمایا تھا :
''بھائی ! تمہارے لیے کیا دعا کروں ؟ میں نے اپنی آنکھوں سے تمہیں دونوں جہاں کے بادشاہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے بخاری شریف پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ''
(سوانح قاسمی ج١ ص ٢٥٧)
غور کیجیے ! کیا اس کے بعد بھی آپ کے علم و عمل میں کسی کو شبہ ہوسکتا ہے ؟ مفتی صد الدین صاحب نے درد و سوز میں ڈوبی ہوئی آواز میں کتنا سچ فرمایا : ''قاسم ایسا سستا ! قاسم ایسا سستا''
نبیوں والا کام :
حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مکی رحمة اللہ علیہ سے ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے روکر اپنی ایک خاص حالت کا شکوہ فرمایا تو حضرت حاجی صاحب نے آپ کو خطاب کرکے فرمایا :
''تم سے حق تعالیٰ کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا ! جاکر دین کی خدمت کرو، ذکرو شغل کا اہتمام چھوڑدو'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٢٥٩)
کل جو عظیم الشان خدمت حضرت نانوتوی کے ذریعے ہندوپاکستان اور دوسرے ملکوں میں ہوئی اس کا کوئی باخبر اِنکار کرسکتا ہے ؟ دارُالعلوم دیوبند نامی دینی یونیور سٹی کا پوری دنیا میں جو مقام ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ! خدا ہی جانتا ہے اس ادارے سے کتنے مفسر، محدث ، فقیہ اور مبلغ اسلام پیدا ہوئے اور دنیا کے کن کن گوشوں میں پھیل کر دین کی خدمت کر رہے ہیں اور جس نے کہا بلا مبالغہ بالکل درست کہا
شاد باش و شاد ذی ، اے سرزمین دیوبند
ہند میں تو نے کیا اسلام کا جھنڈا بلند
مدارس کے دشمن سرگرم ہیں :
لکھا ہے کہ رامپور منہیاران ضلع سہارنپور کے باشندوں نے حضرت نانوتوی کو اپنے مشن میں نا کام کرنے کے لیے یہ شرمناک کار روائی کی :
''حکومت میں یہ درخواست پیش کی کہ مولانا محمد قاسم صاحب نے دیوبند میں ایک مدرسہ گورنمنٹ کے مقابلہ میں کھولاہے (یعنی آپ کا مقصد یہ ہے کہ انگریزی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے) '' (سوانح قاسمی ج١ ص ٢٧٢)
اپنوں اور غیروں دونوں نے چاہا کہ جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں نہ ہونے پائے، مگر آپ کے خلوص وللہیت کی بدولت نتیجہ کیا دیکھنے میں آیا ؟ دنیا جانتی ہے اور آزاد بھارت کا مؤرخ انصاف کے تقاضے پر لکھنے پر مجبور ہوگا کہ ہندوپاک کی آزادی بڑی حدتک ان ہی نفوسِ قدسیہ کی جدوجہد اور دعائے صبح گاہی کا نتیجہ ہے جن کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی غلامی کا شرف حاصل ہے ! مگر آہ ! پچھلے دنوں آزاد بھارت میں ''گھر تلاشی'' ١ کا جو ذلت آمیز سلوک اس ادارے کے ساتھ کیا گیا اُسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
ایمانِ کامل اور تعلق مع الرسول :
آخر حج کے لیے حضرت نانوتوی تشریف لے گئے تو واپسی میں یہ واقعہ پیش آیا کہ
''کشتی جب ساحلِ سمندر سے جہاز تک پہنچنے کے لیے کھلی تو اِس قدر تیز و تند ہوا چلنے لگی کہ کشتیاں اِدھر اُدھر قریب غرق ہونے کے جھک جاتی تھیں ، کشتی پر جو لوگ سوار تھے ہر ایک کا چہرہ زرد ہوجاتا تھا اس طوفانِ بے تمیزی سے سب لوگ گھبراتے تھے''
١ سرکار ِہند نے دارُالعلوم دیوبند کی تلاشی لی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔ (شریفی)
مگر جانتے ہیں حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کا کیا حال رہا ؟ ان کے ساتھ رہنے والے اپنی چشم دید گواہی دیتے ہیں :
''مگر مولانا اپنے حال پر رہے ہم نے کبھی مولانا کو گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا، مولوی صاحب اپنے معمولی کام بدستور اَنجام فرماتے رہے''
(سوانح قاسمی ج١ ص ٢٨٢)
کہتے ہیں ( لَنْ یُّصِیْبَنَا اِلاَّ مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ) پر ایمانِ کامل ! اب یہ باتیں ہمارے نوجوان علماء میں کہاں باقی رہیں ؟ جی چاہے تو علامہ اقبال کا یہ شعر ذرا سے تصرف کے ساتھ پڑھ لیجیے :
کبھی اے نوجواں عالمِ تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
رحمت ِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم کی ذات ِ اقدس کے ساتھ حضرت نانوتوی کو جو قلبی تعلق تھا اُس کا اندازہ اس واقعے سے لگائیے جو مولانا منصور علی خاں مرحوم نے لکھا ہے فرماتے ہیں :
''اسمِ گرامی جناب ِ رسالت مآب صلی اللہ عليہ وسلم کا سن کر لرزہ بدن پر پڑ جاتا تھا اور چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا اور ایک عجیب حالت نمایاں ہوتی تھی جو معرضِ وجود میں نہیں آسکتی'' (سوانحِ قاسمی ج١ ص ٢٨٢)
نام سن کر جس پر کیفیت طاری ہوتی ہو فرمایا جائے اُس کے باطن اور تعلق مع الرسول کا کیا حال ہوگا ؟ کہاں ہیں وہ لوگ جن کو سمجھانے والے سمجھاتے ہیں کہ دیوبندی علماء کے دلوں میں سید الکونین صلی اللہ عليہ وسلم کی محبت و عظمت ایسی نہیں جیسی بریلوی رضا خانی مولویوں کے دل میں ہے ؟ یہ دیوبندی علماء کے جداَمجدد کا حال ہے ! کیا ممکن ہے کہ آپ کی ر ُوحانی اولاد کو وراثت میں کچھ حصہ نہ ملا ہو ؟
باطن کی اصلاح کی محنت ضروری ہے :
حضرت نانوتوی کے متعلق لکھا ہے کہ طریقت میں آپ کی قابلیت بہت قابلِ رشک تھی :
''شیخ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہی آنِ واحد میں وہ مقاماتِ سلوک طے ہوگئے جو اکثر سالکوں کو سالہا سال کی محنت ِشاقہ میں بھی وصول نہیں ہوئے''
مگر بایں ہمہ آپ نے باطن کی اصلاح کے لیے کس قدر جدوجہد فرمائی ؟ اس واقعے سے قیاس کیجیے لکھتے ہیں :
مگر بایں ہمہ شانِ عبودیت آپ پر ایسی غالب تھی کہ آپ مدت تک شغل بارہ تسبیح، حبس ِدم، ذکراللہ ،وغیرہ میں مشغول رہے، چھ چھ سات سات گھنٹے برابر ذکر اللہ اور حبس ِدم کرتے تھے، جس وقت آپ اس شغل کو کرتے صرف ایک تہبند بدن پر رکھتے، وہ تہبند عرقِ بدن (پسینے) میں ایسا تر ہوجاتا تھا کہ بعد الفراغ اس کو بدن سے علیحدہ کر کے اور نچوڑ کر خشک کرتے تھے'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٣٠٣)
ہمارے مدارسِ اسلامیہ کے اساتذہ ٔ کرام سمجھتے ہیں کہ صرف کتب بینی ہی میں محنت کرناکامیابی ہے جو ظاہر کے ساتھ باطن کی صفائی سے غافل ہیں ! یہ محنت ہے باطن کی اصلاح اور تزکیۂ قلب کے لیے ! کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے اَسلاف کسی طرح بھی باطن کے لیے ظاہر سے کم محنت کرتے تھے ؟ مگر اب ظاہر کے لیے تو کسی درجے میں محنت کی اور کرائی جاتی ہے مگر باطن کی طرف دھیان بھی باقی نہیں رہا ! یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں علماء تو ہوتے ہیں مگر عمل کی جیسی دولت چاہیے نصیب نہیں ہوتی ! اب ہمارے مدارسِ اسلامیہ میں ( یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ) کے ساتھ تعلق ( یُزَکِّیْھِمْ) کو اہلِ مدارس بھول گئے ! ضرورت ہے کہ اَرباب اہلِ کمال اس طرف توجہ دیں !
نائب ِ رسول :
قلب اور باطن کی صفائی پر حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے جو محنت کی تھی کیا وہ کوئی بے سود محنت تھی ؟ ''سوانح قاسمی'' پڑھیے کہ حضرت مولانا میں اسی محنت نے کیا خوبی پیدا کردی تھی آپ کے ایک شاگردِ رشید کا بیان ہے :
''مغرب کی نماز کے بعد حکم دیا گیا کہ چھتہ کی مسجد میں حاضر رہوں ، صلوة الاوّابین سے فارغ ہوکر میرا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر میری ہتھیلی کو اپنی ہتھیلی سے اس طرح رگڑا جیسے بان بٹے جاتے ہیں '' پھر جو کیفیت پیدا ہوئی اس کے متعلق فرماتے ہیں :
''خدا کی قسم ! میں نے بالکل عیاناً دیکھا کہ میں عرش کے نیچے ہوں اور ہر چہار طرف سے نور اور روشنی نے میرا احاطہ کر لیا ہے، گویا میں دربارِ الٰہی میں حاضر ہوں میں لرزاں و ترساں تھا کہ ساری عمر مجھ پر یہ کپکپی اور یہ خوف طاری نہ ہوا تھا، میں پسینے پسینے ہوگیا اور بالکل خودی سے گزر گیا'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٢٦٦)
کیا ہمارے لیے اس میں کوئی درس نہیں ؟ نائب ِرسول صحیح معنی میں ہمارے اسی طرح کے اسلاف تھے اپنا ماحول دیکھ کر کہنا پڑتا ہے
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار ، وہ کردار ، تو ثابت وہ سیار
( رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ ) کی عملی تفسیر :
ایک دفعہ حج سے فارغ ہوکر مکہ مکرمہ سے واپس ہونے والے تھے کہ یہ وحشت ناک خبر پہنچی کہ پلونا کے میدانِ جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ یہ خبر حضرت مولانا محمد قاسم صاحب پر بجلی بن کر گری سفر ملتوی کردیا، کچھ دنوں بعد واپس ہوئے مگر کس طرح ؟ کہ اِسی غم میں
''مولانا محمد قاسم صاحب کو علالت لاحق ہوئی، جو بظاہر خفیف محسوس ہونے کی وجہ سے سفر کی مزاحم یا رُفقا کو پریشان بنانے والی تونہ ہوئی، مگر آہستہ آہستہ بڑھ کر وہی بیماری مرض الموت بنی'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٣١٦)
اب یہ احساس ملی ودینی لوگوں میں کہاں باقی رہا ؟ اللہ اکبر ! مسلمانوں کی تباہی وبربادی جو ہزاروں میل دُور ہوئی تھی اس نے سچے مسلمان کو بیمار کردیا اور بالآخر اسی غم میں جان دے دی ( رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ ) کی اس سے بڑھ کر سچی عملی تفسیر اور کیا ہوسکتی ہے ؟ مسلم حکمران اس واقعے کو پڑھیں اور اگر دل سے کوئی پکار اُٹھے تو ایمانداری سے اس پر عمل کرنے کی سعی کریں !
حضرت نانوتوی سے ایک مرتبہ ایک حجام نے آکر درخواست کی :
''تھانیدار نانوتہ نے ایک عورت کے بھگانے کا جرم مجھ پر لگا کر چالان کا حکم دیا، میں بالکل بے خطا ہوں ، خدا کے واسطے مجھے بچایئے''
کیا یہ رُودادِ غم سن کر صرفِ نظر سے کام لیا کہ یہ کوئی پیرزادہ نہیں ، کوئی رئیس نہیں ، کوئی امیر کبیر کا بیٹا نہیں ، جیسا کہ ہمارے اس دور میں ہوتا ہے ؟ نہیں بلکہ اس رُودادِ غم نے ایک ساکن بحرِ محیط میں تلاطم کی سی کیفیت پیدا کردی راوی کا بیان ہے :
''منشی محمد یٰسین سے عجب شان جلالی سے فرمایا کہ اس غریب حجام کو تھانیدار نے بے قصور پکڑا ہے، تم اس تھانیدار سے کہہ دو کہ یہ حجام ہمارا آدمی ہے، اس کو چھوڑدو، ورنہ تم بھی نہ بچوگے ! اس حجام کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈالوگے تو تمہارے ہاتھ میں بھی ہتھکڑی پڑے گی'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٣١٦)
ایک غریب بے قصور کی حمایت کا جذبہ دیکھیے، اللہ اللہ ! یہ شانِ جلالی کس کے لیے ہے ؟ ؟ ! ! ایک بے یارومدد گار اِنسان کو ظلم سے بچانے کے لیے ! جو لوگ قوم و ملک کی ہمدردی کا نام لے کر اسمبلی اور کونسل کی کرسی حاصل کرتے ہیں ، وزارت و سفارت کا اعزاز اور صرف اعزاز نہیں ہزاروں لاکھوں روپے کماتے ہیں وہ اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری کے ساتھ بتائیں غریبوں کے لیے یہ سچا جذبہ ان کے دل کے کسی گوشے میں برائے نام سہی، ہے ؟ آہ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
جانتے ہیں اس حجام کا کیا ہوا ؟ تھانیدار نے روز نامچے پر لکھا ہوا نام کاٹ دیا اور کاٹ کیا دیا اس کو کانٹا پڑا
عالمانہ شان کی مٹی پلید نہ کیجیے :
حضرت محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں نواب کلب علی خاں (رامپور) کے وزیر عثمان خاں اور ان کے سیکریٹری نے آکر درخواست کی :
''نواب صاحب حضرت والاکی زیارت کے بے حد آرزو مند ہیں ''
ناظرین سمجھتے ہوں گے مولانا فورًا ساتھ ہولیے، مگر ان کی عالمانہ شان اور کمالِ استغناء ملاحظہ ہو، نواب صاحب مرحوم کے وزیر عثمان اور اُن کے سیکریٹری کو برجستہ جواب فرمایا :
''نواب صاحب ہی تو میری ملاقات کے مشاق ہیں ، میں تو ان کی زیارت کا مشاق نہیں ہوں ، اگر ان کو اشتیاق ہے تو خود مجھ سے ملنے آئیں ، ان کے پیروں میں تو مہندی لگی ہوئی نہیں ہے'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٣٢٢)
یہ آج کا جواب نہیں جب نواب بے چارے نوابی کھوچکے بلکہ اُس زمانے کی بات ہے جب نوابی کے شباب کا زمانہ تھا اور نواب صاحبان اپنے کو مالک الملک تصور کیے بیٹھے تھے جو لوگ عالم کو دیکھنا چاہتے ہیں اس واقعے کو پڑھیں ۔ اس واقعے میں ان لوگوں کے لیے بڑا اہم سبق ہے جو محض وہمی دُنیاوی عزت اور چند پیسوں کے لیے مالداروں کی جی حضوری میں لگے رہتے ہیں اور اپنی عالمانہ شان اور انسانی خود داری کی مٹی پلید کرتے ہیں !
تنگ بخشی کو استغنا سے پیغامِ خجالت دے
نہ رہ منت کشِ شبنم، نگوں جام و سبو کر دے
مولوی غریب نہیں ہوتا غریبی اختیار کرتا ہے :
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ ایک خدا رسیدہ بزرگ اور ولی کامل تھے جن کی ولایت کی تصدیق حضرت مولانا فضل ِ رحمن صاحب گنج مراد آبادی جیسے قطب ِوقت نے کی تھی دنیا وما فیہا سے حضرت کو کوئی خاص لگاؤ نہ تھا حضرت مولانا یعقوب صاحب نے سچ تحریر فرمایا ہے :
''ملک ومال کے جھگڑے اگر حضرت نانوتوی اپنے سر رکھتے تو یہ سورت ہی کیوں ہوتی ؟ کہیں کے ڈپٹی کلکٹر یا صدر ا لصدور ہوتے''
چنانچہ آپ کے بہت سے اُستاذ بھائی اپنے وقت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے مگر آپ کسی عہدے کو خاطر میں نہ لائے ہمیشہ اس سے اپنے آپ کو دُور ہی رکھنا ضروری سمجھا ! حیرت ہے کہ آپ نے معاوضے پر اپنے شایانِ شان ملازمت کو قبول نہیں فرمایا لکھا ہے :
''بھوپال سے غالبًا نواب صدیق حسن صاحب کی طرف سے مولانا نانوتوی کی طلبی آئی اور پانچ سوروپے ماہوار تنخواہ مقرر کی'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٣٥٨)
مگر آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ آپ نے اس سے بھی انکار فرمادیا ! دنیا کہتی ہے کہ مولوی غریب ہوتا ہے، مگر خدارا بتایا جائے کہ اتنی بڑی ملازمت کو ٹھکرا دینا کسی غریب کا کام ہوسکتا ہے ؟ تاریخ کے آئینے میں دیکھیے تو معلوم ہو کہ جو سچا مولوی ہوتا ہے وہ ظاہری اعتبار سے جتنابھی مفلوک الحال نظر آئے مگر وہ دل کا بڑا غنی ہوتا ہے ! اس کی غنا کی گرد کو بھی کوئی بڑے سے بڑا آدمی نہیں پہنچ سکتا ! حقیقت میں وہ عالم ہی نہیں جو دنیا کا حریص ہو اَلدُّنْیَا جِیْفَة وَطَالِبُھَا کِلَاب
زبان سے میٹھے اور دل سے بھیڑیے :
حضرت مولانا نانوتوی کے متعلق لکھا ہے :
''حضرت مولانا نانوتوی کو حرام کے طعام سے جیسے نفرت تھی ویسے ہی اس کا احساس بھی بہت جلد کرتے تھے'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٣٦٥)
جس کا قلب پاک ہوتا ہے وہ حرام سے کوسوں دُور بھاگتا ہے ! اب اس کا اہتمام کہاں باقی رہا ؟ حالانکہ یہ بنیادی چیز تھی، جب خون ہی حرام مال سے تیار ہوگا تو اس سے حلال کام کی طاقت کیونکر پرورش پائے گی ؟ مولانا نانوتوی کی زندگی کا واقعہ ہے کہ اگر کسی غیر محتاط کی دل شکنی سے بچنے کے لیے اس کی دعوت قبول فرمالیتے اور چند لقمے کھالیتے تو ''گھر پہنچ کر قے کرتے تھے'' (سوانح قاسمی ج١ ص٣٦٥ )
واقعہ ہے، اب عام طور پر پورے معاشرے میں ایسے محتاط بزرگ چند گنے چنے نکلیں تو نکلیں ، ورنہ اب تو دعوت کھانے کے بعد احساس بھی نہیں ہوتا کہ مجھے حرام آمدنی سے کھلایا گیا یا حلال آمدنی سے ؟ پیر اور پیرزادوں کا اس سلسلے میں اور ابھی برا حال ہے ! ان کو جو اُمرا (اپنے مالِ حرام سے اپنے مال کو پاک کرنے کی نیت سے) نذرانے دیتے ہیں اسے وہ اپنی تھیلی میں ڈال لیتے ہیں اور ان کے پورے گھرانے کی اسی پر پرورش کا دارومدار ہوتا ہے اور غالبًا یہی وجہ ہے کہ خاندانی اور پیشہ ور پیروں کے لڑکے زبان کے شیریں اور دل کے بھیڑیے ہوتے ہیں اور بڑی حدتک اسی کا نتیجہ ہے کہ ان دلوں میں نور نہیں ہوتا، گو ظاہر زیبائش وآرائش سے چہروں پر نور کی چمک پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہوں (جاری ہے)
٭٭٭
( دس باتوں کی وصیت )
حضرت معاذ بن جبل نے بیان فرمایا کہ حضورِ اقدس صلی اللہ عليہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی
(١) اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنا اگرچہ تجھے قتل کردیا جائے اور تجھے جلادیا جائے !
(٢) اپنے ماں باپ کی نافرمانی ہر گز نہ کرنا اگرچہ تجھے حکم دیں کہ اپنے گھر والوں اور مال ودولت کو چھوڑ کر نکل جاؤ !
(٣) فرض نماز قصدًا نہ چھوڑ کیونکہ جس نے قصدًا فرض نماز چھوڑ دی اُس سے اللہ کا ذمہ بری ہو گیا !
(٤) شراب ہر گز مت پی کیونکہ وہ ہر بے حیائی کی جڑ ہے !
(٥) گناہ سے بچ کیونکہ گناہ کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی نازل ہوجاتی ہے !
(٦) میدانِ جہاد سے مت بھاگ اگرچہ (دُوسرے) لوگ (تیرے ساتھی) ہلاک ہو جائیں !
(٧) جب لوگوں میں (وبائی ) موت پھیل جائے اور تو وہاں موجود ہو تو وہاں جم کر رہنا (اُس جگہ کو چھوڑ کرمت جانا) !
(٨) اور جن کا خرچہ تجھ پر لازم ہے (بیوی بچے وغیرہ) اُن پر اپنا اچھا مال خرچ کرنا !
(٩) اور اُن (بیوی بچوں ) کو اَدب سکھانے کے پیشِ نظر اُن سے اپنی لاٹھی ہٹا کر مت رکھنا !
(١٠) اور اُن(بیوی بچوں ) کو اللہ (کے احکام و قوانین) کے بارے میں ڈراتے رہنا !
( مشکوة المصابیح کتاب الایمان رقم الحدیث ٦١ )
آب ِزم زم قسط : ١
فضائل ، خصوصیات اور برکات
( حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب، فاضل و مدرس جامعہ مدنیہ لاہور)
٭٭٭
آبِ زمزم ایک لطیف وشیریں خوش ذائقہ ، زور ہضم، انتہائی برکت فضیلت اور عظمت والا پانی ہے جسے دنیا جہان کے پانیوں پر برتری اور فوقیت حاصل ہے، آبِ زمزم وہی چشمہ حیات ہے جس نے سیّدہ ہاجرہ سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْہَا کے قلب ِمغموم ومحزون کو راحت ورأفت کی نوید ِ جانفزا سے نوازا ! نیز بلکتے اور تڑپتے ہوئے ایک جاں بلب معصوم شیرخوار کو پیغامِ حیات سنایا !
آبِ زمزم کا چشمہ پانچ ہزار سال سے جاری وساری ہے اور انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا ! اربوں کھربوں انسان اس سے سیراب ہوچکے ہیں ، ہورہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ! اس بے مثال پانی نے اپنے مقناطیسی اثر سے قبیلہ بنو جُرْہُمْ کو اپنا انیس وہم جلیس بناکر ایک ویرانے کو اسلامی دنیا کا مرکز بنادیا ! ! !
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنے رب کے حکم سے اپنی عفت مآب زوجۂ مکرمہ حضرت ہاجرہ سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْہَا اور اپنے شیر خوار لخت ِجگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو عرب کے سنگلاخ ریگ زاروں میں یک و تنہا، بے یارومددگار چھوڑ کر چلے گئے تو ان غریب الوطن ماں بیٹے کا توشہ ٔ حیات چند ہی دنوں میں ختم ہوگیا ! معصوم بچہ پیاس کی شدت سے بے بس ہوکر زمین پر ایڑیاں رگڑنے لگا تو ماں کی مامتا جگر گوشے کا تڑپنا بلکنا کب دیکھ سکتی تھی ؟ وہ ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپتی ہوئی کبھی اِس پہاڑ پر چڑھ جاتی تو کبھی اُس پہاڑ پر کہ شاید بچہ کی زندگی کی بقاء کا کوئی ذریعہ ہاتھ لگ جائے اور اس بجھتے ہوئے چراغ کو جِلا میسر آجائے ! !
اسی اثناء میں حضرت جبرئیل امین تشریف لائے اور اپنے پاؤں کی ٹھوکر یا ہاتھ کے اشارے یا پر مارنے سے ایک چشمہ ٔ جادواں جاری کردیا، پانی دیکھا تو سیّدہ ہاجرہ کی جان میں جان آگئی ! ان کا پژ مردہ چہرہ گلاب کی طرح کھل اُٹھا، غم اور اُداسی خوشی میں تبدیل ہوگئی ! خود بھی شکم سیر ہوکر پانی نوشِ جان فرمایا اور فرزند دلبند کو بھی پلایا جس کی زندگی کا ٹمٹماتا ہوا چراغ پھرجگمگا اُٹھا ! پانی کی حفاظت کی غرض سے چاروں طرف مٹی کی باڑ بھی بنادی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اگر ہاجرہ اسے بند نہ کرتیں تو آج یہ دریا کی شکل میں ہوتا اور دنیا کو سیراب کرتا ! !
قارئین ِکرام یہ ہے آبِ زمزم کی مختصر تاریخ ! ہمارے سامنے اس وقت بیروت سے طبع شدہ کتاب ''فضل ماء زمزم'' ہے اس کے مرتب ''سائد بکداش'' صاحب ہیں جو نام سے ترکی النسل معلوم ہوتے ہیں ، اسی کتاب کے تاریخ کے حصہ کو چھوڑ کر باقی حصہ کا خلاصہ ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ، عام قاری کی سہولت کے لیے علمی مضامین اورتفصیلات کو ہم نے ترک کردیا ہے۔
آبِ زمزم کی عمر :
آبِ زمزم کو رُوئے زمین پر ظاہر ہوئے تقریبًا پانچ ہزار برس بیت چکے ہیں ۔ مصنف اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں :
ابن سعد نے طبقات میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے مابین دس صدیوں کا فاصلہ ہے
''عن محمد بن عمر بن واقد الاسلمی عن غیر واحد من اھل العلم قالوا کان بین ابراہیم وموسی بن عمران علیھما الصلٰوة والسلام عشرة قرون والقرن مائة سنة ''
محمد بن عمر بن واقد الاسلمی نے بہت سے اہلِ علم حضرات کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے مابین دس صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا درمیانی فاصلہ ایک ہزار نوسو برس کا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوة والسلام کی ولادت اور نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے مابین پانچ سو اُنسٹھ برس کی مدت ہے اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے مابین کل مدت تین ہزار چا سو اُنہتر سال ہوئی (٣٤٦٩) پھر اس میں ہم ہجرت سے قبل آپ کی عمر شریف کے ٥٣ سال جمع کریں تو یہ مدت ٣٥٢٢ سال ہوجائے گی ،اس میں مزید ہجرت سے آج تک کازمانہ(١٤٤٥) جمع کریں تو یہ مجموعی مدت چار ہزار نوسو سرسٹھ (٤٩٦٧)سال ہوگئی ۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کے وقت یا آب ِزمزم کے ظہور کے وقت سیّدنا ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلٰوة والسلام کی عمر ٩٩ برس تھی لہٰذا اس مجموعی ٔ مدت سے ٩٩ برس ہم منفی کریں گے تو آب ِزمزم کی عمر برآمد ہوگی ٤٩٦٧۔ ٤٨٦٨٩٩ سال
گویا آج تک آب زمزم کو روئے زمین پرظاہرہوئے چار ہزار آٹھ سواَڑسٹھ سال بیت چکے ہیں اور یہ چشمہ ٔ صافی جاری وساری ہے اور اِن شاء اللہ قیامت تک جاری وساری وہے گا !
آب ِزمزم کے اسمائے مبارکہ :
ناموں کی کثرت مسمیٰ کی عظمت ِ شان پردلالت کیا کرتی ہے جیسا کہ شاعر کا قول ہے
واعلم بان کثرة الاسامی دلالة ان المسمٰی سام
آبِ زمزم چونکہ رُوئے زمین میں سب سے بہتر پانی ہے بلکہ تمام پانیوں کا سردار ہے اس کے فضائل، فوائد، خصائص، خیرات، برکات بھی بہت زیادہ ہیں اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے نام بھی بہت سے رکھے ہیں حتیٰ کہ علماء نے اس کے ساٹھ تک نام گنوائے ہیں ۔
صاحب ِتاج العروس علامہ زبیدی نے لکھا ہے :
وقد جمعتُ اسمائھا فی نبذة لطیفة ، فجاء ت علی ما ینیف علی ستین اسمًا استخرجتُھا من کتب الحدیث واللغة ۔ ( تاج العروف ج ٨ ص ٣٢٨ )
''میں نے آبِ زمزم کے ناموں کو ایک چھوٹے سے رسالہ میں حدیث ولغت کی کتابوں کی مدد سے جمع کیا تو یہ ساٹھ سے زائد ہوگئے''
مصنف ِ کتاب کو علامہ زبیدی کا یہ رسالہ تو دستیاب نہیں ہوا لیکن مصنف نے پھربھی چالیس سے زائد ناموں کو جمع کیا ہے جن کی تفصیل حسب ِ ذیل ہے :
(١) بَرَکَة وَ مُبَارَکَة : برکت کا معنی بڑھوتری، زیادتی، سعادت اور خیر کا زیادہ ہونا اور یہ سب معانی آبِ زمزم میں پائے جاتے ہیں !
(٢) بَرَّہ : منافع کی کثرت اور پانی کی وسعت کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے اور بعض کا قول ہے کہ یہ نام اس لیے ہے کہ یہ پانی صرف نیک لوگوں کے لیے ہے نہ کہ فاجروں کے لیے اور بعض کے نزدیک یہ بِر (بکسر البائ) سے بنا ہے جس کا معنی عطیہ کے ہیں چونکہ یہ پانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے عطیہ تھا اس لیے یہ نام رکھا گیا !
(٣) بُشْرٰی : حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْہَا کے لیے یہ بہت بڑی خوشخبری تھی اس لیے یہ نام رکھا گیا !
(٤) تُکْتَمْ وَ مَکْتُوْمَہ : یہ زمزم کے کنویں کا نام ہے کیونکہ قبیلہ ٔ جرہم کے بعد اس کے آثار ونشان مٹ گئے تھے حتی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اسے تلاش کر کے جاری کیا ! ١
(٥) حَرَمِیَّة : حرم کی طرف نسبت اور حرم مکی میں ہونے کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے ! ٢
(٦) حضرت عبدالمطلب : حضور نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے جد ِ امجد حضرت عبدالمطلب نے کنویں کے آثار مٹ جانے کے بعد اِسے دوبارہ کھودا تھا اس وجہ سے یہ نام ہے !
(٧) رَکْضَةُ جِبْرِیل علیہ السلام ۔ رکض کے معنی پاؤں سے ٹھوکر مارنا اور پر مارنا ہے چونکہ حضرت جبریل علیہ السلام نے زمین پر اپنا پر مارا تھا جس سے آبِ زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا تھا اسی وجہ سے یہ نام پڑ گیا ٣ نیز اس کا نام ہزمة جبریل بھی ہے ٤ ہزم کا معنی ہے گڑھا ڈالنا چونکہ حضرت جبریل علیہ السلام کے پاؤں یا پرمارنے کی وجہ سے گڑھا پڑگیا تھا اس لیے یہ نام ہوگیا نیز اس کا نام ہمزة جبریل بھی ہے ٥ ہمز کے معنی دبانے کے ہیں چونکہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اپنی ایڑی سے اس جگہ کو دبایا تھا جس سے پانی نکلا اس وجہ سے ایک نام یہ بھی ہوگیا !
١ النہایة ٤/ ١٥١ ، القاموس المحیط (کتم) ٢ لسان العرب (حرم)
٣ النہایة ٢/ ٢٥٩ ، القاموس المحیط ( رکض ) ٤ النہایة ٥/ ٣٦٣ ٥ القاموس المحیط ( ہمز)
(٨) اَلرَّوَائْ و مُرْوِیَة : اس کے معنی ہیں سیراب کرنا اور سیراب کرنے والا ! چونکہ یہ پانی سب کو سیراب کرتا ہے اس وجہ سے یہ نام رکھا گیا ١
(٩) زَمْزَمْ : پانی کی کثرت کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے ٢ بعض کے نزدیک زمزم آب ِزمزم ہی کے لیے خاص ہے کسی اور پر اِس کا اِطلاق درست نہیں ہے، بعض کے نزدیک چونکہ حضرت ہاجرہ سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْہَا نے پانی کو روک لیا اور اس کی حفاظت کی اس وجہ سے یہ نام ہے۔ اور بعض کے نزدیک اُس آواز کی وجہ سے یہ نام ہے جب یہ پانی پھوٹا تھا تو اس میں آواز پیدا ہوئی تھی ! ٣
(١٠) سَابِقْ : کیونکہ آب ِزمزم کو دیگر تمام پانیوں پرتقدم، سبقت اور فضیلت حاصل ہے !
(١١) سَالِمَةُ : کیونکہ اس میں سلامتی اور عافیت پائی جاتی ہے ! ٤
(١٢) سِقَیَاةُ اللّٰہِ : اسماعیل علیہ السلام !
(١٣) سِقَایَةُ الْحَاجِّ : حاجیوں کو سیراب کرنے والا !
(١٤) سَیِّدَہْ : کیونکہ یہ تمام کا سردار ہے ! ٥
(١٥) شَبَّاعَةُ الْعَیَّال : اس لیے کہ یہ پانی تمام گھروالوں کی بھوک پیاس کو مٹاتا ہے !
(١٦) شَرَابُ الْاَبْرَارِ : اس لیے کہ نیک لوگ اسے پیتے اور اس سے محبت کرتے ہیں !
(١٧) شِفَائُ سُقْم : اس لیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر بیماری سے شفا ہے !
(١٨) صَافِیَةْ : اس لیے کہ یہ تمام کدورات سے پاک ہے ! ٦
(١٩) طَاھِرَہْ : بمعنی پاکیزہ، اس لیے کہ یہ تمام عیبوں اور نقائص سے بالکل پاک اور صاف ہے !
(٢٠) طَعَامُ طَعْمٍ : لہٰذا جس شخص نے اسے سیر ہونے کی نیت سے پیا تو یہ غذا کا بھی کام دے گا !
(٢١) طَعَامُ الْاَبْرَارْ : اس نام کو یاقوت نے معجم البلدان میں ذکر کیا ہے نیز اس کے ساتھ دوسر ا نام شراب الابرار بھی لکھا ہے ! ٧
١ الروض الانف ج ١ ص ١٧١ ، النھایة ج ٢ ص ٢٧٩ ٢ شرح مسلم للنووی ٨/ ١٩٤
٣ فتح الباری ٣/ ٤٩٣ ٤ لسان العرب (سلم) ١٢/ ٢٨٩ ٥ تاج العروس (سود)
٦ تہذیب الاسماء واللغات للنووی ج ٣ ص ١٣٩ ٧ معجم البلدان ج٣ / ١٤٨
(٢٢) طَیِّبَة : طیب ہر اُس چیز کو کہتے ہیں جن سے حواسِ خمسہ کو لذت حاصل ہوتی ہے، آبِ زمزم بھی مومنین کے لیے ایسا ہی ہے !
(٢٣) ظَاھِرَة : یعنی اس کے منافع واضح اور ظاہر ہیں !
(٢٤) ظبیة :
(٢٥) عَاصِمَة : کیونکہ جو شخص خوب سیر ہوکر آب ِزمزم پیے تو وہ نفاق سے محفوظ اور بری ہوجاتا ہے !
(٢٦) عَافِیَة : عافیت دینے والا یعنی جو شخص بھی شفائِ امراض کی نیت سے پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے امراض سے عافیت نصیب فرماتے ہیں ! لہٰذا لاعلاج امراض کا علاج بھی اس میں اللہ نے رکھا ہے !
(٢٧) عِصْمَة : یعنی یہ کھانے کا بھی کام دیتا ہے !
(٢٨) عَوْنَة :
(٢٩) غِیَاث : حضرت ہاجرہ سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْہَا اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے (غیبی) مدد تھی !
(٣٠) کَافِیَة : کیونکہ یہ ہر شخص کی ہر حاجت کو پورا کرنے والا ہے !
(٣١) مَأثر العباس بن عبدالمطلب : اس لیے کہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس کو آبِ زمزم کا کنواں عطا فرمایا اور آپ کو اور آپ کی آل کو آبِ زمزم پلانے پر مقرر فرمایا جس طرح بنی شیبہ کو کعبہ مشرفہ کی خدمت اور تولیت عطا فرمائی اور بیت اللہ کے دروازے کی چابی ہمیشہ کے لیے ان کی ہوگئی !
(٣٢) مُجْلِیَةُ الْبَصَرْ : یعنی نظر کو تیز کرنے والا۔ آب زمزم کو دیکھنا نظر کو تیز کرتا ہے بینائی بڑھاتا ہے !
(٣٣) مَضْنُوْنَة : غیر مومن اور منافق اسے پیٹ بھر کر نہیں پی سکتا اور بعض کے نزدیک اس نام کی وجہ یہ ہے کہ خواب میں حضرت عبدالمطلب کو کہا گیا تھا احضر المضنونة یعنی مضنونہ کو کھوددیئے اسی وجہ سے یہ نام پڑگیا !
(٣٤) مُعْذِبَة : خوشگواری پیدا کرنے والا !
(٣٥) مُغْذِیَة : غذا سے بنا ہے یعنی غذا پہنچانے والا، اس کے پینے سے بھوک مٹتی ہے !
(٣٦) مُفَدَّاة : اس کی عظمت ِ شان کی وجہ سے لوگ اس پر فدا ہوتے ہیں !
دوسری وجہ اس نام کی یہ ہے کہ جب حضرت عبدالمطلب کو زمزم کے کنویں کو کھودنے کا حکم دیا گیا تو قریش نے آپ سے جھگڑا کیا اور سختی کی تو حضرت عبدالمطلب نے یہ نذر مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں کنواں کھودنے کی توفیق دی اور یہ کام مکمل ہوگیا تو وہ اپنے دس بیٹوں میں سے ایک کو اللہ کے راستے میں قربان کردیں گے پھر جب یہ کنواں کھد گیا تو اپنے بیٹوں میں قرعہ اندازی کی تو ہر مرتبہ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے والد گرامی حضرت عبداللہ کے نام قرعہ نکلا ! چونکہ یہ تمام صاحبزادوں میں انہیں محبوب تھے اس لیے ان کی جگہ سو اُونٹوں کو قربان کیا گیا اس وجہ سے اس کنویں کا نام مُفَدَّاة پڑگیا !
(٣٧) مُوْنِسَة : مومن
(٣٨) مَیْمُوْنَة : یمن سے ماخوذ ہے یعنی برکت والا !
(٣٩) نَافِعَة : نفع دینے والا !
(٤٠) لَا تُنْذَفُ وَلَا تُذَمّ : یعنی کثرت ِ استعمال کی وجہ سے اس کا پانی ختم ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے !
مصنف نے تقریبًا چون اسماء ِمبارکہ ذکر کیے ہیں باقی ہم نے ترک کردئیے ہیں ۔ (جاری ہے)
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
ربیع الاوّل ، اُسوہ ٔ رسول اور ہمارا طرزِعمل
( مولانا نورالحق فیض صاحب زوبی ، فاضل جامعة العلوم الاسلامیہ ،کراچی )
٭٭٭
محسن ِکائنات کی بعثت سے قبل رُوئے زمین پر سچے اور صحیح عقیدے کا کہیں وجود نہ تھا ، توحید کی روشنی دم توڑگئی تھی ، فتنوں کے طوفان میں حسنِ اخلاق کا چراغ بجھ گیا تھا، بد اخلاقی عروج پر تھی، دنیا حقوق العباد کا درس بھلا چکی تھی ! حسنِ معاشرت عنقاء ہوگیا تھا، غرض دنیا کے حالات اس بات کی متقاضی تھے کہ کوئی مصلح اعظم، معلم ِاخلاق ہو جو دنیا کو گمراہی و بداخلاقی کے دلدل سے نکال کر راہِ راست پر لائے ! تو رب ِ کائنات نے حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم کو دنیا کے حالات بدلنے اور انسانوں کو صراطِ مستقیم پر لانے کے لیے مبعوث فرمایا ! آپ نے کرۂ ارض پر توحید کے چراغ روشن کیے تمام انسانوں کو کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے جھنڈے تلے جمع کیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے جو ہر قسم کی جہالت اور گمراہی میں گھری ہوئی تھی، تعلیم دے کر ان کے ظلم وستم وتعدی کو عدل وانصاف سے اور ان کی خشونت اور درشت مزاجی کو حلم اور بردباری سے ! اور ان کی جہالت کو علم ومعرفت سے ! اور ان کی باہمی بغض اور عداوت کو محبت ا ور اُلفت سے ! اور ان کی شقاوت اور ضلالت کو سعادت اور ہدایت سے ! اور ان کی عصیان کو اِطاعت سے ! اور تفرق وتشنت کو اِجتماع سے ! ضعف کو قوت سے ! خیانت کو امانت سے ! اور فحش وبے حیائی کو غیرت وعفت سے ! اور احسان سے رزائل کو شمائل سے بدل دیا ! اور علوم الٰہیات اور علوم ِ نبوت، علوم معاشرت اور علومِ معاش ومعاد اور علومِ اخلاق اور علومِ عبادت، عجم معاملات ،علوم سیاست ملکیہ ومدنیہ میں رشکِ افلاطون اور اُستاد حکمائے عالم بنادیا ! !
انسانوں سے لے کر حیوانوں تک کے حقوق کو متعین کیا ! انسانوں کو گمراہی کی وادی سے نکال کر ہدایت کی شفاف راہ پر لائے ! انہیں قرآن و سنت کی اتباع کا حکم دیا ! اُمت کو بتایا کہ اسلام کے ماسوا ہر راہ گمراہی کی ہے اور بارگاہِ خداوندی میں خشوع وخضوع، رکوع وسجود اور سوال مغفرت ورحمت اور توبہ واَنابت کے وہ طریقے بتائے کہ جن کا نہ کسی آسمانی کتاب میں پتہ ہے اور نہ زمینی کتاب میں ! ! !
شریعت ِمحمدیہ نے مکارمِ اخلاق کی ایسی تکمیل اور تتمیم کی کہ کوئی ظاہری وباطنی خلق حسن اور خصلت ِمحمودہ ایسی نہ چھوڑی جس کی تاکید اکید نہ کی ہوجیسے حِلم و صبر، رضا وتسلیم، زُہدو قناعت، اخلاص و توکل، حب ِالٰہی اور اشتیاقِ لقائے خداوندی، ذکر اور شکر، فقر اء و مساکین کے ساتھ احسان اور مواسات، ارباب ِ دنیا سے احتراز واِجتناب، اَکابر کی توقیر و تکریم اور اصاغر پر شفقت اور ترحم ! وعلیٰ ہذہ الاخلاقِ ذمیمہ میں سے کوئی ظاہری وباطنی خلق رذیل ایسا نہیں چھوڑا جس کے ترک کی تاکید اور اس کے ارتکاب پر تہدید اور وعید ِشدید نہ کی ہوجیسے کبرو حسد اور حب ِ مال اور حب ِجاہ ! ! !
بنابریں دینِ اسلام لوگوں کے دلوں میں رچ بس گیا اللہ اور اُس کے رسول کے حکم پر مرمٹنے کے لیے تیار ہوگئے، حضوراکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی بتلائی ہوئی راہ ان کے لیے فلا حِ دارین کی راہ بن گئی !
لیکن آج معاملہ اس کے برعکس ہے، لوگ دین ِاسلام سے دُور ہوتے چلے جارہے ہیں ! خاندانی و علاقائی رسم و رواج کے بندھن میں بند ہوتے چلے جارہے ہیں ! دین کے نام پر مختلف قسم کی رُسومات نے جڑیں گاڑھ لی ہیں ! حسنِ اخلاق کا آفتاب اوجھل ہوتے دکھائی دے رہا ہے، دوسروں کو اَذیت دینے کا منحوس چرخہ مسلسل گھوم رہا ہے خصوصاً وہ مہینہ جو ہمارے لیے خوشی کا باعث تھا جس ماہ میں نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تھے جس کے بعد غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی تھیں ، دوسروں کو تکلیف دینے کا دروازہ بند ہوگیا تھا ،جس کے بعد مسلم اُمت اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئی تھی، اَلْمُؤْمِنُوْنَ کَجَسَدٍ وَّاحِدٍ کی تصویر واضح تھی !
لیکن افسوس صد افسوس ! آج اسی مہینے میں سب سے زیادہ بے دینی ہوتی ہے، یہی مہینہ سب سے زیادہ تکلیف دہ واَفسردہ ہے ! عشقِ رسول کے نام پر دوسروں کا جینا حرام کردیا گیا، حب النبی کے خوبصورت نعرے کی آڑ میں اپنے من کی شرارت کی جارہی ہے، وہ بازار جو اَبغض جگہ تھی، آج وہاں عشق رسولِ کے نام پر مخلوط بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں ! آپ جس موسیقی کو ختم کرنے کے لیے تشریف لائے تھے آج اُسی موسیقی کو میلاد ِرسول کے نام سے پروگرام میں پوری ڈھٹائی سے عام کیا جارہا ہے ! نعت گوئی گویا ڈھول باجوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے ! موسیقی تو موسیقی ہے یہاں تو کلمات ِ مقدسہ کی بے حرمتی کا بازار بھی عروج پر ہے ! ربیع الاوّل میں بینرر لگائے جاتے ہیں جن پر نعلین ِمبارک ، کلمہ اور درود لکھا ہوتا ہے ،ہوائیں اسے اُڑاتی ہیں اور وہ تار تار ہوجاتے ہیں ، گٹروں میں گرجاتے ہیں جہاں ان کی جھاڑئیں بنالی جاتی ہیں ! اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے نام کی بڑی بے حرمتی ہوتی ہے اور ہزاروں لاکھوں روپے نالوں میں بہہ جاتا ہے ! ! !
بس ہر طرف نافرمانی اور چیخ و پکار ہے ! نہ کسی مریض کی فکر ! اور نہ کسی مجبور کا غم ! بس ہم تو ٹھہرائے عاشقِ رسول یا للعجب ! یہ کیسا عشق ہے بھلا !
کیا یہ اُسوہ ٔ رسول ہے ؟ ؟ کیا یہ عشق ِنبی ہے ؟ ؟ کیا یہ دین ِشریعت ہے ؟ ؟ کیا خیرالقرون کا ربیع الاوّل بھی ایسا تھا ؟ نہیں ! نہیں ! ہرگز نہیں تھا ! ! تو خدارا اَب ہمیں ان حماقتوں سے باز آجانا چاہیے ! ہمیں اپنی زندگی کو اُسوۂ رسول کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے ! اور مومن کا ہر لمحہ ربیع الاوّل ہونا چاہیے چنانچہ ہم حوضِ کوثر کے طلبگار اور شفاعت ِ محمد صلی اللہ عليہ وسلم کے اُمیدوار نبی کریم کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان تمام چیزوں کو چھوڑنا چاہیے جو نبی کے طریقے پر نہیں کیونکہ جامِ کوثر اُن ہی اُمتیوں کو ملے گا جو آپ کی اتباع کرتے ہیں !
یاد رکھیے ! سنت ایک نور ہے ! بدعت ایک ظلمت ہے ! ہم نور کے ساتھی ہیں ، ظلمت تو کافروں کے لیے ہے ! ! !
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رایئونڈ روڈ لاہور )
یکم صفر ١٤٤٥ھ /١٩ اگست ٢٠٢٣ بروز ہفتہ جمعیة علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰکی مشاورت سے حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم کو آئندہ کے جماعتی انتخابات تک بحیثیت ِ صوبائی امیر پنجاب نامزد کیا گیا ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
٥ صفر ١٤٤٥ھ /٢٣ اگست بروز بدھ جمعیة علماء اسلام صوبہ پنجاب کی مجلس عاملہ کا اجلاس جامعہ مدنیہ جدید میں امیر جمعیة علماء اسلام صوبہ پنجاب شیخ الحدیث مولانا سیّد محمود میاں صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں جمعیة علماء اسلام پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سنیٹر حضرت مولانا عبدالغفور صاحب حیدری مدظلہم مہمانِ خصوصی اورمرکزی ناظم مولانا محمد امجد خان صاحب نے شرکت فرمائی حضرت مولانا عبدالغفور صاحب حیدری مدظلہم کی افتتاحی گفتگو کے بعد اجلاس میں صوبہ پنجاب کی جماعتی صورتحال کے متعلق اَراکین مجلس عاملہ کی مشاورت سے ضروری فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں صوبہ پنجاب کی سیاسی صورتحال، آئندہ عام انتخابات اور تنظیمی اُمور پر غور و خوض کیا گیا۔ اجلاس میں مولانا محب النبی صاحب، ناظم اعلیٰ صوبہ پنجاب مولانا حافظ نصیر احمد صاحب احرار، صاحبزادہ سعید احمد صاحب، مفتی مظہر صاحب اسعدی، مولانا سیّد زکریا صاحب، راؤ عبدالقیوم صاحب، ڈاکٹر ضیاء الرحمن صاحب، عبدالمعین صاحب قریشی، نور خان صاحب، احتشام الحق صاحب، غضنفر عزیز صاحب، مولانا عبدالخالق صاحب اور صوبائی سالار عبدالمجید صاحب توحیدی نے شرکت کی۔
اجلاس میں سابق امیر مرکزیہ جمعیة علماء اسلام حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ ، حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب و حضرت مولانا سید مسعود میاں صاحب کی والدة ماجدة کے لیے دُعائے مغفرت بھی کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
٢٦ اگست کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم جمعیة علماء اسلام اقبال ٹائون کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی غرض سے تشریف لے گئے اورمختصر بیان فرمایا۔
( قائد جمعیة کی تعزیت کے لیے آمد )
٣٠ محرم الحرام١٤٤٥ھ /١٨ اگست ٢٠٢٣ء شب ِ جمعہ بعد عشاء قائد ِ جمعیة علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب و مولانا سید مسعود میاں صاحب سے ان کی والدہ کی تعزیت کی بعد ازاں رات گیارہ بجے واپس تشریف لے گئے۔
٧ اگست کو حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب ، مولانا محمد عابد صاحب ،مولانا محمد عمران صاحب ، مولانامفتی محمد سلمان صاحب لاہور سے حضرت مہتمم صاحب کی والدہ صاحبہ کی تعزیت کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے۔
٢٠ اگست کو جناب بلال میر صاحب اور ان کے ہمراہ صوبائی وزیر خیبر پختونخوا جناب منظور خان آفریدی صاحب حضرت مہتمم صاحب کی والدہ صاحبہ کی تعزیت کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے
٢١ اگست کو حضرت مولانا مفتی سلمان یٰسین صاحب مدظلہم کراچی سے حضرت مہتمم صاحب کی والدہ صاحبہ کی تعزیت کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے۔
٢٢ اگست کو صاحبزادہ خواجہ سعید احمد صاحب کندیاں میانوالی سے حضرت مہتمم صاحب کی والدہ صاحبہ کی تعزیت کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے۔
٢٧ اگست ٢٠٢٣ بعد ظہر معہد الخلیل الاسلامی کراچی کے مہتمم حضرت مولانامحمد الیاس صاحب مدنی مدظلہم کراچی سے حضرت مہتمم صاحب کی والدہ صاحبہ کی تعزیت کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے
اسی روز بعد عصرشاعر ختم نبوت جناب سید سلمان صاحب گیلانی و دیگر حضرات بھی تعزیت ِ مسنونہ کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے۔
٢٧ اگست دوپہر دو بجے سنیٹرو ترجمان پی ڈی ایم جناب حافظ حمداللہ صاحب حضرت مہتمم صاحب کی والدہ صاحبہ کی تعزیت کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے۔
٢٨ اگست کو صاحبزادہ حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب مدظلہم کندیاں میانوالی سے حضرت کی والدہ صاحبہ کی تعزیت کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے ان کے ہمراہ شاہد اسرار صاحب بھی تھے
وفیات
( خانوادۂ حامد میاں کو صدمہ )
٭ ١٩ محرم الحرام ١٤٤٥ھ / ٦ اگست ٢٠٢٣ء بعد نمازِ عشاء اتوار اور پیر کی درمیانی شب بانی جامعہ مدنیہ جدید و قدیم و سابق امیر مرکزیہ جمعیة علماء اسلام حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ ، حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب و حضرت مولانا سید مسعود میاں صاحب کی والدة ماجدة طویل علالت کے بعد انتقال فرما گئیں ! اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ اَللّٰہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا اَجْرَھَا وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَھَا وَاغْفِرْلَنَا وَلَھَا وَاجْمَعْنَا مَعَھَا فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْم یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن ۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین !
٭ ١٢ محرم الحرام ١٤٤٥ھ/٣١ جولائی ٢٠٢٣ء کو دارُالعلوم کبیروالا کے مہتمم وشیخ الحدیث حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب رحمة اللہ علیہ طویل علالت کے بعدانتقال فرماگئے !
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہِ حامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ 923454036960+

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.